منگل کي رات تہران کے حسينہ امام خميني رح ميں ہونے والي اس تقريب ميں ملک کے ممتاز شعرا اور اديبوں کے علاوہ ہندوستان، افغانستان اور تاجکستان سے تعلق رکھنے والے فارسي شعرا اور ادبا بھی شريک تھے- اس موقع پر اپنے خطاب ميں قائد انقلاب اسلامي نے، ايران ميں شعر و ادب کي ترقي کي جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ شاعري ايک اعلي ترين فن ہے اور ملک کے اہم مسائل اور انقلاب اسلامي کي الہام بخش اور تاريخ ساز تحريک کے حوالے سے شعرا اور اديبوں کے کاندھوں بہت ہي بھاري ذمہ دارياں عائد ہوتي ہيں-
قائد انقلاب اسلامی نے انسانی جذبات، در پیش حالات اور فکر و حکمت کو شعر کے تین اہم حصوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ شاعرانہ اور عاشقانہ جذبات کا اظہار اور زندگی کے حالات کا تذکرہ شعر کے دو اہم حصے ہیں تاہم صرف انہیں دونوں چیزوں پر توجہ مرکوز کرکے فکر و حکمت کے عنصر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ دوستوں کے اشعار سن کر میں بہت محظوظ ہوا۔ بعض اشعار اچھے تھے اور بعض بے حد اچھے تھے۔ میں اپنی یادداشت پر زور ڈالتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر اس سال کے اشعار گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ بلند سطح کے تھے۔ اس سے ملک میں شعر و ادب کے ارتقائی عمل کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ مسلسل بلندیوں کی جانب جاری سفر کی علامت ہے اور یہ بہت خوشی کا مقام ہے۔ شعر جملہ فنون میں بہت نمایاں فن ہے اور جو بھی فنکار ہوتے ہیں خواہ وہ شعر و ادب کے میدان سے تعلق رکھتے ہوں یا دیگر وادیوں میں سرگرم ہوں، اہم ذمہ داریوں اور قومی مسائل کے سلسلے میں زیادہ سنگین فرائض ادا کرتے ہیں، یہ فطری بھی ہے۔ جو بھی ممتاز شخصیتیں ہیں، خواہ وہ سیاسی میدان کی ہستیاں ہوں، علمی میدان کی شخصیتیں ہوں یا ثقافتی میدان میں سرگرم ممتاز افراد ہوں دوسروں کی نسبت ان کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ فنکار بھی اسی طرح بہت اہم شخصیت ہے لہذا اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، فن شعر کو جو بے حد اہم، قابل فخر اور کبھی پرانہ نہ ہونے والا فن ہے، ان سنگین ذمہ داریوں کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
البتہ ہمیں شاعر کے انسانی جذبات کو اور اس کی قلبی واردات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا، شاعر کی فکر اور اس کی حکمت و تدبیر کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ یعنی یہ تینوں چیزیں فن شعر کے تین الگ الگ پہلوؤں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس میں کسی کو کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی اگر شاعرانہ جذبات، اگر عاشقانہ خیالات اور شاعر کی شخصی زندگی کے مسائل سے پیدا ہونے والے تاثرات شعر میں منعکس نہ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اچھا شعر نہیں ہو پایا ہے۔ مختصر یہ کہ شعر کا ایک حصہ شاعر کے احساسات و جذبات سے متعلق ہوتا ہے، البتہ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ بس یہی پہلو پوری نظم یا پوری غزل پر غالب آ جاتا ہے۔ شعر کا ایک حصہ شاعر کی شکایتوں اور حسرتوں سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ چیز ہم شعرا کے اشعار میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی خاص زمانے کی بات نہیں ہے، ہر زمانے کے شعرا جہاں تک مجھے مطالعے کا موقعہ ملا ہے اور جہاں تک میں آشنائی رکھتا ہوں، مختلف ادوار کے شعرا دستیاب چیزوں سے بالاتر کسی چیز کے متلاشی ہوتے ہیں۔ روحانی خواہشوں کی بات میں نہیں کر رہا ہوں، مادی وسائل کے لحاظ سے، مشکلات کے لحاظ سے، مجروح جذبات کے لحاظ سے ان کے کچھ گلے شکوے ضرور ہوتے ہیں۔ یہ شکوے تمام شعرا نے کئے ہیں۔ میں نے پڑھا ہے، منگولوں کے دور کے آخری برسوں کے شعرا کس طرح گلے شکوے کرتے ہیں کہ اب شعر کے بازار میں مندی آ گئی ہے۔ ہم سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ ماضی میں تو ایسا تھا، ویسا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شعرا کا بڑا احترام تھا، انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا، انہیں سونے اور چاندی سے تولا جاتا تھا۔ مگر یہ شکوے ہمیشہ رہے۔ تو یہ گلے اور شکوے بھی شاعر کے شعر کا ایک جز ہیں۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے اس بات پر شاعر سے کوئی شکایت نہیں ہوتی کہ اس نے اپنی ذاتی مشکلات اور شکایتوں کو شعر میں کیوں شامل کر دیا۔ ظاہر ہے، شاعر کے مزاج میں نزاکت ہوتی ہے، ظرافت ہوتی ہے، کچھ باتوں سے اسے رنج پہنچتا ہے، بنابریں شاعر سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہمارے کئی شاعر دوستوں کے اشعار میں یہ گلے ہمیں نظر آئے، میں نے پورے تحمل کے ساتھ ان کے شکوؤں کو سنا۔ یعنی یہ کہ ہم شعر کے ان دونوں پہلوؤں کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس پہلو کو بھی جس کا تعلق شاعر کے احساسات و جذبات سے ہے اور اس پہلو کو بھی جو اس کی گلے شکوے کو منعکس کرتا ہے۔ لیکن ایک اور حصہ بھی ہے جو شاعر کی حکمت و نظر سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ آپ سعدی کو دیکھئے! شعر و ادب کی بلند چوٹیاں یہی شعرا ہیں۔ سعدی کے ہاں عاشقانہ جذبات کی کثرت ہے اور گلے شکوے بھی کم نہیں ہیں۔ بوستان میں بھی، غزلوں میں بھی اور دیگر تصانیف میں بھی، لیکن آپ سعدی کی حکمت آمیز اور مدبرانہ باتوں کو دیکھئے تو ہر جگہ ستاروں کی مانند جگمگا رہی ہیں۔ سعدی کو ایک فلسفی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز سعدی جیسے انسان کو، حافظ جیسے شاعر کو اور صائب جیسے شاعر کو چوٹی پر پہنچاتی ہے۔ حکمت، حکیمانہ فکر، انسان کے لئے سبق آموز ثابت ہونے والے مسائل، ان باریکیوں کو سمجھنا، شعر میں پرونا اور بیان کرنا، یہ شاعر کی ذمہ داری ہے۔ میں سفارش کروں گا کہ ہمارے احباب شعر کے اس اہم اور بنیادی پہلو کو فراموش نہ ہونے دیں۔ آج کی شب جو اشعار پڑھے گئے ان میں یہ پہلو بہت نمایاں طور پر نظر آیا۔
شاعر اپنے زمانے اور سماج کے مسائل کے سلسلے میں بھی بہت حساس ہوتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے اندر سے ایک عظیم تاریخی تحریک ابھری ہے جو مختلف معاشروں کے لئے سرچشمہ الہام ثابت ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ بین الاقوامی سامراجی نظام سے اسلامی انقلاب کا ٹکراؤ، استبداد کے خلاف زبردست استقامت، ایک ایسی قوم کی جانب سے جو دو سو سال سے زیادہ عرصے تک اغیار کے استبداد کی چکی میں پستی رہی۔ ایسی قوم اور ایسے ملک میں آزادی کے پرچم کا لہرایا جانا بہت بڑی بات ہے۔ یہ چیز ہمارے شعرا کے اشعار میں منعکس ہونا چاہئے۔ اسی طرح وہ حقائق بھی اشعار میں پروئے جائیں جو اس آزادی کے بعد رونما ہوئے۔ میں نے ہمیشہ اس طرح کی نشستوں میں یہ بات کہی ہے کہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کوئی معمولی چیز نہیں ہے، یہ بہت عظیم حقیقت ہے۔ ہمارے اشعار میں اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرے کی تعمیر کا جہاد، قومی طاقت کو استحکام عطا کرنے کا جہاد جس پر ہم بارہا تاکید کر چکے ہیں طرز زندگی کے سلسلے میں اصلاحی جہاد، میں نے عرض کیا ہے کہ اسلامی تمدن کا خلاصہ اور ماحصل یہی طرز زندگی ہے، طرز زندگی سے ہٹ کر ہم جن موضوعات کے بارے میں اس ضمن میں بات کرتے ہیں وہ سب شکلیں اور اندازے ہیں۔ یہ سب جہاد کے الگ الگ میدان ہیں، شعر کے ذریعے ان میں سے کسی بھی میدان میں جہاد کرنا چاہئے۔ اسی طرح تاریخی مسائل پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ آج اسلامی بیداری کا موضوع بے حد اہم ہے، مسئلہ فلسطین ایک کلیدی مسئلہ ہے۔ ہمارے اشعار میں یہ موضوعات نظر آنا چاہئے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی بڑی اہمیت ہے۔ میں یہ سفارش کرنا چاہوں گا کہ بچوں کے لئے نظمیں لکھنا جن میں اسلامی فلسفے اور سیاسی فلسفے کا انعکاس ہو، بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں قدرے خلا نظر آتا ہے۔ بچوں کے لئے اشعار اور بچوں کے لئے کتابیں لکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جن شعرا کے اندر یہ صلاحیت ہے، جن کے انداز بیان میں تاثیر ہے وہ حکمت آمیز باتوں کو ، ایرانی و اسلامی فلسفے کو فارسی اشعار میں پروئیں۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے، ہمارے نوجوانوں میں بڑی استعداد پائی جاتی ہے اور نوجوان حقائق کو آسانی سے قبول بھی کر لیتے ہیں اور وہ آسانی سے اپنے اشعار میں ان باتوں کو بیان بھی کر سکتے ہیں۔
اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آج ہمارے شعرا کی شعری زبان بڑی فصیح و بلیغ ہے، وہ اپنی اس زبان میں بڑے عظیم حقائق بیان کر رہے ہیں۔ آج کی شب پیش کئے جانے والے اشعار کا اگر ہم دس سال قبل اسی طرح کی نشست میں پڑھے جانے اشعار سے موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ واقعی بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے اور آپ فارسی شعر و ادب کے ذخیرے میں نئے اضافے کریں۔ میں تمام دوستوں کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌