قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں کبھی بھی اپنا ہدف فراموش نہیں کرنا چاہئے، اسلامی جمہوریہ ایران کا ہدف، اسلامی نصب العین کا حصول ہے جو انسانیت کی روحانی و مادی پیشرفت سے عبارت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس اعلی ہدف کا حصول پختہ ایمان، در پیش مسائل کے سلسلے میں بصیرت آمیز اقدام اور دشمنوں کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار رہے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نصب العین واضح اور نمایاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام ایمان، بصیرت، جذبہ عمل اور تخلیقی مہارت سے آراستہ اور دشمن کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار رہنے والے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ کون سے معاملہ ہے جس میں ہمارے نوجوانوں نے قدم رکھا ہو لیکن اسے حل کرنے میں ناکام رہے ہوں، جہاں بھی بنیادی ڈھانچہ مہیا کرایا گیا، ہمارے نوجوانوں نے وہاں پیشرفت حاصل کی ہے، یہ ان کی استعداد اور صلاحیتوں کی برکت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حکام کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لئے داخلی استعداد اور توانائیوں سے آس لگائی جائے۔
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے 1392/10/19 ہجری شمسی مطابق 09-01-2014 عیسوی کو قم سے آئے ہوئے ہزاروں کي تعداد ميں لوگوں سے خطاب ميں فرمايا کہ اگر ايمان قوي ہو اور اس کے ساتھ بصيرت اور استقامت بھي ہو اللہ کي نصرت اور فتح يقيني ہوتي ہے۔ قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے نوجنوري يا انيس دي کي مناسبت سے جب انيس سو اٹھہتر ميں ايران کے مقدس شہر قم کے عوام نے اس وقت کي ظالم شاہي حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو کر اسلامي انقلاب کي تحريک کو مہميز ديا تھا قم شہر سے آئے ہوئے ہزاروں کي تعداد ميں علما اور عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ انيس دي کا واقعہ مومنين کے لئے اللہ کي نصرت کا مظہر ہے-
آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے فرمايا کہ بيروني معاملات کو بھي حل کرنا چاہئے کيونکہ ايک سرگرم قوم اور حکومت سبھي بين الاقوامي اور علاقائي معاملات و مسائل ميں فعال سفارتکاري کرتي ہے ليکن ہماري اميد اللہ کي مدد و نصرت اور ملک کے اندر پائي جانے والي توانائيوں اور استعداد سے ہوني چاہئے -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ دشمنوں نے کبھي بھي ايراني قوم کو نہيں پہچانا - آپ نے فرمايا کہ دشمن يہ سمجھتے ہيں کہ ايران کے عوام پابنديوں اور عالمي اقتصادي ناکہ بنديوں کي وجہ سے ان کے سامنے جھک گئے ہيں وہ غلطي کررہے ہيں يہ ان کي بھول ہے -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ايراني قوم کوئي ايسي قوم نہيں ہے جو دشمنوں کے سامنے جھک جائے گي -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ ہم نے پہلے بھي اعلان کيا ہے کہ بہت ہي خاص معاملات ميں جہاں اسلامي جمہوريہ ايران مصلحت سمجھے گا اس شيطان کے شر کو دور کرنے اور مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کريں گے - آپ نے فرمايا کہ مگر ان مذاکرات کا مطلب ہرگزيہ نہ نکلا جائے ايران کے عوام بے بس يا مجبور ہوگئے ہيں -
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ حاليہ مذاکرات کاايک فائدہ يہ ہوا ايران ايرانيوں اسلام اور مسلمانوں سے امريکا کي دشمني ايک بار پھر واضح ہوگئي -
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

میں قم سے تشریف لانے والے آپ تمام خواہران و برادران عزیز، علمائے کرام، فضلائے محترم، جذبہ ایمانی سے سرشار نوجوانوں اور مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے عصری تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات و تغیرات کے موقعے پر شعور و بالغ نظری، جوش و جذبے اور شجاعت و مجاہدت کے ذریعے اپنی امتیازی اور نمایاں حیثیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ نو جنوری (انیس دی) کی تاریخ مختلف وجوہات سے بہت اہم اور بے نظیر تاریخ ہے لیکن بلا شبہ قم کے عزیز عوام کی جرئت عمل اور نمایاں کارکردگی صرف اسی تاریخ تک محدود نہیں ہے۔ انقلاب کے بعد بھی، گوناگوں واقعات اور حالات کا سامنا ہونے پر، مسلط کردہ جنگ کے دوران، حالیہ تین عشروں کے دوران جو واقعات رونما ہوئے اور خاص قسم کے حالات پیش آئے، ہمیشہ جب ہم آپ اہل قم کے تعاون اور کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کی منزلت بالکل منفرد اور نمایاں نظر آتی ہے۔ اس چيز پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ انہی خصوصیات کے باعث قم تشیع اور اسلام کے علمائے کرام کا گہوارا اور اس وقت اسلامی جمہوریہ کی عظمت کا مظہر قرار پایا ہے۔ جو لوگ وطن عزیز اور اسلامی جمہوری نظام سے متعلق مسائل کا جائزہ لیتے ہیں، ان پر غور کرتے ہیں اور کام کرتے ہیں، خواہ وہ ہمارے دوست ہوں یا دشمن، ان کی توجہ کے اہم مراکز میں سے ایک ہے قم، اس شہر میں موجود دینی علوم کا عالمی مرکز اور قم میں رونما ہونے والے واقعات و تغیرات۔ اللہ کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ جس طرح اس نے اب تک آپ عزیز شجاع و اہل عمل و فعال عوام کو توفیقات سے نوازا اور آپ کی مدد کی، مستقبل میں بھی نصرت خداوندی اور خدائی رہنمائی آپ کے شامل حال رہے، یقینی طور پر ہمارے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے قوی ارادوں، پختہ عزم اور ٹھوس قدموں کی ضرورت ہے۔ نو جنوری (انیس دی) کے واقعے کے بارے میں گزشتہ تیس پینتیس سال کے دوران اہل سخن، مقررین اور مفکرین نے بہت کچھ کہا، لکھا اور اس واقعے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا، اس کا تجزیہ کیا ہے، اس کی تشریح کی ہے، اس کے اثرات اور بنیادی کردار کو بیان کیا ہے، لیکن اس حقیر کی نظر میں انیس دی (نو جنوری) کو رونما ہونے والا واقعہ ابھی اور تجزیہ و تبصرے اور غور و خوض کا متقاضی ہے۔ ابھی اس واقعے کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو پوری طرح سامنے نہیں آ سکے ہیں، انہیں بیان کرنے اور ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اس واقعے کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ یہ واقعہ قرآن کی اس آیت شریفہ کا آئینہ اور مظہر ہے:۔ فَانتَقَمنا مِنَ الذينَ اَجرَموا وَ كانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنين؛(۱) قرآن کی اس آیت میں جو سورہ روم کی آیت ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مومنین کی نصرت ایک حق ہے جو اللہ کے ذمے ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہوں پر یہ جملہ کہا گيا ہے۔ جیسے عَلَيهِ حَقًّا فِى التَّوراةِ وَ الاِنجيلِ وَ القُرءان،(۲) اسی طرح کچھ اور جگہیں بھی ہیں۔ تو ایک جگہ یہی ہے، اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ ہمارے ذمے ایک حق ہے، یعنی ذات اقدس پروردگارعالم نے یہ حق اپنے ذمے کر لیا ہے کہ وہ مومنین کی نصرفت فرمائے گا۔ ایسا کن حالات میں ہوتا ہے؟ ان حالات کے لئے کہا گیا کہ مومنین کو مدد ملتی ہے؟ یہ ان حالات کے لئے ہے جب بظاہر امید کی کوئی کرن اور رمق باقی نہ رہ گئی ہو۔ آپ ان آيتوں پر غور کیجئے! یہ اس وقت کی بات ہے جب ایمان والوں کے محاذ کا دشمن اپنی ظاہری طاقت کے ساتھ اور آہنی پنجے کے ساتھ، مومنین کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے، دو محاذوں کے بیچ عظیم معرکہ شروع ہو گیا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالی فرماتا ہے:۔ وَ كانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنين۔ اس وقت جب قم کے نوجوان، طلبہ، غیر طالب علم، مومن عوام کے مختلف طبقات قم کی سڑکوں اور گلیوں میں نکل پڑے اور انہوں نے امام خمینی کے دفاع میں اور حق و صداقت کے دفاع میں، طاغوت کے خلاف جدوجہد کے لئے بلند کئے جانے والے پرچم کے دفاع میں خود کو طاغوتی شاہی حکومت کے کارگزاروں کی گولیوں کے سامنے مضبوط ڈھال بنا دیا اور ان کا خون سڑکوں پر بہا، تو ان شجاع لوگوں اور گرد و نواح کے افراد میں کسی کا بھی ذہن یہاں تک نہیں پہنچا تھا کہ یہ واقعہ اتنی گہری تاثیر کا حامل ہوگا۔ انہوں نے تو بس اپنے شرعی فریضے کا احساس کیا اور پھر جو کچھ ان کے پاس تھا، اپنا سارا سرمایہ، سب کچھ لیکر وہ میدان میں اتر پڑے تھے۔ کیا قم کے عوام کے ذہن میں یہ بات تھی کہ نو جنوری کو رونما ہونے والا واقعہ ملک گیر سطح پر سلسلہ وار مظاہروں اور جدوجہد کا سرچشمہ بن جائے گا اور اس طرح پورے ملک کے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے؟ کیا قم کے لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ وہ جو اقدام انجام دے رہے ہیں اس کی برکتیں لا متناہی ہوں گی؟ ظاہر ہے کوئی بھی یہ نہیں سوچ رہا تھا۔ لیکن وَ كانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنين (اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ہماری ذمہ داری ہے۔) فتح کی ضمانت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت اور اگر بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو کوئی قوم سچا ایمان رکھتی ہو، پختہ ایمان رکھتی ہو، یہ ایمان بصیرت و دانشمندی سے بھی بہرہ مند ہو اور بصیرت سے آراستہ یہ ایمان عملی اقدام پر منتج ہو تو ان تمام عوامل کے جمع ہو جانے کی صورت میں نصرت خداوندی یقینی ہے۔ اگر آپ کہیں دیکھتے ہیں کہ مومنین ہیں لیکن ان کی نصرت نہیں ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو ایمان میں کمزوری ہے، یا ایمان کا محور غلط ہے یعنی ایسی چیز پر عقیدہ ہے جس پر عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے، یا اگر ایمان درست ہے تو عالمی مسائل اور گرد و پیش کے حالات کے سلسلے میں بصیرت و درست ادراک نہیں ہے۔ بصیرت نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے انسان آنکھوں سے محروم ہو، پھر انسان راستہ دیکھ نہیں پاتا۔ بیشک آپ کے پاس عزم بھی ہے، ارادہ بھی ہے، لیکن آپ کو علم ہی نہیں ہے کہ عزم و ارادے کے ساتھ آپ کو بڑھنا کس سمت میں ہے۔ ہم نے 9 دی (مطابق 30 دسمبر 2009) کے واقعات کے سلسلے میں بصیرت کے نکتے پر جو اتنی تاکید کی اور جو بعض افراد کو کچھ گراں بھی گزری، اس کی وجہ یہی ہے۔ اگر بصیرت نہ ہو تو وہی ایمان اور وہی عقیدہ انسان کو غلط راستے پر لے جا سکتا ہے۔ جس کے پاس علم نہ ہو، جس کے پاس بصیرت نہ ہو، گرد و پیش کے حالات کا ادراک نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ بالکل ہی غیر متعلق راستے پر چل پڑے اور نتیجتا اس کی ساری توانائی بھی ضائع ہوگی اور انحراف کا بھی شکار ہوگا، بنابریں بصیرت بہت ضروری ہے۔ ایمان، پختہ ایمان، درست ایمان، بصیرت سے آراستہ ایمان کی بنیاد پر عمل صالح، مستقل مزاجی اور استقامت ہو تو فتح یقینی ہے۔ جو لوگ فتح حاصل نہیں کر پاتے ان میں مذکورہ کسی نہ کسی عنصر کا فقدان ہوتا ہے۔ یا ان میں ایمان نہیں ہوتا، یا ایمان درست نہیں ہوتا، یا استقامت و پائيداری نہیں ہوتی، یا بصیرت کا فقدان ہوتا ہے، یا بیچ راستے میں ذمہ داریوں کا بوجھ سر سے اتار کر پسپائی کر لی جاتی ہے، یہ باتیں ہوتی ہیں تو ظاہر ہے ک نتیجہ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ ملت ایران نے ان تمام شرطوں کو پورا کیا۔ اس کا ایمان بالکل درست تھا، کیونکہ اس قوم کا قائد سچا قائد تھا، آگاہ و باخبر قائد تھا، عالمی مسائل کا مکمل ادراک رکھنے والا فقیہ تھا، ذاتی مفادات و خواہشات سے بالکل بیگانہ رہبر تھا، قرآن و سنت کا علم رکھنے والا قائد تھا، اس قائد نے عوام کو راستہ دکھایا اور عوام نے مکمل بصیرت کے ساتھ اس راستے پر سفر کا آغاز کیا، بصیرت کے باعث انہیں بخوبی علم ہو گیا کہ کیا کرنا ہے اور انہوں نے وہ کام سرانجام دیا۔ ایسی صورت ہو تو وَ كانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنينَ۔ آج بھی یہی شرط ہے۔
ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے برتاؤ اور اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں، اپنے ماضی پر غور کریں، اپنی خامیوں اور خوبیوں سے سبق حاصل کریں، وہی حالات آج بھی ہیں، کوئي یہ تصور نہ کرے کہ جو طاقتیں ماضی میں اسلامی انقلاب کے مقابل اپنی پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہوئي تھیں، آج اپنے اس ارادے سے باز آ گئي ہیں۔ وہ باز نہیں آئیں، آج بھی وہ ہمارے خلاف کھڑی ہوئی ہیں لیکن ہر دشمن جب مجبور ہو جاتا ہے تو پسپائی اختیار کرتا ہے۔ اگر آپ نے دشمن کو مجبور کر دیا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گيا تو وہ پسپا ہو جاتا ہے لیکن اپنے عناد سے باز نہیں آتا۔ آج دنیا میں ایک بڑا مسئلہ یہی ہے۔ دشمن کو پہچاننے کی ضرورت ہے، دشمن مخاذ سے بخوبی آگاہ رہنے کی ضرورت ہے، دشمن کی مسکراہٹوں کے فریب میں نہیں آنا چاہئے، اس کے تبسم پر فریفتہ نہیں ہونا چاہئے، نصب العین کو کسی بھی حال میں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ کا نصب العین ہے اسلامی امنگوں اور اعلی اہداف کا حصول، یعنی انسان کی روحانی و مادی فلاح و بہبود، یعنی روحانی و مادی زندگی میں پیشرفت۔ یہ ہدف کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ ہمیشہ اس ہدف کی سمت بڑھنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ پختہ ایمان کے ذریعے، لگن اور محنت کے ذریعے، گرد و پیش کے حالات اور معروضی مسائل کے مکمل ادراک کے ذریعے، دشمن کے سلسلے میں مکمل آگاہی، میدان عمل اور مجاذ پیکار سے بخوبی واقفیت کے ذریعے فتح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، یہ چیز ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ میں جو بار بار عرض کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ کا زاویہ نگاہ اور ہمارے افق بالکل واضح اور روشن ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بحمد اللہ ہمارے نوجوان، ہمارے عوام، مرد و زن، سب زیور ایمان سے آراستہ ہیں، بصیرت سے مزین ہیں، چنانچہ دشمن کو خوب پہچانتے ہیں، ان کے اندر جذبہ عمل ہے، وہ جفاکش اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ایسا کون سا معاملہ ہے جس میں ہمارے نوجوان وارد ہوئے ہوں اور اسے حل نہ کر سکے ہوں؟ اس ملک میں جہاں بھی کام کے لئے ضروری وسائل اور بنیادیں تھیں وہاں ہم نے پیشرفت حاصل کی ہے۔ یہ اسی استعداد اور توانائی کی برکت ہے جو اللہ تعالی نے اس صاحب ایمان قوم کو تفویض فرمائی ہے۔ کام کرنے کا فطری نتیجہ ہی یہی ہے، ہمارا آگے بڑھنا طے ہے۔ علمی میدان میں، سماجی میدان میں، تعمیر و ترقی کے میدان میں، سیاسی میدان میں، مختلف میدانوں میں جہاں بھی ہم نے ان صلاحیتوں پر اعتماد کیا ہمیں ترقی ملی ہے۔ آج بھی یہی ہے۔ ملک کے حکام سے میں ہمیشہ یہ سفارش کرتا ہوں کہ ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے داخلی توانائیوں اور وسائل کا سہارا لیا جائے، بیرونی دنیا سے آس نہیں لگانا چاہئے۔ بیرونی مسائل جو بھی ہیں انہیں حل کرنا بھی یقینا ضروری ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ ایک فعال قوم، ایک فعال حکومت، تمام شعبوں میں سرگرم عمل رہتی ہے، بین الاقوامی مسائل میں، علاقائی مسائل میں، سفارتی شعبے میں یہ سرگرمیاں لازمی اور ضروری ہیں لیکن ہمیں آس لگانی چاہئے نصرت خداوندی سے اور ہمارا تکیہ ہونا چاہئے قوم اور وطن عزیز کی داخلی صلاحیتوں اور استعداد پر، یہ چیزیں وطن عزیز کو حقیقی تحفظ عطا کرتی ہیں۔
آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن اس خام خیالی میں ہیں کہ پابندیوں اور اقتصادی ناکہ بندی کی سختیوں کی وجہ سے ایران کے عوام گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے، جی نہیں یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ملت ایران کو سمجھنے میں غلطی کی ہے، ہمیشہ غلط فہمی میں رہے ہیں، آج بھی ان سے یہی غلطی ہو رہی ہے، وہ ہماری قوم کو نہیں پہچانتے، ہمارے ملک کو نہیں پہچانتے۔ یہ ایسی قوم ہے ہی نہیں جو گھٹنے ٹیک دے، ہتھیار ڈال دے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار حالات میں بھی یہ قوم پیچھے نہیں ہٹی۔ اس کی ایک واضح اور ناقابل انکار مثال آٹھ سالہ جنگ کی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آٹھ سال تک! دنیا کی ساری بڑی طاقتیں ایک مجرم کی پشت پناہی کرتی ہیں کہ ایک ملک اور قوم کے خلاف جارحیت کرے اور یہ قوم سب پر قابو پا لیتی ہے۔ یہ معمولی بات ہے؟ یہ کوئی عام چیز ہے؟ اس معاملے میں بھی «وَ كانَ حقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنين» آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس موقعے پر بھی عزم راسخ، پختہ ارادے اور خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے مشکلات کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلتی چلی گئیں۔ ہماری جو جنگ تھی وہ آغاز کے وقت جس شکل میں تھی، کیا ایک سال بعد بھی اس کی وہی شکل تھی، دو سال بعد اور تین سال بعد بھی وہی شکل تھی؟ پے در پے مشکلات رفع ہوتی گئيں۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکا، سابق سوویت یونین، یورپ، نیٹو، برطانیہ اور دوسروں نے بعثی حکومت کی کھل کر مدد کی۔ مجرم صدام کی حمایت کی، تا کہ ہمارے وطن عزیز کے خلاف اس کی جارحیت کو دوام حاصل ہو جائے، پائیداری مل جائے۔ مگر آٹھ سال گزر جانے کے بعد ایسے عالم میں کہ ہماری سرزمین کا ایک انچ حصہ بھی اس کے قبضے میں باقی نہیں رہا، اسے بھی بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا، بے شمار افراد مارے گئے، وہ عالمی دباؤ میں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔ آج بھی یہی ہے، آج بھی دشمن کے عناد کا مقابلہ اور تمام مشکلات کا ازالہ، قوم کی استقامت و پائیداری، ملک کی داخلی صلاحیتوں پر اعتماد، دلوں کو آمادہ کر دینے اور راہ راست کی طرف ان کی ہدایت کرنے والی اللہ تعالی کی ذات پر تکیہ کرنے سے ممکن ہے۔ البتہ جب دشمن دیکھ لیتا ہے کہ قوم پوری طرح آمادہ ہے، عزم راسخ کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے، بھرپور اعتماد کے ساتھ اپنا فیصلہ کر چکی ہے تو پھر دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان شاء اللہ ایرانی عوام، دشمنوں کی غلط فہمی کا ازالہ کر دیں گے۔ یہ جو انہیں غلط فہمی ہو گئی ہے کہ انہوں نے پابندیوں کے ذریعہ ایران کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے مجبور کر دیا ہے، حقیقت یہ نہیں ہے۔ ہم پہلے بھی اعلان کر چکے ہیں، اس قسم کی بیان بازیوں سے پہلے ہی ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس موضوع کے بارے میں جسے اپنے مفاد اور مصلحت کے لئے سازگار سمجھے گا، اس شیطان سے مذاکرات کرے گا تا کہ اس کے شر کو دفع کرے اور مشکلات حل ہوں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ قوم بے بس ہو گئی ہے۔ حالیہ مذاکرات کا ایک فائدہ یہی ہوا کہ ایران، ایرانی عوام، اسلام اور مسلمین سے امریکی حکام اور امریکی حکومت کی دشمنی آشکارا ہو گئی۔ سب کے سامنے یہ حقیقت آ گئی اور سب سمجھ گئے۔ آپ خود ان کا طرز بیان ملاحظہ فرما رہے ہیں، ان کی باتیں سن رہے ہیں، وہ جہاں کوئی عملی اقدام نہیں کر پاتے، خود اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ واقعی ان کے بس میں نہیں ہے، اگر ان کے بس میں ہوتا تو اب تک کر گزرتے۔ اگر ایران کی ایٹمی صنعت کے تاروپود بکھیر دینا ہمارے بس میں ہوتا تو ہم یقینا اب تک یہ کام کر چکے ہوتے، لیکن کیا کریں یہ ہمارے بس میں ہی نہیں ہے۔ امریکیوں کی یہ بات سچ ہے۔ کیوں ان کے بس کی بات نہیں ہے؟ اس لئے کہ ملت ایران نے یہ عزم کر لیا کہ اس مسئلے میں اور دیگر مسائل میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی، استقامت کا مظاہرہ کرے گی، جدت عملی کا مظاہرہ کرے گی، اور اس نے کامیابی کے ساتھ اس کا مظاہرہ کیا۔ بنابریں دشمن کچھ بھی کرنے سے عاجز ہے۔ تمام معاملات میں یہی چیز ہے۔ ان کی دشمنی آشکارا ہو گئی۔ ان کی بے بسی و ناتوانی سامنے آ گئی۔ اب وہ در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی شخصیات، ان کے اخبارات، ان کے سیاسی حلقے اپنا اندرونی کینہ، اپنا دیرینہ بغض جو گزشتہ تیس سال میں وہ الگ الگ انداز سے ظاہر کرتے رہے ہیں، آج بھی وہ اسی کینے پر عمل پیرا ہیں۔ انسانی حقوق کا مسئلہ، اسلام کا مسئلہ، دینی اصولوں کی پابندی کا مسئلہ، یہ ایسے موضوعات ہیں جنہیں وہ اس وقت چھیڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا یہ موقف ہے کہ ہر کوئی انسانی حقوق کے بارے میں بات کر سکتا ہے لیکن امریکیوں کو اس موضوع پر کچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں امریکی حکومت سب سے پیش پیش ہے۔ یہ کل اور ماضی کی بات نہیں ہے، اس وقت، آج بھی یہی امریکی حکومت ہے کہ جس کی مدد سے اور جس کے بے دریغ تعاون سے صیہونی حکومت اس علاقے میں اتنی شیطانی حرکتیں کر رہی ہے۔ فلسطین کی آج کیا حالت ہے؟ زمین کے اس مظلوم خطے میں ہنگامی حالت کے بیمار، علاج سے محروم ہیں، اس علاقے میں انتہائی ضروری اور ابتدائی دوائیں تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس غاصب صیہونی حکومت کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ایک ملک کا، ایک مظلوم قوم کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیتے ہیں، تا کہ اس کا باہری دنیا سے کوئی رابطہ باقی نہ رہے، اس کے پاس وسائل نہ رہیں، بیماروں کا علاج نہ ہو سکے، لوگ بھوک سے تڑپیں، زندگی کی اشیاء ضروریہ بھی ناپید ہو جائیں! یہ سب ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ یہ سب کرنے کے بعد انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی؟ یہ جناب (باراک اوباما) جب الیکشن لڑ رہے تھے، پانچ چھے سال قبل انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے جو وعدے کئے تھے ان میں ایک وعدہ یہ تھا کہ گوانتانامو جیل کو بند کر دیا جائے گا۔ چھے سات سال گزر چکے ہیں، کیا گوانتانامو جیل بند ہوئی؟ اس قماش کے ہیں یہ لوگ۔ عوام پر ظلم، لوگوں پر حملہ۔ افغانستان اور پاکستان میں بغیر پائلٹ کے طیارے استعمال کرنا، بے گناہ انسانوں کا قتل عام، مختلف علاقوں میں عام شہریوں کے خلاف گوناگوں مجرمانہ اقدامت اور ایسے جرائم جن کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی ہے اور شاید بعد میں ان کی ماہیت سامنے آئے۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں! ہم ریاستہائے متحدہ امریکا اور بہت سی دوسری مغربی حکومتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلے میں مدعی ہیں۔ ہم دادرسی کے مدعی ہیں، ہم ان سے سوال کرتے ہیں۔ ہم عالمی رائے عامہ کی عدالت میں ان کا گریبان پکڑیں گے اور ان کے پاس کوئي جواب نہیں ہوگا۔
ملت ایران اگر چاہتی ہے کہ اپنی مادی و روحانی مشکلات کا ازالہ کرے، اخلاقی و اقتصادی مسائل کو حل کرے تو اسے چاہئے کہ اپنی ذات پر، اپنی فکری صلاحیتوں پر، اپنی قوت ارادی پر، اپنے جذبہ ایمانی پر، اپنے نوجوانوں اور اپنی ممتاز شخصیات پر تکیہ کرے اور اللہ تعالی سے مشکلات کے حل کی دعا کرے۔ میرے عزیز بھائیو اور بہنو، میرے پیارے قمی بھائیو اور بہنو، میرے عزیز عوام! ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کرکے تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے اور منزلیں سر کی جا سکتی ہیں۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم قائد امام خمینی پر جنہوں نے شہر قم سے قیام فرمایا اور ہمیں، تمام ملت ایران کو اس نئے راستے سے روشناس کرایا۔ آپ نے بلند ہمتی کے ساتھ، قوت ایمانی کے ساتھ، استقامت و پائيداری کے ساتھ، اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس راستے پر قدم رکھا اور ہمیں اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھے۔ ہم زبان اور دل و جان کی گہرائیوں اور اپنے عمل میں ان شاء اللہ اسی راستے پر آگے بڑھنے کے پابند رہیں گے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں انقلابی تحریک کے شہیدوں پر اور مقدس دفاع کے شہیدوں پر، قم کے عزیز شہیدوں پر اور آپ تمام محترم و گرامی قدر بھائیوں اور بہنوں پر۔
 

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۱) سوره‌ى روم، آیت ۴۷
۲) سوره‌ى توبه، آیت ۱۱۱