17 اسفند 1393 ہجری شمسی مطابق 8 مارچ 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ماحولیات کی حفاظت حکومتی فریضہ ہے اور ضروری ہے کہ ماحولیات کے متعلق قومی دستاویز تیار کی جائے اور تمام تعمیراتی اور صنعتی پروجیکٹوں کے ساتھ ماحولیاتی دستور العمل کا ضمیمہ بھی رکھا جائے اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کو جرم قرار دیا جائے اور اس طرح اس انتہائی اہم فریضے پر عملدرآمد ہو۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زمین اور اس کرہ ارضی کی ثروتوں کی حفاظت کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام اور ادیان الہیہ نے ہمیشہ فطرت کے تعلق سے انسانوں کے اندر احساس ذمہ داری اور انسان اور فطرت کے درمیان اعتدال کو قائم رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
میں محترم خواتین و حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ بحمد اللہ ماحولیات سے وابستہ افراد کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر انسان خوش بھی ہوتا ہے اور فکرمند بھی۔ خوش اس لئے ہوتا ہے کہ الحمد للہ اتنے سارے تازہ دم، شاداب، پرجوش، مہارت اور دلچسپی رکھنے والے افراد اس عظیم اور اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تشویش اس بات پر ہے کہ آپ کا یہ جو مجموعہ کارکنان ہے جو مختلف اداروں سے تعلق رکھتا ہے، اس کے اندر آپس میں اس محور کے بارے میں اتفاق رائے ہے بھی یا نہیں؟! ماحولیات کے مسئلے کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام ادارے جو ماحولیات کے امور سے وابستہ ہیں، آپس میں ایک دوسرے سے صدق دلی کے ساتھ تعاون کریں۔ میں اللہ تعالی سے آپ سب کے لئے ہدایت و نصرت کی دعا کرتا ہوں۔
آج کے اس اجلاس کی مناسبت یہ ہے کہ ہم ہر سال ہفتہ شجر کاری کے موقع پر اور ماحولیات سے متعلق دن پر علامتی عمل کے تحت ایک دو درخت لگاتے تھے۔ یہ ایک طرح کا احساس ذمہ داری تھا اور عوام کو توجہ دلانا مقصود ہوتا تھا شجر کاری کی اہمیت و افادیت پر۔ اس کا اپنا اثر تھا۔ ملک کے مختلف خطوں خاص طور پر تہران میں شجر کاری کے موضوع پر گزشتہ برسوں کے دوران توجہ دی گئی ہے۔ ماضی میں جو مشکلات اور کمیاں پیدا ہو گئی تھیں رفتہ رفتہ دور ہو رہی ہیں، البتہ صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ اس سال ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان مسائل کی اہمیت و کلیدی حیثیت کے پیش نظر جو آج ہمارے دامنگیر ہیں، مناسب ہوگا کہ ایک اجلاس کا انعقاد کیا جائے اور ہم آپ کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کریں۔ بعد میں اسے فراموش نہ کیا جائے، بلکہ حکام ماحولیات سے متعلق مسائل کے حل کے لئے اساسی اور بنیادی اقدامات انجام دیں۔ مجھے ان معروضات کے بارے میں ایک رپورٹ دی گئی جو سنہ 1998 سے اب تک میں نے اس تعلق سے پیش کئے ہیں۔ بہت سی باتیں کہی جا چکی ہیں، سفارشات کی گئی ہیں، لیکن صرف سفارشات سے بڑی مشکلات کا علاج نہیں ہو پاتا۔ سنجیدگی کے ساتھ موثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ان برسوں میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میں چند باتیں عرض کروں گا۔ سب سے پہلے تو میں زمین، اس کرہ خاکی اور اس مجموعے کے بارے میں، جو انسانی زندگی کا گہوارا، پیدائش اور نشونما اور پھر انسان کی واپسی کا مرکز ہے، اسلام کا نظریہ اور نقطہ نگاہ بیان کروں گا۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ وَ الاَرضَ وَضَعَها لِلاَنام(۱) زمین کو یعنی اس کرہ ارض کو ہم نے انسانوں کے لئے خلق کیا ہے، یہ سب کی ملکیت ہے۔ صرف کچھ لوگوں سے مختص نہیں ہے۔ کسی ایک کو دوسرے کی نسبت زیادہ مالکانہ حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کسی ایک نسل کی ملکیت ہو اور دوسری نسل کا اس پر حق نہ ہو۔ آج یہ آپ کی ہے، کل آپ کے فرزندوں کی ہو جائے گی، پھر آپ کے پوتے پوتیوں کی ہوگی اور اسی طرح آخر تک آپ کی نسلوں کی ملکیت بنتی رہے گی۔ یہی صورت کرہ ارض میں ہر مقام اور ہر جگہ کی ہے۔ زمین کی تخلیق انسانوں کے لئے ہوئی ہے۔ یہ انسانوں کی ملکیت ہے۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛ خَلَقَ لَکُم ما فِی الاَرضِ جَمیعًا (2) جو کچھ زمین میں ہے اور زمین سے متعلق ہے وہ سب آپ انسانوں کے لئے خلق کیا گيا ہے۔ بنابریں چونکہ یہ آپ کی ملکیت ہے تو بہتر ہوگا کہ اسے نقصان نہ پہنچائیے، اسے خراب نہ کیجئے۔ اس کی تمام چیزیں قیمتی اور اہم ہیں۔ بعض چیزیں ایک عام انسان کو ممکن ہے کہ قیمتی اور اہم محسوس ہوں اور کچھ چیزیں بے وقعت اور لا یعنی نظر آئیں، لیکن در حقیقت یہ ساری چیزیں بہت قیمتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے اندر کچھ افراد کہتے تھے کہ یہ متعفن مادہ ہمارے کس کام کا ہے؟! ان کی مراد خام تیل سے تھی۔ کچھ لوگ ممکن ہے کہ ملک کے شمالی علاقہ جات کی ہریالی اور سبزے سے محظوظ ہوں اور ریگستانی علاقے انہیں پسند نہ آئیں۔ لیکن آپ جائیے اور ڈاکٹر کردوانی (3) سے بیٹھ کر بات کیجئے اور سنئے کہ وہ ریگستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں یکساں طور پر اہم ہیں، یہ سب نعمتیں ہیں اور یہ سب کچھ اپ کا ہے۔ مگر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اسے نقصان پہنچائيں، نہ باغات اور چمن کو ، نہ جنگلات اور چراگاہوں کو، نہ دشت و ریگستانوں کو۔ یہ سب تمام انسانوں کی ملکیت ہیں، انہیں آپ بہترین انداز میں استعمال کیجئے۔ ایک اور آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے؛ وَ استَعمَرَکُم فیها (4) اللہ تعالی نے جو اس زمین کا خالق ہے اور تمہیں بھی پیدا کرنے والا ہے، تمہیں مامور کیا ہے کہ اس زمین کو آباد کرو، یعنی اس کرہ ارضی کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں کو متحرک کرو۔ بے شمار صلاحیتیں اور توانائياں ہیں جو پہلے ناشناختہ تھیں، اب ان کی شناخت ہوئی اور ان کی اہمیت کا ادراک ہوا، ان کی قدر و قیمت معلوم ہوئی۔ یہ کام تمہیں کرنا ہے، یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ آج بھی جب ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ زمین کی تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آپ آج پانی سے، مٹی سے، ہوا سے زمین دوز مواد سے اور روئے زمین پر موجود اشیاء سے جو استفادہ کر رہے ہیں، اس سے کروڑوں گنا زیادہ استفادہ کرنے کے امکانات موجود ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہوں۔ انسان کو چاہئے کہ دائمی طور پر ان توانائیوں اور صلاحیتوں کو تلاش کرتا رہے اور ان توانائیوں کو زندگی بشر کی بہبود اور بہتری کے لئے بروئے کار لائے۔
ایک اور آیت الدّ الخصام کے بارے میں ہے۔ یعنی انتہائی ضدی، حد درجہ خبیث اور پتھر دل دشمن۔ اس کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک خصوصیت یہ ہے؛ اِذا تَوَلّی‌ سَعی‌ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ و النَّسل (5) کھیتی اور نسلوں کو تباہ کر دیتا ہے، خراب کر دیتا ہے۔ یعنی نباتات کی پیداوار اور انسانی نسل کے آگے بڑھنے کے عمل کو نابود کر دیتا ہے، تباہ کر دیتا ہے۔
آج اگر آپ دیکھئے تو عالمی سیاست میں ایسے افراد نظر آ جائیں گے جو تمام اقوام کے ساتھ یا بیشتر اقوام کے ساتھ یہی کام کر رہے ہیں۔ کھیتی کی تباہی اور نسلوں کی ہلاکت کا کام۔ اللہ اسے 'فساد' کہتا ہے اور پھر ارشاد ہوتا ہے؛ وَ اللهُ لا یُحِبُّ الفَساد (6) یہ رہیں چند آیتیں جن کی میں نے تلاوت کی، ان کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں انتہائی اعلی مضامین کی روایتیں اسلام میں ہیں، زمین کے بارے میں اور ماحولیات کے بارے میں ہمارے دینی متون میں موجود ہیں۔ یہی آیتیں جن کی ابھی یہاں تلاوت کی گئی (7) ان آیتوں میں ہیں جو روئے زمین پر پائی جانے والی ان اشیاء کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو سب کی سب بشریت کے لئے ہیں۔ آپ کی ملکیت ہیں۔ ماحولیات کا مسئلہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت کا نچوڑ یہ ہے کہ فطرت کے تعلق سے انسان اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے، اپنے فرائض کو پہچانے۔ جس طرح انسانوں کے تعلق سے ہم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، اسی طرح ماحولیات کے بارے میں بھی ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ اسلام اور دیگر ادیان الہیہ نے یہ چاہا ہے کہ انسان اور فطرت کے مابین توازن قائم رہے۔ یہی بنیادی اور اساسی ہدف ہے۔ اس توازن کی حفاظت میں تساہلی اور اس سے بے اعتنائی ان علل و اسباب کا نتیجہ ہے جو انسان کی خود پسندی اور ہم میں بعض لوگوں کی توسیع پسندی اور غنڈہ گردی سے عبارت ہیں۔ اگر اس توازن کو قائم نہ رکھا گیا تو ماحولیات کا بحران پیدا ہوگا اور ماحولیات کے بحران کا نقصان تمام انسانوں اور تمام نسلوں تک پہنچے گا۔
آج یہ بحران صرف ہم تک محدود نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے بحران کی اصطلاح مناسب نہ ہو تو کم از کم اسے ایک بڑا چیلنج تو ضرور کہا جائے گا۔ یہ بڑا چیلنج صرف ہم تک محدود نہیں ہے۔ آج ساری دنیا میں یہ چیلنج موجود ہے اور یہ احساس ذمہ داری کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ 'کیوٹو معاہدے' (8) کے قضیئے میں امریکا کی حکومت غنڈہ گردی پر اڑ گئی۔ چند سال پہلے میں نے نماز جمعہ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا اور یہی بات کہی تھی (9)۔ یعنی ایک معاہدے کے سلسلے میں غنڈوں جیسا رویہ، ایسے معاہدے کے سلسلے میں جو کسی ایک ملک، دو ملک یا کسی ایک خطے اور دنیا کے کسی خاص گوشے سے متعق نہیں ہے، اس کا تعلق ساری دنیا سے ہے۔ گرین ہاؤس گیسز کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا نقصان ایک ملک اور کچھ لوگوں تک محدود ہو۔ نہیں، اس کی زد پر ساری انسانیت ہے۔ لیکن ماحولیات کے معاملے میں اساسی مشکل یہ ہے کہ اس کے تباہ کن اثرات جلدی اور آسانی سے ظاہر نہیں ہوتے۔ مگر جب ظاہر ہوتے ہیں تو پھر ان کا علاج بڑا طولانی مدت اور بسا اوقات محال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 'پولر گلیشیئرز' کے پگھل کر پانی بننے کا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے اور دوسرے گوناگوں ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ بشر جس کا کوئی تدارک کر سکے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان جس کا دس سال، بیس سال یا سو سال میں ازالہ کر لے۔ انسانیت کے لئے اس کے عواقب دائمی ہیں۔ یعنی کچھ انسانوں نے اپنی ذمہ داری کے سلسلے میں بے حسی کا ثبوت دیا اور دنیا کی عمومی ثروت کو ذاتی ثروت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، اپنے وجود کا حجم بڑھانے کے لئے تمام ممکنہ وسائل کو استعمال کیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے۔ انسان کی سرکشی، انسان کا متکبرانہ انداز میں حدوں سے تجاوز کر جانا، انسانی طاقتوں، دنیا کی دولت و زور بازو رکھنے والی طاقتوں کی غنڈہ گردی کے یہ نتائج اور یہ عواقب ہوتے ہیں۔
عالمی سطح پر یہ صورت حال ہے، اسی طرح ملکی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر بھی یہی قضیہ ہے، ظاہر ہے اس وقت ہم اپنے ملک کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی اس سطح پر بھی کچھ ایسے نقصانات ہیں جن کا تدارک ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں تساہلی، خراب کارکردگی اور ناواقفیت کی وجہ سے مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ پیش آیا ہے۔ مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا بعد میں ازالہ کیا جا سکے۔ مٹی کا مسئلہ پانی سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں پانی کی مشکل کا بھی سامنا ہے۔ یہ بہت بڑی مشکل ہے، لیکن پانی مہیا کرنے کے بہت سے راستے ہیں، زرخیز مٹی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے یہ راستے دستیاب نہیں ہیں۔ یعنی ماحولیات کی حفاظت کے اصولوں سے بے اعتنائی کے بسا اوقات ایسے نتائج ہوتے ہیں۔ جو نقصان پہنچتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا کہ اس کا تدارک کیا جائے۔ اس کے لئے پیشگی احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں، علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سے مسائل کا پیشگی تدارک کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح بعض مشکلات ایسی ہیں کہ جن کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے اور ضروری بھی ہے کہ ان کا ازالہ کیا جائے۔
مثال کے طور پر آپ ہوا کی آلودگی کے مسئلے کو لے لیجئے! آج ہمارے بڑے شہروں میں، تہران اور دیگر بڑے شہروں میں ہوا کی آلودگی کا مسئلہ ہمارے ملک کی انتہائی اہم ماحولیاتی مشکل ہے۔ اس کے لئے احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں اور اس کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی ایک آواز ہوکر، اجتماعی ارادے اور ہمدلی کے ساتھ اپنی تمام توانائیوں کو مجتمع کر لیں، اس مسئلے سے تعلق رکھنے والے تمام فریق (متحد ہو جائيں) تو اس مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی ملک ایسا ہے جس کا رقبہ ہمارے رقبے کا محض بیس فیصدی ہے، آبادی ہماری آبادی کی دو گنا ہے۔ اس نے ہوا کی آلودگی کے مسئلے کو حل کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام ممکن ہے، ہم بھی اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں۔ گرد و غبار کے طوفان کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسائل قابل علاج ہیں۔ البتہ اس کے لئے حوصلے اور تحمل سے کام کرنے، مناسب تدابیر اپنانے اور اس پر مستقل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کا مسئلہ کسی ایک حکومت کی پیدا کی ہوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ طولانی مدت معاملہ ہے۔ فلاں شخص یا کسی اور شخص کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں ہے، کسی خاص حلقے اور جماعت کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ سب ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہو جائيں اور اس مشکل کو حل کریں۔
ماحولیات میں تین چیزیں بنیادی عناصر کا درجہ رکھتی ہیں جن پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ ہوا، پانی اور مٹی۔ ان پر تمام توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اعداد و شمار مجھے پیش کئے گئے ان کے مطابق تہران میں ہوا کی آلودگی کے مسئلے کا ستر فیصدی حصہ ٹرانسپورٹ سے متعلق ہے اور تیس فیصدی حصہ آلودگی پیدا کرنے والی صنعتوں سے متعلق ہے۔ بہرحال یہ اعداد و شمار ہیں جو مجھے دئے گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں کہیں معمولی سی کمی بیشی ہو۔ آپ کے درمیان ماہرین موجود ہیں، ممکن ہے کہ ان کے پاس اور بھی درست معلومات ہوں۔ بہرحال وجہ معلوم ہو گئی۔ جب ہم وجہ کو سمجھ گئے تو گویا مشکل کے حل کی سمت میں ہم ایک قدم آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب پوری توجہ اور لگن سے اس مشکل کے حل کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ باتیں صرف پروپیگنڈے کی باتیں نہیں ہیں۔ یہ ایسے امور نہیں کہ پہلے ان کا پروپیگنڈا کیا جائے، نہیں پہلے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کام انجام پا جائے گا تو عوام بغیر اعلان اور تشہیر کے بھی محسوس کر لیں گے۔
گرد و غبار کے طوفان کا مسئلہ جو کل خوزستان میں، آج کرمان میں اور پھر ممکن ہے کہ کل کو کسی اور جگہ عوام کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کرے، اس مشکل کو حل کیا جانا چاہئے۔ گرد و غبار کے طوفان سے لوگوں کو صرف تنفس کی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ ملک کے مغربی علاقوں کے جنگلات، بلوط کے جنگلات، گرد و غبار کے طوفان کی وجہ سے نابودی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ مشکل پیش آ گئی تو اس کے نقصانات تہران اور دیگر شہروں میں گرد و غبار کے طوفان سے پیش آنے والی تنفس کی مشکل سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ پوری توجہ سے اس مسئلے کو دیکھنا چاہئے، اس کے لئے کام کرنا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے کہ وجہ کیا ہے، علل و اسباب کو پہچاننا چاہئے اور سنجیدگے سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ پانی اور اس کے استعمال کا ہے۔ میں نے دو تین سال قبل، غالبا آغاز سال کی اپنی تقریر میں اشارہ کیا کہ نوے فیصدی پانی زراعت پر صرف ہوتا ہے (10)۔ دوسرے تمام مقاصد کے لئے ہونے والا استعمال، پینے کے لئے، شہر میں اور صنعتوں وغیرہ میں ہونے والا استعمال دس فیصدی ہے۔ زراعت پر خرچ ہونے والے پانی میں اگر ہم دس فیصدی کی بچت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اسی مقدار میں اضافی پانی جو پینے کے لئے، شہروں کی ضرورتوں کے لئے اور صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے، ملک کو ملنے لگے گا۔ یہ کوئی معمولی چیز ہے؟ اتنا اہم اور با عظمت مسئلہ کیا ایسا نہیں ہے کہ جس پر تمام متعلقہ لوگ کام کریں اور اس قضیئے پر توجہ دیں؟ اچھا اور صحیح نیٹ ورک تیار کرکے، ڈرپ آبپاشی 'Drip irrigation کے ذریعے پانی کی بچت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ڈیم بناکر پانی جمع کرتے ہیں لیکن آبپاشی کا نیٹ ورک نہیں تیار کرتے تو جیسا کہ بد قسمتی سے بہت سی جگہوں پر دیکھنے میں آ رہا ہے، تو ظاہر ہے یہ پانی ہم ضائع کر دیں گے، پانی 'تبخیر کے عمل' کے ذریعے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈیمز پر بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ بہت سے کام ہیں جو انجام دئے جانے ہیں۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔
مٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ دراز مدت میں پانی کی قلت کے مسئلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کچھ سال پہلے 'واٹر شیڈ' اور 'واٹر اسپریڈنگ' کا موضوع زیر بحث آیا تھا۔ کچھ کام بھی انجام دئے گئے۔ اس کام کو پوری سنجیدگی اور قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام رکنا نہیں چاہئے۔
میں تجربے کی بنیاد پر آپ خواہران و برادران عزیز کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ ملک میں ہمارے سامنے ایک بنیادی مشکل کاموں کے تسلسل پر عدم توجہی کی ہے۔ ہم کام بہترین انداز میں شروع کرتے ہیں لیکن دائمی طور پر اس کی نگرانی نہیں کرتے، البتہ بعض کاموں میں توجہ کے ساتھ نگرانی بھی ہوئی ہے۔ جہاں توجہ سے نگرانی رکھی گئی ہے وہاں اچھے نتائچ اور ثمرات بھی ملے ہیں۔ بعض مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ کام بیچ میں ہی رک جاتا ہے، اس کی نگرانی اور اس پر توجہ نہیں رکھی جاتی۔ یہ ایک کلیدی مشکل ہے۔ آپ میں ہر ایک شخص کسی نہ کسی شعبے کے انتظامی امور کا ذمہ دار ہے۔ ملک کے عہدیدار توجہ دیں کہ دائمی نگرانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
ایک کلیدی مسئلہ جنگلات اور چراگاہوں کا ہے۔ یہ جنگلات اور چراگاہیں ہمارے شہروں اور گرد و پیش کی فضا کو آکسیجن دینے والے پھیپھڑوں کا بھی کام کرتی ہیں اور مٹی کی حفاظت بھی کرتی ہیں، مٹی کو بچاتی ہیں جس کی اہمیت کے بارے میں ابھی ہم نے گفتگو کی۔ جنگلات کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں، شمالی علاقوں کے ان گھنے جنگلوں میں کہیں تو جنگلات کی لوٹ مار ہو جاتی ہے اور بعض جگہوں پر وہ بے توجہی اور بے اعتنائی کا شکار ہوتے ہیں۔ میں تاکید کر رہا ہوں، آپ ہرگز اجازت نہ دیجئے کہ جنگلات سے تعرض کیا جائے۔ ملک کے مختلف محکمے جو اس سلسلے میں ذمہ دار ہیں، قدرتی ذخائر سے لیکر ماحولیات تک کسی کے سلسلے میں بھی اجازت نہ دیں کہ سیاحوں کو متوجہ کرانے کے نام پر، ہوٹل اور تفریحی پارک بنانے کے نام پر، دینی مدرسہ اور دار العلوم تعمیر کرنے جیسے بہانوں کے ذریعے تعرض کرے اور ہمارے جنگلات کو نقصان پہنچے، جنگلات سے تعرض ہو۔ جہاں بھی جنگلات سے تعرض ہوا ہے اس کا سختی کے ساتھ سد باب کیجئے۔
ایک اور اہم مشکل زمینیں ہتھیانے کی ہے۔ البتہ زمینیں ہتھیانے کا مسئلہ نیا نہیں ہے، بہت پرانا ہے۔ ہم اپنے بچپن اور نوجوانی کے ایام سے ہی بار بار 'زمین خوروں' کا نام سنتے آ رہے ہیں۔ مگر توقع یہ تھی کہ اسلامی نظام میں اور اسلامی جمہوری نظام نافذ ہو جانے کے بعد ہم یہ اجازت نہ دیتے کہ کچھ لوگ آئیں اور شہر کے اطراف میں، شہر کے مضافات میں بہترین علاقوں میں عمومی ثروت و سرمائے کو اپنے طور پر ذاتی ثروت میں تبدیل کر لیں۔ آپ فرض کیجئے کہ شہر کے کسی حصے میں ایک وسیع و عریض باغ واقع ہے۔ یہ عمومی سرمایہ ہے۔ اب کچھ لوگ آئیں اور چالاکی سے، قانون میں رد و بدل کرکے یا خدانخواستہ کسی ادارے کے ایک دو کمزور ایمان والے افراد کو خرید کر، اس عمومی باغ کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیں! تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔
زمینیں ہتھیانے کا معاملہ اب آگے بڑھ کر ٹیلے اور پہاڑ ہتھیانے کی منزل تک پہنچ گیا ہے! میں کبھی کبھی جب شمالی تہران کے پہاڑوں پر (کوہ پیمائی کے لئے) جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں۔ واقعی بہت افسوس ہوتا ہے۔ میں نے شہر کے حکام کے ساتھ اور حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں ان مسائل کو کئی دفعہ اٹھایا ہے۔ کچھ کوشش بھی کی گئی لیکن ضرورت ہے پوری قطعیت کے ساتھ اقدام کی۔ حکام کو چاہئے کہ سوء استفادہ کرنے والوں کے خلاف سختی سے کارروائی کریں، ہمت و شجاعت سے کام کریں۔ یہ موقع نہ دیں کہ غلط طریقے سے فائدہ اٹھانے والے افراد جانے پہچانے حربوں کے ذریعے سوء استفادہ کریں۔ وہاں اوپر جاکر جب انسان نظر دوڑاتا ہے تب سمجھ میں آتا ہے اور دکھائی پڑتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟! پہلے تو جاکر اجازت لیتے ہیں کہ کسی قطعہ آراضی کے ایک سرے پر کوئی پروجیکٹ لگائیں گے۔ جب وہ حصہ ان کا ہو گیا تو پھر فطری طور پر رفتہ رفتہ وہ پورا قطعہ آراضی ردوبدل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کام کرتے ہیں۔ شمالی تہران اور مغربی تہران در حقیقت شہر کے لئے تنفس کی شریانوں کا درجہ رکھتا ہے۔ شمالی تہران کے کوہی علاقوں میں الگ انداز سے اور مغربی تہران کی زمینوں میں الگ انداز سے تعرض کیا جا رہا ہے۔ مشہد میں، ہمارے شہر میں بھی، میں نے جاکر دیکھا ہے کہ شہر کا جنوبی کوہی علاقہ جو شہر کے لئے 'تنفس' کا مرکز ہے، کچھ لوگ اس کے اوپر گھر بنانے لگے ہیں، ہوٹل تعمیر کر رہے ہیں، کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں! یہ بری چیز ہے، یہ غلط ہے، آپ اسے جرم گردانئے۔ ایک بنیادی کام یہ ہے کہ ان چیزوں کو قانون میں جرم قرار دیا جائے، انہیں جرم سمجھا جانا چاہئے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہئے۔ صرف جاکر چیک پوسٹ بنا دینا کافی نہیں ہے، بعض مواقع پر تو چیک پوسٹ بھی نہیں بنائی جاتی، کوتاہی برتی جاتی ہے۔
اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہئے کہ تہران کے پینے کے پانی کے ذخیرے سے تعرض کیا جائے، تہران کے ہوا اور تنفس کے راستوں سے تعرض کیا جائے، ملک کے دار الحکومت اور اسلامی حکومت کے مرکز تہران میں زںدگی کے سرچشموں سے کچھ لوگ تعرض کریں۔ ان سے سختی کے ساتھ نمٹا جانا چاہئے۔ اگر محکموں کے اندر ایسے افراد ہیں جو کوتاہی کر رہے ہیں تو ان کے خلاف اور بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ اساسی اور ضروری کاموں میں ہے۔ قدرتی ذخائر، بلدیہ، ماحولیات اور نگراں ادارے سب کے درمیان اس افسوس ناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے مکمل ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ ماحولیات کی حفاظت اور ماحولیات کے تقاضوں کو پورا کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ بیشک عوام الناس کا بھی اس میں رول ہو سکتا ہے، عوام بھی اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، تعاون کر سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی ادارے پوری توجہ کے ساتھ اس مسئلے کو دیکھیں۔ اگر وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو عوام الناس بھی مدد کریں گے۔
سب سے پہلے تو ماحولیات کے مسائل کے لئے قومی دستاویز کی تدوین ہو۔ اس کے بعد ادارے تعاون کریں جس کا ذکر ہم نے اس سے پہلے کیا کہ تمام اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ اس کے بعد تمام تعمیراتی پروجیکٹوں کے لئے ماحولیات کے دستور العمل کا ضمیمہ۔ شہری و غیر شہری اور صنعتی تعمیراتی پروجیکٹوں اور دیگر منصوبوں کے ساتھ ماحولیاتی ہدایات کا ضمیمہ ضرور ہونا چاہئے۔ سڑک کی ضرورت ہے تو بنائيے، لیکن یہ طے ہونا چاہئے کہ ماحولیات پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ کارخانہ لگنا ہے تو لگے مگر جائزہ لے لیا جائے کہ ماحولیات پر اس کا کیا اثر پڑےگا۔ بعض تجارتی مسائل اور اقتصادی مسائل میں بھی ماحولیاتی ہدایات کا ضمیمہ ضروری ہے۔
ماحولیات کے سلسلے میں تخریبی اقدامات کو جرم قرار دینا۔ عدلیہ کی سطح پر اور اس سے پہلے پارلیمنٹ میں بننے والے قوانین میں اس نکتے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ البتہ قوانین موجود ہیں اور بڑے اچھے قوانین ہیں، لیکن ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کو جرم قرار دیا جانا چاہئے۔ تعزیری جرم کے طور پر اس معاملے میں کارروائی ہونی چاہئے۔ موجودہ قوانین پر نظر ثانی اور ان میں اصلاح، بغیر کسی درگزر کے نظارت کے نظام کی تقویت ہونی چاہئے۔ نگرانی ہونی چاہئے، نگرانی کے عمل میں کسی طرح کی کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہئے۔ اداروں کے سربراہان خود نگرانی کریں، ایک اعتبار سے ان سب سے اہم ہے ماحول سازی۔ ماحول سازی ضروری ہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ماحولیات کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ عمل نرسری اسکول سے ہی شروع ہو جانا چاہئے۔ نصاب کی کتب میں ہمیں اپنے بچوں کو چراگاہوں، جنگلات، پانی، ہوا، مٹی اور سمندروں وغیرہ کی حیاتی حیثیت کے بارے میں بتانا چاہئے۔ وہ بچپن سے اسے سمجھیں اور اس بارے میں حساس ہو جائیں۔ ماحولیات کی حفاظت عمومی کلچر کا حصہ ہونا چاہئے۔ البتہ اس مسئلے میں قومی میڈیا کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ قومی میڈیا کو چاہئے کہ اس مسئلے میں ضرور اپنا کردار ادا کرے۔ تاہم عوام بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک نمونہ تو میں نے خود دیکھا ہے۔ مشہد کے مضافات میں واقع ٹھنڈے کوہستانی علاقے 'جاغرق' میں ہمارے ایک پرانے دوست کے پاس چھوٹی سی زمین تھی جو اب بھی ہے۔ اوپر تھوڑا سا پانی تھا، کیتلی سے جو دھار نکتی ہے اس کی آدھی مقدار میں پانی ایک جگہ سے آتا تھا۔ اس پانی کو جمع کر لیا، اس کی حفاظت کی، اسے صحیح راستہ دیا تو اسی زمین میں اس پانی سے کئی حوض بن گئے۔ یہ زمین آباد ہو گئی، بڑے مختصر سے پانی کی مدد سے جو ضائع ہو جاتا تو کسی کو احساس بھی نہ ہوتا اور کسی کی نظر بھی نہ پڑتی۔ ہمارے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ یزد میں، جو ملک میں پانی کی قلیل مقدار والے علاقوں میں شمار ہوتا ہے، ایک صاحب نے ایک باغ دیکھنے کے لئے ہمیں بلایا، ایک جگہ تھی جہاں درخت اور کھیت وغیرہ تھے۔ ان صاحب نے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس جگہ کے پانی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ ہم نے کہا ہاں؟ وہ صاحب ہمیں کافی دور لیکر گئے، شاید کئی کلومیٹر کے فاصلے پر، اب صحیح سے تمام تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ خیر ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوٹے کی ٹونٹی سے نکلنے والے پانی کی مقدار میں مختصر سا پانی آ رہا ہے۔ ان صاحب نے اتنی محنت کی کہ اس پانی کی حفاظت کرتے ہوئے اس کے لئے راستہ بنایا اور اس پانی کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔ یعنی اس طرح کا جو پانی ہے اسے عوام اپنے اطراف کی جگہوں پر بہترین انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ شجرکاری بھی بہت اچھے کاموں میں سے ایک ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ لوگ درخت تو لگاتے ہیں لیکن صحیح طریقے سے اس کی نگہداشت نہیں ہوتی۔ شجرکاری تو رائج ہو گئی ہے لیکن جو درخت آپ نے لگایا ہے، ضروری ہے کہ اس کی نگہداشت کیجئے۔ یا لوگ خود نگہداشت کریں یا بلدیہ سے وابستہ ادارے یہ کام انجام دیں۔ بہرحال نگہداشت کا کام ہونا چاہئے۔
تہران کے اطراف میں ایک جگہ ہے، میں یہ بات یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ تہران کے مشرقی حصے میں ایک بڑا باغ ہے۔ بابائی شاہراہ سے لیکر قوچک کے پہاڑوں تک بہت طویل و عریض رقبے پر یہ باغ ہے۔ یہ زمین فوج کی ہے۔ میں کبھی کبھی صبح کے وقت وہاں سے گزرتا ہوں اور پہاڑ پر جاتا ہوں، پیدل چلتا ہوں۔ میں جب بھی وہاں جاتا ہوں میرا دل لرزنے لگتا ہے! کیونکہ میں جانتا ہوں کہ درجنوں حریصانہ آنکھیں اس جگہ پر لگی ہوئی ہیں۔ وہاں کچھ کام بھی شروع کر دیا تھا مگر ہم نے رکوا دیا۔ ہم نے مخالفت کی، جھگڑا کیا۔ میں جانتا ہوں کہ وقتی طور پر وہ دست بردار ہو گئے ہیں۔ مگر اس انتظار میں ہیں کہ ذرا سی غفلت ہو یا یہ حقیر نہ رہے یا غفلت ہو جائے تو فورا پہنچیں اور اس جگہ کو ہڑپ لیں۔ واقعی دل لرز جاتا ہے۔ کئی سو ہیکٹیئر کے رقبے پر، مجھے صحیح نہیں معلوم ہے، اتنا وسیع و عریض باغ ہے۔ اصل میں تو یہ فوج کا تھا لیکن اب فوج کے استعمال میں نہیں ہے۔ فوج اور وزارت انٹیلیجنس کے بیچ اس پر اختلاف ہے۔ میرے خیال میں تو یہ جگہ عوام الناس کی ہے۔ اسے ایک عمومی تفریح گاہ اور سیاحتی مقام کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔ میں نے مختلف عہدیداروں کو بار بار پیغام دئے۔ بلدیہ کو چاہئے کہ جاکر اس جگہ کو اپنے قبضے میں لے اور پھر عوام الناس کے لئے کھول دے۔ مشرقی تہران میں بہت وسیع و عریض جگہ ہے، بہت اچھی، پرفضا اور درختوں سے بھری ہوئی۔ یہاں تک کہ میں نے اس جگہ پر ایک دفعہ دیکھا کہ ہرنوں یا پہاڑی بکریوں کا ایک جھنڈ نظر آ رہا تھا۔ ایک ایسی جگہ ہے۔ یہ جگہ عوام الناس کے لئے کھول دی جانی چاہئے۔ لوگ جائیں، استفادہ کریں۔ اگر کوتاہی ہوئی تو یہ جگہ بھی دوسری جگہوں کی مانند ہو جائے گی۔ افسوس ہے کہ (بعض جگہوں پر) کوتاہی ہوئي اور ہم نے دیکھا کہ یکبارگی وہاں عمارتیں کھڑی ہو گئیں۔ بعض اداروں نے بھی غفلت کے تحت، یعنی کسی لالچ میں نہیں، کسی قطعہ آراصی کو اپنے کارکنان کے لئے مختص کر دیا۔ ملازمین نے وہ جگہ کسی اور کو فروخت کر دی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح کی بدنظمی زمینوں کے سلسلے میں اور بڑے شہروں کے تنفس اور آکسیجن کے ان مراکز کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
بہرحال یہ بہت اہم مسئلہ ہے، بہت اہم کام ہے۔ اس بارے میں ہم نے ہمیشہ اور ہر سال بات کی۔ میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کر دیں کہ عوام مطلع ہو جائیں اور فیصلہ کریں اور اس کی روشنی میں اداروں کو 'نمبر' دیں۔ کس ادارے کو کتنا نمبر دینا چاہئے یہ فیصلہ عوام الناس کے ہاتھ میں ہو۔ وہ فیصلہ کریں کہ کس ادارے نے ماحولیات کے بارے میں یہ اقدامات انجام دینے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کون ادارہ ناکام رہا۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو ان افراد میں قرار دے جو اس میدان میں خدمات انجام دینے میں کامیابی حاصل کریں۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ رحمن، آیت ۱۰
2) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌ ۲۹ کا ایک حصہ
3) ڈاکٹر پرویز کردوانی‌
4) سوره‌ هود، آیت نمبر‌ 61 کا ایک حصہ
5) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌ 205 کا ایک حصہ
6) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌ 205 کا ایک حصہ
7) سوره‌ نحل، آیات ۹ الی ۱۳
8) جاپان کے کیوٹو شہر میں صنعتی ممالک کے درمیان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے سے متعلق معاہدہ جو زمین کی حدت برھنے کا اصلی سبب مانی جاتی ہیں۔
9) تہران کی مرکزی نماز جمعہ میں دئے گئے خطبے بتاریخ 5 اپریل 2002
10) مشہد مقدس میں روضہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین اور خدام کے اجتماع سے خطاب؛ بتاریخ 21 مارچ 2011