قائد انقلاب اسلامی نے 1393/10/17ہجری شمسی مطابق 7 جنوری 2015 کو اپنے اس خطاب میں قم کے عوام کے 19 دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 کے قیام کو عظیم تاریخی اور فیصلہ کن واقعہ قرار دیا اور فرمایا: ایسے ارادے اور عزائم موجود ہیں جو اسلامی انقلاب کی تحریک اور گزشتہ تین عشروں کے فیصلہ کن اور تاریخ ساز واقعات و ایام کو ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں لیکن جب تک یہ قوم زندہ ہے اور زیور ایمان سے آراستہ قلوب اور حق گو زبانیں موجود ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہونے پائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے دور کے حقائق میں رد و بدل کے عزائم کا حوالہ دیتے ہوئے اس حکومت کی چند خاص باتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: سیاہ آمرانہ نظام، جیلوں میں حد درجہ بربریت آمیز برتاؤ اور وحشیانہ ترین ایذارسانی پہلوی حکومت کی ایک خصوصیت تھی اور آج انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے اسی حکومت کی حمایت کرتے تھے۔
اسلامی انقلاب کے بعد ملت ایران سے عالمی استکباری محاذ کی دشمنی اور عناد کا سلسلہ شروع ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ دشمن اپنی مخاصمانہ کارروائیوں اور خباثت سے باز آ جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علم و سائنس کے میدان میں بڑی کامیابیوں سمیت ملت ایران کی مختلف میدانوں کی پیشرفت کو نظر انداز کرنے والوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: آپ کیوں غیر عاقلانہ انداز میں ان حصولیابیوں کا بھی جن کا اعتراف دنیا کے سائنسی مراکز کو بھی ہے، انکار کرتے ہیں اور اپنی ان غلط اور غیر منصفانہ باتوں سے اس قابل فخر سفر کے بارے میں جو عوام نے طے کیا ہے اور مجبورا جس کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں، شک و شبہ پیدا کرتے ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے صدر اسلام کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں بھی تمام اہداف پورے نہیں ہو پائے تھے مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ اہداف کی تکمیل کی سمت میں پیش قدمی کا عمل جاری رہا اور آج ہماری قوم بھی اسی راستے پر مضبوطی، ثابت قدمی اور احساس فخر کے ساتھ رواں دواں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

خوش آمدید کہتا ہوں آپ تمام محترم بھائیوں اور بہنوں، علمائے کرام اور عزیز نوجوانوں کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی آپ سب کو، تمام ملت ایران اور امت اسلامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
19 دی (مطابق 9 جنوری) کے عظیم تاریخی اور فیصلہ کن دن کی مناسبت سے سب سے پہلے تو میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ تمام اہل قم کا شکریہ ادا کروں، کیونکہ آپ نے اس واقعے کو نہ تو اب تک فراموش ہونے دیا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے بھولیں گے۔ کچھ عزائم ایسے بھی کارفرما ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ان عظیم تاریخوں اور ان عظیم واقعات کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا جائے۔ باقاعدہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ اسلامی انقلاب اور مقدس دفاع کے زمانے کے افتخار آفریں واقعات اور فیصلہ کن اقدامات کو فراموش کر دیا جائے۔ 19 دی کے واقعے کے سلسلے میں بھی ان کی خواہش ہے کہ اسے بھلا دیا جائے۔ عاشورائے حسینی کو بھی ظالموں اور ستمگروں نے ہمیشہ کے لئے مٹا دینے کی کوشش کی تھی، لیکن زینب کبری سلام اللہ علیہا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ ہماری 'پھوپھی' زینب کبری سلام اللہ علیہا نے دو اقدامات انجام دئے۔ ایک اقدام تو کوفہ و شام میں قیدی کی حیثیت سے تھا، جس کے دوران آپ نے حقائق کو برملا کیا، سچائی کو آشکارا کرنے والے خطبے دئے۔ دوسرا اقدام اربعین کے موقع پر زیارت کے لئے کربلا تشریف آوری تھی۔ وہ پہلا چہلم تھا، دوسرا چہلم تھا یا جس سال کا بھی چہلم رہا ہو (روایتوں کے اختلاف کی جانب اشارہ ہے)۔ زیارت کے لئے آپ کا تشریف لانا یہ درس دیتا ہے کہ اہم، موثر اور جذباتی لگاؤ والے واقعات و تغیرات کو بھلا دینے کی بعض عناصر کی کوششوں کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ان شاء اللہ یہ عناصر کامیاب نہیں ہوں گے۔ جب تک قومیں بیدار ہیں، جب تک حق گو زبانیں موجود ہیں، جب تک زیور ایمان اور جوش و جذبے سے آراستہ قلوب موجود ہیں، کوئی بھی ان واقعات کو پس پشت نہیں ڈال سکتا، چنانچہ تاحال یہ کوششیں ناکام ہی رہی ہیں۔ یہ مخاصمانہ و معاندانہ جذبے صدر اسلام سے لیکر بعد کے ادوار تک یعنی عباسی خلیفہ متوکل نے بھی واقعہ عاشورا کے تقریبا ایک سو ستر یا ایک سو اسی سال بعد قبر حضرت امام حسین علیہ السلام کو مسمار اور اس کی نشانی کو مٹا دینے کی کوشش کی۔ یعنی ملت ایران کو ابھی بہت دنوں تک اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ دشمن، انقلاب کے پرکشش واقعات و تغیرات کو ذہنوں سے مٹانے کے لئے اپنی خبیثانہ کوششیں انجام دے سکتا ہے اور فتنہ و فساد برپا کر سکتا ہے۔ دشمن باز آنے والا نہیں ہے۔ انقلاب کے حقائق میں تحریف کرنے اور اس کی یادیں ذہنوں سے مٹا دینے کی کوششیں جاری رکھےگا، اس کی کوشش یہ رہیگی کہ قوم اپنی تحریک کو، اپنے ماضی کو اور اپنے عظیم کارنامے کو جو اس نے سر انجام دیا ہے، بھول جائے، غفلت و فراموشی میں مبتلا ہو جائے۔ جو اپنے افتخار آمیز ماضی سے باخبر نہ ہو وہ مستقبل میں بھی افتخار آمیز واقعات اور کارنامے رقم نہیں کر سکتا۔ دشمن اپنی ان کوششوں میں مصروف ہے۔
19 دی کے واقعے کو آپ نے زندہ رکھا، 29 بہمن (مطابق 18 فروری) کے واقعے کو فراموش نہیں ہونے دیا، 9 دی (مطابق 30 دسمبر) کے کارنامے کو واضح عزائم کے محرکات کے ساتھ زندہ رکھا۔ یہ در حقیقت دشمنوں کے مقابلے میں ایک مجاہدانہ مہم ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے حقائق میں تحریف کریں، انہیں ذہنوں سے مٹا دیں، اس کے لئے وہ پیسے خرچ کرتے ہیں، با قاعادہ کام کرتے ہیں۔ جو کتابوں اور اخبارات و جرائد کی دنیا سے واقفیت رکھتا ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ دشمن کیا کام کر رہا ہے۔ یہ لوگ آج اس کوشش میں ہیں کہ منحوس اور خبیث پہلوی خاندان کے چہرے کو جس کی بدعنوان، اغیار کی غلامی کرنے والی خبیث و ظالم حکومت نے ہمارے ملک کو برسوں پیچھے دھکیل دیا اور ملت ایران کو انتہائی سخت مشکلات سے دوچار کر دیا، سنواریں، اس پر ملمع چڑھائیں۔ آج یہ کوشش اسلامی نظام کا مخالف محاذ کر رہا ہے۔ اس کی پشت پناہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو شروع سے اسلامی انقلاب کے دشمن تھے، انقلاب لانے والے عوام کے دشمن تھے، اسلامی انقلاب سے عوام الناس کی وفاداری کے مخالف تھے۔ اب تک تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، آس تو انہوں نے لگا رکھی تھی کہ انقلاب کے بعد دوسری اور تیسری نسل کو وہ روگرداں اور دور کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے، لیکن وہ نہیں کر سکے۔ انقلاب کی تیسری نسل کو بھی وہ اس سے علاحدہ نہیں کر سکے۔ 9 دی (تیس دسمبر 2009) کے عظیم کارنامے کو انہی نوجوانوں نے، انقلاب کی اسی تیسری نسل نے انجام دیا، اسی تیسری نسل نے وجود بخشا اور ان لوگوں کو منہ پر ایسا زوردار طمانچہ رسید کیا جو فتنہ و آشوب کے ذریعے اسلامی تحریک کی سمت کو بدل دینا چاہتے تھے۔ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا؟ یہ کام نوجوانوں کا تھا، انقلاب کی تیسری نسل کا تھا۔ اب دشمن کی نظریں آئندہ نسلوں پر ہیں، کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ ملت ایران کا سرمایہ اس ملک کے عوام ہیں۔ دشمن کے ذہن میں یہ فتنہ آج بھی موجود ہے۔ البتہ جب تک آپ جیسے لیاقت مند نوجوان اور آپ صاحب ایمان، صاحب بصیرت اور آگاہ عوام موجود ہیں، دشمن ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
19 دی کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ 19 دی کی تاریخ ملت ایران کے اندر ایک وسیع تحریک کا نقطہ آغاز بن گئی۔ راکھ کے ڈھیر میں دبی چنگاری تھی جو روز بروز پھیلتی جا رہی تھی، 19 دی کا واقعہ اس چنگاری کے شعلہ بن جانے کا دن تھا۔ یہ کارنامہ اہل قم کے ہاتھوں انجام پایا جو متعدد تحریکوں پر منتج ہوا۔ عوام متحد ہوکر میدان میں اتر پڑے۔ ہر دل عزیز امام خمینی کی آواز پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے آگے بڑھے اور بدعنوان حکومت سے بھڑ گئے۔ جس حکومت کے خلاف عوام نے معرکہ شروع کیا وہ کیسی حکومت تھی؟ کون حاکم تھا؟ یہ جاننا بہت اہم ہے۔ میں اس کی دو تین خصوصیات بیان کروں گا۔ کیونکہ میں نے عرض کیا کہ ان دنوں حقائق میں رد وبدل کی کچھ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ اس قوم کی تاریخ کے حالیہ ادوار کے خبیث، کریہ المنظر اور تاریک و سیاہ کارکردگی کے مالک افراد کی شبیہ کو اس طرح سنوارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کو حقیقت کا اندازہ نہ ہو اور لوگوں کو پتہ نہ چل پائے کہ انہوں نے انقلاب کے ساتھ کیا کیا؟!
اس بدعنوان حکومت کی ایک اہم خصوصیت ، آمریت اور عوام الناس کے خلاف شدید گھٹن کا ماحول اور انتہائی بے رحمانہ رویہ تھا جو ممکن ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی نظر آئے۔ یہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ عوام سے کیا برتاؤ کیا جاتا تھا اور کس طرح پیش آتے تھے۔ رضاخان کے دور حکومت میں بھی، جس کا مشاہدہ ہماری گزشتہ نسل نے اور ہمارے بزرگوں نے کیا اور ہمارے لئے نقل کیا، اسی طرح آخری دور میں بھی جس کے گواہ ہم خود ہیں، یہی عوام اور ہم خود میدان میں تھے۔ آج کے نوجوانوں نے ظاہر ہے وہ دور نہیں دیکھا ہے، اس بارے میں بہت کثرت کے ساتھ مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ وہ عوام کے ساتھ، مجاہدین کے ساتھ، کوئی معمولی سی بھی تنقید کرنے والوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک ہوتا تھا۔ جو سلوک کیا جاتا تھا، جو ایذائیں دی جاتی تھیں، جو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ خوفناک عقوبت خانے، آج بھی اس کے کچھ آثار اور نشانیاں موجود ہیں، لوگ جاکر دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ لوگ طاقت، استبداد اور سختی کے ذریعے اپنی حکومت چلا رہے تھے اور یہی لوگ جو آج انسانی حقوق کی پاسداری کے بڑے دعوے کرتے ہیں اور اس بدنام زمانہ نعرے کو بار بار دہراتے ہیں، اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اسی حکومت کی مدد کرتے تھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں تو خبر ہی نہیں تھی! کیونکہ اس جہنمی خفیہ ایجنسی ساواک کی تشکیل خود صیہونیوں کے ہاتھوں، خود امریکیوں کے ہاتھوں اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ذریعے ہوئي تھی۔ ساواک نے انہیں سے سب کچھ سیکھا تھا تو ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ انہیں خبر نہ رہی ہو۔ ابھی حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ اس وقت خود بھی بہت بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ حالیہ مہینوں میں جو انکشافات ہوئے اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اپنے مخالفین کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں جو حقیقت سامنے آئی ہے وہ کہاں اور انسانی حقوق، آزادی اظہار خیال، جمہوریت اور لبرلزم کی دلکش باتیں کہاں؟! (1)۔ واقعی یہ بڑی عجیب دنیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس خبیث حکومت کی ایک خصوصیت یہی تھی؛ حد درجہ سختی، اعتراض اور تنقید کرنے والوں کے ساتھ حد درجہ بے رحمی کا سلوک۔
اس حکومت کی دوسری خصوصیت بیرونی طاقتوں پر ذلت آمیز انحصار تھا۔ یہی کتابیں جو خبیث پہلوی حکومت کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے لکھی جا رہی ہیں ان میں ان حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ حقائق ناقابل انکار ہیں۔ رضاخان برطانیہ کے اشارے پر اقتدار میں پہنچا اور برطانیہ کی ہی منشاء کے مطابق اقتدار سے بے دخل ہو گیا۔ جیسے ہی انگریزوں نے حکم دیا کہ اسے جانا ہے، سترہ اٹھارہ سال حکومت کرنے کے باوجود اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ یعنی اس کا کوئي اور پشت پناہ اور حامی تھا ہی نہیں۔ وہی اسے لائے تھے اور جب انہیں محسوس ہوا کہ اب اسے جانا چاہئے تو وہ ہٹ گيا۔ انگریزوں کے حکم سے آیا اور انہیں کے حکم سے چلا گیا۔ اس کے بعد برطانیہ نے محمد رضا کو اقتدار دلایا سنہ انیس سو چالیس کے عشرے کے اواخر تک۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں امریکی، میدان میں کود پڑے اور انہوں نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب ساری پالیسیاں امریکا کی وضع کردہ ہوتی تھیں۔ امریکی مفادات کا جو بھی تقاضا ہوتا، داخلی اقدامات میں بھی اور علاقائی و بین الاقوامی پالیسیوں میں بھی اسی کے مطابق عمل کیا جاتا۔ یعنی ملت ایران کی حد درجہ توہین اور بے عزتی۔ یہ اس خبیث حکومت کی ایک اور خصوصیت تھی۔ آج آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ امریکی، ملت ایران کے سلسلے میں، اسلامی انقلاب کے بارے میں اور اسلامی نظام کے سلسلے میں دشمنی کا برتاؤ کرتے ہیں، عناد برتتے ہیں اور تندی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کی اصلی وجہ یہی ہے۔ وہ ایران میں ایسا دور دیکھ چکے ہیں۔ ایسا ملک اور ایسا نظام ان کے ہاتھ سے چھن گیا، لہذا اسلامی انقلاب سے ان کی دشمنی ابدی دشمنی ہے۔
خبیث شاہی حکومت کی تیسری خصوصیت تھی بدعنوانی اور کرپشن۔ انواع و اقسام کی بدعنوانیاں، جنسی بدعنوانیوں سے لیکر جس میں تقریبا سارے درباری اور ان کے ارد گرد رہنے والے لوگ ملوث تھے اور جس کی داستانیں بڑی شرم ناک ہیں مالی کرپشن تک۔ اس زمانے میں عوام الناس میں بھی بہت سے لوگوں کو ان حقائق کا علم تھا البتہ کوئي زبان سے کچھ کہنے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا۔ کبھی کبھی یہ حقائق غیر ملکیوں کے قلم سے پھسل جاتے تھے تو جنسی بدعنوانیوں اور مالی کرپشن کے بارے میں کچھ باتیں لکھ جاتے تھے۔ جنسی بدعنوانی اور مالی بدعنوانی، وہ بھی صرف متوسط سطح تک نہیں بلکہ اعلی ترین سطح تک۔ قوم کے مالیاتی ذرائع پر سب سے زیادہ خباثت آلود دباؤ، بد ترین خرد برد اور سب سے زیادہ رشوت اور مالی بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ خود محمد رضا اور اس کے قریبی افراد تھے۔ وہ اپنے لئے سرمایہ اور دولت اکٹھا کرتے تھے عوام الناس کو غربت و افلاس میں گرفتار کرکے۔ کرپشن، جنسی بدعنوانی، مالیاتی بدعنوانی، نشہ، منشیات کی ترویج، صنعتی منشیات کا خود حکومت کے عناصر کی طرف سے پرچار ایران میں کیا گيا۔ محمد رضا کی ایک بہن کو سویزرلینڈ کے ایئرپورٹ پر ہیروئن سے بھرے بیگ کے ساتھ سویس پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ یہ خبر ساری دنیا میں پھیل گئی، مگر فوری طور پر اس کی پردہ پوشی شروع ہو گئی۔ یہ خود ان کا اپنا قضیہ تھا لہذا اسے دبا دیا گیا۔ معاملے کو حل کر لیا۔ اس طرح کی صورت حال تھی۔
طاغوتی حکومت کی ایک اور اہم خصوصیت تھی عوام الناس سے بے اعتنائی۔ عوام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ہم نے اپنی زندگی میں، اپنی جوانی کے دور میں ایک دفعہ بھی کسی الیکشن میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی گلی کوچے کے دوسرے افراد سے کبھی سنا کہ انہوں نے انتخابات میں شرکت کی ہو۔ الیکشن ہوتا ہی نہیں تھا۔ کبھی کبھی تو بالکل کھلے عام اور کبھی ذرا خاموشی سے مٹھی بھر زر خرید افراد کو پکڑ لے جاتے تھے اور مجلس شورا (ایوان زیریں) اور سینیٹ میں لے جاکر بٹھا دیتے تھے اور اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ عوام کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ اقتدار میں کون سے افراد ہیں۔ حکومت اور رعایا کا رابطہ پوری طرح منقطع تھا۔ ملکی مسائل کے بارے میں سیاسی امور و تغیرات کے سلسلے میں عوام کی معلومات اور آگاہی جو آپ آج دیکھ رہے ہیں، یہ اس زمانے کے مقابلے میں بالکل برعکس صورت حال ہے۔ خبیث پہلوی حکومت عوام سے بالکل کٹی ہوئی تھی۔
علمی و سائنسی ترقی سے بے اعتنائی، قومی سطح پر احساس کمتری کا پرچار اور مغرب کے سلسلے میں مبالغہ آرائی (یہ بھی پہلوی حکومت کی خصوصیت تھی)۔ علم و سائنس کے میدان میں حرکت اور پیشرفت کے آثار نہیں تھے، علمی تحریک کا تو کوئي ذکر ہی نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ میں عوام الناس کو بس غیر ممالک سے درآمد کی جانے والی چیزوں اور مصنوعات کا عادی بنا دیا گيا تھا، بد قسمتی سے یہ عادت آج بھی باقی ہے۔ جب طویل مدت کے دوران کسی چیز کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر بآسانی اس سے چھٹکارا نہیں مل پاتا۔ ان لوگوں نے ملک کی داخلی پیداوار اور قوم کے حقیقی ذرائع اور وسائل کو متحرک کرنے کے بجائے، لوگوں کو تیل سے حاصل ہونے والی ثروت کا خوگر بنا دیا تھا، لوگوں کا مزاج بدل دیا تھا، زراعت کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا، ملک کی قومی صنعتوں کو نابود کر دیا تھا۔ ملک کو پوری طرح بیرونی ممالک اور دشمنوں پر منحصر کر دیا تھا۔ عوام کی تحقیر کی، قوم کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں کو بے وقعت سمجھا اور صاف صاف یہ بات کہتے بھی تھے۔ مغربی ثقافت کے قصیدے پڑھتے تھے۔ ان تمام برائیوں کی حامل، عیاری اور خباثت میں ڈوبی ہوئی حکومت تھی۔ عوام کو اس صورت حال کا بخوبی ادراک تھا۔ ظاہر ہے ایرانی عوام بڑے باہوش ہیں، حقائق کو سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ مگر متوجہ کرانا بھی ضروری ہے، کوئی پیغام رسا آواز ہونی چاہئے، زیور ایمان سے آراستہ دل ضروری ہے جو لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اتر پڑنے کی دعوت دے۔ گوشہ و کنار میں مخالفت ہوتی تھی، جدوجہد تھی، لیکن یکبارگی پوری قوم میدان میں اتر پڑے اس کے لئے ایک مرد الہی کی ضرورت تھی اور اللہ تعالی نے عوام کو یہ تحفہ عطا کر دیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ وہی آواز اور پیغام بن گئے جس میں عوام کی تمام خواہشیں اور مطالبات یکجا جمع تھیں۔ عوام نے اس آواز پر صدائے لبیک بلند کی، جاں نثاری اور قربانی کی مثال قائم کر دی۔ میدان میں اتر پڑے اور اس طرح کی حکومت سے بر سر پیکار اور سرانجام فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اسلامی نظام سے دشمنوں کے عناد کی سب سے بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایک انتہائی حساس علاقے میں، ایک دولتمند ملک کے اندر، اسٹریٹیجک محل وقوع کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت رکھنے والے ملک میں جہاں وہ ایک بدعنوان اور ان سے وابستہ اور ان کے اشاروں پر کام کرنے والی حکومت قائم کرنے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے، اسلام، عوام اور عوامی امنگوں کا پرچم بلند ہو گیا۔ اب اس ملک میں لوگ دشمنوں کے مطالبات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سمت کے بالکل برخلاف جہت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جو سابقہ حکومت نے اختیار کر رکھی تھی۔ اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی خدمت اور افادیت یہ رہی کہ اس نے عوام کو اس حکومت کے شر سے محفوظ کر دیا۔ انقلاب کے بعد سے تاحال جو کچھ حاصل ہوا، یہ قومی وقار، یہ عظیم عوامی تحریک، یہ عمومی بصیرت و شعور، یہ سائنسی و علمی ترقی، دنیا اور علاقے میں ملک کی یہ اہم پوزیشن، یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ملت ایران کے راستے سے وہ رکاوٹ ہٹ گئي ہے اور رکاوٹ کو ہٹانے کا کام عوام نے کیا ہے، یہ کام دین اسلام نے کیا ہے، یہ کارنامہ لوگوں کے عقیدے و ایمان نے انجام دیا ہے۔
آج استکباری محاذ اس نظام کی مخالفت اور دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ دشمن اپنا عناد ترک کر دیگا۔ اگر آپ قوی رہیں گے، اگر آپ پوری طرح الرٹ رہیں گے، اگر آپ دشمن کو اور اس کے تمام حربوں کو بخوبی پہچانتے ہوں گے، تو دشمن مجبورا مخاصمانہ اقدامات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ لیکن اگر آپ غفلت میں پڑے، آپ نے دشمن پر اعتماد کرنا شروع کر دیا تو اس کو موقع مل جائے گا کہ اس ملک میں اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کا عمل شروع کر دے۔ آج استکباری طاقتوں کی طرف سے ملت ایران پر جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اسی گہری اور کبھی نہ ختم ہونے والی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ یہ دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ایرانی قوم اس دشمنی کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے، اس نے دائمی استقامت کا ثبوت دیا ہے، اسلامی جمہوری نظام کی حفاظت کی ہے، اپنے اعلی اہداف کی جانب رواں دواں ہے، اس عظیم سفر میں ملت ایران کی ناکامی کی جو باتیں غلط طور پر اور بغیر سوچے سمجھے کہی جاتی ہیں اور جو دعوے کئے جاتے ہیں ان کے بالکل برخلاف ملت ایران نے عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ قوم نے بڑے مناسب انداز میں ترقی کا سفر طے کیا ہے۔ اس نے دشمن کے دباؤ کا استقامت کے ساتھ سامنا کیا ہے، کامیابی سے اپنی حفاظت کی ہے، ترقی و نمو کا سلسلہ جاری رکھا ہے، اور خود کو اپنے اعلی اہداف و مقاصد کے قریب پہنچایا ہے۔
ہم ہمیشہ کہتے ہیں، بارہا کہہ چکے ہیں کہ اسلامی احکامات اور تقاضوں کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکے، یہ ایک حقیقت ہے، مگر اس سمت میں ہم کافی پیش قدمی کر چکے ہیں۔ ہم اس ملک میں پوری طرح سماجی انصاف قائم تو نہیں کر سکے مگر اس منزل تک پہنچنے والا راستہ ہم کافی حد تک طے کر آئے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ملک کی ساری ثروت چند رئیس گھرانوں پر صرف ہو جایا کرتی تھی، ان سے اگر کچھ بچتا تھا تو کچھے بڑے شہروں کو مل جاتا تھا، آج ملک کے گوشے گوشے تک وطن عزیز کی دولت و ثروت پہنچ رہی ہے۔ یہ عظیم سفر، سماجی انصاف اور اسلامی اخلاقیات کی منزل کی طرف پیش قدمی کا یہ عظیم عمل جاری ہے۔ بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ اخلاقیات کی لوگ بات کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں۔ جی ہاں، مطلوبہ اسلامی اخلاقیات تک پہنچنے کے لئے ہمیں ابھی لمبا راستہ طے کرنا ہے، اس میں شک نہیں، مگر ہم کافی پیشرفت کر چکے ہیں، ملت ایران یہ راستہ طے کر رہی ہے، ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ علم و سائنس کے میدان میں ہونے والی ترقی کا بعض لوگ ناعاقلانہ طور پر انکار کرتے ہیں۔ آخر کیوں اس کے منکر ہیں؟ اس قوم نے علم و سائنس کے میدان میں ترقی کی ہے۔ یہ ہمارا دعوی نہیں بلکہ ہمارے دشمن بھی، بین الاقوامی سائنسی مراکز بھی آج اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ ایسے میں مٹھی بھر لوگ سب کے انکاری ہیں، قوم کی تحقیر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ مقدس اسلامی نظام نے ملک کو جو عظیم ترقی دلائی ہے اور کامیابی کے ساتھ جو سفر طے کروایا ہے اسے نظر انداز کرنا ناانصافی ہے، غلط ہے۔ بیشک ابھی ہمارے سامنے طویل سفر ہے، ہم ابھی اپنے اعلی اہداف حاصل نہیں کر سکے ہیں، اعلی اسلامی اہداف ابھی بہت دور ہیں۔ صدر اسلام میں بھی پیش قدمی کا یہ عمل موجود تھا، وہ لوگ بھی درمیان سفر تھے۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ صدر اسلام میں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں یا آنحضرت کے خلفاء کے زمانے میں، عوام الناس ان اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچ گئے تھے۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ مگر اہمیت اس چیز کی ہوتی ہے کہ ملک حرکت میں آ جائے، ہماری قوم آگے بڑھ رہی ہے۔ پیش قدمی کے اس عمل کو بغیر سوچی سمجھی باتوں سے، غلط اور ناپختہ بیانوں سے مختل نہ کیجئے۔ ایسا کوئی کام نہ کیجئے جس سے عوام کے اندر جنہوں نے پیش قدمی کا یہ عمل شروع کیا ہے اور امید و نشاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، شکوک و شبہات جنم لیں۔ قوم نے ترقی کی ہے، کارہائے نمایاں انجام پائے ہیں۔ اس کی گواہی آج ساری دنیا دے رہی ہے۔ جو لوگ دوسرے ملکوں سے آتے ہیں، وہ گواہی دے رہے ہیں، ملت ایران کی تعریف و تحسین صرف ہم نہیں کر رہے ہیں، ہمارے مخالفین بھی یہ قیصدہ پڑھ رہے ہیں، ہمارے دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔ ملت ایران کی قوت و طاقت کی تعریف کی جا رہی ہے، اس کی استقامت کو سراہا جا رہا ہے، اس کی استعداد کے گن گائے جا رہے ہیں، اس راستے میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کا چرچا چہار سو ہے، لوگ ملت ایران کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
آج ہماری قوم کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے قومی اتحاد و اتفاق۔ عوام کو دو محاذوں میں بانٹنا، لوگوں کے درمیان جدائی ڈالنا، عوام الناس کے اندر تفرقہ ڈالنے والے نعرے لگانا، خواہ وہ کسی بھی نام سے ہو، غلط ہے۔ یہ ملت ایران کے مفادات کے منافی اور ایرانی عوام کی امنگوں سے متصادم ہے۔ اتحاد و اتفاق۔ عوام کو چاہئے کہ حکام کی مدد کریں، حکومت سے تعاون کریں۔
حکومتی عہدیدار بھی سن لیں! جو چیز انہیں ان کے فرائض منصبی ادا کرنے پر قادر بنا سکتی ہے وہ داخلی توانائیوں پر اعتماد اور عوام کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ میں نے بارہا یہ بات عرض کی ہے عمومی جلسوں میں بھی اور خصوصی ملاقاتوں میں جو حکام کے ساتھ ہوتی ہے کہ اغیار سے آس نہ لگائیں۔ بیشک آج دشمنوں نے ملت ایران کے لئے پابندیوں کے ذریعے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اب اگر انہوں نے آکر یہ پابندیاں اٹھانے کے لئے ایسی شرط رکھ دی جسے آپ کی غیرت قبول کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے تو آپ کیا کریں گے؟ وہ شرط رکھیں گے کہ آپ اسلام سے کنارہ کش ہو جائیے! خود مختاری سے دست بردار ہو جائیے، علم و سائنس کے میدان میں ترقی کا عمل روک دیجئے، فلاں افتخار آمیز کارنامے کو بھول جائیے تب ہم پابندیاں ہٹائیں گے، تو آپ کیا کریں گے؟ آپ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ یقینا ملک کا کوئی بھی عہدیدار اسے قبول نہیں کرے گا کہ کسی کلیدی مسئلے یا ہمارے اعلی اہداف میں شامل کسی اشو پر سودا کرکے پابندیاں ختم کرائی جائیں۔ البتہ دشمن اس مرحلے میں تو ہمارے اعلی مقاصد اور بنیادی اسٹریٹیجی سے صریحی طور پر تعرض نہیں کرےگا۔ لیکن اگر ہم نے ایک بار پسپائی اختیار کر لی تو پھر وہ واشگاف لفظوں میں یہ مطالبات شروع کر دیگا۔ اس وقت یہ صورت حال نہیں ہے کہ دشمن صریحی طور پر ہمارے اعلی اہداف و مقاصد کی مخالفت کرے، انہیں نظر انداز کرنے کی شرط رکھے۔ لیکن ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ باریکی سے جائزہ لینا چاہئے کہ جو تجویز دی جا رہی ہے، جو بات کہی جا رہی ہے، دشمن جو اقدام کر رہا ہے اس کا اصلی ہدف کیا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی عہدیدار دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر آمادہ اور رضامند نہیں ہوگا اور اس لئے کہ پابندیاں ہٹ جائیں یا کم ہو جائیں، اعلی اہداف سے دست بردار ہونے پر ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ جب یہ صورت حال ہے تو آپ آگے آئیے اور کچھ ایسا بندوبست کیجئے کہ ملک پابندیوں کے مقابلے میں پوری طرح محفوظ ہو جائے، مزاحمتی معیشت سے یہی مراد ہے۔ آپ اس بات پر بنا رکھئے کہ دشمن پابندیاں ہٹانے کے لئے ایسی شرط رکھتا ہے جسے آپ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، آپ اس معاملے میں اس نہج پر سوچئے اور ایسے اقدامات کیجئے کہ پابندیاں بے اثر ہوکر رہ جائیں۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایسی تیاری کیجئے کہ تیل پر ملک کا مالیاتی انحصار کم سے کم ہو جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مختصر سی مدت میں تیل کی قیمت کو نصف تک گھٹا دیتے ہیں۔ اگر ہم تیل پر منحصر رہیں گے تو ہمارے لئے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ ملک کے اعلی حکام کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک یہی ہے کہ ایسے انتظامات کریں کہ اگر دشمن پابندیاں اٹھانے پر تیار نہ ہو تو ملک کی ترقی اور نمو اور عوام کے رفاہی وسائل پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر موجود توانائیوں کا رخ کریں، ملک کے اندر موجود صلاحیتوں سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے۔ راستے موجود ہیں، ایسے افراد موجود ہیں جو صاحب نظر ہیں، مخلص اور ماہر افراد ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے راستے فراہم ہیں جن کی مدد سے ملک خود کفیل ہو سکتا ہے۔ یہ ملکی حکام اور اعلی عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ اغیار سے آس نہ لگائیں، اغیار کا طریقہ یہ ہے کہ کبھی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تو آپ جتنی پسپائی اختیار کریں گے وہ اتنی ہی چڑھائی کرتے چلے آئیں گے، آپ ایک قدم پيچھے ہٹے تو وہ ایک قدم آگے آ جائیں گے۔ استکباری نظام رحمدلی، انصاف، انسانیت اور رواداری برتنے والا نظام تو ہے نہیں۔ آپ جتنی نرمی دکھائیں گے وہ اتنا آپ کے سینے پر سوار ہو جائیں گے۔ تو کوئی مستقل راہ حل تلاش کیجئے۔ مستقل راہ حل یہ ہے کہ ملک کو ایسی حالت میں پہنچائیے کہ اسے دشمن کی تیوریوں پر بل پڑنے سے کوئی نقصان نہ پہنچے، دشمن کی پابندیوں سے کوئی ضرر نہ اٹھانا پڑے، راستے بھی موجود ہیں، ایسے اقدامات ہیں جو انجام دئے جا سکتے ہیں، بعض اقدامات کئے بھی گئے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں، نتیجہ بخش ثابت ہوئے ہیں، تو یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ دشمن کے ہاتھ سے یہ حربہ چھینا جا سکتا ہے، ورنہ اگر ہم دشمن سے آس لگائیں گے اور آپس میں بحث کریں گے کہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو وہ پابندیاں نہیں ہٹائیں گے تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امریکی بڑی بے حیائی کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اگر ایران ایٹمی مسئلے میں پیچھے ہٹ جاتا ہے تب بھی ساری پابندیاں ایک ساتھ نہیں اٹھائی جائيں گی۔ یہ صریحی طور پر کہہ رہے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دشمن پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں۔ مذاکرات کریں، جب تک چاہیں مذاکرات کریں! لیکن میرا یہ موقف ہے کہ امیدیں ان چیزوں اور جگہوں سے وابستہ کیجئے جو حقیقت میں امید لگانے کے لائق ہیں، خیالی اور موہوم ذرائع سے نہیں۔ یہ چیز ضروری ہے۔ بحمد اللہ ملک کے حکام اپنے کام میں مصروف ہیں، محنت کر رہے ہیں، موثر اقدامات انجام دے رہے ہیں، میرا نظریہ یہ ہے کہ تمام ذمہ دار ادارے مدد کریں، حکومت کا ہاتھ بٹائیں، کیونکہ کام بہت دشوار ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی بہت محتاط رہیں اور عوام کو تقسیم نہ کریں، تنازعہ پیدا نہ کریں، غیر ضروری باتیں نہ چھیریں، ہمارے عوام کا یہ اتحاد، ہماری قوم کی یہ بلند ہمتی، ہمارے عوام کی یہ قوت ایمانی، صحیح مقصد کے لئے بروئے کار لائی جائے۔ ان شاء اللہ راستے کھل جائیں گے۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح اوائل انقلاب کی نسبت آج ہماری حالت میں زمین آسمان کا فرق آیا ہے، ہم نے بہت پیشرفت کی ہے، بیس سال قبل کی نسبت بھی ہماری حالت کافی بدل چکی ہے، دس سال قبل کی نسبت بھی ہماری آج کی حالت کافی الگ ہے، ہم بہت آگے گئے ہیں۔ ملت ایران ان شاء اللہ اس افتخار آمیز راستے پر روز بروز آگے بڑھتی جائے گی۔ ہماری قوم اور آپ نوجوان توفیق خداوندی سے اور فضل پروردگار سے وہ دن دیکھیں گے جب دنیا کے مستکبر، سرکش، ظالم اور ڈھیٹ دشمن، آپ کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) پر جنہوں نے ہمارے لئے استقامت، اللہ پر توکل اور بصیرت کا راستہ تعمیر کر دیا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عزیز شہیدوں پر جو اس راستے پر چلے، اللہ کا لطف و کرم ہو آپ عزیزوں، آپ نوجوانوں، جوش و جذبے سے سرشار آپ جیسے انسانوں پر جو اسی راستے پر رواں دواں ہیں۔

والسّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

۱) امریکی صدر اور سابق نائب صدر کا سی آئي اے کی جیلوں میں قیدیوں کو دی جانے والی ایذاؤں کے سلسلے میں اعتراف