ایک، اقتدار ہے۔ انتظامی فورس کو مقتدر ہونا چاہیے۔ اقتدار ہمیشہ، بھاری آواز، تیز اسلحے اور محکم مکے کے ساتھ نہیں ہوتا ہے بلکہ اقتدار ایک معنوی چیز ہے۔ دوسرے عزت ہے۔ انتظامی فورس کو صاحب عزت ہونا چاہیے۔ یہ عزت انتظامی فورس کے طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ اپنے فرائض انجام دینے کا اس کا طریقہ ہے جو لوگوں کی نگاہ میں اس کو محترم اور صاحب عزت بناتا ہے۔ تیسرا نکتہ رحمدلی و مہربانی ہے۔ ان لوگوں کے تئیں، جن کے گھر، جن کی سڑکوں، جن کی سلامتی، جن کی سرحدوں اور جن کے کاروبار کی آپ کو محافظت کرنی ہے، رحم و مہربانی کا جذبہ رکھیں اور عوام اس کو محسوس کریں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر بات سے پہلے ضروری ہے کہ انتظامی فورس (پولیس) کے تمام محنتی اور زحمتکش اراکین بالخصوص اس فورس کے کمانڈروں، افسروں اور بنیادی امور کے سربراہوں کا جو پورے وطن عزیز میں خدمت میں مشغول ہیں، پرخلوص شکریہ ادا کروں۔
آپ کے کندھوں پر سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ البتہ افضل الاعمال احمزھا کے مصداق اس کا اجر بھی پرودگار کے نزدیک اورعوام کی نگاہوں میں زیادہ ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ انتظامی فورس اپنے ماضی سے بہت آگے آئی ہے اور مختلف پہلو‎ؤں سے اس نے ترقی کی ہے۔ واقعی اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ واقعی اس عظیم فورس اور اس کے مختلف شعبوں میں (خدمت کے) جذبات کا واضح طور مشاہدہ کیا جاتا ہے لیکن اسلام اور عالم ہستی کے بارے میں تفکر الہی نے ہمیں سکھایا ہے کہ کمال کے حصول کے راستے میں کہیں بھی توقف اور کسی سطح پر قناعت نہ کریں۔ یہ انسان کی خصلت ہے جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ہے۔ اس کو روز بروز ترقی اور بلندی کی طرف جانا ہے۔ ادارے سے متعلق مسائل میں بھی اور ذاتی مسائل میں بھی، جو آپ کے اور خداوند عالم کے درمیان ہیں، خود کو زیادہ لطیف، زیادہ بلند، زیادہ پرہیزگاربنائیں اور اس رفتار و کردار کو اپنائیں جو خدا کو پسند ہیں اور اپنے دامن کو برائی، کج روی اور انحراف سے پاک رکھیں۔
مختصر یہ کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی انتظامی فورس (پولیس) سے جو توقع ہے وہ تین خصوصیات اور تین نکات میں بیان کی جا سکتی ہے۔
ایک، اقتدار ہے۔ انتظامی فورس کو مقتدر ہونا چاہیے۔ اقتدار ہمیشہ، بھاری آواز، تیز اسلحے اور محکم مکے کے ساتھ نہیں ہوتا ہے بلکہ اقتدار ایک معنوی چیز ہے۔ ظاہری اقتدار درحقیقت اقتدار نہیں ہے۔ ایسی کیفیت پیدا ہونی چاہیے کہ خود فورس اپنے اندر طاقت اور قوت کا احساس کرے اور قوم کے افراد بھی یہ احساس کریں کہ ان کی انفرادی اور اجتماعی سلامتی کے محافظ اور پاسبان مقتدر اور قوی ہیں اور ان کا دفاع کرسکتے ہیں اور دشمن بھی، وہ دشمن جو عوام کی سلامتی میں خلل ڈالنا چاہتا ہے، یہ سمجھ لے کہ یہاں محافظ کی حیثیت سے جو کھڑا ہے، یعنی انتظامی فورس کا اہلکار وہ قوی اور مقتدر ہے۔
دوسرے عزت ہے۔ انتظامی فورس کو صاحب عزت ہونا چاہیے۔ یہ عزت انتظامی فورس کے طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ اپنے فرائض انجام دینے کا اس کا طریقہ ہے جو لوگوں کی نگاہ میں اس کو محترم اور صاحب عزت بناتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو شخص غلط ہو وہ عوام کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔ جو شخص مادیات کا دلدادہ مشہور ہوجائے وہ نگاہوں سے گرجاتا ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ جس شخص کو بھی نظر میں لانا چاہیں، اس کو دیکھنے والوں نے اگر محسوس کیا کہ یہ حضرت پیسے کے غلام، شہوت پرستی کے اسیر اور خوشامد پسند ہیں، تو وہ لوگوں کی نگاہوں سے گرجائے گا۔ بنابریں عزت اس میں ہے کہ پارسائی اور پاکدامنی اس فورس میں ہرجگہ نظر آئے۔ سبھی محسوس کریں کہ یہ ایک پاکدامن فورس ہے اور خود کو مال دنیا، پست اور حقیر باتوں میں آلودہ نہیں کرتی۔ یہ چیز عزت دلائے گی۔یہ ایک معنوی اور روحانی امر ہے۔
تیسرا نکتہ رحمدلی و مہربانی ہے۔ ان لوگوں کے تئیں، جن کے گھر، جن کی سڑکوں، جن کی سلامتی، جن کی سرحدوں اور جن کے کاروبار کی آپ کو محافظت کرنی ہے، رحم و مہربانی کا جذبہ رکھیں اور عوام اس کو محسوس کریں۔ یعنی وہی طاقتور اور مقتدر فورس جو امن و سلامتی میں خلل ڈالنے والوں کے مقابلے میں پوری طاقت اور ہیبت کے ساتھ آتی ہے، جب مظلوم عوام کے سامنے آئے، تو وہ اس فورس میں اپنے لیے محبت ومہربانی کا جذبہ محسوس کریں۔
بنابریں، طاقت، عزت اور مہربانی، وہ تین خصوصیات ہیں کہ اگر انتظامی فورس میں پائی جائیں تو اسلامی معاشرہ ایک کارآمد، اور قابل قبول انتظامی فورس کے عنوان سے اس پر بھرسہ کرسکتا ہے۔
ایک نکتہ اور ہے جو درحقیقت ان تمام نکات میں موجود ہے اور میں اس نکتے کو آپ سے اور افراد قوم سے عرض کرنا چاہتاہوں۔ وہ نکتہ، اسلامی اقدار کا دفاع ہے۔ جو فورس طاقت اور عزت کے ساتھ عوام کے درمیان آرہی ہے، سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ، اسلامی اقدار کا دفاع کرنا چاہتی ہے۔ خود انتظامی فورس کے اندر بھی اسلامی اقدار کو پہلے درجے کی اقدار، میزان اور معیار ہونا چاہیے۔ تمام دیگر اداروں میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر فرض کریں، کسی مرکز میں جیسے انتظامی فورس میں یا کسی غیر فوجی ادارے میں، کچھ لوگ مومن، پرہیزگار، امانتدار، پاکدامن، اور انقلابی ہوں، خود کو اسلامی اور انقلابی اقدار کا مدافع اور سپاہی سمجھتے ہوں، وہ اگر خود کو تنہا محسوس کریں تو سمجھ لیں کہ اس مرکز اور ادارے کے اندرونی ماحول میں اسلامی اقدار کی حکمرانی نہیں ہے لیکن اس کے برخلاف جو لوگ انقلابی اور اسلامی اقدار کے مخالف ہیں، امانتداری، پاکدامنی، تقوا، اسلامی احکام، دین، عبادت، نماز، اور دیگر معنوی اور دینی امور کی پرواہ نہیں کرتے، اگر اس ادارے میں وہ خود کو اکیلا اوربغیر حامی کے محسوس کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مرکز میں خدائی اور دینی اقدار کی حکمرانی ہے۔ یہ ایک معیار ہے اور تمام سرکاری اداروں اور تمام سماجی میدانوں میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔
مومنین، پرہیزگار افراد، صاحبان تقوا، دینی تعلیمات سے واقف حضرات، خدائی اور اسلامی اقدار پر اعتقاد رکھنے والے اور ان کی پابندی کرنے والے، اگر یہ محسوس کریں کہ سماج کا ماحول ان کے لیے مناسب ہے جس میں وہ آرام سے رہ سکتے ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں اقدار الہی کی حکمرانی ہے۔ اسلامی نظام کو اقدار الہی کی حکمرانی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس آیۂ مبارکہ کا کہ الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلاۃ و آتوا الزکوۃ و آمروا بالمعروف ونھوا عن المنکر (1) مطلب یہی ہے۔ اس لیے کہ جس ماحول میں حکام، فرمانروا اور وہ لوگ جن کے ہاتھ میں زمام امور ہے، لوگوں کو نیکی اور اچھے کاموں کی ہدایت کریں، برائی سے روکیں اور نماز قائم کریں، اس ماحول میں اقدار کو رشد اور فروغ حاصل ہوتا ہے۔
اس ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، جہاں بھی کامیابی نظرآئی، وہ اس بات کا نتیجہ تھی کہ وہاں اسلامی اقدار نے پیشرفت کی تھی۔ جہاں بھی ہم ناکام ہوئے، اگر تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ وہاں ہماری مشکل یہ تھی کہ ہم نے اسلامی احکام، اسلامی اخلاقیات، اسلامی اصول و ضوابط اور اسلامی اقدار سے منہ موڑ رکھا تھا۔ دنیا کی سطح پر ایسا ہی ہے۔ آپ ان معاشروں کو دیکھیں جنہوں نے معنویت، خدا اور انسانیت سے منہ موڑ رکھا ہے، ان میں عوام کی زندگی کتنی دشواریوں سے دوچار ہے، کتنی المناک ہے، کتنی بد امنی ہے اور کتنے زیادہ جرائم ہیں۔ اس کے سماجی علل و اسباب تلاش کرتے ہیں لیکن حقائق سے دوری کی وجہ سے حقیقی وجہ کا اداراک نہیں کر پاتے۔ کوئی ماں، اپنے بچوں کو قتل کردیتی ہے تو لوگوں کے ضمیرمیں بیداری آتی ہے اور وہ فریاد بلند کرتے ہیں کہ اس کو سزائے موت دی جائے، ختم کردیا جائے اس سے کیا فائدہ؟ بنیاد غلط ہے۔ خدا سے دور اس بدبخت معاشرے کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس میں لوگ معنوی اقدار سے منہ موڑ کے برائیوں میں غرق ہوچکے ہیں۔ اس لیے مادی پیشرفت اور دولت و ثروت بھی لوگوں کو خوش نصیبی نہیں عطا کرسکتی۔
امریکی معاشرے میں سائنسی ترقی اور زندگی کی آسائش کے وسائل اور دولت کی فراوانی ہے لیکن معنوی و روحانی غربت اور وحشتناک اخلاقی تہیدستی پائی جاتی ہے۔ اس قسم کے جرائم وہاں ہوتے ہیں۔ یہ معنویت و روحانیت سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے ایک ماں، وقتی اور زود گزر شہوت اور حقیر و پست خواہش کے لیے اپنے بچوں کو قتل کردیتی ہے؟
اس وقت بوسنیا ہرزے گووینا میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں (یہ نسل کشی اور شہر سربرنیتسا میں سرب افواج کا ہر روز داخل ہونا اور انتہائی درندگی کا مظاہرہ، جو وہاں مغرب کی مادہ پرست حکومتوں اور اقوام کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتا ہے) ان پر کسی رد عمل کا مشاہد نہیں ہوتا ہے۔ دعوی کرتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا، ہزاروں عورتوں اور بچوں کا مارا جانا، کئی ہزار آبادی کے ایک شہر میں قتل عام، گھروں کو ویران کرنا، کنبوں کو دربدر کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
جو بھی امریکا اور بعض دیگر ملکوں کے انسانی حقوق کی طرفداری کے دعووں کے جھوٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہے، وہ یہی سربرنیتسا، سرائیوو اور دیگر شہروں کے واقعات کو دیکھ لے۔ جو بھی سلامتی کونسل کی، جو بظاہر اقوام کو سلامتی فراہم کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی، ناتوانی کو دیکھنا چاہے، وہ سربرنیتسا اور ان المناک واقعات کو دیکھ لے۔
تاریخ کے بعض واقعات، جیسے ہلاکو خاں کے حملوں کے واقعات انسان کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ اتنی درندگی کا مظاہرہ کرے؟ لیکن تاریخ کے یہ واقعات آج انسان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔ یہ ہے وہ بات جس کی میں مستقل طور پر تکرار کرتا ہوں کہ مغربی نظام، مغربی تمدن اور مغرب کے دعویدار، دنیا کے امور چلانے پر قادر نہیں ہیں۔ انہیں دنیا کے تقریبا چھے ارب انسانوں اور تمام دنیا کے ملکوں پر حاکمیت کے دعوے کا حق نہیں ہے کیونکہ وہ خود اپنے امور نہیں چلاسکتے ہیں، خود اپنے یہاں سلامتی قائم کرنے اور دردناک ترین انسانی المیے کو روکنے پر قادر نہیں ہیں۔ اور پھر امریکی خلیج فارس، مشرق وسطی، وسطی ایشیا اور دنیا کے دیگر علاقوں میں اپنی موجودگی اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ تم کس حق سے، کس بیدار ضمیر سے، کس قوی ارادے اور پاکدامنی سے دعوا کرتے ہو کہ تمہیں تمام ملکوں اور اقوام کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے؟ یہ سب معنویت سے دوری کا نتیجہ ہے۔
اس ملک نے معنویت کو اپنا کر دنیا میں عزت حاصل کی ہے۔ اس قوم نے اسلام اور دینداری سے متمسک ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر مقتدر ہوئی ہے۔ آج دنیا کی بڑی طاقتیں دنیا کے ہر گوشے کو اپنا علاقہ سمجھتی ہیں اور اپنی مرضی چلاتی ہیں۔ حکومتوں کو حکم دیتی ہیں اور اپنی رائے، بادشاہوں اور سربراہان مملکت کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں، لیکن ایران کی حکومت اور قوم پر اپنی مرضی اور رائے چلانے کی ہمت نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ جانتی ہیں کہ اس قوم نے اسلام قرآن اور اسلامی اقدار کا رخ کرلیا ہے، اس لیے ان کی رائے اور ان کے نظریات مسترد کردیئے جائیں گے۔
انتظامی فورس کا سب سے بڑا فریضہ اقدار کا تحفظ ہے۔ طاقت، عزت اور مہربانی، اسلامی اور قرآنی اقدار کے تحفظ میں ہے۔ لوگ آپ میں سے کسی کو بھی کہیں بھی، چاہے ملک کی دور افتادہ چوکیوں میں، چاہے ملک کے مرکز کی سڑکوں پر، شہروں میں، دیہی علاقوں میں یا سڑکوں پر کہیں بھی دیکھیں تو تقوا، پرہیزگاری، معنویت، برائیوں سے دوری، ہر قسم کی کجروی کی مخالفت کا مظہر پائیں۔ برائی کرنے والے آپ سے ڈریں، رشوت لینے اور رشوت دینے والا آپ سے خو‌فزدہ رہے، جو اہل تقوا نہیں ہیں وہ آپ سے گھبرائیں، جو متقی ہے وہ آپ کو دیکھ کے خوش ہوجائے، آپ کو دیکھ کے اس کی امید اور ڈھارس بندھ جائے، وہ محسوس کرے کہ دنیا اور معاشرے کی فضا اچھی ہے اور اس میں رہا جاسکتا ہے،سانس لی جاسکتی ہے۔
اسلام اور قرآن کی پسندیدہ انتظامی فورس، یہ ہے۔ البتہ ہمیں امید یہ ہے اور ان شاء اللہ ہمیں اطمینان ہے کہ ہماری انتظامی فورس، مومن اور متدین افسران، اچھے اہلکاروں، مفیداور کارآمد پروگراموں اور اصول و ضوابط کے ساتھ اسی سمت میں آگے بڑھے گی اور روز بروز ترقی و پیشرفت کرے گی۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو توفیق عطا کرے گا۔ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں گی اور امام عظیم الشان کی روح مطہر آپ سے شاد ہوگی۔ انتظامی فورس کا ہفتہ آپ کو مبارک ہو اور اس میں فورس کے اندر اقدار کی سمت پیشرفت وجود میں آئے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1/ (یہ اہل حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں تو وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔(سورہ حج آیت 41)