محبت اور جوش و جذبے سے چھلکتے اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے دنیا کے انقلابوں کے اصلی راستے سے منحرف ہونے کے عمل کی تشریح کی اور اسلامی انقلاب کے ثبات و استحکام کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام نوازی، استکبار دشمنی، ملکی خود مختاری کی حفاظت، انسانی وقار کے احیاء، مظلومین کے دفاع اور ایران کی ہمہ جہتی پیشرفت و ترقی کو انقلاب کے اصلی اہداف سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے ایمان و عقیدے اور جذبات و احساسات پر اسلامی انقلاب کے استوار ہونے کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ صراط مستقیم پر یہ سفر بتیس سال بعد بھی بغیر کسی انحراف کے جاری ہے اور یہ زندہ حقیقت انقلاب کے استحکام و ثبات کا حقیقی آئینہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ بتیس سال کے دوران نقطہ کمال کی سمت اسلامی انقلاب کی مسلسل پیش قدمی کا حوالہ دیا اور اس سعادت بخش عمل کے جاری رکھنے کو نوجوان طلبہ کی اہم ترین ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عصر حاضر کے نوجوان اور طلبہ ملک کے مستقبل کے عہدیدار اور فیصلے کرنے والے حکام ہیں اور انہیں چاہئے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے آئندہ نسلوں کے سپرد کریں اور اس حقیقت کو ثابت کر دیں کہ دنیا کے گوناگوں انقلابوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ اسلامی انقلاب اپنے ابتدائی اقدار و اہداف کو من و عن قائم رکھنے اور بغیر کسی وقفے کے اپنے راستے پر گامزن رہنے میں کامیاب ہوا اور انشاء اللہ اپنے حتمی اہداف تک رسائی حاصل کرکے رہے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انیس سو پچاس کے اواخر اور انیس سو ساٹھ کے اوائل میں علاقائی ملکوں، شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ میں آنے والے انقلابات کا حوالہ دیتے ہوئے ہوئے اصلی اہداف سے انقلاب کے بھٹک جانے کی مثالیں پیش کیں اور فرمایا کہ کئی صدیوں کی تاریخ میں ایران کا اسلامی انقلاب ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ انقلاب پوری طاقت و توانائی اور روز افزوں جوش و خروش کے ساتھ اپنے اہداف اور اصولوں کے راستے پر گامزن ہے۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
خداوند عالم کا دل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں کہ ایک بار پھر یہ توفیق حاصل ہوئی کہ رمضان المبارک کے ایام میں، شوق و ذو‍ق اور جوش و جذبہ سے سرشار، آپ عزیز نوجوانوں کے درمیان بیٹھوں اور آپ کی باتیں سنوں۔
میرے عزیز بچوں اور بہنوں بھائیوں نے یہاں وہی بیان کیا جو مجھے آپ نوجوانوں سے سننے کی توقع ہے۔ ممکن ہے کہ بعض بیانات میں اس حقیر اور بیان کرنے والے کا نظریہ ایک نہ ہو۔ یعنی ممکن ہے کہ مجھے وہ بات قبول نہ ہو۔ لیکن فکر، انتخاب اور جوش و خروش کے ساتھ بیان، وہی چیز ہے جو نوجوانوں کے لئے میری آرزو ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ سوچیں، فکر کریں، فکر کی بنیاد پر چاہیں اور چاہت کے مطابق آپ کے اندر جرائت بیان پیدا ہو۔ ممکن ہے کہ جو آپ کہتے ہیں، چاہتے ہیں اور بیان کرتے ہیں وہ مختصر مدت میں (جلد) پورا نہ ہو۔ (اور یہ بھی ) ممکن ہے کہ کسی دوسرے وقت، نئے تجربے کے بعد آپ کا نظریہ تبدیل ہو جائے۔ یہ سب ممکن ہے۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن بذات خود یہ جذبہ، یہ چاہت اور جوش و ولولہ، وہی چیز ہے جس کی ہمارے آج کے نوجوانوں کو ضرورت ہے۔
میں یہاں ایک بحث پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک بحث کی ابتدا ہے جو ان شاء اللہ پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے، دوستوں نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس کے بارے میں دو تین نکات عرض کروں گا۔ اول یہ ہے کہ آپ نے بہت اچھی گفتگو کی۔ خاص طور پر بعض بیانات، استدلال اور منطق کے نقطۂ نگاہ سے، بہت ہی سوچے سمجھے اور پاکیزہ خیالات پر مبنی تھے۔ میں نے خواتین و حضرات کے بیانات کی سرخیاں نوٹ کر لی ہیں۔
ایک دوست نے کہا کہ میں انتخابات کے بارے میں اپنی رائے بیان کروں۔ میری نظر میں ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔ انتخابات کے بارے میں، مجھے کچھ کہنا ہے لیکن ان شاء اللہ بعد میں بیان کروں گا۔
ایک دوست نے اطلاع دی کہ پائیدار اقتصاد کے بارے میں تحقیق کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ بہت اچھا کام ہے۔ اس طرح کے عمیق کاموں کی ملک کو ضرورت ہے۔ آپ سوچیں، مطالعہ کریں، تحقیق کریں۔ یہ تحقیقات اگر اس ذمہ دار ادارے کے کام نہ آئیں، یا اس کو پسند نہ آئیں تو بھی آپ کے کام ضرور آئيں گی ۔ یہ بہت اچھا کام ہے۔
اسی طرح ایک اور دوست نے اطلاع دی کہ شریف یونیورسٹی میں ایک اسٹڈی سینٹر قائم ہوا ہے جو اس شعبے میں کام کر رہا ہے۔ یہ بہت ہی اہم کام ہیں۔ نوجوان اور صاحب فکر طلبا کا یہ ذوق و شوق ملک کے مستقبل کے لئے بہت اچھی نوید ہے۔
حل کے طور پر جو راستے بیان کئے گئے، ان میں بعض بالکل صحیح ہیں۔ یہ بھی میں آپ سے عرض کر دوں کہ اقتصادی مسائل کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا اور جو تجاویز پیش کی گئیں ان میں سے بعض کے بارے میں ہمیں اطلاع ہے کہ حکام کے پیش نظر ہیں، وہ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، فیصلے کر رہے ہیں اور اقدام کر رہے ہیں۔ البتہ تمام اقدامات کی یا اطلاع نہیں ہو پاتی یا قابل بیان نہیں ہیں۔ بہرحال ایسا نہیں ہے کہ اقتصادی مسائل ذمہ دار حکام کے مد نظر نہ ہوں۔
بعض اداروں پر تنقیدیں بھی کی گئیں۔ یقینا ان میں سے بعض تنقیدیں صحیح ہیں۔ میں متفق ہوں لیکن غور و فکر کے عالم میں انسان بہت سے کاموں کے بارے میں سوچتا ہے، بہت سے کام انسان کے ذہن میں آتے ہیں اور جب عمل کی منزل آتی ہے تو کام اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جب عمل کے میدان میں اترتے ہیں تو جو ہم نے سوچا ہوتا ہے، جس کی ہمیں آرزو ہوتی ہے اور جو ہم کرنا چاہتے ہیں اس میں انواع و اقسام کی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ اب یہ رکاوٹیں دور کی جائیں۔ لیکن تمام رکاوٹوں کو عبور کر جانا بھی آسان نہيں ہوتا۔ بعض اوقات اس میں وقت لگتا ہے۔ اس پر توجہ دینا چاہئے۔
علاقے کے مسائل کے سلسلے میں، ایک دوست نے اشارہ کیا کہ مثلا ضروری اقدام، ضروری عمل اور ضروری سرگرمیاں نہیں تھیں۔ میں اجمالی طور پر آپ سے عرض کروں گا کہ ایسا نہیں ہے۔ علاقے کے مسائل کے تعلق سے ملک کے متعلقہ ادارے کافی فعال تھے اور اب بھی ہیں۔ اس وقت علاقہ، زور آزمائی کا میدان بنا ہوا ہے اور متعلقہ ادارے بیچ میدان میں ہیں اور پوری طرح فعال ہیں۔ بعض کام قابل تشہیر نہیں ہیں- یا ممکن نہیں ہے، یا ضروری نہیں ہے یا مناسب نہیں ہے- لیکن بہر حال بہت کام ہو رہا ہے۔ اسے ذہن نشیں رکھیں۔ اس سلسلے میں ملک کی اندرونی فضا بھی بہت اچھی تھی۔ مختلف شعبوں میں طلبا کی سرگرمیوں، یہی علاقے کے مسائل میں اظہار خیال وغیرہ، ان سب سے بہت مدد ملتی ہے۔ کام ہو رہا ہے اور ان شاء اللہ روز بروز اس میں بہتری اور وسعت آئے گی۔ مختصر یہ کہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ بے عملی رہی ہے۔ نہیں، کام ہو رہا ہے؛ بہت اچھے کام ہو رہے ہیں۔
ان محترم خاتون نے، انسانی علوم کے بارے میں ایک نکتہ بیان کیا، جو بالکل صحیح ہے۔ اول یہ کہ وہ بہت سوچی سمجھی اور دقیق بات ہے۔ یہ بات کہ سائنس کی پیشرفت میں فکر کی پیشرفت کارفرما رہی ہے، یہ بات کہ اقوام کے تغیر کا مبدء اور نقطۂ آغاز علم و تجربہ سے پہلے فکر و تفکر ہے، بالکل صحیح اور مصدقہ ہے۔ اسی لئے میں انسانی علوم کے مسائل کو اہمیت دیتا ہوں۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ مغرب والوں کی دانش کو، جنہوں نے مختلف انسانی علوم میں کئی سو سال پر محیط پیشرفت کی ہے، نہ سیکھیں، یا ان کی کتابیں نہ پڑھیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ان کی تقلید نہ کریں۔ ان محترم خاتوں کے بیان میں بھی یہی نکتہ پایا جاتا ہے جو بالکل صحیح ہے۔
مغرب میں انسانی علوم کے مبانی کا سرچشمہ مادی تفکر ہے۔ جس نے بھی رنیساں یا نشائۃ ثانیہ کی تاریخ پڑھی ہو، جانتا ہو، اس کی شخصیات کی شناخت رکھتا ہو وہ اس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ نشائۃ ثانیہ مغرب میں مختلف تبدیلیوں کا مبدء تھی لیکن ہمارے فکری مبانی ان مبانی سے مختلف ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم مغرب کے علم نفسیات، علم سماجیات، فلسفے، ابلاغیات اور ان تمام انسانی علوم سے جو مغرب میں وجود میں آئے اور پھیلے استفادہ کریں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ سیکھنے میں ہمیں کبھی سبکی کا احساس نہیں ہوتا۔ سیکھنا ضروری ہے۔ مغرب سے سیکھیں یا مشرق سے۔ اطلبو العلم و لو بالصین (1) یہ واضح ہے۔ یہ سیکھنا فروغ علم اور ہمارے اندر قوت فکر پر منتج نہ ہو تو سبکی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیشہ شاگرد نہیں رہنا چاہئے۔ شاگردی اس لئے کریں کہ استاد بن جائیں۔ مغرب والے یہی نہیں چاہتے۔ مغرب کی استعماری سیاست ہمیشہ یہی رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ علمی مسائل میں دنیا میں ایک امتیاز رہے، دو تشخص اور دو درجے ہوں۔
انسانی علوم میں سے ایک تاریخ ہے۔ میں ایک بار پھر سفارش کروں گا کہ تاریخ پڑھیں۔ استعماری دور کی تاریخ پڑھیں تاکہ دیکھیں کہ کڑک استری شدہ لباس، معطر، ظاہری نفاست، انسانی حقوق کے پرکشش دعؤوں کے باوجود انہوں نے کیسے وحشیانہ کام کئے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے انسانوں کا قتل عام کیا ہے، بلکہ اپنے زیر تسلط اقوام کو تمام میدانوں میں ترقی و پیشرفت سے روکنے کی بھی بہت کوشش کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ نہ ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ انسانی علوم سیکھیں تاکہ ان کی مقامی شکل وجود میں لائیں اور اس کو دنیا میں برآمد کریں۔ جب طرز فکر عام ہو جائے تو پھر سرحد پار جانے والا ہمارا ہر فرد سرچشمہ امید ہوگا۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ان علوم میں تقلید نہ کریں۔ انسانی علوم کے بارے میں ہمارا یہ موقف ہے۔
ایک دوست نے اشارہ کیا ہے کہ امیر المومنین ( علیہ السلام) نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں فرمایا ہے کہ غلط فائدہ اٹھانے والوں کو رسوا کرو؛ جبکہ آپ کہہ رہے ہیں ہے کہ افشاء نہ کریں۔ امیر المومنین (علیہ السلام) نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو چیز ثابت نہیں ہوئی ہے اس کو بیان کرو۔ یہ بات امیر المومنین (علیہ السلام ) کے بیان میں ہرگز نہیں ہے۔ یقینا یہ بات اسلام کے خلاف ہے۔ جو بات ثابت نہیں ہوئی ہے اس کو صرف الزام کی بنیاد پر ہم کیسے بیان کریں؟ ممکن ہے کہ الزامات اتنے زیادہ اور وسیع ہوں کہ کچھ لوگ انہیں صحیح اور یقینی سمجھنے لگیں لیکن اس کی کوئی استدلالی بنیاد نہ ہو۔ جب تک کہیں وہ الزامات ثابت نہ ہوئے ہوں، ہمارے پاس انہیں بیان کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ میں نے اسی جلسے میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا، اس سے بڑھ کے کہا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ حتی جو جرم ثابت ہو گیا ہے اس میں بھی، افشائے جرم نہیں ہونا چاہئے۔ آخر ایک مجرم ہے جس نے ایک غلطی کی ہے، سزا بھی پا رہا ہے، اس کے خاندان، اس کے بچوں اس کے ماں باپ نے تو کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ ہم بلا وجہ انہیں کیوں رسوا کریں؟ الا یہ کہ بذات خود افشاء کرنے میں کوئی بڑی مصلحت ہو۔ بعض جگہوں پر، کسی ثابت شدہ مسئلے کو آشکارا کرنے میں مصلحت ہوتی ہے، وہاں اس میں حرج نہیں ہے۔ یہ ہماری منطق ہے۔ نہ امیر المومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) سے اور نہ ہی دیگر آئمہ ھدی (علیہم السلام) سے اس کے خلاف کوئی چیز منقول نہیں ہے۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ لوگوں پر صرف گمان کی بنیاد پر بہتان لگائیں اور اس کی تشہیر کریں۔ واقعی یہ جائز نہیں ہے، نہ کسی ویب سائٹ پر، نہ کسی اخبار میں اور نہ ہی دیگر پلیٹ فارموں سے۔ لوگوں کی عزت و آبرو محفوظ رہنی چاہئے۔
آرٹیکل چوالیس کے بارے میں مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کی رائے کیا ہے؟ اس پر عمل ہوا یا نہیں؟ تفصیل سے بتانا ممکن نہیں ہے۔ ان دفعات اور شعبوں میں سے ہر ایک کی ایک تشریح ہے۔ اگر بیان کرنا ہے تو میں یہی عرض کروں گا کہ بہت اچھی طرح کام ہوئے ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکمل طور پر اطمینان بخش کام ہوئے ہوں؛ نہیں، نقائص بھی ہیں لیکن اس سلسلے میں اقدامات ہوئے ہیں۔ ملک کے ذمہ دار حکام کے پاس رپورٹیں موجود ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔ ان رپورٹوں پر حسن نیت کے ساتھ نظر ڈالنی چاہئے۔ یعنی پہلے ہی یہ نتیجہ نہیں اخذ کر لینا چاہئے کہ جو کچھ حکام آ کے بتاتے ہیں، وہ جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے، وہ رپورٹ دے رہے ہیں تو ان کے بارے میں طرز فکر یہ ہونا چاہئے کہ ان کی رپورٹیں صحیح ہیں۔ اگر چہ ممکن ہے کہ ان میں تھوڑا بہت مبالغہ ہو یا منفی پہلؤوں کو نہ دیکھا گيا ہو لیکن مجموعی طور پر رپورٹیں صحیح ہیں۔ بہرحال نقائص ہیں، اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔
ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں تغیر کے تعلق سے بھی ہم نے ضروری اقدامات کئے ہیں۔ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل سے استفادے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان کا جو سوچتا ہے اس میں اور عمل میں جو کچھ سامنے آتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے، لیکن ایسی تدابیر اپنائی گئی ہیں کہ یہ کونسل زیادہ مفید ہو۔
ایک عزیز نوجوان نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نئی نسل اگر کوئی ذمہ داری لینا چاہے تو اس کو خود میدان میں آنا ہوگا۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں، اس کو خود میدان ميں آنا ہوگا لیکن میدان میں آنے کا مطلب کیا ہے؟ اپنے اندر صلاحیت پیدا کرے، علمی قابلیت اور میدان میں اترنے کی استعداد۔ بعض افراد ہیں جنہوں نے علمی کام کئے ہیں، دانشور ہیں، سائنسداں ہیں لیکن میدان عمل میں درد سر اور وبال جان میں پڑنے والے نہیں ہیں۔ تاہم اگر کوئی واقعی ملک کی کوئی ذمہ داری اور عہدہ لینا چاہتا ہے اور خدمت کو نہیں بلکہ اس کو اہم سمجھتا ہے کیونکہ خدمت، عہدہ سنبھالنے سے وسیع تر شئے ہے، ذمہ داری قبول کرنا بھی ایک طرح کی خدمت ہے؛ البتہ یہ ذمہ داری بہتر، زیادہ موثر اور عمومیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے لئے کچھ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے علمی قابلیت بھی ضروری ہے اور عملی لیاقت بھی اور اسی کے ساتھ میدان میں اترنے کا جذبہ بھی ضروری ہے۔
انسان جب پیدل چلنے کے راستے میں، بھیڑ کے اندر سے گزرتا ہے تو وہ خود بھی دھکا کھاتا ہے اور اس سے بھی لوگوں کو دھکا لگتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ نہ اس سے کسی کو دھکا لگے اور نہ ہی اس کو کسی سے دھکا لگے تو پھر وہ گھر کے اندر بیٹھے۔ گھر میں بھی بیٹھا جا سکتا ہے یا کسی گوشے میں جاکے اچھا کام بھی کیا جا سکتا ہے؛ لیکن جب انسان سماجی، سیاسی یا انتظامی میدان میں اترتا ہے تو دھکا تو لگتا ہی ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ صاف ستھرے اور پاکیزہ قلوب و جذبات کے مالک، آپ نوجوانوں کی یہ جماعت یہاں بیٹھی ہوئی نیچے سے اوپر تک تنقید کر رہی ہے۔ کوئی نہیں کہہ رہا ہے کہ کیوں؟ میں سن رہا ہوں اور آپ کی تعریف کر رہا ہوں۔ زبانی نہیں بلکہ دل سے تعریف کر رہا ہوں۔ جن پر آپ تنیقد کر رہے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں، وہ کون لوگ ہیں؟ وہ بھی اچھے نوجوانوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے کام کیا، محنت کی، مجاہدت کی، ایک ذمہ داری تک پہنچے اور اب بھی کام کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے کام میں کوئی خامی ہو۔ آپ کا اعتراض اور تنقید صحیح ہو۔ مینجمنٹ یہی ہے۔ آپ بھی جب مینجمنٹ میں آئیں گے تو یہی باتیں ہوں گی۔ کوئی نوجوان یہاں کھڑے ہو کے آپ پر تنقید کرے گا۔
اس وقت آپ اعتراض کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ ڈائریکٹر بوڑھا ہے اور اس کا مشیر نوجوان ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ڈائریکٹر نوجوان اور مشیر کہنہ مشق ہونا چاہئے۔ لوگ میرے پاس آکے انہیں نوجوان مشیروں کی شکایت کرتے ہیں، ان پر تنقید کرتے ہیں کہ جناب فلاں وزارت خانے میں نوجوان مشیر نے اس طرح کیا۔ جبکہ وہ نوجوان مشیر یونیورسٹی کا طالب علم ہے؛ مثال کے طور پر پوسٹ گریجویٹ، یا پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے یا ابھی حال ہی میں اس نے تعلیم مکمل کی ہے۔ اس نے کوئی غلطی بھی نہیں کی لیکن اس پر تنقید ہوتی ہے۔ ایسے جذبے کی ضرورت ہے۔ انسان اپنے اندر یہ صلاحیت اور قابلیت پیدا کرکے میدان میں اترے تو یقینا اس کو ذمہ داری ملے گی۔
ہمارے ایک بھائی نے یہاں بہت اچھی باتیں کیں۔ گفتگو کے شروع میں انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کام کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ آج بھی کچھ لوگ ہیں۔ یہ آج بھی کا لفظ استعمال نہ کریں۔ آج بھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو توقع تھی کہ نہ شاید ایسے افراد نہ ہوں۔ نہیں، یہ توقع نہیں ہے۔ انقلاب کے تعلق سے ہماری توقع ان باتوں سے بہت بالاتر ہے۔ یہ نہ کہیں کہ ابھی کچھ لوگ ہیں۔ جی ہاں، خود معاشرہ میدان انقلاب ہے۔ اب میں اسی مسئلے کے تعلق سے تھوڑی سی گفتگو کروں گا۔
یہ طلبا کی تعمیری تحریک بہت قابل تعریف اور ضروری ہے۔ بہت اچھا کام ہے۔
میں یہ چند باتیں عرض کرنا چاہتا تھا۔ دوستوں نے جو باتیں بیان کی ہیں میں نے ان کا خلاصہ لکھ لیا ہے تاکہ ذہن میں باقی رہے۔ البتہ تفصیل بھی ہے، اس کو بعد میں دیکھا جائے گا، جائزہ لیا جائے گا۔ یہ خیال ذہن میں نہ آئے کہ ان باتوں کو فراموش کر دیا جائے گا۔ نہیں ان پر خاص طور پر توجہ دی جائے گی اور ان پر کام ہوگا۔ یا کم سے کم تجربات و اطلاعات میں ان سے مدد لی جائے گی۔ یعنی جو باتیں اور نظریات پیش کئے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ضائع نہیں ہوگا۔
جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ در اصل ایک بحث کا آغاز ہے، جس کو بعد میں ان شاء اللہ آپ نوجوان اپنے جلسات میں جاری رکھیں۔ گزشتہ چھے سات مہینے میں، میں اپنی تقاریر میں نظام اور انقلاب کے ثبات کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ اسلامی جمہوری نظام کا ثبات و استحکام اور پائیداری و دوام ان اہم ترین عوامل میں سے ہے جنہوں نے علاقے کے عوام اور مسلم اقوام کو امید عطا کی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے علاقے میں اس عظیم تحریک اور بیداری میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ آج میں انقلاب کے ثبات و استحکام اور دوام کے بارے میں تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ تھوڑا سا اس بحث کو آگے بڑھاؤں گا۔
معاشرے میں اتنی عظیم تبدیلی آ رہی ہے جو سیاسی اور سماجی انقلابات کا واضح نمونہ ہے۔ یہ تبدیلی کون لا رہا ہے؟ ایک نسل وجود میں لا رہی ہے؛ البتہ یہ ان حالات کا نتیجہ ہے جو اس نسل کے لئے وجود میں آئے ہیں لیکن گزشتہ اور اس سے پہلے کی نسل کے لئے پیش نہیں آئے تھے۔ اب دو میں سے ایک حالت پیدا ہوگی؛ یا یہ کہ جب اس نسل کے ذریعے یہ تبدیلی آئی تو بعد کی نسلیں اس کو جاری رکھیں گی اور اس کی تکمیل کریں گی۔ اس صورت میں یہ تبدیلی ہمیشہ باقی رہنے والی تحریک ہوگی اورو امّا ما ینفع النّاس فیمکث فی الارض (2) کی مصداق ہوگی۔ یعنی محکم اور مستحکم ہوگی۔ یا ایسا نہیں ہوگا بلکہ بعد کی نسل مختلف عوامل کے زیر اثر کام کو جاری نہیں رکھ پائے گی، جمود کا شکار ہو جائے گی، انحراف میں پڑ جائے گی، کنارے ہو جائے گی۔ بعد کی نسل کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ بعد کی نسل عمر کے لحاظ سے بھی بعد کی نسل ہو، بلکہ ممکن ہے کہ عمر کے لحاظ سے خود اسی پہلی نسل کے گروہ سے ہو۔ بہرحال دوسری صورت میں عوام کے لئے تبدیلی کا فائدہ ختم ہو جاتا ہے اور اس قسم کی تبدیلی کا جو نقصان ہوتا ہے وہی عوام کے سامنے باقی رہ جاتا ہے جس کی تلافی بھی نہیں ہوتی۔ یہ کلی بات ہے۔
جو تغیرات حالیہ دو تین صدیوں میں، جو عظیم انقلابات کی صدیاں ہیں، رونما ہوئے میں نے ان کا جتنا بھی مطالعہ کیا، ویسے اب آپ مطالعہ کریں، شاید آپ کو کچھ مل جائے، لیکن مجھے اسلامی انقلاب جیسی کوئی بات نظر نہیں آئی کہ جو تبدیلی پہلے دور میں آئی وہ بعد کے ادوار میں بعد کے عشروں میں اسی شکل میں، انہیں اہداف کے ساتھ، انہیں امنگوں کے ساتھ یا انہیں جہتوں کے ساتھ جاری رہی۔ یا تو یہ ہوا کہ بالکل بھی جاری نہیں رہ پائی جیسے انقلاب روس تھا؛ یا جاری تو رہی لیکن ایک وقفہ اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد کافی مشکلات، مشقتوں اور سختیوں سے دوچار ہوئی جیسے فرانس کا انقلاب کبیر ہے، جیسے امریکا کی آزادی ہے۔ اب اس کو انقلاب یا جو بھی کہیں۔ ان کے ابتدائی اہداف بمشکل حاصل ہوئے لیکن بہت مشقت اور زحمتوں سے اور زمانہ دراز کے بعد۔ جیسے یہی فرانس کا انقلاب کبیر ہے۔ کبیر اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ اس انقلاب کے بعد فرانس میں پچاس ساٹھ سال کے اندر دو تین انقلاب آئے لیکن وہ پہلا انقلاب زیادہ اہم اور زیادہ موثر تھا۔ ایک ہزار سات سو نواسی ( 1789) یہ فرانس کے انقلاب کبیر کا سال ہے۔ یہ انقلاب فرانس کی شاہی حکومت کے خلاف آیا؛ یعنی وہی کام جو ایران میں ہوا۔ البتہ اس وقت فرانس میں جو شاہی خاندان حکومت کر رہا تھا وہ ہمارے اس اندر سے کمزور اور عوامی مقبولیت سے محروم پہلوی خاندان سے زیادہ مقتدر اور قدیمی تھا۔ بوربن خاندان تھا جو کئی سو سال سے فرانس میں حکومت کر رہا تھا۔ ان کے درمیان اسی سلسلے کے بہت ہی مقتدر بادشاہ بھی گزرے ہیں۔ یہ انقلاب اس سال میں، یعنی سترہ سو سو نواسی میں آیا۔
یہ مکمل طور پر عوامی انقلاب تھا؛ یعنی اس میں واقعی عوام شامل تھے۔ خود ہمارے اپنے انقلاب کی طرح۔ اس کے رہنما بھی سو فیصد عوامی تھے جو نئی فکر کے مالک تھے اور عوامی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے۔ البتہ ان کے پیش نظر جو چیز تھی وہ نظریاتی اور اعتقادی نہیں تھی، وہ بس یہ چاہتے تھے کہ ان کی حکومت عوامی ہو۔ وہ ایک عوامی جمہوری حکومت چاہتے تھے۔ جی، یہ انقلاب اس سال رونما ہوا۔ تین چار سال بعد، وہ پہلا گروہ جو انقلاب لایا تھا، ایک انتہا پسند گروہ کے ذریعے کنارے لگا دیا گیا اور کچھ لوگوں کو سزائے موت دے دی گئی اور یہ انتہا پسند گروہ برسر اقتدار آ گيا۔ چار پانچ سال یہ انتہا پسند گروہ اقتدار میں رہا۔ بعد میں عوام کے ساتھ سختی کے نتیجے میں اس گروہ کو عوام کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور سرانجام اسے اقتدار سے ہٹا دیا گیا، کچھ لوگوں کو سزائے موت دی گئی اور پھر تیسرا گروہ بر سراقتدار آ گیا۔ یعنی تقریبا گیارہ بارہ سال میں، سنہ 1800 تک، تین گروہ برسر اقتدار آئے جن میں سے ہر ایک نے پہلے والے گروہ کا قلع قمع اور اس کو ختم کیا۔ شروع کے انہی دس گیارہ سال میں، انقلابی گروہوں کی معروف سیاسی شخصیات کو سزائے موت دی گئی۔ بعد میں یہ جو افراتفری پیدا ہوئی، جس ملک میں یہ سب کچھ ہوگا، ظاہر سی بات ہے کہ وہاں افراتفری پیدا ہوگی، اس سے عوام تھک گئے۔ یہاں تک کہ ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی اور نیپولین ان تین افراد میں شامل تھا۔ نیپولین ایک نوجوان فوجی افسر تھا جس نے مصر میں فتوحات حاصل کی تھیں اور اس کے قصے بہت ہیں اور تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ اس نے اس کمیٹی میں ایک حیثیت حاصل کی اور اس تین رکنی کمیٹی پر حاکم ہو گیا اور بعد میں بادشاہ اور سلطان بن گیا۔ وہی ملک جس میں اتنے نقصانات اٹھا کے سلطنتی نظام ختم کیا گیا، لوئی شانزدہم اور اس کی ملکہ کو سزائے موت دی گئ، اس میں دوبارہ بادشاہت قائم ہو گئی اور نیپولین بر سر اقتدار آ گيا۔ نیپولین ایک طاقتور فوجی شخصیت تھی اور اس نے فرانس کے لئے بڑے کام بھی کئے۔ اس نے غیر فوجی کارنامے بھی انجام دیئے لیکن اس کے زیادہ تر کارنامے فوجی نوعیت کے ہیں۔ اس نے کئی یورپی ملکوں کو فرانس میں شامل کیا۔ اٹلی، اسپین اور سوئزرلینڈ کو فرانس کا حصہ بنا دیا۔ کئی یورپی ممالک کو اس نے فتح کیا اور فرانس میں شامل کیا۔ البتہ نیپولین کے جانے کے بعد یہ ممالک ایک ایک کرکے فرانس سے الگ ہو گئے۔ یعنی یہ فتوحات ناپائیدار تھیں لیکن وہ ملک جس نے اتنی قربانیاں دیکر انقلاب برپا کیا، عوامی حکومت کی تشکیل عمل میں لایا، اس کا نظام بہت آسانی سے دوبارہ بادشاہت میں تبدیل ہو گیا۔ نیپولین کی جلاوطنی اور موت کے بعد، یعنی تقریبا اٹھارہ سو پندرہ تک، تقریبا پچاس سال تک، بہت ہی سخت اور اندوہناک تغیرات کے ساتھ فرانس میں بادشاہت قائم رہی۔ اگر آپ انیسویں صدی کے ناول پڑھیں تو ان کتابوں میں، ان انقلابات اور فرانس کے عوام کو در پیش اس دور کی سختیوں اور رنج و آلام کی علامتیں اور نشانیاں واضح طور پر نظر آئیں گی۔ ان کتابوں میں وکٹر ہیوگو، بالزاک وغیرہ کی کتابیں شامل ہیں۔
سنہ اٹھارہ سو ساٹھ کے بعد ایک اور انقلاب آیا، نیپولین کی قوم اور خاندان، نیپولین سوم کی بادشاہت ختم ہوئی اور جمہوری حکومت برسر اقتدار آئی۔ پھر جمہوریتوں میں بھی تبدیلی آئی۔ پہلی جمہوریت، دوسری جمہوریت اور تیسری جمہوریت یہاں تک کہ آج جو آپ فرانس میں دیکھ رہے ہیں، اس کی نوبت آئی، جو عوامی اور ڈیموکریٹک حکومت ہے۔ انقلاب فرانس میں یہ تلخیاں رہی ہیں۔ شروع میں اس میں یہ صلاحیت اور قوت نہیں تھی کہ عوام کے درمیان اپنی جگہ بناتا، محکم ہوتا اور اس میں دوام آتا۔ دو سو سال، ڈیڑھ سو سال اور سو سال کے اس طولانی دور میں جو تغیرات آئے ان سب میں یہی بات دیکھی گئی۔
بالکل یہی امریکا میں ہوا۔ انقلاب امریکا یعنی برطانوی حکومت سے امریکا کی آزادی کا واقعہ، انقلاب فرانس سے پانچ چھے سال پہلے یعنی تقریبا سترہ سو بیاسی میں رونما ہوا۔ اس وقت امریکا کی آبادی چالیس پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ ایک تحریک اٹھی، ایک حکومت قائم ہوئی، کچھ شخصیتیں بر سراقتدار آئیں، جیسے جارج واشنگٹن وغیرہ، لیکن یہاں بھی وہی ہوا۔ پہلی تحریک کے بعد امریکی قوم کو بہت زیادہ سختیوں اور رنج و الم کا سامنا ہوا، عجیب و غریب داخلی جنگیں ہوئیں۔ انہی داخلی جنگوں میں سے ایک میں جو شمال اور جنوب کے درمیان یعنی در حقیقت شمال مشرقی اور جنوب مشرقی امریکا کے درمیان تھی، کیونکہ مغربی امریکا اس ملک اور اس حکومت کے اختیار میں تھا، چار سال میں کم سے کم دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ البتہ اس زمانے میں اعداد و شمار نہیں تھے، جن لوگوں نے لکھا ہے اور بتایا ہے ان کا یہی کہنا ہے۔ یہاں تک کہ سر انجام امریکا کی آزادی کے تقریبا سو سال کے بعد، حکومت میں استحکام آیا اور وہ اسی پرانے طریقے پر خود کو چلانے پر قادر ہوئی۔
لیکن جرائم کے جو واقعات ہوئے، انہی حکام، ان کے حوالیوں موالیوں اور فوجیوں نے جو المیئے رقم کئے، ان کی داستان بہت ہی عجیب وغریب، طولانی اور اندوہناک ہے۔ پڑوسی ملکوں پر حملہ، اصلی باشندوں یعنی سرخ فاموں پر جارحیت، سرخ فام قبائل کا صفایا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان ان واقعات کو نہیں جانتے۔ اگر انسان کو معلوم ہو کہ آج بعض ملکوں میں تمدن، ترقی اور دولت و ثروت کے نام پر جو کچھ ہے، وہ کتنی برائیوں، سنگدلی، مظالم اور تخریبکاری کا نتیجہ ہے تو اس کے اندر ایک نئی سوچ پیدا ہوگی۔ یہ ہونا بھی چاہئے، یہ انسان کا فریضہ ہے۔
سوویت یونین میں یہی بات دوسری شکل میں ہوئی۔ سوویت یونین میں جو اہداف طے کئے گئے تھے حالانکہ وہ نظریاتی اور آئیڈیالوجکل اہداف تھے مگر پورے نہیں ہوئے۔ دعوی کیا گیا تھا کہ سوویت یونین کی حکومت عوامی اور جمہوری حکومت ہے، سوشلسٹ حکومت ہے۔ عوام کی تحریک کی بنیاد پر وجود میں آنے والی جمہوری، عوامی اور عوام کی ضرورتوں کی تکمیل کا عہد کرنے والی حکومت ہے لیکن ابتدائی برسوں میں ہی یہ عہد ٹوٹ گیا۔ انیس سو سترہ میں سوویت یونین کا انقلاب آیا اور پانچ چھے سال گزرنے کے بعد ہی اس کا راستہ تبدیل ہو گيا۔ حکومت کے مد نظر پیمانے سے عوام حقیقی معنی میں الگ ہو گئے۔ کمیونسٹ پارٹی جس کے چند ملین ممبر تھے، حکمفرما ہو گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی انہیں چند افراد کی حکومت تھی جو ہر دور میں سر فہرست رہے۔ اسٹالن کے دور میں تو ایک ہی فرد کی حکومت تھی لیکن بعد کے ادوار میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیادی کمیٹی ہی ہر سفید و سیاہ کی مالک رہی ہے۔ لوگوں پر بہت زیادہ دباؤ پڑا۔ کتنی پابندیاں لگیں، لوگوں نے کتنی سختیاں برداشت کیں؟! ان ادوار میں سوویت یونین کے اندر سے بعض تحریریں کسی طرح لیک ہوکر باہر نکل جاتی تھیں۔ بعض کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوتا تھا۔ ہم بھی اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ سوویت یونین کے سقوط سے پہلے تک ان تلخ اور المناک پہلؤوں میں سے بہت سے پوشیدہ تھے، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بہت سی باتیں معلوم ہوئیں کہ وہ کیسے کیسے کام کیا کرتے تھے، کیسی پابندیاں تھیں؟! بعد میں جو ادبی تخلیقات وجود میں آئیں ان میں سوویت یونین کی حکومت کے دور میں عوام کی مشکلات اور زندگی کی سختیوں کی نشاندہی کی گئی۔ یعنی اس انقلاب میں شروع سے ہی انحراف آ گیا۔ صرف یہی نہیں کہ اس میں دوام نہیں رہا بلکہ ابتدائی وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا۔
یہ انقلابات تھے۔ اب مشرق وسطی اور زیادہ تر شمالی افریقا اور لاطینی امریکا میں بعض انقلاب نما واقعات رونما ہوئے، جو انقلاب نہیں تھے بلکہ زیادہ تر فوجی بغاوتیں تھیں۔ پچاس کے عشرے کے اواخر اور ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں، شمالی افریقا کے ملکوں یعنی مصر، لیبیا، سوڈان اور تیونس میں بائیں بازو کے رجحان کے ساتھ بعض انقلابی اقدامات ہوئے۔ چند استثنائات کو چھوڑ کے یہ تمام ممالک انقلابی ممالک تھے لیکن ان ملکوں میں خود انقلاب لانے والے، انقلاب سے منحرف ہو گئے۔ انقلابات بائیں بازو کے تھے۔ امریکا کے خلاف تھے۔ فرانس اور برطانیہ کے خلاف تھے۔عوام کو اس نام پر میدان میں لائے تھے لیکن وہ لوگ جو ان انقلابات کے لیڈر تھے عملا منحرف ہو گئے اور انہی استعماری طاقتوں کی آغوش میں چلے گئے۔ ان میں سے ایک یہی تیونس کا بو رقیبہ تھا۔ بورقیبہ انقلاب تیونس کا لیڈر تھا۔ تیونس کا انقلاب وہ لایا تھا لیکن خود بدل گیا، مغرب اور فرانس کی کٹھ پتلی بن گیا۔ اس راستے پر چلا گیا اور اس کے بعد بن علی آیا۔ یا مصر میں انور سادات، جمال عبدالناصر کے ساتھیوں میں سے تھا۔ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے فوجی بغاوت یا بقول خود آزاد فوجی افسروں کا انقلاب لائے تھے۔ جمال عبدالناصر کے زمانے میں آزاد فوجی افسروں کا انقلاب نجات فلسطین کے نعرے کے ساتھ آیا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں سے ہاتھ ملا لیا اور فلسطینی عوام کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ آخر میں نوبت یہ آ گئی کہ فلسطین کے محاصرے، غزہ کے محاصرے، فلسطینی عوام کو ختم کرنے کے لئے صیہونیوں کے ساتھ تعاون کیا جانے لگا۔ یعنی ایک سو اسی درجہ بدل گئے۔
یا سوڈان میں، میرے خیال میں آپ کو نمیری یاد نہیں ہوگا۔ مجھے اس کا بھی بر سر اقتدار آنا یاد ہے۔ نمیری ایک انقلابی فوجی افسر تھا جس نے درحقیقت سوڈان کو مغرب سے آزاد کرایا تھا۔ لیکن یہی نمیری آہستہ آہستہ مغرب کی طرف جھکتا چلا گیا اور مغرب کا کارندہ بن گیا۔ یہ انقلابی جو آج بر سراقتدار ہیں، انہوں نے اس کے خلاف قیام کیا اور ملک کو اس کے اقتدار سے نکالا۔ جعفر نمیری، جو مغرب مخالف تھا، جس نے مغرب نواز حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا وہی خود مغرب کا کارندہ اور غلام بن جاتا ہے۔ دوسرے بھی اسی طرح ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ سن ساٹھ کے عشرے کے برسوں میں، مشہد میں ہم مصر کا ریڈیو صوت العرب، جو جمال عبدالناصر کے زمانے میں تھا، سنا کرتے تھے۔ جمال عبدالناصر لیبیا گئے تھے اور اسی قذافی کے ساتھ جو اس وقت ایک اٹھائیس انتیس سال کا نوجوان تھا اور اس نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹا تھا اور وہی جعفر نمیری، تینوں مصرکے ریڈیو صورت العرب سے تقریریں کیا کرتے تھے۔ یہ تینوں ایک جگہ جمع ہوکے بہت ہی سخت انقلابی باتیں کیا کرتے تھے۔ یہی قذافی ایسی باتیں کرتا تھا کہ ہم اس وقت جوش میں آ جاتے تھے۔ ہم اس زمانے میں مجاہدت کے دور میں تھے۔ اس ریڈیو کا سننا غیر قانونی تھا۔ ہم بعض دوستوں کے ساتھ جن میں سے ایک کے پاس ریڈیو تھا، رات میں ایک گھر میں جاکے بیٹھتے تھے اور ریڈیو صوت العرب سنا کرتے تھے۔
تحریکوں کی سرگزشت کچھ اس طرح کی ہے۔ یعنی انقلابات مختلف عوامل کے زیر اثر شروع میں ہی اپنے راستے سے منحرف ہو گئے یا تھوڑے عرصے کے بعد ان میں انحراف آ گیا۔ بعض جگہوں پر یہ انحراف دسیوں سال رہا۔ فرانس میں یہ انحراف ستر سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا یہاں تک کہ تدریجی طور پر بعض اہداف، وہ بھی سب نہیں بلکہ بعض، حاصل ہو‏ئے۔
اسلامی انقلاب ایک استثناء ہے۔ اسلامی انقلاب ایسی تحریک تھی جس کے مخصوص اہداف تھے۔ اگرچہ وہ اہداف جو واضح تھے، کلی تھے تدریجی طور پر ان کی تشریح و تفصیل سامنے آئی اور مصادیق معلوم ہوئے لیکن اہداف، بالکل واضح تھے۔ اسلام پسندی کا ہدف، سامراج کی مخالفت کا ہدف، ملک کی خودمختاری کے تحفظ کا ہدف، انسانی وقار کی بحالی کا ہدف، مظلوم کے دفاع کا ہدف، ملک کی علمی، سائنسی ، صنعتی اور اقتصادی ترقی کا ہدف، یہ انقلاب کے اہداف تھے۔ انسان جب امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ارشادات اور انقلاب کے اصلی دستاویزات میں ان اہداف پر نگاہ ڈالتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ان سب کی جڑیں اسلامی تعلیمات میں پیوست ہیں۔ عوامی ہونا، عوام کے ایمان پر استوار ہونا، عوام کے عقائد، عوامی محرکات اور عوامی جذبات انقلاب کے بنیادی ستونوں میں شامل ہیں۔ یہ تحریک جاری رہی، اس تحریک میں انحراف نہ آیا، یہ تحریک منحرف نہیں ہوئی۔ آج انقلاب کو آئے ہوئے بتیس سال گزر رہے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔
انقلاب کا ثبات اور انقلاب کا دوام ہم اس کو کہتے ہیں۔ ہم نے ایک بات کہی ہے انّ الّذین قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقاموا(3) ملت ایران نے ربّنا اللہ کہا اور اپنے پیروں پر ثابت قدمی سے کھڑی ہو گئ۔ یہ ثابت قدمی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی۔ آج آپ نوجوانوں نے یہاں جو نشاط آور، پرجوش، ولولہ انگیز اور صادقانہ باتیں کی ہیں، شاید آپ میں سے کوئی بھی آغاز انقلاب میں اس دنیا میں نہیں تھا، آپ نے انقلاب کے دور کو نہیں دیکھا ہے، جنگ کا دور نہیں دیکھا ہے، امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ) کا دور نہیں دیکھا ہے لیکن آپ کا راستہ وہی ہے، آپ کی سمت وہی ہے اور آپ کا ہدف وہی ہے۔ جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ بالکل وہی باتیں ہیں جو اس زمانے میں بھی لوگ کہتے تھے۔ میں ہفتے میں ایک بار تہران یونیورسٹی جاتا تھا اور وہاں طلبا کے ساتھ میٹنگ ہوتی تھی، نماز پڑھتے تھے اور نماز کے بعد سوالات کے جواب دیتے تھے اور تقریر ہوتی تھی۔ مدتوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت وہاں جو باتیں ہم کرتے تھے طلبا کہتے تھے، یہی باتیں تھیں۔ البتہ آج ان میں زیادہ پختگی آ گئی ہے۔ زیادہ ماہرانہ انداز پیدا ہو گیا ہے اور ان میں تمام جوانب پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ جذبات وہی ہیں لیکن آج یوینورسٹی کی فضا میں جو باتیں کی جاتیں ہیں ان میں اس زمانے کی نسبت زیادہ گہرائی پائی جاتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔
اب تک اس پر عمل ہوا، اب اس کے بعد آگے کیا ہوگا؟ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہی ایک جملہ ہے کہ اس کے بعد موجودہ نوجوان نسل اور طلبا کی ذمہ داری عام طور پر یہی ہے کہ اس راستے کو اسی جہت کے ساتھ، زیادہ تکامل کی طرف آگے بڑھائیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یونیورسٹی اور طلبا کے ماحول میں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ کام آپ کو کرنا ہے۔ وہ نسل جس میں ہم تھے، فعال تھے، جوانی کی طاقت تھی، جوانی کو اس راہ میں لگایا، اب وہ نسل مضمحل ہو رہی ہے۔ دنیا کے تمام دیگر موجودات کی طرح زوال اور فنا کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس حقیقت کو اپنی تحویل میں جو نسل لے رہی ہے وہ آپ ہیں۔ آج کے نوجوان اور آج کے طلبا ہیں۔ ملک کے مستقبل کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ ملک کی منصوبہ بندی کرنے والے اور فیصلے کرنے والے آپ ہوں گے۔ آپ چاہیں تو اس راستے کو جاری رکھ کے اس کو تکامل کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ جو استعدادیں بروئے کار نہیں لائی گئیں ان سے کام لیں۔ خلاؤں کو پر کریں۔ یہی چیزیں، جنہیں آپ مسلسل کہتے ہیں، یہ کمی ہے، یہ نقص ہے، یہ اعتراض ہے، تنقید پر تنقید! یہ صحیح بھی ہے، آپ انہیں برطرف کریں اور اگر چاہیں تو یہ کام نہ کریں۔ آج کی نوجوان نسل عمل نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔ البتہ ایسا فیصلہ نہیں کرے گی؛ مجھے اس کا یقین ہے۔ نوجوان نسل اس تحریک کی دینی بنیاد اور اس کی محکم اعتقادی اساس کے سبب اس تحریک کو جاری رکھے گی۔ دنیا کے گوناگوں انقلابات کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا انقلاب آیا ہے اور خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہے کہ جس نے اپنی پہلی بات، اپنے اصول، اور اپنی ابتدائی اقدار کو، بغیر کسی وقفے کے جاری رکھا ہے اور ان شاء اللہ اپنے انتہائی اہداف تک پہنچے گا۔
آپ طلبا تنظیموں کے ذمہ دار اراکین، ذہین اور منتخب طلبا ہیں، درحقیقت ملک کے دسیوں لاکھ طلبا میں آپ منتخب افراد ہیں جو یہاں جمع ہیں۔ البتہ یہ باتیں بقیہ تمام طلبا بھی سن سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر اور اخبارات میں آئیں گی۔ جو بھی چاہے سن سکتا ہے، ( پڑھ سکتا ہے) آپ کو فیصلہ کرنا ہے۔ جان لیں کہ اقدار پر استوار، یہ مبارک تحریک، آپ کی فکر، آپ کی ہمت، آپ کی شجاعت، آپ کی قوت تفکر اور آپ کے عزم راسخ پر منحصر ہے۔ اسے، آپ کو جاری رکھنا ہے۔
الحمد للہ آج تک انقلاب بہت اچھی طرح آگے بڑھا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہم اہداف سے منحرف نہ ہوئے، الگ نہیں ہوئے، جو بلائیں ان بڑے اور عظیم انقلابات پر نازل ہوئیں، ہمارا انقلاب ان سے محفوظ رہا۔ گوناگوں حوادث پیش آئے لیکن انقلاب سب پر غالب آیا۔ اپنے اصولوں کے ساتھ اپنی حفاظت میں کامیاب رہا اور آج تک تکامل کے راستے پر گامزن ہے۔ انقلاب ملک کو بھی آگے لے گیا۔ آج ملک کے مختلف شعبوں میں جو پیشرفت آپ دیکھ رہے ہیں، میں نے تین دن قبل ملک کے اعلی رتبہ عہدیداروں کے ساتھ گفتگو میں اجمالا اس کی طرف اشارہ کیا تھا، گزشتہ صدیوں میں ایسی ترقی کبھی نہیں تھی۔ البتہ ماضی میں اور تاریخ میں کیوں نہیں، زمانے کے لحاظ سے اس جیسی کچھ چیزیں رہی ہیں، لیکن حالیہ صدیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ملک کو آپ نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ ملک کو پیشرفت کرنا چاہئے۔ ہم ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، آغاز سفر میں ہیں۔ میں نے کہا کہ انقلاب کی ایک خصوصیت نمونہ قائم کرنا ہے۔ آپ اس ہدف پر کام کر سکتے ہیں کہ اسلامی معاشروں کے لئے مثالی نمونہ پیش کریں۔ کہیں کہ جناب، یہ کام کیا جا سکتا ہے، اس طرح یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے؛ یہ ممکن ہے۔
طلبا تنظیموں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ پہلی سفارش میں طلبا تنظیموں کو جو انقلاب، ملک اور طلبا کے تمام مسائل کی فکر میں رہتی ہیں، یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ مقابل محاذ یعنی سامراج، محاذ ظلم، عالمی سرمایہ دارانہ محاذ اور بڑی بڑی کمپنیوں پر نظر ڈالیں تو ایک محاذ کی حیثیت سے انہیں دیکھیں۔ اسلامی انقلاب ایک معنوی، دینی، ثقافتی اور اعتقادی انقلاب ہے، اس کے مقابلے میں ایک منظم محاذ موجود ہے۔ جب آپ ایک محاذ کی حیثیت سے انہیں دیکھیں گے تو ان کے بہت سے کاموں کا اصلی مقصد آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔ یہ مسئلہ، یونیورسٹی طلبا اور ان کی تنظیموں کے فریضے کا تعین کرتا ہے۔
فرض کریں کہ ملک میں دہشتگردی کی کارروائی میں کسی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ شہید علی محمدی، شہید شہریاری، شہید رضائی نژاد کو دہشتگردانہ حملے میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک دہشتگردانہ کام ہے۔ اگر ہم انہیں ملک کے امن و امان کو درہم برہم کرنے والے دہشتگردانہ فعل کی حیثیت سے دیکھیں تو بھی، ظاہر سی بات ہے کہ دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے کئی سائنسداں دشمن کے جرائم کا نشانہ بنے اور دہشتگردوں کے حملے میں مارے گئے لیکن اگر محاذ کی نظر سے دیکھیں تو یہ بھی اسلامی نظام کے خلاف معاندانہ اقدامات کے سلسلے کی ایک کڑی نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر عراق کے ساتھ جنگ کے محاذ پر، جس کے ساتھ آٹھ سال جنگ ہوئی، اگر کسی جگہ دشمن کا توپخانہ گولہ باری کرتا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ دشمن صرف اس مخصوص جگہ کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ دشمنانہ حرکت ہے جو دشمن یہاں انجام دے رہا ہے۔ شاید آپ کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ کسی اور جگہ حملہ اور خود اس کے بقول سپورٹ کی کاروائی کرے۔ درحقیقت یہ ایک حیلہ ہوتا ہے۔ یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہاں ہمارے مجاہدین کو کمزور کرے تاکہ مثال کے طور پر ایک بڑا حملہ کر سکے۔ جب اس نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دشمن ملک کی علمی تحریک کو کچلنا چاہتا ہے۔ یعنی یہ دشمن کی سازشی زنجیر کا ایک حلقہ ہے۔ کئی سازشی حلقے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثلا اقتصادی بائیکاٹ کا سازشی حلقہ، اخلاقی پستی پھیلانے کا حلقہ، منشیات عام کرنے کی سازش، سیکورٹی میں خلال ڈالنے کے اقدامات، اعتقادی مسائل اور مبانی کو چاہے ان کا تعلق اسلام پر اعتقاد سے ہو یا انقلاب پر یقین سے، متزلزل کرنے کی سازش، یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے گوناگوں سازشی حلقے ہیں۔ انہی سازشی حلقوں میں سے ایک، جو اس سازشی زنجیر کو مکمل کرتاہے، ہمارے سائنسدانوں کو خوفزدہ اور انہیں ختم کرکے ملک کی علمی تحریک کو کچلنا ہے۔ معاملے کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھیں۔
اگر دشمن کے مجموعے کو ایک مستقل محاذ کی حیثیت سے جس نے کاموں کو آپس میں تقسیم کر لیا ہے، دیکھیں تو ہر معاملے میں ہمارا احساس ذمہ داری ایک نئی شکل میں ہوگا۔ اب دہشتگردانہ قتل کے انہی معاملات میں میرا نظریہ یہ ہے کہ طلبا تنظیموں کے اراکین نے کوتاہی کی ہے یعنی کم عملی دکھائی۔ اس معاملے کو بڑھانا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو بڑا بنائیں، یہ خود ہی بڑا واقعہ ہے، جیسا ہے ویسا ہی بیان کرتے۔ ہم نے حتی یہ بھی نہیں دیکھا کہ طلبا تنطیموں نے ان شہیدوں کے پوسٹر تیار کرکے تقسیم کئے ہوں اور ہماری یادوں میں انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کی ہو۔ نہیں، اس بات کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ یہ کوئی معمولی اقدام نہیں ہے۔
ملک میں علم کا مسئلہ، یہ اسی زنجیر کا ایک حلقہ ہے اور یہ حلقہ بالکل اسی بنیادی اور اصلی نقطے سے تعلق رکھتا ہے جس پر ہم دس بارہ سال سے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ العلم سلطان علم اقتدار ہے۔ جو بھی صاحب علم اور اس اقتدار کا مالک ہو وہ اس روایت کے مطابق صال دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ یعنی اپنے اہداف کو حاصل کر سکتا ہے اور جو بھی اس کا مالک نہ ہو سکا، صیل علیہ (4) یعنی دوسرے اس پر حکمرانی کریں گے۔ دس پندرہ سال کی علمی تحریک میں ہماری منطق یہ ہے۔ اس وقت بہت حد تک ملک میں یہ علمی تحریک، ثمر بخش ہوئی ہے۔ اس کو متوقف کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس پر خاموش نہ رہیں۔
بنابریں دشمن کو اس نگاہ سے دیکھیں۔ دشمن کے محاذ کی حرکت پر نظر رکھیں تو ان کی جانب سے بعض تحریکوں کی حمایت، بعض تحریکوں کی مخالفت اور ملک کے بعض مسائل میں ان کی مداخلت کا مقصد سمجھ میں آئے گا۔ معلوم ہوگا کہ ان کا ہدف کیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے کاموں کی طرف سے ہوشیار رہیں۔
ایک سفارش جو میں طلبا تنظیموں کو خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ فکری و ثقافتی امور پر گہرائی کے ساتھ، پروگرام کے تحت، با مقصد انداز میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ کام کریں۔ کبھی دشمن یونیورسٹی کی فضا پر آشکارا یلغار کرتا ہے۔ یہاں آپ کو آشکارا طور پر اس کے مقابلے پر ہونا چاہئے۔ جیسے سن اٹھاسی ( ہجری شمسی مطابق دو ہزار نوعیسوی ) کے فتنے میں ہوا۔ کبھی اس کی یلغار آشکارا نہیں ہوتی، یہاں طلبا تنظیموں کی فعالیت اور سرگرمی فکری اور عمیق ہونی چاہئے۔ کلامی (اعتقادی) مسائل، اخلاقی مسائل، تاریخ کے مسائل اور انقلاب کے مسائل میں آپ کی نظر بہت عمیق ہونی چاہئے۔ ملک کے گوناگوں مسائل میں، جیسے وہ مسائل جو دوستوں نے بیان کئے، کام کریں۔ فرض کریں کہ آپ مرکزی بینک، سلامتی اور حفظان صحت کے نظام کے بارے میں، یا اقتصادی جہاد کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں، یہ بہت اچھا ہے مگر اس پر اکتفا نہیں ہونا چاہئے۔ کلامی (اعتقادی) مسائل میں بھی بہت گہرائی کے ساتھ کام ہونا چاہئے۔ ملک کے سیاسی مسائل میں غیر جذباتی طریقے سے کام ہونا چاہئے۔ جذباتیت، اچھی اور پاکیزہ چیز ہے اور میں جذبات کے اظہار بالخصوص نوجوانوں کے جذباتی اظہار کا مخالف نہیں ہوں۔ جذبات کو دبانا نہ اچھا کام ہے اور نہ ہی ممکن ہے لیکن ملک کے مختلف مسائل بالخصوص سیاسی مسائل میں جذبات سے دور رہتے ہوئے، غور و فکر ضروری ہے۔
ایک اور بات جس کی سفارش میں تاکید کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں، آرٹ اور ثقافتی کاموں میں اخلاقی پستی سے پرہیز ہے۔ اس کا خیال رکھیں۔ اس کے بعض نمونے میرے پیش نظر ہیں۔ البتہ اس وقت کی بات نہیں ہے بلکہ سترہ اٹھارہ سال قبل، مجھے اطلاع ملی کہ یونیورسٹی میں طلبا کی ایک ایسوسی ایشن میں، بعض تقریبات میں، اخلاقی بے راہروی کا رنگ ہوتا ہے۔ اسی وقت میں نے انہیں پیغام بھیجا، توجہ نہیں ہوئی۔ بعد میں اس کے نتائج اچھے نہیں ہوئے۔ ثقافتی کجروی اور اخلاقی پستی سے، سختی کے ساتھ پرہیز کیا جائے اور اس سے نمٹا جائے۔ آج دشمن کی ایک پالیسی اخلاقی پستی کی ترویج کرنا ہے۔ سامراج کی اس پالیسی کے خلاف مجاہدت کریں۔ جس طرح وہ اقتصادی پابندیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اسی طرح معاشرے میں اخلاقی برائیاں پھیلانے کی بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ صرف نعرے بازی کا دعوی نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد مصدقہ اطلاعات ہیں۔ ہمیں اطلاع ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ کو شکست دینے کے لئے ہے۔ اس سے نمٹنا اور اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے۔ البتہ صحیح مقابلہ ہونا چاہئے۔ یہ سامراج کی سازشوں کے مقابلے میں بہت ہی اہم استقامت ہے۔
ہماری ایک اور سفارش یہ ہے کہ طلبا تنظیمیں، باہمی تعاون، ہمدلی اور ہمفکری کا اظہار کریں۔ میں حتمی طور پر کوئی تجویز نہیں پیش کرنا چاہتا لیکن میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ طلبا تنطیموں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کوئی ایسوسی ایشن ہونی چاہئے تاکہ یہ یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
البتہ مجموعی طور پر ان کا کلی رخ تقریبا یکساں ہے۔ اچھا ہے۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تمام تنظیمیں جن کی اپنی خصوصیات اور پہچان ہے، اپنی خصوصیات ایک کر لیں۔ نہیں، تنظیموں کی خصوصیات میں تنوع اور گوناگونی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن جہت کے تعین اور انقلاب کے اہداف کی جانب آگے بڑھنے میں ہم آہنگی ہونی چاہئے تاکہ طلبا کی درمیان آپ مفید واقع ہو سکیں۔ طلبا تنظیموں کو طلبا کے درمیان موثر ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے طلبا کا ماحول بہت اچھا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طلبا کے ماحول میں کوئی برائی نہیں ہے، انحراف نہیں ہے، خطا نہیں ہے، لغزش نہیں ہے؛ یہ چیزیں کہاں نہیں ہوتیں؟ مقدس ترین انجمنوں میں بھی انسان سے لغزشیں نظر آ ہی جاتی ہیں۔ لیکن طلبا کا ماحول، پر نشاط، پر جوش اور مجموعی طور پر دینی اور بنیادی اصولوں کا پابند سمجھا جاتا ہے۔یہ بہت غنیمت ہے۔ ہمارے طلبا کا ماحول اس طرح کا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے، اس ماحول میں موثر واقع ہوکے جہت کو صحیح رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری ایک سفارش یہ بھی ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں کے ذمہ داران اور طلبا تنظیمیں دونوں، باہمی ہم آہنگی اور تعاون رکھیں۔ ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا ان میں تصادم ہے یا کم سے کم یہ کہ تعاون نہیں ہے۔ البتہ بعض حوادث پیش آتے ہیں اور ایک دوست نے بوشہر کے واقعے کی طرف اشارہ کیا۔ باہم تعاون کریں، ہمدلی سے کام لیں، چونکہ اہداف ایک ہیں۔ ہدف انقلاب ہے۔ حکام محنت کر رہے ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں واقعی پسینہ بہا رہے ہیں۔ یہ باتیں نظر آرہی ہیں۔ فکر کرتے ہیں، جتنا ان کے ذہن میں آتا ہے، جتنی ان کی توانائی ہے اتنی کوشش کر رہے ہیں۔ طلبا تنظیموں کے رکن یہ نوجوان بھی پاک و صاف ہیں اور ان میں جوش و جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ ان اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔
انسانی علوم کے بارے میں بات ہوئی، اس سلسلے میں ایک نکتہ عرض کروں گا کہ جو کچھ ہم نے انسانی علوم کے بارے میں کہا اور بار بار کہہ رہے ہیں، اصل وہی ہے جو عرض ہوا۔ ہمیں انسانی علوم میں تحقیق کرنی چاہئے، اجتہاد کرنا چاہئے تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ اب فرض کریں کہ انسانی علوم کا فلاں شعبہ، یونیورسٹی سے ختم کر دیا جائے یا ختم نہ کیا جائے، یا کم کر دیا جائے، اس بارے میں، میرا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ میں اس کی نفی کرتا ہوں اور نہ ہی اثبات کرتا ہوں۔ یعنی یہ میرا کام نہیں ہے ۔ حکام کا کام ہے۔ ممکن ہے کہ مصلحت سمجھیں تو بعض مضامین کو حذف کر دیں یا حذف نہ کریں۔ میرا کہنا یہ نہیں ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ انسانی علوم کے تعلق سے بہت سوچ سمجھ کے، عمیق کام ہونا چاہئے۔ صاحبان فکر کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہئے۔
میرے خیال میں وقت بھی ختم ہو گيا۔ باتیں بھی جو ضروری تھیں، کہی جا چکیں۔ ان شاء اللہ خد وند عالم آپ کی حفاظت کرے۔
پالنے والے' تجھے تیرے اولیاء کی قسم، ہمارے ان نوجوانوں پر اپنی برکات اور تفضلات نازل فرما۔ پالنے والے'ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اسلامی اہداف اور اسلامی امنگوں سے روز بروز نزدیک سے نزدیک تر کر۔ پالنے والے' محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ، ہمارے ان نوجوانوں کی امنگوں اور آرزؤوں کو پورا کر۔ ہمارے ملک کے حکام اور ہمیں یہ توفیق عنایت ہو کہ ہم ان امنگوں کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔ پالنے والے' ہمارے نوجوانوں کو ہر لحاظ سے ایک اسلامی ملک اور اسلامی معاشرہ دکھا دے۔ شہیدوں اور ہمارے عظیم امام( خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح پاک کو ہم سے راضی اور خشنود فرما۔
 
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 
1- وسائل الشیعہ،ج 27 ص 27
2- رعد، 17
3-فصلت، 30
4-شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج20 ص 319