قائد انقلاب اسلامی نے اتوار کو ملک بھر کے نمونہ محنت کشوں اور دواؤں کی تقسیم کار کمپنی دارو پخش کی صنعتی یونٹوں کے ملازمین سے ملاقات میں محنت کشوں اور ملت ایران کو ہفتہ محنت کشاں کی مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ کام اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ جس میں جسمانی، فکری، علمی اور انتظامی کام سبھی شامل ہیں کسی بھی معاشرے کی زندگی اور دائمی حرکت و پیشرفت کا محور ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامی حکومتوں کے ہاتھوں محنت کش طبقے کے استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان مکاتب فکر کے برخلاف دین اسلام محنت کش طبقے کے ساتھ انتہائی صداقت سے پیش آیا اور اس نے عقل و منطق کی روشنی میں کام کو انتہائی باارزش قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے کام اور محنت کش طبقے کے تعلق سے انجام پانے والی منصوبہ بندی اور اقدامات میں اسلامی اصول و منطق کو زیادہ سے زیادہ نمایاں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے سرمائے اور افرادی قوت کو حرکت و پیشرفت کے لئے قومی پیداوار کے دو طاقتور بازو قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی کام اور ایرانی سرمائے کا احترام کیا جانا چاہئے تاکہ حقیقی معنی میں قومی پیداوار کی زمین ہموار ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی اقتصادی سازشوں پر غلبے کے لئے سرکاری اور نجی سیکٹر کے ملازمین، سرمایہ داروں اور عہدیداروں کی بلند ہمتی کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ عوام الناس بھی داخلی مصنوعات کے استعمال کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے قومی پیداوار کے مسئلے پر حکومت کی خاص توجہ کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سلسلے میں بنیادی کام ہونا چاہئے اور ایران کی معیشت کا استحکام اور ثبات مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کی مربوط مساعی کا متقاضی ہے۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللّه فى الأرضين.

میں یوم محنت کشاں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں صرف اس طبقے نہیں بلکہ پوری ملت ایران کو۔ اگر کسی معاشرے میں محنت کش طبقے کے بازوؤں، محنت کش طبقے کے دماغوں، تخلیقی امور انجام دینے والے انسانوں اور ماہر افرادی قوت کا اکرام و احترام کیا جاتا ہے تو وہ معاشرہ یقینا پیشرفت کرے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر ایک محنت کش کے ہاتھوں کو اپنے دست مبارک میں لیکر چومتے ہیں تو یہ صرف اس شخص کی تعظیم نہیں بلکہ یہ ایک درس ہے، قدردانی کی ایک روش کی ترویج ہے، ہمیں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ محنت کش، پیداواری کاموں میں مصرف انسان اور ماہر افرادی قوت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ پیغمبر کا وجود اقدس کہ جس کے طفیل میں جملہ خلائق کو لباس ہستی پنہایا گیا ہے، اس کی تعظیم کے لئے جھک جاتا ہے اور اس کے ہاتھ چومتا ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک درس ہے۔ لفظ کام کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں ہاتھوں سے انجام پانے والے کام، جسمانی محنت والے کام، فکری طاقت فرسائی والے کام، انتظامی امور سب شامل ہیں اور اس بناپر کام کسی بھی معاشرے کے سلسلہ حیات، حرکت اور پیشرفت کا محوری عنصر ہے۔ یہ بات ہم سب کے ذہن میں رہنی چاہئے۔ اگر کام اور محنت نہ ہو تو سرمایہ، مواد، انرجی، اطلاعات کچھ بھی انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ کام در حقیقت سرمائے، انرجی اور خام مال میں روح کی مانند حرکت پیدا کر دیتا ہے اور اسے قابل استعمال شکل میں لاتا ہے تا کہ انسان اس سے استفادہ کر سکیں۔ کام کی اہمیت کا یہ عالم ہے۔
اسلامی جمہوریہ میں محنت کش طبقے کے سلسلے میں کسی دکھاوے کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک گروہ نے ایک زمانے میں نام نہاد مزدور حکومت تشکیل دی تھی۔ کئی عشروں تک دنیا کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھا تھا لیکن محنت کش طبقے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ سوشیلسٹ اور کمیونسٹ ممالک کے عہدیداروں نے اپنے معاشروں کے وسائل سے خوب فائدہ اٹھایا، فرمانروائی کی، طاقت کی نمائش کی، دنیا کے دیگر آمروں اور طاغوتی طاقتوں کی مانند اپنی زندگی میں خوب منمانیاں کیں، محنت کش طبقے کے نام پر! انہوں نے سراسر جھوٹ بولا، دکھاوا کیا۔ مغربی ممالک میں مزدور بیمہ، محنت کش طبقے کی حمایت اور نہ جانے کیا کیا چیزیں شروع کی گئی ہیں۔ تاہم اصلی مقصد یہ ہے کہ محنت کش طبقہ عرق ریزی کرے تا کہ معاشرے کی ایک فیصدی پر مشتمل متمول طبقہ پر تعیش زندگی بسر کرے، منمانیاں۔ یہ لوگ محنت کش طبقے کے سلسلے میں سچے اور دیانتدار نہیں ہیں۔ دین اسلام محنت کش طبقے کے سلسلے میں سچا ہے اور منطقی روش پیش کرتا ہے۔ کام کا شمار اقدار میں کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ : العلم یھتف بالعمل فان اجاب و الّا ارتحل (1) یعنی علم بھی محنت اور عمل پر منحصر ہے۔ اس روایت میں جو ایک نمونہ اور معیار پیش کر رہی ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ علم، محنت اور عمل کو آواز دیتا ہے۔ اگر عمل نے جواب دیا تو علم باقی رہتا ہے، نشونما کی منزلیں طے کرتا ہے اور اگر عمل نے اس کی آواز پر لبیک نہ کہا تو علم وہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔ آپ غور کیجئے! کتنا خوب صورت کلام ہے۔ کہا گيا ہے کہ علم کی پیدائش، علم کی پائیداری اور علم کی پیشرفت کا انحصار عمل اور کام پر ہے۔ یہ مدلل نظریہ ہے، یہ فکری بنیاد ہے۔ اسلام کی روش یہ ہے۔ اسلام محنت کش طبقے سے پوری سچائی و صداقت کے ساتھ پیش آیا ہے۔ البتہ ان تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، ان بنیادوں کو عملی میدان میں اتارنے کی ضرورت ہے، منصوبہ بندی کے وقت انہیں نمایاں رکھنے کی ضرورت ہے۔ بیشک اس سمت میں بہت کام ہوئے ہیں، اچھی کوششیں انجام دی گئی ہیں تاہم ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی بنیاد پر ہم نے اس سال کو ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت کے سال سے موسوم کیا۔ ایرانی کام اور ایرانی سرمایہ۔ سرمایہ بھی کام اور محنت کشی جتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر سرمایہ نہ ہو تو کام انجام ہی نہیں پا سکتا۔ یہ دو پر ہیں جن کی مدد سے قومی پیداوار میں حرکت میں آنے اور پرواز کرنے کے لائق ہوتی ہے۔ بنابریں ایرانی سرمائے کا بھی خاص احترام ہے اور ایرانی کام کی بھی منفرد اہمیت ہے۔ کام اور سرمائے کا مشترکہ نتیجہ ہے قومی پیداوار۔ اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر سال ہفتہ محنت کشاں کی مناسبت سے اس طبقے کے افراد حسینیہ (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) میں ایک اجتماع کا اہتمام کرتے تھے۔ ہماری ملاقات ہوتی تھی اور حقیر اپنے معروضات پیش کرتا تھا لیکن اس سال میں خود محنت کشوں کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ ہم نے دواؤں کی قومی تقسیم کار کمپنی دارو پخش کا ایک علامتی مرکز کی حیثیت سے انتخاب کیا۔ اس کمپنی میں کام کرنے والے اور دیگر کمپنیوں سے یہاں تشریف لانے والے آپ محنت کش حضرات یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایرانی کام اور محنت کش کے احترام و تعظیم اور قدردانی کے لئے میں نے پروگرام میں یہ تبدیلی کی ہے۔ جب تک ہم ایرانی محنت کش اور ایرانی سرمائے کا احترام نہیں کریں گے اس وقت تک قومی پیداوار کو فروغ نہیں ملے گا اور اگر قومی پیداوار کو فروغ نہ ملا تو ملک کی اقتصادی خود انحصاری باقی نہیں رہے گی اور اگر کوئی معاشرہ اقتصادی خود انحصاری کی نعمت سے محروم ہو جائے یعنی اقتصادی شعبے میں وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ سکے اور آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس معاشرے کی سیاسی خود مختاری بھی عملی شکل نہیں پا سکتی اور جس معاشرے کے پاس سیاسی خود مختاری نہ ہو اس کی تمام باتیں صرف الفاظ کی حد تک محدود ہوں گی۔ زمینی حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جب تک ملک اپنی معیشت کو مضبوط نہیں بناتا، پائیدار نہیں بناتا، خود انحصاری کی منزل تک نہیں پہنچاتا اس وقت تک سیاسی و ثقافتی اور دیگر میدانوں میں موثر واقع نہیں ہو سکتا۔
ہمارے ملک کو مستحکم اور پائیدار معیشت کی ضرورت ہے۔ میں تین چار سال سے بڑے اور اہم اجتماعات میں اپنی تقریروں میں عزیز عوام کو، نوجوانوں کو اور حکام کو متوجہ کرتا آ رہا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کا رخ ہماری معیشت کی جانب مڑ گیا ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں؟ اس بڑی سازش کے آثار جس کی دشمنوں نے منصوبہ بندی کی تھی، ایک ایک کرکے ظاہر ہو رہے ہیں۔ البتہ عزیز ملت ایران اسی قوت ارادی کے ذریعے جس سے اب تک دیگر رکاوٹوں کو دور کرتی آئی ہے انشاء اللہ اس مشکل کو بھی راستے سے ہٹا دے گی۔ محنت کش طبقے کو چاہئے کہ اس کا عزم کرے، سرمایہ کار کو چاہئے کہ کمر ہمت کسے، حکومتی عہدیداروں کو چاہئے کہ حوصلہ دکھائیں، نجی شعبے کو چاہئے کہ آگے آئے۔ عوام الناس کو بھی چاہئے کہ داخلی مصنوعات کے استعمال اور قومی پیداوار کے سلسلے میں اپنے عزم راسخ کا مظاہرہ کریں۔ اساسی کاموں کی انجام دہی کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے یہ کام شروع کر دئے گئے ہیں۔ حکومتی عہدیداروں نے جو اطلاعات فراہم کی ہیں ان کے مطابق ابتدائے سال سے ان کی نشستوں، ان کی منصوبہ بندی، ان کے مشاورتی اجلاسوں میں اس نکتے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ میں بھی اس پر تاکید کرتا ہوں۔ موانع کو دور کیجئے تا کہ قومی پیداوار کو فروغ حاصل ہو، معیشت کو استحکام اور پائیداری ملے۔ اس کے لئے سب کوشش کریں، سب سے زیادہ سنجیدگی سے حکام کو محنت کرنی ہے۔ خواہ ان کا تعلق مجریہ سے ہو، مقننہ سے ہو یا عدلیہ سے۔ کبھی ممکن ہے کہ کام کی انجام دہی میں عدلیہ کو بھی دخیل ہونا پڑے۔ ملک کی معیشت میں صحتمند اور معیاری پیداوار، کام اور سرمایہ کاری کے لئے ضروری ہے کہ تمام شعبے ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ مختلف پہلوؤں سے گوناگوں کام انجام پانے چاہئے۔ کام کے مراکز میں مہارتوں کی تقویت، درست انتظامی نقطہ نگاہ، افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافہ، احساس تحفظ، محنت کش طبقے کے لئے بھی اور سرمایہ دار طبقے کے لئے بھی۔ یعنی پروگرام، قوانین اور ضوابط ایسے ہوں کہ ہر محنت کش کو احساس تحفظ رہے اور وہ نشاط خاطر کے ساتھ کام کرے۔ سرمایہ دار کو بھی فکری آسودگی میسر ہونی چاہئے۔ اقتصادی خلل اندازیوں کا سد باب ہونا چاہئے۔ اقتصادی خلل اندازی کی ایک مثال اسمگلنگ کی ہے۔ اقتصادی خلل اندازی کی ایک اور مثال قومی سرمائے اور بینکوں میں موجود عوام کے اثاثے کا مختلف صورتوں میں ہونے والا غلط استعمال ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو مختلف اہداف کا ذکر کرکے بینک سے لون لیتے ہیں لیکن اسے خرچ دوسرے کاموں میں کرتے ہیں۔ یہ خیانت ہے، یہ چوری ہے۔ کبھی چوری کسی کی جیب سے کچھ نکال لینے کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی قوم کی جیب سے سرمایہ نکال لینے کی صورت میں انجام پاتی ہے۔ آخر الذکر زیادہ سنگین جرم ہے۔ ان بے ضابطگیوں کا سد باب ہونا چاہئے۔
میں نے مالیاتی بد عنوانی کے بارے میں جو مکتوب عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں کو ارسال کیا تھا اور اس مسئلے پر خصوصی تاکید کی تھی اس سے چند سال قبل کی بات ہے کہ بہت سے افراد اس انتباہ کی بابت تشویش میں پڑ گئے تھے اور کہنے لگے کہ ان انتباہات سے سرمایہ کار خوفزدہ ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ پیچھے ہٹ جائے۔ میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ جو سرمایہ کار ملک میں صحیح اور قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جب دیکھے گا کہ اقتصادی بد عنوانی اور مالیاتی دھاندلیوں کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں تو اسے اطمینان حاصل ہوگا۔ ہمیں یہ کارروائی قانونی سطح پر صحیح طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں رقابت اور کمپٹیشن کا ماحول پیدا کرنا چاہئے۔ ہم قومی پیداوار کی بات کرتے ہیں۔ البتہ اس وقت داخلی مصنوعات کے فروغ کے سلسلے میں قابل لحاظ اقدامات کئے گئے ہیں۔ عوام الناس کو ان اقدامات کے تعلق سے جو اطلاعات ملتی ہیں وہ در حقیقت ان اقدامات کی اصلی مقدار سے بہت کم ہیں۔ اس کمپنی میں جو نمایاں کام انجام پایا ہے اور جس کے آج ہم شاہد ہیں یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی داغ بیل رکھنا، اس کی تعمیر مکمل کرنا اور اس میں باقاعدہ کام کا آغاز، سب کچھ مقامی افرادی قوت کے سہارے، وہ بھی انتہائی قلیل مدت میں، اس کی ڈیزائننگ مقامی ماہرین کے ہاتھوں، اس کی تعمیر مقامی ماہرین کے ہاتھوں، اس کے وسائل و آلات کی تیاری مقامی ماہرین کے ہاتھوں! قومی پیداوار اور داخلی مصنوعات کے فروغ کے سلسلے میں ایک کلیدی نکتہ مصنوعات کے معیاری ہونے کا ہے۔ محنت کش طبقے کو اور انتظامی عہدیداروں کو اس نکتے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قیمتوں کا بازار میں کمپٹیشن کے لائق ہونا بہت اہم ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس میں حکومت کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بہت سے کام ہیں جنہیں سرانجام دینا ضروری ہے۔ البتہ یہ ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں ہے بلکہ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی، مختلف انتظامی ادارے، نجی شعبے، عوام الناس، معاشرے میں ذہنیت اور فکر سازی کرنے والے ادارے، وہ افراد جو اپنے بیانوں سے لوگوں کے اندر فکر اور ذہنیت کی تعمیر کرتے ہیں، قومی نشریاتی ادارہ، سب کو چاہئے کہ قومی پیداوار کے فروغ پر توجہ دیں۔ اگر ہم یہ کام انجام دینے میں کامیاب ہو گئے تو یقین جانئے کہ یہ ہمارے دشمنوں پر پڑنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔
پیداوار پر مرکوز پالیسی سازی، مقامی مصنوعات کے استعمال کا پرچار، مقامی مصنوعات کے معیار کا ارتقاء، مشینوں اور آلات کی جدیدکاری، مصنوعات، انتظامی امور اور تعمیراتی منصوبوں میں جدت عمل ایسے کام ہیں جنہیں انجام دینے کی ضرورت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ اقدامات انجام دئے جائیں گے۔

و السّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

1) نهج‌البلاغه، حكمت 366