قائد انقلاب اسلامی نے مغربی صوبے کرمان شاہ کے دورے کے آٹھویں دن بدھ 27 مہر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 19 ستمبر سنہ 2011 عیسوی کو کنگاور علاقے کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ تین عشروں کے دوان ملت ایران کی زبردست پیشرفت کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ شیطانی طاقتوں کو معلوم ہے کہ علاقے کی بیدار ہو چکی قوموں کی نگاہیں ملت ایران پر مرکوز ہیں اسی لئے یہ طاقتیں اپنے تمام وسائل اور چالوں کے ذریعے یہ کوشش کر رہی ہیں کہ ایران اور ایرانی عظیم اسلامی بیداری کے لئے نمونہ عمل نہ بننے پائے اور ملت ایران کی استقامت کی حکمت عملی دیگر قوموں میں نہ رائج ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق دشمن، اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقیوں کو معمولی ظاہر کرکے اور خامیوں کے سلسلے میں مبالغہ آرائی کرکے ایران کی شبیہ خراب کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ نے شاہی دور کی ایران کی پالیسی اور امریکہ و برطانیہ کے احکامات کی ایران میں بے چوں و چرا پابندی کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ دشمن اس پر آگ بگولہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے زیر سایہ ایران ان کے مطیع و فرمانبردار مرکز سے ایسے ملک اور قوم میں تبدیل ہو گیا جو تسلط پسند طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے اور اپنے عز و وقار کی حفاظت کرتے ہوئے توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الّرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ صوبہ کرمانشاہ کے اس علاقے میں آپ جیسے مومن اور جوش و جذبے سے سرشار کنگاور کے وفادار عوام کے اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا ہوئی۔ میں اسی طرح، صحنہ، سنقر اور ہرسین سے اس اجتماع میں آنے والے بھائیوں اور بہنوں اور اپنے نوجوان بیٹے بیٹیوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور خدا سے آپ کے لئے توفیقات میں اضافے کی دعا کرتا ہوں۔
صوبہ کرمانشاہ کا یہ علاقہ، صوبے کے دیگر علاقوں کی بعض خصوصیات رکھتا ہے جو اس علاقے کے عوام سے متعلق ہیں۔ وفاداری، مہربانی، بہادری، ایمان، اخلاص اور دینداری و پاکیزگی، پورے صوبے میں عام ہے لیکن اس صوبے کے بعض علاقوں کی اپنی مخصوص خصوصیات بھی ہیں۔ آپ کا شہر کربلائے معلی اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے جانے زائرین کے میزبان کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ کنگاور صدیوں سے عاشقان حسینی کی منزل (پڑاؤ) رہا ہے۔ دین دینداری اور علما سے لگاؤ، اس علاقے کی دیگر خصوصیات میں شامل ہیں اور اس صوبے کے جید علما کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ اس صوبے کے معروف صاحب عرفان و سلوک اور تقوا میں مشہور عالم دین، الحاج آقائے بزرگ محمدی عراقی اسی شہر میں رہتے تھے اور اس شہر کے عوام اس عظیم دینی ہستی کے فیوضات و برکات سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوئے ہیں۔ آپ کے شہید فرزند ارجمند آقائے الحاج آقا بہاء الدین محمدی عراقی بھی، جن سے میں طالب علمی کے زمانے سے واقف تھا اور ان سے مجھے خاص انس تھا، اسی شہر میں پلے بڑھے تھے۔ وہ بھی عالم دین تھے جو شہید ہوئے۔
آپ کا شہر اگرچہ، جنگ کے محاذی علاقے میں نہیں تھا لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کے جہاد و دلاوری کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران، محاذ کو سب سے زيادہ کمک صوبہ کرمانشاہ کے اس علاقے اور اس شہر کے نوجوانوں نے پہنـچائی۔ اسی بناء پر اس علاقے کے شہداء کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس شہر سے محاذوں کی انواع و اقسام کی سپورٹ سے دلاوران جنگ اور محاذوں سے آشنا سپاہی اچھی طرح واقف اور باخبر ہیں۔ اس شہر کے عوام پر خدا کی برکات نازل ہوں جو انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ کے دوران، اس سے پہلے کے دور میں اور گزشتہ دو عشروں کے دوران ہمیشہ امتحان میں سرافراز رہے ہیں۔ یہ اس علاقے کی خصوصیات ہیں۔ یہ اس شہر کی اخلاقی، معنوی اور روحانی خصوصیات ہیں اور یہاں کے عوام کے ماضی کو ان کے مستقبل کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ بنابریں مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ شہر کنگاور اور کرمانشاہ کے اس علاقے کا مستقبل توفیق الہی سے بہت اچھا اور درخشاں ہوگا۔
کمیاں ہیں، روزگار کا مسئلہ جس کی طرف محترم امام جمعہ نے اشارہ فرمایا، بالکل صحیح ہے۔ یہ بات اسی شہر سے مخصوص نہیں ہے، پورے صوبے میں یہ مسئلہ ہے۔ روزگار اس صوبے کا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ حکام کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور ان شاء اللہ اس کے بعد زیادہ تاکید کے ساتھ اس کو پیش کیا جائےگا تاکہ اس مشکل کو دور کر نے کا صحیح راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن عوام کی یہ صلاحیت، یہ جوش و جذبہ، کام کے لئے یہ آمادگی، یہ شوق و ذوق، یہ انقلاب کی وفاداری وہ خصوصیات ہیں جو نوید بخش ہیں۔ ملک، انقلاب اور نظام انہی خصوصیات کی بناء پر دشوار مراحل کو طے کرکے آگے بڑھ سکا ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو' آج ملک ماضی کے ادوار سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ ہم ایسی قوم تھے، جو تمام شعبوں میں جمود اور پسماندگی کا شکار اور الگ تھلگ تھی۔ انقلاب نے ملک کو زندہ کیا، قوم کو زندہ کیا، اس ملک میں ایجادات اور نئی چیزیں پیش کرنے کا جذبہ بیدار کیا اور اس قوم کو عزت عطا کی۔ ہم نے کافی راستہ طے کیا ہے۔ کافی پیشرفت ہوئی ہے اور اس راستے پر ہم گامزن ہیں، ہم بیچ میں نہیں رکیں گے۔
ایک اہم نکتہ ہے جس کی طرف سورہ فتح کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انّ الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاھد علیہ اللہ فسیوتیہ اجرا عظیما(1) جب کسی قوم نے کسی راستے پر قدم رکھا تو نتائج حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر استقامت، اس پر آگے بڑھنے، بیچ راستے میں نہ رکنے اور بیچ راستے میں حاصل ہونے والے فوائد پر قناعت نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نے یہ سوچ لیا کہ جو پیشرفت ہم نے کی ہے وہی آخری نتیجہ ہے اور ہمیں یہیں رک جانا چاہئے تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ دوسری غلطی یہ ہوگی کہ ہم یہ سوچیں کہ چونکہ اب تک اس مدت میں ہمارے اصل اہداف پورے نہیں ہوئے تو اب امید کا دامن چھوڑ دیں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ اہداف پورے ہونے والے نہیں ہیں۔ خداوند عالم اور اسلام ہمیں جو راستہ دکھاتا ہے یہ ہے کہ فلذالک فادع واستقم کما امرت ولا تتبع اھوائھم (2) جس راستے کو پہچان لیا ہے اس پر پوری توجہ کے ساتھ آگے بڑھو، محکم اور استوار قدم اٹھاؤ اور استقامت سے کام لو۔ اگر ہم نے استقامت سے کام لیا تو اعلی اسلامی اہداف تک پہنچیں گے۔ وہی اسلامی معاشرہ جس کی میں نے آج سے چند روز پہلے کرمانشاہ میں تصویر کھینچی تھی اور تشریح کی تھی۔ وہ عدل، وہ حقیقی عوامی حکومت، وہ انسانی عظمت، وہ اسلامی آزادی، ہماری پیشرفت کے ساتھ، ہمارے قدموں کی استواری سے، ہمارے نہ تھکنے سے، ہمارے دلوں میں نور امید کے باقی رہنے سے، خدا کی توفیق سے انہیں نوجوانوں ک ہاتھوں وجود میں آئے گی۔
ہمارے ملک کی نوجوان نسل ایک امید بخش نسل ہے۔ جس طرف بھی نگاہ کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کے نوجوان، تعلیم یافتہ، معلومات رکھنے والے اور مثبت انقلابی خصوصیات کے مالک ہیں جو آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اعلی ترین افق نظروں میں رکھ کے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بات آج ملک کے نوجوانوں میں دیکھی جا سکتی ہے اور میں نے اس علاقے کے نوجوانوں میں یہ بات واضح طور پر دیکھی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیں آگے بڑھاتی ہے اور امید عطا کرتی ہے اور یہ بات اس کے بالکل برعکس ہے جو ہمارے دشمن چاہتے ہیں۔
ایرانی قوم کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں سے اس مستحکم صف میں اور اس مسلسل پیشرفت میں خلل پیدا کر دیں۔ کبھی تاریک پہلو بیان کرکے اور کبھی ایرانی قوم کی کامیابیوں کی پردہ پوشی کرکے، آغاز انقلاب سے آج تک ان کی کوشش یہ ہے کہ یہ کہیں کہ انقلاب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکا۔ جس چیز سے انہیں جلن ہوتی ہے یہ ہے کہ اس انقلاب سے ایرانی قوم کو خود اعتمادی ملی اور اس روشن ایمان کے ذریعے جو انقلاب نے ہمیں دیا ہے، یہ قوم مادی اور معنوی دشمنوں کے مقابلے میں سینہ تان کے کھڑی ہوئی اور استقامت و پائیداری سے کام لے رہی ہے۔
ہمارا ملک دشمنوں کے قدموں میں تھا۔ تہران خبیث صیہونی ایجنٹوں کے لئے پرسکون اور پر امن جگہ تھی، وہ یہاں آتے تھے، ایرانی قوم کی جیب سے کھاتے پیتے تھے اور آرام کرتے تھے جو انہیں مقبوضہ علاقوں میں نصیب نہیں تھا۔ ہمارا ملک ایسی جگہ تھی جس میں طرز زندگی کا تعین امریکا، برطانیہ اور دیگر سامراجی اور استعماری ممالک کی پالیسیاں کرتی تھیں۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت اور اقتدار تھا نہ ان کے اندر توانائی تھی نہ ارادہ تھا اور نہ غیرت تھی کہ اس طرح اس قوم کے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہوتے اور نہ ہی انہیں عوام کی پشتپناہی حاصل تھی کہ بیرونی مداخلت کرنے والوں اور سامراجی طاقتوں کی مخالفت کرتے۔ ایران پر جن کی پالیسیوں کی حکمرانی تھی، وہ آج دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم پوری خود مختاری کے ساتھ ان کے عزائم کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا کی بہت سی پالیسیاں بالخصوص مشرق وسطی کے بارے میں اس کی پالیسیاں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت کی وجہ سے ناکام اور بے نتیجہ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس پر برہم ہوں گے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ ایران کی غلط تصویر پیش کریں۔ انہوں نے ایران کے خلاف جو راستے اختیار کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے۔ خاص طور پر آج جب علاقے کی اقوام میں بیداری آئی ہے۔ علاقے کی اقوام کی ہوشیاری اور اسلامی بیداری نے ان کے سامنے ایرانی قوم اور ایران کے اسلامی انقلاب کو لاکھڑا کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کو نمونہ عمل نہ بنایا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران، ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران ان اقوام کے لئے نمونہ عمل نہ بنے۔ اس لئے اس کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں بالخصوص ان اقوام کی نگاہ میں ایران کی پیشرفت کم کرکے اور کمزوریاں بڑھا کے پیش کرتے ہیں۔
سب خیال رکھیں۔ ملک میں جو اہل قلم ہیں، اخبارات و جرائد والے ہیں، جن کے پاس میڈیا ہے، جن کے پاس پلیٹ فارم ہے، وہ سب خیال رکھیں کہ دشمنوں کی اس سازش میں اس کے مددگار نہ بن جائیں۔ بعض لوگ دانستہ اور بعض لوگ ندانستہ، اپنے خیالات کے اظہار سے اور اپنی باتوں سے دشمن کی خواہشات کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ سب دھیان رکھیں۔ دشمن آج علاقے کی اقوام کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی ناپسندیدہ تصویر پیش کرنا چاہتا ہے، تا کہ اس راستے پر نہ چلیں اور سامراج کے مقابلے میں استقامت جو ایرانی قوم کی خصوصیت ہے، ان قوموں کے درمیان رائج نہ ہو۔ لہذا ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔
ملک کے حکام جہاں بھی ہیں، مختلف سطح پر ان کی کوشش یہ ہو کہ کمیاں دور کریں، لوگوں کے راستے سے مشکلات برطرف کریں، ملک کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حتی الوسع، عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں، سعی و کوشش اور محنت جاری رکھیں۔ یہ ملک کے حکام کا فریضہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس اظہار خیال کے لئے پلیٹ فارم ہیں، جن کے پاس ذرائع ابلاغ عامہ ہے، جن کی آواز معاشرے میں سنی جاتی ہے، وہ کوشش کریں کہ اس قوم کے نمایاں اور قومی پہلوؤں کو، دشمن کی خواہش کے مطابق چھوٹا بنا کے نہ پیش کریں۔ اہمیت کم نہ کریں۔ ایرانی قوم کی یہ ہوشیاری ہمیشہ باقی رہنی چاہئے۔
ہم نے بہت مشکل راستے پر آگے بڑھنا شروع کیا اور خدا کی عطا کردہ توفیق سے اس کے زیادہ سخت حصوں کو عبور کر لیا ہے۔ مسلط کردہ جنگ بہت دشوار مرحلہ تھا، برسوں سے مسلسل لگنے والی پابندیاں، دشوار مراحل میں سے تھیں۔ ایرانی قوم ان تمام دشوار مراحل سے مقتدرانہ اور قابل فخر انداز میں گزری ہے اور اس کے بعد بھی تمام خطرناک پیچ و خم کو استقامت، پامردی اور کامیابی کے ساتھ عبور کرے گی۔ اس کے لئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور خوش قسمتی سے یہ یکجہتی آج پائی جاتی ہے۔ البتہ اس میں روز افزوں اضافہ ہونا چاہئے۔ لوگوں میں، عوام کے تمام طبقات میں مختلف حصوں میں، آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ہی عوام اور حکام کے درمیان محبت و الفت بھی الحمد للہ آج موجود ہے۔
یہ منظرجو آج آپ یہاں دیکھ رہے ہیں، کرمانشاہ دیگر اضلاع میں بھی یہی منظر، یہی اظہار محبت اور یہی اجتماع دیکھا جا چکا ہے اور پورے ملک میں ایسا ہی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی یہ چیز نہیں ہے۔ یہ وحدت، یہ الفت، یہ حسن ظن، یہ محبت جو عوام اور اسلامی جمہوریہ کے حکام کے درمیان ہے، یہ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے مختص ہے۔
پالنے والے' تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، یہاں کے عوام پر اپنی رحمت و برکات نازل فرما۔
پالنے والے' محمد و آل محمد کا واسطہ، ایرانی قوم کی تمام چھوٹی بڑی مشکلات، خود عوام اور حکام کے ذریعے برطرف کر۔
پالنے والے' تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ملت ایران کے دشمنوں کو سرنگوں اور مایوس کر دے۔
پالنے والے' ہمارے باشرف شہدا کی ارواح مطہر کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔
پالنے والے' امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما اور آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کر۔
آپ، کرمانشاہ کے مشرقی علاقےکنگاور کے لوگوں سے مل کے بہت خوش ہوا،
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- فتح: 10
2- 2- شوری: 15