بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہم تمام اہل قم، باایمان نوجوانوں اور حوزۂ علمیہ کے طلاب و فضلاء کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ١٩ دی کا دن یوم اللہ کا مصداق ہے ۔ یہ دن تاریخ میں اور اس پورے انقلابی سفر میں ایک خاص تاثیر رکھتا ہے۔ اگر اہل قم کا قیام جبین انقلاب پر نہ جگمگاتا تو بدخواہ افراد اور دشمنان انقلاب اس انقلاب کے اسلامی ہونے کا ہی انکار کر دیتے لیکن یہاں کے مومنین نے قیام کرکے ثابت کر دیا کہ قم ''واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً'' اور ''ان تقوموا للہ مثنی و فرادیٰ '' جیسی آیتوں کا مظہر ہے۔ لہٰذا ١٩ دی انقلاب اسلامی ایران میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اس تاریخی تحریک میں اہل قم اور حوزۂ علمیہ سب شامل ہیں۔ قم کے ہر ہر فرد نے چاہے مرد ہو یا عورت لمحہ بہ لمحہ یہ ثابت کیا کہ وہ تعلیمات اسلام پرعملی پابندی کرتے ہیں نہ کہ صرف زبانی پابندی۔ اس طرح حوزۂ علمیہ، مراجع تقلید نے بھی یہ واضح کر دیا کہ وہ ایک عظیم آبادی کی رہنمائی اور قیادت کرنے کے لئے پوری استعداد اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ختم ہو جانے والی چیزیں نہیں ہیں۔ آج بھی قم میں وہی لوگ وہی ایمان اور وہی دینی علوم کا مرکز موجود ہے۔ لہٰذا قم پہلے بھی مرکز انقلاب تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔ جوانان قم اپنی انتھک کوششوں کو کبھی فراموش نہ کریں۔ اگر کل شروعات تھی تو آج اسی صراط مستقیم پر ڈٹے رہنے کا موقع ہے۔ اگر کل وہ اقدام ضروری تھا تو آج اس راستے سے انحراف نہ کرنا اور انتہائی دقت و احتیاط سے اسی پر قائم رہنا ضروری ہے۔ خداوند عالم پیغمبر اکرمۖ اور آپ کے اصحاب سے ارشاد فرماتا ہے کہ ''ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا'' یعنی اس راہ پر قائم اور پائیدار رہو، راستہ بھول کر مقصد سے مت ہٹ جائو۔ یہ خطاب ہم سب سے ہے، پوری قوم سے ہے۔ جب ایسی نیت اور جذبے کے ساتھ ایک قوم اپنے سفر کو جاری رکھتی ہے اور بلندیوں کو پستیوں میں نہیں بدلتی تب اس کے لئے سعادت و خوشبختی کے دروازے کھلتے ہیں۔ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمایا ہے۔ انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے کے بعد تمام مستکبرین اور دشمنان دین کی تمام تر کوششیں اس بات کے لئے تھیں کہ شاید دوبارہ موقع مل جائے اور وہ ملت ایران کو اس راستے سے منحرف کر دیں۔ جس طرح کہ آئینی انقلاب کے سلسلے میں کیا تھا۔ اس پچیس سالہ مدت میں یہی کوشش رہی کہ یہ الٰہی راستہ اور صراط مستقیم گم ہوکر جائے۔ البتہ اس سلسلے میں علماء، مراجع تقلید اور تمام نوجوانوں کی بڑی سنگین ذمہ داری ہے۔ لوگوں کی ہوشیاری، صدق و صفا اور جذبۂ آزادی اس راہ کی بقاء کے ضامن ہیں اور یہ تمام چیزیں پورے ملک میں اور بالخصوص شہر قم میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں۔ یہاں پر ضروری سمجھتا ہوں کہ شہر''بم'' میں زلزلے سے وارد ہونے والی سنگین مصیبت کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں کیونکہ اس طرح کے حوادث صرف مصیبت زدہ لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک اور پوری ملت کو دہلا دینے والے ہیں۔ ایسے موقع پر اس طرح کی آفتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ عبرت لینا چاہئے۔ یہ قدرتی آفات اسلام میں کافی قابل توجہ ہیں۔ ایسے مصائب ہر جگہ پیش آتے ہیں۔ انسانوں کا جاں بحق ہونا یا مصائب میں مبتلا ہونا ایک طرح کی ناگزیر صورت ہوتی ہے۔ لیکن ہر مصیبت اپنے دامن میں کچھ عبرتیں رکھتی ہے جن کو سمجھ کر آئندہ کی بلائوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
مجھے کچھ باتیں شہر بم کے مصیبت زدہ افراد سے کہنا ہیں جنہوں نے اپنے اعزاء، بھائی بہن یا اولاد کو کھو دیا ہے، کچھ باتیں اپنی ملت سے اور کچھ باتیں حکام اور ذمہ دار افراد سے۔
شہر بم کے رنج دیدہ افراد یہ جان لیں کہ یہ مصیبتیں خدا کے یہاں اجر و ثواب سے خالی نہیں ہیں۔ مصیبت جتنی سنگین ہوتی ہے اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوتا ہے۔ مصیبت زدہ افراد خدا کو اپنے رنجیدہ قلوب کے لئے جواب چارہ گر سمجھیں۔ اس پر توکل کریں! کلمۂ استرجاع (انا للہ وانا الیہ راجعون) بالکل بر حق ہے اور باعث تسلی و تسکین ہوتا ہے۔ جس کا ایمان یہ ہے کہ خدا ہر مصیبت کا بہترین اجر دیتا ہے، جس سے انسان کا قلب نورانی اور آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں وہ یقینا ان کلمات سے تسکین پاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ''اولٰئک علیھم صلواة من ربھم و رحمة'' درود و رحمت الٰہی سب سے عظیم اجر کا نام ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: ''ھوالذی یصلی علیکم و ملائکتہ لیخرجکم من الظلمات الی النور'' خدا کی رحمت سے انسان ظلمتوں سے نور کی طرف سفر کرتا ہے۔ جو کہ ہر مصیبت زدہ کے لئے سب سے بہتر اور برتر انعام ہے۔ یہ سبھی لوگ اس عظیم سانحہ کے وقت خدا کو یاد رکھیں اس سے مدد مانگیں، اسی سے اپنا راز دل کہیں اور دلاسہ و تسکین کا مطالبہ کریں وہ ضرور پوراکرے گا۔
ملک کے لوگوں سے میرا کہنا یہ ہے کہ ملک بھر کے لوگوں نے امداد کا جو عظیم کارنامہ انجام دیا اگرچہ وہ ایک انسانی، اسلامی اور فطری عمل تھا لیکن اس کے ساتھ اس میں سیاسی کامیابی بھی پوشیدہ تھی۔ پوری دنیا کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح ایرانی قوم کو اپنے نظام حکومت اور ذمہ داران حکومت پر اعتماد ہے۔ جن ملکو ں میں لوگوں کو حکومت پر بھروسہ نہیں ہوتا وہ حکومت کے ذریعہ مدد نہیں کرتے اور نہ ہی حکومت کے کارندوں کو کوئی چیز دیتے ہیں بلکہ خود میدان عمل میں آکر امداد کرتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ شاہ کے دور حکومت میں لوگ کبھی بھی حکومت کے لوگوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے بلکہ ہم لوگ مصیبت زدہ علاقہ میں متعین ہوتے تھے اور لوگ امدادی سامان ہمارے ہاتھوں میں لاکر دیتے تھے اور بالکل صحیح کرتے تھے۔ لیکن اب لوگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں نظام حکومت پر اعتماد ہے۔ چاہے بسیج (رضاکار فورس) ہو یا امام خمینی امدادی کمیٹی، ہلال احمر کا ادارہ ہو یا دوسرے ادارے سب پر بھروسہ ہے اور اتنا بھروسہ ہے کہ اتنا اہم کام بھی انہی کے ذریعہ انجام دیا۔ یہ ایرانی قوم کی طرف سے ایک عظیم سیاسی عمل تھا۔ یہ نہ سوچئے گا کہ بین الاقوامی مفکرین کی ان چیزوں پر نظر نہیں ہوتی یا وہ اس چیز کو نہیں سمجھتے۔ لوگوں کے اتحاد کا ہر جلوہ دشمنوں کے حملوں کے لئے ایک سپر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ لوگ آپس میں اس قدر متحد ہیں یا نظام حکومت سے ہماہنگ ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ اس ملک پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ میں پھر ایک بار آپ کے اس امدادی عمل کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ لوگ اپنی امداد کو جاری رکھیں اگرچہ حکام کا یہ کہنا ہے کہ ظاہراً اب اشیاء کافی مقدار میں موجود ہیں اور ضرورت باقی نہیں رہ گئی لیکن تعاون اور مدد کو بہرحال فراموش نہ کریں اور جاری رکھیں۔
دوسری بات جو مجھے پوری قوم سے عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مصیبتیں خود ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ انہیں ہم اپنے ہی عمل اور کوتاہیوں سے ایجاد کرتے ہیں۔ اگر گھر بنانے والے اور معمار حضرات اپنی سنگین ذمہ داری کا احساس کریں اور پھر محنت کریں نیز اپنے علم و تجربہ اور دلسوزی کو بروئے کار لائیں تو زلزلے کے نتیجہ میں یا تو قطعاً نقصان نہیں ہوگا یا پھر نہایت کم ہوگا۔ تھوڑی سی کم توجہی اتنے عظیم سانحے کا سبب بن جاتی ہے کہ ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں اور پوری ملت کے دل پر اس کا داغ باقی رہ جاتا ہے۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے۔ جو لوگ بھی گھر بناتے ہیں یا بیچتے ہیں یا جو افراد اس سلسلے میں نگرانی کے ذمہ دار ہیں یا وہ افراد جو اپنا سرمایہ اس راہ میں استعمال کرتے ہیں سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کی تساہلی اور بے توجہی سے پرہیز کریں۔ جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو نقصانات خود بخود کم ہو جاتے ہیں اور جہاں احساس ذمہ داری گیا فوراً نقصانات شروع ہو جاتے ہیں۔
ارشاد ہوتا ہے: ''فیما کسبت ایدیکم'' یا ''ماا صابک من سیئة فمن نفسک'' برائیاں خود تمہارے عمل کا نتیجہ ہیں اور پھر اس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہر ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، ان پہلوئوں پر توجہ کرے، نقصان کو کم ترین درجے تک پہنچائے۔ سارے عہدیداران اور کارکنان ہوشیار رہیں اور کسی کو کوتاہی کا موقع نہ دیں کہ وہ لوگوں کی جانوں سے کھیلے۔ صرف شہر بم ہی خطرے میں نہیں ہے بلک خطرہ ہر جگہ موجود ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس شعبہ سے متعلق ہیں انتہائی احتیاط اور دقت نظری سے کام کریں۔
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ امداد رسانی کے مرحلہ میں بھی کوئی کوتاہی نہ ہو اور ذمہ دار افراد اپنے فریضے پر بحسن و خوبی عمل کریں۔ ہم تمام متعلقہ اداروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، ہلال احمر، سپاہ پاسداران انقلاب فورس، فوج بالخصوص بسیج اور دیگر ادارے جو اس سلسلے میں سامنے آئے اور انہوں نے مختلف طرح کے کام کئے مثلا راستے ہموار کرنا، بجلی پہنچانا، ٹیلی فون کی سہولت بحال کرنا وغیرہ۔ یہ سب عظیم کام تھے اور شکرئیے کے لائق ہیں۔ مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔ مجھے اطلاع ہے کہ وہاں ابھی کمیاں باقی ہیں، ذمہ دار افراد ان پر دھیان دیں اور لوگوں کو بے انصافی کا شکار نہ ہونے دیں۔ ہم نے حکام کو انتباہ بھی دیا ہے اور مزید پھر کہیں گے کیونکہ ان مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا ہم حکام سے اپنی سنگین ذمہ داریوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کو فراموش نہ کریں۔ البتہ اس زلزلے کی وجہ سے کچھ بین الاقوامی سیاستدانوں اور مستکبرین کو موقع بھی مل گیا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے سیاسی اہداف تک پہنچیں جس میں سے ایک امریکیوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ملک کے چاروں طرف سے مدد آئی اور انتہائی عظیم مدد اور اسی طرح دیگر ملکوں سے مدد آئی جن میں امریکہ جیسا مستکبر ملک بھی شامل ہے۔ حکام کو چاہئے تھا کہ اس مدد کو قبول کرکے ضرورت مندوں تک پہنچا دیتے مگر اس کا مطلب یہ کہاں سے نکلتا ہے کہ امریکہ جیسے ظالم و مستکبر ملک کی ایران اور ایرانی قوم سے بے پناہ، ابدی اور دیرینہ دشمنی اور عداوت کو فراموش کر دیا جائے جس نے کبھی بھی ملت ایران اور یہاں کے نظام کے کسی بھی مفاد کی حمایت نہیں کی۔ ابھی تک وہاں کے حکمرانوں میں سے کسی نے بھی اپنی دشمنی میں ذرہ برابر کمی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اب بھی بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے نظام حکومت اور لوگوں پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ ہمیشہ دھمکیاں دیتے ہیں، تیوریاں بدلتے ہیں، غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی دوجملے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ گویا آستینوں میں خنجر چھپائے ہوئے ہیں۔ تو ہم کیسے ان کی نیتوں کو بھول جائیں۔ البتہ ہم ہٹ دھرمی کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ہم تو اہل منطق اور استدلال ہیں۔ سالہا سال انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ ہمارے نظام کی مخالفت کی ہے۔ طرح طرح کے پروپیگنڈے اور منصوبے ہمارے خلاف بنائے ہیں اور اسرائیل جیسے ظالم و جابر کا اتنے مظالم ڈھانے کے باوجود ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ عراق و افغانستان پر کیا ظلم نہیں کیا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ہمارے اسلامی نظام اور لوگوں کے عقائد و مفادات کے خلاف ہمیشہ اس کے برے ارادے رہے ہیں۔ جہاں بھی ہمارے مفادات کی بات آئی تو حتی الامکان اس میں ٹانگ اڑائی اور بیچ میں رکاوٹ پیدا کی۔ ہمیشہ ایران کے تمام ذخائر کو ہڑپنے کے چکر میں رہے اور اب بھی ہیں۔ انہیں چیزوں سے ایرانی قوم امریکہ سے متنفر ہے۔ اگر وہ یہ حرکتیں چھوڑ دے تو ہمیں کسی سے کیا دشمنی؟ مگر کسی قوم کو اس طرح دھمکیاں دینا، حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، سیاسی حملے کرنا، انہیں آپس میں لڑا کر متفرق کرنے کی کوشش کرنا، مختلف طرح کی اقتصادی پابندیاں لگانا، نظام حکومت کو للکارنا، غنڈا گردی کرنا اور پھر کہیں منافقانہ مسکراہٹ پیش کرنا، نظروں سے گر جانے کا سبب بنتا ہے۔ پھر لوگ اس سے برہم ہو جاتے ہیں۔ ایرانی قوم ایک خودمختار، آزاد، ہوشیار اور اپنی اسلامی شناخت کی عاشق ہے۔ ہر طرح کی دھمکی اور اغیار کی مداخلت سے متنفر ہے۔ یہ ایک عزت دار قوم ہے۔ جو بھی صلح و آشتی کا پیغام لے کر اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا وہ اسے مہمان نواز پائے گا۔ لیکن اگر کوئی غنڈا گردی، دھمکی یا اس پر قبضہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھے گا یا اپنے وحشیانہ پنجے دکھائے گا تو یہ قوم کسی کے دبائو میں آنے والی نہیں ہے۔ آپ لوگ جان لیں ، بلکہ جانتے ہیں کہ آپ کی قدرت کسی سے کم نہیں ہے۔ دشمن پچیس سال سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ آپ کی دینی و قومی تصویر کو آپ کے ذہنوں سے نکال دے مگر ابھی تک ناکام رہا ہے۔ یہ آپ کی طاقت کا ثبوت ہے۔ اس طاقت میں مسلسل اضافہ کریں اور ثابت کریں کہ ہم حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ جو قوم بھی میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹتی ہے اور اپنی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی فضا کو چھوڑ دیتی ہے فوراً بدخواہ اور استحصال کرنے والے افراد اپنی کمندیں ڈال کر وہاں قبضہ کر لیتے ہیں۔ اپنے ملک کی حفاظت کیجئے۔ یہ آپ کا ملک ہے۔ ایران صرف اور صرف آپ لوگوں کے لئے ہے۔ لہٰذا اپنے اس ملک اور نظام کو خود اپنے خداداد عزم و ایمان اور اتحاد و قدرت کے ذریعہ سنبھالئے۔ الیکشن قریب ہے، الیکشن میں شرکت کرنا ایسی مستحکم ترین چیزوں میں سے ایک ہے کہ جو دشمنوں کے حملوں اور برے ارادوں کے مدمقابل ایک فولادی سپر کا کام کرتی ہے۔ الیکشن بڑی اہم چیز ہے۔ اس الیکشن کے بارے میں میں نے خدا سے دعا کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ ہماری پوری قوم بھی اسی کی متمنی ہے کہ یہ الیکشن نہایت پر امن، صحیح و سالم اور سب کی شراکت کے ساتھ انجام پائے اور خدا سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو یہ توفیق دے کہ بہترین سے بہترین، نیک اور لیاقت مند لوگوں کو چن کر پارلیمنٹ کی راہ دکھائے۔ ارکان نظام کا ایک اہم ترین رکن یہی پارلیمنٹ (مجلس شورای اسلامی) ہے۔
اگر اس پارلیمنٹ میں باایمان، مخلص اور لیاقت مند افراد ہوں گے تو یہ مشکل سے مشکل گرہوں کو کھول سکتے ہیں۔ اہم ترین چیز جس کے بارے میں مجھے توقع بھی ہے اور توجہ بھی وہ یہی الیکشن ہے۔ یہ یاد رہے کہ الیکشن ایک میدان رقابت ہے جس میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لینا چاہئے لیکن پر امن طریقہ سے۔ ہر وہ شخص جو اس نظام پر عقیدہ رکھتا ہے وہ اس رقابت میں اتر سکتا ہے لیکن اگر کوئی اس نظام اور یہاں کے آئين کا مخالف ہے تو اس کا اس پارلیمنٹ میں آنا درست نہیں ہے اور ملت بھی یہی چاہتی ہے۔ کیونکہ واضح ہے کہ جو یہاں کے بنیادی اصول، اہداف اور یہاں کی قوم اور اس کے بنیادی نعروں ہی کو قبول نہ کرتا ہو وہ پارلیمنٹ میں آنے کا حق نہیں رکھتا۔ لیکن جو ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہو وہ میدان رقابت میں اترے۔ صحیح و سالم اور صحتمند جذبہ رقابت کے ساتھ نہ کہ عناد آمیز اور کٹھ حجتی کی روش کے ساتھ۔ میں مختلف پارٹیوں اور گروہوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، میں نہ کسی پارٹی کو پہچانتا ہوں اور نہ کسی گروہ یا شخصیت کو، میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں وارد ہونے والے شخص کو با تقویٰ ہونا چاہئے۔ پہلی شرط تقویٰ ہے۔ ''ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم'' قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وعظمت وہ ہے جو سب سے زیادہ باتقویٰ ہو۔ دوسرے یہ کہ محرومین کا طرفدار ہو، اس بات کا ادراک کرے کہ ملک میں محرومیت پائی جاتی ہے اور پھر اسے دور کرنے کی کوشش کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مالی اور اقتصادی فساد کے خلاف لڑ بھی سکتا ہو، صرف زبانی نہیں بلکہ وارد عمل ہوکر۔ صاحب علم و قدرت اور بااخلاص بھی ہو۔ صلاحیت اِن معیاروں پر پرکھی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ معیار فراموش نہ ہوں۔ تمام حکام اور ذمہ دار حضرات جس شعبہ میں بھی ہوں صرف اور صرف قانون کو معیار بنائیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں قوانین میں موجود ہیں۔ اگر کوئی بھی پارٹی یا گروہ غیر جانبدارانہ طور پر اور بالکل دقیق انداز میں قانون کو نافذ کرے تو وہی چیز سامنے آئے گی جو ہمارا مقصد ہے اور خود حکومت کو چاہئے کہ قاضی کا رول ادا کرے۔ جب کسی میدان پر کوئی مقابلہ ہوتا ہے تو فیصلہ کرنے والا ایک خاص رول ادا کرتا ہے۔ اگر فیصلہ کرنے والا کسی ایک ٹیم کی طرف رجحان پیدا نہ کرکے عدل و انصاف سے فیصلہ کرے تو چاہے کوئی بھی ٹیم جیتے فیصلہ کرنے والے کی ہی جیت ہوتی ہے لیکن اگر وہ کسی ایک ٹیم کی طرفداری کرنے لگے تو چاہے وہ ٹیم جیتے یا ہارے فیصلہ کرنے والا بہر حال شکست کھا جاتا ہے لہٰذا حکومت اس بات کی طرف متوجہ رہے کہ کسی ایک گروہ یا کسی ایک پارٹی کی طرف جھکاؤ پیدا نہ ہونے پائے بلکہ صرف ایک فیصلہ کرنے والے کا رول ادا کرے۔ اگر سب قانون کی کما حقہ پاسداری کریں تو کوئی مشکل ہی پیش نہیں آئے گی اور لوگوں میں بھی قوت انتخاب پیدا ہوگی۔ البتہ جن افراد کو الیکشن میں کھڑے ہونے کی اجازت ملتی ہے اور انہیں رائےعامہ کے حوالے کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ان کے اندر صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ان کی تائید ہی ان کی صلاحیت پر دلیل ہے لہٰذا حکومت متوجہ رہے کہ یہ سند اور تائید جھوٹی اور خلاف واقع نہ ہو ورنہ یہ عوام کے ساتھ خیانت ہوگی۔ صاحب صلاحیت کو رد کرنا یا نااہل کو قبول کر لینا دونوں چیزیں بری ہیں۔ ذمہ دار لوگ متوجہ رہیں کہ یہ خلاف ورزیاں انجام نہ پائیں۔ تاکہ انشاء اللہ ... الیکشن کا دن نمودار ہو اور لوگ آزادی کے ساتھ اپنے بہترین ووٹ کے ذریعہ اپنی معرفت کا ثبوت دیتے ہوئے نیک اور صالح انسان کو منتخب کرکے پارلیمنٹ تک بھیجیں۔ ایک معتبر اور آبرومند افراد پر مشتمل پارلیمنٹ ملک کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی۔
آخر میں رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنی نعمتوں اور رحمتوں کا رخ اس قوم سے کبھی نہ موڑے اور جس طرح گذشتہ برسوں میں خدا کا فضل و کرم اس قوم کے شامل حال رہا ہے اسی طرح آئندہ بھی قائم و دائم رہے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مبارک دعائیں بھی ان کے ساتھ رہیں ۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ