آپ نے سامراج کے انسان دشمن اداروں کی اسلامی جمہوریہ پر ضرب لگانے کی مسلسل کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ چاہتے تھے کہ ایران کو تنہا کر دیں تاکہ اسلامی نظام یعنی اسلامی و انسانی عظمت و شرف کا یہ مظہر دیگر قوموں کے لئے قابل تقلید نمونہ نہ بن سکے لیکن ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام اس وقت علاقے کے عوام کے عظیم الشان انقلابات کے سلسلے میں ہمیشہ سے زیادہ توجہ اور احترام کا مرکز بنا ہوا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام اور صاحبان فکر کے درمیان محنت کش طبقے کی خاص شان و منزلت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں نیز عوام کی اقتصادی جہاد کے تقاضوں پر بھرپور توجہ عظیم الشان و سربلند مملکت ایران کی برق رفتار ترقی کا باعث بنے گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے کام کے شعبے میں دخیل تمام عناصر اور افراد کے درمیان ہمدلی اور محبت کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کو اسلامی نظام اور حکام کی بنیادی پالیسی قرار دیا اور فرمایا کہ بیشک ملک میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو مزدور طبقے پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اسلامی نظام کی پالیسی بنیادی طور پر مزدور و ملازم، مالک اور متعلقہ شعبوں کے درمیان ہمدلی اور ہم فکری پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے محنت کش طبقے کے مسائل کے حل اور ان کی حالت میں بہتری لانے کے مقصد سے جاری حکومت کے اقدامات اور منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کے اقدامات کئے جانے چاہئیں کہ ملک کا مزدور طبقہ ملک کے خوشحال اور جملہ وسائل سے آراستہ طبقات میں شامل ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے غیر ملکی اشیاء کے استعمال کو شان و شوکت کی علامت تصور کرنے والے بعض افراد کے بارے میں فرمایا کہ غیر ملکی اشیاء کو اپنی پسند بنا لینا اور ایرانی محنت کشوں کی جانفشانی کو نظر انداز کرنا بری عادت اور ایک طرح کی بیماری ہے جو ملک کی دولت اور سرمائے کو غیر ملکی مزدوروں کی جیب میں ڈالتی ہے۔
اس اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل لیبر اور سماجی امور کے وزیر جناب شیخ الاسلامی نے ملک کی اقتصادی ترقی میں افرادی قوت کے بے مثال کردار کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ ان کی وزارت نے محنت کش طبقے اور سرمایہ کاروں کے نمائندوں کے تعاون سے معیاری کام کی قومی سند کو منظوری دی ہے جس کا مقصد روزگار کو فروغ دینا، افرادی قوت کو تحفظ فراہم کرنا اور پیداواری شعبے کی اعانت و دفاع کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ ایک اچھا موقع ہے جو ہر سال اس حقیر کو نصیب ہوتا ہے اور آپ کے اجتماع میں چند منٹ حاضر ہوکر اپنی معروضات پیش کرتا ہوں۔
کام، کام کرنے والے انسان، محنت کش کے مقام و منزلت کا موضوع اسلام میں بھی اور عقلاء عالم کے نزدیک بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عقلی لحاظ سے دیکھا جائے تو زندگی کی ضروریات کے طویل سلسلے کا وہ حلقہ جس کا تعلق کام سے ہے ایک حیاتی اور تقدیر ساز کڑی ہے۔ یعنی اگر پوری دنیا کی دولت و ثروت کو یکجا جمع کر دیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی محنت کش طبقہ اور کام کا مسئلہ نظر انداز کر دیا جائے تو انسان کی کوئی بھی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ پیسے کو آپ نہ کھا سکتے ہیں، نہ پہن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور استعمال میں لا سکتے ہیں۔ سرمائے اور روئے زمین کی نعمتوں سے انسان کی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ کام اور محنت کشی ہے اور کام کا دارومدار محنت کش طبقے پر ہے۔ بنابریں انسانی زندگی میں خواہ وہ انفرادی زندگی ہو یا سماجی زندگی، محنت کش طبقے کے توانا بازوؤں، فنکار انگلیوں اور ذہن و ذوق کی اہمیت اور کلیدی حیثیت بالکل نمایاں ہے۔ جو لوگ محنت کش طبقے سے بے اعتنائی اور بے توجہی برتتے ہیں، در حقیقت وہ اس بنیادی نکتے سے غافل اور بے خبر ہیں۔ اسی طرح جو لوگ محنت کش طبقے کو کام کے دیگر وسائل کی مانند ایک اوزار تصور کرتے ہیں ان کا بھی یہی عالم ہے۔ یہ بالکل عقلی بات ہے جو پوری طرح درست ہے۔ البتہ اس سے بالاتر اسلام کا نظریہ ہے۔ اسلام اسی کام کو جو ہم کرتے ہیں، مزدوروں کی انگلیاں انجام دیتی ہیں اور نتیجتا اپنے اور دوسروں کے لئے مثال کے طور پر روٹی تیار کرتی ہیں، عبادت اور عمل صالح قرار دیتا ہے۔ یعنی مزدور اور کام کا مسئلہ اسی دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے دنیا و آخرت پر محیط انسانی زندگی کے جامع منصوبے میں اس حقیقت یعنی کام کو ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ھذہ ید لا تمسھا النار۔ پیغمبر اسلام نے ایک مزدور کے ہاتھوں کو پکڑ کر ان کا بوسہ لیا تو اصحاب کو بڑا تعجب ہوا۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ یہ ایسا ہاتھ ہے جسے آتش جہنم مس نہیں کر سکتی، آگ کے شعبے اس ہاتھ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نماز شب پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ سے توسل کرتے ہیں تو ہم اپنے اس عمل سے در حقیقت اپنی ذات اور آتش جہنم کے درمیان دیوار کھڑی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم کام کرتے ہیں تو اس سے بھی ہمارے اور آتش جہنم کے درمیان دیوار کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کا مرتبہ بہت بلند ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ اسلام کا زاویہ نگاہ یہ ہے۔
اب آتے ہیں محنت کش طبقے کی طرف۔ میں اپنے ملک کی صورت حال اور خاص طور پر انقلاب کے بعد کے دور کے حالات کے بارے میں چند باتیں عرض کروں گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ملت ایران کی تحریک انقلاب کو نتیجہ خیز بنانے میں محنت کش طبقے کا کردار بہت بنیادی قسم کا رہا ہے۔ محنت کش طبقہ خاص طور پر تیل کی صنعت اور دیگر شعبوں کے مزدور اور ملازمین اگر میدان میں نہ اترے ہوتے تو اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ میں کچھ مشکلات ایسی تھیں جو اپنی جگہ باقی ہی رہتیں۔ اس کے بعد مقدس دفاع کا مرحلہ پیش آیا۔ مقدس دفاع سے قبل اوائل انقلاب کے مسائل پیش آئے، آپ نوجوان تو اس وقت نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو با قاعدہ چیزیں یاد نہیں ہوں گی لیکن ہم نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے کہ ملک کے محنت کش طبقے نے کیسا کردار ادا کیا ہے؟ میں خود اکیس اور بائیس بہمن (دس اور گیارہ فروری) کو تہران کے قریب واقع ان ہی کارخانوں میں سے ایک کے اندر موجود تھا اور قریب سے دیکھ رہا تھا کہ اس زمانے کے بائیں بازو یعنی کمیونسٹوں سے تعلق رکھنے والے مشتعل عناصر کس طرح ایک جگہ سے مزدوروں کی تحریک شروع کرنا چاہتے تھے اور اسلامی انقلاب کو ایک کمیونسٹ اور مارکسسٹ انقلاب میں تبدیل کر دینے کی کوششیں کر رہے تھے؟! یہ کام تہران میں انجام دیا جا رہا تھا۔ اس کے خلاف جن لوگوں نے آواز اٹھائی وہ ان کا تعلق اسی محنت کش طبقے سے تھا۔ البتہ اس کارخانے میں کچھ سو لوگ ہی تھے لیکن بہرحال اسے تحریک کا نقطہ آغاز قرار دیا گيا تھا۔ ہم بھی مزدوروں کے درمیان پہنچے تو انہیں دین کی آواز زیادہ مانوس لگی۔ وہ لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ میں ایک معمولی طالب علم تھا لیکن دین کی بات ان کے دلوں کے زیادہ قریب تھی جبکہ دین مخالف عناصر کی باتیں ان کے لئے بیگانہ اور غیر مانوس تھیں۔ اگر اس کارخانے کے مزدوروں میں سے کوئی موجود ہو اور اس بات کو سنے اور اس کی تشریح کرے تو ان تین دنوں کے حالات جب میں بھی وہاں گھنٹوں رکا رہا واقعی ملک کے لئے ایک عجیب تجربہ معلوم ہوں گے۔ مزدوروں نے اس انداز سے اپنا کردار ادا کیا۔ یعنی جو لوگ مزدور برادری کو اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے مقابل لانا چاہتے تھے مزدوروں سے انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ گزشتہ برسوں میں مسلسل یہی ہوتا رہا۔ اس کے بعد مقدس دفاع کا مرحلہ پیش آیا اور اس موقعے پر بھی محنت کش طبقے نے زبردست تعاون اور شراکت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد کاموں کی انجام دہی کا مرحلہ در پیش ہوا۔
آج برادران عزیز نے جو ترانہ پڑھا اس میں ایک مصرعہ یہ تھا عرصہ کار، عرصہ پیکار ماست یہ عین حقیقت ہے۔ خوددار اور با غیرت ایرانی مزدور اپنے کام کو پیکار اور مجاہدت جانتا ہے۔ آپ اپنے کام کی صورت میں مجاہدت انجام دے رہے ہیں، ان افراد کے خلاف جو ملک کو اقتصادی انحطاط، اقتصادی جمود اور اقتصادی شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں ہمارے محنت کش طبقے کے افراد کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ آج آپ جو کام انجام دے رہے ہیں آپ کا یہ سنجیدہ، خلاقانہ، ایرانی طرز فکر اور ذوق و پسند پر مبنی کام ایک پیکار ہے، ایک جہاد ہے۔ آپ اپنے کام کے ذریعے عالم استکبار سے لڑ رہے ہیں۔ اس پر سب کی توجہ ہونی چاہئے۔
جو کچھ ہمارے ملک میں اور اسلامی جمہوریہ میں رونما ہوا اور بحمد اللہ آج تک جاری ہے وہ ہے کام سے متعلق تمام فریقوں کے مابین محبت و اخوت کا ماحول۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی محنت کش طبقے پر ظلم و زیادتی کی کوشش نہیں کرتا اور یہ ممکن نہیں ہے کہ کہیں بھی کسی مزدور کی حق تلفی ہو۔ اس طرح کی چیزیں پیش آتی ہیں لیکن نظام کی پالیسی، حکام کی حکمت عملی، اسلامی نظام پر حکمفرما عمومی طرز فکر کام کے تمام فریقوں یعنی محنت کش طبقے، سرمایہ کار طبقے اور سرکاری حکام کے درمیان محبت و برادری، تعاون و ہم خیالی کی فضا قائم کرنے پر مرکوز ہے۔ ابھی جو باتیں وزیر موصوف نے بیان کیں وہ بہت اہم ہیں۔ ان میں بعض چیزیں انجام دی جا چکی ہیں اور بقیہ کو صبر و تحمل اور مربوط کوششوں کے ذریعے جہاں تک ممکن ہے تیز رفتاری سے انجام دیا جانا ہے۔ ہمارے محنت کش طبقے کو معاشرے کے آسودہ اور خوشحال طبقوں میں شامل ہونا چاہئے۔
یہ سال اقتصادی جہاد کا سال ہے۔ ملک کے انتظامی اور دفتری امور میں اقتصادی جہاد ایک خاص نکتے پر مرکوز ہے اور وہ یہ ہے کہ دشمن، اسلام اور اسلامی جمہوریہ سے مقابلہ کرنے کے لئے اقتصادی شعبے کو خاص طور پر نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے دیگر شعبوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے، ثقافتی شعبے، سیکورٹی کے شعبے، سیاسی شعبے اور دوسرے سبھی میدانوں میں بھی جہاں تک اس کےبس میں ہے ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اسے ہر دفعہ شکست ہوتی ہے مگر اس کی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم دشمن کی خاص توجہ اقتصادی امور پر ہے۔ عوام کو حکومت سے برگشتہ کرنے کے لئے، قوم کو اسلامی نظام سے دل برداشتہ کرنے کے لئے، شگاف اور خلیج پیدا کرنے کے لئے ان کی کوشش یہ ہے کہ ملکی معیشت کو مشکلات میں پھنسا دیں۔ لہذا اقتصادی جہاد ناگزیر ضرورت ہے۔ یعنی یہی پیکار اور یہی محنت مجاہدانہ انداز میں کرنا ہے، پوری طاقت و توانائی، پورے وجود، اخلاص عمل اور کام کی مکمل سمجھ اور ادراک کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اقتصادی جہاد کے سال کا یہی مفہوم ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں شعبوں میں اگر معاشی ادارے توفیق خداوندی سے اس مجاہدت کے پابند رہیں تو ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور اس میں عوام کی شراکت ہوگی۔
میں محنت کش طبقے سے پختگی اور درستگی کے ساتھ کام کی انجام دہی کی سفارش کروں گا۔ میں نے اس حدیث کو بارہا پڑھا ہے رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ کام کو پختگی کے ساتھ انجام دینے اور صحیح طور پر پایہ تکمیل تک پہنچانے والے پر اللہ کی رحمت نازل ہو!
ہمیں محنت کرنا چاہئے کہ ایرانی مصنوعات معیاری، پسندیدہ، خوبصورت اور ایرانی و غیر ایرانی صارفین کی نظر میں بیٹھ جانے والی مصنوعات ہوں۔ محنت کش طبقے، سرمایہ کاروں اور دیگر متعلقہ افراد کو اس کے لئے کمر ہمت کسنا چاہئے۔ اس کے لئے کچھ تیاریاں بھی لازمی ہیں۔ ممکن ہے فن اور ہنر کی تعلیم دینے کی ضرورت پیش آئے، ضروری مہارت پیدا کرنے کے لئے مشق کی ضرورت پیش آئے جو حکومتی اور نیم حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ہدف یہی ہونا چاہئے۔ جب ایرانی محنت کش اپنے ذوق اور اپنی مہارت و فن کو بروئے کار لاتا ہے تو سامان دیدہ زیب اور پرکشش تیار ہوتا ہے۔
ماضی میں ایرانی اپنے فن اور محنت سے جو فن پارے تیار کرتے تھے وہ آج بھی ہیں۔ اس کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی ایرانی فن اور ذوق بروئے کار لایا جاتا ہے، یہی محنت کش شخص جب اپنے ذوق اور مہارت کے ذریعے کام انجام دیتا ہے تو تیار ہونے والی چیز یادگار اور جاذب نظر بن جاتی ہے۔ آج بھی ملکی مصنوعات میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو غیر ملکی مصنوعات سے بہتر اور بعض بہت ہی بہتر پرکشش اور زیادہ مضبوط ہیں۔ اس خصوصیت کو ہمیں تمام مصنوعات میں پیدا کرنا چاہئے۔ خواہ وہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں، ملبوسات ہوں، ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں ہوں یا آرائشی اشیاء۔ جو چیزیں ہم تیار کر رہے ہیں ان سب میں ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے اور ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ محنت کش طبقہ، ڈیزائنر، انجینیئر، سرمایہ کار سب مل کر یہ مرحلہ طے کر سکتے ہیں۔ ہمیں پختہ ارادے کے ساتھ یہ کام کرنا چاہئے کہ ہمارے یہاں تیار ہونے والی اشیاء پائيدار، خوبصورت اور پرکشش ہوں۔ یہ ایک دراز مدتی کام ہے۔
میں پورے ملک کے عوام سے ایک بات ایرانی اشیاء کے استعمال کے سلسلے میں کہنا چاہوں گا۔ ہمارے معاشرے میں ایک بری عادت جو گزشتہ طاغوتی (شاہی) حکومت کے تاریک دور کی دین ہے، یہ ہے کہ کچھ لوگ غیر ملکی مصنوعات کے دیوانے ہیں۔ کبھی ایسا تھا کہ ملک کے اندر چیزیں نہیں بنتی تھیں، ایک زمانہ تھا کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی چیزیں استعمال کے لائق نہیں ہوتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس وقت ملک کے اندر تیار ہونے والی اشیاء بہت معیاری اور اچھی ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ ان کے کپڑے کسی مخصوص غیر ملکی برانڈ کے ہوں یا کھانے پینے کی چیزیں غیر ملکی برانڈ کی ہوں۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے جس کا علاج کیا جانا چاہئے۔ اس عادت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے بالکل غافل ہیں کہ ہم اس ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس ملک میں موجود الہی نعمتوں سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن اس ملک میں کمائے گئے پیسے کو ہم غیر ملکیوں کی جیب میں ڈال رہے ہیں اور ایرانی محنت کش کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کے مزدوروں سے بے اعتنائی برت رہے ہیں جو محنت کرکے یہ چیزیں تیار کر رہے ہیں۔ ہم تو بس غیر ملکیوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بہت بری عادت ہے۔
اقتصادی جہاد کے سال میں عوام کے اقتصادی جہاد کا ایک پہلو میری نظر میں یہی ہے کہ ملک کے اندر بننے والے سامان پر توجہ دیں اور ملکی مصنوعات کو استعمال کریں۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے اندر جو سامان تیار کیا جا رہا ہے وہ اطمینان بخش ہو، مضبوط ہو، پائيدار ہو، خریدار کو مطمئن کرنے والی کیفیت رکھتا ہو۔ یہ دونوں باتیں لازمی اور ضروری ہیں۔
اقتصادی جہاد کے سال میں حکام کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ کئی ایک ہیں۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے۔ پورے ملک میں معیشت کی بنیادی تنصیبات پر توجہ بہت ضروری ہے۔ اہل نظر اور ماہر افراد نے بیٹھ کر اس کا جائزہ لیا ہے اور چیزوں کی نشاندہی کی ہے۔ اب اس پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح صنعت، زراعت اور دیگر شعبے بھی بہت اہم ہیں۔ یہ سب بنیادی قسم کے کام ہیں اور جن کی انجام دہی جہاد فی سبیل اللہ کا درجہ رکھتی ہے۔
ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ اس ملک اور اس قوم کے ساتھ اللہ کا احسان اور لطف و کرم اس انداز کا ہے کہ بلا شبہ تمام رکاوٹیں یکے بعد دیگرے برطرف ہوتی جائیں گی اور ملک آگے بڑھے گا۔ ترقی ہماری قوم کا حتمی مقدر ہے۔ ملت ایران کے دشمن اپنی کوششوں سے در حقیقت خود کو پریشان کر رہے ہیں، خود کو غضب الہی اور دنیوی و اخروی خسارے میں مبتلا کر رہے ہیں، انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
اس وقت استکباری طاقتیں، استبدادی حکومتیں، انسان دشمن قوتیں، وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں کے سامنے رسوا ہو چکی ہیں اسلامی جمہوریہ کے مقابل صف آرا ہیں کہ انسانی و اسلامی شکوہ و عظمت کے اس مظہر پر وار کریں، اسے دوسروں کے لئے نمونہ نہ بننے دیں۔ وہ اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ انہوں نے ملت ایران کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی لیکن معاملہ الٹا ہو گیا۔ اس علاقے کے کتنے چکر لگائے، کتنی ملاقاتیں کیں، علاقے کے بد عنوان عناصر سے کتنی نشست و برخاست کی کہ ایران کو کسی صورت تنہا کر دیں لیکن مشیت خداوندی یہ تھی کہ اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران، اس علاقے میں ملکوں کے اندر رونما ہونے والے انقلابات، ان پر شکوہ اور سنسنی خیز عوامی تحریکوں کے نتیجے میں توجہ کا مرکز قرار پائے۔ آج زبانوں پر ایران کا تذکرہ ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ اس ملک پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، اس کا احترام بڑھ گیا ہے۔ یہ طاقتیں اس کا برعکس منظر دیکھنا چاہتی تھیں۔
امریکی حکومت جو انسانیت اور انسانی حقوق کے خلاف کارروائیاں کرنے والی بدترین حکومت ہے اسلامی جمہوریہ کو الگ تھلگ اور تنہا کرنا چاہتی تھی۔ گزشتہ سال امریکی صدر نے مصر میں عالم اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے تقریر کی اور بخیال خود اپنی پرکشش باتوں سے دلوں کو مائل کرنے اور علاقے میں امریکہ کی آبرو بچانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج اس علاقے میں قوموں کی نگاہ میں سب سے نفرت انگیز حکومت امریکی حکومت ہے۔
یہ فطری چیز ہے۔ اگر کوئی قوم اللہ کا نام لیکر، اللہ کے لئے، اللہ کی راہ میں چلتے ہوئے بلند الہی اہداف کی سمت بڑھنا چاہتی ہے تو اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔ آج ہماری قوم بحمد اللہ اس حقیقت کی مصداق ہے۔ ہمارے حکام، ہمارے عوام، ہماری حکومت سب زحمتیں برداشت کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ اس ملک میں الہی اہداف کے لئے کام ہو رہا ہے لہذا اللہ تعالی بھی مدد فرما رہا ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو بندگان خدا کے خلاف، راہ خدا کے خلاف اور الہی اہداف کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ان کا انجام یقینا برا ہوگا۔ ممکن ہے چند روز ان کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں للباطل جولہ باطل کے جولان کا بھی ایک دور ہوتا ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں حاصل ہوتا۔ اگر کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو یہی جو آج دشمنوں، مخالفوں اور استکباری طاقتوں کے سامنے ہے۔ انشاء اللہ اس علاقے کا مستقبل اس کے زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا اور انشاء اللہ اسلام کی راہ میں قوموں کی بلند ہمتی اور پیش قدمی سے الہی فضل و کرم کی بارش جاری رہے گی۔
ہمیں اللہ سے یہ دعا کرنا چاہئے کہ ہمیں یہ راستہ طے کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری مدد فرمائے کہ ہم اپنی اس نیت کو، اس اخلاص عمل کو اور اپنی اس سمت کو اپنے آئندہ سفر میں بھی قائم رکھ سکیں اور ہمیشہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی دعا کرتے رہیں۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی توجہات اور دعائیں ہمارے شامل حال رہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہیدوں پر اپنے لطف و کرم کا سایہ رکھے۔ ان شہیدوں اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته