آپ نے موجودہ دور کا موازنہ سبک ہندی کے دور سے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں ملک کی آج کی شاعری اور ملک کی فارسی شاعری کے بہت ہی اہم دو سو سالہ دور یعنی سبک ہندی کے دور کی شاعری کے مابین دو شباہتیں پاتا ہوں۔ دسویں صدی کے اواسط سے بارھویں صدی کے اواسط تک، فارسی شاعری میں سبک ہندی کے فروغ اور عروج کا دور رہا۔ میں یہ عرض کر دوں کہ یہ دو سو سالہ دور، بعض پہلؤوں سے ہماری شاعری کی تاریخ کے تمام ادوار میں بے نظیر ہے۔ میں چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کی قصیدہ گوئی یا ساتویں اور آٹھویں صدی کی غزل گوئی کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہا ہوں۔ نہیں، ان کی اہمیت اور عظمت اپنی جگہ پر محفوظ ہے، لیکن یہ دو سو سال، فارسی شاعری کے انتہائی درخشاں ادوار میں شامل ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے تو میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کے دل شاد، مزاج شگفتہ اور آپ کی سعی و کوشش ماجور اور مبارک ہو۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کئ سال سے اس اجتماع کا سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

جمعیت ارباب وفا نگسلد ازہم این سلسلہ تا روز جزا نگسلد از ہم
( ارباب وفا کی انجمن کبھی منتشر نہ ہو، یہ سلسلہ تا روز قیامت ختم نہ ہو)

یہ دعا بھی ہے اور ان شاء اللہ ایک حقیقت کی اطلاع بھی۔
دو تین مختصر باتیں میں عرض کروں گا۔ ایک بات ملک کی آج کی شاعری کے بارے میں ہے۔ البتہ مختلف ملکوں میں آج کی فارسی شاعری کے بارے میں وسیع تر نظر کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اس موضوع کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال یہ عرض کرنا ہے کہ ہماری آج کی شاعری، پشرفت کر رہی ہے۔ میں جب خاص طور پر نوجوانوں کی شاعری پر نظر ڈالتا ہوں، آج رات ہمارے بہت سے نوجوان اور بزرگ شاعروں نے انقلابی شاعری سے متعلق اشعار پڑھے تو گزشتہ سال بھی میں نے یہ بات کہی تھی کہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی شاعری میں ہم نے نمایاں پیشرفت کی ہے۔
یہاں ایک نکتہ ہے جو اگر عرض کر دوں تو نامناسب نہیں ہوگا۔ میں ملک کی آج کی شاعری اور ملک کی فارسی شاعری کے بہت ہی اہم دو سو سالہ دور یعنی سبک ہندی کے دور کی شاعری کے مابین دو شباہتیں پاتا ہوں۔ دسویں صدی کے اواسط سے بارھویں صدی کے اواسط تک، فارسی شاعری میں سبک ہندی کے فروغ اور عروج کا دور رہا۔ میں یہ عرض کر دوں کہ یہ دو سو سالہ دور، بعض پہلؤوں سے ہماری شاعری کی تاریخ کے تمام ادوار میں بے نظیر ہے۔ میں چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کی قصیدہ گوئی یا ساتویں اور آٹھویں صدی کی غزل گوئی کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہا ہوں۔ نہیں، ان کی اہمیت اور عظمت اپنی جگہ پر محفوظ ہے، لیکن یہ دو سو سال، فارسی شاعری کے انتہائی درخشاں ادوار میں شامل ہیں۔
ان دو سو برسوں کی ایک خصوصیت شاعروں کی کثیر تعداد ہے۔ آپ ان دو سو برسوں پر نظر ڈالیں جن کا ذکر ہوا تو دیکھيں گے کہ ایران، ہندوستان، افغانستان، ماورالنہر، یعنی وہ علاقہ جو آج افسوس کہ تاجکستان اور ازبکستان میں تقسیم ہے، یہ پورا علاقہ، سمرقند اور بخارا کی تاجک آبادی کا علاقہ تھا، اس علاقے کے شاعروں کی تعداد حیرت انگیز ہے۔ اس دور میں ہزاروں عظیم اور نامور شاعر ملیں گے۔ یہ نہیں کہ صرف شعر کہتے تھے، نہیں، بلکہ مسلم الثبوت شاعر تھے۔ اب ممکن ہے کہ سبھی ممتاز شعراء نہ رہے ہوں لیکن باقاعدہ شاعر ہیں۔ ان ہزاروں شاعروں میں سے، جو میں نے عرض کیا ہے، شاید کہا جا سکتا ہے کہ سو اچھے شعرا کا بآسانی نام لیا جا سکتا ہے۔ ان سو اچھے شعرا میں سے شاید صائب، کلیم، محمدجان قدسی اور نظیری نیشاپوری جیسے انتہائی سرکردہ دس شاعر بھی مل جائیں۔ شاعروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دو سو سال ایسے ہیں۔
اس دور سے آج کی ایک شباہت، یہی شاعروں کی تعداد ہے۔ آج ہمارے ملک میں شاعروں کی جو تعداد ہے، اس کی کسی دور میں، نہ اس دور میں جس میں ہم تھے، ہم نے خود دیکھا اور شاعروں سے ہمارا تعلق رہا ہے اور نہ ہی جو کچھ ماضی کے بارے میں سنا ہے، کسی بھی دور میں نظیر نہیں ملتی۔ آج ہمارے ملک میں شاعروں کی تعداد اسی دو سو سالہ دور جیسی ہے۔ البتہ یہ انقلاب کی برکت سے ہے۔ انقلاب علوم و فنون اور ادب و ہنر کو عوام کے درمیان اور معاشرے کے اندر لایا، لہذا اس میں فروغ آیا۔ آج ہمارے ملک میں شاعر بہت ہیں۔ اسکول کے بچوں سے لیکر کالج کے طلبا، نوجوانوں، ادھیڑ عمر کے لوگوں اور سن رسیدہ افراد میں آپ کو شاعر ملیں گے۔ یعنی واقعی آپ اندازہ لگائیں، شاعر بہت ہیں۔ یہ اسی تیس سال میں ہوا ہے۔ اگر ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہا یعنی ہم اسی طرح آگے بڑھیں، شاعروں کی حوصلہ ا‌فزائی ہو، نوجوان شعرا کی تربیت و رہنمائی ہو تو یقینا ہمارے شعرا کی تعداد اس دور سے بڑھ جائے گی۔
اس دو سو سالہ دور سے اس دور کی دوسری شباہت، نئے نئے مضامین کا باندھا جانا ہے۔ کسی دوسرے دور میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ اتنے نئے مضامین اور موضوعات شاعری میں پائے گئے ہوں۔ جب نیا مضمون آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی نئی ترکیب بھی آتی ہے۔ یعنی مضمون کے بیان کے لئے، لفظ کی ضرورت اس بات کا موجب بنتی ہے کہ شاعر اپنے ذوق اور اپنے ہنر سے کام لے اور نئی ترکیبات بروئے کار لائے۔ البتہ ممکن ہے کہ شروع میں ناپختگی نظر آئے لیکن بتدریج زبان میں پختگی، صفائی، استواری اور سنگینی آتی ہے۔
آج رات اس اجتماع میں جو اشعار پڑھے گئے، نوجوانوں، خواتین و حضرات کی شاعری میں، میں دیکھتا ہوں کہ الفاظ میں پختگی، متانت، استحکام اور استواری پائی جاتی ہے؛ بالکل اسی طرح جیسا کہ انسان شاعری میں مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ مضامین بھی ما شاء اللہ وافر ہیں۔ جب کوئی صائب کے دیوان کو پڑھتا تھا یا بیدل جیسے دیگر بڑے شعراء کے دیوان کو دیکھتا تھا تو سوچتا تھا کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے؛ جو بھی انسان کے ذہن میں آ سکتا ہے اس کو انہوں نے شعر کے قالب میں بیان کر دیا ہے لیکن بعد میں دیکھتا ہے کہ نہیں، بقول صائب:
یک عمر میتوان سخن از زلف یار گفت در بند آن مباش کہ مضمون نماندہ است
صائب نے ایک عمر کہا ہے لیکن زلف یار کی باتیں ایک دہر اور ایک زمانے تک کی جا سکتی ہیں۔ آج انہی الفاظ میں کتنے مضامین نو کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ جو واقعی غور طلب، قابل ملاحظہ اور اس قابل ہیں کہ ان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ بہت اچھی بات ہے۔ میری نظر میں یہ دوسری شباہت جو آج کی شاعری اور اس دو سوسالہ دور کی شاعری میں پائی جاتی ہے۔
البتہ ہم ابھی صائب، محمد جان قدسی اور نظیری جیسی ہستیوں کے ابھر کر سامنے آنے کے منتظر ہیں۔ میں مبالغہ نہیں کرنا چاہتا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اب جبکہ اپنے دور کو اس دور سے تشبیہ دی ہے تو پھر ہمارے پاس صائب یا کلیم یا نظیری یا طالب آملی یا محمد قلی سلیم تہرانی بھی ہیں، نہیں حق یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہم نے نام لیا ہے اور ویسی بے شمار دیگر ہستیوں کے کم نظیر اور اعلی مرتبے تک پہنچنے کے لئے ہمارے شعراء کو بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اب میں یہیں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نوجوان شعرا سے جو الحمد للہ سب شاعر، نئی باتیں کہنے والے، مضامین نو باندھنے والے اور شجاعت اظہار کے مالک ہیں، ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ آج رات جو اشعار میں نے سنے وہ زیادہ تر بہت اچھے تھے لیکن جان لیں کہ بہت اچھا کا مطلب مکمل طور پر اچھا نہیں ہے۔ بہت اچھا ممکن ہے کہ مکمل طور پر اچھا کا دسواں حصہ ہو۔ وہ نو حصے آپ کے سامنے ہیں۔ آپ رکیں نہیں۔ ان تمام لوگوں میں جو ایک راستے پر اپنی استعداد کو ظاہر کرتے ہیں، کمی یہ ہے کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ آخری حد ہے۔ فرض کریں کوئی بہت اچھے ترنم کے ساتھ پڑھتا ہے، کہتے ہیں، واہ واہ، بہت اچھے۔ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ اگر یہ سمجھ لے کہ اس سے بہتر ترنم کے ساتھ نہیں پڑھا جا سکتا تو رک جائے گا اور اس توقف کے بعد، سقوط اور تنزل شروع ہوگا۔ اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس سے بہتر ترنم سے بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
تمام شعبوں میں یہی ہے۔ تمام کاموں میں جو ہم نے دیکھے ایسا ہی ہے۔ منزل تک پہنچ جانے کا احساس تھکن اور جمود لاتا ہے۔ آپ ابھی منزل تک نہیں پہنچے ہیں۔ بہت اچھی پیشرفت کی ہے۔ بہت اچھے کام ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، کبھی بہت خوب کا مطلب مکمل خوب کا دسواں حصہ ہوتا ہے۔ بقیہ نو حصے آپ کو حاصل کرنے ہیں۔ کوشش کریں، محنت کریں، کام کریں اور آگے بڑھیں۔
ایک اور نکتہ جو میں یہاں موجود شعرائے کرام سے اور انقلابی شاعروں میں شمار ہونے والے دیگر شعراء سے عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے شعراء کو اس زمانے کی خصوصیات کے پیش نظر گہری دینی معرفت کی ضرورت ہے۔ آج آپ چاہیں یا نہ چاہیں، جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، قبول کریں یا قبول نہ کریں، بہت سی اقوام کے لئے آپ نمونہ اور مثال ہیں۔ یہ اسلامی بیداری جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں، کہیں یا نہ کہیں، اقرار کریں یا نہ کریں، دوسرے اس کا اقرار کریں یا نہ کریں، ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے زیر اثر ہے۔ اس انقلاب عظیم نے، اس بڑے انقلاب نے، طاغوتی روایتوں کی بنیاد، طاغوتی نظام اور نظام تسلط کی بنیادوں کو ختم کرنے والے اس تغیر نے ملت ایران کو ایک مثالی نمونے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگر آپ اسوہ اور مثالی ہونے کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا چاہیں تو آپ کو اپنی دینی اور اسلامی شناخت کو عمیق کرنا ہوگا۔ یہ بات ماضی میں ہماری شاعری میں موجود رہی ہے۔ آپ دیکھیں ہمارے اکثر ممتاز شعراء، یہ نہیں کہتا کہ سب لیکن اکثر ایسے ہی ہیں۔ فردوسی سے لیکر مولوی، سعدی، حافظ اور جامی تک (ایسے ہی ہیں)۔ فردوسی، حکیم ابوالقاسم فردوسی ہیں۔ کسی قصہ گو کو اگر وہ صرف قصہ گو ہو اور رزمیہ اشعار کہتا ہو تو حکیم (فلسفی) نہیں کہتے۔ یہ حکیم بھی ہم نے نہیں کہا بلکہ زمانے کے صاحبان فکر حضرات نے انہیں حکیم (فلسفی) کہا ہے۔ شاہنامہ فردوسی حکمت (فلسفیانہ باتوں) سے سرشار ہے۔ وہ حقیقی دینی علوم کے مالک تھے۔ وہ سب حکیم تھے۔ ان کے دیوان، سر تاپا حکمت ہیں۔ حا‌فظ اگر حافظ قران ہونے پر فخر نہ کرتے تو اپنا تخلص حافظ نہ رکھتے۔ وہ حا‌فظان قرآن میں سے تھے۔ قرآن زبر بخوانیم با چہاردہ روایت (ہم قرآن کی چودہ روایت کے مطابق ازبر تلاوت کرتے ہیں) ہمارے قاریان قرآن اگر مختلف قرائتوں کے مطابق تلاوت کرتے ہیں تو بھی دو یا تین طریقوں سے آگے نہیں جا پاتے لیکن وہ چودہ طریقوں سے تلاوت قرآن کر سکتے تھے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ قرآن کی یہ شناخت حافظ کی غزلوں میں، اس کے لئے جو سمجھنا چاہے، آشکارا ہے۔ سعدی بالکل واضح ہے، مولوی بھی، آشکارا ہے کہ ( دینی علوم و معارف کے ماہر تھے) جامی اور صائب بھی اسی طرح۔ آپ دیوان صائب پڑھیں۔ اس میں بہت گہری دینی معرفت پائیں گے۔ یہ ہمارے بزرگ ہیں۔ یہ آئمہ شاعری ہیں۔ درحقیقت کہنا چاہئے کہ پیغمبران فارسی شاعری یہی ہیں۔ یہ دینی علوم و معارف کے مالک تھے۔ خود کو دینی علوم و معارف سے آراستہ کریں۔ البتہ اس کا راستہ قرآن کی معرفت، قرآن سے انسیت، نہج البلاغہ سے انسیت اور صحیفہ سجادیہ سے انسیت ہے۔ انسان کے دل میں جو شک و تردد اور تشویش وجود میں آتی ہے ان کتابوں کے مطالعے سے دور ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ دل میں شفافیت اور نور آ جاتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے، راستے کو پہچان لیتا ہے اور ہدف کو جان لیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایام رمضان کی مناسبت سے شہید مطہری کی کتاب گفتار ہای معنوی کا مطالعہ۔ یا خود احکام الہی پر توجہ۔ میں نے اس دن ایک گفتگو میں الحاج میرزا جواد آ‍قا ملکی تبریزی مرحوم کے حوالے سے کہا کہ معنویت روزہ سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ بلندی اور فروغ جو روزے سے انسان کی روح میں وجود میں آتا ہے، کتنا اہم ہے؟! اتفاق سے شاعر وہی ہے جو روحانی جذبات اور معنوی ادراک سے سروکار رکھتا ہو۔ شاعر کی خصوصیت یہ ہے۔ شاعر کی لطافت کا تقاضا یہی ہے اور وہ بہت آسانی سے ان معارف کو سمجھ سکتا ہے۔ رمضان المبارک پر توجہ اور روزہ پر توجہ سے بہت مدد ملتی ہے۔ بنابریں اپنی دینی معرفت بڑھائيں۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ دینی معرفت اس کی فنی اور عملی شکل میں حاصل کریں، خود ساختہ اور من چاہی شکل میں نہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگ دین کے بارے میں بولتے ہیں لیکن درحقیقت گڑھی ہوئی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی باتیں کسی سند، دستاویز، عالمانہ نقطۂ نگاہ اور عالمانہ تحقیق پر استوار نہیں ہوتیں۔ یہ باتیں مفید نہیں ہیں۔
دوسرا نکتہ جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انقلابی شاعری کا اپنا ایک تشخص ہے جو درحقیقت اسلامی انقلاب کے مفہوم کا حامل ہے۔ اس کا تحفظ ہونا چاہئے۔ اس کو بعض وقتی باتوں کے زیر اثر نہیں آنا چاہئے جو کسی مسئلے، کسی معاملے اور کسی چیز کی نسبت، شاعر کے درد اور احساسات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بہر حال مشکلات ہوتی ہیں جن سے شاعر کی روح لطیف کو تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ احساس درد شاعری پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انقلاب کے بارے میں بولئے، انقلاب کے مفہوم اور انقلاب کی بات کے لئے سعی و کوشش اور کام کیجئے۔ آپ کی قوم نے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ میں نے گزشتہ سال یہ بات کہی، میرا خیال ہے کہ اسی جلسے میں کہی تھی کہ مسئلہ صرف شہادت کا نہیں ہے۔ یقینا، راہ خدا میں شہادت، جان کی بازی لگـانا، راہ خدا میں جان نثار کرنا، عظمت و شرف انسان کی بلندی ہے لیکن (شہادت کے علاوہ بھی) دینی معارف، انقلاب کے معارف و مفاہیم اتنے وسیع اور پرفیض ہیں کہ ان سے بہرہ مند ہوکے انہیں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ آج یہ فریضہ شاعروں کا ہے۔ بعض اوقات اشعار اور نظموں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ احساس درد زیادہ اثر انداز ہوا ہے اور اس نے اصل مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس صورت میں ان لوگوں سے ہم آہنگ اور ہم آواز ہو جاتا ہے جن کا اعتراض خود اصل انقلاب پر ہے۔ جو شعراء بد عنوان پہلوی دربار اور حکومت کے مراکز سے وابستہ تھے یا بائیں بازو کی تحریک کا حصہ تھے، وہ انقلاب کے شروع سے ہی اس کے مخالف تھے۔ شروع میں ہی انہوں نے انقلاب کی نسبت، خندہ روئی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی جانب سے خندہ روئی کا مظاہرہ نہ ہونے کے نتیجے میں انقلاب کے طرفداروں کا پر فیض ولولہ سامنے آیا۔ یہ جو انقلاب کے اندر سے اتنے زیادہ اچھے اور ممتاز شعراء ابھر کے سامنے آئے شاید اس کا ایک سبب ان کی برہمی اور ناراضگی ہو۔ یہ گروہ خود انقلاب، انقلاب کی بات، ایرانی قوم کی تحریک آزادی اور اسلامی انقلاب کی تحریک دینداری کا ہی مخالف ہے۔ اب اگر کوئی انقلاب اور انقلابی باتوں کے اصلی تشخص کی حفاظت نہ کرے اور اس کا خیال نہ رکھے تو اس کی زبان اس گروہ کی زبان سے نزدیک ہو جائے گی۔ میں اس شاعری کا مخالف نہیں ہوں جس میں اعتراض کیا جائے۔ شاعر کوئی غلط بات دیکھتا ہے تو شاعری میں اس کو بیان کرتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ خود انقلاب پر یقین رکھتے ہوئے آپ کا اعتراض ایک غلط بات پر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی خود انقلاب پر ہی معترض ہو جائے۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی زبان اور اس کی زبان ایک نہ ہو۔ ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان شعراء اس کا خیال رکھیں۔ کچھ لوگ ہیں جو مبانی انقلاب، نظام، حریت پسندی، خودمختاری اور استعمار کی مخالفت سے دور ہیں، آپ ان کی محفلوں اور ان کی تعریف کو اہمیت نہ دیں۔ اپنے اندرونی رابطوں کو جہاں تک ہو سکے زیادہ قریبی اور زیادہ مخلصانہ کریں۔

رشتہ ی جمعیت ای یاران ہمدم مگسلید در پریشانی پریشانی است از ہم مگسلید

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ