یہ اجتماع تہران میں حسینہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں منعقد ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس خطاب میں صوبہ فارس اور خاص طور پر صوبے کے مرکزی شہر شیراز کی خصوصیات اور مردم خیزی کا ذکر کیا۔ آپ نے علاقے کے حالات اور اسلامی تحریکوں پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا ان تحریکوں کی فتح یقینی ہے۔
تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

صوبہ فارس کے عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید۔ آپ نے آج اس پرخلوص، پرجوش اور ایمان کی خوشبو سے معطر اپنے اس اجتماع ، اعلی مفاہیم کے حامل ان نعروں اور اپنی تشریف آوری سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کی شجاعت و عظمت کی یاد تازہ کر دی جس کی مثالیں ماضی قریب اور عصری تاریخ میں کثرت سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صوبہ فارس اور شہر شیراز ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لئے ایک قابل افتخار بلند چوٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ علم و ادب کے شعبے، سماجی و مذہبی سرگرمیوں اور جہاد و جانفشانی کے میدانوں میں اعلی خصوصیات کی مالک افرادی قوت کی وادی ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بھی ملک کے انتہائی حساس اور حیاتی اہمیت کے حامل مسائل میں شیراز کا نام بالکل نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ تنباکو کی حرمت کے مسئلے کو دیکھئے جو مغربی سامراج کے خلاف ایک آگاہانہ عوامی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ اس میں میرزا شیرازی کا نام بالکل نمایاں ہے۔ اگر میرزا شیرازی کی وہ مہم جاری رہتی اور ملک کے سیاستداں اور اہم شخصیات اس سے جڑتے چلے جاتے تو ایران کی صورت حال وہ نہ ہوتی جو ہو گئی تھی۔ بہرحال استعماری طاقتوں نے غفلتوں اور حرص و طمع کا فائدہ اٹھایا اور مہم کی شہہ رگ کو کاٹ دیا۔ اسی طرح برطانوی سامراج اور انگریزوں کی مداخلت کے خلاف عراقی عوام کی جنگوں کی مثال لے لیں! ان میں بھی شیراز کا نام بہت درخشاں ہے۔ اس عظیم تحریک کی قیادت میرزا محمد تقی شیرازی مرحوم نے کی جو میرزائے دوم شیرازی کے نام سے معروف بڑے جلیل القدر عالم دین اور مرجع تقلید تھے۔ فارس کے اندر بہت سے علمائے عظام، اہم شخصیات اور اعلی صفات کے مالک انسان گزرے ہیں۔ خواہ آپ آئینی انقلاب کا دور دیکھیں یا اس کے بعد اسلامی انقلاب کی تحریک پر نظر ڈالیں یا اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے ایام کو دیکھیں یا پھر اس کے بعد سے آج تک کے دور کا جائزہ لیں۔ یہ تو ہوئی جہاد کے میدان کی بات۔ البتہ جہاد کا باب کوئی معمولی نہیں ہے۔ الجھاد باب من ابواب الجنۃ فتحہ اللہ لخاصۃ اولیائہ ( جہاد ابواب جنت میں سے ایک باب ہے جسے اللہ تعالی اپنے خاص اولیاء کے لئے وا کرتا ہے) یہ جنت کا دروازہ ہے جو ہر کسی کے لئے نہیں کھلتا، اوليائے خاص کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے مجاہد عوام اولیائے خدا میں ہیں جن پر یہ دروازہ کھولا گيا ہے۔
اگر ہم علم کے شعبے پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہی عالم ہے۔ انقلاب کے بعد اور خاص طور پر حالیہ برسوں کے دوران شروع ہونے والی عدیم المثال علمی تحریک میں بھی شیراز پیش پیش نظر آتا ہے۔ سیاسی امور میں، سماجی مسائل میں شیراز کے عوام بابصیرت اور ذی شعور طبقوں میں شامل دکھائي دیتے ہیں۔ بسا اوقات سیاسی واقعات اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ معاملہ بالکل الجھ کر رہ جاتا ہے جسے سلجھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے عوام بیدار ہیں اور صوبہ فارس کے عزیز عوام پیش پیش رہنے والوں میں شامل ہیں۔
صوبہ فارس اور خاص طور پر شہر شیراز کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ طاغوتی ( شاہی) حکومت کے دور میں بعض مقامات کو اخلاقیات اور دینداری سے لوگوں کو دور کرنے کے لئے انحراف کا مرکز قرار دیا گيا۔ ان میں ایک شیراز تھا۔ اس کے لئے اس صوبے میں محیط ادب و فن کے ماحول سے استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ صوبہ فارس اور شہر شیراز فن و ادب کا گہوارا رہا ہے۔ یہ شعر و ادب اور انواع و اقسام کے فنون و ہنر کا مرکز رہا ہے جس سے یہاں کے عوام کی ذہنی کیفیت اور طرز فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ فن و ہنر کے قدرداں عوام، اہل ذوق، اہل دل افراد۔ طاغوتی حکومت نے عوام کی اس صفت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے علاقے کو فحاشی کا اڈا بنا دینے کی کوشش کی لیکن عوام نے اس موقعے پر حکومت کو مزہ چکھا دیا۔ آپ دیکھئے کہ (خاندان پیغمبر کے چشم و چراغ) حضرت احمد بن موسی اور ان کے بھائیوں کے مرقد پر کس قدر عوام کا ازدہام رہتا ہے اور لوگوں کو ان برگزیدہ شخصیات سے کتنی عقیدت و محبت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام اس کے بالکل برخلاف سمت میں بڑھے جہاں طاغوتی حکومت انہیں لے جانا چاہتی تھی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ ہم جو صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام سے اتنا خلوص رکھتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔
اس کے علاوہ (صوبے کے عوام کی طرف سے قربانی کے طور پر پیش کئے جانے والے) چودہ ہزار چھے سو شہید جن میں پانچ ہزار کا تعلق صرف شہر شیراز سے ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جب ہم ایک شہید کے بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ درجنوں افراد میدان میں اترے، مجاہدانہ انداز سے لڑے، جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے، ایک نے جام شہادت نوش کیا اور بقیہ فریضے کی ادائیگي کے بعد اپنے گھروں کو لوٹے۔ اس طرح اگر آپ دیکھیں تو چودہ ہزار چھے سو شہیدوں کی تعداد کا صحیح مطلب سمجھ میں آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے صوبے نے جوش و جذبے اور عشق و ایثار کے جوہر دکھائے ہیں۔
مجھے نہ تو شیراز کے عوام کی مدح سرائی کرنی ہے اور نہ ہی عزیز قوم کی ثناخوانی مقصود ہے اور نہ ہی آپ کو اس کی کوئی ضرورت اور توقع ہے۔ تو پھر میں کیوں یہ باتیں بیان کر رہا ہوں؟ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہماری جو تاریخ ہے، ہمارا جو تشخص ہے اور ہماری قوم سے متعلق جو حقائق ہیں وہ دوست اور دشمن سب کے سامنے ہمیشہ کے لئے نمایاں ہو جائیں کیونکہ دشمن اس کے بالکل برعکس پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ یہ حقیقت کہ ایک قوم اپنی بات پر، جو برحق ہے اور جو اس کی دنیا و آخرت کے لئے اہمیت کی حامل ہے، ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے قوموں کی پیشرفت اور ارتقاء کا راز ہے۔ ساتھ ہی یہ عمل دنیا کے زراندوزوں، جابروں اور قدرت و طاقت کے بھوکے لوگوں کے عزائم کے منافی ہے جو قوموں کو اپنے زیر تسلط رکھنا اور انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کی اس سازش سے نجات کا راستہ یہی ہے کہ قوم حق بات کی شناخت حاصل کرے اور اس پر ثابت قدمی سے ڈٹ جائے۔ حق بات پر پائيداری قوم کو اس کے ہدف تک بھی پہنچاتی ہے اور گرد و پیش سے ماجرا کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے اسے نمونہ عمل کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔ چنانچہ آج ملت ایران نمونہ بن چکی ہے۔ ہمارے علاقے کے مسائل کے سلسلے میں عالمی تجزیہ نگاروں کا یہی فیصلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران نمونہ بن گيا ہے، ملت ایران نمونے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ انہیں خوف لاحق ہے کہ جو کچھ یہاں (ایران میں) ہوا ہے کہیں ان کے ہاں بھی نہ رونما ہونے لگے۔ یعنی پرچم اسلام کا بلند ہونا اور اسلامی تعلیمات پر استوار نظام کی تشکیل۔ یہ اسقامت و پامردی کا ثمرہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملت ایران کی تعریف میں جو کچھ بھی کہا جائے، خاص طور پر ان مثالوں کے مد نظر جو میں نے فارس کے عوام کے سلسلے میں پیش کیں، مبالغہ نہیں ہے۔ پوری تاریخ میں ایک ٹکراؤ ہمیشہ جاری نظر آتا ہے۔ یہ ہے قوموں اور عوام سے دنیا کی استکباری طاقتوں، زراندوزوں اور جاہ و حشم کے بھوکے لوگوں کا ٹکراؤ۔ پوری تاریخ میں جنگ آپ کو نظر آئے گی۔ ان استکباری طاقتوں کے پاس اسلحہ تھا، دولت تھی اور اپنی بات ہر جگہ پہنچانے کے وسائل تھے۔ کچھ چیزیں ان کے پاس بالکل نہیں تھیں۔ جیسے ان کے پاس انصاف نہیں تھا، ان کے پاس رحم نام کی کوئی شئے نہیں تھی۔ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مذموم ترین اور پست ترین مجرمانہ اقدامات کرنے پر تیار رہتی تھیں۔ قوموں کے پاس بس ان کا عزم تھا، ان کا ایمان تھا اور ان کی جانیں! لیکن قوموں نے جہاں کہیں بھی اپنے ان عظیم وسائل کو استعمال کیا اور ثابت قدم رہیں وہاں حریف کو شکست ہوئی۔ البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ قومیں ہمیشہ استقامت و پائيداری کے جوہر دکھانے میں کامیاب رہی ہوں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے عزم و شجاعت اور جان و ایمان کے ساتھ میدان میں آکر دشمن کا مقابلہ کیا ہو لیکن جب بھی انہوں نے ایسا کیا، انہیں فتح ملی ہے۔
یہ مقابلہ آج بھی جاری ہے۔ دنیا کی استکباری طاقتیں یعنی مغربی طاقتیں، یعنی امریکہ اور صیہونی حکومت کے عزائم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ وہ پوری دنیا پر قابض ہو جانا چاہتے ہیں، پوری دنیا کے مالیاتی ذخائر اور پوری دنیا کی افرادی قوت کو اپنے قبضے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قوموں نے کیا جرم کیا ہے؟ وہ مظالم کیوں برداشت کریں؟ لیکن افسوس کہ آج یہی زمینی سچائی ہے۔ وہ ( استکباری طاقتیں) اپنی مرضی کے افراد کو قوموں کی تقدیر کا مالک بنا دیتی ہیں تاکہ ان ( طاقتوں) کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہے اور عوام کے حقوق کو جہاں تک ممکن ہو پامال اور نظر انداز کیا جائے۔ ان پر سختی کی جائے۔ گزشتہ دو سو برسوں کے عرصے میں جب سے استعماری ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چل رہا ہے یہی چیز دنیا میں الگ الگ انداز سے رونما ہوتی رہی ہے۔ اس دور میں قوموں کے سامنے یہی ایک مشکل نہیں ہے کہ وہ ڈکٹیٹر کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں، ایک جابر انسان ان کے سر پر مسلط ہے۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس ڈکٹیٹر کو عالمی طاقتوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے اور یہ طاقتیں اس ملک اور اس قوم کے مفادات کو پامال کر رہی ہیں۔ استعماری دور کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے۔ اس زاوئے سے اگر ہم مسائل پر نظر ڈالیں تو صحیح تجزیہ کرنے میں ہمیں مدد ملے گی۔ اس وقت رونما ہونے والے واقعات بھی اسی طرح کے ہیں۔
اس وقت اسلام کی برکت سے، اسلامی انقلاب کی برکت سے، ہمہ گیر اسلامی بیداری کی برکت سے علاقے میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ عوام کی اس بیداری کا نتیجہ خیز ہونا یقینی ہے، جیسا کہ اب تک بعض جگہوں پر نتیجہ حاصل ہو چکا ہے۔ عوام کا عزم و ایمان اور ایثار و فداکاری کے لئے ان کی آمادگی میں جتنا دوام ہوگا ان کی فتح کی امید بھی اتنی ہی بڑھے گی۔ عالمی استکبار، امریکہ اور صیہونی اسے بالکل گوارا نہیں کرتے، وہ نہیں چاہتے کہ عوام میں استقامت و پائيداری کا جذبہ پروان چڑھے۔ ان واقعات کے دیکھ کر امریکہ ششدر ہے، اس کو اچانک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ صیہونیوں کا بھی یہی عالم ہے، یورپ کی بلند بانگ دعوے کرنے والی استعماری طاقتیں بھی کچھ سمجھ نہیں پائيں۔ اب ان کی کوشش ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو میدان ان کے قبضے میں رہے۔ البتہ خوش قسمتی سے اب تک تو انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ ایک دو ملکوں میں تو ان کی ایک نہیں چلی اور اب دوسرے ایک دو ملکوں میں وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیداری ایسی چیز نہیں ہے جسے ختم کرنا ممکن ہو۔ مسلسل آگے بڑھنے والی اس عوامی تحریک کو پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جو کچھ بس میں ہے کر لیں لیکن اس تحریک کا انجام عوام کے مفادات کے مطابق اور بڑی طاقتوں کے نقصان میں ہی ہوگا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ قومیں ہوشیار رہیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔
ایک دو جگہوں پر واقعی کھلے عام مظالم ہو رہے ہیں۔ اس وقت بحرین کے مسئلے، لیبیا کے مسئلے اور یمن کے معاملے کا کوئی انسان بنظر غائر جائزہ لے تو وہ مغربی طاقتوں کو مجرم اور نا قابل معافی گنہگار قرار دے گا۔ یہ عوام پر بالکل آشکارا ظلم کر رہی ہیں۔ ان واقعات کا تجزیہ کرنا سیاسی مبصرین کا کام ہے اور وہ تجزیہ کر رہے ہیں، اپنی نظر بیان کر رہے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور مغربی ممالک صیہونیوں کے مفادات کے لئے، جعلی اسرائیلی حکومت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عوام پر سختیاں کر رہے ہیں، مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں اور سب سے زیادہ ظلم و ستم بد قسمتی سے بحرین کے عوام پر ہو رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے چونکہ حق بجانب موقف اختیار کیا ہے اور اپنی بات کو واشگاف لفظوں میں بیان کر دیتا ہے اس لئے تشہیراتی یلغار کا رخ اسلامی جمہوری نظام کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایک لا تعلق تماشائی بنا رہے لیکن یہ چیز ممکن نہیں ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہے۔ قوم، حکام، حکومت، سیاسی شخصیات کوئی بھی بے گناہ عوام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی اس ظالمانہ جنگ پر لا تعلق اور خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ ایران مداخلت کر رہا ہے! کیسی مداخلت اور کہاں کی مداخلت؟! بحرین میں، لیبیا میں اور یمن میں ایران نے کیا مداخلت کی ہے؟ بس یہی مداخلت ہے کہ ہم نے اپنا موقف صریحی طور پر بیان کر دیا اور ہم دنیا کی بوسیدہ طاقتوں کی برہمی سے ذرہ برابر نہیں گھبرائے، ہم نے کوئی خیال نہیں رکھا اور ہم آئندہ بھی کسی کی برہمی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ ہم حق بات کو اور حق بجانب موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بحرین کے عوام کو پورا حق ہے۔ وہ اعتراض کر رہے ہیں اور ان کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی صاحب فکر کے سامنے اس مسئلے کے رکھئے، ان کی صورت حال کو بیان کیجئے، ان مظلوم عوام پر جس انداز سے حکمرانی کی جا رہی ہے اس کو بھی بتائیے، حکام نے اس چھوٹے سے ملک کو استعمال کرنے کے لئے جیسے جیسے کام کئے ہیں ان کی تشریح کیجئے پھر آپ دیکھئے کہ وہ شخص حاکم کی مذمت کرتا ہے یا نہیں؟ عوام سے لڑ رہے ہیں، یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ سختیاں کر لیں، وحشی پنے کے اقدامات انجام دیں، چند روز تک آپ دہکتے شعلے کو دبائے رکھیں لیکن یہ شعلہ خاموش ہونے والا نہیں ہے۔ اس سے عوام کا غیظ و غضب روز بروز اور شعلہ ور ہوگا۔ اچانک سارے معاملات آپ کے ہاتھ سے اس طرح نکل جائیں گے کہ پھر کسی رفوگری کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ جو لوگ باہر سے فوجیں بحرین بھیج رہے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ ان اقدامات سے کسی قوم کی تحریک کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
خیر، تو اسلامی جمہوری نظام کا موقف یہ ہے۔ یمن کے بارے میں بھی یہی ہے اور لیبیا کے بارے میں بھی ہمارا یہی کہنا ہے۔ لیبیا میں مغربی ممالک عوام کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں۔ یورپ کے نزدیک واقع یہ ملک، جہاں سے ایک گھنٹے میں قلب یورپ تک پہنچا جا سکتا ہے، تیل کی دولت سے مالامال یہ ملک ایک عوامی حکومت سے وہ بھی مسلم عوام کی حکومت سے بہرہ مند ہو جائے، یہ انہیں قطعی برداشت نہیں ہے۔ اسی لئے انہوں نے کھیل شروع کر دیا ہے، عوام سے کھیل کھیل رہے ہیں۔ لیکن عوام پوری طرح آگاہ ہیں۔ لیبیا کے عوام باخبر ہیں۔ دوسری جگہوں کے عوام کا بھی یہی عالم ہے۔
ان واقعات کے ذمہ دار دنیا کے سامراجی ممالک ہیں، عالمی سامراج اور عالمی صیہونی نیٹ ورک ہے۔ اس وقت جاری ہنگامے کے بیچ صیہونی اپنے مقاصد کی تکمیل کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ غزہ کے عوام پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، روزانہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ علاقے کی قومیں، علاقے کی حکومتیں جو حقائق سے دلچسپی رکھتی ہیں صیہونی حکومت کی سرگرمیوں کی جانب سے غافل نہ رہیں۔
اسلامی جمہوری نظام کا یہ طرز عمل ہے اور اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کو نشانہ بناکر تشہیراتی سرگرمیاں، سیاسی اقتصادی اور سیکورٹی کے اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں۔ الحمد للہ توفیق خداوندی سے اسلامی جمہوریہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے لیکن وہ اپنی خباثت دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اسلامی جمہوری نظام کے استحکام کے نتیجے میں ان کی تلواریں کند ہو گئی ہیں، گویا پتھر سے ٹکرا رہی ہیں۔ میں یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری قوم اور ہماری حکومت کو چاہئے کہ اپنی یہ فولادی مضبوطی قائم رکھے۔ آپ اپنے اندر اختلاف پیدا نہ ہونے دیجئے۔ آپ دشمن کو یہ موقع نہ دیجئے کہ وہ اپنی تشہیراتی و سیاسی خباثتوں سے اور سیاسی فتنہ انگیزیوں سے ہمارے ملک کے خلاف وہ اقدامات انجام دے جس کے لئے وہ کوشاں ہے۔
آپ ذرا غور کیجئے! انہی گزشتہ پانچ چھے دنوں کے اندر وزارت انٹیلیجنس وغیرہ سے متعلق امور کے سلسلے میں دنیا میں کیا ہنگامہ برپا کر دیا گيا۔ تجزیوں میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئي کہ اسلامی جمہوری نظام کے اندر شگاف پیدا ہو چکا ہے اور دوہرا اقتدار چل رہا ہے۔ صدر نے قائد انقلاب کی بات نہیں مانی ہے! تشہیراتی اداروں نے ان فضولیات سے اپنے پروگرام بھر ڈالے۔ آپ دیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح بہانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں؟ کس طرح بھیڑئے کی مانند گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی بہانہ مل جائے۔ جیسے بھی ممکن ہو ضرب لگائیں۔ انہیں معلوم ہے ک حکومت بڑی محنت اور تندہی سے خدمت کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں زبردست خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔ جب اچھی طرح سے خدمات انجام دی جائیں گی تو عوام بھی اس کی حمایت کریں گے اور قائد انقلاب کی طرف سے بھی تائید و حمایت کی جائے گی۔ ہم کسی شخص کو مد نظر رکھ کر فیصلہ نہیں کرتے، ہم کام کو، سمت کو اور موقف کو معیار قرار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کام ہوگا، خدمت ہوگی، محنت ہوگی ہماری حمایت اور عوام کی تائید بھی ہوگی۔ بحمد اللہ اس وقت کام ہو رہا ہے۔ حکام واقعی محنت کر رہے ہیں۔ کابینہ کے ارکان بھی اور خود صدر جمہوریہ بھی۔ یہ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ مسلسل کاموں میں مصروف ہیں، خدمت و محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں کی ملک کے لئے بڑی اہمیت اور قدر و قیمت ہے۔ حقیر بھی اپنے اصول کے مطابق حکومت کے فیصلوں اور کاموں میں کسی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ آئین نے سب کی ذمہ داریوں اور فرائض کا تعین کر دیا ہے۔ ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہے۔ تاہم جہاں مجھے یہ محسوس ہوگا کہ کوئی بڑی مصلحت نظر انداز ہو رہی ہے، جیسا کہ اسی حالیہ واقعے میں ہوا، محسوس ہوا کہ ایک بڑی مصلحت غفلت کا شکار ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو روکنے کے لئے اقدام کرنا ہوگا۔ یہ کوئی بہت غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن بیرونی دشمن اور مخالفین، عالمی پروپیگنڈہ مشینری، تشہیراتی وسائل ہنگامہ آرائی کے لئے اسی چیز کو بہانہ بنا لیتے ہیں۔
داخلی افراد سے، جذبہ ہمدردی رکھنے والے عوام سے اور ملک کے اندر تشہیراتی امور سے تعلق رکھنے والے بھائيوں اور بہنوں سے میری گذارش یہ ہے کہ اس طرح کی آشفتگی کو ہوا دینے سے گریز کریں۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ بے معنی قسم کے تجزئے شروع ہو جائیں، ایک شخص دوسرے کے خلاف تبصرہ کرے دوسرا پہلے کے خلاف اظہار خیال کرے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ نظام الحمد للہ بہت مضبوط نظام ہے۔ حکام خدمات اور کاموں میں مصروف ہیں۔ قائد انقلاب یعنی یہ بندہ حقیر بھی اللہ کی مدد سے اپنے صحیح موقف پر ثابت قدمی سے کھڑا ہوا ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں، جب تک میرے دوش پر فرائض منصبی ہیں اللہ تعالی کی نصرت و مدد کے سہارے میں بلند اہداف کی جانب جاری ملت ایران کی عظیم حرکت کو راستے سے منحرف نہیں ہونے دوں گا۔ جب تک ہمارے عزیز عوام اس انداز سے جوش و جذبے، شعور و بصیرت اور عزم راسخ کے ساتھ میدان میں موجود رہیں گے لطف خداوندی ان کے شامل حال رہے گا۔ اس پر آپ پورا یقین رکھئے! ہم جب تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں لطف الہی کا سایہ ہمارے سروں پر موجود رہے گا۔
ہم لوگ یعنی میں، آپ اور دیگر افراد اگر اپنے اپنے ذاتی امور میں لگ گئے اور ہم نے اہداف کو فراموش کر دیا تو بیشک نصرت الہی بھی کم ہو جائے گی۔
آج آپ دیکھئے خوش قسمتی سے عوام پورے ملک میں میدان میں موجود ہیں، حکام بھی اسی طرح، تینو شعبے (مقننہ، عدلیہ، مجریہ) بھی اسی طرح۔ تینوں شعبے یعنی مقننہ، مجریہ اور عدلیہ واقعی میدان میں موجود ہیں۔ میں بالکل قریب سے اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سب محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، مجاہدانہ انداز میں کام انجام دے رہے ہیں، پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ کام واقعی بہت طاقت فرسا کام ہیں، معمولی قسم کے کام نہیں ہیں۔
ہم نے اقتصادی جہاد کی بات کی۔ ملک کے حکام کے سامنے ایک بڑا قدم اٹھانے کا مرحلہ ہے۔ عوام کو بھی اور حکام کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے سے مل کر اس سال اقتصادی جہاد کی اس تحریک کو شروع کر دیں۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا ہے ہر سال کے لئے معین ہونے والا نعرہ متعلقہ تحریک کی شروعات کا غماز ہوتا ہے، وہ اسی سال سے مختص نہیں ہے۔ الحمد للہ یہ چیزیں انجام پا رہی ہیں۔ خامی اور نقائص تو ہم سب کے کام میں ہوتے ہیں۔ میرے اندر بھی خامیاں ہیں، تینوں شعبوں کے سربراہ بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہیں، حکام بھی خامیوں سے خالی نہیں ہیں۔ ہم سب کو اپنی خامیوں کی شناخت کی کوشش کرنا چاہئے، انہیں کم کرنا چاہئے۔ اس عظیم قوم کی با عظمت مہم میں اس قوم کی عظیم تحریک میں رکاوٹ پیدا نہیں کرنا چاہئے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہماری قوم سے اپنی رحیمانہ اور رحمانانہ نظر ہرگز نہ ہٹائے۔ امام زمانہ کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال رکھے۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز شہیدوں اور ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو جو اس عظیم تحریک کے بانی تھے اپنے جوار میں بلند ترین مقامات پر فائز کرے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌