قائد انقلاب اسلامی نے بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور یوم نسواں کی مناسبت سے یکم خرداد سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 22 مئی سنہ 2011 عیسوی کو منعقد ہونے والے عورتوں کے اجتماع سے خطاب میں بنت رسول کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور ممتاز خواتین کی شرکت سے اس اجتماع کے انعقاد اور مختلف مسائل منجملہ عورتوں اور کنبے سے متعلق ان کے دقیق اور تجزیاتی نظریات کو کمالات اور بلندیوں کی سمت عورتوں کی پیش قدمی کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں معاشرے کے حساس اور نازک امور کے سلسلے میں صاحب نظر اور فرزانہ خواتین کی تربیت کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عورتوں کے سلسلے میں مغرب کے ظالمانہ طرز فکر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مغرب نے مختلف معاشروں میں جو غلط معیار رائج کیا ہے اس کی بنیاد پر انسان دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک حصہ مردوں کی صنف پر مشتمل ہے جو مالک و مختار ہے اور دوسرا حصہ عورتوں کی صنف پر مشتمل ہے جسے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مغرب میں حجاب کی اعلانیہ مخالفت کو عورتوں کے سلسلے میں ظالمانہ طرز فکر کا ایک نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ مغرب والوں کا دعوی ہے کہ حجاب ایک مذہبی چیز ہے اور الحادی سماجوں میں اسے نظر نہیں آنا چاہئے لیکن مغرب والوں کی جانب سے حجاب کی مخالفت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اس سے عورتوں کو پیش کئے جانے اور ان کی بے آبروئی کی مغرب کی اسٹریٹیجی کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور ان کے راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم للہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے ان ایام کی جو خاتون دو عالم، سیدہ ٔ زنان اہل بہشت حضرت صدیقہ طاہرہ کی ولادت سے تعلق رکھتے ہیں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ نشست بحمد اللہ بہت ہی اہم اور مفید ثابت ہوئی۔ ایک تو نشست میں شرکت کرنے والی ہماری علمی اور سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں ممتاز اور حقیقی معنوں میں غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل معاشرے کی چنندہ خواتین ہیں۔ ان میں علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں نمایاں مقام رکھنے والی استانیاں بھی ہیں، یا ان محترمہ کی مانند ایک شہید کی بیوی اور چار شہداء کی مائیں بھی ہیں، یہ سب کی سب کمال و سربلندی کے اوج کی طرف خواتین کی عظیم حرکت کا ایک نمونہ ہیں۔ بحمداللہ یہ نشست ہر رخ سے ایک منتخب و ممتاز نشست ہے۔ اس نشست کا ایک اور اہم پہلو اس کا معیاری ہونا ہے۔ یقیناً پورے ملک میں ہر طرف دوسری بہت سی محترم خواتین موجود ہیں جنہوں نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ یہ ملک کے مستقبل اور پیشرفت و ارتقاء کے لئے ایک بڑا سرمایہ ہیں۔
جو باتیں خواتین نے یہاں بیان کیں خواتین سے مربوط بحث کے ان تمام پہلوؤں پر محیط تھیں کہ جن پر نگاہ رکھتے ہوئے ایک اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کو اس موضوع پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، میں نے پوری توجہ کے ساتھ ان کو سنا ہے۔ تقریباً ہر وہ چیز کہ جس کو آج عورتوں کے مسائل کے بارے میں بحث و تحقیق اور مطالعے کا عنوان بنا کر اس کی بنیاد پر ملک میں منصوبہ بندی کرنا چاہئے ان خواتین کے بیانات میں موجود تھی۔ یہ میرے لئے بہت ہی دلچسپ اور اطمینان بخش بات ہے۔
اگر اس مسئلے پر ہم اسی مرحلے میں کوئی فیصلہ دینا چاہیں تو وہ فیصلہ یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوری نظام اس چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو ایک معاشرے کے نازک ترین اور حساس ترین مسائل میں صاحب فکر و نظر، صائب الرائے فرزانہ خواتین کی تربیت سے عبارت ہے۔ اس کے بارے میں میں ابھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ عورت کا مسئلہ آج کی دنیا میں جس کو ''عورت کے المئے'' کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے کسی بھی معاشرے اور کسی بھی تہذیب کے بنیادی ترین مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں نے اہم باریکیوں، ظرافتوں، بنیادی عناوین اور سرخیوں تک پہنچنے اور مسئلے کے بارے میں غور و فکر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بنا بریں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اسلامی جمہوریہ نے اس چوٹی کو سر کر لیا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جس کے قریب اب بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔
ایک بات میں یہاں عرض کر دوں، عورت کا مسئلہ اور کنبے کا موضوع ان تمام کاموں کے باوجود جو انجام دیئے گئے ہیں، آپ نے کئے ہیں، دوسروں نے کئے ہیں، اب بھی فکر و نظر کے دائرے میں ایک اہم، قابل بحث اور قابل تشریح و توضیح مسئلہ ہے۔ یہ موضوع ایک علمی اور تحقیقی سیمنار کا موضوع ہے جو ان شا ء اللہ آئندہ منعقد ہوگا۔ علمی و تحقیقی نشستیں جس کے دو سیمنار اب تک منعقد ہو چکے ہیں فکری لحاظ سے ان کے کام اور ان شاء اللہ بعد میں جو کام منصوبہ و عمل میں آئیں گے معاشرے کے بنیادی ترین علمی و تحقیقاتی مطالعے اور فکری مسائل کی چھان بین کے ضامن ہیں۔ ان ہی مسائل میں سے ایک، عورت اور خاندان کا مسئلہ ہے کہ جس کو ان مسائل کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور آئندہ اس کا انعقاد ہوگا۔ میں اسی مقام پر محترم خواتین سے، تمام صاحب فکر و نظر خواتین سے کہ جن کا ایک منتخب نمونہ بحمد اللہ میں یہاں دیکھ رہا ہوں، درخواست کرتا ہوں کہ اس کام میں پوری سنجیدگی سے شریک ہوں، بحث کریں، غور و فکر اور مطالعہ کریں، عورت کے مسائل سے مربوط تمام ابواب کا الگ الگ ماہرانہ طور پر علمی شکل میں، خالص انقلابی فکر کے ساتھ اسلامی مآخذ اور منابع کی روشنی میں، جو خوش قسمتی سے آپ کی دسترس میں ہیں اور آپ کے اندر پائی جاتے ہیں، متعلقہ نشست میں موضوع کا جائزہ لیجئے، مسائل رکھے جائیں، بحث و گفتگو ہو اور انشاء اللہ منصوبہ بندی کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔
عورت اور معاشرے کے مسئلہ میں بنیادی مشکل دو چیزیں ہیں، دو بنیادی باتیں ہیں کہ اگر ان دو نقطوں پر فکر کی جائے، کوئی نیا منصوبہ پیش کیا جائے اور اس کے لئے پیچھے لگ کر مسلسل طور پر کام کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایک درمیانی مدت یا طویل مدت میں، وہ چیز کہ جس کو عصر حاضر میں عالمی سطح پر عورت سے متعلق بحران کہا جا سکتا ہے، حل ہو جائے ۔ وہ دو چیزیں کیا ہیں؟
ایک تو یہ ہے کہ معاشرے میں عورت کے مقام و منزلت کو غلط نگاہ سے دیکھا اور سمجھا گیا ہے اور یہ غلط نگاہ اور غلط فکر مغرب سے شروع ہوئی ہے۔ کوئی بہت زیادہ پرانی چیز نہیں ہے کہ جس کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہوں۔ وہ لوگ کہ جن کا دعوی ہے کہ صیہونی مفکرین کے پروٹوکول میں یہ مسئلہ موجود ہے، خلاف حقیقت نہیں ہے۔ یعنی اگرنگاہ اٹھائیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ یہ غلط نگاہ اور غلط فہمی و غلط سوچ، جو معاشرے میں عورت کی شأن و منزلت کے سلسلہ میں رائج کر دی گئی ہے مغرب میں سو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانی چیز نہیں ہے اور مغرب سے ہی یہ چیز دوسرے معاشروں میں حتی اسلامی معاشرے میں پہنچی ہے، یہ تو ایک بات ہوئی۔ دوسری چیز جو بنیادی مشکل کہی جا سکتی ہے ''گھرانہ'' یاخاندان کے مسئلے کا غلط طریقے سے سمجھنا اور گھروں کے اندر غلط عادات و اطوار سے کام لیا جانا ہے۔ یہ دو مشکلیں میں سمجھتا ہوں عورت کے مسئلہ کو بحرانی بنانے کا جو آج دنیا میں ایک بنیادی مشکل بن گئی ہے، اصل سبب ہے۔ شاید اس کو ''عورت کا بحران'' کہنا حیرت انگیز محسوس ہو۔ آج موسمیات کا بحران، پانی کا بحران، ایندھن کا بحران اور زمین کے گرم ہونے کا بحران جیسی تعبیریں انسانی بحران کے عنوان سے رائج ہیں لیکن سچ پوچھئے تو ان میں سے کوئی مسئلہ بشریت کا اصل مسئلہ نہیں ہے، زیادہ تر وہ چیزیں جو بشریت کی اصل مشکلات میں سے ہیں ان مسائل کی طرف پلٹتی ہیں جو انسان کی معنویت کے ساتھ، انسان کے اخلاق و عادات کے ساتھ یا انسانوں کے ایک دوسرے کے درمیان سماجی اور سماجی برتاؤ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک عورت اور مرد کا مسئلہ ہے، معاشرے میں عورت کی شأن و منزلت اور مقام کا مسئلہ ہے جو حقیقتاً ایک بحران سے دوچار ہے مگر اس کا سامنا کرنے اور زبان سے اقرار کرنے پر لوگ تیار نہیں ہیں، ذکر بھی نہیں کرتے، دنیا پر حکمرانی کرنے والے سیاستداں اس موضوع پر سرمایہ لگانے کو تیار نہیں ہیں اور شاید وہ اس کو اپنے اصل مفادات کے خلاف پاتے ہیں اسی لئے اس مسئلے کو چھیڑتے ہی نہیں ہیں۔
پہلے مسئلے کے سلسلے میں جو زندگی اور معاشرے میں عورت کے مقام و منزلت سے مربوط ہے، آپ اس کو چاہے جس عنوان سے بھی پیش کریں اور چاہے جو بھی نام دیں مشکل یہاں سے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے آہستہ آہستہ ایک غیر متوازن حالت ایجاد کر دی ہے۔ ایک طرف فائدہ اٹھانے والے ہیں اور دوسری طرف وہ ہے کہ جسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بشریت کو اس طرح تقسیم کیا ہے۔ مرد فائدہ اٹھانے والا اور عورت اس کے ہاتھوں استعمال ہونے والی چیز قرار دے دی گئی ہے۔ یہ کام بہت ہی غیر محسوس طور پر طرح طرح کے گونا گوں طریقوں اور مختلف قسم کے تشہیراتی وسائل کے ذریعے دسیوں سال میں کہ جس کی مدت شاید سو سال، ڈیڑھ سو سال تک پہنچتی ہو، صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا لیکن بہرحال آہستہ آہستہ انجام پایا ہے اور یہ مسئلہ قابل تحقیق ہے۔ مغربی معاشروں میں، سب سے پہلے اور پھر اس کے بعد دوسرے معاشروں میں اس نے جگہ بنائی ہے، عورت کی سماجی حیثیت کو انہوں نے یوں پہچنوایا اور متعارف کرایا ہے کہ '' عورت اپنے سماجی کردار میں در حقیقت مرد کے استفادے کیلئے بنائی گئی ہے۔ لہذا مغربی تہذیب میں اگر ایک عورت معاشرے میں نمایاں ہونا اور اپنی ایک شناخت قائم کرنا چاہتی ہے تو اس کو حتمی طور پر اپنی جسمانی خوبصورتی کی نمائش کرنا چاہئے، حتی سرکاری اجلاسوں میں عورت کو ایسا لباس پہننا پڑتا ہے جو عورت کو مردوں کی نگاہی کی تسکین کا ذریعہ بنا دے۔
میری نظر میں سب سے بڑی جارحیت، سب سے بڑی اہانت اور سب سے بڑی حق کشی جو عورت کے مسئلے میں انجام پائی ہے یہی ہے کہ ایک سماج اور معاشرے میں ایک تہذیب و تمدن میں یہ تصور پیدا کر دیا جائے کہ عورت معاشرے کے صارفین (مردوں) کیلئے محض ایک لذت بخش شئے بن کر رہ جائے اور یہ تصور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی مغربی تہذیب میں موجود ہے۔ دوسروں نے بھی ان کی تقلید اختیار کر لی، انہوں نے اس راہ میں کوششیں کیں، کام کرتے رہے اور اس خیال نے دنیا کے ( ذہنوں میں) جگہ بنا لی۔ اگر کوئی اس کے خلاف کچھ کہے تو ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر ایک معاشرے میں خواتین کی آرائش اور حسن و جمال کی نمائش کو مجمع عام میں ممنوع قرار دے دیا جائے تو ہنگامہ شروع ہو جائے گا اور اگر اس کے برخلاف ہو یعنی ایک معاشرے میں عورتوں کو عریاں کر دینے کی بات کی جائے تو کوئی شور و ہنگامہ دنیا میں سنائی نہیں دے گا۔ جب بھی خواتین کے پردے، عدم عریانیت اور معاشرے میں زینت و آرائش اور بدن کی نمائش نہ کرنے کی بات ہوتی ہے تو دنیا کی پوری تشہیراتی مشینری حرکت میں آ جاتی ہے اوازیں بلند ہو جاتی ہیں اور ایک ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایک سیاست ایک نام نہاد تہذیب اور معینہ راہ و روش ہے جس پر سالہا سال سے مسلسل کام ہو رہا ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ غلط اور توہین آمیز حیثیت اور شخصیت عورت کیلئے ثابت و مستحکم کر دیں۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اس مہم میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا آپ دیکھیں! مغرب میں پردے کی مخالفت آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آتی جا رہی ہے اور اس مخالفت کیلئے ایشو یہ اٹھاتے ہیں کہ پردہ ایک مذہبی عمل کی علامت ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے معاشروں میں جو الحادی اور دین مخالف معاشرے ہیں، مذہبی علامتیں نمایاں نظر آئیں۔ میری نظر میں یہ ایک جھوٹ ہے۔ بحث مذہب اور لا مذہبیت کی نہیں ہے، بحث یہ ہے کہ مغربی سیاست کی بنیادی اور اساسی پالیسی عورت کو ایک بازارو چیز بنانے اور جسم نمائی پر استوار ہے، وہ حجاب اور پردے کی مخالف ہے، بنیادی مشکل یہ ہے۔
اور پھر اس مسئلے نے اپنے اثرات و نتائج، اپنے نہایت ہی جانکاہ نتائج معاشرے پر مرتب کئے۔ خاندانی بنیادوں کو کمزور کر دینے کامسئلہ کھڑا ہوا۔ دل دہلا دینے والی رپورٹیں ہیں جن کا ایک نمونہ یہاں ایک محترم خاتون نے ابھی پیش کیا۔ عورتوں کی تجارت کا دردناک اور افسوسناک مسئلہ، آج دنیا میں موصولہ رپورٹوں کے مطابق اور یہ رپورٹیں، میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ نے پیش کی ہیں؛ ایک معتبر مرکز کی رپورٹیں ہیں، دنیا میں انتہائی تیز رفتاری سے فروغ حاصل کرنے والی تجارت ، عورتوں کی تجارت اور عورتوں کی اسمگلنگ کا کاروبار ہے۔ اس سلسلے میں بدترین ممالک میں چند ممالک ہیں، منجملہ ان کے صہیونی نظام ہے جو عورتوں اور لڑکیوں کو کام فراہم کرنے، شادی کرانے اور اسی قسم کے دوسرے بہانوں سے فقیر و نادار ملکوں سے لاطینی امریکہ سے، ایشیا کے بعض ملکوں سے، یورپ کے بعض غریب ملکوں سے جمع کرتے ہیں اور ان کو لے جا کر نہایت سخت و ناگوار حالات میں ان مراکز کے حوالے کر دیتے ہیں کہ انسان کا ان کے تصور اور ان کے نام سے ہی بدن لرز اٹھتا ہے۔
یہ سب کچھ اس غلط زاویۂ نگاہ کا نتیجہ ہے جو مغرب نے عورت کے مقام و منزلت کے سلسلے میں قائم کر لیا ہے۔ ایک معاشرے میں عورت کی شخصیت کے بار ے میں عدم مساوات کا ایک ظالمانہ نقطۂ نگاہ؛ ناجائز بچوں کی پیدائش کے اعداد و شمار کے لحاظ سے آج امریکہ جس میں سب سے آگے ہے اسی کی دین ہے، شادی کئے بغیر مشترکہ زندگی گزارنے کا رواج اسی کی دین ہے، در حقیقت گھر اور گھرانے کے پاکیزہ ماحول اور اخلاص و محبت سے معمور خاندان اور اس کی برکتوں اور حلاوتوں سے انسان کو محروم کر دینا یہ سب کچھ اسی بنیادی مشکل کا نتیجہ ہے۔ اس کے لئے کچھ سوچنا ضروری ہے۔ عورت کے مقام و حیثیت کا تعین کرنا چاہئے اور مغرب کی اس تحقیرآمیز کھوکلی منطق کے خلاف پوری سنجیدگی سے کھڑا ہونا چاہئے۔
میں نے ایک موقع پر کہا تھا ، مجھ سے سوال کیا گیا تھا کہ ملک میں عورت کے مسئلے سے متعلق اہل مغرب جو کچھ کہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ اس کے دفاع میں کیا کہیں گے؟ میں نے کہا تھا ہم کو دفاع نہیں کرنا ہے۔ ہم کو تو خود ان کا گھیراؤ کرنا ہے، ہم عورت کے مسئلے میں خود مغرب کو گھیرنے کی پوزیشن میں ہیں ، ہم مغرب سے جواب طلب کرنے کی پوزیشن میں ہیں؛ وہ لوگ ہیں جو آج بھی عورت پر ظلم کر رہے ہیں، عورت کی توہین کر رہے ہیں ، عورت کے مقام و منزلت کو گھٹا رہے ہیں، آزادی کے نام پر روزگار کے نام پر، ذمہ داری دینے کے نام پر عورت کو ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی دباؤ میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ اس کی شخصیت کی توہین اور بے عزتی کر رہے ہیں۔ ان کو جواب دینا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ کی اس سلسلہ میں ایک ذمہ داری ہے، اسلامی جمہوریہ کو عورت کے مسئلے میں بالکل صاف و صریح الفاظ میں کسی بھی رو رعایت کے بغیر اپنی بات جو بڑی حد تک مغرب کے اس غیر متوازن اور ظالمانہ طرز فکر کے خلاف احتجاج و اعتراض پر مبنی ہے، کہہ دینا چاہئے۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو اس وقت حجاب کا مسئلہ، مرد و عورت کے رابطے کی نوعیت کا مسئلہ، خود بخود مفہوم و معنی حاصل کر لیتا ہے، یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
اس کے بعد کا مسئلہ، جو عورت کے قضیے میں دوسری مشکل ہے گھر اور خاندان کا مسئلہ ہے، گھر اور کنبے کے سلسلہ میں ایک خانوادے میں عورت کے مقام و منزلت سے متعلق اسلامی نقطۂ نگاہ بہت ہی واضح ہے''المرأة سیدة بیتھا'' عورت گھر کی ملکہ ہے، یہ پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا ہے۔ ایک خاندان میں عورت کا مقام اور حیثیت وہی ہے جو ائمہ علیہم السلام کے متعدد اقوال و ارشادات میں موجود ہے۔ ''المرأة ریحانة و لیست بقھرمانة'' گھر کے اندر عورت خادمہ نہیں، ریحانہ ہے، گھر کی خوشبو ہے۔ مردوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں تم میں بہترین افراد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک رکھتے ہیں۔ یہ سب اسلامی نظریات ہیں اور اس طرح کے اقوال کثیر تعداد میں موجود ہیں، پھر بھی ان سب کے باوجود ایک خاندان سے اسلام کا جو مطالبہ ہے وہ چیز ہے جو صرف ان بیانات میں تمام نہیں ہوتی، ختم نہیں ہوتی۔ اس کو قانونی پشتپناہی کی ضرورت ہے، اس کے نفاذ کی بھی ضرورت ہے اور عمل درآمد کے لئے ضمانت کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام پانا چاہئے۔ یہ کام مسلسل کئی برسوں سے پچھلے زمانوں میں انجام نہیں پایا ہے۔ وہ خاندان جو دیندار تھے اور وہ مرد جو اچھے اخلاق و آداب کے مالک تھے اور شریعت کی پابندی کرتے تھے انھوں نے اس کا لحاظ رکھا لیکن جہاں یہ خصوصیات نہیں پائی جاتی تھیں ان باتوں کا پاس ولحاظ نہیں تھا، وہاں عورت پر گھروں کے اندر ظلم ہوئے ہیں۔
یقینا ایسا نہیں ہے کہ ہم سوچیں اہل مغرب اس میدان میں ہم سے آگے ہیں، ہرگز نہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا، بہت سے اعدا و شمار موجود ہیں۔ یہاں بھی ایک محترمہ نے ابھی اعداد و شمار نقل کئے ہیں۔ مغربی خاندانوں کے اندرونی حالات ، عورت کی مظلومیت کے لحاظ سے، عورتوں کے حقوق کی پاسداری نہ کئے جانے کے لحاظ سے، اسلامی، ایرانی اور مشرقی خاندانوں کی صورت حال سے کہیں بدتر ہیں۔ اگر بدتر نہ ہوں تو بہتر ہرگز نہیں ہیں۔ کم از کم کچھ موارد میں تو یقینا بدتر ہیں۔ ہماری نگاہ میں وہ لو گ نمونہ عمل نہیں ہیں، وہ لوگ ہمارے لئے آئیڈیل نہیں ہیں۔
ہمارے گھریلو ماحول میں بہت زیادہ کمیاں ہیں اور ضرورت ہے کہ قانون کی پشت پناہی، قانوں کی ضمانت، قانون کے نفاذ و عملدرآمد کی ضمانت کے ذریعے یہ کمیاں برطرف کی جائیں، یہ کام ہونا چاہئے۔ یہ مسئلہ من جملہ ان میدانوں اور ان شعبوں میں سے ہے کہ جن پر ملک کے اندر بہت کم کام ہوا ہے، مزید کام ہونا چاہئے۔
اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی متون کے لحاظ سے بھی مسئلے کے اس شعبے میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگ اسلامی تفکرات پر تنقید کرتے ہیں، میراث اور دیت کے مسائل اور اسی طرح کی بعض چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں جبکہ ان کے اعتراض درست نہیں ہوتے۔ ان کے اعتراضات کے قوی اور مدلل جواب موجود ہیں لیکن خاندانی سطح پر مردوں کی رفتار و روش کے سلسلے میں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر غفلت و بے توجہی رہی ہے۔ حالانکہ اسلام کا نقطہ نظر بالکل واضح و روشن ہے۔ گھر کا ماحول عورت کیلئے ایک پرامن ماحول ہونا چاہئے۔ عزت اور سکون و اطمینان کا ماحول ہونا چاہئے تا کہ عورت اپنا بنیادی ترین فریضہ یعنی یہی گھر اور گھرانہ کا تحفظ بہترین انداز میں انجام دے۔
عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ سے متعلق بحثیں بہت ہوئی ہیں۔ ہم نے بھی بارہا گفتگو کی ہے، میں نے کئی بار عرض کیا ہے کہ رضائے الہی کی فکر میں رہنے والے مومن انسان کے لئے بھی اور مردود بارگاہ ایک کافر انسان کے لئے بھی قرآن نے نمونہ و مثال کے طور پر عورت کو ہی پیش کیا ہے اور یہ بہت ہی دلچسب چیز ہے۔ قرآن حکیم نے جہاں اچھے اور برے انسان کے لئے نمونوں کا ذکر کیا ہے دونوں نمونے عورتوں کے درمیان سے منتخب کئے ہیں:''ضرب اللہ مثلاًلِلّذین کفروا امرأة نوح و امرأة لوط'' قرآن نے دو عورتوں کو''مثال'' یعنی عورتوں کے لئے برائی کے نمونے اور علامت کے طور پر پہچنوایا ہے۔ ایک جناب نوح کی بیوی اور دوسری حضرت لوط کی بیوی ہے۔ بعد میں اس کے بالمقابل قرآن کہتا ہے:
''و ضرب اللہ مثلاً للّذین امنوا امرأة فرعون ومریم ابنت عمران الّتی احصنت فرجھا'' اچھائی کی علامت کے عنوان سے بھی دو مؤمن اور برتر و بالا عورتوں کو پہچنوایا ہے۔ ایک فرعون کی زوجہ ہیں اور ایک حضر ت مریم بنت عمران ہیں اور دلچسب بات یہ ہے کہ ان چاروں عورتوں کی برائی اور اچھائی گھریلو ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دونوں عورتوں ''امرأة نوح اور امرأة لوط'' کے سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے:
''کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا ھما'' کہ ان دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ جو دو عالی شان پیغمبر اور عالی مقام بندے تھے ، خیانت سے کام لیا۔ مسئلہ ایک گھریلو مسئلہ ہے، ان دو دوسری خواتین کا موضوع بھی گھر اور خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں ایک فرعون کی بیوی ہیں جن کی قدر و اہمیت یہ ہے کہ ایک اولوالعزم پیغمبر حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو اپنی آغوش میں پالا ہے۔ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کی ہے۔ لہذا فرعون ان سے انتقام لیتا ہے، مسئلہ خود ان کے اپنے خاندان کا مسئلہ ہے۔ ایسے عظیم نتائج و اثرات کا کام جو انھوں نے کیا ہے، موسی کی پرورش ہے۔ حضرت مریم کے سلسلے میں بھی کچھ یہی صورت ہے '' التی احصنت فرجھا'' اپنی ناموس اور اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا جس ماحول میں زندگی گذار رہی تھیں ایسے عناصر موجود تھے جو ایک پاک دامن خاتون کی عفت و ناموس کے لئے خطرہ بن سکتے تھے اور انھوں نے ان سے مقابلہ کیا۔ بنابرایں یہ تمام مثالیں اسی اہم پہلو یعنی گھریلو زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جس کی جانب ہم نے عرض کیا ایک خاندان اور معاشرے میں عورت کی شأن و منزلت کا مسئلہ ہے۔
یقیناً ہم نے اسلامی جمہوریہ کے دور میں میں ترقی کی ہے۔ میں مستقبل کے سلسلے میں پرامید اور مطمئن ہوں، ہم نے انقلاب سے پہلے کی صورت حال قریب سے دیکھی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے کی جو حالت تھی اور ہماری عورتیں جس سمت رواں دواں تھیں وہ کیفیت بہت ہی ہولناک و خطرناک تھی۔ دوسروں کی اندھی تقلید کی جو خاصیت اور خصوصیت ہے اس کے تحت یہاں بعض اوقات عورتوں کی ظاہری حالت، جو کچھ ہم نے یورپی خواتین کے سلسلے میں لوگوں سے سنا، رپورٹوں میں پڑھا اور تصویروں میں دیکھا ہے اس سے بھی بدتر تھی! ایک اس طرح کی حالت تھی جس کو رائج کیا جا رہا تھا۔ البتہ ایرانی خواتین اپنے گوہر ایمان کے سبب جو ان کے وجود میں پیوست ہے اس تباہ کن، غیر اخلاقی لہر سے مقابلے اور انقلاب میں بنیادی مشارکت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ انھوں نے اپنی موجودگی کے ذریعے بھی اور اپنے مردوں کی ترغیب کے ذریعے بھی انقلاب کی کامیابی میں ایک ستون کی حیثیت حاصل کر لی اور انقلاب کے بعد بھی عورتوں کے اقدام، غیر معمولی اقدام کہے جا سکتے ہیں۔
میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ راہ حق کے ان تمام مجاہدوں، سرفروش فوجیوں اور ان کے افسروں کی بیویاں اور ان کی مائیں ، حقیقت یہ ہے صبر و استقامت کی آیت اور علامت ہیں ، ایک انسان جب ان کے حالات زندگی کو دیکھتا اور پڑھتا ہے، ان کے رنج و تکلیف کا مطالعہ کرتا ہے تو یقینا انقلاب سے پہلے بھی انقلابیوں کی بیویوں نے اگر چہ بڑی سختیاں برداشت کی ہیں، مثالی نمونے بھی وہاں ملتے ہیں لیکن کامل نمونے مقدس دفاع کے دوران دیکھنے کو ملتے ہیں، آدمی دیکھتا ہے کہ ان بیویوں نے کتنی زحمتیں اٹھائی ہیں، ان ماؤں نے کیا کچھ تحمل کیا ہے انھوں نے اپنے بچوں کو مورچوں پر روانہ کیا ان میں بہت سے شہید ہوگئے۔ زخمی و مجروح ہوئے اور یہ صبر و استقامت کا نمونہ پہاڑ کی طرح ڈٹی رہیں، اسی طرح معنوی اور انسانی مسائل کے میدان میں ، سیاسی مسائل کے میدان میں اور علمی مسائل کے میدان میں بھی ملک نے بحمدللہ غیر معمولی ترقیاں کی ہیں۔ دینی علوم ہوں یا یونیورسٹیوں کے علوم، مختلف علمی شعبوں میں اس قدر زیادہ اساتید اور دانشور خواتین کی موجودگی کہ ان کا ایک نمونہ خوش قسمتی سے آپ لوگ ہیں جو اس اجتماع میں موجود ہیں، یہ سب اسلامی جمہوریہ کی کامیابیوں کی نشانی ہے۔ میں اس کو اسی نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یہ نگاہ مستقبل کی طرف سے دل کو پرامید کرتی ہے۔ ہم اس رفتار اور اسی سرعت سے انشاء اللہ آگے بڑھتے رہیں گے تو قطعی طور پر مغرب کی غلط تہذیب پر جو دنیا میں رائج ہے، ضرور غلبہ حاصل کر لیں گے، کام کرنے کی ضرورت ہے۔سعی و کوشش کرنا اور لگے رہنا چاہئے، یہ نگاہ ایک خوش آیند نگاہ ہے لیکن یہ خوش آیند نگاہ کمزوریوں کو دیکھنے میں رکاوٹ نہ بننے پائے، ہم ایک درجے تک آگے بڑھے ہیں مگر عجب نہیں، اس سے دس گنا اور زیادہ آگے بڑھنا ممکن تھا، جو چیز اس حد تک ہمارے نہ پہنچ سکنے کا باعث بنی ہے یہی کمزوریاں اور مشکلات ہیں جو راہ میں حائل رہی ہیں کہ جس کی طرف آپ میں سے بعض افراد نے اشارہ کیا ہے البتہ اور بھی مشکلات پائی جاتی ہیں جنہیں برطرف ہونا چاہئے۔
جو بات میں آج اپنی اس گفتگو کے اختتام میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس راہ میں اہم کام خود خواتین کو کرنا ہوگا۔ یہ آپ لوگ ہیں جوغور و فکر کر سکتی ہیں عقل و نظر بروئے کار لائیے، مطالعہ کیجئے اور رکاوٹوں کو فکر و نظر کی سطح پر حل کیجئے اور مقام عمل میں، عمل درآمد کے طریقے اور راہ و روش پیش کیجئے۔ یہ چیز کام کو بہت آسان اور منزل کو نزدیک کر دے گی، یقینا اس نشست میں محترم خواتین نے تجاویز پیش کی ہیں اور ان میں بعض باتیں پوری طرح قابل عمل ہیں اور آمادہ و تیار ہیں اور ان کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور ضروری قدم اٹھایا جا سکتا ہے اور بعض باتوں کیلئے ماحول اور مقدمہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
میری دعا ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں کا سماج کامیاب ترین سماجوں میں قرار پائے اور ہماری بیٹیاں جو آپ کی تیار کی ہوئی زمین میں قدم رکھ رہی ہیں روز بروز بلند سے بلند تر اہداف کی طرف پیش قدمی کریں اور اس سلسلے میں اس نشست کی برکتیں بھی ہمارے شامل حال ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) نهج‌الفصاحة، ص 614
2) نهج‌البلاغه، خط نمبر ‌31
3) تحريم: 10
4) تحريم: 11
5) تحريم: 12
6) تحريم: 10