تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے

بسم‏اللَّہ‏الرّحمن‏الرّحیم‏
الحمد للَّہ ربّ العالمین. نحمده و نستعینہ و نتوّکل علیہ. نؤمن بہ و نستغفرہ و نصلّی و نسلّم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ و حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ. بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ. سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی‏القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الأطیبین الأطہرین المنتجبین المعصومین. سیّما بقیۃّ اللَّہ فی الارضین و صلّ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ہداۃ المؤمنین.

اپنے تمام نمازی بھائیوں اور بہنوں سے تقاضہ ہے کہ ان متبرک شب و روز کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں جو مومنین کے لئے اس مہینہ میں پروردگار عالم نے بوفور مہیا کر دی ہیں، قرب خدا کے حصول، اپنے رویے اور گفتار میں خدا کو حاضر و ناظر جاننے اور راستہ کے کانٹوں سے بچنے، غلطیوں سے گریز اور جہاں جہاں نفس انسانی کے مقابلے میں استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہو، سب کو اور خود کو الہی تقوا اختیار کرنے کی سفارش کرتا ہوں. انسان کو چاہیے کہ وہ خدائے تعالی کے عطا کردہ ان تمام وسائل کی طرف متوجہ رہے جو اس نے غلطیوں سے بچنے کیلئے عطا کر رکھے ہیں. اس نے یہ وسیلے اسی لۓ عطا کئے ہیں کہ انسان اپنی حفاظت کے ساتھ ہی ساتھ منزل مقصود سے نزدیک ہو سکے اور آخری منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان تمام وسائل سے بھی استفادہ کرے جو اس نے مومنین کے اختیار میں قرار دئیے ہیں. ان امور کا خیال رکھنا تقوا ہے. جیسا کہ آپ نے بارہا سنا ہے کہ ماہ رمضان کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ہم تقوا اختیار کریں «لعلّکم تتّقون(1)» جب میں ماہ رمضان کے ان خاص اعمال کو دیکھتا ہوں جن پر شریعت مقدسہ میں خاص تاکید کی گئی ہے جیسے روزے، تلاوت قرآن مجید، ماثورہ دعائیں اور وہ توسلات جو خود حضرت باری تعالی نے معین فرمائے ہیں. میں دیکھتا ہوں ان چار عنصر میں سے جن میں ماہ رمضان کے روزے بھی شامل ہیں، ہمارے لئے جو چیز بہت اہم ہے؛ وہ استغفار اور طلب مغفرت ہے. اعمال جہالت، قصور یا خدا نخواستہ ہم سے جان بوجھ کر سر زد ہوئے ان کی بخشش کے تقاضے ہیں.
گذشتہ سال ماہ مبارک رمضان میں ہم نے توبہ اور استغفار کے بارے میں تفصیل سے اپنی معروضات پیش کی تھیں. آج توبہ و استغفار کے بارے میں دوبارہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فکری بحث کی جائے گی، ہم شبہای قدر کے نزدیک ہونے اور ان باعظمت راتوں میں استغفار کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے.
اے عزیز بھائیو اور بہنوں! پہلا قدم خدائے تعالی سے مغفرت طلب کرنا اور خدا کی طرف لوٹنا ہے، توبہ یعنی خدا کی طرف لوٹنا! آپ جہاں بھی ہوں، کمال کے جس درجہ پر بھی ہوں، حتی اگر امیرالمؤمنین علیہ‏الصّلاة والسّلام کے مقام پر بھی ہوں، تب بھی آپ کو استغفار کی ضرورت ہے. خدائے تعالی پیغمبر سے فرماتا ہے: «و استغفر لذنبک »،(2) «فسبّح بحمد ربّک و استغفره(3)».
قرآن میں خداوند پیغمبر سے بارہا ارشاد فرماتا ہے: کہ استغفار کرو اور با وجود اس کے کہ پیغمبر جو معصوم ہیں اور نہ گناہ کرتے ہیں نہ ہی خدا کے حکم کی نا فرمانی ، پھر بھی ان سے فرماتا ہے کہ استغفار کرو. البتہ یہ کہ اولیاء اور بزرگوں کا استغفار کیا ہے؟ یہ خود ایک بڑا قابل بحث نکتہ ہے. ان کے استغفار جن گناہوں سے ہیں وہ ہمارے جیسے لوگوں کے گناہوں کی مانند نہیں ہیں، یہ گناہ ان سے سر زد نہیں ہوتے ہیں. ان کا مقام اونچا ہے. حضرت رب العزت کی درگاہ میں قرب خدا میں ان کا درجہ بہت ہی اعلی ہے۔ اس مقام پر کبھی کچھ چیزیں جو ہمارے لئے جائز ہیں، حتی بعض چیزیں جو بمارے لئے مستحب ہیں، ان بزرگوں کے لئے نامناسب ہیں، وہ (استغفار) اس شان و منزلت کے مطابق ہے، یہ ایک سچا استغفار ہے صرف ظاہری طور پر توبہ توبہ کرلینا نہیں.
دعائے کمیل ہی کو دیکھیں! دعائے کمیل میں امیرالمؤمنین علیہ ‏الصّلاة و السّلام استغفار سے ہی شروعات کرتے ہیں، روایات کے مطابق یہ دعا حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے منسوب ہے۔ سب سے پہلے خدا کو اس کے نام، طاقت، عظمت، جمالی و جلالی صفات کی قسم دیتے ہیں اور ان تمام قسموں کے بعد استغفار کرنا شروع کرتے ہیں «اللّھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم»(4) اور دعا کے آخر تک یہی سلسلہ قائم ہے. دعائے ابو حمزہ ثمالی نیز ان بزرگ ہستوں سے منقول دیگر دعائیں بھی اسی طرح ہیں. ہم اور آپ بھی استغفار کے محتاج ہیں. اے مومنو! عزیزو! اے پاک و صاف دل والو! خدا نخواستہ غرور تکبر میں مبتلا نہ ہو جانا اور نہ کہنا کہ ہم نے تو گناہ ہی نہیں کیا ہے کیوں نہیں؛ ہم قصور وار ہیں، سراپا تقصیر ہیں «و ما قدر اعمالنا فی جنب نعمک»(5)، وہ نیک کام جو ہم اپنے خیال میں انجام دیتے ہیں؛ خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور ان نعمتوں پر اس کے استحقاق شکر کی نسبت ان کی کیا حیثیت ہے؟! کس قدر قابل ذکر ہے؟ ہم اس کا شکر ادا ہی نہیں کر سکتے؛ «لا الذی احسن استغنی عن عونک»(6) کیا انسان کسی بھی لمحہ خدا کے فضل و کرم سے بے نیاز ہو سکتا ہے؟ ہمیشہ محتاج ہیں، ہمیشہ خدا کا کرم شامل حال ہے: خیرک الینا نازل(7)». ہم بھی شکر ادا کرنے سے عاجز ہیں اور یہ قصور یا تقصیر ہے۔ بہر حال طلب مغفرت کی ہمیں ضرورت ہے.
شب قدر مغفرت طلب کرنے اور معافی مانگنے کا مناسب موقع ہے، خدا سے معذرت خواہی کریں، اب جب کہ خدائے تعالی نے ہمیں اور آپ کو یہ موقعہ دیا ہے کہ اس کی طرف لوٹ جائیں تو مغفرت طلب کریں اور اس سے معذرت خواہی کریں. یہ کام فی الفور کر ڈالیں ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ خدا مجرموں سے فرمائے گا: «لایؤذن لھم فیعتذرون(8)». (خدا نخواستہ) قیامت کے دن ہمیں توبہ کا موقعہ نہیں مل سکے گا. مجرموں کو معذرت خواہی کے لئے زبان کھولنے کی اجازت ہی نہ ہوگی، وہاں معافی مانگنے کی جگہ نہیں ہے. یہاں تو موقع و محل ہے، یہاں تو اجازت ہے، یہاں تو معافی مانگنا آپ کے مرتبہ کو بلند کرتا ہے، گناہوں کو پاک کرتا ہے، آپ کو نورانی اور پاک کر دیتا ہے. خدا سے معافی مانگیں اور اس موقعہ سے استفادہ کرتے ہوئے خدا، اس کے لطف و کرم، اس کی نگاہ محبت کو اپنے شامل حال کر لیں. «فاذکرونی اذکرکم(9)»؛ مجھے یاد کرو تا کہ میں بھی تمہیں یاد کروں.
جس لمحہ آپ خدا کی یاد کو اپنے دل میں تازہ کر لیں گے اور اپنے دل کو خدا تعالی کی طرف متوجہ کریں گے اور خدا کو یاد کریں گے، اس لمحہ خداوند تعالی کا لطف و کرم و نگاہ بخشش آپ کی طرف ہوگی. کوشش کریں کہ اللہ آپ کو یاد رکھے اور کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ خدا کا خطاب گنہگاروں سے ہو کہ «انّا نسیناکم(10)»؛ ہم نے تم کو فراموش کردیا، ہم نے تم کو بھلا دیا، جاؤ! قیامت کا منظر ایسا ہے ( تو ہم بھی انہی گنہگاروں میں شامل ہوں).
آج جبکہ خدا تعالی نے اجازت دے دی ہے کہ آپ گریہ و زاری کے ساتھ اپنا دست نیاز اس کی جانب دراز کریں، اس سے اظہار عقیدت کریں، دل کی گہرائی سے نکلنے والے عقیدت و محبت کے آنسو اپنی پلکوں پر سجائیں تو اس موقعہ کو غنیمت جانیں ورنہ ایسا دن بھی ہے کہ خدا تعالی مجرموں سے فرمائے گا: «لاتجأروا الیوم(11)»؛ جاؤ، گریہ و زاری مت کرو، اب فائدہ نہیں ہے «انّکم منّا لاتنصرون(12)». خدا کی طرف لوٹ سکنے کیلئے یہ موقعہ صرف اسی زندگی میں ہمارے اور آپ کی لئے میسر ہے اور پورے سال میں بہترین موقعہ ماہ مبارک رمضان اور اس میں بھی شب قدر ہے! شب قدر بھی ان تین شبوں میں سے ایک ہے. مرحوم محدث قمی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ سؤال کیا گیا کہ ان تین شبوں میں کون سی شب شب قدر ہے؟ جواب میں فرمایا: کس قدر آسان ہے کہ انسان صرف دو راتوں یا تین راتوں کو شب قدر فرض کرے، کیا ضرورت ہے کہ ان تین شبوں میں شک و شبہے کا شکار ہو؟ ایسے بھی لوگ تھے جو پورے ماہ رمضان کو اول سے آخر تک شب قدر تصور کرتے تھے اور اعمال شب قدر انجام دیتے تھے، اس کی قدر جانیں!
جو قوم اپنے دلوں کو خدا کی بارگاہ میں اس طرح شفاف بنا لے کہ خانہ خدا میں جائے اور سچائی کے ساتھ اسی کی پناہ میں التجا کرے، وہ کبھی بھی بدبخت و روسیاہ نہ ہوگی؛ فساد، ذلت، دشمن اور داخلی اختلافات کا شکار نہ ہوگی. ان میں سے جو بھی پریشانیاں قوموں پر نازل ہوتی ہیں صرف ان ہی کوتاہیوں، غفلتوں، گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جو ہم لوگ انجام دیتے ہیں. جو بھی خانۂ خدا میں جاتا ہے، اپنے آپ کو ایک قدم عصمت اور پاکیزگی سے قریب کر لیتا ہے.
خدا کی پناہ میں آ جائیں، خدا سے درخواست کریں، خدا کیلئے کام کریں، اسی کے لئے قدم اٹھائیں اور اپنے دلوں کو خدا کے سپرد کر دیں. خدا کی یاد کے ذریعہ اپنے دلوں کی رونق بڑھائیں، جب دل پر رونق ہو جائیں؛ جب دل دنیا سے بیزار ہو جائیں اور مادیات اور دنیا سے وابستگی ختم کر لیں تو اس وقت معاشرہ حقیقتاً ایک مثالی نورانی اور پاک معاشرہ بن جائے گا. اس معاشرہ کے لوگ محنت اور لگن سے کام اور جفاکشی کرتے نظر آئیں گے، اپنی دنیا بھی اچھی بناتے ہیں. دنیا سے عدم دلچسپی کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کی تعمیر و ترقی سے منہ پھیر لیں، دنیا کو آباد کرنا خدا کیلئے اور آخرت کیلئے ہے، جو چیز مادی زندگی کو آباد کرتی ہے وہی خدا کی ہدایات ہیں اور یہ ایک اخروی عمل ہے جو خدا کی یاد میں انجام پائے تو شیریں ہوتا ہے اور بہترین انداز میں انجام پاتا ہے.
ان ایام کی قدر و منزلت سے آگاہ رہیں، حقیقتاً شب قدر کی قدر کریں، قرآن صریحی طور پر کہتا ہے: خیر من الف شہر (١٤) ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے. یہ بہت ہی اہمیت والی شب ہے. اس رات میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں، روح نازل ہوتی ہے، اس رات کو خدائے تعالی نے سلام کی شب قرار دیا ہے، سلام کے معنی خدا کا سلام و درود انسانوں پر نازل ہوتا ہے اور عوام کے دلوں، جانوں، جسموں اور معاشروں کے درمیان صلح و سلامتی اور محبت پیدا کرتا ہے. معنوی اعتبار سے بھی یہ ایسی رات ہے! اس شب کی قدر کریں اور اپنے مسائل، ملکی مسائل، مسلمانوں کے مسائل اور اسلامی ممالک کے مسائل کے حل کے لئے دعا کریں.
اسلامی ممالک کس قدر مشکلات میں مبتلا ہیں! خدا سے ان مشکلات کے حل کی دعا کریں.تمام انسانوں کیلئے دعا کریں، ان کی ہدایت کیلئے دعا کریں، اپنے لئے، اپنی زندگی کیلئے، اپنے ذمہ داروں کیلئے، اپنے ملک کیلئے، اپنے اس دنیا سے گذرے ہوئے لوگوں کیلئے اور جو چیز آپ کی خواہش ہے، خدا سے طلب کریں کہ آپ کو عطا فرمائے. ان لمحوں اور گھڑیوں کی قدر کو سمجھیں. میں بھی آپ سب عزیز بھائیوں اور بہنوں سے دعائے خیر کا متمنی ہوں.
چند دعائیہ جملے عرض کرتے ہیں، ظہر کا وقت ہے انشاء اللہ خداوند عالم ہماری دعا قبول فرمائے گا:
نسألک اللّھم و ندعوک باسمک العظیم الاعظم الاعّز الاجل الاکرم یا اللَّہ. پروردگارا! ہم سب کو لیلۃ القدر کے درک و فہم میں کامیاب فرما. لیلۃ القدر کو ہمارے لئے ہزار مہینوں سے بھی بہتر قرار دے، ہماری دعاؤوں کو اس شب قدر میں مستجاب فرما، ہمارا سلام و درود اس وقت اور شب قدر میں ہمارے ولی حضرت امام زمانہ بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی خدمت میں پہنچا، ہم کو اس مبارک شب میں ان بزرگوار کی دعاؤوں میں شامل فرما، پروردگارا ایرانی قوم کو معزز قرار دے، اسلامی احکام کو پوری دنیا میں نافذ اور حاکم فرما، اسلام دشمنوں؛ ایران دشمنوں؛ قوم کے دشمنوں اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کو سرنگوں فرما، پوری دنیا میں تمام انسانوں کو حق کی جانب بڑھنے کی توفیق عطا فرما. پروردگارا! ہماری قوم میں اخوت اور صلح و دوستی کے رشتوں کو مضبوط و مستحکم کر.
پروردگارا! ہمارے عزیز شہیدوں کو عالی ترین درجات عطا کر اور انہیں اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما.
پروردگارا! اس دنیا سے گزر جانے والے لوگوں، والدین اور مستحق لوگوں کی ارواح کو اپنی مغفرت سے نواز.
پروردگارا! عوام کی پریشانیاں، خصوصی پریشانیاں، عمومی اور معاشرتی پریشانیاں اپنے کرم سے رفع فرما. اس قوم کے چہروں کو خوشیوں کے نور اور معنویت کی درخشندگی سے روشن کر دے. پروردگارا! ہمارا رشتہ قرآن و اسلام سے روز بروز مستحکم اور گہرا بنا دے اور ہم کو اسلامی احکام کا قدر داں، انقلاب کا قدرداں اور آیات قرآن کا قدرداں قرار دے.

بسم‏اللَّہ‏الرّحمن‏الرّحیم‏
الحمدللَّہ ربّ العالمین. والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم محمّد و علی آلہ الأطیبین الأطہرین المنتجبین. سیّما علی امیرالمؤمنین و الصدّیقۃ الطّاہرۃ سیّدة نساءالعالمین و سبطی الرحمۃ الحسن و الحسین، سیّدی شباب اہل‏الجَنہ و علی‏ بن‏الحسین زین ‏العابدین و محمّد بن ‏علی ‏الباقر و جعفر بن ‏محمّد الصّادق و موسی ‏بن ‏جعفر الکاظم و علی ‏بن ‏موسی ‏الرّضا و محمّد بن‏ علی ‏الجواد و علی بن‏ محمّد الہادی و الحسن‏ بن ‏علی ‏الزّکی العسکری و الحجۃ القائم ‏المہدی. حجک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ہداۃ المؤمنین. اوصیکم عباد اللّہ بتقوی اللہ‏

پہلے میں تمام عزیز نمازی بھائیوں اور بہنوں سے کردار، گفتار، رفتار، افکار اور تمام انسانی احساسات و جذبات میں، تقوا اپنانے کی سفارش کرتا ہوں.
اپنا اصل مدعا بیان کرنے سے قبل دو تین باتیں مختصراً عرض کروں گا۔ ان میں سے ایک پاکستان میں افسوسناک اور ہولناک واقعہ ہے جس میں کچھ مسلمانوں اور مومنوں کو شیعہ ہونے کے جرم میں ایک کینہ پرور گروہ کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا. ایک تلخ سانحہ ہے. البتہ پاکستانی حکومت کے ذمہ داروں نے بارہا ہم سے کہا ہے اور وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ ماضی کے واقعات کی تحقیق اور چھان بین کریں گے؛ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اپنے پاکستانی دوستوں کے وعدوں پر اعتماد کریں. ہمیں امید ہے کہ یہ کام پوری تندہی سے انجام پائے گا. مجھے شک نہیں کہ یہ مسائل ایران و پاکستان کے تعلقات سے مربوط ہیں اور در حقیقت ان تعلقات کے دشمنوں کے ہاتھ ان جرائم سے آلودہ ہیں. ان کے خلاف شدت سے کارروائی ہونی چاہئے ورنہ خدا نخواستہ کوتاہی کی صورت میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے دفاع کی خاطر مجبور ہونگے کہ اسلحہ اٹھائیں اور پھر حالات بہت خطرناک موڑ لے سکتے ہیں. ان حالات میں حکومت کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کو چاہئے کہ وارد عمل ہو اور کسی کا کوئی لحاظ کئے بغیر مجرم کو کڑی سزا دے اور اپنی حکومتی طاقت کو بھی مزید مستحکم کرے.
دوسرا مسئلہ الجزائر کے واقعات کا ہے۔ یہ بھی بہت تلخ اور غمناک واقعات ہیں. البتہ دنیا میں بہت لوگ ہیں جو الجزایر کی حکومت کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں. ہم اس بارے میں کوئی حتمی اظہار نظر نہیں کرنا چاہتے لیکن اس میں شک نہیں کہ ایک حکومت اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے. یہ ایک بد ترین، عجیب اور انتہائی تلخ واقعہ ہے۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے گذشتہ زمانے میں ایسا کوئي واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی ملک میں ایک مختصر عرصہ میں سینکڑوں بے گناہ افراد کو وحشیانہ طور پر جان سے مار دیا جائے جن میں عورتیں، بچے اور مرد شامل ہیں اور وہ سب ایک ہی سیاسی گروہ سے وابستہ ہیں، ان کے سر کاٹ دئیے جائیں اور حکومت دعوی کرے کہ وہ قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی.
البتہ عالمی تنظیمیں اور وہ لوگ جو ہمیشہ انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں اور جیسے ہی دنیا کے کسی بھی گوشے میں ایک مغربی یا ان سے وابستہ فرد پر کوئی آنچ آ جائے ان کی فریاد بلند ہو جاتی ہے، آج ان مسائل میں سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ مظلوم واقع ہوئے ہیں وہ ان کے خیمے میں شامل نہیں ہے! یہ بھی تعجب کی بات ہے. اسی سے ملتا جلتا واقعہ دو یا تین سال قبل بوسنیا ہرزگووینا میں دیکھا گیا ہے. خود یہ المیہ بہت عجیب ہے کہ دنیا میں جس پر ظلم ہو اگر وہ استکباری طاقتوں سے وابستہ ہو تو تہلکہ مچ جاتا ہے اور اگر مظلوم کی ان سے وابستگی نہ ہو یا ان کا مخالف ہو تو سکوت اختیار کرلیں گے۔ حتی ستمگر اور ظالم کی مدد، تعریف و پرچار بھی کریں گے. دنیا کے عجیب حوادث میں سے ایک یہی واقعہ ہے جس پر انشاءاللہ بعد میں روشنی ڈالوں گا. ہم ان حوادث، سکوت اور خاموشی کی شدت سے مذمت کرتے ہیں.
تیسرا موضوع یوم قدس کا ہے. انشاء اللہ اگلا جمعہ ماہ رمضان کا آخری جمعہ (جمعتہ الوداع) ہے. ایرانی عوام یوم قدس کے بانیوں کی حیثیت سے ان اس پروگرام کو اس انداز سے عملی جامہ پہنائیں جو دوسری قوموں کیلئے نمونہ عمل قرار پائے کیونکہ ہر سال دنیا بھر میں حتی یورپ اور دوسری جگہوں پر آپ کی پیروی میں لوگ یوم قدس مناتے ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ اس پرچم کو روز بروز بلند سے بلند تر کریں تا کہ دنیا بھر میں لوگ اس سے استفادہ کر سکیں.
جس بنیادی موضوع کی طرف میں آج اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور جو مہینے کے پہلے جمعہ کے خطبہ میں کسی اور مناسبت اور برفباری کی بنا پر بیان نہ ہو سکا اور اب اسی سلسلے میں کچھ جدید مسائل بھی پیش آ گئے ہیں جس کی بنا پر اس موضوع پر گفتگو کو جاری رکھوں گا، وہ موضوع ایران و امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے گذشتہ دو ہفتوں میں شدید پروپگنڈا کا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے.
جیسا کہ گذشتہ خطبے میں اس موضوع کی جانب اشارہ کر چکا ہوں بیشتر امریکی ادارے اور ان کے پیروکار ایک تشہیراتی مہم کے تحت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایک جھوٹ کو سچائی کی شکل میں پیش کرکے کسی اور حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، میں اس بارے میں گفتگو کروں گا.
البتہ یہ تشہیراتی مہم اکثر غیر ملکی ذرایع ابلاغ کی طرف سے ہے لیکن ایران میں بھی منعکس ہوتی ہے اور بعض لوگ انقلاب کے اتنا پابند نہیں ہیں جن کی توقع ہمیں ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں سے ہے، افسوس کہ بعض داخلی نشریاتی ادارے ایرانی قوم کے دشمنوں اور انقلاب دشمن عناصر کی پالیسیوں، استکباری ایجنٹوں اور امریکہ کے مقاصد کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.
جو چیز ان لوگوں نے اچھالی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں نظر ثانی کرنا چاہتا ہے اور اس کا بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، بالکل بے سروپا باتوں کی تشہیر کی جا رہی ہے. البتہ ایرانی قوم کے بارے میں ان کے عزائم بہت ہی خطرناک ہیں. وہ اپنے عزائم کے حصول میں مصروف ہیں لیکن ہم کو چاہئے کہ دشمن کی سرگرمیوں کو پہچانیں حتی اگر ہم اس کے خلاف کوئی کام نہ بھی کرنا چاہتے ہوں پھر بھی ہمیں اس کا علم ضرور رہنا چاہئے. ہمیں کبھی بھی اپنے دشمن کو اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہمارے ملک ایران، ہماری قوم اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف جو دل چاہے پروپگنڈا کریں، یا جو دل چاہے کریں اور ہم سکوت اختیار کئے رہیں. یہ تو نہیں ہو سکتا! ضروری ہے کہ دشمن کے عزائم واضح کئے جائیں.
البتہ بعض ذرائع ابلاغ میں کچھ عہدیداروں کی طرف سے صحیح باتیں بھی ہوتی ہیں، کل رات میں نے دیکھا کہ محترم وزیر خارجہ انٹرویو دے رہے ہیں اور بڑی اچھی باتیں بیان کر رہے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے کہ صحیح باتیں بالکل بیان نہیں کی جاتیں لیکن میرا بھی فریض بنتا ہے کہ جو حقیقت ہے وہ قوم کے گوش گزار کروں.
اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی بعض مسائل پیش آ چکے ہیں۔ خصوصاً جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد ہوا تھا اس کا آج کی صورت حال سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا. اس وقت بھی بڑا شور شرابا ہوا تھا۔ حتی ہمارے اخبارات نے بھی مقالے لکھے اور بعض مخالف اور کینہ توز افراد نے دعوے بھی کئے اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے زمانے کی پالیسی کو ہدف تنقید بنانے کی کوشش بھی کی لیکن الحمد للہ قوم کے موقف نے ان کی نکیل کس دی. البتہ اس دفعہ شور شرابا بہت ہے اور وسیع پیمانہ پر انجام دیا جا رہا ہے۔ ان تمام ہنگاموں کی جڑ غیر ملک میں ہے، وہی لوگ ہیں. اس وقت بھی صورت حال یہی تھی اب بھی یہی ہے، پہلی سے زیادہ وسیع پیمانے پر.
جس چیز کو ان لوگوں نے بنیاد قرار دیا ہے وہ ہمارے صدر محترم کا گذشتہ ہفتہ کا انٹرویو ہے. یہ بھی واقعی بڑا ظلم ہے ایرانی قوم پر اور صدر محترم پر بھی! حقیقت کو چھپانا۔ جن چیزوں کو عوام کی نظروں سے دور رکھنا چاہتے ہیں واقعی عجیب ہے. میں پہلے ہی عرض کر دوں کہ اس انٹرویو میں ہمارا اصولی موقف امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں بیان ہوا ہے. جو چیز بھی ضروری تھی بیان ہو گئی. خود میں نے توجہ سے انٹرویو سنا، جو کچھ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے ضروری تھا؛ کہا گیا. امریکہ سے تعلقات کے بارے میں جو کچھ ضروری تھا؛ کہہ دیا گیا. جو کچھ اسرائیل اور فلسطینی مجاہدوں اور داخلی مسائل کے بارے میں ضروری تھا کہ بیان کیا جائے؛ بیان ہو گیا. میں نے دعا کی ان کیلئے بھی اور وزیر خارجہ کیلئے بھی اور ان دیگر عہدیداروں کے لئے بھی جنہوں نے بڑا اچھا موقف اختیار کیا. ممکن ہے کہ بعض چیزیں ذاتی پسند اور انداز بیان سے متعلق ہوں، ان کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے! جو چیز بنیادی اور اہم تھی وہ یہی مسائل تھے جو مذاکرات، تعلقات اور صیہونی حکومت سے متعلق ہیں، جو بخوبی بیان ہو گئے. اب اگر دشمن ان باتوں کو ماننے سے انکار کرے جو اس کے مزاج کے مطابق نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ آخر کار وہ دشمن ہے. ہمیں دشمن سے کیا توقع ہے؟ ہمیں چاہئے کہ خود سمجھ جائیں کہ دشمن کا مقصد اور نیت کیا ہے؟!!!
میں آپ بھائیوں اور بہنوں کو بتاتا چلوں کہ پروپیگنڈے کے پیچھے امریکیوں کے اغراض و مقاصد اور دنیا میں ہمارے مخالفین کے مفادات کیا ہیں؟ یہ جو وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے؛ ایران تدریجاً امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، ان باتوں سے ان کا مقصد کیا ہے؟ یہ کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے مخالفین کیا چاہتے ہیں؟ جو چیز مسلمہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کے خیر خواہ نہیں ہیں؛ یہ تو واضح ہے. انقلاب آئے انیس سال ہو گئے، اب تک امریکی حکومت، امریکی ذرایع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات سے جتنا ہوسکا ہے جھوٹ بولا گیا ہے، ملت ایران کو ضرب لگانے کی کوشش کی گئی، پشت میں خنجر گھونپا گیا۔ توہین، خیانت اور نقصان پہنچایا گیا ہے. آٹھ سالہ جنگ کے دوران اقتصادی مسائل میں ایک جگہ بھی ہمارے مفاد کیلئے کام نہیں کیا اور ابھی بھی یہی سلسلہ ہے. اب سوال یہ ہے کہ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ میں مختصر عرض کرتا ہوں، آپ اس پر سوچئے! خصوصاً آپ تعلیم یافتہ نوجوان، طلباء، دینی طلبہ، ذرا غور و فکر کریں کیونکہ یہ مسائل اہمیت کے حامل ہیں، انہی بظاہر چھوٹی چیزوں سے قوموں کی تقدیر بنتی اور بگڑتی ہے. اگر اس موقع پر عوام، نوجوان، ذمہ دار اور دوسرے لوگ صحیح طریقہ سے نہ سمجھیں گے کہ حقیقت کیا ہے تو ممکن ہے ایک ایسا باب کھل جائے جو خدا نخواستہ سب چیزوں کے فنا پر ختم ہوگا. عموماً ایسا ہی ہوتا ہے لہذا یہ بہت اہم ہے اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہے.
ان کے مقاصد کیا ہیں؟ امریکی حکومت اور خبر رساں اداروں کا مقصد ان خبروں سے کیا ہے کہ وہ مستقل کہہ رہے ہیں کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے؟!!! ان کے مد نظر چند چیزیں ہیں، ایک تو یہ کہ ہماری قوم آج تک جس وسیلہ سے اتحاد و وحدت پر قائم تھی اسی کو قوم کے اختلافات کا باعث بنا دیں! قوم کے تمام افراد بخوبی واقف ہیں کہ امریکی حکومت ان کی دشمن ہے اور امریکہ کی دشمنی کے مقابلے میں اپنے باہمی معمولی اختلافات کو بھلا کر متحد ہو جاتے ہیں. امریکہ سے مقابلہ ملت کی وحدت کا ایک وسیلہ تھا۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی مذموم حرکتوں کے ذریعہ اس وسیلہ کو اختلاف کے ذریعے میں تبدیل کر دیں. اس کو اس کے خلاف، اس کو اس کے خلاف، یہ کہے مذاکرات، وہ کہے مذاکرات کا کیا فایدہ؟ دوسرا کہے مذاکرات کے کیا نقصانات ہیں؟ کچھ لوگ ادھر سے بحث کریں اور کچھ لوگ ادھر سے بحث کریں اور یہ لوگ اس عظیم ملی اتحاد کو جو دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوے ہیں، ایرانی قوم کے اختلاف میں تبدیل کر دیں.
دوسرا ہدف یہ ہے کہ اس مسئلہ (امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات اور تعلقات) کو مکرر بیان کرکے جس مسئلہ کو ایرانی قوم منطقی دلایل کی بنیاد پر ایک بدترین چیز سمجھتی ہے، اس کی قباحت کو ختم کر دیں اور حتی نماز جمعہ میں بھی اسے بیان کیا جا سکے. میں ان منطقی دلایل کو بھی بیان کروں گا. وہ چاہتے ہیں کہ اس کی قباحت ختم ہو جائے جیسا کہ اسرائیل اور عربوں کے مسئلے میں انہوں نے کیا.
ایک دن تھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے ساتھ گفتگو یا رابطے کی بات کو بھی ناقابل برداشست سمجھتی تھیں اس کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں. انہوں نے ان مسائل کو ان کے سامنے رکھا اور ایک ایک کرکے ان کو عرب قوم کی صفوں سے باہر نکال لیا اور آخر اس کا سہرا بھی انہی لوگوں کے سر باندھ دیا. بتدریج ایسا کر دیا کہ اس مسئلے کی قباحت اور کراہت ختم ہو گئی اور جو حکومتیں حتی اسرائیل کی پڑوسی بھی نہ تھیں اور انہیں اسرائیل سے کوئی خطرہ بھی نہیں تھا وہ بھی گرچہ اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں پھر بھی اسرائیل سے مذاکرات کی بات کر رہی ہیں. واقعی اس کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن وہ ایسا کر رہے ہیں کیونکہ اس کی قباحت و کراہت ختم ہو چکی ہے.
ایرانی قوم محکم دلایل اور منطقی استدلال کی بنیاد پر امریکی حکومت کو اپنا دشمن سمجھتی ہے؛ اس بارے میں بعد میں اشارہ کروں گا. پوری دنیا کی قومیں بھی ایرانی قوم کے بارے میں اسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں اور سر تعظیم خم کرتی اور نگاہ احترام سے اسے دیکھتی ہیں. وہ تدریجاً اس کراہت و قباحت کو ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ یہ مسئلہ بھی غیر اہم اور معمولی نظر آئے.
ان کا تیسرا مقصدق: دراصل ایران کے ساتھ مذاکرات امریکہ کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہیں. ممکن ہے کہ بعض لوگ تعجب بھی کریں کہ ایران میں ایسی کون سی بات ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے لئے یہ اہم ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے؟!!! جی بالکل بہت اہم ہے، چونکہ سپر پاور ہے لہذا اس کے لئے بہت اہم ہے، سپر پاور یعنی دنیا کی دیگر سیاسی طاقتوں سے بالاتر طاقت ہے اور اپنے فیصلوں کو دوسروں پر مسلط کر سکتی ہے.
ایک دن دنیا میں دو سپر پاورز تھیں امریکہ اور روس؛ دونوں کے اپنے اثر رسوخ والے علاقے تھے؛ جو دل چاہتا تھا اور ج بھی کر سکتے تھے کرتے تھے. حتی امریکہ نے یورپ میں اپنے میزائیل (کروز وغیرہ) بھی نصب کر رکھے تھے اور بے چارے یورپی بھی کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ روس کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا چاہتے تھے. روس بھی اپنے زیر اثر علاقوں میں اسی سے ملتی جلتی سیاست کا حامل تھا. آج جب سابقہ سوویت یونین کا خاتمہ ہو چکا ہے تو امریکہ سب سے بڑا دعویدار بن گيا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا میں یک قطبی نظام وجود میں آ جاۓ۔ ایک سپر پاور جو دنیا نامی بڑی سلطنت پر حکومت کرے! یہ جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں امریکی سیاستداں اسے بیان کرنے سے شرم بھی نہیں کر رہے ہیں۔ امریکی نشریات میں سیاسی فکری مقالات اسی مضامین کے چھپتے ہیں. میں نےتقریباً ایک ماہ قبل ایک امریکی جریدے میں دیکھا کہ ایک مشہور سیاسی مصنف نے دنیا کو مخاطب کر کے پوچھا : اس میں کیا برائی ہے کہ دنیا ایک واحد سلطنت کی صورت میں ہو اور امریکہ اس پر حکمرانی کرے؟!!! امریکہ ایسا ہے، امریکہ ویسا ہے؛ ان لوگوں کا در حقیقت دعوی یہ ہے؛ اور وہ اس مقصد کے حصول کیلئے کوشاں ہیں.
(دنیا بھر میں) یہ سپر پاور اتنے طمطراق سے رہتا ہے، دنیا بھر میں منمانیاں کرتا ہے، صرف ایک جگہ ہے جہاں اس کی ایک نہیں چلتی؛ وہ کون سی جگہ ہے؟ وہ جگہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران ہے جس نے دنیا میں سپر پاور امریکہ کے سارے رعب و دبدبے کو گیدڑ بھبکی ثابت کر دیا ہے. میں کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ سپر پاورز کی طاقت زیادہ تر ان کی دھونس اور دھمکی پر منحصر ہوتی ہے؛ ان کی ہیبت زیادہ اثر دکھاتی ہے، سب جگہ بندوق اور گولیوں سے تو کام نہیں لیا جاتا؛ دھمکیوں اور ہیبت کا اثر ہے جو اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں کے اعلی عہدیدار اور سیاسی تنظیموں کے لیڈروں کے ہاتھ پاؤوں لرزنے لگتے ہیں اور وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں.
اسلامی جمہوریہ ایران پہلے دن سے واضح وجوہات کی بناء پر امریکہ کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور گھٹنے ٹیکنا گوارا نہیں کیا، اس نے صریحی طور پر اعلان کر دیا کہ ہم امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے امریکہ کیلئے یہ بہت بڑی بات ہے کہ آج ایران کہہ رہا ہے کہ ٹھیک ہے؛ ہم بھی امریکہ سے مذاکرات کریں گے! اب امریکیوں کو یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ یہ لو! ہمارا سپر پاور ہونا ثابت ہو گیا! جو علاقہ ہمارے زیر تسلط نہ تھا اب وہ بھی آ گیا ہے اور ہم نے معراج پا لی! لہذا ان کیلئے صرف مذاکرات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں.
البتہ رہ گئی بات امریکہ سے تعلقات کی، تو امر واقعہ کچھ اور ہے؛ جس پر میں بعد میں روشنی ڈالوں گا. تعلقات کے بارے میں امریکیوں کی سوچ دوسری ہے. جو چیز ان لوگوں کیلئے اہمیت رکھتی ہے وہ مذاکرات ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایران مذاکرات کی میز پر حاضر ہو جائے؛ پھر جب مذاکرات شروع ہو گئے تو اس وقت نئی کہانیاں اور قصے شروع ہو جائیں گے.
ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کی اہمیت کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کی تحریک دنیا کے گوشے گوشے میں اسلامی جذبات کی بیداری کا سبب بنی۔ ایشیا، افریقہ حتی یورپ میں بھی مسلمانوں نے اپنے اسلامی جذبات کا برملا اظہار کیا اور تحریکیں چلائیں۔ ان میں بعض سیاسی تحریکیں تھیں اور بعض کا ہدف اصلاح امور ہیں لیکن بہرحال یہ سب جدوجہد میں مصروف ہیں. یہ ساری (پیشرفت) اسلامی جمہوریہ، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور اس ایرانی قوم کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے. میں عالم اسلام میں ایسے افراد کو پہچانتا ہوں اور مجھے اطلاع ہے جنہوں نے مکتب اہل بیت علیہم السلام کو صرف جنگ کے مسائل کی وجہ سے قبول کیا ہے. یہی آپ ایثارگروں (مقدس دفاع کے دوران محاذ جنگ پر جانے والے افراد) اور جانبازوں (انقلاب اور وطن کی حفاظت میں لڑتے ہوئے جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے افراد) کے میدان جنگ میں جانے کی خبریں، ماؤوں کی بہادری اور استقامت کی خبریں جو پوری دنیا میں نشر ہوتی تھیں، اس بات کا سبب بنیں کے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے، کچھ مسلمان شیعہ ہو گئے. ان خبروں نے پہلے سے زیادہ لوگوں کو انقلاب، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور ایرانی قوم کا شیدائی بنا دیا جس کے نتیجے میں اسلامی جذبات بھی پروان چڑھے. در حقیقت ان تمام باتوں کا محور ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام ہے.
اگر اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے تو امریکی چین کی سانس لیں گے؛ دنیا بھر میں کہتے پھریں گے: آپ کیوں استقامت دکھا رہے ہیں، آپ تو ملت ایران کی طرح نہیں ہو سکتے، آپ تو ایران کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے! وہ بھی مجبور ہو گئے کہ مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے ہیں. آپ کیا کہتے ہیں؟! یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام اور ملت ایران کے (امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی صورت میں) سر تسلیم خم کر دینے پر، امریکی حکومت عالم اسلام میں چلنے والی بہت ساری تحریکوں کی طرف سے بے فکر ہو جائے گی.
ذرا غور کریں! یہ تمام موضوعات طویل اور مفصل اور نجی نشستوں کے بحث طلب مسائل ہیں. میں چاہتا ہوں کہ نماز جمعہ میں فہرست وار مسائل کو بیان کر دوں. مذاکرات ان (امریکیوں) کیلئے اہم ہیں. ذرا دیکھیں؛ بہت سے ممالک ہیں جن کی حکومتیں امریکہ کی دوست شمار ہوتی ہیں؛ یعنی امریکی نفوذ اور اس کے تسلط میں ہیں، ان کے سیاسی موقف امریکی حکومت کے تابع ہیں بلکہ وہ خود امریکہ کی تابعدار ہیں؛ ان کے ساتھ تعلقات قائم کرو، ان کے ساتھ فلاں سودا کرو، اس جگہ کا سودا مت کرو، تیل اس طرح فروخت کرو، تانبے کو ایسا کرو. امریکی تابعدار حکومتوں کیلئے تدریجاً یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ایک اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت امریکہ کو گھاس بھی نہیں ڈالتی اور امریکہ اس کا کچھ بگاڑ بھی سکا تو پھر ہم امریکہ سے اتنے خوفزدہ کیوں رہتے ہیں؟
یہ سوال آج اسلامی ممالک اور غیر اسلامی ممالک کے بہت سے ذمہ داروں کے ذہنوں میں میں پیدا ہو چکا ہے. امریکی انتظامیہ کو ایک سنجیدہ مشکل کا سامنا ہے؛ اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود کی بنا پر ان کی بے چون و چرا اطاعت اور تابعداری والی صورت حال اب باقی نہیں رہی، اسلامی جمہوریہ امریکہ سے بے نیاز ہے، امریکہ اس کے خلاف کوئی اہم کارروائی نہیں کر سکتا. البتہ کبھی کبھار چیخ پکار ضرور کرتا ہے. بطور مثال؛ ڈمیٹو کا قانون پاس کرنا، یہ قانون خود بخود منسوخ ہو جاتا ہے اور وہ کوئی بنیادی کارروائی کرنے سے بھی معذور ہے تو ہم کیوں بلا وجہ اپنا وقت ضایع کریں اور امریکی غلامی اختیار کی؟
امریکہ کیلئے یہ بہت خطرناک ہے کہ یہ سوچ اس کے دوستوں اور اس کی تابعدار حکومتوں میں پھیل جائے. امریکہ ان سب کیلئے ایک جواب کا خواہاں ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے کہ سب کو سمجھا سکے کہ دیکھو ہمارے دباؤ اور اقتصادی محاصرہ نے آخر کار اسلامی جمہوریہ کو بھی زمیں بوس کر دیا، گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، وہ جس بلند مقام پر تھی وہاں سے اس کا سقوط ہو گیا. وہ اپنی تابعدار اور فرمانبردار حکومتوں کو ذہن نشین کروانا چاہتے ہیں کہ کیا جو ہمارا ساتھ نہ دے وہ چین سے رہ سکتا ہے؛ ہرگز نہیں! یہ صرف ایک خام خیالی ہے دیکھو آخر کار اسلامی جمہوریہ بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی.
ایک نکتہ اور بھی ہے، سپر طاقت ہونے کے ناطے، حقیقتاً امریکہ کیلئے (ایران کے ساتھ) مذاکرات بہت اہمیت کے حامل ہیں.
گذشتہ انیس یا بیس برس سے عالمی سیاست میں دو قطب ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہے. ایک طرف عالمی استکبار دوسری طرف اسلامی دنیا! استکباری محاذ امریکہ کی قیادت میں جبکہ اسلامی محاذ کا محور اسلامی جمہوری نظام ہے جس کو دن بدن ترقی اور پیشرفت حاصل ہوئی ہے، ذرا دنیا بھر میں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو بخوبی نظر آئے گا کہ جن ممالک میں حتی اسلامی تحریک یا جد و جہد آثار بھی نہیں تھے وہاں حالات ایسے ہو گئے کہ معاشروں کے تناسب سے اسلامی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ ترکی، الجزائر اور دیگر ممالک میں ان کے اپنے حالات کے مطابق، بیشتر مقامات پر ان کے خلاف اقدامات بھی ہوئے لیکن عوامی جذبات کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے۔ ترکی کی رفاہ حکومت کے ساتھ یا دیگر جگہوں پر جو برتاؤ کیا گیا وہ اپنی جگہ لیکن عوامی جذبات پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں.
آج تک استکباری اور اسلامی محاذوں کے درمیان پیکار میں پوری شان و شوکت کے ساتھ اسلامی محاذ ترقی کی منزلوں کی جانب گامزن ہے، لیکن استکباری قطب کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی. یہ سامراجی عناصر چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ مذاکرات کی افواہ پھیلائيں کہ اسلامی جمہوریہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی اور اس نے ہتھیار ڈال کر ہماری پناہ لینے میں عافیت سمجھی ہے. اس ہتھکنڈے کے ذریعہ وہ اس شبہ کو بھی تقویت پہنچانا چاہتے ہیں کے اسلامی محاذ کو استکباری محاذ کے مقابلے میں شکست ہو گئی جبکہ عالمی سامراج کی جیت ہوئي.
وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام نے مجبوراً پسپائی اختیار کی اور دشمن کو کامیابی ہوئی. وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب اپنے دعوؤں سے پلٹ گیا ہے. وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ تمام دعوے اور باتیں جو گذشتہ انیس سال میں ایرانی قوم اور ذمہ داروں نے ادا کئے ہیں، کنارے لگا دیئے جائیں، سب کے سب فراموش کر دیئے جائیں اور یہ صرف ڈھکوسلا نظر آئے؛ کیونکہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بار بار فرمایا کہ ہم دشمن سے نہ مفاہمت کریں گے نہ ہی ہتھیار ڈالیں گے؛ یہ ساری باتیں صرف ماضی کو داغدار کرنے کی خاطر ہیں. اس افواہ کے پھیلنے سے کہ اسلامی جمہوریہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور مذاکرات پر آمادہ ہو گئی ہے، یعنی عالمی استکبار کے خلاف اپنے تمام سابقہ دعووں اور منصوبوں سے دست بردار ہو گئی ہے، امریکہ بھرپور استفادہ کرے گا. یہ سارا شور شرابا اسی لئے ہے. لہذا باوجود اس کے کہ صدر محترم نے انٹرویو میں کہا کہ ہم مذاکرات نہیں کرینگے؛ انھوں نے کہا کہ ہم کو مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسی چیز کو کس شکل میں پیش کیا؟! امریکی حکومت اور ذرایع ابلاغ کا ان باتوں سے مقصد صرف اس بات کی ترویج ہے کہ یہ مذاکرات کی ابتدا ہے، ایران مذاکرات کرنا چاہتا ہے، ہر کسی نے اپنا ہی راگ الاپا.
اب ہمارا موقف کیا ہے؟ البتہ یہ کوئی نئی چیز نہیں جو میں بیان کروں، یہ بارہا بیان کی جا چکی ہے، امام (خمینی رہ) فرما چکے ہیں، ان کے بعد ہم نے اور خارجہ پالیسی کے ذمہ داروں کے علاوہ اور دوسرے متعلقہ لوگوں نے بیان بھی کیا اور عملی قدم بھی اٹھایا. پالیسی وہی پالیسی ہے، ٹھوس پالیسی ہے، ایسی پالیسی نہیں کہ آج بیان ہو اور کل پلٹ جائے؛ بہرحال ہم مختصر روشنی ڈالیں گے.
اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب کا موقف یہ ہے کہ انقلاب کے بارے میں کیا جانے والا ہر وہ فیصلہ جو انقلاب کے اصولوں کی ترجمانی کرے، وہ استدلالی ہونا چاہئے۔ ہم لوگ اہل منطق ہیں، ہماری حکومت، قوانین، معارف، سیاست، سیاسی موقف یہ سب کے سب استدلال پر مبنی ہیں. ممکن ہے کہ کہیں کوئي اعتراض بھی ہو جائے، کوئی بات نہیں؛ کوئی حرج نہیں. لیکن ہمارا موقف دلیل و منطق پر مبنی ہے. ایرانی قوم کی استقامت جو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی، جس قوم نے اپنے اصولوں، عقیدے اور ایمان کی راہ میں جہاد کیا، شہیدوں کی قربانی دی، اس قوم کے مفادات اس موقف کا نصب العین ہیں. یہاں میں تین موضوعات پر مختصراَ روشنی ڈالوں گا.
موجودہ صورتحال. یعنی امریکہ سے ہمارا رابطہ منقطع ہونا. یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کے یہ صورتحال امریکی استکبار اور اس کے سلوک کا فطری نتیجہ ہے؛ درحقیقت ایرانی قوم کی مظلومیت کا نتیجہ ہے. دوسری بات یہ کہ امیکہ کے ساتھ مذاکرات ایرانی قوم کے لئے سودمند نہیں. تیسری بات یہ کہ امریکہ سے مذاکرات اور تعلقات ایرانی قوم کی لئے مضر ہیں.
پہلی بات جیسا کہ میں نے بیان کیا رابطے کا منقطع ہونا امریکی پالیسی اور طرز عمل کا نتیجہ ہے. عزیزو! امریکی حکومت کی پالیسیاں سنہ 1320 شمسی (1941 عیسوی) میں ہمارے ملک میں نمودار ہوئیں، آہستہ آہستہ آتے گئے اور اثر رسوخ بڑھاتے گئےاور برطانیہ کی جگہ امریکی براجمان ہو گئے. 27 - 28برس جو امریکیوں کے اقتدار کا زمانہ ہے، انہوں نے وہ تمام برائیاں، مظالم اور توہین جو ایک مستکبر حکومت کسی مظلوم قوم کے ساتھ کر سکتی ہے، انہوں نے انجام دیں؛ ہمارے ذخائر لوٹے، پہلوی ظالم حکومت کو تقویت پہنچائی، ہمارے افسران کی بے عزتی کی، ہماری قوم کی توہین کی، کیپیچولیوشن کا قانون وضع کیا، قومی حکومت کو سرنگوں کیا اور اسی طرح بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا کہ اگر واقعی کوئی انقلاب سے ستائیس اٹھائیس سال قبل امریکی جرائم کو تحریر کرے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی.
انقلاب کامیاب ہو گیا، انقلاب کی کامیابی کے وقت لوگوں نے پہلے اور دوسرے دن ہی امریکی سفارتخانہ کا رخ کیا اور ان کو گرفتار کیا، ان دنوں جہاں ہم لوگ تھے ، ہم نے دیکھا کہ امریکی سفارتخانہ کے عملے کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے آئے. مجھے یقین تھا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس وقت ان کی سزائے موت یا جیل کا حکم دینگے! سب کے تصورات سے ہٹ کر حتی خود امریکیوں کے تصورات کے برخلاف، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ان کی آزادی کا حکم دیا اور وہ واپس سفارتخانہ میں چلے گئے. البتہ ان میں سے کچھ لوگ ایران سے چلے گئے؛ کیونکہ انہوں نے ایران کے حالات کو اپنے لئے سازگار نہیں جانا؛ کچھ ایران ہی میں رک گئے.
انقلاب کی کامیابی کے بعد، ہمارے تعلقات امریکہ سے منقطع نہ ہوئے. یعنی ایرانی قوم نے اقتدار کے حصول کے بعد اپنی گذشتہ مظلومیت کو نظر انداز کر دیا اور امریکی حکومت کو بخش دیا؛ اس سے بڑھ کر کیا فراخدلی ہو سکتی ہے!؟؟ تیس سال امریکیوں کا ظلم سہتے رہے؛ ان کے ساتھ جیسے کو تیسا والا برتاؤ نہیں کر سکتے تھے رد عمل نہیں دکھا سکتے تھے. جب انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور ملت ایران اقتدار میں آ گئی تو رد عمل بھی دکھا سکتی تھی اور متوقع بھی یہی تھا؛ نہ صرف قوم نے انتقام نہ لیا بلکہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے حکم دیا کہ انہیں چھوڑ دیا جائے! البتہ ان میں سے کچھ لوگ چلے گئے اور کچھ رہ گئے اور امریکہ سے سیاسی تعلقات بحال رہے.
لیکن امریکی حکومت نے ایرانی قوم اور انقلاب کی اس رواداری اور فراخدلی کو نہ دیکھا اور انہی ایام سے جب وہ مطمئن ہو گئے تو سفارت خانہ کو اسلامی جمہوری نظام کے خلاف سازشوں کا مرکز بنا دیا. امریکہ میں بھی ایران کے خلاف اقدامات کئے. امریکی سینیٹ نے اس وقت ایک گھٹیا اقدام کیا جس کے جواب میں تہران کے ایک مرکز میں عوامی اجتماع تشکیل پایا اور لوگوں نے امریکیوں کے اقدام پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا؛ تختہ پلٹنے کی سازشیں کیں؛ یعنی ماضی سے درس عبرت نہ لیا. ان اقدامات کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیروکار طلبا نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا. یہ اقدام در حقیقت امریکیوں کی سزا تھی.
آج جب بھی امریکہ-ایران دشمنی کی تاریخ بیان کرتے ہیں تو سفارتخانہ سے شروع کرتے ہیں، اپنی صدارت کے زمانے میں جس سال میں اقوام متحدہ میں گیا تھا، انٹرویو میں صحافی کا سب سے پہلا سوال سفارت خانے کے بارے میں تھا کہ آپ نے ہمارے سفارتکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا! جبکہ تاریخ وہاں سے شروع نہیں ہوتی ہے؛ اس سے پہلے کی بات ہے. اگر ماضی کی بات کرو تو کہتے ہیں کہ یہ تو پرانی بات ہے! اگر یہ پرانی بات ہے تو کیا سفارت خانے والا مسئلہ پرانا نہیں؟ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ آپ نے کیوں ہم پر حملہ کیا؛ جبکہ یہ اقدام تو ایک جوابی کارروائی کے طور پر انقلابی غیض وغضب کا اظہار اور رد عمل تھا. ایرانی عوام نے شرافت سے کام لیا اور ان کو جان سے نہیں مارا؛ ورنہ اگر ہمارے جوان غفلت کرتے یا تقوی سے کام نہ لیتے تو وہیں ان کا کام تمام تھا؛ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا اور ان کی جان کی حفاظت بھی کی اور پھر بعد میں امام کے ایما اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر وہ آزاد ہوئے اور چلے گئے.
پھر مسلط کردہ جنگ تک مستقل امریکی حملے، تختہ پلٹنے کیلئے ریشہ دوانیاں جس میں نوژہ شہید چھاونی والی سازش اور دوسری سازشیں تھیں، سب جاری رہیں. دوران جنگ ایرانی قوم کے دشمن کو اسلحہ فراہم کیا. پوری دنیا کی قوموں اور حکومتوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جب دو ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں تو کسی ایک فریق کو فوجی مشورہ دینا، اسلحے کی فراہمی اور دیگر فوجی وسایل کی ترسیل یعنی سامنے والے ملک کے خلاف جنگ میں فریق بن جانا. ان سب چیزوں سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہئے. ایرانی قوم امریکہ کے مظالم اور انہی حرکتوں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے.
ہم نے گذشتہ سال کہا تھا کہ یہ قوم اپنے امام حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح ہے. امیر المومنین دنیا کے سب سے مظلوم لیکن مقتدرترین انسان تھے. آپ کو امام علی علیہ السلام جیسے طاقتور اور با اقتدار انسان کوئی اور نہیں ملے گا لیکن ان جیسا مظلوم انسان بھی آپ کو کہیں نہیں نظر آئے گا. ملت ایران اپنے امام کی طرح ہے. ہم کو اپنے زمانے میں گذشتہ بیس سالوں میں ایران جیسی با نشاط اور طاقتور قوم کا سراغ نہیں ملتا؛ لیکن سب سے مظلوم قوم بھی ایرانی قوم ہی ہے! کس نے سب سے زیادہ ظلم اس پر کئے ہیں؟ شیطان بزرگ (امریکہ) نے!
ان کا کہنا ہے کہ ہم کو شیطان اعظم کیوں پکارتے ہیں؟ شیطان کے کیا معنی ہیں؟ (ہم کہتے ہیں) شیطانی کام مت کرو تو ہم بھی شیطان اعظم نہ کہیں. وہ ظلم، جرائم، استبداد، تکبر اور شیطانی کاموں سے باز نہیں آتے ہیں، ایرانی قوم ایک زندہ قوم ہے اس کا دوسری قوموں سے مقائسہ نہ کریں. ایرانی قوم بھی ایسی حکومت کے مقابلے میں استقامت سے کام لیتے ہوے ڈٹ جاتی ہے، بے خوبی کے ساتھ بڑھتی ہے، تعلقات منقطع ہونے سے نہیں گھبراتی، مذاکرات کرنے سے انکار کر دیتی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے باطل موقف کے مقابلے میں اپنا بر حق موقف پیش کرتی ہے.
ایک دوسرا موضوع عالمی سطح پر امریکہ کا موقف ہے. آج غاصب صہیونی حکومت کا سب سے بڑا حامی امریکہ ہے. صیہونی حکومت دنیا بھر کی حکومتوں کے درمیان، سب سے قابل مذمت حکومت ہے؛ کیونکہ اس نے ایک قوم کو اس کے ہی وطن سے نکال باہر کیا ہے، آپ کو پوری دنیا میں اس کی کوئی اور مثال ملتی ہے؟ تاریخ میں اس کے مانند کوئی واقعہ ہے؟ ایک گھرانے کو بے دخل کرنا، ایک خاندان کو بے دخل کرنا، ایک شہر کو خالی کرانا یا دس لاکھ افراد کو بے وطن کرنا ایک چیز ہے؛ لیکن کوئی ایک پوری قوم کو اس کے وطن سے نکال باہر کیا جائے اور جو افراد باقی رہ جائیں ان کو بہت ہی سخت اذیتوں میں رکھا جائے اور ان پر حکمرانی کی جائے تو یہ واقعی بڑی حیرت ہے! اس سے زیادہ بری اور قابل مذمت حکومت کوئی ہو سکتی ہے؟ پھرقوم کے ساتھ بہت ہی قسی القلبی کا برتاؤ کیا جاتا ہے.
مذکورہ انٹرویو میں تخریب پسند حکومت کی جو بات کہی گئیں بالکل ٹھیک ہے کہ یہ غاصب صیہونی حکومت تخریب پسند حکومت کی مظہر ہے. یہ بات صیہونیوں کو بہت بری بھی لگی! لیکن یہ بالکل ٹھیک بات ہے. آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ کیا کرتے ہیں! دیکھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے! لبنانی عوام سے برتاؤ کیسا ہے! لبنانی گاؤں میں ہیلی کاپٹر سے آتے ہیں اور افراد کو ان کے گھروں سے اغوا کر لے جاتے ہیں! دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے؟ دنیا بھر میں صیہونیوں کے سب سے بڑے حامی امریکی ہیں. کیا یہ ایک سنگین جرم نہیں ہے؟ کیا یہ بہت بڑی بات نہیں؟ یہ کافی نہیں ہے کہ ایران جیسی حق پسند قوم کہے کہ ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں، ہم آپ سے بیزار ہیں، ہم آپ کے سلوک کی مذمت کرتے ہیں؟ ایرانی قوم امریکہ سے یہی تو کہتی ہے.
دوسرا بات یہ ہے کہ ایرانی قوم کو امریکہ سے تعلقات یا مذاکرات میں کوئی فایدہ نہیں ہے. جیسا کہ میں نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ امریکی ایجنٹ اور ذرایع ابلاغ پوری دنیا میں افواہوں کے ذریعہ یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ ایرانی قوم کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے؛ ان مشکلات کا واحد حل یہ ہے کہ امریکہ سے مذاکرات کریں! آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں آپ کی اس بات کا یقین بھی آ جائے گا؟! مذاکرات میں ایرانی قوم کے لئے کوئی اہم فایدہ نہیں بلکہ نقصان ہے جو میں عرض کروں گا، فایدہ تو بالکل ہی نہیں.
جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہم امریکہ سے مذاکرات کریں تو یہ اقتصادی محاصرہ اور ڈمیٹو قانون وغیرہ کالعدم قرار دے دیئے جائيں گے تو وہ غلطی پر ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ ایرا ن کے سلسلے میں امریکہ کا ہر اقدام تھوڑے ہی عرصہ میں شکست سے دوچار ہو جاتا ہے. کیا یہ پہلی دفعہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں؟ کیا یہ ان کی پہلی دھمکی ہے؟ اقتصادی محاصرہ کیا پہلی بار ہے؟ کیا پہلی دفعہ وہ مختلف ممالک میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ایران سے فلاں معاہدہ نہ کریں یا فلاں سودا نہ کریں؟ پہلی دفعہ تو نہیں ہے؛ وہ ہمیشہ یہی کرتے چلے آئے ہیں. گذشتہ اٹھارہ انیس سال میں تمام ترقیاتی منصوبے اور وہ تمام نمایاں کام جو ہماری حکومتوں میں چند سال کے اندر انجام پائے ہیں، وہ سب کے سب ایسے حالات میں انجام پائے ہیں جب امریکہ نہیں چاہتا تھا.
گذشتہ سال ڈمیتو نامی قانون کی بنا پر ہماری قومی گیس کمپنی کا اپنی گیس کمپنی سے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا. ایک ایسا قانون بنایا کہ کوئی بھی کمپنی ایک معینہ مالیت سے زیادہ ایران کے ساتھ تیل کی فیلڈ میں معاہدہ نہ کر سکے. پہلی بات تو یہ کہ اسی کمپنی نے پیغام دیا کہ ہم بھی اس بات سے ناراض ہیں اور جیسے بھی ہو سکے گا ہم دوبارہ آپ سے معاہدہ کریں گے! امریکہ کی مشکلات میں سے ایک یہی کمپنیاں ہیں جو خلیج فارس میں ہمارے آئل پروجیکٹس میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتی ہیں. امریکی تیل کی کمپنیاں اس بات سے سخت ناراض ہیں. یہ آج کی بات نہیں؛ تقریباَ ایک سال پرانی بات ہے، اپنی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے مظاہرے کئے اور اعلامیہ جاری کیا! لہذا یہی کوششیں ثمر آور ہو گئیں اور ڈمیتو نامی قانون کافی حد تک بے اثر ہوک رہ گیا. اس کا مطلب ہے کہ ان کو ہماری زیادہ ضرورت ہے.
دوسرے یہ کہ پچھلے سال جونہی اس امریکن کمپنی نے ہماری گیس کمپنی سے اپنا معاہدہ ختم کیا، تھوڑے ہی عرصہ میں ایک فرانسیسی کمپنی معاہدے کیلئے آ گئی. امریکیوں نے واویلا مچایا کہ کیوں معاہدہ کر رہے ہیں؟! فرانسیسی حکومت اور پھر پورا یورپ ہی اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ معاہدہ ایران کے ساتھ ہونا چاہئے اور اس مسئلہ میں امریکہ کی نہیں چلے گی. اب ایسا بھی نہیں کہ ایرانی قوم کی مشکلات کا حل امریکہ کے ہاتھ میں ہو اور وہ ایرانیوں کیلئے کوئی بڑی مشکل پیدا کر سکے. البتہ وہ اپنی خباثتوں سے باز نہیں آتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے بس میں نہیں ہے.
اب ذرا ملاحظہ کریں کہ وہ حکومتیں جن کو بقول امریکی وزارت خارجہ کے وہ لوگ سزا دیتے ہیں جیسے چین، روس، رفاہ پارٹی کے زمانے میں ترکی- کیا ان کے امریکہ سے تعلقات نہیں ہیں؟ مذاکرات نہیں کرتے؟ وہ تمام ممالک جن کے ساتھ امریکہ کا سلوک معاندانہ ہے، ان کے امریکہ سے سیاسی و اقتصادی تعلقات بھی قائم ہیں لیکن ایسا نہیں کہ اگر ان کے تعلقات برقرار ہیں تو امریکہ کی دشمنی سے محفوظ رہیں. اب بھی ایسے ممالک ہیں جن کے سفارتخانے امریکہ میں اور ان کے دارالحکومتوں میں امریکی سفارت خانے کھلے ہوئے ہیں، سفارتی و سیاسی تعلقات بھی قائم ہیں لیکن امریکہ ان ممالک کو دنیا میں شر پسند ممالک کی فہرست میں پیش کرتا ہے! نام نہیں لوں گا لیکن وزارت خارجہ اور دیگر جگہوں پر دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ ان مسائل کو عوام کیلئے بیان کریں اور سمجھائیں.
یہ نہ سمجھیں کہ اب اگر امریکہ سے تعلقات قائم ہو گئے یا مذاکرات ہو گئے تو امریکہ کی طرف سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف کوئی چھوٹی سی بھی معاندانہ حرکت نہ ہوگی؛ جی نہیں. بہت سے ممالک جن کے بظاہر امریکہ سے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات بھی ہیں! لیکن جہاں بھی امریکہ کی مصلحت ہو وہ زک پہنچاتا ہے؛ اقتصادی محاصرہ کرتا ہے اور پابندیاں لگاتا ہے.
امریکی، استکباری خو کے لوگ ہیں. مستکبر حکومت اور مستکبر افراد صرف اپنی چلانے پر اصرار کرتے ہیں. لہذا ایسا بھی نہیں کہ تعلقات سے ہمیں کوئی فایدہ ہو؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر تعلقات نہ ہوں گے یا مذاکرات نہ ہوں گے تو مشکلات در پیش ہوں گی اور مذاکرات یا تعلقات کی صورت میں مشکلات حل ہو جائیں گی. جی نہیں ایسا نہیں ہے! اب نہ تو مشکلات پیدا کرنے کیلئے امریکہ کے ہاتھ بالکل کھلے ہیں نہ ہی تعلقات اور مذاکرات کی صورت میں مشکلات کا معجزاتی حل موجود ہے. ان میں سے کوئی بھی نہیں؛ یہ سب قوم کی توانائیوں پر منحصر ہے، یہ تو ایک حکومت کی توانائیوں، ہماری عزت نفس پر مبنی ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں ڈٹ سکیں اور اپنے ارادوں اور ملکی مفادات کے مطابق اقدام کریں.
یہ سارا پروپیگنڈا ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ جب امریکی حکومت کے سامنے ایک ایسی حکومت تھی جو جنگ میں مصروف تھی، وہ اس وقت کچھ نہ کر سکا. ہم ایک دن جنگ میں مصروف تھے، اس سے قبل ایسے مواقع بھی پیش آئے کہ ہماری حکومت وسائل کے لحاظ سے بہت کمزور تھی، اس وقت بھی وہ ہمارے خلاف کچھ نہ کر سکے، ہمیں کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا سکے. آج بحمد اللہ ایرانی حکومت ایک مضبوط اور مقتدر حکومت ہے اور دنیا میں بھی اسی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے؛ او آئی سی کی سربراہی اسے حاصل ہے. بہت سے بین الاقوامی اداروں میں ایک معزز ممبر کی حیثیت اسے حاصل ہے، حکومتیں اور قومیں اس کا احترام کرتی ہیں. آج ہم کس بات سے ڈریں؟ کیوں ڈریں؟ ایسا تصور کیوں ہو کہ اگر انہی حالات میں جس میں گذشتہ انیس سال گذرے ہیں، وہی طور طریقہ جاری رکھیں گے تو ایسا یا ویسا ہو جائے گا؟
امریکہ کو آج ضرورت ہے. آج امریکہ کی طاقت گذشتہ دس یا پندرہ سال پہلے والی نہیں. ایک زمانہ تھا کہ امریکہ کی بات یورپ اور دوسری جگہوں پر احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی؛ اور اس کے ساتھ احترام سے برتاؤ ہوتا تھا؛ آج ایسا نہیں ہے. آج امریکی، بین الاقوامی سیاست اور ڈپلومیسی میں بہت کمزور ہیں؛ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی کمزوریوں کے، ہماری قوم کے خلاف وہی سپر پاور والا انداز اختیار کریں!
تیسری بات جو بہت مختصر عرض کروں گا تاکہ نماز کا وقت نہ نکل جائے، وہ یہ ہے کہ ملت ایران اور عالمی تحریکوں کیلئے (امریکہ سے) تعلقات اور مذاکرات بہت ہی نقصان دہ ہیں. پہلا نقصان یہ ہے کہ امریکیوں کے اس میدان میں داخل ہوتے ہی وہ یہ پروپگنڈا شروع کریں گے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے تمام دعووں سے جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)، مقدس دفاع اور انقلاب کے دوران کئے جاتے تھے، ان سب سے دست بردار ہو گئی ہے. یہ وہ پہلی چیز ہے جس کا امریکی دعوی کریں گے. سب سے پہلی افواہ جو دنیا میں پھیلائیں گے وہ یہی ہوگی کہ اسلامی انقلاب ختم ہو گیا اور اس کی بساط لپیٹ دی گئي۔ کیونکہ وہ ابھی سے یہ باتیں کرنے لگے ہیں حالانکہ ابھی کچھ بھی نہیں ہوا!
یہی دو تین دن قبل میں نے ایک ٹیلیکس دیکھا کہ ایک افریقی ملک کے صدر نے اپنے خلاف ہمارے ایک عہدیدار کے بیان کے جواب میں انٹرویو میں کہا کہ: جی! ایران جو ایک عرصہ تک امریکہ کی مخالفت کرتا رہا ہے اب اس سے دوستی کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے! ابھی کچھ بھی نہیں ہوا تو ایسا کہا جا رہا ہے! ایرانی قوم اور حکومت کے خلاف افواہوں اور پروپگنڈے کا بازار گرم ہو جائے گا کہ یہ لوگ انقلاب سے پلٹ گئے ہیں. یہ سب چیزیں اس بات کا سبب بنیں گی کہ مستضعفین کے سامنے انقلاب کی عزت و آبرو داؤ پر لگ جائے گی اور ان کے دلوں میں شک و شبہ پیدا ہو گا، عالمی اسلامی تحریک کو دھچکا لگے گا، ایرانی قوم کی خود مختاری اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا.
یہ قوم اس طویل عرصہ میں تقریباَ ایک سو پچاس سال سے بھی زیادہ- یعنی ناصرالدین شاہ قاجار کے زمانے سے انقلاب تک، ہمیشہ غیرملکی طاقتوں کے زیر تسلط رہی ہے. گذشتہ بادشاہ جابر و ظالم تھے، برے تھے، ستمگر تھے، ملعون تھے، جو بھی تھے، کم از کم ایرانی قوم اور ملک کی عزت کی حفاظت تو کرتے تھے اور غیر ملکیوں کے زیر تسلط تو نہ تھے. ناصرالدین شاہ قاجار کے درمیانی اور آخری زمانے سے، غیر ملکیوں کا اثر رسوخ اور ان کی مداخلتیں ایران میں شروع ہوئیں اور بڑھتی ہی چلی گئیں یہاں تک کہ سلسلہ پہلوی خاندان تک پہنچا اور ایران بالکل غیر ملکیوں کا اسیر ہوکر رہ گیا. رضا خان کو برطانیہ، حکومت میں لے کر آیا؛ وہ انگریزوں کی مٹھی میں تھا. بعد میں جب رضا خان کو لے گئے، تو محمد رضا کو خود لے کر آئے؛ وہ بھی بالکل انگریزوں کی مٹھی میں تھا. چند سال بعد امریکی اپنی دولت اور وسائل لے کر وارد میدان ہوئے. ایران اور ایرانی قوم کی تقدیر غیر ملکیوں کے ہاتھ میں تھی. ایرانی قوم نے ان تمام ذلتوں اور توہین کا جواب انقلاب کے ذریعے دیا.
عزیزو! اسلامی انقلاب کی ایک خاص بات وہ طمانچہ ہے جو اس نے غداروں، وطن فروشوں، غیرملکی ایجنٹوں اور ان کے عناصر کے منہ پر لگایا ہے. درحقیقت انقلاب، غیر ملکی تسلط کے خلاف ایرانی قوم کا غضب ہے. انقلاب نے عوام کو خود مختاری عطا کی. اب جبکہ خود مختاری کے راستے میں اتنا خون دیا جا چکا ہے، اس ملک پر اپنے تسلط کے دعوے دار، اس ملک پر حکمرانی کے دعویدار یعنی امریکی جو اپنے آپ کو اس ملک کا مالک سمجھتے ہیں، واپس آ جائیں، سفارشات کے علاوہ داخلی امور میں مداخلت شروع کریں انقلاب دشمنوں کو بھی پروان چڑھائیں! کیا ایرانی قوم اس بات کی اجازت دے گی؟ کیا ایرانی قوم اپنے انقلاب، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ)، اپنی عظمت اور عزت سے دست بردار ہو گئی ہے کہ امریکیوں کے قدم اس ملک میں پڑیں؟
البتہ ہم کئی دفعہ کہہ چکے ہیں اور مکرر کہا جا چکا ہے؛ میں نے بھی اور دیگر عہدیداروں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ہماری مشکل امریکی حکومت ہے؛ امریکی قوم سے ہمیں گلہ نہیں۔ وہ ہمارے مقابلے میں نہیں ہیں؛ امریکی قوم بھی دوسری قوموں کی طرح اچھائیوں اور برائیوں کی حامل ہے؛ یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے. مسئلہ صرف امریکی حکومت ہے جو اسلامی جمہوری نظام کی دشمن ہے، انقلاب کی دشمن ہے، ایرانی قوم کی دشمن ہے اور ان باتوں کو وہ کہہ بھی چکے ہیں. البتہ اپنی مصلحت اس میں نہیں دیکھتے کہ ان باتوں کو بار بار زبان پر لائیں؛ لیکن باطناً یہی ہے کہ وہ آپ کی خود مختاری کے دشمن ہیں، آپ کے اسلام کے دشمن ہیں، آپ کی عزت کے دشمن ہیں، ان کی توقعات کے مقابلے میں آپ کی استقامت کے دشمن ہیں؛ وہ ان سب چیزوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے کوشاں ہیں.
البتہ مرضی الہی ان کی خواہش کے خلاف ہے. اللہ کی مرضی یہ ہے کہ آپ باقی رہیں، آپ مضبوط ہو جائیں، آپ کامیاب ہو جائیں؛ انشاء اللہ کامیاب بھی ہو جائیں گے اور ہمیں امریکیوں سے تعلقات بحال کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں پڑے گی؛ جیسا کہ ہمارے صدر نے اس انٹرویو میں کہا اور دوسرے عہدیداروں نے بھی تاکید کی ہے. الحمد للہ بہت اچھا تھا؛ ہمیں ان سے مذاکرات اور تعلقات کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ایرانی قوم کے دشمنوں کی خواہشات کے برعکس، انشاء اللہ ہماری قوم دن بدن ترقیوں اور پیشرفت کے مدارج کو طے کرے گی.
بسم‏ اللّہ ‏الرّحمن‏ الرّحیم. اذا جاء نصر اللّہِ و الفتح. و رأیت النّاس یدخلون فی دین ‏اللّہَ افواجا. فسبّح بحمد ربّک و استغفره انّہ کان توّابا.(15)

والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہَ و برکاتہ‏

1) بقره: 183
2) غافر: 55
3) نصر: 3
4) الاقبال باعمال الحسنہ، ج 3، ص 332
5) الاقبال باعمال الحسنہ، ج 1، ص 161
6) الاقبال باعمال الحسنہ، ج 1، ص 157
7) الاقبال باعمال الحسنہ، ج 1، ص 162
8) مرسلات: 36
9) بقره: 152
10) سجده: 14
11) مؤمنون: 65
12) مؤمنون: 65
13) شورى: 30
14) قدر: 3
15) نصر: 3