سؤال

 

 

جواب

۱

کیا امریکی حکومت کے خلاف ملت ایران کی مجاہدت کی تاریخ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے شروع ہوتی ہے؟

یہ مقابلہ اٹھائیس مرداد سنہ 1332 ہجری شمسی مطابق 19 اگست سنہ 1953 عیسوی کو شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔

۲

16 آذر مطابق 7 دسمبر سے کیا خصوصیات وابستہ ہیں؟

16 آذر مطابق 7 دسمبر کی تاریخ امریکا مخالف اور استکبار مخالف طلبہ سے تعلق رکھتی ہے۔

۳

ہماری قوم سے امریکا کی دشمنی کے مصادیق کیا ہے؟

دہشت گرد تنظیموں کی مدد، ایران کے اثاثوں کو سیل کرنا، ایران کے حلاف جنگ میں صدام کی مدد، ایران کے مسافر طیارے پر حملہ، ملت ایران کی توہین اور ہمہ جہتی پابندیاں۔

۴

ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام سے امریکا کی دشمنی کی اصلی وجوہات کیا ہیں؟

ایک؛ تسلط پسندی، سیاسی انحصار اور اخلاقی بے راہروی کی نفی۔

دو؛ قومی و اسلامی تشخص پر ہمارا اصرار، مظلوموں کا دفاع اور علم و دانش کی چوٹیوں کو سر کرنا۔

۵

امریکا سے ہم کیوں محو پیکار ہیں؟

قرآن کریم کی آیتوں کی بنیاد پر اللہ تعالی پر ایمان رکھنا اور طاغوت کی نفی واجب ہے اور آج دنیا میں طاغوت اعظم امریکا ہے۔

۶

امریکا سے تعلقات کی بحالی کی صورت میں ہماری مشکلات میں کمی واقع ہوگی؟

دو وجوہات ہیں جن کی بنا پر خطرات میں کسی کمی کی توقع نہیں ہے؛

ایک؛ امریکا نے عراق پر حملہ کیا حالانکہ عراق سے اس کے سیاسی روابط تھے۔

دو؛ امریکیوں کے لئے تعلقات ہمیشہ ضمیر فروشی کے لئے آمادہ حلقوں میں اثر و نفوذ پیدا کرنے کا وسیلہ رہے ہیں۔

۷

 

ہم امریکا سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟

دھمکیوں اور دباؤ کے سائے میں ایک سپر پاور کی حیثیت سے اگر کوئی مذاکرات کرے تو اسے مذاکرات نہیں کہا جائے گا۔

۸

اس طولانی مقابلہ آرائی کے بعد فاتح میدان کون ہے؟

انقلاب کی بقاء و پیشرفت، ملت ایران کی فتح کی دلیل ہے۔ جبکہ دنیا میں امریکی اقدار میں تنزلی پیدا ہوئی ہے۔

۹

امریکا ملت ایران کے خلاف اپنے عناد سے کب دستبردار ہو سکتا ہے؟

ایران کے ہمہ جہتی علمی، سیاسی اور اقتصادی اقتدار کے وجود میں آنے تک یہ دشمنی جاری رہے گی۔

۱۰

امریکا کی سامراجی حکومت کے خلاف ملت ایران کے تاریخی جہاد کا انجام کیا ہوگا؟

سنت الہی یہ ہے کہ حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے۔

 

1؛ امریکی حکومت سے ملت ایران کی مقابلہ آرائی کی تاریخ کیا اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے شروع ہوئي ہے؟

مقابلہ آرائی کا آغاز سنہ انیس سو چونسٹھ سے کافی پہلے ہوا۔ یعنی سنہ انیس سو ترپن میں انیس اگست کو امریکیوں نے ایران میں بغاوت کروائی اور ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گيا۔ امریکی ایجنٹ ڈالروں سے بھرے سوٹ کیسوں کے ساتھ باقاعدہ ایران پہنچے، انہوں نے شرپسند عناصر، اوباشوں اور بے ضمیر سیاستدانوں کو لالچ دیکر 19 اگست سنہ 1953 کی بغاوت کروائی اور ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مصدق کی حکومت جو امریکیوں کے ہاتھوں سرنگوں ہوئي امریکیوں کی دشمن نہیں تھی۔ وہ تو بس برطانیہ کی مخالفت پر تل گئی تھی، امریکیوں پر تو اسے پورا اعتماد تھا، اسے یہ امید بھی تھی کہ امریکی اس کی مدد کریں گے، امریکیوں سے اس کے دوستانہ روابط تھے، ان سے اظہار دوستی بھی کرتی تھی، بلکہ یوں کہا جائے کہ امریکا کی خوش آمد کرتی  تھی۔ ایسی حکومت کے ساتھ امریکیوں نے یہ سلوک کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ تہران کی حکومت امریکا مخالف حکومت رہی ہو۔ نہیں، امریکا کی دوست تھی۔ لیکن اس کے باوجود سامراجی مفادات کا تقاضا ہوا تو امریکیوں نے برطانیہ سے ساز باز کر لی، پیسے لیکر ایران میں داخل ہوئے اور اپنا کام کر گزرے۔ اس واقعے کو دس سال گزر جانے کے بعد پانچ جون کا واقعہ پیش آیا اور اسلامی انقلاب اور اسلامی تحریک کا آغاز ہوا۔ یعنی پورے دس سال انہوں نے خوب مظالم ڈھائے، زد و کوب کیا، پھانسی پر چڑھایا، جو جی میں آیا انہوں نے اس ملک میں انجام دیا۔ سرانجام  دس سال بعد یعنی پانچ جون سنہ 1963 کو ایک دھماکہ سا ہوا۔ اس دفعہ عوام کے نشانے پر بظاہر ظالم و طاغوتی پہلوی حکومت تھی لیکن در حقیقت مقابلہ امریکیوں سے تھا جو شاہ کی پشت پر تھے۔ وہی شاہ کی مدد کر رہے تھے اور اسی کے ذریعے ہمارے وطن عزیز کے تمام امور پر ان کا قبضہ ہو گیا تھا۔ یہ مقابلہ جاری رہا یہاں تک کہ سنہ 1964 میں امریکی براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور ہو گئے اور بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو 1964 میں جلاوطن کیا گیا۔ اس موقعے پر بھی بظاہر تو وہ پنی منمانی کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بخیال خویش انہوں نے ملت ایران کو مغلوب کر لیا لیکن در حقیقت ایرانی قوم مغلوب نہیں ہوئی۔ 1964 میں امریکیوں کی پشت پناہی سے محمد رضا پہلوی کی حکومت نے ملک کے اندر بے پناہ جرائم کئے اور امریکیوں نے جہاں تک ہو سکا لوٹ کھسوٹ اور جارحیت و توسیع پسندی کا بازار گرم رکھا۔ دسیوں ہزار امریکی مشیر ایران میں لاکر تعینات کر دئے گئے، انہوں نے خوب لوٹا، پیسے لئے، جواب میں ایذارسانی اور شکنجے کے طریقے سکھائے، ایران میں ہزارہا جرائم انجام دئے۔ سرانجام سنہ 1978 اور 1979 میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت میں ملت ایران کی تحریک اپنے اوج پر پہنچی۔ اس دفعہ شروع ہونے والی تحریک ایسی تھی کہ دشمن کے لئے کامیابی کی کوئی رمق باقی نہ رہی۔ پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی، لوگوں نے قربانیاں دیں، مرد عورتیں، یہی نہیں اسکولی بچے بھی سڑکوں پر قتل ہوئے لیکن سرانجام سنہ 1979 میں ملت ایران کو فتح ملی۔ یعنی سنہ 1953 سے شروع ہوکر 1979 تک جاری رہنے والے پچیس سالہ مقابلے میں سرانجام فتح کا سہرا ملت ایران کے سر بندھا۔

طلبا و طالبات کے اجتماع سے خطاب 31/10/2012

 

2؛ سولہ آذر مطابق 7 دسمبر کا دن ہماری تاریخ میں کن خصوصیات کی بنیاد پر خاص شہرت کا حامل ہے؟

ہمارے ملک کے اندر طلبہ کی تحریک کا مزاج اور اس کی خاصیت اس کا سامراج مخالف ہونا، تسلط کی نفی کرنا، ڈکٹیٹر شپ سے اعلان برائت اور انصاف کی حمایت کرنا ہے۔ شاید دوسری جگہوں پر بھی طلبہ کی تحریک کی یہی خصوصیات ہوں۔ اس تحریک کا نقطہ آغاز یا یوں کہا جائے کہ اس تحریک کا اہم موڑ 7 دسمبر کی تاریخ ہے۔ آپ اس اہم نکتے کی طرف توجہ فرمائیے کہ 16 آذر سنہ 1332 ہجری شمسی مطابق 7 دسمبر سنہ 1953 عیسوی کو تین طلبہ کے خاک و خوں میں نہانے کا واقعہ 28 خرداد 1332 مطابق 19 اگست سنہ 1953 کے واقعے کے تقریبا چار مہینے بعد رونما ہوا۔ یعنی انیس اگست کے اس واقعے اور عجیب و غریب انداز میں کی جانے والی سرکوبی اور ہر طرف پھیل جانے والے گھٹن کے ماحول کے بعد ناگہاں تہران یونیورسٹی کے طلبہ نے فضا میں ایک دھماکہ کیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ امریکی نائب صدر نکسن نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ امریکا کے خلاف اور نکسن کے خلاف جو 19 اگست کی بغاوت کے ذمہ دار تھے طلبہ نے یونیورسٹی کے اندر مظاہرے کئے۔ مظاہرے کو کچل دیا گيا اور تین طالب علم مارے گئے۔ لہذا 19 اگست کی تاریخ کو ان خصوصیات کے ساتھ یاد رکھنا چاہئے۔ 19 اگست کی تاریخ نکسن مخالف، امریکا مخالف اور سامراج مخالف طلبہ کی تاریخ ہے۔

علم و صنعت یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے اجتماع سے خطاب 14/12/2008

ہمارے ملک سے امریکا کی دشمنی کے مصادیق کیا ہیں؟

دہشت گرد تنظیموں کی مدد؛

انقلاب کے سلسلے میں امریکا نے شروع سے ہی تلخ لہجہ اور ترش روئی اختیار کی۔ البتہ ان کے پیش نظر جو مسائل اور اندازے تھے ان کی بنا پر یہ رویہ فطری تھا۔ انقلاب سے قبل ایران امریکا کی مٹھی میں تھا۔ اس کے تمام کلیدی ذخائر امریکا کے ہاتھ میں، جملہ سیاسی فیصلے امریکا کے اختیار میں، حساس عہدوں پر افراد کی  تقرری اور معزولی امریکا کے ہاتھ میں، سب کچھ امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ ایران گویا سرسبز چراگاہ تھا امریکیوں اور ان کے فوجیوں کے لئے۔ یہ خزانہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس پر وہ اگر چاہتے تو اس طرح آشکارا اعلان عناد نہ کرتے۔ لیکن انقلاب کے آغاز سے ہی امریکی حکومت نے خواہ وہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدور رہے ہیں یا ڈیموکریٹک پارٹی کے صدور سب نے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ بد سلوکی کی۔ یہ چیز کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے۔ امریکیوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ کے پراگندہ مخالفین کو اشتعال دلایا اور اکسایا، علاحدگی پسندانہ تحریکوں اور دہشت گرد تنظیموں کی مدد کی۔ انہوں نے شروع سے ہی یہ حرکتیں کیں۔ ملک کے جس گوشے میں بھی ہمیں علاحدگی پسندی کے آثار نظر آئے وہاں امریکیوں کی ریشہ دوانیاں ضرور دکھائی دیں۔ اس سے ہمارے عوام کو بے حد نقصان پہنچا اور افسوس کی بات ہے کہ یہ سلسلہ ہنوز رکا نہیں ہے۔

 

ایران کے اثاثوں کا ضبط کر لیا جانا؛

پھر ایران کے اثاثوں کو سیل کر دینے کی حرکت۔ گزشتہ حکومت نے بے حساب بجٹ امریکیوں کے ہاتھ میں دے دیا تھا کہ ان سے طیارے، ہیلی کاپٹر اور ہتھیار خریدے۔ کچھ سامان تو بن کر تیار بھی ہو گیا تھا لیکن انقلاب کامیاب ہوا تو انہیں نے دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہ رقم جو اربوں ڈالر کی تھی نہیں لوٹائی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ سارا سازو سامان انہوں نے ایک گودام میں جمع کر رکھا تھا تو اس گودام کا کرایہ ہم سے وصولنے پر اصرار کر رہےتھے۔ انہوں نے یہ کرایہ الجزائر معاہدے کے اکاونٹ سے نکال لیا۔ ایک قوم کا سرمایہ ہڑپ لیتے ہیں، اسے اپنے پاس رکھتے ہیں، لوٹانے پر تیار نہیں اور اوپر سے گودام کا کرایہ بھی مانگتے ہیں!!! انہوں نے شروع سے یہ رویہ اختیار کیا جو آج تک جاری ہے۔ آج بھی ایران کا اثاثہ ان کے پاس ضبط ہے۔

ایران کے خلاف جنگ کے لئے صدام کو گرین سگنل اور پھر اس کی بھرپور اعانت؛

انہوں نے صدام کو ہری جھنڈی دکھائی ایران پر حملے کے لئے۔ اگر صدام کو گرین سگنل نہ ملتا تو بعید تھا کہ وہ ہماری سرحدوں پر حملہ کرتا۔ انہوں نے ہمارے ملک پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی۔ اس جنگ میں ہمارے تقریبا تین لاکھ افراد، ہمارے نوجوان، ہمارے عوام شہید ہو گئے۔ ان آٹھ برسوں میں اور خاص طور پر جنگ کے آخری برسوں میں صدام کی پشت پر ہمیشہ امریکی نظر آتے تھے، اس کی مدد کرتے تھے، مالی مدد، اسلحہ جاتی مدد، سیاسی مدد، اسے سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی اطلاعات فراہم کرتے تھے، محاذ جنگ پر ہمارے سپاہیوں کی نقل و حرکت پر سیٹیلائٹ کے ذریعے نظر رکھتے تھے اور تمام اطلاعات صدام کے اسٹیشنوں کو فراہم کرتے تھے تا کہ وہ ہمارے فوجیوں کے خلاف ان اطلاعات کی بنیاد پر حملے کرے۔ انہوں نے صدام کے جرائم پر گویا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔

ہمارے مسافر طیارے پر حملہ؛

(آٹھ سالہ) جنگ کے آخری ایام میں خلیج فارس کے علاقے کے اوپر محو پرواز ہمارے مسافر طیارے کو ایک امریکی افسر نے بحری بیڑے سے میزائل فائر کرکے مار گرایا۔ اس طیارے میں تقریبا تین سو مسافر سوار تھے، سب کے سب لقمہ اجل بن گئے۔ اس وقت کے امریکی صدر نے اس افسر کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسے انعام اور تمغہ عطا کرکے حوصلہ  افزائی کی۔ ہمارے عوام ان باتوں کو کبھی فراموش کریں گے؟ کیا فراموش کر دینا ممکن ہے؟

 

ملت ایران کی توہین؛

امریکیوں نے ان جرائم پیشہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جنہوں نے ہمارے وطن عزیز میں مردوں کو، عورتوں کو، انفرادی طور پر، اجتماعی شکل میں، بزرگ علمائے کرام کو، حتی کمسن بچوں کو شہید کیا، ٹارگٹ کلنگ کی۔ ان دہشت گردوں کو انہوں نے اپنے ملک میں آزادانہ نقل حرکت کرنے اور سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی۔ ہمارے ملک کے خلاف انہوں نے ہمیشہ معاندانہ پروپیگنڈا کیا۔ ان برسوں کے دوران اور خاص طور پر آٹھ سالہ جنگ کی مدت میں امریکی صدور نے جب بھی ملت ایران کے بارے میں، ہمارے وطن عزیز کے سلسلے میں، ہمارے حکام کے تعلق سے یا ہمارے اسلامی جمہوری نظام کے بارے میں کوئی بیان دیا ہمیشہ بے سر پیر کی باتیں کیں اور مہمل گوئی کی۔ ملت ایران کی توہین کی۔ ان برسوں میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا۔

اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کی بنا پر پورے خطے میں فتنہ انگیزی؛

ہمارے علاقے کی سلامتی کو، خلیج فارس کی سیکورٹی کو، افغانستان کو، عراق کو انہوں نے آشفتگی اور آشوب کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اور در حقیقت اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیبیں بھرنے کے لئے ہمارے اس خطے کو اسلحے سے پاٹ دیا، صیہونی حکومت کی بے دریغ اور ہمہ جہتی مدد کی۔

جب بھی سلامتی کونسل نے صیہونی حکومت کے خلاف کوئی قرارداد منظور کرنا چاہی امریکا سینہ سپر ہو گیا، اس نے آگے بڑھ کر صیہونی حکومت کا دفاع کیا اور قرارداد منظور نہیں ہونے دی۔

 

ایران کے عوام اور حکام کی توہین؛

کوئی بھی موقع ہو وہ ہمارے ملک کو دھمکیاں دینے سے نہیں چوکتے۔ ہمیشہ یہی رٹ لگائے رہتے ہیں کہ فوجی آپشن بھی میز پر ہے، ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے۔ جب بھی انہوں نے ہمارے ملک کے بارے میں بات کی ہماری قوم کو دھمکی ضرور دی۔ البتہ ہمارے عوام پر ان دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، تاہم انہوں نے اپنی دشمنی اور اپنا عناد تو ظاہر کیا ہی۔ انہوں نے بار بار ملت ایران، حکومت ایران اور صدر ایران کی شان میں گستاخی کی۔ ایک امریکی نے چند سال قبل کہا کہ ایرانی قوم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے! حالیہ برسوں کی بات ہے ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ اچھا اور اعتدال پسند ایرانی وہی ہو سکتا ہے جو مر چکا ہو!!! اس عظیم قوم، اس با شرف قوم اور ملت ایران کی وہ اس طرح توہین کرتے ہیں جس کا جرم بس یہ ہے کہ وہ اپنی خود مختاری اور اپنے تشخص کا دفاع کر رہی ہے؟!

پابندیاں، کینہ توزی کے تحت؛

انہوں نے تیس سال سے ہمارے ملک پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ البتہ ہمیں ان پابندیاں کا فائدہ ملا۔ ہمیں یوں تو اس پر امریکیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے! اگر انہوں نے ہم پر پابندیاں نہ لگائی ہوتیں تو آج ہم سائنس و ٹکنالوجی کی اس بلندی پر نہ پہنچ پاتے!

پابندیوں نے ہمیشہ ہمیں ہوشیار ہو جانے، فکر و تدبر سے کام لینے اور اپنی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر مجبور کیا۔ البتہ امریکیوں کا مقصد ہماری یہ خدمت کرنا ہرگز نہیں تھا، وہ تو دشمنی نکال رہے تھے۔

مشہد مقدس میں امام ہشتم کے زوار اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب؛ 21/3/2009

4؛ ایرانی عوام اور اسلامی جمہوریہ سے امریکا کی دشمنی کی اصلی وجہ کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ سے عالمی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا اور صیہونی نیٹ ورک کی کبھی نہ ختم ہونے والی دشمنی کی اصلی وجہ وہ نہیں ہے جو ہمارے دشمن اپنے نعروں میں بیان کرتے ہیں یا ملک کے اندر بعض افراد جو قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ حقیقت امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کچھ باتوں کی نفی کرتی ہے اور کچھ امور کے اثبات پر اس کا اصرار ہے۔ اسلامی جمہوریہ استحصال کی نفی کرتی ہے، دوسروں کی تسلط پسندی کی نفی کرتی ہے، دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں قوموں کی توہین کی نفی کرتی ہے، سیاسی امور میں اغیار پر انحصار کی نفی کرتی ہے، ملک کے اندر عالمی سامراجی طاقتوں کی دخل اندازی اور ریشہ دوانیوں کی نفی کرتی ہے، اخلاقیات کے مسئلے میں لا ابالی پنے کی نفی کرتی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی ٹھوس اور اٹل نفی ہے۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ کچھ چیزوں کے بارے میں اثبات کا موقف رکھتی ہے۔ قومی تشخص کے سلسلے میں اثبات کا موقف، اسلامی اقدار کے سلسلے میں اثبات کا موقف، دنیا کے مظلومین کے دفاع کے سلسلے میں اثبات کا موقف، علم و دانش کی بلند چوٹیوں تک رسائی کے سلسلے میں اثبات کا موقف، علم و دانش کے میدان میں صرف دوسروں کی تقلید کرنا نہیں بلکہ نئی چوٹیاں سر کرنا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں اسلامی جمہوریہ اثبات کا موقف رکھتی ہے، اس پر اصرار کرتی ہے۔ کچھ چیزوں کی نفی اور کچھ چیزوں کے لئے اثبات۔ یہی چیزیں امریکا اور عالمی صیہونی نیٹ ورک کی دشمنی اور عناد کی اصلی وجوہات ہیں۔

علم و صنعت یونیورنسٹی کے طلباء و اساتذہ سے خطاب 14/112/2008

 

5؛ امریکی حکومت سے ہمارے مقابلے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

قرآن کریم کی آیت شریفہ ہے؛ «فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن باللَّه فقداستمسك بالعروة الوثقى» اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا مفہوم یہیں پر واضح ہوتا ہے۔ اللہ کی رسی سے تمسک کیسے کیا جاتا ہے؟ اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی کے ذریعے۔

آج دنیا کا طاغوت اعظم ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے۔ کیونکہ اسی نے صیہونزم کو وجود بخشا ہے اور اس کی مدد و حمایت کر رہی ہے۔ امریکا سابق طاغوت اعظم یعنی برطانیہ کا جانشین بن گیا ہے۔ امریکی حکومت، اس کے ہم خیالوں اور اتحادیوں کی جارحیتوں کی وجہ سے عالم اسلام بڑے دشوار حالات سے دوچار ہے، اپنے فیصلوں کے سلسلے میں، مادی و معنوی ترقی کے سلسلے میں ہر معاملے میں وہ امریکا، اس کے اتحادیوں اور ہم خیالوں کے دباؤ میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ امت اسلامیہ کے بیشتر حصوں میں ہمیں ایمان باللہ تو دکھائی دیتا ہے لیکن طاغوت کی نفی نہیں کی جا رہی ہے۔ جبکہ طاغوت کی نفی کرنا بھی ضروری ہے۔ جب تک طاغوت کی نفی نہ کی جائے گی اللہ کی مستحکم رسی سے تمسک ممکن ہی نہیں ہوگا۔ ہم ملکوں، حکومتوں اور قوموں کو امریکا کے خلاف جنگ کی دعوت نہیں دیتے، ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ امریکا کے سامنے سپردگی کی کیفیت نہ پیدا ہونے دیں۔

وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب 21/8/2006

 

6؛ امریکا سے روابط کی صورت میں کیا اس کے خطرات رفع ہو جائیں گے؟

امریکا سے سیاسی رابطہ ہمارے لئے ضرررساں ثابت ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے امریکا کی جانب سے لاحق خطرات میں کوئی کمی نہیں آئے گي۔ امریکا نے عراق پر حملہ کر دیا حالانکہ دونوں کے مابین سیاسی روابط تھے۔ دونوں کے سفیر موجود تھے، ایک ملک کا سفیر دوسرے ملک میں موجود تھا۔ روابط سے کبھی بھی کسی طاقت کے توسیع پسندانہ اور جنون آمیز خطرات میں کمی نہیں آتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکیوں نے تعلقات کو ہمیشہ دوسرے ملکوں میں ضمیر فروشی کے لئے تیار حلقوں میں اثر و نفوذ قائم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی یہی کیا۔ برسہا برس سے برطانوی سفارت خانے معاشرے کے پست لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے مرکز کا کام کرتے رہے۔ سفارت خانوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہوتی تھی۔ انہیں اب ایران میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ایک ٹھکانے کی شدید ضرورت ہے مگر وہ ان کے پاس نہیں ہے، وہ یہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ سہولت درکار ہے کہ ان کے جاسوس اور ایجنٹ ملک کے اندر آزادانہ اور بے فکری کے ساتھ نقل و حرکت کریں، معاشرے کے پست فطرت عناصر سے غیر قانونی طور پر رابطہ قائم کریں، لیکن یہ سہولت انہیں فراہم نہیں ہو پا رہی ہے۔ روابط کی بحالی کی صورت میں ان کے لئے یہ راستہ کھل جائے گا۔ کجھ حضرات بیٹھ کر بڑی لفاظی کرتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات نہ ہونے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ جی نہیں! امریکا سے تعلقات کا نہ ہونا ہمارے فائدے میں ہے۔ جب بھی امریکا سے تعلقات ہمارے لئے مفید نظر آئے، رابطہ بحال کرنے کی سب سے پہلی سفارش میں ہی کروں گا۔

صوبہ یزد کی یونیورسٹیوں کے طلبا سے خطاب 3/1/2008

 

7؛ ہم امریکا سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟

دباؤ اور دھونس دھمکی کے ماحول میں ہونے والی گفت و شنید کو مذاکرات نہیں کہتے۔ ایک طرف سپر پاور کے انداز میں وہ دھمکیاں دیتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں، پابندیاں عائد کرتے ہیں، کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں! اس کو مذاکرات کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس طرح کے مذاکرات ہم کسی سے نہیں کر سکتے۔ امریکا ہمیشہ اسی انداز کے مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ امریکا عام مذاکرات کار کی طرح کبھی بھی سامنے نہیں آتا۔ ہمیشہ سپر پاور کے زعم میں یہ بات کرتا ہے اور ہم سپر پاور سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ سپر پاور والی رعونت ترک کریں، پابندیوں کا سلسلہ بند کریں، مذاکرات کے لئے پہلے سے ہی اپنی مرضی کا نتیجہ اور منزل طے نہ کریں۔ اسلامی جمہوریہ اس دباؤ میں آنے والی نہیں ہے۔ وہ ہر دباؤ کا اپنے انداز میں جواب دے گی۔ زبردستی کرنے کی کوشش نہ کریں، سپر پاور کی جس بوسیدہ مسند پر وہ بیٹھیں ہیں اس سے نیچے اتریں، تب مذاکرات میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جائے گا۔ لیکن جب تک ان کا یہ زعم قائم ہے مذاکرات کا امکان نہیں ہے۔

اسلامی نظام کے عہدیداروں سے خطاب۔ 18/8/2010

 

8؛ اس طولانی مقابلہ آرائی کے بعد فاتح میدان کون ملک ہے؟

انقلاب کا باقی رہنا ملت ایران کی فتح کی دلیل؛

یہ نکتہ قابل غور ہے۔ جب ہمیں اس بات کا ادراک ہوا کہ اس میدان میں فاتح اللہ پر ایمان اور بھرپور توکل رکھنے والی قوم کے پختہ اور مصمم ارادے کو فتح ملی ہے تو ہمارے لحاظ سے یہ تمام اقوام کے لئے ایک سبق ہے۔ تاریخ کے تغیرات میں یہ ایک اصول بن گیا اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار ایک نیا فلسفہ پایہ ثبوت کو پہنچا۔ یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ ملت ایران اس پوری مدت میں اور دور حاضر میں اس عظیم لڑائی کی فاتح ہے۔ اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دشمن چاہتے تھے کہ انقلاب مٹ جائے لیکن انقلاب باقی رہا۔ صرف باقی ہی نہیں رہا بلکہ اس کی قوت و استحکام میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل جو انقلاب کے زمانے میں نہیں تھی، جو مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں نہیں تھی، جس نے امام خمینی کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہے، وہ بھی اسی عزم و ارادے کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہی ہے، کام کر رہی ہے، اسی انداز سے زندگی بسر کر رہی ہے جس کے ذریعے انقلاب کامیاب ہوا تھا۔ یہ انقلاب کے زندہ و پائندہ ہونے کی علامتیں ہیں۔

 

ملت ایران کی روز افزوں ترقی؛

ان سب باتوں کے علاوہ آپ اسلامی نظام کو دیکھئے۔ اسلامی نظام میں استحکام پیدا ہوا ہے، اس کی جڑیں گہرائی میں اتر گئی ہیں، اس نے اپنا پیغام دنیا میں عام کیا ہے، قوموں کو اپنی عظمت کے اعتراف پر مجبور کر دیا ہے، مسلم اور غیر مسلم اقوام کی آنکھوں میں اپنی عظمت کے جلوے پیش کئے ہیں۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی دشمنوں تک کی نگاہ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ملت ایران نے فولادی اعصاب کی مالک قوم کی حیثیت سے، پائيدار قوم کی حیثیت سے، صاحب ایمان قوم، صاحب بصیرت قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ہے جبکہ ملک کے اندر دیکھا جائے تو اسلامی نظام نے پورے وطن عزیز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج آپ کی نظریں جس ایران کو دیکھ رہی ہیں وہ انقلاب سے قبل والا ایران نہیں ہے۔ انقلاب سے پہلے والا ایران ایک پسماندہ اور فراموش شدہ ملک تھا، یہ قوم ایسی تھی جس کا کسی بھی اختراع اور نئی ایجاد میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ اس کے پاس استعداد کی کوئی کمی نہیں تھی، تاریخی میراث کی کوئی کمی نہیں تھی، اس کے پاس عظیم ثقافت تھی، اس کے باوجود اس قوم کا علمی میدان میں کوئی مقام تھا نہ سیاست میں کوئی رول، ٹکنالوجی کے شعبے میں اس کی کوئی شراکت تھی نہ اس کے پاس دنیا کے سامنے  پیش کرنے کے لئے کوئی نئی بات۔ یہ ایک تابع اور فرمانبردار قوم تھی۔ ملک کے اندر ایک خاص علاقے کے علاوہ جس پر حکام کی، سلطنتی نظام کے عہدیداروں کی خاص نظر تھی بقیہ علاقے ویرانے کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ آج ایران ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے، علم و دانش کے شعبے میں عظیم کام انجام پا رہے ہیں، تعمیر و ترقی کے شعبے میں نمایاں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ یہ چیزیں اس زمانے میں نہیں تھیں۔ ملک نے ترقی کی ہے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ انقلاب زندہ رہا، اس کے ثمرات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور قوم کی بصیرت و آگاہی بڑھتی جا رہی ہے۔   

 

امریکی پالیسیوں کا زوال؛

دنیا میں کسی کو بھی اس بات میں شک نہیں ہے کہ امریکا ان تیس برسوں میں عالمی ساکھ اور بین الاقوامی پوزیشن کے اعتبار سے تیس درجہ نیچے آیا ہے۔ یہ سب دیکھ رہے ہیں اور اس سے سب واقف ہیں۔ خود امریکیوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ امریکا کے یہی پرانے سیاستداں موجودہ حکومتوں اور حکمرانوں کو بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ موجودہ حکام اور حاکماؤں پر طنز کرتے ہیں کہ تم نے امریکا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟!! ان کی بات درست ہے۔ امریکا واقعی انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ آج دنیا میں کوئی بھی حکومت امریکی حکومت جتنی منفور نہیں ہے۔ اگر آج ہمارے علاقے اور دیگر علاقوں کی حکومتیں ذرا جرئت کا مظاہرہ کریں اور کسی دن کو امریکی حکومت سے اظہار نفرت کا دن قرار دے دیں اور عوام الناس سے کہیں کہ اس دن ریلیاں نکالئے تو دنیا کی سب سے بڑی ریلی نکلے گی! یہ ہے امریکا کی آبرو کا عالم۔ امریکا کے فکری مقام پر بھی غور کرنا چاہئے۔ بہرحال دنیا میں کوئی بھی حکومت اور قوم اپنی فکر و منطق کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہے۔ قوموں کو دنیا میں صرف پیسے اور دولت سے عزت نہیں ملتی۔ ان کے پاس فکر و منطق کا ہونا لازمی ہے۔ امریکی ایک زمانے میں کہتے تھے کہ ہمارے کچھ اصول ہیں بلکہ ان کے الفاظ یہ ہوتے تھے کہ ہمارے اپنے کچھ اقدار ہیں، جنہیں امریکی اقدار کا نام دیا جاتا ہے۔ انہی اصولوں اور اقدار کا وہ بڑا ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ آج آپ ذرا غور کیجئے! ان امریکی اقدار کی کیا حالت ہوئی ہے؟! ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکی حکومت اور امریکی سامراج نے ملت ایران کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی، بتیس سال سے جاری اس طویل لڑائی میں، اس مقابلہ آرائی اور جنگ میں شکست کھانے والی امریکا کی سامراجی، متکبر اور خود بیں حکومت ہے۔ جبکہ فتح کا سہرا ایران کی پرعزم اور مقتدر قوم کے سر بندھا ہے۔

طلبہ کے اجتماع سے خطاب؛ 10/8/1991 ہجری شمسی مطابق 31/10/2012 عیسوی

 

9؛ کب ایسا ہوگا کہ امریکا ملت ایران سے اپنے بغض و عناد سے باز آ جائے؟

سازشیں ایک خاص موڑ پر پہنچ جانے تک جاری رہیں گی۔ وہ خاص موڑ ہے ملک کا ہمہ جہتی اقتدار اور ارتقاء۔ یہ آپ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والوں اور طالب علموں کا کام ہے۔ جب آپ ملک کو اقتصادی اقتدار اور علمی اقتدار کی بلندی پر پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جب آپ ملک کو سائنسی وقار دلانے میں کامیاب ہو جائيں گے، تب سازشوں کا زور ٹوٹ جائے گا، دشمن مایوس ہو جائے گا۔ لیکن جب تک ہم اس مقام پر نہیں پہنچ جاتے اس وقت تک ہمیں ہمیشہ سازشوں سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے، ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو آمادہ رکھنا چاہئے۔ انشاء جیسے جیسے وقت گزرے گا آپ کی قوت و توانائی میں اضافہ ہوگا، آپ کے دشمن کمزور پڑتے جائیں گے۔ انشاء اللہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہے جب ملت  ایران کو حتمی فتح نصیب ہوگی۔

علم و صنعت یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب 24/9/1387 ہجری شمسی 14/12/2008 عیسوی

 

10؛ امریکا کی سامراجی حکومت کے خلاف ملت ایران کی جد و جہد کا انجام کیا ہوگا؟

ہمیں پورا یقین ہے کہ حق و باطل کی اس جنگ میں جو اس وقت جاری ہے، اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی بیداری کے خلاف استکباری طاقتوں کی حریصانہ پالیسیوں، دنیا کے شیاطین اور ان میں سرفہرست شیطان بزرگ یعنی امریکا کی اس لڑائی میں فتح ہمارا مقدر ہے، کامیابی حق کی ہی ہوگی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ تمام قرائن اسی پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ سنت خداوندی بھی یہی ہے۔ یعنی اس کے علاوہ کوئی نتیجہ سامنے آ ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ حق کے طرفدار ہیں اگر ثابت قدمی سے کھڑے ہو جائیں اور آگے بڑھیں تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہیں باطل پر فتح ملے گی۔ تاریخ میں سنت خداوندی ہمیں اسی کی توقع رکھنے اور منتظر رہنے کا درس دیتی ہے۔ ہم تجربات کی صورت میں اس کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔

عالمی اہل بیت اسمبلی کے چوتھے اجلاس کے شرکاء سے خطاب؛ 28/5/1386ہجری شمسی مطابق 19/8/2007 عیسوی