آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 14 اردیبہشت 1394 مطابق 4 مئی 2015 کو کانفرنس کی منظمہ کمیٹی سے ملاقات میں کہا کہ پیشمرگان مسلمان کرد فورس کے جوانوں نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں اور ناموافق حالات میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی خدمت کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌ (1)

میں شکر گزار ہوں ان برادران عزیز کا جنھوں نے 'پیشمرگان مسلمان کرد' فورس کی قربانیوں کو یاد کرنے، انھیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کو فراموش ہونے سے بچانے کے لئے کمر ہمت کسی۔ آپ نے زحمت کی اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو نکات جناب حسینی صاحب نے، محترم کمانڈر جناب رجبی صاحب نے اور ہمارے پرانے دوست جناب ملا قادر صاحب نے بیان کئے، اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خداوند عالم آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے اور آپ کی مدد فرمائے۔
جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا؛ کرد نشین علاقے میں شجاع اور مخلص بھائیوں کی کمی نہیں تھی۔ کرد نشین علاقے کے ہر حصے میں برادران مومن و مخلص موجود تھے جنھوں نے انقلاب کے لئے حقیقت میں قربانیاں دیں۔ ان میں سب سے نمایاں وہ نوجوان تھے جو 'پیشمرگان مسلمان کرد' فورس میں شامل ہوئے اور اسلحہ اٹھا کر میدان جنگ میں گئے۔ انھوں نے خود اپنی جان بھی خطرے میں ڈالی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈالیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اصفہان میں، تہران میں، یزد میں، مشہد میں اور تبریز میں اگر کسی کنبے کا فرزند میدان جنگ میں جاتا تھا اور شہید ہو جاتا تھا تو لوگ اس خاندان سے اظہار ہمدردی کرتے تھے۔ کسی کے ذہن میں ہرگز یہ تصور پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اس خاندان کو دھمکی دے۔ کردستان میں ایسا نہیں تھا۔ وہاں وہ خاندان جن کے چشم و چراغ میدان جنگ میں جاکر محو پیکار ہو جاتے تھے یا جام شہادت نوش کرتے تھے، انھیں انقلاب مخالف عناصر کی جانب سے دھمکایا جاتا تھا۔ پیشمرگان مسلمان کرد فورس میں شامل ہوکر جو نوجوان شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ میں قدم رکھتا تھا، مجھے بخوبی یاد ہے اور میں اس فورس سے پوری واقفیت رکھتا تھا۔ میں وہاں بارہا جا چکا تھا اور ان سے مل چکا تھا۔ ان کی آمد و رفت رہتی تھی۔ وہ اپنی زندگی بھی خطرے میں ڈالتے تھے اور اپنے اہل خانہ کا چین و سکون بھی داؤں پر لگا دیتے تھے۔ سب کچھ جانتے ہوئے وہ آتے تھے۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ وہ واقعی اس سخت امتحان میں کامیاب ہوئے۔ یہ واقعی بہت اچھی اور بڑی کامیابی تھی۔
دشمن نے روز اول سے ہی کرد نشین علاقوں کو اپنی نظر میں رکھا تھا۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو قومیت کی وجہ سے اور دوسرے مسلک کی وجہ سے۔ دشمن اس امید میں تھا کہ یہاں اسے کامیابی مل جائے گی۔ بلوچستان کے سلسلے میں ایک الگ انداز سے، ترکمن صحرا میں کسی اور انداز سے اور کردستان میں مختلف انداز سے انھوں نے توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ طاغوت (شاہ) کی حکومت کے سیکورٹی اداروں کے خفیہ مراکز میں کردستان کے علاقے سے متعلق جو دستاویزات موجود تھے، وہ سب ہمیں حاصل ہو گئے اور ہم نے دیکھا کہ اس علاقے کے بارے میں ان کی پالیسیاں کیا تھیں اور وہ کس طرح کے اقدامات کرتے تھے۔ وہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنا چاہتے تھے اور کردستان کے علاقے کو انقلاب کو زک پہنچانے والے علاقے میں تبدیل کر دینا چاہتے تھے۔ یہ تھا ان کا ہدف۔ اس کے لئے مختلف نعرے لگائے جاتے تھے۔ بعض اشتراکیت کے نعرے تھے اور بعض نعرے تو بظاہر اسلامی بھی ہوتے تھے۔ اسی کردستان کے علاقے میں انقلاب مخالف اور اسلامی نظام کے مخالف ایسے افراد بھی تھے جو قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ یہ سب کچھ ہمیں یاد ہے۔ اس قضیئے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو یہ چیزیں یاد ہیں۔ یہ افراد در حقیقت امریکا کے لئے اور صیہونی حکومت کے لئے انقلاب کے خلاف کام کر رہے تھے، تگ و دو کر رہے تھے، اپنی ساری توانائياں انھوں نے صرف کر دیں کہ اس علاقے میں بدامنی پھیلا دیں، مگر اس علاقے میں بدامنی نہیں پھیلی۔ مختلف علاقوں سے ہمارے نوجوان کردستان پہنچے لیکن اگر خود کرد عوام دل سے انقلاب کے حامی نہ ہوتے تو کیا یہ نوجوان وہاں کچھ کر پاتے؟! ظاہر ہے کہ نہیں کر پاتے۔ اگر انھیں کرد عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ہم نے جو فورس کردستان بھیجی تھی اگر اس کی دس گنا فورس جاتی، تب بھی یہ فورس کچھ نہ کر پاتی۔ کرد عوام اور بہت سے علما اس فورس کے ساتھ تھے۔ بعض کرد علماء انقلاب دشمن عناصر کے ہاتھوں شہید بھی کر دئے گئے۔ اس سلسلے کے آخری شہید، شیخ الاسلام مرحوم ہیں۔ سنندج میں اس پاکیزہ اور مخلص انسان کو شہید کر دیا گیا۔ اس علاقے میں جو کام انجام پایا وہ یہاں کے برادران عزیز کی مدد سے انجام پایا۔
بہت سی یادیں میرے ذہن میں ہیں۔ جناب ملا قادر نے پاوہ کے علاقے کی بات کی۔ مجھے یاد ہے پاوہ کے واقعات کے بعد جب پہلی دفعہ ہم وہاں گئے تو بڑی شدید سردی تھی۔ شہر کے بالائی علاقے میں ہم گئے۔ وہاں جو نوجوان تھے ان سے ملاقات کی۔ مسجد کے اندر گئے (2)۔ واقعی وہاں کے لوگ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود اسلامی جمہوری نظام کے لئے کام کر رہے تھے، خدمت کر رہے تھے ، زحمتیں اور صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ واقعی وہاں کی صورت حال یہ تھی۔ بحمد اللہ ان زحمتوں کا ثمرہ بھی ملا۔ آج بھی ان علاقوں میں یہی جذبات ہیں۔ البتہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دشمن کبھی چین سے نہیں بیٹھے گا۔ اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ دشمن خاموش ہوکر بیٹھ رہے گا تو ایسا نہیں ہے۔ اس سے جہاں تک بن پڑے گا دشمنی نکالے گا، سازشیں رچے گا، اقدامات انجام دے گا۔ دشمن کے پاس پیسہ بھی ہے، اس کے سیکورٹی ادارے بھی بہت وسیع ہیں، ان کے تشہیراتی ذرائع بھی بہت بڑے ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہمیں بیدار رہنا چاہئے، آنکھیں کھلی رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ شیعہ سنی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ دشمن نے شیعہ سنی اختلاف سے بڑی آس لگا رکھی ہے۔ دونوں طرف تعصب کی آگ بھڑکانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یعنی تعصب کی آگ وہ شیعوں کے اندر بھی بھڑکا رہے ہیں اور اہل سنت کے اندر بھی اشتعال پیدا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیشہ ہی غفلت میں پڑ کر ان عناصر کا کھلونا بن جاتے ہیں۔ جو ہمدرد افراد ہیں انھیں چاہئے کہ ہمیشہ بہت توجہ رکھیں کہ کہیں ان چیزوں میں نہ پڑ جائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ اہل سنت کی حمایت کا لبادہ اوڑھ کر شیعوں پر حملے کرتے ہیں اور اس دشمنی میں حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں برادران اہل سنت کے مسائل سے اور اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بالکل یہی چیز شیعوں کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو اہل سنت کے خلاف شیعوں میں تعصب کی آگ شعلہ ور کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایسے افراد ہیں جن کے اندر کوئی دینی جذبہ نہیں ہے۔ یہ لوگ کیسے افراد کو استعمال کرتے ہیں؟ ایسے افراد کو استعمال کرتے ہیں جو معاملات کے تمام پہلوؤں سے آشنائی نہ رکھتے ہوں۔ ان کے اندر دینی جذبات تو ہیں لیکن اتنا شعور اور دانشمندی نہیں ہے کہ دشمن کے عزائم کو بھانپ لیں۔ دونوں فریقوں کے اندر افراد کو مشتعل کرتے ہیں۔ ہم سب کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ان سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ میں مدتوں سے کہتا آ رہا ہوں کہ برطانیہ کو اس معاملے میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ اس کا تجربہ امریکا سے زیادہ ہے۔ شیعہ سنی تنازعے کی آگ بھڑکانے کا تجربہ برطانیہ کے پاس بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ کو معلوم ہے کہ کیسے دونوں فرقوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کیا جا سکتا ہے۔ کبھی وہ اس لہجے میں بات کرتے ہیں کہ گویاں اہل سنت کے بڑے خیر خواہ ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ امریکی کانگریس میں عراق کے عرب اہل سنت کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی ہے! کیا واقعی انھیں اہل سنت سے محبت ہے؟ وہ تمام اسلامی علامات کے دشمن ہیں۔ ان کی نظر میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نکتے پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح یہ مسلکی مسئلہ بہت اہم ہے۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ دشمن (ایران میں) کرد فیکٹر کو استعمال نہیں کر پا رہے ہیں، البتہ دوسرے ملکوں میں انھوں نے اس فیکٹر کو بھی خوب استعمال کیا ہے۔ ایران میں وہ اس فیکٹر کو استعمال نہیں کر سکیں گے۔ البتہ ان کا پروپیگنڈا جاری ہے۔ مسلکی اختلافات کو استعمال کر رہے ہیں۔ قومیتوں کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ دشمن کو کوئی موقع نہیں دینا چاہئے۔
جناب ملا قادر صاحب نے ثقافتی و علمی اقدامات کی جو بات کہی وہ بالکل بجا ہے۔ یہ بہت اچھا کام ہے۔ آپ 'پیشمرگان مسلمان کرد فورس' کے بارے میں آپ جو اقدامات کر رہے ہیں، یہ بھی ثقافتی کام ہے۔ اگر آپ یہ کام مناسب اور جامع انداز میں انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ بھی اپنے آپ میں بہت اہم اور با ارزش کام ہوگا۔ اسے انجام دینا چاہئے۔ اقتصادی اور رفاہی کام بھی ہونا چاہئے۔ نوجوانوں کو بے روزگار نہیں رہنا چاہئے۔ بے روزگاری گوناگوں مسائل کی جڑ ہے۔ نوجوانوں کے مسائل بہت اہم ہیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ نے جو کام شروع کئے ہیں بنحو احسن انھیں انجام تک پہچائیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ کانفرنس 28 اردیبہشت 1394 مطابق 18 مئی 2015 کو کردستان کے صدر مقام سنندج میں ہوگی۔ منتظمہ کمیٹی سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صوبہ کردستان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام سید محمد حسینی شاہرودی، پاسداران انقلاب فورس کے کردستان ڈویژن کے کمانڈر، جنرل محمد حسین رجبی اور کردستان کے شہر پاوہ کے امام جمعہ ملا قادر قادری نے اپنی گفتگو میں کچھ نکات بیان کئے۔
۲) مسجد میدان‌