اس اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے معارف و تعلیمات اسلامی کے احیاء کو اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بنیادی ہدف قرار دیا اور فرمایا کہ ان نجات بخش تعلیمات سے مسلمان قوموں کی واقفیت و آشنائی امت مسلمہ کے تشخص و وقار کی بازیابی، ترقی و پیشرفت اور آزادی و تقویت کی تمہید ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے قم میں دینی علوم کے عالمی مرکز جامعۃ المصطفی میں تقریبا سو ممالک کے طلبہ کی موجودگی کو اسلام کے حقیقی معارف سے قوموں کی آشنائی کا مقدمہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس بابرکت موجودگی کا مقصد سیاسی معنی میں انقلاب کو برآمد کرنا نہیں ہے کیونکہ اصولی طور پر انقلاب کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے سیاسی، دفاعی اور سیکورٹی کے وسائل اور ساز و سامان سے برآمد کیا جا سکے، اسی لئے اسلامی نظام نے شروعات میں ہی انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کے غلط مفہوم کو مسترد کر دیا تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قم میں غیر ملکی طلبا اور علماء کا مقصد علمی و تربیتی مقصد ہے، علم و معرفت جہاں بھی ہو اس کے طالب پیدا ہو جاتے ہیں اور اس مقدس شہر میں آپ کی موجودگی مشتاق دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی اسلامی علوم اور معارف کی قدرت و توانائی کی دلیل ہے۔ آپ نے اسلامی معارف و تعلیمات کو قدرتی طور پر جاذب اور پرکشش قرار دیا اور عوام الناس سے محبت، انکساری اور اچھے اخلاق کو ان معارف و علوم کی ترویج کا بہترین طریقہ بتایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مسلمان قوموں پر احساس حقارت و خفت مسلط کرنے کی استعماری و استکباری طاقتوں کی دو سو سالہ کوششوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے امت اسلامیہ کے اندر عزت و وقار، عدل و انصاف، پائیداری و استقامت اور تشخص و شناخت جیسے تقدیر ساز مفاہیم کا احیاء کیا اور سامراج کی دیرینہ سازشوں کو نقش بر آب کر دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے صبر و استقامت کو اللہ تعالی کی جانب سے پیغمروں کو دیا جانے والا اصلی درس قرار دیا اور فرمایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انیس سو ترسٹھ میں اپنی تحریک کے آغاز سے ہی ملت ایران کو مشکلات و مسائل کے سامنے استقامت و پائيداری کا درس دیا، چنانچہ سخت ترین مراحل میں بھی بڑے سے بڑے گردباد بھی اس کے فولادی ارادے اور عزم راسخ میں کوئی تزلزل پیدا نہیں کر سکے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ملنے والے صبر و استقامت کے درس پر قدرداں ملت ایران کی عمل آوری کو اسلام دشمن طاقتوں کی آشکارا اور خفیہ سازشوں کی ناکامی کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ عالمی استبدادی عناصر اس وقت ایران کے خلاف پابندیوں کا بڑا پروپیگنڈا کر رہے ہیں لیکن اس قوم نے تیس برسوں کے دوران اپنے صبر و استقامت سے پابندیوں کے حربے کو ناکارہ بنا دیا اور اسی بصیرت و پائیداری کی برکت اور اللہ تعالی کی عنایت سے اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت سیاسی قوت و اقتدار کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے قم میں دسیوں ممالک کے طلبہ کی موجودگی کو اسلامی-علمی معاشرے کا نقطہ آغاز قرار دیا اور فرمایا کہ سعادت بخش اسلامی علوم کے حصول کے ساتھ ہی ساتھ مختلف قوموں کی ایک دوسرے کی ثقافتوں سے آشنائی ایک سنہری موقع ہے جس کی قدر کرنی چاہئے۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين‌.
السّلام عليك يا فاطمة يا بنت موسى‌ بن‌ جعفر ايّتها المعصومة سلام اللَّه عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المعصومين‌.

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج غیر ایرانی طلباء و فضلائے کرام، اسی طرح اس علمی مرکز کے اساتذہ اور منتظمین کے درمیان حاضر ہوں۔ غیر ایرانی طلباء اور فضلائے کرام یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ وہ اسلامی مملکت ایران میں بیگانے نہیں ہیں، آپ ہمارے مہمان نہیں بلکہ صاحب خانہ ہیں۔ آپ میرے عزیز فرزند ہیں۔ ہم اسلامی علوم کے حصول کے لئے اس دیار میں آنے والے پروانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ آپ عزیزوں کو اپنے پاس موجود اہل بیت اطہار کی تعلیمات اور حقیقی اسلام سے حتی الوسع بہرہ مند کریں۔
اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام سے پہلا سبق جو ہمیں ملا وہ یہ تھا کہ ہمیں اپنی نگاہوں کو ملت ایران کی چار دیواری سے آگے بڑھ کر امت اسلامیہ کے عظیم پیکر پرمرکوز کریں۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیں سکھایا کہ ہماری نظر امت اسلامیہ کی عظیم وادی پر مرکوز ہونا چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ طاغوتی (شاہی) دور میں ایران استعمار اور استبداد کے پیروں تلے کچل کر جاں بلب ہو گيا تھا اور اسے نجات دلانا لازمی ہو گیا تھا لیکن بنیادی طور پر تاریخی یلغار کی آماجگاہ امت اسلامیہ ہے۔ عظیم امت اسلامیہ جو دنیا کے انتہائی حساس علاقے میں موجود ہے، کئی صدیوں سے بڑی طاقتوں کی مداخلتوں، طاقتور حکومتوں کی حرص و طمع اور استکبار کی جارحیتوں کے نتیجے میں کمزور، متزلزل، پسماندہ، استعمار زدہ، غربت کی شکار ہو گئی تھی۔ مادی غربت کی بھی اور علمی غربت کی بھی شکار بنی ہوئی تھی۔ اسلامی انقلاب کی نگاہیں عالم اسلام پر ٹکی ہوئي تھیں، اس کی مساعی امت اسلامی کو استکبار کے ظالمانہ اور جارحانہ چنگل سے نجات دلانے پر مرکوز تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران میں انقلاب فتح سے ہمکنار ہوا تو مشرق و مغرب کی تمام مسلمان قوموں کو ایسا لگنے لگا کہ ان کی زندگی میں نسیم بہاری کے جھونکے آنے لگے ہیں، فضا تبدیل ہو گئي ہے۔ انہیں اپنے کاموں کی گرہیں کھلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ لہذا افریقہ میں، ایشیا میں اور ان تمام علاقوں میں جہاں مسلمان بستے تھے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی ان کے سامنے ایک نیا راستہ کھل گيا ہے۔ ہم نے یہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے سیکھا ہے اور شروع سے لیکر اب تک اسلامی جمہوریہ کا یہ روشن موقف رہا ہے۔
ایک عظیم کام ہے جو آپ حضرات انجام دے رہے ہیں۔ یہاں تقریبا سو ممالک سے تعلق رکھنے والے طلباء جمع ہوئے ہیں کہ حیات بخش اور خالص اسلامی معارف و علوم سے بہرہ مند ہوں۔ یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم انقلاب کو اس شکل میں جو سیاسی ماحول میں عام ہے دیگر ممالک کے لئے برآمد کریں۔ انقلاب کوئی ایسی شئے ہے ہی نہیں کہ سیاسی وسائل سے اسے برآمد کیا جائے یا فوجی اور سیکورٹی کے وسائل سے اسے آگے بڑھایا جائے۔ یہ غلط تصور ہے۔ ہم نے شروع سے ہی اس راستے کو مسدود کر دیا۔
اسلامی جمہوریہ کا ہدف اعلی اسلامی تعلیمات کو از سر نو پیش کرنا ہے تاکہ مسلمانوں میں اپنی شناخت کا احساس پیدا ہو، اسلامی شخصیات کا احساس جاگے، انہیں انسانیت کی نجات دہندہ اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہو۔ انہیں یہ علم ہو کہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا کیا مقصد ہے کہ «و يضع عنهم اصرهم و الأغلال الّتى كانت عليهم»؛(1) یہ زنجیر اور بیڑی کیا ہے جو شرک آلود فضا میں انسانوں کے پیروں میں پڑ جاتی ہے اور جسے اسلام کاٹ دینا چاہتا ہے؟ امت اسلامیہ غفلت کے باعث عرصہ دراز سے ان حقائق کو بھولی بیٹھی تھی۔ امت اسلامیہ میں آزاد رہنے، پیشرفتہ بننے، صاحب علم بننے، باعزت زندگی گزارنے اور مقتدر بننے کی پوری توانائی اور صلاحیت موجود ہے، یہ اسلامی تعلیمات کی برکتوں کا نتیجہ ہے۔ استکبار اور استعماری طاقتوں نے دو سو سال تک یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کو ان حقائق سے بیگانہ بنا دیں، انہیں ان کی شناخت سے نابلد بنا دیں تاکہ ان کے سیاسی شعبے میں، اقتصادی شعبے میں، مقامی ثقافت کے شعبے میں منمانی کریں، دست درازی کریں۔ انقلاب نے امت اسلامیہ کو ان حقائق کی یاددہانی کرا دی۔
اسلامی جمہوریہ میں علمی مرکز قم میں، بابرکت جامعہ المصطفی میں آپ کو یہ موقعہ دستیاب ہے کہ ان معارف و علوم سے آشنائی حاصل کریں «ليتفقّهوا فى الدّين و لينذروا قومهم اذا رجعوا اليهم»؛(2) اور آپ خود ایسا نور بن جائیں جو فضا کو روشن کر دیتا ہے۔ آج عالم اسلام کو اس کی ضرورت ہے۔
آپ یہاں عالم غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جگہ بھی آپ کا وطن ہے، گھر ہے لیکن بہرحال آپ اپنے لوگوں سے، اپنے رشتہ داروں سے اور خاندان سے دور ہیں۔ آپ کو سختیاں در پیش ہوتی ہیں، مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، خود آپ کو بھی اور آپ کی بیویوں کو بھی۔
آپ کے اہل خانہ کے لئے مشکلیں پیدا ہوتی ہیں لیکن آپ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ اللہ تعالی نے آغاز بعثت پیغمبر کے وقت حضور کے سامنے کچھ کلیدی ہدایات دیں تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہی ہدایات اور سمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بے نظیر اور سنگین فریضے کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ان ہدایات میں سے ایک صبر و تحمل کی ہدایت تھی۔ «و لربّك فاصبر». «بسم ‌اللَّه‌ الرّحمن ‌الرّحيم. يا ايّها المدّثّر. قم فأنذر. و ربّك فكبّر. و ثيابك فطهّر. و الرّجز فاهجر. و لاتمنن تستكثر. و لربّك فاصبر».(3) اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کو صبر و ضبط کی ہدایت کی۔ صبر کرنا تھا۔ صبر یعنی استقامت و پائيداری، یعنی ہرگز نہ تھکنا، یعنی مشکلات سے مغلوب نہ ہونا۔ عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بھی عملی طور پر ہمیں اس کی تعلیم دی۔ صبر کا مظاہرہ کیا۔ جس دن اسی شہر قم میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی آواز بلند ہوئی ان کے گرد و پیش کے طلباء کے علاوہ کوئی ان کا حامی و مددگار نہ تھا، آپ گویا عالم غربت میں تھے، اپنے وطن میں ہوتے ہوئے بھی عالم غربت میں تھے، اپنے شہر میں بھی غریب الوطن تھے لیکن آپ نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس عظیم مرد مجاہد پر گوناگوں مادی و ذہنی دباؤ پڑے لیکن ان کے پائے ثبات میں جنبش پیدا نہ ہوئی۔ «المؤمن كالجبل الرّاسخ لا تحرّكه العواصف؛ مومن انسان کہسار کی مانند ہوتا ہے جسے آندھیاں بھی ہلا نہیں پاتیں» یہ طوفان ان کے فولادی عزم کو ان کے مصمم ارادے کو متزلزل نہیں کر سکے۔ وہ ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ جب کسی چوٹی پر کوئي چشمہ ابلتا ہے تو پہاڑ کا دامن بھی اس سے سیراب ہوتا ہے۔ اس کے وجود سے صبر کا چشمہ جاری ہوا تو دوسروں کو بھی صبر کرنے کا انداز معلوم ہوا اور انہوں نے بھی صبر کیا۔ ملت ایران بھی اسی صبر و تحمل سے تمام سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئی۔
آپ بخوبی واقف ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل سے لیکر اب تک اس قوم اور اس نظام کے خلاف کیسی کیسی سازشیں کی گئيں، کتنے زہرآلود خنجر خفیہ طریقے سے استعمال کئے کئے؟ ہمارے خلاف سازشوں میں سے ایک، آٹھ سالہ جنگ تھی۔ ہمارے اوپر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک اور سازش تیس سالہ پابندیاں ہیں۔ آج پابندیوں کا بڑا ہنگامہ سنائی دے رہا ہے۔ یہ پابندیاں آج کی نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیس سال سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ اس قوم کا صبر و تحمل اور ثبات ان تمام عداوتوں، خباثتوں اور خلاف ورزیوں پر غالب آیا۔ آج بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ایران سیاسی و دفاعی اقتدار کی چوٹی پر کھڑا ہے۔
صبر و تحمل کو، پائیداری و استقامت کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ یہ بلند ہدف رکھنے والے ہر انسان کی زندگی کے دستور کا اہم ترین جز ہے۔ آپ اسلام کا سرمایہ ہیں، آپ اسلام کے لئے عظیم سرمائے کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ یہاں خوب دل لگا کر تعلیم حاصل کیجئے، انقلاب کی فضا میں اسلامی جمہوریہ کی فضا میں سانس لیجئے اور ضرورت کے وقت اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹئے۔ اپنے علم سے، اپنے حلم و بردباری سے اپنے اخلاق و انکسار سے اور اپنے عوام سے گہری محبت و الفت سے ان حقائق کو منتقل کیجئے۔
آپ کی یہاں آمد کا مقصد سیاسی نہیں ہے۔ آپ کا ہدف علمی ہدف ہے، تربیتی ہدف ہے، بالکل واضح اور روشن ہے۔ علم کے خریدار ہر جگہ ملیں گے۔ نیک باتوں اور معرفت کے چاہنے والے ہر جگہ موجود نظر آئیں گے۔ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں کہ رحم اللہ عبد احیا امرنا اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس شخص پر جو ہمارے امر کو، ہماری باتوں کو زندہ کرے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے سوال کیا کہ کس طرح آپ کا امر زندہ کیا جاتا ہے، آ‏پ کے مد نظر موضوع کو زندہ کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے علوم کو حاصل کریں اور اہلبیت کے معارف سے آراستہ ہوں اور پھر انہیں عوام الناس تک، مشتاق قلوب تک، متلاشی اذہان تک منتقل کریں۔ «فانّ النّاس لو علموا محاسن كلامنا لاتّبعونا».(اگر لوگوں کو ہمارے کلام کے محاسن کا علم ہو جائے تو وہ ہماری پیروی کریں گے- 4)
معارف اہل بیت کی ترویج کے لئے یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ در بدر پھریں۔ کوئي ضرورت نہیں ہے کہ آپ لوگوں سے سختی سے پیش آئیں اور لوگوں کے سد راہ بنیں۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ معارف اہل بیت کو حاصل کر لیجئے اور لوگوں کو ان سے باخبر کیجئے۔ یہ توحیدی معارف، حقیقت انسان کو بیان کرنے والے یہ معارف، انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا احاطہ کر لینے والے یہ معارف خود ہی اتنے پرکشش اور جاذب نظر ہیں کہ دل اپنے آپ ان کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے، لوگوں کو ائمہ علیہم السلام کے راستے پر پہنچا دیں گے۔ یہاں آپ کو بڑا عظیم موقعہ دستیاب ہے۔ مختلف قومیتوں اور مختلف ملکوں سے آکر آپ یہاں ایک جگہ جمع ہیں۔ آپ میں ہر ایک کو یہ موقعہ حاصل ہے کہ اپنے مسلم بھائیوں سے اور ان کی مقامی ثقافت اور آداب و اطوار سے روشناس ہو۔
آپ افریقہ سے لیکر مشرقی ایشیا تک کے علاقے سے یہاں رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہاں قوموں کے چمن کی چنندہ کلیاں جمع ہیں۔ آپ ایک دوسرے سے آشنائي حاصل کیجئے، ایک دوسرے کو پہچانئے۔ ایک دوسرے کی ثقافت کو، ایک دوسرے کے اہداف کو، ایک دوسرے کی آرزوؤں کو، ان اعلی مقاصد کو جو مختلف قوموں کے اندر موجود ہو سکتے ہیں تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ انہیں ایک دوسرے میں تلاش کیجئے۔ یہ بہت عظیم موقعہ آپ کو دستیاب ہے۔ یہ موقعہ آپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ یہاں اسلامی علوم کا ایک عالمی مرکز قائم ہوا ہے۔ یہاں ایک دوسرے کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست سے، یہاں ایک ماحول میں آپ تمام افراد کے سانس لینے سے، ایک دوسرے سے آپ کی آشنائی سے بین الاقوامی اسلامی علمی کمیونٹی کا پودا وجود میں آ گیا ہے۔ اس موقعے سے بھرپور استفادہ کیجئے۔
آپ نوجوان ہیں۔ نوجوان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کا پاکیزہ اور نورانی دل ہوتا ہے۔ میرے عزیزو! اپنے اس نورانی قلب سے بھرپور استفادہ کیجئے۔ اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مستحکم کیجئے۔ اگر کوئی نوجوان پوری طرح آمادہ ہو اور اپنے خضوع و خشوع سے، ذکر و مناجات سے، تضرع و توسل سے اپنے دل کو محرم پروردگار بنانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ ایسی حقیقت میں تبدیل ہو جائے گا جس کے لئے کہا گيا ہے؛ نور علی نور معرفت الہی کا نور آپ کے قلوب میں ضوفشاں ہو جائے گا۔ گناہوں سے دور رہئے، ذات پروردگار سے خود کو مانوس کیجئے، نماز کو غنیت جانئے، اسے انتہائی اہم امور میں شمار کیجئے۔
اللہ کی عظیم ترین نعمت کا نام نماز ہے۔ نماز ہمیں یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ روزانہ چند دفعہ لازمی طور پر اللہ تعالی سے ہمکلام ہوں، اللہ تعالی سے مخاطب ہوں، اس سے طلب نصرت کریں، اس سے راز و نیاز کریں۔ تضرع اور راز و نیاز کے ذریعے اللہ کی بارگاہ میں اپنی خودسپردگی میں اضافہ کرنا چاہئے۔ بزرگان دین نماز کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ نماز کا موقعہ سب کو فراہم کیا گيا ہے۔ عام طور پر ہمیں نماز کی قدر و قیمت اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک فریضے کی ادائیگي تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک عظیم موقعہ ہے جس سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ نماز آپ کے گھر میں جاری چشمے کی مانند ہے جس میں آپ روزانہ پانچ دفعہ غسل کرتے ہیں۔ نوجوان قلوب پر اس غسل کے دائمی اور پائیدار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ طہارت و تقوی کے ذریعے اللہ تعالی سے ایسے کلام کا ہدیہ حاصل کیا جا سکتا ہے جو دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا ہر لفظ ملک کی اس وسیع و عریض فضا میں، سختی و دشواری کے حالات میں اور ہر طرح کی صورت حال میں حیرت انگیز تاثیر کا سرچشمہ ہوتا تھا، اس کی وجہ آپ کی روحانیت تھی، آپ کی پاکیزگی تھی، اللہ تعالی سے آپ کا رابطہ تھا، راتوں کی تاریکیوں میں (ذکر خدا میں) آپ کی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو تھے، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرزند حاج سید احمد مرحوم نے امام (حمینی رحمت اللہ علیہ) کے زمانہ حیات میں ہی مجھے بتایا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) آدھی رات کو اٹھتے ہیں اور زار و قطار گریہ کرتے ہیں۔ یہ عام رومال آنسو پوچھنے کے لئے ناکافی ہوتے ہیں لہذا آپ تولیئے سے آنسو پوچھتے ہیں، اتنا آنسو بہاتے ہیں۔ وہ آہنی ارادوں کا مالک انسان، وہ فولادی اعصاب کا مالک انسان جسے وہ واقعات و حوادث بھی ہلا نہیں پاتے تھے جو ایک پوری قوم کو لرزہ براندام کر دینے کے لئے کافی سمجھے جاتے ہیں، وہ مرد خدا رسیدہ جس کی نظر میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی رعونت اور رعب و دبدبہ ہیچ تھا، جب اللہ تعالی کی بارگاہ میں آتا ہے، اللہ تعالی سے راز و نیاز کی منزل میں آتا ہے تو اس طرح آنسو بہاتا ہے! یہ بڑی اہم بات ہے۔ تو آپ ان دستیاب مواقع کی اہمیت کو سمجھئے۔
میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ آپ سے ملاقات کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ مجھے جامعہ المصطفی کے عہدیداروں کا، جناب اعرافی صاحب کا اور تمام متعلقہ افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اللہ ان سب کو ، آپ سب کو، ان تمام افراد کو جنہوں نے اس سلسلے میں تعاون کیا اپنے لطف و کرم سے بہرہ مند فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‌

1) اعراف: 157
2) توبه: 122
3) مدثر: 1 - 7
4) بحارالانوار، ج 2، ص 30