بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو بہت بہت خوش آمدید۔ واقعی نمایاں، غیر معمولی صلاحیت والے اور کام کے لیے تیار نوجوانوں سے ملاقات ہر انسان کو خوش کرنے والی، مسرور کن اور امید بخش ہوتی ہے۔ میں نوجوانوں پر بہت بھروسہ کرتا ہوں۔ بہت سے لوگ ہیں جو، میں نے ان برسوں کے دوران عہدیداران سے جو باتیں کی ہیں ان کی بنا پر میں سمجھتا ہوں اور دیکھتا ہوں، نوجوانوں اور نوجوانی کے جوش و جذبے کی قدر کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتے، انھیں نوجوانوں سے بہت امید نہیں ہے۔ مجھے نوجوانوں سے بہت امید ہے۔
اول تو یہ کہ آپ ملک کے لیے ایک سرمایہ ہیں، پوری نوجوان نسل خاص طور پر غیر معمولی صلاحیت والے نوجوان حقیقت میں ملک کے لیے ایک ثروت ہیں۔ ٹھیک ہے کہ میڈل کی اہمیت ہے، ان میڈلز کی قدروقیمت ہے اور ان میں سے ہر ایک باعث افتخار ہے، لیکن غیر معمولی صلاحیت کے نوجوان کی قدروقیمت، میڈل کی قدروقیمت سے بہت الگ ہے، غیر معمولی صلاحیت کے نوجوان کی قدروقیمت ان چیزوں سے کہیں زیادہ ہے۔
آپ ایک نامناسب ماحول کو ایک سو فیصد مطلوبہ ماحول میں بدل سکتے ہیں۔ آپ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں، آپ تاریخ کو بدل سکتے ہیں۔ افسوس کہ آپ کا تاریخی مطالعہ کم ہے، عام طور پر نوجوانوں کا تاریخی مطالعہ کم ہوتا ہے، اگر آپ تاریخ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ تاریخ میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے اور ہمارا ملک جو مختلف تاریخی تغیرات کا مرکز ہے، بہت سی جگہوں پر واقعی گویا نقشے سے پوری طرح مٹ گيا، یعنی ملک کی حالت ایسی تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ اچانک، ایک عرصے کے بعد اب بالکل الگ ہے، وہ ملک جو درحقیقت عدم میں چلا گيا تھا، ایسا پرشکوہ ہو گيا، اسے ایسی عظمت حاصل ہو گئي کہ جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اس میں انسانی عنصر مؤثر رہا ہے۔ "انسانی عنصر" کو بالکل بھی سیاست، سیاستدانوں، حکام اور حکمرانوں پر حمل نہیں کرنا چاہیے، جی نہیں، وہ بعض موقعوں اور جگہوں پر مؤثر رہے ہیں، ان کا اثر برا نہیں تھا، انسانی عنصر، اصل میں علمی، فکری، اخلاقی اور معنوی عوامل کا مجموعہ تھا اور ملک نے ان کے ذریعے عروج حاصل کیا۔
اس وقت سے جب سامراج ہمارے ملک میں داخل ہوا، البتہ ہم باضابطہ طور پر نوآبادی نہیں بنے لیکن بباطن ہمارے یہاں بھی سامراج تھا یعنی ملک میں اغیار کی حکومتوں اور ثقافتوں کا تسلط پایا جاتا تھا۔ ملک انحطاط اور زوال کی طرف گامزن ہوگیا یعنی مثال کے طور سنہ 1800 عیسوی کے برسوں سے جب برطانوی ایجنٹ پہلی بار ہندوستان سے ہمارے ملک میں آيا اور بندر عباس یا بوشہر سے ایران پہنچا، مجھے صحیح سے یاد نہیں ہے، تو اس نے بدعنوانی شروع کر دی، یعنی اپنی آمد کے پہلے ہی دن اس نے اس شہر کے حاکم کو جہاں وہ سب سے پہلے پہنچا تھا، رشوت دی، اسے اپنے ساتھ ملا لیا، پھر اس کی مدد سے دوسرے شہر میں پہنچا، وہاں بھی رشوت دی، یہاں تک کہ وہ تہران پہنچا اور شاہ کو رشوت دی، شہزادوں کو رشوت دی! فتح علی شاہ کے زمانے میں، مطلب یہ کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ مسلط ہو گئے، انھوں نے ہماری ثقافت کو تاراج کر دیا، علمی پیشرفت سے ہمیں محروم کر دیا، سیاسی بصیرت اور سیاسی محرکات سے ہمیں بہت ہی نچلے درجوں میں باقی رکھا، یہاں تک کہ انقلاب آ گيا۔
انقلاب ٹھیک اس کی مخالف سمت میں بڑھا۔ انقلاب نے ملک میں جست کی صورتحال پیدا کر دی۔ مختلف میدانوں میں انقلاب کی جست، بہت واضح اور روشن ہے، آپ سیاسی میدان میں یہ جست دیکھتے ہیں، علمی و سائنسی میدان میں یہ جست دیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ جست دیکھتے ہیں، سماجی اخلاقیات کے میدان میں یہ جست دیکھتے ہیں، ان تمام میدانوں میں انقلاب نے پرواز کی حالت پیدا کر دی۔ انقلاب کو کون وجود میں لایا؟ انسانی قوت، جس میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، مطلب یہ کہ انسانی قوت کا کردار یہ ہے۔ اور یہ نوجوان جتنا زیادہ غوروفکر کرنےوالا، فیصلہ کرنے والا اور ٹھوس عزم کا مالک ہوگا، اتنا ہی یہ اثر زیادہ اور گہرا ہوگا۔ آپ دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں: "قَوِّ عَلىٰ خِدمَتِکَ جَوَارِحی" پہلے یہ ہے۔ جوان کے اعضاء و جوارح زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ "وَ اشدُد عَلَى العَزیمَۃِ جَوانِحی" (2) اے خدا! میرے دل کو فیصلے کی طاقت سے مضبوط بنا دے۔ نوجوان میں فیصلے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے، الیٰ آخرہ، میں آپ کو دعائے کمیل کے معنی نہیں سمجھانا چاہتا۔ جوان ایسا ہوتا ہے۔
آپ ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں، اسے اچھے راستے پر بڑھا سکتے ہیں، آپ کی کچھ تشویشیں ہیں، آپ واقعی ان تشویشوں کو دور کرنے کی راہ میں کوشش کر سکتے ہیں۔ آپ اس بات کا انتظار نہ کیجیے کہ میرے جیسا کوئي آپ سے کہے کہ آپ ان تشویشوں کو دور کرنے کے لیے یہ کیجیے اور وہ کیجیے، نہیں، آپ خود سوچیے، سوچیے، راستہ تلاش کیجیے، مل بیٹھیے، تعاون کیجیے، ہمفکری کیجیے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے راستہ تلاش کیجیے، فکری راہیں تلاش کیجیے، ایسے راستے تلاش کیجیے جو آپ کے لیے مناسب ہیں۔ میرے خیال میں، آپ لوگ بہت سے کام کر سکتے ہیں۔
میں نے آپ سے کہنے کے لیے دو باتیں نوٹ کی ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ غیر معمولی صلاحیت، ایک روش ہے، ایک راہ ہے، ایک ٹھہرا ہوا، رکا ہوا راستہ نہیں ہے۔ یہ وہ بات تھی جس کی طرف ایک صاحب نے اشارہ بھی کیا اور مجھے بہت اچھا لگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ اب جبکہ ہم غیر معمولی صلاحیت کے حامل بن چکے ہیں تو بات ختم ہو گئي، نہیں! یہ تو شروعات ہے، ایک راہ کی شروعات ہے۔ آپ نے میڈل حاصل کیا یا مثال کے طور پر ملک گير انٹرنس امتحان میں آپ کا بہت اچھا رینک آيا، یہ صرف اس راہ کی شروعات ہے، اس راہ پر آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ راہ میں پیشرفت کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے تخلیقی صلاحیت، جہاں آپ فکری کام کر رہے ہوں وہاں فکری خلاقیت، جہاں عملی کام کر رہے ہوں وہاں عملی خلاقیت۔ علم و سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، اخلاقیات اور روحانیت کے فروغ کے میدان میں کام کیجیے، کوشش کیجیے۔ اس کا ایک بڑا حصہ خود آپ کے ذمے ہے اور ایک بڑا حصہ عہدیداران کے ذمے ہے، مطلب یہ کہ متعلقہ وزارت خانے مؤثر ہیں، غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی سوسائٹی مؤثر ہے، نمائندہ دفاتر مؤثر ہیں، خود یونیورسٹی کے اندر کے عہدیداران، مختلف عہدیداران جیسے یونیورسٹی کے چانسلر مؤثر ہیں، ان کاموں کو منظم بنایا جانا چاہیے، ایک مکمل روش تیار کی جانی چاہیے۔ بہرحال اس بات پر توجہ دیجیے کہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہونا، منزل نہیں ہے، اب جب آپ کے پاس غیر معمولی صلاحیت ہے تو یہ ایک راہ اور ایک حرکت کا آغاز ہے۔
ایک دوسری بات جو میری نظر میں اہم ہے یہ ہے کہ ہمارے ملک نے تقریبا سنہ 2000 سے سائنس کے میدان میں ایک تیز رفتار حرکت شروع کی، سائنس کے میدان میں ایک جست لگائي ہے۔ البتہ انیس سو اسّی اور نوّے کے عشرے میں بھی سائنسی کام ہو رہے تھے لیکن سنہ دو ہزار سے یا اس کے کچھ بعد سے، اس وقت مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے، پروفیسروں اور اسٹوڈنٹس کے ماحول میں ایک عمومی تحریک شروع ہوئي، ایک اچھی علمی و سائنسی تحریک معرض وجود میں آئي، اس طرح سے کہ عالمی اعداد و شمار بتا رہے تھے کہ ہماری علمی و سائنسی پیشرفت کی رفتار، اوسط عالمی رفتار سے کئي گنا زیادہ ہے۔ البتہ میں نے اس وقت بھی بارہا کہا تھا(3) کہ پیشرفت کی رفتار بہت اچھی بات ہے، بہت اہم بات ہے لیکن خود پیشرفت کے حصول کے لیے وہ اصل بات نہیں ہے۔ چونکہ ہم عقب ماندہ رہ گئے تھے اس لیے اگر پیشرفت میں ہماری یہی رفتار رہی تو ہم بیچ راستے میں پہنچیں گے، سب سے آگے نہیں بڑھیں گے، ہمیں سب سے آگے کی قطار میں اور فرنٹ لائن میں پہنچنا ہے۔ یہ کام سنہ دو ہزار سے شروع ہوا لیکن سنہ دو ہزار دس کے عشرے کے آخری برسوں میں ہماری رفتار کچھ کم ہو گئي۔ مجھے کچھ اعداد و شمار دیے گئے جنھیں میں نے نوٹ کیا ہے اور مجھے یہ اہم لگتے ہیں۔ یہ جزوی ہیں لیکن ایک بڑے اہم مسئلہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ کہا گيا ہے کہ ہم نے سنہ 2018 سے 2021 تک کے برسوں میں عالمی مقابلوں یا عالمی اولمپیاڈز میں کل 26 گولڈ میڈل حاصل کیے جبکہ 2022 اور 2023 تک کے برسوں میں ہم نے 30 گولڈ میڈل حاصل کیے، مطلب یہ کہ دو سال میں، ان چار برسوں سے زیادہ میڈل حاصل ہوئے۔ ان دو برسوں میں پھر ایک تیز رفتار حرکت ہوئي ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، ہمیں ایک سائنسی تحریک کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ اس سلسلے میں حقیقت میں کام کر سکتے ہیں، مؤثر ہو سکتے ہیں، آپ خود بھی زیادہ علمی و سائنسی کوشش کیجیے اور ماحول بھی تیار کیجیے۔ یہ دوسری بات ہوئي۔
ان میدانوں میں سیاست بھی مؤثر ہے، یعنی جیسا کہ میں نے اشارہ کیا کہ جب ملک میں انگریزوں کی سیاست حاکم اور غالب ہو گئي، جو تقریبا دو سو سال تک جاری رہی، ایران میں انگریزوں کی سیاست تقریبا دو سو سال تک غالب رہی البتہ اواخر میں امریکیوں نے اسے جاری رکھا، تو اس سے ملک کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اس وقت ہم بحمد اللہ ایک سیاسی خودمختاری کے حامل ہیں، یعنی ایران، اسلامی جمہوریہ، دنیا کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں ایک منطق، ایک موقف اور ایک معینہ پوزیشن کا حامل ہے۔ مسئلۂ فلسطین کے بارے میں ہمارا موقف ہے، دنیا کے مختلف واقعات کے بارے میں ہمارا موقف ہے، یعنی ہماری بات سنی جاتی ہے، دنیا میں ہماری بات سنی جاتی ہے اور اس پر توجہ دی جاتی ہے، ممکن ہے بہت سے لوگ اسے تسلیم نہ کریں لیکن اس موقف پر توجہ دی جاتی ہے، یہ خودمختاری ہے، اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اب چاہے جو بھی حکومت اقتدار میں آئے، اس کا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس سیاسی خودمختاری کی، جو بحمد اللہ وجود میں آئي ہے، حفاظت کریں۔
ایک صاحب نے الیکشن کی طرف اشارہ کیا(4) الیکشن بہت اہم ہے اور پہلے مرحلے میں عوام کی مشارکت اہم ہے اور آپ، چاہے اسٹوڈنٹس کے ماحول میں، چاہے کام کے ماحول میں اور چاہے گھر وغیرہ میں، جہاں تک ہو سکے کوشش کیجیے کہ مشارکت میں اضافہ ہو۔ اس کے بعد دیکھیے کہ کون سا امیدوار انقلاب کے معیارات سے زیادہ قریب ہے اور کس میں انقلاب کے معیارات کی راہ میں کام کرنے کی صلاحیت ہے، اگر آپ ان چیزوں کو دیکھیں گے تو شاید ایک اچھا انتخاب کر پائيں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم اس چیز کو آسانی اور بغیر تشویش کے وجود میں لائے جو اس ملک اور اس قوم کے مفاد میں ہے۔
میرے معروضات ختم ہوئے، ایک بار پھر آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ایک بار پھر آپ کے ان دوستوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں جو نہ آ سکے اور ہم ان کی زیارت سے محروم رہ گئے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ