آپ نے فرمایا کہ ملک بھر میں قومی اور صوبائي سطح کے حکام کے کام کی کیفیت اسلامی نظام کی سربلندی اور اسی طرح خدانخواستہ اس کی بدنامی کا باعث بن سکتی ہے بنابریں حکام کو چاہئے کہ حتی الوسع اپنے کام کی کیفیت اور قابل فخر خدمت میں اضافہ کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور ملک کی ضرورتوں کے مطابق مختلف میدانوں میں وارد ہونے کی عوام کی دائمی آمادگی کو حیرت انگیز قرار دیا اور فرمایا کہ زبان عوام کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہے، وہ در پیش مشکلات اور نقائص کے باوجود ہمیشہ اسلام اور انقلاب کے دفاع میں تمام حکام سے آگے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کرمانشاہ کے عوام کی دائمی مجاہدت، اسلام و انقلاب سے ان کی وفاداری اور ان کے اظہار محبت کو ملک اور صوبے کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جانے کا باعث قرار دیا اور قومی و صوبائی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں، شریف و نجیب اور صبر و ضبط والے عزیز عوام کی خدمت بنحو احسن انجام دیجئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دشمنوں کی طرف سے مسلسل جاری سازشوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت و ترقی کا ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ استکبار کے محاذ کی طرف سے دائمی طور پر تشہیراتی، سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی سے متعلق یلغار اہداف اور امنگوں کی سمت ملت ایران کی تیز رفتار پیش قدمی کی دلیل ہے کیونکہ اگر قوم کی پیش قدمی کا عمل، جمود اور کمزوری کا شکار ہوا ہوتا تو دشمن اتنا بوکھلایا ہوا نہ ہوتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی قوموں میں پھیلی اسلامی بیداری اور ملت ایران کے اسلام اور شریعت کی پیروی کے پیغام کی وسیع پذیرائی کو قوموں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ کو ایک نمونے کا درجہ حاصل ہو جانے کی علامت قرار دیا۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
 
صوبائی انتظامیہ کے مختلف سطح کے حکام اور عہدیداروں کے اس پرخلوص اجتماع میں اس ملاقات کی ایک خاص بات ہے جو اس سے پہلے کی ملاقاتوں میں نہیں تھی اور وہ یہ ہے کہ کرمانشاہ کے باشرف عوام نے اپنی گزشتہ برسوں کی مجاہدتوں کے ساتھ اس سفر میں اس حقیر کے تئیں مہربانی اور انقلاب سے وفاداری کے اظہار کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کر دی ہے کہ ان (عوام) کی نسبت حکام کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ مختلف شعبوں کے وہ ذمہ دار عہدیدارجن کے کندھوں پر یہ بار سنگین ہے، اس اجتماع میں موجود ہیں۔ لہذا اس اجتماع میں، میں اور آپ ، جولوگ یہاں بیٹھے ہیں، ان سب کو ایسے باشرف اور وفادار عوام کی نسبت اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنا فریضہ بنحو احسن انجام دے۔ یہ سنگین فریضہ آپ بھائیوں اور بہنوں کے کندھوں پر ہے۔
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے صوبے کے تمام حکام، اعلی عہدیداروں سے لیکر، مختلف شعبوں کے تمام عہدیداروں اور کارکنوں کا ان کی خدمات اور زحمات کے لئے، بالخصوص اس وقت، اس سفر میں جو مہربانی کی اور عوام کے ساتھ یکجہتی میں جو زحمتیں اٹھائی ہیں، ان کے لئے شکریہ ادا کروں۔ عوام کا شکریہ ادا کرنے سے ہماری زبان واقعی قاصر ہے۔ کیونکہ عوام نے اس انقلاب کے تمام مراحل میں اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ ہم لوگوں سے آگے ہیں۔ انقلاب کے مختلف میدانوں میں موجود رہنے کے لئے عوام کی تیاری حیرت انگیز ہے۔ اگرچہ صوبہ کرمانشاہ کے عوام کی یقینا بعض بجا اور برحق توقعات اور مطالبات ہیں، جو مختلف وجوہات سے پورے نہیں ہوسکے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں پورے ہوں گے لیکن عوام اپنی زبان سے نہیں کہتے کہ کمیاں ہیں، قلت ہے، مشکل ہے اور جب بھی انقلاب، میدان میں عوام کی موجودگی کا متقاضی ہوتا ہے، وہ بے دریغ میدان میں آتے ہیں، جیسا کہ آپ نے دیکھا۔ البتہ حق اور انصاف یہ ہے کہ صوبے کے مختلف شعبوں کے ذمہ داروں نے خود، شہر کرمانشاہ میں بھی، ان شہروں میں بھی جہاں میں گيا اور ان علاقوں میں بھی جہاں میں خود نہیں جا سکا، لیکن ہمارے احباب اور نمائندہ وفود وہاں گئے، شاہراہیں، سڑکیں اور راستے بنانے میں بہت زحمتیں اٹھائی ہیں۔
مجھے ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے۔ چند دنوں سے میں اس شکایت کے لئے مناسب موقع کے انتظار میں تھا۔ شکایت یہ ہے کہ میں جب کرمانشاہ کی سڑکوں پر گیا تو راستے میں غیر معمولی طور پر، اس حقیر کی بڑی بڑی تصویریں نظر آئیں، افراط اور اسراف کے ساتھ۔ حتی میرے خیال میں، ہم جب پاوہ جا رہے تھے تو شاہراہ پر بھی بعض جگہوں پر تصویر نصب تھی۔ کیوں؟ اتنی تصویریں۔ اس کام میں کئی خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس پر خرچ آتا ہے۔ مجھے اطلاع ہے، میں جانتا ہوں۔ یہ کام بالکل غیر ضروری ہے اور وہ بھی بھاری خرچے کے ساتھ۔ ناقابل توجیہ ہے۔ دوسرے، اس طرح کے کام، تصویریں نصب کرنا، اس طرح تشہیر کرنا، ہماری حالت، اسلامی جمہوری نظام اور ہم جیسے طالب علم کو زیب نہیں دیتا۔ یہ کام دوسروں کے ہیں۔ ہمارے امور سادگی کے ساتھ انجام پانے چاہئیں۔ اس طرح کے ظاہر داری والے کام ہماری شان کے خلاف ہیں۔ تکنیکی نقطۂ نگاہ سے بھی، اس طرح کی چیزوں کو کوئی نہیں دیکھتا ہے۔ اب اگر واقعی کوئی اظہار محبت کرنا چاہتا ہے تو اس طرح کے کاموں کی کوئی تاثیر نہیں ہے بلکہ الٹا اثر ہوتا ہے۔ بہرحال مجھے شکایت تھی لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ کس سے شکایت کروں۔ کون سے ادارے تھے جن کی یہ فکر تھی اور انہوں نے یہ کام اور اقدام کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس شکایت کے لئے بہترین جگہ یہی ہے۔ ان چند دنوں میں دوسری جگہ موقع نہیں ملا۔ بہرحال اس طرح کے کام اچھے نہیں ہیں۔ سبھی احباب، حکام اور رفقائے کار جان لیں کہ یہ طریقۂ کار اور اس طرح کی تشہیرات اسلامی نظام اور انقلاب کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن بہرحال حق اور انصاف یہ ہے کہ ان چند دنوں میں، جن میں ہم کرمانشاہ کے عوام کے مہمان رہے، عوام نے بھی اور حکام نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی اور اعلی درجے کی محبت اور خلوص کا ثبوت دیا۔
آپ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان میں صرف دو تین نکات عرض کروں گا۔ ایک یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں خدمت واقعی باعث افتخار ہے۔ کیونکہ یہ خدمت رضائے خدا کے لئے، عوام کی مدد اور اسلامی نظام کے استحکام کے لئے ہے۔ ہم اور آپ جتنی زیادہ خدمت کریں گے، جتنا زیادہ کام کریں گے، اسلامی جمہوری نظام اتناہی زیادہ مستحکم ہوگا۔ ہم اور آپ اپنے کام کی کیفیت سے اسلامی جمہوری نظام کی عزت بڑھا سکتے ہیں۔ خدا نخواستہ، اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ بنابریں چونکہ ہمارا کام معمولی اور رائج دفتری کام نہیں ہے، بلکہ اسلامی نظام، اسلام کی حقیقی شبیہ اور جس کے ہم دعویدار ہیں اس سے تعلق رکھتا ہے، اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ بنابریں اس نظام میں خدمت باعث افتخار ہے۔ تمام احساسات، سوچ اور تصورات سے بالاتر یہ ہے کہ انسان خدمت کے وقت یہ احساس کرے کہ دین کی خدمت کر رہا ہے، اسلام کی خدمت کر رہا ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کس شعبے میں ہیں۔ جہاں بھی ہوں، یہ احساس کریں کہ اسلام کی خدمت کر رہےہیں۔ اس احساس کے نتیجے میں جو خلوص نیت ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے، وہ ہمارے کام کی اہمیت بڑھا دیتا ہے اور ہمارا اجر خدا کے پاس محفوظ ہو جاتا ہے۔ لہذا اس نظام میں خدمت کی قدر کریں اور اس کو اپنے لئے ایک توفیق اور اپنے اوپر پروردگار عالم کا لطف و کرم سمجھیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس صوبہ میں جیسا کہ حضرات نے اشارہ کیا اور میں نے بھی پہلے دن اشارہ کیا تھا، پیشرفت، ترقی اور عام زندگی اور پبلک کے رفاہ کے نقطۂ نگاہ سے ممتاز سطح تک پہنچنے کی گنجائش اور صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ صوبے کے حکام اور ترقیاتی منصوبے تیار کرنے والے، اس بات سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کابینہ نے بھی اچھے فیصلے کئے ہیں جن کا جناب گورنر صاحب نے اجمال کے ساتھ ذکر کیا۔ میں واقعی اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ہمہ گیر منصوبے ہیں۔ اچھے اور اہم فیصلے ہیں۔ یہ فیصلے صوبے کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ لیکن ایک بنیادی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ مختلف ادارے ان فیصلوں کے تعلق سے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دیں۔ چونکہ یہ فیصلہ ایک منصوبہ ہے، ایک نقشہ راہ ہے، اس لئے، اس پر مو بمو عمل ہونا چاہئے۔ ان فیصلوں کے تعلق سے مختلف شعبوں کو اپنے فرائض پر پوری طرح عمل کرنا چاہئے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ صوبے کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار عہدیداروں کا فریضہ ہے۔ البتہ اس سلسلے میں حکومتی اداروں اور مرکزی شعبوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔
کل رات میں نے، ان حضرات سے جنہوں نے زحمت کی تھی اور تہران سے تشریف لائے تھے، بات کی۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس صوبے کو آگے لیجانے کے لئے جو سرعت مد نظر رکھی گئي ہے، اس میں کمی نہیں آنے دیں گے۔ یہ سرعت باقی رہنی چاہئے تاکہ تمام امور اپنی جگہ پر صحیح طور پر انجام پائیں۔
اس کے لئے بجٹ بھی مد نظر رکھا گيا ہے۔ البتہ کاموں کے لئے بجٹ اور رقم مخصوص کرنے کے مسئلے میں، دو فریق ہوتے ہیں، ایک بجٹ دینے والا، بجٹ مخصوص کرنے والا اور دوسرا بجٹ لینے والا، بجٹ کو دانشمندی کے ساتھ اور منصفانہ طور پر صحیح جگہ پر خرچ کرنے والا۔ یہ بنیادی اور اہم امور ہیں جو صوبے کو آگے لے جا سکتے ہیں۔
یہی روزگار کا مسئلہ جس کی طرف حضرات نے اشارہ کیا اور حکام سے اس کے تعلق سے تاکید کی، واقعی بنیادی مسئلہ ہے۔ جن خاندانوں میں نوجوان ہیں، بہت پڑھے لکھے، پورے صوبے میں، خود شہر کرمانشاہ میں، دوسرے تمام اضلاع میں، سمجھدار نوجوان ہیں اور یہ بے روزگار رہیں! یہ بہت بڑیمشکل ہے۔ ان کے لئے روزگار فراہم ہونا چاہئے۔ یہ بنیادی کام ہے۔ جب روزگار ہو تو اس بے روزگاری سے وجود میں آنے والی برائیاں خود بخود ختم ہو جائيں گی۔ بے روزگاری اپنے ساتھ کچھ برائیاں بھی لاتی ہے۔ اخلاقی برائیاں، سماجی برائیاں، سلامتی سے متعلق برائیاں انواع و اقسام کی برائیاں بے روزگاری لاتی ہے، روزگار فراہم ہو تو یہ سب خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔ حکومت کے کندھوں سے خرچ کا بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ اگر ہم اسی شکل میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا چاہیں جو حکام نے بیان کی ہے تو اس کے لئے کام ضروری ہے۔ تہران کا کام، جو احباب، تہران سے یہاں تشریف لائے ہیں، ان کی ذمہ داری سنگین ہے۔ صوبے میں، اعلی سطح پر اور اس کے بعد مختلف اداروں میں کام کرنا ہوگا۔ بنابریں اگر ہم چاہتے ہیں کہ صوبہ کرمانشاہ میں پیشرفت آئے تو اس کے لئے تمام ذمہ داران کو مل کے اجتماعی طور پر، وسیع سطح پرکام کرنا ہوگا۔
جان لیجئے کہ خداوند عالم آپ کی معمولی سی بھی کوشش پر توجہ رکھتا ہے اور اس پر اجر اور ثواب معین فرماتا ہے اور لکھتا ہے۔ یہ کام خداوندعالم کی نظر میں ہیں۔ آپ کسی شعبے میں ذمہ دار عہدے پر ہیں، کسی ادارے کا کوئي کام آپ کے ذمے ہے، آپ کام میں دلچسپی لیتے ہیں، خلوص سے کام کرتے ہیں، آدھا گھنٹہ زیادہ رکتے ہیں، زیادہ دقت نظری سے کام لیتے ہیں، اپنے کام کے لئے آنے والوں سے اخلاق سے پیش آتے ہیں، زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کوئی آپ کا شکریہ ادا نہیں کرتا، یعنی کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ آپ نے یہ زحمت کی ہے، آپ کے افسر کو بھی معلوم نہیں ہوتا، آپ کے ساتھی بھی متوجہ نہیں ہوتے، بغیر اس کے کہ کوئی سمجھے یا آپ کا شکریہ ادا کرے، آپ محنت کرتے ہیں، لوگوں کو نہ معلوم ہو سکا، لیکن اللہ جانتا ہے۔ ذمہ دار اور نگراں اداروں میں آپ کا کام کہیں لکھا نہیں گيا لیکن کرام الکاتبین نے لکھ لیا۔ خدا کے مامور کردہ فرشتے اس کو لکھ لیتے ہیں۔ بنابریں آپ کی ایک لمحے کی بھی محنت اور کوشش رائگاں نہیں جائے گی۔ خدا کا اجر اس دنیاوی اجر سے بہت بالاتر ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کر دیا جائے یا فرض کریں کہ کسی کام کے بدلے میں ہمارے لئے اوور ٹائم یا معمول سے ہٹ کے کوئی انعام و اکرام مد نظ رکھا جائے، ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اجر الہی اہم ہے۔ خدا قبول فرمائے یہ اہم ہے۔ آپ کا کوئی بھی کام اور کوئی بھی کوشش جو خدا کے لئے انجام پائے ایسی نہیں ہے کہ خدا کے نزدیک قبول نہ ہو۔ خدا کا لطف و کرم، خدا کا اجر، خدا کی طرف سے جزا، فورا ملتی ہے، چاہے دوسرے نہ سمجھیں۔ اس طرز فکر کے ساتھ کام اور کوشش کریں۔
یہ بھی عرض کر دوں کہ آج تمام دشمنیوں، ( دشمنوں کی ) تمام خباثتوں، تمام تشہیراتی، سیاسی اقتصادی اور عسکری یلغاروں کے باوجود جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف وہ انجام دے رہے ہیں اور در حقیقت یہ دشمنی اسلام سے ہے اور وہ اسلام سے انتقام لینا چاہتے ہیں، ہم خدا کی توفیق سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ بھی رائج سرعت اور توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ۔ ہم بہت اچھی پیشرفت کر رہے ہیں۔ اس کی کوئی اور دلیل نہ ہو تو بھی یہ دلیل کافی ہے کہ دشمن کی نگاہیں اور توجہ ہم پر ہے اور وہ ردعمل دکھاتا ہے۔ یہی کام جو آپ دیکھتے ہیں، ان کے پروپیگنڈوں میں، اقتصادی دباؤ اور دنیا میں وہ طرح طرح کی جو بہانے بازیاں کرتے ہیں، جب سامراج جو مادی لحاظ سے ہمارا قوی دشمن ہے اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے تو یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کامیاب ہو رہے ہیں۔ ورنہ اگرآپ غیر موثر ہوتے، آپ کی کوئی اہمیت نہ ہوتی، پسماندہ ہوتے، پشرفت نہ کرتے، تو دشمن اس طرح ہم سے زور آزمائی نہ کرتا۔ دشمن دیکھ رہا ہے کہ آپ آگے بڑھ رہے ہیں۔
خوش قسمتی سے آج علاقے کی سطح پر اسلام، اسلامی تعلیمات، اسلامی احکام اور شریعت اسلام کی پیروی کی بات زیادہ ہو رہی ہے، کچھ ملکوں میں انقلاب آیا، تحریک چلی اور لوگوں نے نعرہ دیا، دوسرے ملکوں میں اگرچہ یہ مظاہر نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن لوگوں کے دل میں وہی جذبات موجود ہیں۔ اس کی علامتیں نظر آ رہی ہیں۔ یہ وہی آپ کی بات ہے۔ یہ وہی آپ کی تحریک ہے۔ اسلامی جمہوریہ اور ہمارا باشرف ملک اس وقت نمونہ عمل اور مثال بنا ہوا ہے۔ دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں، جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے گفتگو میں عرض کیا، جو کچھ ہمارے ملک میں ہوتا ہے، ان سب پر آج اقوام کی توجہ ہے اور وہ ان سے نتیجہ اخذ کرتی ہیں۔ دشمن کی کوشش یہ ہےکہ یہ جو نتیجہ حاصل کیا جا رہا ہے، اس کو خراب کر دے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ نتیجہ خوبصورت، ہماہنگ اور منظم شکل میں دنیا کے سامنے آئے۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ الحمد للہ اس صوبے میں دینداری پر توجہ بہت زیادہ ہے۔ اس صوبے کے نوجوان بہت اچھے ہیں۔ ان کے والدین بھی بہت اچھے والدین ہیں۔ صوبے کی فضا انسانی اور اسلامی محبت و مہربانی سے مملو ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ان شاء اللہ مختلف ادارے کوشش کریں کہ عوام کے درمیان، عوامی فضا میں اس دینی پہلو کی تقویت ہو۔
ایک بات جس پر ہر حال میں توجہ دینی چاہئے اور قابل احترام حکام اس پر توجہ دیں، مساجد کا اہتمام ہے۔ صوبے کی سطح پر مساجد کی قلت بہت ہے۔ دیہی بستیوں میں بھی اور شہروں میں بھی یہ کمی دور کی جائے۔ ایسے مراکز ہیں جہاں سے لوگوں کو روحانی اور دینی تقویت ملتی ہے۔ یہی جناب احمد بن اسحاق کا مزار جو مرجع خلائق ہے، اس مزار پر روز بروز توجہ زیادہ ہونی چاہئے۔ یہ عظیم ہستی، حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے بعد کے آئمہ (علیہم السلام) کے بزرگ صحابیوں میں سے ہے۔ آپ کا شمار آئمہ علیہم السلام کے قابل قدر اصحاب اور راویوں میں ہوتا ہے۔ یہ اس سرزمین اور اس علاقے کی قسمت ہے کہ آپ کا مدفن یہاں ہے۔ آپ کا مزار سر پل ذہاب میں ہے۔ اس مزار پر توجہ، وہاں آمد و رفت خود دینداری کا ایک مرکز وجود میں لائے گی۔ مساجد پر توجہ دی جائے۔ اس مزار شریف پر توجہ دی جائے۔ اس صوبے میں دیگر جگہوں پر موجود مزاروں پر توجہ دی جائے۔ جہاں تک ممکن ہو نوجوانوں کے لئے دینی معرفت کے مراکز کی تقویت کی جائے۔ یہ ستون ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو ان شاء اللہ، اس نظام کی پیشرفت میں تیزی لائے گی۔
خدا وند عالم سے ہماری دعا ہے کہ اپنی رحمت، فضل اور برکات اس صوبے اور یہاں کےعوام پر نازل فرمائے۔
پالنے والے' تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ یہاں کے عوام پر اپنا فضل و کرم نازل فرما۔ پالنے والے' اپنی رحمت اور فضل و کرم، اس سرزمین کے نوجوانوں کے شامل حال فرما۔
پالنے والے' یہاں کے عوام کی مادی و دینی توفیقات میں روز بروز اضافہ فرما۔ اس سرزمین کے شہدا کی ارواح طیبہ کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔
 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ