آپ نے فرمایا: جس وجہ سے ہم نے خود مذاکرات کی مخالفت نہیں کی اسی وجہ سے مذاکرات کی مدت میں توسیع کی بھی ہم نے مخالفت نہیں کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم ہر منطقی اور منصفانہ معاہدے کو قبول کریں گے، البتہ ہمیں یہ یقین ہے کہ معاہدے کی ضرورت امریکی حکومت کو ہے اور معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، جبکہ مذاکرات کے کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌ (۱(
والحمدلله ربّ ‌العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على آله المنتجبین المطهّرین و صحبه المنتخبین و من تبعهم باحسان الى یوم الدّین.

سب سے پہلے تو خوش آمدید کہتا ہوں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، ملک کی 'بسیج' (رضاکار) برادری کے منتخب نمائندوں اور چنندہ افراد کو جنہوں نے علم و فکر اور ذہن و دماغ کو عشق و دل کا ہمسفر اور ہمنوا بنا دیا۔ آپ نے ایسے میدان میں قدم رکھا کہ جہاں موجودگی اور خدمت گزاری کا حتمی نتیجہ یقینی کامیابی اور بارگاہ خداوندی میں درجہ قبولیت ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ایک جگہ ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے «یُحِبُّهُم وَ یُحِبّونَه»(۲) جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ قرآن میں ایک اور مقام پر انہی افراد کا اور ان میں سے ایک جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے؛ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الَّذینَ یُقاتِلونَ فى سَبیلِه‌ صَفًّا کَاَنَّهُم بُنیانٌ مَرصوص؛(۳) یعنی یہی نوجوان، یہی مرد و خواتین، یہ چنندہ اور فرزانہ شخصیتیں اور یہی صاحب ایمان افراد جو اپنی تمام تر توانائیوں اور پورے وجود سے میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔ ہم بسیجی (رضاکار) انسان کو بھی انہیں خصوصیات کا مالک سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ سب کو توفیقات سے نوازے، آپ کو ایک لمحے کے لئے بھی اپنی رہنمائی اور ہدایت سے بے بہرہ نہ رکھے اور روز بروز آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ دونوں برادران گرامی، پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ اور بسیج مستضعفین (رضاکار فورس) کے سربراہ کی تقریریں بالکل درست اور پرمغز تھیں۔ بڑی سنجیدہ اور نپی تلی تقریریں تھیں۔ میں بھی چند جملے آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ ہم نے شروع سے اب تک بسیج (رضاکار فورس) کو ہمیشہ میدان میں مصروف کار پایا ہے، عمل کے مختلف میدانوں میں۔ مقدس دفاع کے دوران آٹھ سالہ جنگ کے میدان میں، پھر تعمیراتی مہم کے دوران، گوناگوں سائنسی میدانوں میں، اسٹیم سیلز ٹکنالوجی سے لیکر ایٹمی ٹکنالوجی تک ہر میدان میں رضاکار فورس نے کارنامہ انجام دیا ہے۔ فرنٹ لائن محاذ کے قریب بنائے گئے اسپتالوں میں ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی بات کی جائے تو میں نے خود اس زمانے میں ان اسپتالوں کو دیکھا جنہیں دشمن کم رینج کے مارٹر گولوں سے بھی نشانہ بنا سکتا تھا، تہران سے اور دیگر علاقوں کے ڈاکٹر ان اسپتالوں میں آتے تھے اور جیسے ہی محاذ سے انہیں ہدایت دی جاتی تھی کہ روانہ ہوں وہ فورا اپنا بیگ اٹھا کر جو ہمیشہ تیار رہتا تھا، روانہ ہو جاتے تھے اور متعلقہ مقام پر پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیتے تھے۔ رضاکار فورس کی فنکارانہ سرگرمیوں کا بھی یہی عالم ہے، فن و ہنر کے میدان میں جو موثر سرگرمیاں انجام پا رہی ہیں اور روز بروز ان کا معیار اونچا ہوتا جا رہا ہے آپ ان میں ہمارے ان رضاکاروں کو موجود پائيں گے۔ البتہ یہ میدان بہت زیادہ وسیع ہے، اس پر میں بعد میں کچھ گفتگو کروں گا۔ علمی کاوشوں کا معاملہ ہو، آرٹ سے متعلق تخلیقات ہوں، جنگ سے متعلق سرگرمیاں ہوں، تعمیر و ترقی کی اسکیمیں ہوں یا اقتصادی منصوبے ہوں ہر جگہ ان کی خدمات ہیں۔
اس حقیر کے نقطہ نگاہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جو چیز بہت کم زیر بحث آئی ہے جبکہ اس پر گفتگو کی ضرورت ہے، رضاکار فورس کے پاس موجود فکری پشت پناہی اور فکری سرمایہ ہے۔ بسیج در حقیقت ایک فکر ہے، ایک سوچ ہے، ایک نظریہ ہے، بلکہ نظریات کا ایک مجموعہ ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ تعلیم یافتہ افراد، علمی شخصیات، نابغہ ہستیاں جو مختلف علمی و سائنسی میدانوں سے تعلق رکتھی ہیں وہ 'بسیج' (رضاکار فورس) کا حصہ بن جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ 'بسیج' صرف جذباتیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر ایک محکم منطقی فکر ہے۔ جب اس منطقی فکر، اس علم و نظر کو عمل اور اقدام کا ساتھ مل جاتا ہے تو کرشمے رونما ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس فکر و نظر کی بنیاد کیا ہے؟
میں اختصار سے چند جملے اسی فکر اور نظرئے کے بارے میں عرض کروں گا جو بسیج کا ستون اور بنیاد ہے، جو بسیج کا فکری سرمایہ ہے۔ اس ضمن میں میں دو نکات بیان کروں گا جن پر غور و فکر اور بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
اس فکر کی بنیاد انسان کا احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کا جذبہ ہے۔ انسان ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔ اس فکر کے مد مقابل جو صورت حال ہے وہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا ہے، چھوڑو ہٹاؤ، جاؤ مست رہو، بس اپنا دیکھو جیسی باتوں پر استوار سوچ ہے۔ رضاکار فورس کی فکری بنیاد یہی انسانی اور خدائی ذمہ داری کا احساس ہے جس کی مستحکم دینی بنیاد بھی ہے، اس کی میں تشریح کروں گا۔ صرف اپنی ذات کے بارے میں، اپنے کنبے اور نزدیکی افراد کے بارے میں ذمہ داری کا احساس نہیں بلکہ اس احساس ذمہ داری کے ساتھ ہی زندگی کے واقعات، دنیا کے مستقبل، ملک کے مستقبل، معاشرے کے مستقبل، خواہ وہ مسلم معاشرہ اور ملک ہو یا غیر مسلم، اس کے تعلق سے ذمہ داری کا احساس۔ یہ احساس ذمہ داری صرف اپنے ہم مذہب اور ہم مسلک افراد تک محدود نہیں ہے، بلکہ غیر مسلم افراد اور مومنین کے دائرے سے باہر کے لوگوں کے تعلق سے بھی ذمہ داری کا احساس ضروری ہے۔ یہ کیفیت اس سوچ کے بالکل برخلاف ہے جو کہتی ہے کہ چھوڑو ہٹاؤ، یہ تساہلی کی حالت اور ذمہ داریوں سے بھاگنے کی عادت کے بالکل برخلاف ہے۔ رضاکار فورس کی اصلی بنیاد یہی احساس ذمہ داری اور جذبہ فرض شناسی ہے۔ ذمہ داری اور فریضے کا یہ احساس اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات میں ہے۔ یعنی اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام انسان کو ایسی مخلوق قرار دیتا ہے جو ذمہ دار ہے، اسے کچھ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
آپ اسلام کے گوناگوں احکامات پر غور کیجئے۔ مثال کے طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم ہے۔ امر بالمعروف یعنی یہ کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ نیکی اور اچھائی کی ترویج کیجئے، اس کا حکم دیجئے۔ نہی عن المنکر یعنی برائی سے، بدی اور گناہ سے منع کیجئے، مختلف طریقوں سے اس کا سد باب کیجئے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا حقیقی مفہوم ہے معاشرے کی عمومی صحتمندی اور سلامتی کی بابت ذمہ داری اور فریضے کا احساس۔ سب ذمہ دار ہیں۔ میں بھی ذمہ دار ہوں، آپ کی بھی ذمہ داری ہے، تیسرا شخص بھی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح جہاد کا مسئلہ ہے۔ اسلامی جہاد در حقیقت ان اقوام کی مدد سے عبارت ہے جنہیں استعماری و استکباری طاقتوں کی سیاست نے اس طرح محصور کر رکھا ہے کہ ان تک ہدایت کی روشنی نہ پہنچ سکے۔ جہاد اسی حصار کو توڑنے اور اسی پردے کو چاک کرنے کے لئے ہونا چاہئے، یہ ہے اسلامی جہاد۔ یہ بحث کہ جہاد دفاعی عمل ہے یا پیشگی حملہ ہے، اسی طرح کی دوسری بحثیں در حقیقت فروعی بحثیں ہیں۔ اصلی موضوع یہ ہے: ما لَکُم لا تُقاتِلونَ فى سَبیلِ اللهِ وَ المُستَضعَفینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّسآءِ وَ الوِلدان؛(۴) آپ جہاد کیوں نہیں کرتے، قتال کیوں نہیں کرتے، راہ خدا میں جنگ کیوں نہیں کرتے۔ اس کے بعد فورا کہا جاتا ہے کہ اور مستضعفین کی راہ میں مستضعفین کی نجات کے لئے؟ یہی احساس ذمہ داری ہے۔ یعنی آپ جائيے اپنی جان خطرے میں ڈالئے، جان ہتھیلی پر رکھ کر پرخطر وادیوں میں اترئے، تاکہ کمزور کر دئے گئے لوگوں (مستضعفین) کو نجات حاصل ہو۔ یہ بھی وہی احساس ذمہ داری اور فرض شناسی ہے۔ یا اس معروف حدیث کو دیکھئے؛ «مَن اَصبَحَ وَ لَم یَهتَمَّ بِاُمورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ بِمُسلِم»(۵)۔ اسی طرح اسلامی متون اور کتب میں ایسی بہت سی روایتیں اور قرآن کی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے مسلمہ احکام میں ہے۔ یعنی اسلام انسان کو اسی طرح ذمہ دار اور فرض شناس دیکھنا چاہتا ہے، خود اپنی ذات کے تعلق سے بھی، اپنے قریبی لوگوں کے تعلق سے بھی، اپنے معاشرے کے تعلق سے بھی اور عالم انسانیت کے تعلق سے بھی انسان خود کو ذمہ دار سمجھے۔ اگر آپ اس نظرئے کو اسلامی متون اور تعلیمات میں تلاش کریں تو آپ کو بڑی حیرت انگیز بات نظر آئیگی کہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کے مسئلے پر کتنی توجہ دی گئی ہے؟! پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں، گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ «اَللّهُمَّ اهدِ قَومى» (۶) قوم میں وہی لوگ تھے جو آپ کو پتھر مارتے تھے، آنحضرت کی شان میں گستاخی کرتے تھے، قتل کر دینے کی دھمکیاں دیتے تھے، ان پر اتنی مصیبتوں کے پہاڑ توڑے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم التجا کرتے ہیں کہ پالنے والے! انہیں راہ نجات پر لا دے، انہیں شفا عطا کر، ان کی ہدایت فرما! یہ ہے پیغمبر کی روش۔ امیر المومنین علیہ السلام جب سنتے ہیں کہ معاویہ کے سپاہیوں نے جاکر ایک شہر کو لوٹ لیا تو آپ غضبناک ہوکر فرماتے ہیں؛- بَلَغَنى اَنَّ الرَّجُلَ مِنهُم کان یَدخُلُ عَلَى المَراَةِ المُسلِمَةِ وَ الاُخرَى المُعاهِدَة(۷) لٹیرے لشکر کے فوجی مسلمانوں اور معاهَد (یعنی ایسے غیر مسلم جو اسلامی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں جیسے یہودی، عیسائی) افراد کے گھروں میں داخل ہوئے، خواتین کی توہین کی، عورتوں کے کنگن اور زیور چھین لئے۔ اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں کہ اس پر اگر کوئی مسلمان افسوس کے مارے مر جائے تو بالکل قابل فہم ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے۔ یہ ہے احساس ذمہ داری کا عالم۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ امیر المومنین اگر مر جائے تو بالکل صحیح ہے بلکہ فرماتے ہیں کہ اگر انسان، اگر مسلمان اس افسوس میں مر جائے تو بالکل صحیح ہے۔ یہ وہی احساس ذمہ داری اور فرض شناسی ہے۔ بسیج کی تحریک کی اصلی بنیاد یہی احساس ذمہ داری ہے۔
اس کے ساتھ دوسرا اہم نکتہ جو پہلے ستون کا تکملہ ہے، وہ عبارت ہے بصیرت اور روشن فکری سے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے وقت کی صحیح شناخت، ضرورت کا درست ادراک، ترجیحات کی صحیح نشاندہی، دشمن کی پہچان، دوست کی پہچان، دشمن کے مقابلے میں استعمال ہونے والے کارساز وسائل کی شناخت، اسی واقفیت اور شناخت کا نام ہے بصیرت۔ ہمیشہ ایک ہی ہتھیار سے ہر لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ کس ہتھیار کو استعمال کرنا چاہئے؟ دشمن کہاں ہے؟ میں نے بارہا عرض کیا کہ جن لوگوں کے پاس بصیرت نہیں ہے، جیسے یہ بیچارے جو (سنہ 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے) فتنے میں گرفتار ہو گئے، ایسے افراد کی مانند ہیں جو رات کی تاریکی میں، فضا میں چھائی دھند اور غبار میں اپنے مخالف کو اور اپنے دشمن کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں پتہ نہیں ہے کہ دشمن کہاں ہے۔ فوجی جنگوں کی ایک اہم ترین شرط اطلاعات کی فراہمی ہے۔ جائیے اطلاعات حاصل کیجئے اور دیکھئے کہ دشمن کہاں ہے۔ بغیر اطلاعات کے اگر آپ نے اقدام کیا تو ممکن ہے ایسی جگہ پر آپ وار کر دیں جہاں آپ کا دشمن نہیں دوست موجود ہے۔ ایسے انسان پر آپ حملہ آور ہو جائیں جو آپ کا دشمن نہیں ہے، اس طرح کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے دشمن کی ہی مدد کرنے لگتے ہیں۔ اگر بصیرت ہو تو پھر صورت حال ایسی ہوتی ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: العالِمُ بِزَمانِهِ لا تَهجُمُ عَلَیهِ اللَّوابِس؛(۸) اپنے زمانے کی شناخت رکھنے والے پر شبہات، نافہمی اور بے علمی کا حملہ نہیں ہوتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر مشکلات پیدا ہوں گی، خواہ اس شخص کے اندر احساس ذمہ داری ہی کیوں نے ہو۔ (اسلامی انقلاب کی) تحریک کے دوران کچھ لوگوں کے اندر احساس ذمہ داری تو تھا لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اس جذبے اور احساس کو کہاں بروئے لائیں۔ ایسی جگہ استعمال کرتے تھے جس سے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی عظیم جدوجہد اور تحریک کو نقصان پہنچتا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد بھی ایسی مثالیں پیش آئیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض افراد ہیں جن کے اندر احساس ذمہ داری ہے، فرض شناسی کا جذبہ ہے، جوش و خروش بھی ہے، لیکن اس جذبے اور جوش و خروش کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ایسی جگہ استعمال کرتے ہیں اور اس جگہ کو نشانہ بناتے ہیں جسے نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ یہ بے بصیرتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم نے چند سال قبل فتنہ و آشوب کے معاملے میں بصیرت کی بات کی۔ کچھ لوگوں نے طنزیہ طور پر کہا بصیرت؟!! جی ہاں، بصیرت، اگر بصیرت نہ تو احساس ذمہ داری اور جذبہ فرض شناسی جتنا زیادہ ہوگا، اتنا ہی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ ان بے بصیرت لوگوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا جو دوست و دشمن کو نہیں پہچانتے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جذبے کو، اس توانائی کو، اس احساس کو کہاں استعمال کریں۔ تو یہ ہے دوسرا ستون جو انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ دوسرا ستون نہ ہو تو امر بالمعروف بھی غلط طریقے سے انجام پائے گا، اس کا جہاد بھی غلط سمت میں چلا جائے گا، اس کا حدر درجہ توجہ والا عمل بھی غلط ہوگا، اور وہ غلط راستے پر چلا جائے گا۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور اللہ کی رضا حاصل ہو ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی کو جنہوں نے ان تمام پہلوؤں پر پہلے ہی غور کر لیا، ان کی تیز بیں نگاہوں، روشن فکر ذہن اور الوہی بصیرت نے ان چیزوں کا ادراک کر لیا۔ حالانکہ انہوں نے کہیں بھی سیاست کی تعلیم حاصل نہیں کی، کسی سے نہیں سیکھا، اس سلسلے میں جتنی بھی چیزیں ضروری تھیں، اللہ تعالی سے انہیں ان کی تلقین مل گئی اور ان کے پاکیزہ قلب پر اس کا الہام ہوا۔ امام خمینی نے 'بسیج' (رضاکار فورس ) کی بھی تشکیل کر دی اور پھر اس کی سمت و جہت کا بھی تعین کر دیا۔ امام خمینی نے صرف یہ کہہ کر اکتفا نہیں کیا کہ اگے بڑھئے، حرکت میں آئیے، اپنی ذمہ داری کو محسوس کیجئے، رضاکار بنئے۔ نہیں، انہوں نے واضح طور پر سمجھایا کہ کیا کام انجام دینا ہے۔ ہمیں سمجھایا کہ جتنا جوش و خروش اور دل کا غبار ہے وہ امریکا پر نکالئے۔ اسے کہتے ہیں سمت دکھانا، یعنی یہ سمجھانا کہ کیا کرنا چاہئے، کس طرح بڑھنا چاہئے، کس جگہ کو نشانہ بنانا چاہئے، امام خمینی نے یہ چیزیں ہمیں سکھائیں۔
جنگ کے دوران، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران امام خمینی بار بار کہتے تھے: جنگ تمام امور میں سر فہرست ہے۔ ہم لوگ ملک کے اندر عہدوں پر تھے، حقیر، صدر مملکت تھا، کوئی اور کسی اور عہدے پر تھا، ہمارے سامنے ہزار کام ہوتے تھے۔ جب حکام کے سامنے اتنے زیادہ اجرائی اور انتظامی امور اور ذمہ داریاں ہوں تو کبھی غفلت سے بھی دو چار ہو جاتے ہیں۔ لیکن امام خمینی ہمیں ہمیشہ راستہ دکھاتے تھے، سب کو، حکام کو، عوام کو، نوجوانوں کو سب کو سمجھاتے تھے کہ جملہ امور میں جنگ سر فہرست ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ امام خمینی نے سمت دکھائی کہ لوگ اس طرف بڑھیں، یہ بہت اہم ہے۔
قدس کی غاصب صیہونی حکومت سے جنگ کے لئے شام جانے کے معاملے میں ہمارے نوجوانوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ دو افراد میرے پاس آئے اور اس وقت وہ دونوں ہمارے گراں قدر شہدا کی فہرست میں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ امام خمینی کو اس کی اطلاع نہیں تھی، جب انہیں معلوم ہوا تو فرمایا کہ اسرائیل سے مقابلے کا راستہ عراق سے گزرتا ہے، امام خمینی نے انہیں روکا، جو لوگ چلے گئے تھے انہیں واپس بلایا گيا۔ دیکھئے یہ ہے ترجیحات کا ادراک، ترجیحات کی شناخت، امام خمینی راستہ بتاتے تھے اور سمت کی نشاندہی کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام کی حفاظت 'اوجب واجبات' (سب سے بڑے واجبوں) میں سے ایک ہے یا 'اوجب واجبات' (سب سے بڑا واجب) ہے۔ یعنی دوسرے تمام مسائل اس کے بعد ہیں۔ اس طرح ہمیں سمت دکھائی۔ ممکن ہے کہ کسی دوست کی رائے سے آپ کسی چھوٹے یا بڑے مسئلے میں اختلاف کریں، تاہم اسلامی نظام کی حفاظت کی جہاں تک بات ہے تو دونوں مساوی طور پر ذمہ دار ہیں۔ جو لوگ امام خمینی کی یہ بات سمجھ نہیں سکے انہوں نے بعض مواقع پر بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ امام خمینی سمت کی نشاندہی کر دیتے تھے۔ اس عظیم انسان کا یہ طرز عمل تھا۔
تو فکری ستون سب سے پہلے تو احساس ذمہ داری سے عبارت ہے جو رضاکاری کے میدان میں خدمت کا عزم رکھنے والے آپ جیسے افراد کا انتہائی محکم فکری سرمایہ ہے۔ اس کی لازمی شرط جسے دوسرا اہم ستون سمجھا جاتا ہے، بصیرت ہے۔ ان دونوں چیزوں سے ایک لمحے کے لئے بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ احساس ذمہ داری یعنی اللہ کے لئے اور 'صَبراً وَ احتِساباً' محاسبے کو مد نظر رکھتے ہوئے (9)۔ پالنے والے میں یہ سائنسی ایجاد کر رہا ہو، یہ مطالعہ کر رہا ہوں، فلاں فنکارانہ شاہکار کی تخلیق کر رہا ہوں، یہ جدوجہد کر رہا ہوں، یہ اقتصادی پروجیکٹ مکمل کر رہا ہوں، فلاں شخص کی مدد کر رہا ہوں، فلاں شخص سے مقابلہ کر رہا ہوں، یہ سب تیرے لئے ہے۔ چونکہ تونے مجھے یہ ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہی احساس ذمہ داری، اللہ کی بارگاہ میں کئے گئے میثاق کا احساس، اس کے بعد آگاہی و بصیرت۔ یعنی ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم کس مقام پر ہیں، دشمن کہاں ہے، دشمن کون ہے، دشمن سے ہمیں کس ہتھیار سے لڑنا ہے۔ یہ دوسرا ستون ہے۔ اس نقطہ نظر کی مدد سے رضاکاروں کا دائرہ بھی معین ہو سکتا ہے اور ان کی سرگرمیوں کا میدان اور پلیٹ فارم بھی واضح ہو سکتا ہے۔ جہاں تک رضاکاروں کے دائرے کی بات ہے اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ 'بسیجی' (رضاکار) کون ہے تو جواب یہ ہے کہ جو بھی اس فکری و اعتقادی اور انسانی دائرے میں مصروف خدمت ہے، وہ 'بسیجی' ہے۔ البتہ رضاکار مزاحمتی فورس اس ملک گير عظیم عمومی تحریک کا مظہر ہے، نظم و ترتیب، ڈسپلن، صحیح سمت میں آگے بڑھنے اور تعلیم و تربیت کا مظہر ہے۔ بسیجی ہونا اور یہ عنوان بڑا وسیع ہے۔ بسیج مزاحمتی فورس بیشک وہ اصلی قلعہ، چھاونی اور مرکز ہے اس عظیم سایبان کا جس نے پوری قوم کو اپنے سائے میں جگہ دی ہے۔ یہ نظم و ضبط اور ڈسپلن کا درس دیتا ہے، اس سے آمادہ رہنے کا جذبہ ملتا ہے، اس سے آگے بڑھنے اور اقدام کرنے کا جذبہ ملتا ہے، معاشرے کی سطح پر بھی، گوناگوں طبقات اور اصناف کی سطح پر بھی، یونیورسٹی کی سطح پر بھی، اسکول اور کالج کی سطح پر بھی، دینی تعلیمی مراکز کی سطح پر بھی، ہر جگہ مزاحمتی فورس بسیج (رضاکار) کی موجودگی کا یہی معنی اور یہی مفہوم ہے۔ (بسیج کا مطلب ہے) صحیح سمت اور راستے کا تعین، رہنمائی، ڈسپلن، نظم و ترتیب، اس 'مجموعے' (جس میں مختلف طبقات اور اصناف شامل ہیں) کے پاس جو توانائی ہے اور جو امکانات ہیں ان کے اعتبار سے فرائض کا تعین۔ جیسا کہ دوستوں نے ابھی تشریح بھی کی، ظاہر ہے وسائل محدود ہیں۔ اب تک جو گنجائش ہے اس کی بنیاد پر یہ تعداد بحمد اللہ دسیوں لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ رضاکاروں کی افرادی قوت کا دائرہ ہے۔
جہاں تک میدانوں کی بات ہے تو میدان لا تعداد ہیں۔ کام کے میدانوں کی کوئی حد نہیں معین کی جا سکتی۔ دفاع کا میدان ہے، سیاست کا میدان ہے، تعمیراتی میدان ہے، معیشت کا میدان ہے، آرٹ کا شعبہ ہے، علم و تحقیق اور سائنس و ٹکنالوجی کا شعبہ ہے، مذہبی تنظیموں کا میدان ہے، عزاداری کا میدان ہے، یہ تمام شعبے رضاکاروں کی فعالیت کے میدان ہیں۔ ان تمام میدانوں میں ہمارے پاس بہترین نمونے اور آئیڈیل بھی موجود ہیں، بڑی نمایاں ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی عظمت کو ثابت بھی کیا ہے۔ جنگ میں ہمارے پاس 'عظیم سردار' (بسیجی کمانڈر) رہے ہیں، عظیم ہستیاں رہی ہیں، ان میں سے بعض تو علمی شخصیات تھیں، مگر میدان جنگ میں وارد ہوکر وہ عام سپاہی بن گئیں، ہاتھ میں بندوق اٹھائی اور خدمت کی۔ جیسے شہید چمران۔ شہید چمران ایک علمی ہستی تھے، بہترین فنکار تھے، انہوں نے خود مجھ سے کہا کہ میں فوٹوگرافی کا آرٹسٹ ہوں۔ جنگ میں آئے، فوجی وردی پہنی اور سپاہی بن گئے۔ میدان جنگ میں آنے سے پہلے وہ ایک علمی ہستی تھے۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اس میدان میں آنے سے پہلے تک کوئی اہم شخصیت نہیں تھے، مگر دفاع وطن کے اس میدان نے انہیں آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جیسے استاد عبد الحسین بنا (10) جو معماری کا کام کرتے تھے، میدان جنگ میں وارد ہوئے تو خرشید بن کر بلندیوں پر جگمگانے لگے، عظیم ہستی قرار پائے، وہ بھی کیسی عظیم ہستی!! یہ بڑی نمایاں مثالیں ہیں۔ علم و سائنس کے میدان میں بھی ہمارے پاس ممتاز ہستیاں موجود ہیں۔ جیسے کاظمی آشتیانی مرحوم جنہوں نے اسٹیم سیلز کی ٹکنالوجی اور اس عظیم ادارے کو شروع کیا اور بڑی تعداد میں ماہرین کی تربیت کی۔ ان کے رفقائے کار کا بھی یہی عالم ہے، چنانچہ آج بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ یا جیسے شہید شہریاری، ان دنوں ہم شہید شہریاری کا ذکر بار بار کر رہے ہیں کیونکہ یہ ان کی شہادت کی برسی کے ایام ہیں (11)۔ دوسرے بھی اسی طرح ہیں۔ رضائی نژاد، علی محمدی، احمدی روشن، یہ سب منتخب علمی شخصیات تھیں جنہوں نے سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں قدم رکھا اور بسیجی طرز عمل کے مطابق کام کیا۔ شہید شہریاری نے بسیجی انداز میں کام کیا۔ جن دنوں ملت ایران پر دروازے بند کر دینے کی سازش ہو رہی تھی، ان خاص چالوں کے ذریعے جن میں بہت سی چالوں کے بارے میں عوام کو ٹیلی ویزن سے اور خبروں میں کچھ حقائق معلوم ہو چکے ہیں اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ابھی صیغہ راز میں ہیں، بعد میں پتہ چلے گا کہ کتنے خبیثانہ اقدامات کئے گئے، یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ نیوکلیئر میڈیسن سے عوام محروم رہ جائیں اور اسلامی جمہوریہ مشکل میں پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں فروخت کریں گے تا کہ تہران کا پلانٹ بند ہو جائے۔ مرحوم شہید شہریاری کام میں جٹ گئے، جی توڑ محنت کی اور بعد میں ہمیں بتایا کہ ہم نے بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم تیار کر لیا ہے، اس کے بعد ہمیں خوشخبری دی کہ ہم نے ایٹمی فیول کی سلاخیں اور پلیٹس بھی تیار کر لی ہیں۔ دشمن مبہوت رہ گیا۔ یہ 'بسیجی' (رضاکار کا) کارنامہ تھا۔ یہ معمولی کام نہیں تھا۔ ان تمام میدانوں میں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، ہزاروں عظیم انسان تھے اور آج بھی ہیں جنہوں نے جانفشانی کی اور کر رہے ہیں، ان میں بعض کا ہم نے نام بھی لیا ہے۔
یہ فکر جو 'بسیجی' فکر ہے اور جسے اسلامی مملکت ایران میں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے وجود بخشا ہے، یہ باہر بھی برآمد ہو چکی ہے۔ ہم نے بارہا عرض کیا کہ انقلاب سے وابستہ حقائق اور اسلام سے مربوط مفاہیم گل بہاری کی خوشبو کی مانند ہیں، کوئي بھی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی، یہ پھیل جاتے ہیں، ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں، یہ روح افزا اور حیات بخش باد نسیم کی مانند ہیں جو خود بخود ذرے ذرے تک پہنچ جاتی ہے، کوئی لاکھ ہنگامہ کرے، واویلا مچائے، یہ پہنچ چکے ہیں، برآمد ہو چکے ہیں اور اس وقت آپ انہیں مختلف ملکوں میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ طرز فکر لبنان میں اپنا کام کر رہا ہے، عراق میں اپنے اثرات دکھا رہا ہے۔ عراقی نوجوان آگے بڑھے، اپنے ملک کی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے اور یہ عظیم کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ شام میں بھی یہی صورت حال ہے، غزہ میں بھی یہی مںاظر ہیں، فلسطین میں بھی یہی ہو رہا ہے، یمن کا بھی یہی عالم ہے، ان شاء اللہ قدس شریف میں الاقصی کی آزادی کے لئے بھی یہی ہوگا۔
تو یہ بات واضح ہو گئی۔ میں ابھی تشریح کروں گا کہ اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران ناقابل تسخیر بن گیا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی نظام کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے، وہ جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بسیجی (رضاکارانہ) طرز فکر کی برکت سے اور بسیجی عمل اور اقدام کی وجہ سے ناقابل تسخیر بن چکا ہے۔ ہر ایرانی شہری میں 'بسیجی' (رضاکار) بننے کی استعداد موجود ہے۔ سوائے ان معدودے چند افراد کے جو خواہشات کے اسیر ہیں یا مادہ پرستی سے متاثر ہیں یا خود غرضی سے کا شکار ہیں یا دشمن سے مرعوب ہیں، انہیں ہم الگ رکھتے ہیں، وہ مٹھی بھر سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ ملت ایران کی واضح اکثریت استعداد کے اعتبار سے رضاکار ہے اور اسلامی جمہوری نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کا راز بھی یہی ہے۔ البتہ سب کو چاہئے کہ بہت ہوشیار رہیں، امتحان کی گھڑی ہمیشہ آتی رہتی ہے، سب کی آزمائش ہوتی ہے، پیش قدمی کا عمل سست روی کا شکار نہیں ہونا چاہئے، پیش قدمی کی سمت و جہت میں کوئی غلطی اور انحراف پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ ہم استکبار سے مقابلے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں، ہم استکبار کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ہم لوگ امریکا کا نام جو بار بار لیتے ہیں، ہمارے عوام بھی اور خود ہم بھی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کا مسئلہ استکبار کی وجہ سے ہے۔ امریکی حکومت ایک استکباری حکومت ہے، امریکا کی روش مستکبرانہ ہے، امریکا سے روئے زمین پر واقع ایک ملک کی حیثیت سے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے، وہ بھی دوسرے ملکوں کی مانند ایک ملک ہے، امریکا سے ہمارا تنازعہ امریکی استکبار کی وجہ سے ہے۔ یہ مستکبر ہیں، یہ متکبر ہیں، تسلط پسند ہیں، تحکمانہ لہجے میں بات کرنے والے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران اسی ایٹمی مذاکرات کے معاملے میں جو بیان انہوں نے دئے آپ انہیں دیکھئے۔ چند مہینے مذاکرات کئے، پھر مذاکرات کی مدت میں توسیع بھی کی اور اب ہمیشہ کی طرح پھر بیان بازی شروع کر دی۔
میں اس سلسلے میں چند جملے عرض کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم مذاکرات کی مدت میں توسیع کی مخالفت نہیں کرتے، بالکل اسی طرح اور اسی وجہ سے جس کی بنیاد پر ہم نے خود مذاکرات کی مخالفت نہیں کی۔ ہم نے مذاکرات کی مخالفت نہیں کی تھی اور عوام کو ہم نے اس کی وجہ بھی بتا دی تھی۔ میں نے تقریر میں اس کی وجوہات بیان کر دی تھیں۔ اس موقع پر مذاکرات کی مدت میں توسیع کی بھی ہم مخالفت نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہماری مذاکراتی ٹیم واقعی بڑی محنتی اور پرعزم ہے۔ استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے، منطقی روش کے مطابق گفتگو کرتی ہے، دباؤ میں ہرگز نہیں آتی، یہ ٹیم واقعی اپنا کام بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اس بات کو سب ذہن میں رکھیں۔ تفصیلات سے اور ان مذاکرات میں کیا کیا صورت حال پیش آ رہی ہے اس سے غالبا ہمارے عوام باخبر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیم میں شامل افراد بڑی لگن، دانشمندی اور دردمندی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، منطقی روش کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ مد مقابل فریق اور بنیادی طور پر امریکا کے برخلاف جو آئے دن کوئی نئی بات شروع کر دیتا ہے۔ آپسی گفتگو میں اور مراسلہ نگاری میں ان کا لہجہ کچھ اور ہوتا ہے، عوامی پلیٹ فارم پر اور تقاریر میں ان کا لہجہ کچھ اور ہوتا ہے۔ آج ایک بات کرتے ہیں تو کل اسے واپس لے لیتے ہیں۔ جب انسان سیدھے راستے پر اور صراط مستقیم پر نہ ہو تو یہی حالت ہوتی ہے۔ وہ اپنی داخلی مشکلات کے لئے مذاکرات کے مسئلے کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، لہذا مجبور ہیں کہ وہاں کسی اور انداز سے بات کریں اور یہاں کسی اور لہجے میں گفتگو کریں۔ لیکن ہماری مذاکراتی ٹیم کا یہ انداز نہیں ہے۔ ہماری مذاکراتی ٹیم محکم دلیلوں کے ساتھ ان سے روبرو ہوتی ہے۔ البتہ این مذاکرات کاروں کے درمیان یہ جو چند افراد ایران کے سامنے ہیں، ایران اکیلا ہے جبکہ ان کا پورا ایک لشکر ہے، کئی ممالک کے مذاکرات کار ایسے ہیں جن میں ہر ایک کی پشت پر سفارت کاروں، رابطہ عامہ، فوٹوگرافروں اور تجزیہ نگاروں وغیرہ کا پورا لشکر ہے، ان چند مذاکرات کاروں میں سب سے زیادہ بے ادب امریکی ہیں اور سب سے زیادہ موذی برطانوی مذاکرات کار ہیں۔ اب جو انہوں نے مذاکرات کی مدت میں توسیع کی ہے تو سب جان لیں، وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں ہمارے مد مقابل ہیں اور وہ لوگ بھی جو ملک کے اندر اس معاملے میں فکرمند ہیں اور ان کی نگاہیں ان مذاکرات پر ٹکی ہوئی ہیں، کہ اگر مذاکرات کسی نتیجے تک نہ پہنچے تو جو سب سے زیادہ نقصان اٹھائے گا وہ ہم نہیں بلکہ امریکی ہوں گے۔ ہم اپنے عوام کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ مسئلے کی حقیقت سے اپنے عوام کو باخبر رکھتے ہیں، اپنی قوم کے سامنے بیان کر دیتے ہیں، ہمارے عوام اب یہ سمجھ بھی چکے ہیں اور مختلف دلائل کے ذریعے اسے حتمی طور پر ثابت بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایران کے سلسلے میں مغرب اور استکبار کا ارادہ یہ ہے کہ ملت ایران کی نمو اور بڑھتی قوت کا سد باب کیا جائے۔ ان کا حقیقی ارادہ یہ ہے کہ ملت ایران کے مسلسل بڑھتے وقار کو کم کیا جائے۔ ایٹمی مسئلہ تو محض ایک بہانہ ہے۔ اس کے ساتھ کچھ دوسرے بھی بہانے ہیں۔ اصلی قضیہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کی استعداد اور توانائیاں روز بروز ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ تمام میدانوں میں یہ قوم ترقی کر رہی ہے، سیاسی میدان میں، علمی و سائنسی میدان میں، گوناگوں سماجی میدانوں میں اس کی قوت بڑھ رہی ہے۔ یہ لوگ اس سے ناراض ہیں، پریشان ہیں، اس کا سد باب کرنا چاہتے ہیں۔ دباؤ اور پابندیاں اسی مقصد کے لئے ہیں۔ اقتصادی پابندیوں اور دباؤ کا ہدف یہی ہے کہ ملت ایران کی مسلسل بڑھتی کاوشوں میں رکاوٹ ڈالیں۔ اسی لئے پابندیاں عائد کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں، اقتصادی دباؤ ڈالتے ہیں۔ البتہ اقتصادی دباؤ بہت اہم چیز ہے۔ ہم اپنے عوام سے بآسانی اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ مگر وہ ایسے نہیں ہیں، ان کی قوم کو ان پر بھروسہ نہیں ہے۔ ان کے صدر کی عوامی مقبولیت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار وہ خود وہی پیش کرتے ہیں۔ جس دن اس صدر کا انتخاب ہوا تھا اس دن اس کی مقبولیت کا گراف اونچا تھا۔ لیکن یہ مقبولیت روز بروز گھٹتی گئی۔ کیونکہ عوام کو اپنے سیاسی نظام پر اعتماد نہیں ہے۔
امریکا میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں بھی رائے دہندگان کی شرکت بہت محدود رہی۔ یہ بات خود امریکی حکام نے بھی کہی۔ یعنی عوام کو یہ نطام اور یہ سسٹم پسند نہیں ہے اور ان کے اندر اب کوئی امید بھی نہیں رہ گئی ہے۔ اس کا موازنہ آپ ہمارے یہاں ہونے والے انتخابات میں عوام کی 65 فیصدی اور 70 فیصدی ووٹنگ سے کیجئے۔ اب تو خود اپنے عوام کے ساتھ ان کے اختلافات ہیں۔ آپ نے فرگوسن، ریاست میسوری اور دیگر جگہوں کی خبریں سنی ہونگی، یہ اپنے ہی عوام سے جنگ کر رہے ہیں! ان کی اپنی رپورٹیں کہتی ہیں کہ امریکا کی پولیس نے ایک سال میں چار سو سے زیادہ امریکی شہریوں کو مختلف بہانوں سے قتل کیا ہے۔ پولیس نے، عدلیہ نے نہیں! ان کا تو اپنے عوام سے بھی رابطہ ٹھیک نہیں ہے، ان کے اپنے عوام بھی انہیں پسند نہیں کرتے، ان کی مشکلیں ہیں، انہیں اس وقت ایک کامیابی کی ضرورت ہے، کوئی بڑی کامیابی انہیں درکار ہے۔ ہمیں نہیں ہے، ہمیں ایسی کوئی ضرورت در پیش نہیں ہے۔
کچھ دن پہلے ہماری مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے بڑی اچھی بات کہی۔ کہا کہ اگر معاہدہ نہ ہو سکا تو آسمان زمین پر نہیں آ جائے گا، دنیا ختم نہیں ہو جائیگی۔ معاہدہ نہیں ہوتا ہے تو نہ ہو۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔ ہمیں اس طرح کا نقصان نہیں پہنچے گا جس کا وہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ہو جائیگا۔ بالکل نہیں، راہ حل موجود ہے، راہ حل یہی مزاحمتی معیشت ہے جو پہلے مرحلے میں تو دشمن کی ضربوں کے اثر کو کم کرےگی، یہ اس کا کوتاہ مدتی نتیجہ ہے، جبکہ میانہ مدت اور دراز مدت میں یہ معیشت عوام کی پیشرفت کے عمل کو اوج پر لے جائیگی۔ یہ مزاحمتی اور خود کفیل معیشت کی خصوصیت ہے۔ اقتصادیات میں جو اہل نظر ہیں انہوں نے ہماری مزاحمتی معیشت کا مسئلہ پیش کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے۔ تو ہمارے پاس راہ حل موجود ہے، ان کے پاس نہیں ہے۔
ان حالات کے باوجود وہ استکباری روش پر چل رہے ہیں۔ آپ چند دن قبل کے ان کے بیانوں کو سنئے؛ کھڑے ہوکے کہتے ہیں کہ ایران کو چاہئے کہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرے۔ خود کو عالمی برادری کہتے ہیں! امریکا، برطانیہ، فرانس اور چند استکبار ممالک، عالمی برادری بن گئے ہیں۔ یہ عالمی برادری ہے؟ ناوابستہ تحریک کے تقریبا ڈیڑھ سو ممالک جن کا دو سال قبل تہران میں اجلاس ہوا، کیا وہ عالمی برادری نہیں ہیں؟ اس اجلاس میں شرکت کے لئے تہران آنے والے قریب پجاس ملکوں کے صدور اور سربراہان مملکت کیا عالمی برادری نہیں؟ ان ملکوں میں بسنے والے اربوں انسان، کیا عالمی برادری نہیں ہیں؟ یہی مٹھی بھر ممالک، وہ بھی ایسے ممالک جن کے سربراہان اپنے عوام سے بالکل کٹے ہوئے ہیں، عالمی برادری ہیں؟ عالمی برادری کا اعتماد حاصل کیجئے یعنی ہمارا اعتماد، یعنی امریکیوں کا اعتماد! ہم امریکیوں کا اعتماد حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں امریکیوں کے اعتماد کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس کی احتیاج نہیں کہ آپ ہم پر اعتماد کریں، آپ کا اعتماد ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہم بھی آپ پر اعتماد نہیں رکھتے، خود آپ کے عوام آپ پر اعتماد نہیں کرتے۔
مزید بر آں یہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل کی سیکورٹی کی ضمانت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل روز بروز زیادہ غیر محفوظ ہوتا جائے گا، ایٹمی معاہدہ ہو یا نہ ہو، اسے آپ سن لیجئے کہ اسرائیل کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہو سکتی، خواہ ایٹمی معاہدہ ہو یا نہ ہو۔ ویسے آپ جو یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سیکورٹی کی ضمانت ہونی چاہئے تو میں یہ کہوں گا کہ آپ اپنی اس بات میں بھی سچے نہیں ہیں۔ امریکی حکام کے لئے اسرائیل کی سیکورٹی کلیدی اور اساسی مسئلہ نہیں ہے۔ اصلی معاملہ کچھ اور ہے۔ ان حضرات کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے صیہونی سرمایہ داروں کے نیٹ ورک کی خوشنودی جس کے ہاتھ میں ان لوگوں کی شہ رگ حیات ہے۔ یہ ہے ان کا اصلی مسئلہ۔ ورنہ اسرائیل رہے یا نہ رہے، ان کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ ان کے لئے اہمیت بس اس بات کی ہے کہ انہوں نے اپنی شہ رگ صیہونی سرمایہ داروں کے نیٹ ورک کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ اس نیٹ ورک کے ہاتھ میں جو انہیں رشوت بھی دیتا ہے، انہیں دھمکیاں بھی دیتا رہتا ہے، انہیں رشوت کے طور پر پیسے دیتا ہے۔ وہ پیسے لیتے ہیں، یہ نیٹ ورک عہدے کی رشوت دیتا ہے، کچھ ہیں جو عہدہ دلانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں امریکی معیشت کی نبض ہے اگر ان کی خوشامدیں نہ کریں تو اعلی عہدوں تک رسائی ممکن نہ ہوگی۔ جیسے صدر جمہوریہ کا عہدہ، وزارتیں وغیرہ۔ تو ان کا اصلی مسئلہ یہ ہے۔ صیہونی دھمکیاں بھی دیتے ہیں، اگر انہوں نے اس خطرناک نیٹ ورک کی مرضی کے برخلاف کام کیا تو انہیں دھمکیاں ملنے لگتی ہیں، یا تو استعفے پر مجبور کر دئے جانے کی دھمکیاں ملتی ہیں، یا بدنام کر دینے کی دھمکیاں ملنے لگتی ہیں۔ اس چند سال کے عرصے میں آپ نے یہ چیزیں امریکیوں کی زندگی میں دیکھی ہیں۔ کسی پر الزامات عائد کر دیتے ہیں، کسی کو بدنام کر دیتے ہیں، کسی کے خلاف جنسی اسکینڈل کھڑا کر دیتے ہیں، کسی کو استعفا دینے پر مجبور کر دیتے ہیں، کسی کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔ ان صدور اور اعلی رتبہ عہدیداروں میں کچھ کو وہ قتل بھی کر چکے ہیں۔ ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ آپ لوگ اسی نیٹ ورک سے خوفزدہ ہیں، آپ کو اس کی فکر ہے، اسرائیل کی سیکورٹی آپ کا مسئلہ نہیں اصلی مسئلہ خود آپ کا اپنا تحفظ ہے۔ یہ مستکبار قوت ہے، یہ اسی انداز میں بات کرتی ہے اور استکباری طاقت سے ہماری بنتی نہیں ہے۔ اگر منطقی بنیاد پر بات کی جائے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، منطقی باتیں ہم تسلیم کرتے ہیں، منصفانہ اور عاقلانہ معاہدے بھی ہم قبول کریں گے۔ لیکن جہاں بھی توسیع پسندی او زور زبردستی کا معاملہ ہوگا، وہاں نہیں۔ اسلامی جمہوریہ اوپر سے نیچے تک، نہ عوام نہ عہدیدار کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ اسے وہ اچھی طرح سمجھ لیں۔
دو چار جملے آپ عزیز رضاکاروں اور ملک بھر کے 'بسیجیوں' کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا؛ میں آپ عزیز رضاکاروں کو اچھے اخلاق کی دعوت دیتا ہوں۔ اخلاق سے کیا مراد ہے؟ اخلاق یعنی بردباری، صبر و استقامت، صدق و صفا، شجاعت و فداکاری، پاکیزگی و پاکدامنی۔ رضاکاروں کو اگر اس اس عظیم عمارت کے محکم اجزاء کے طور پر خود کو باقی رکھنا ہے تو انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دشمنوں کے مقابلے میں یہ عمارت اسی طرح محکم قلعہ بنی رہے تو ان چیزوں کو ملحوظ رکھئے۔ بردباری کا ثبوت دیجئے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کیجئے، اخلاق پیش کیجئے، طہارت و پاکیزگی کی مثال پیش کیجئے، صدر اسلام کے عظیم نمونوں کو مد نظر رکھئے۔ ہمیں تکبر سے اجتناب کرنا چاہئے، فرعونیت سے خود کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں وہ عظیم مقام، وہ بلند مرتبہ اور مثالی شجاعت رکھنے والے حضرت مالک اشتر ایک گلی سے گزر رہے تھے، ایک بچے نہ انہیں نہیں پہچانا اور ان کا مذاق اڑایا۔ شاید ان پر کوئی کنکری بھی پھینکی۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص گزر رہا ہے، اس نے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حضرت مالک اشتر خاموشی سے گزر گئے۔ جن لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا، انہوں نے بچے کو ڈانٹا کہ تجھے معلوم ہے کہ کیا حرکت کی ہے؟! پتہ ہے تونے کس کا مذاق اڑایا ہے؟ بچہ حضرت مالک اشتر کو نہیں پہچانتا تھا، اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ سب نے بتایا کہ وہ مالک اشتر تھے۔ بچے کے ہوش اڑ گئے۔ وہ اکیلے، یا ماں باپ کے ساتھ یا دوستوں کے ساتھ دوڑا دوڑا آیا کہ معذرت خواہی کر لے کہ کہیں کسی مشکل میں نہ پڑ جائے۔ وہ سب حضرت مالک اشتر کو تلاش کرنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں گئے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ مالک اشتر کے پاس گئے اور معافی مانگنے لگے۔ مالک اشتر نے کہا کہ میں اس لئے مسجد آیا ہوں کہ نماز پڑھوں اور دعا کروں کہ اللہ تعالی اس بچے کی غلطی کو بخش دے! ذرا دیکھئے اس دردمندی، اس احساس ذمہ داری، اس بردباری اور اس بزرگی کو۔ ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ یہ چیزیں سیکھیں۔
میں اسی طرح خصوصی تاکید کرنا چاہوں گا عقیدے، ایمان اور عمل کو ہمیشہ مستحکم کرنے اور ان میں کوئی بھی اضمحلال نہ آنے دینے کی۔ زندگی کے اس سفر میں جب ہمارے سامنے کچھ وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پیسے کا وسوسہ، خواہشات کا وسوسہ، عہدے کا وسوسہ، دوستی کا وسوسہ تو یہ اضمحلال شروع ہو جاتا ہے۔ لہذا ہمیں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ عقیدے میں کوئی تزلزل نہ آئے۔ آپ خود ماحول پر اثر انداز ہوئیے، ماحول اگر غلط ہے تو اسے اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیجئے۔
اس قومی، عوامی اور خداپسندانہ (رضاکار طبقات و اصناف کے) مجموعے میں تمام طبقات پر توجہ دی جانی چاہئے۔ میں نے بعض کے بارے میں خاص طور پر سفارش اس لئے کی کہ میری نطر وہ بے توجہی کا شکار تھے۔ میں نے جناب نقدی صاحب (رضاکار فورس کے سربراہ) سے خصوصی سفارش کی ہے۔ رضاکار فورس کسی بھی طبقے کو نظر انداز نہ کرے۔ مختلف طبقات کے آپسی رابطے کی نوعیت بھی طے کر لیجئے۔ ان کے درمیان رابطہ قائم کیجئے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسٹوڈنٹ رضاکار فورس مثال کے طور پر ڈاکٹروں کی رضاکار فورس یا انجینیئرز کی رضاکار فورس یا صنعت کاروں کی رضاکار فورس سے آشنا نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہونا چاہئے، اطلاع ہونی چاہئے۔ ممکن ہے وہ ایک دوسرے کے کام آئيں۔ ان طبقات میں اور اصناف میں سے ایک کو دوسرے سے مدد مل سکتی ہے، پیشرفت کے عمل میں ایک دوسرے کی کمک ہو سکتی ہے۔ ان چیزوں کی ترویج کیجئے اور اس مجموعے کے اندر اسے عام کیجئے۔
بڑے کام بسیج کے ارکان اور ہماری قوم کے با استعداد افراد انجام دے رہے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ مدد کرے، حکومتی اداروں کو چاہئے کہ مختلف شعبوں میں رضاکار فورس کے فروغ اور نمو میں مدد کریں۔ اقتصادی مسائل پر بھی اس بارے میں ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ مزاحمتی معیشت عبارت ہے داخلی پیداوار کے فروغ و تقویت اور ان اشیاء کی درآمد میں کمی سے جو غیر ضروری ہیں یا ان کی جیسی مصنوعات ملک کے اندر موجود ہیں، حکومتی عہدیدار اس پر توجہ دیں، وہ رضاکار فورس کی مدد لیں۔ ان حالات میں حقیر کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مستقبل ملت ایران کا ہے، یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں۔
ہمارے عظیم الشان قائد، امام خمینی کی روح مبارکہ ہمیشہ شاد رہے، ہمارے پاکیزہ شہیدوں کی ارواح مطہرہ ہمیشہ خوش رہیں اور اللہ تعالی ہمیں بھی ان شہیدوں کی صف میں قرار دے۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل محمد علی جعفری اور بسیج (رضاکار فورس) کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل محمد رضا نقدی نے اپنی اپنی بریفنگ دی۔
۲) سورہ مائده، آیت نمبر‌ ۵۴ کا ایک حصہ
۳) سوره‌ صف، آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ؛ « در حقیقت اللہ تعالی پسند کرتا ہے ان لوگوں کو جو صف در صف، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند جہاد کرتے ہیں۔
۴) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۷۵ کا ایک حصہ؛ «تم راہ خدا میں اور کمزور کر دئے جانے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کی نجات کی راہ میں جنگ نہیں کرتے؟»
۵) اصول کافى، جلد۲، صفحہ ‌۱۶۳ (تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ)
۶) مناقب آل ابى طالب، جلد ۱، صفحہ ۱۹۲
۷) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۲۷
۸) تحف‌ العقول، صفحہ ۳۵۶
۹) منجملہ ماہ رمضان کے ایام کی دعائیں
۱۰) شهید عبدالحسین برونسى‌
۱۱) شهید مجید شهریارى 8 آذر 1389 ہجری شمسی مطابق 29 نومبر 2010 کو ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے۔