قائد انقلاب اسلامی نے 1394/06/12 ہجری شمسی مطابق 03-09-2015 کو اپنی اس ملاقات میں تمام عہدیداران کو اسلامی فکری نظام کے دائرے میں آگے بڑھنے اور تسلط پسندانہ نظام کی روش اور طرز سخن کو اپنانے سے اجتناب کی سفارش کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ آج علمائے دین، یونیورسٹیوں سے وابستہ مفکرین اور عہدیداران کی سب سے اہم ذمہ داری دشمن کی سازشوں اور منصوبوں کی طرف سے ہوشیار رہنا، اس کی نشاندہی کرنا اور نوجوانوں کی قابلیت و توانائی اور ملک کے اندر موجود وسیع صلاحیتوں کی مدد سے اسلام کے فکری ستونوں کے دائرے میں ارتقائی منزلیں طے کرنے والے ملک کے روشن مستقبل کی تشریح کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ اور اس کے بعد کے حالات سے متعلق اہم نکات کا ذکر کیا۔
یہ ملاقات چوتھی 'مجلس خبرگان' کے اٹھرہویں اجلاس کے بعد ہوئی۔ (1)

بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین. قال ‌الله الحکیم فی کتابه: هُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَةَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم وَ للهِ‌ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللهُ عَلیمًا حَکیمًا.(2)

خوش آمدید کہتا ہوں حاضرین محترم، برادران عزیز کو اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے کرم فرمائی کی جو یہاں تشریف لائے اور اس جگہ کو جہاں ہم کام کرتے ہیں، اپنے وجود سے معطر کیا۔ مجلس خبرگان (ماہرین کی کونسل) اور اس کے ارکان کی اہمیت اتنی ہے کہ انسان واقعی یہ محسوس کرتا ہے کہ آپ کا وجود ہر جگہ باعث برکت ثابت ہوگا۔ مجلس خبرگان 'انزل السکینۃ کا مکمل مظہر ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس 'سکینہ الہی کا نزول' ایمان کی نشانیوں میں ہے۔: هُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَةَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم۔ اللہ کی جانب سے نازل ہونے والی یہ طمانیت ایمان میں اضافے اور اس کی مضبوطی کا باعث ہے۔ 'سکینہ کے معنی ہے تلاطم کے وقت حاصل ہونے والا سکون اور فکری آسودگی۔ گوناگوں حوادث، مختلف النوع حالات، دشمنیوں اور گوناگوں خـبروں سے انسان کے دل و ذہن میں فطری طور پر تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ یہ طمانیت اور آسودگی بسا اوقات فکر و ذہن کو مستحکم بنائے رکھنے اور ثبات قدم میں بہت موثر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی یہ آسودگی اور طمانیت مومنین کو ان کے جذبہ ایمانی کی وجہ سے عطا کرتا ہے، انھیں اطمینان دلاتا ہے کہ؛ «وَ للهِ‌ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرض» (آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ کے ہیں) تو پھر انسان کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ زمین و آسمان کی تمام قوتیں اور تمام قدرتی امور اور سنتیں اللہ کا لشکر ہیں، اللہ تعالی سے متعلق ہیں۔ اگر ہم مومن بندے بنیں، اگر ہم اللہ کے بندے بنیں تو یہ ساری قوتیں مومنین کو حاصل ہو سکتی ہیں اور یہی وہ سکینہ یا طمانیت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ایک دو آیتوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ وَ للهِ‌ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللهُ عَزیزًا حَکیمًا؛(۳) یہ عزت خداوندی، یہ قدرت پروردگار اسی «للهِ‌ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرض» کی نشانیاں ہیں۔ مومنین ایسی دنیا میں اور ایسی فضا میں جیتے ہیں، نقل و حرکت کرتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ مجلس خبرگان (ماہرین کی کونسل) یہی سکینہ و طمانیت عطا کرنے والا سرچمشہ بن سکتی ہے۔
اس مجلس خبرگان میں دو انتخابات ہوتے ہیں۔ ایک الیکشن عوام کے ذریعے براہ راست ہوتا ہے اور وہ اپنے معتمد نمائندوں کو معین کرتے ہیں اور ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی عوام کے معتمد علیہ افراد بعد میں ایک دوسرا انتخاب انجام دیتے ہیں۔ دوسرا انتخاب رہبر انقلاب کا انتخاب ہے۔ تو یہاں دو انتخابات ہوتے ہیں۔ یعنی مجلس خبرگان عوامی شرکت کا مظہر، عوامی رائے اور پسند کے دخیل ہونے اور اس ادارے کے عوامی ہونے کی علامت ہے۔ ہمارے پاس اس شکل کا کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے جس کے اندر دو انتخابات ہوتے ہوں اور جو خود مختار عزم و ارادے کا آئینہ ہو۔ دوسرا انتخاب رہبر انقلاب کا انتخاب ہے۔ دوسرے عام انتخابات اور اس انتخاب میں فرق یہ ہے کہ اس انتخاب میں معیار اور کسوٹی فقہ یعنی اسلامی اقدار ہیں۔ اس طرح یہ لوگ جو انتخاب کرتے ہیں وہ در حقیقت اسلامی اقدار کی حکمرانی، اسلامی احکامات کے نفاذ اور متن زندگی میں اسلام کی رسائی پر منتج ہونے والا انتخاب ہے۔ ادیان الہیہ صرف اس لئے نہیں بھیجے گئے کہ وہ ذہنوں کی چار دیواری میں بند رہیں، حقیقی زندگی میں ان کا عملی طور پر انعکاس ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونے کے لئے وسائل و امکانات کی ضرورت ہے۔ یہاں انھیں وسائل میں سے ایک 'مجلس خبرگان' ہے۔ یہ ادارہ الہی اقدار کی حکمرانی، الہی احکام کے نفاذ، دین خدا کی بالادستی اور اسلام کی حاکمیت کو یقینی بناتا ہے۔ لہذا یہ ادارہ عوامی خواہشات، دینی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کا مظہر ہے۔ در حقیقت اسلامی جہموریت کا بھرپور اور مکمل مظہر 'مجلس خبرگان' ہے۔ اسی سے اس ادارے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب یہ کونسل تشکیل پاتی ہے اور اپنی آمادگی، فکری خود مختاری اور آگاہی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس سے مومنین کے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس ادارے سے یہ طمانیت و فکری آسودگی چشمے کے پانی کی مانند جاری ہوکر پورے معاشرے کو سیراب کرتی ہے۔ لہذا بہت ضروری ہے کہ دونوں ہی انتخابات میں پوری توجہ دی جائے۔ عوام جب ماہرین کی کونسل کے ارکان کا انتخاب کریں تب بھی اور جب ماہرین کی کونسل رہبر انقلاب کا انتخاب کرے تب بھی۔ دونوں انتخابات میں فکری خود مختاری اور باریک بینی سے کام لیا جانا چاہئے۔ انتخابات کے سلسلے میں کچھ معروضات ہیں جو آئندہ پیش کروں گا، اس اجلاس میں اس بحث کو میں نہیں چھیڑنا چاہتا۔
ماہرین کی کونسل کے اندر فکری خود مختاری ہونا چاہئے، ابھی میں عرض کروں گا کہ اس فکری خود مختاری کی بنیاد کیا ہے۔ اس سلسلے میں اساسی نکتہ یہ ہے کہ یہ ادارہ سامراجی نظام کی جانب سے مسلط کردہ مفاہیم کا پابند نہ رہے۔ سامراجی قوتوں کے تشہیراتی وسائل کے ذریعے دنیا بھر میں شب و روز کچھ نظریات اور کچھ باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ایک اہم چیز یہ ہے کہ ہم ان باتوں اور نظریات کے اسیر نہ بن جائیں۔ یہ سفارش صرف 'مجلس خبرگان' کے لئے نہیں ہے۔ یہ سفارش تمام حکام کے لئے ہے۔ اسلامی نظام کے تمام عمائدین کے لئے اور تمام اہل نظر اور دانشور افراد کے لئے ہے۔ سیاسی دانشور، سماجی امور کے دانشور اور دینی امور کے مفکرین سب محتاط رہیں۔: وَ اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِی الاَرضِ یُضِلّوکَ عَن سَبیلِ الله (۴)، اسے ذہن نشین رکھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کسی موضوع پر بہت بڑے پیمانے پر تشہیراتی سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں، اس پر بہت زور دیا جا رہا ہے، بار بار دہرایا جا رہا ہے، مختلف انداز میں اسے بیان کیا جا رہا ہے تو ہم بھی مجبورا سب کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہی بات دہرانے لگیں، ہم بھی اسی کا پرچار کرنے لگیں۔ نہیں، ہمارے پاس اپنی بنیاد اور کسوٹی ہے، اپنی فکر و نظر ہے۔
عالمی استکبار کی یہ کوشش ہے کہ اپنے مد نظر مفاہیم اور روایات کو ساری دنیا کے عوام پر مسلط کر دے۔ عام انسانوں پر اور بالخصوص ملکوں کے حکام اور بااثر افراد پر۔ با اثر افراد یعنی حکومتوں، ارکان پارلیمان، فیصلہ کرنے والے اور اہم فیصلوں کی زمین ہموار کرنے والے افراد پر۔ بقول ان کے، تھنک ٹینکوں پر۔ ان کی کوشش ہے کہ سب پر اپنی فکر اور اپنے نظریات مسلط کر دیں اور انھیں لوگوں کے ذہنوں میں اور فکری میدان میں پھیلا دیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب لوگ دنیا کو ان کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ جن مفاہیم اور نظریات پر ان کی تاکید ہو، ساری دنیا کے لئے انھیں کی سوچ اور طرز فکر کے مطابق ان نظریات و مفاہیم کو پہچانیں اور مانیں۔ یہ تسلط پسندانہ رویہ ہے۔ اس تسلط پسنداںہ روش کی مدد سے وہ کچھ مفاہیم گڑھ لیتے ہیں، یا اصلی مفاہیم میں رد و بدل کر دیتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ سارے لوگ ان کی پسند کے مطابق ان مفاہیم کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، دوران گفتگو انھیں کے انداز میں ان مفاہیم کو استعمال کریں۔ مثال کے طور پر دہشت گردی ایک چیز ہے جسے استکباری طاقتیں خاص معنی و مفہوم میں استعمال کرتی ہیں۔ اسی طرح انسانی حقوق اور جمہوریت بھی ہے۔ اب آپ ذرا تماشا دیکھئے کہ چھے مہینے تک یمن پر بمباری، گھروں کو مسمار کرنا، اسکولوں اور اسپتالوں کو نابود کرنا اور اس جیسے دیگر اقدامات دہشت گردی نہیں ہیں! غزہ اور دوسری جگہوں پر فلسطینی علاقوں میں بار بار حملے کرنا اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں بچوں، عورتوں اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کر دینا دہشت گردی نہیں ہے! اگر بحرین کے عوام کہتے ہیں کہ ہر شہری کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہونا چاہئے تو اس مطالبے کا انسانی حقوق سے کوئي تعلق ہی نہیں ہے! لیکن فلسطین اور لبنان میں سرگرم مزاحمتی تنظیمیں دہشت گرد ہیں! جو تنظیمیں فلسطین میں یا لبنان میں مزاحمت کر رہی ہیں، غاصب قوت کے خلاف بر سر پیکار ہیں، اپنی سرزمین اور اپنے گھروں کا دفاع کر رہی ہیں، انھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے! استبدادی حکومتوں والے ممالک میں جو سامراج اور امریکا کے ہمنوا اور قریبی سمجھے جاتے ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ مگر مثال کے طور پر کوئی مجرم ہے جس نے اقبال جرم کر لیا ہے، اس کو سزا دینا، یا ایسے سماج دشمن شخص کو سزا دینا جس نے سیکڑوں یا ہزاروں لوگوں کو نشے کا عادی بنا دیا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے! یہ اس طرح کے لوگ ہیں۔ یعنی اصطلاحات کے معانی اپنی مرضی سے گڑھ لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس سے وہی مفہوم اخذ کریں جو ان کے پیش نظر ہے۔ دوسرے لوگ بھی انھیں کے لب و لہجے میں بات کریں۔ ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ دہشت گردی نہیں ہے! جبکہ صیہونیوں نے تقریبا آشکارا طور پر اعتراف کیا ہے کہ یہ کام انھوں نے ہی انجام دیا تھا۔ کچھ یورپی ملکوں نے بھی تقریبا یہ اعتراف کر لیا ہے کہ اس عمل میں انھوں نے صیہونیوں کی مدد کی۔ مگر اسے دہشت گردی شمار نہیں کیا جاتا، مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ لیکن اگر کہیں اور کوئی چھوٹا سا واقعہ ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر لبنان میں یا کسی اور جگہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو اس کے لئے سلامتی کونسل کی میٹنگ بیٹھتی ہے! عالمی مسائل کے سلسلے میں ان کا یہ رویہ ہے۔ اصطلاحات کے معنی میں رد و بدل کر دیتے ہیں۔ کچھ اصطلاحات وضع کرتے ہیں اور پھر جبرا کوئی خاص سوچ اور مفہوم اس اصطلاح سے نتھی کر دیتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ سمیت ساری دنیا سے انھیں یہ توقع ہو جاتی ہے کہ سب وہی مفہوم اخذ کریں جو ان کے مد نظر ہے۔ سب ان کے زاویہ نگاہ سے چیزوں کو دیکھیں اور انھیں کے انداز میں بات کریں۔ انھیں ہم سے یہ توقع ہے۔ یہ استکبار اور تسلط پسندی کی واضح نشانی ہے۔ حالانکہ اسلامی انقلاب اپنے آپ میں ایک مکمل فکری نظام ہے۔
اس انقلاب کی غیر معمولی اہمیت کا راز اور اس انقلاب نے دنیا میں جو تلاطم برپا کر دیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس نے بس ایک حکومت کو سرنگوں کر دیا تھا۔ نہیں، وجہ یہ تھی کہ اس انقلاب نے دنیا کے سامنے ایک نیا فکری نظام پیش کیا اور آج اس فکری نظام کا دائرہ دنیا کے گوشہ و کنار میں وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ دبانے اور چھپانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ فکری نظام ایک سے دوسرے کو منتقل ہو رہا ہے۔ دنیائے اسلام کے اندر بھی اور کچھ محدود پیمانے پر عالم اسلام کے باہر بھی لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچ رہے ہیں۔ لوگوں کے دل اب بھی اس کی جانب مائل ہیں اور یہ فکری نظام اپنی تازگی و شادابی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اس فکری نظام کا ایک اہم پہلو ظلم و استکار اور استبداد کی نفی ہے۔ اس میں وہ استبداد بھی شامل ہے جو کچھ حکام اور حکومتیں اپنے ملکوں مں عوام پر روا رکھتی ہیں اور وہ استبداد بھی شامل ہے جو عالمی توسیع پسندانہ نظام عالمی سطح پر انجام دے رہا ہے۔ یہ (نفی) اس فکری نظام کا جز ہے۔ قوموں کا وقار، قومی حمیت، اسلامی ملکوں کے اندر اسلامی وقار، اغیار پر انحصار کرنے اور بڑی طاقتوں کی محتاج رہنے کے بجائے قوموں کا خود کو بے نیاز بنانا، یہ اسلام کے اس فکری نظام کے اجزاء ہیں۔ خود مختاری ہمہ جہتی ہونی چاہئے۔ خود مختاری اور خود انحصاری بہت اہم چیز ہے۔ فکری خود مختاری، سیاسی خود مختاری، اقتصادی خود مختاری۔ ان میں سب سے اہم فکری خود مختاری ہے کیونکہ یہ ہو تو دوسرے شعبوں میں بھی خود مختاری حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ اہم نکات ہیں جو اسلامی فکری نظام میں اور اسلامی فکری منظومے میں موجود ہیں اور یہی خوبیاں لوگوں کو جاذب نظر معلوم پڑتی ہیں۔ ان کی شادابی قائم رہتی ہے، ان پر کبھی کہنگی طاری نہیں ہوتی، یہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
یہ معروف نعرہ ' استقلال آزادی، جمہوری اسلامی' (یعنی خود مختاری، آزادی، اسلامی جمہوریہ) ایک طرح سے 'خاص' سے 'عام' کی جانب پیش قدمی سے عبارت ہے۔ یعنی 'عام' کا ذکر 'خاص' کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ پہلے ہم کہتے ہیں خود مختاری اس کے بعد کہتے ہیں آزادی۔ خود مختاری در حقیقت آزادی کا ایک جز ہے۔ یعنی اگر ہم شخصی و انفرادی آزادی کو دیکھیں تو یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ جبکہ بڑی طاقتوں کے چنگل سے آزادی سکے کا دوسرا رخ ہے۔ یہ بھی آزادی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ خود مختاری، آزادی کا ایک جز ہے۔ اب اگر کچھ لوگ آزادی چاہتے ہوں لیکن خود مختاری کی نفی کریں تو وہ در حقیقت آزادی کے مخالف ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ 'روشن خیال نما' افراد گمراہ کن روش کے تحت جو بظاہر تو منطقی معلوم ہوتی ہے لیکن فی الواقع خلاف منطق ہوتی ہے، خود مختاری کے مفہوم اور خود مختاری کے مصادیق کی نفی کرتے ہیں۔ خود مختاری تو آزادی کا اٹوٹ حصہ ہے، آزادی کا جز ہے۔ آزادی کے مفہوم کا ایک جز ہوتی ہے کسی ملک کی خود مختاری۔ ایک قوم کی سطح کی آزادی کا نام ہے خود مختاری، یہ ہے خود مختاری کا مفہوم۔ اسی طرح یہ سارے مفاہیم، اسلامی جمہوریہ کا جز ہیں۔ یعنی اسلامی جمہوریہ نہ تو صرف آزادی ہے اور نہ ہی صرف خود مختاری سے عبارت ہے، بلکہ اس میں یہ دونوں مفاہیم بھی شامل ہیں اور ساتھ ہی دوسرے بھی بہت سے مفاہیم اس کا حصہ ہیں۔ جب ہم مخاطب افراد کے سامنے ان چیزوں کی تشریح کریں گے تو دیکھیں گے کہ اس کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ یہ ذہنوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے ہیں۔
اس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، چنانچہ آج ہماری قوم کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو چکی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں خود اعتمادی کا یہ جذبہ بحمد اللہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، بار بار اسے زک پہنچائی گئی، بار بار مختلف طریقوں سے اس کا راستہ روکا گيا۔ لیکن خوش قسمتی سے ملک کے اندر خود اعتمادی میں لگاتار اضافہ ہوا۔ خود اعتمادی ہے، فکری آزادی ہے، عملی آزادی ہے۔ یعنی یہ مغربی اور امریکی نہج کی شخصی آزادی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ حقیقت میں آزادی نہیں بلکہ آزادی کی ضد ہے۔ یہاں حقیقی آزادی مراد ہے۔ یہاں اسلامی طرز زندگی ہے، جدت عملی ہے، امداد باہمی ہے، قومی یکجہتی ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو معاشرے کی سوچ میں اور معاشرے کے زمینی حقائق میں جامہ عمل پہن رہی ہیں اور یہ ساری چیزیں اسلامی اقدار سے مطابقت رکھتی ہیں۔ یہ چیزیں قوم کو نمو اور ترقی کی سمت لے جاتی ہیں۔ اگر کسی قوم کے اندر خود مختار فکر و نظر ہو، قومی خود اعتمادی ہو، جدت عملی ہو، ایجادات و اختراعات کی صلاحیتیں، سعی و کوشش ہو، تمام فورسز کے درمیان اتحاد و یکجہتی ہو اور پیش قدمی کا عمل دائمی طور پر جاری ہو تو یہ خصوصیات اس قوم کو نمو کی بلندیوں پر لے جائیں گی۔ ہماری قوم نے بحمد اللہ ارتقاء کی منزلیں طے کی ہیں۔ البتہ رکاوٹیں بہت تھیں، جن کا میں ابھی ذکر کروں گا۔
آپ ذرا تصور کیجئے کہ جس دن ایران مادی پیشرفت کے اعتبار سے آج کی دنیا کے پیشرفتہ ملکوں کی ہمسری کرنے لگے گا، علم و دانش، سائنس و ٹیکنالوجی اور سرمایہ پیدا کرنے کے اعتبار سے برابر ہو جائے گا۔ ایک ایسا ملک جو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا مالک ہے، پیشرفتہ صنعتوں کا مالک ہے، پندرہ کروڑ یا بیس کروڑ کی آبادی وہاں بستی ہے، روحانیت و معنویت سے آراستہ ہے۔ یعنی توسیع پسندی کا قائل نہیں ہے، زور زبردستی کو خلاف شان سمجھتا ہے، دوسروں پر اپنی بات مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتا، مظلومین کی مدد کرتا ہے، دنیا کی بڑی طاقتوں کی ہرزہ سرائی کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے، آپ ایسے ملک کا تصور کیجئے اور پھر دیکھئے کہ عالمی استکبار کے لئے ایسے ملک کا وجود برداشت کر پانا کتنا دشوار ہے؟! اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو اتنے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ ایسا دن دیکھنا نہ پڑے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا مستقبل یہ نہ ہو۔ ایک پیشرفتہ ملک جو مادی ترقی کے ہر انڈیکس پر پورا اترتا ہے، اس کے ساتھ ہی روحانیت و دینداری سے بھی آراستہ ہے، روحانی پاکیزگی رکھتا ہے، اسلامی طرز زندگی سے بہرہ مند ہے، قومی اتحاد، بھائی چارے، امداد باہمی کے ماحول سے آراستہ ہے اور دوسروں کے خلاف جارحیت سے دور رہتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کبھی بھی اس منزل پر نہ پہنچنے پائے۔ ان کی تمام سرگرمیاں اور سازشیں اسی لئے ہیں۔ سارا جھگڑا ہی اسی بات کا ہے۔ جھگڑا اس بات کا ہے کہ اگر ان تمام خصوصیات سے آراستہ ایک اسلامی ملک وجود میں آ گیا تو استکبار کی بساط لپیٹ دی جائے گی، کفر کی بساط سمیٹ دی جائے گی۔ جو ملک اس تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے اور مادی پہلوؤں سے بھی آگے بڑھ رہا ہے، جبکہ وہ اللہ تعالی پر توکل کرتا ہے، ذکر خدا کرتا ہے، شکر پروردگار بجا لاتا ہے، اللہ کی عبادت میں مصروف ہے، اللہ کے لئے سجدے کرتا ہے، اللہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے، آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے لئے اس کے اندر کیسی مقناطیسی کشش ہوگی اور کس طرح قوموں کے دل اس کی جانب مائل ہوں گے۔ یہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ اگر یہ طاقتیں ہماری علمی ترقی کا راستہ روکتی ہیں، اگر دیگر ملکوں میں ہمارے سیاسی اثر کا سد باب کرتی ہیں، ظاہر ہے وہ آشکارا طور پر کہتی بھی ہیں کہ ایران علاقے میں اثر و رسوخ قائم کر چکا ہے، ملکوں کے اندر اس کا گہرا اثر ہے، قوموں کے اندر خاص مقام و مرتبہ رکھتا ہے، اسی طرح وہ اقتصادی میدانوں میں جو سختیاں برت رہی ہیں تو اس ساری تگ و دو کا مقصد یہ ہے کہ یہ صورت حال پیدا نہ ہو، اس دن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس قضیئے میں دوسری طرف ہم ہیں۔ ہم ایرانی عوام، ہمارے نوجوان، ہمارے علمائے دین، ہمارے تخلیقی صلاحیت کے مالک افراد اور ہماری یونیورسٹیوں کے دانشور ہیں۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اس تحریک کو، اپنے اس اہم سفر کو اپنے اسی فکری نظام کے تحت آگے بڑھائيں۔ سب کو چاہئے کہ کوشش کریں، سب محنت کریں، سب کام کریں اور سمجھیں کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔ سب ہوش و حواس بجا رکھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک کے سارے حکام کے اندر یہ فکرمندی اور یہ احساس پیدا ہو۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کیا اقدامات انجام دے رہا ہے؟ انھیں اندازہ ہونا چاہئے کہ دشمن کا ہدف کیا ہے؟ دشمن کے تبسم سے، یا کبھی کسی معاملے میں دشمن کے کوتاہ مدت تعاون سے، مثال کے طور پر کسی معاملے میں اس نے کوئی مدد کر دی، کہیں ساتھ دے دیا، ان چیزوں سے ہمیں فریب نہیں کھانا چاہئے۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔
آج دشمن عالمی استکبار ہے۔ عالمی استکبار کوئی توہماتی چیز نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کے واضح مصادیق موجود ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مصداق امریکا ہے۔ امریکی حکومت کی پشت پر کمپنیاں، ٹرست، کارٹل اور ساری دنیا کو ہڑپ لینے کے خواہاں سرمایہ دار ہیں، ان میں اکثریت صیہونیوں کی ہے جو ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ صرف امریکا تک محدود نہیں ہیں، یورپ میں بھی ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اسی طرح کچھ دوسری جگہوں پر بھی ان کا غلبہ ہے۔ استکبار سے مراد یہی ہے۔ اس استکبار کی زندگی کا شیشہ اس اسلامی تحریک کے ذریعے پاش پاش ہو جائے گا جس کا آغاز اسلامی انقلاب کی تحریک سے ہو چکا ہے اور اس تحریک کا تسلسل اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب کے راستے پر اس جمہوری نظام کا ثابت قدم رہنا ہے اور آئندہ بھی یہ نظام اسی راستے پر گامزن رہے گا۔
ایسے آثار نظر آتے ہیں کہ واقعی ان سے امید بڑھتی ہے۔ بعض اوقات گوناگوں شعبوں سے متعلق مصنوعات اور ایجادات کی نمائش ہمارے یہاں منعقد کی جاتی ہے، ان میں جو منظر عام پر لانے کے قابل ہوتی ہیں ان کا اعلان کیا جاتا ہے، کچھ نمائشیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ تو ظاہر ہے کہ انھیں منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ لیکن ہم نزدیک سے ان سب کو دیکھتے ہیں۔ واقعی ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کرشماتی قوت ہے۔ نوخیز لڑے، جوش و جذبے کے ساتھ، قوت ایمانی کے ساتھ، اپنی توانائیوں اور قابلیت کی مدد سے، بہترین احساس و جذبے کے ساتھ اور اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے صلوات اور نماز کے سائے میں، تلاوت قرآن اور توجہ الی اللہ کے سائے میں یہ عظیم کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ بہت بڑی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ یہ پیشرفت اور یہ ترقی اسلامی جمہوریہ کی خدمت کی منتظر ہے۔
میں نے عرض کیا کہ ہمارا ملک عظیم وسائل اور ثروت کا مالک ہے۔ اس دن بھی (5) کابینہ سے تعلق رکھنے والے برادران گرامی سے میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک رپورٹ ملی ہے کہ ہم ملک کی معدنیات کا صرف چودہ فیصدی حصہ استعمال کر رہے ہیں، ظاہر ہے کہ ہمارے ملک کی دولت و ثروت کا اہم ترین سرچشمہ زیر زمین معدنیات ہیں۔ اس موقع پر وزیر صنعت و معدنیات نے تصدیق کی کہ رپورٹ صحیح ہے۔ تو ہمارا ملک ان خصوصیات کا حامل ہے۔ ہم اب تک اپنے ملک کی زیر زمین معدنیات میں سے صرف چودہ فیصدی معدنیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا جغرافیائی محل وقوع، گوناگوں علمی و ثقافتی وسائل، دنیا میں اسلامی ثقافت اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کا گہرائی تک پھیلاؤ، یہ سب معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ یہ بڑی عظیم دولت ہے جو ہمارے پاس ہے۔ تو ہماری گزارش یہ ہے کہ ماہرین کی کونسل، ملک کے عہدیداران، بااثر شخصیات، رائے عامہ کے نزدیک خاص مقام و منزلت رکھنے والی ہستیاں جو اخبارات و جرائد کے ذریعے یا اپنی تقاریر کے ذریعے کہتی ہیں، جن کی زبان میں اثر ہے، سب کو چاہئے کہ اس مستقبل کی تشریح کریں، لوگوں کے دلوں کو اس تابناک مستقبل کی جانب متوجہ کریں، لوگوں کی امید بڑھائیں، مومنین کے قلوب میں طمانیت و آسودگی پیدا کریں، تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں، ہم بحمد اللہ پیشرفت کی راہ پر گامزن ہیں۔
ایک دو تازہ مسئلے بھی ہیں جو بہت اہم اور قابل توجہ ہیں۔ میں اجمالی طور پر ان کا ذکر کروں گا۔ ایک مسئلہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا ہے اور دوسرا معاملہ ہے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد ہو جانے کے بعد کا دور جو خود مشترکہ جامع ایکشن پلان سے زیادہ اہم ہے۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں ہمارا جو موقف تھا اور جو چیزیں بیان کی جانی چاہئيں تھیں وہ ہم نے پچھلے کچھ ایام کے دوران خواہ وہ اس اتفاق رائے سے پہلے کا وقت ہو یا اتفاق رائے ہو جانے کے بعد کے ایام، بیان کر دی ہیں۔ اس وقت ایک موضوع پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرائے جانے سے متعلق ہے۔ جو قانونی پہلو ہیں ان کے بارے میں جو متعلقہ ماہرین ہیں بحث کریں اور جائزہ لیں کہ اس معاملے میں قانونی التزامات کیا ہیں اور پھر اسی کے مطابق عمل کریں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ البتہ میں کلی طور پر جو عرض کرنا چاہتا ہوں اور صدر مملکت سے عرض بھی کر چکا ہوں، وہ یہ ہے کہ میری نظر میں یہ چیز مناسب نہیں ہوگی کہ پارلیمنٹ کو اس قضیئے سے دور رکھا جائے۔ کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے کہ دو سال سے سارا ملک اس کی جانب متوجہ ہے اور اب یہ کسی نتیجے پر پہنچ گیا ہے تو پارلیمنٹ کو اس میں دخیل کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک یہ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں کیا کرے؟ تو میں پارلیمنٹ کو کوئی سفارش نہیں کروں گا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بارے میں فیصلے کی کیا نوعیت ہو؟ منظور یا مسترد کر دینے کی شکل میں ہو یا فیصلہ کی کوئی اور کیفیت ہو؟ مسترد کریں، یا منظور کریں؟ اس بارے میں مجھے کوئی سفارش نہیں کرنی ہے۔ اس سلسلے میں ارکان پارلیمنٹ کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹ کیا کرے اور کیا نہ کرے، اس بارے میں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کو الگ نہ رکھا جائے بلکہ قوم کے نمائندگان اس بارے میں فیصلہ کریں۔
جہاں تک مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد ہو جانے کے بعد کے دور کا معاملہ ہے تو میری نظر میں کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر ملک کے حکام غور کریں، البتہ میں حکومت کے اندر موجود عزیز عہدیداروں سے اس بارے میں گفتگو کروں گا اور پہلے بھی بات ہو چکی ہے، اس وقت آپ کو مطلع کرنے کے لئے عرض کر رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بظاہر تو ہمارے سامنے چھے ممالک ہیں، لیکن جو بہت زیادہ فعال ہے وہ ایک ہی حکومت ہے اور وہ ہے امریکی حکومت، جو اس میدان میں پوری طرح اتر چکی ہے اور عرق ریزی کر رہی ہے، بڑی محنت سے لگی ہوئی ہے۔ امریکی حکام بہت خراب لہجے میں بات کر رہے ہیں۔ ان بیانوں کا معاملہ بھی صاف ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے اس قضیئے کا ایک فریق ایران ہے اور دوسرا فریق امریکا ہے۔ وہ ایک بار کہتے ہیں کہ پابندیوں کا ڈھانچہ اپنی جگہ قائم رہے گا، تو سوال یہ ہے کہ کچھ مدت سے ہم ساتھ میں بیٹھ کر جو مذاکرات کر رہے ہیں اس کا کیا مقصد تھا؟ ہم نے مذاکرات اس لئے کئے کہ پابندیوں کا ڈھانچہ ختم ہو جائے اور پابندیاں اٹھائی جائیں۔ پابندیوں کا ڈھانچہ باقی رہنا ہے! میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پابندیوں کا ڈھانچہ باقی رہنے کا کیا مطلب ہے؟ ہو سکتا ہے کہ (مغربی حکومتیں) اپنے انداز میں اس کی تشریح کریں۔ تاہم ان باتوں سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ اس وجہ اور بنیاد کے بالکل برخلاف ہے جس کے تحت ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے۔ ورنہ ہمیں مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم تو اپنا کام کر ہی رہے تھے۔ ہم 19 ہزار سنٹری فیوج مشینیں بنا چکے تھے، اس تعداد کو پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار تک پہنچانے کے لئے ہمیں زیادہ وقت درکار نہیں تھا۔ یہ عمل انجام دینے کے لئے ہمارے سامنے کوئی مشکل نہیں تھی۔ ہم بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم تیار کر رہے تھے۔ اسی سلسلے کو ہم جاری رکھ سکتے تھے۔ ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رکھ سکتے تھے، اسی نہج پر اور اسی رفتار سے۔ اسی طرح دوسرے بھی بہت سے امور تھے۔ یہ جو ہم نے بیٹھ کر مذاکرات کئے، کچھ معاملات میں نرمی برتی، کچھ امتیازات دئے تو اس کا مقصد یہ تھا کہ پابندیاں ہٹائی جائیں۔ اب اگر پابندیاں باقی رہتی ہیں تو پھر کوئی اتفاق رائے نہیں رہےگا۔ اتفاق رائے بے معنی ہوگا۔ متعلقہ حکام اس چیز کو واضح کریں۔ یہ نہ کہیں کہ فلاں رہنما اپنے ملک کے اندر حریفوں کو مطمئن کرنے کے لئے اس طرح کا بیان دے رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ امریکا میں جو تنازعہ ہے وہ حقیقی لڑائی ہے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ صرف ظاہری اور نمائشی نورا کشتی ہے۔ واقعی ان کے اندر اختلافات ہیں، اور ان کے اختلاف کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہے۔ لیکن پھر بھی رسمی طور پر جو بیان دیا جائے اس کا جواب ضروری ہے۔ اگر جواب نہ دیا گيا تو اسی بات کو مسلمہ قرار دے دیا جائے گا۔ یہ رہی ایک بات۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ پابندیوں کے اس حصے کے بارے میں بھی جنھیں ہٹانے کی وہ بات کرتے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں صرف ملتوی کیا جائے گا۔ جبکہ معاملہ یہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے پابندیوں کو منسوخ کیا جانا ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ 'فورا' اب انھوں نے اس 'فورا' کا مفہوم اپنے اعتبار سے نکالا، تب بھی ہم نے کچھ نہیں کہا، چلئے کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے دوستوں نے اس 'فورا' کا خاص طرح سے مفہوم پیش کیا اور اس کے لئے باقاعدہ ایک ترتیب کا انتخاب کیا۔ ہم نے کوئی مخالفت نہیں کی۔ لیکن بہرحال پابندیاں ختم ہونی چاہئے۔ پابندیوں کو روکنے اور ملتوی کرنے کی بات نہیں ہے۔ اگر وہ صرف ملتوی کریں گے تو یہاں ہم بھی صرف التواء کی کارروائی کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم زمینی سطح پر بنیادی اقدامات کیوں کریں؟ تو ہمارا ہدف پابندیوں کی منسوخی ہے۔ البتہ بعض پابندیوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ہمارے فریق مقابل یعنی امریکی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انھیں ملتوی کیا جائے گا اور ہم اپنے قانونی حقوق کا استعمال کریں گے، کس طرح کی باتیں ہوئیں۔ تاہم جو پابندیاں خود امریکی حکومت کے ہاتھ میں ہیں یا جو یورپی حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، انھیں پوری طرح ختم کیا جانا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنے بیانوں میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ایٹمی سمجھوتے وغیرہ جیسے معاملات سے بالکل خارج ہیں، بالکل الگ طرح کی باتیں ہیں۔ امریکا کی بر سر اقتدار ٹیم میں موجود خواتین و حضرات ایسے بیان دے رہے ہیں جو انیسویں صدی میں انگریز حکام کے بیانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یعنی گویا دنیا اور تاریخ سے دو صدی پیچھے چلے گئے ہیں! اس طرح بیان دیتے ہیں کہ جیسے لارڈ کورزن (6) کسی زمانے میں خلیج فارس میں ایران کے بارے میں یا علاقے کے بارے میں بیان دیتا تھا۔ ان کا لہجہ کچھ اس طرح کا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے۔ آج سوپر طاقتوں کے اندر یہ توانائی نہیں ہے، ان کے پاس یہ قدرت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے مد مقابل اسلامی جمہوریہ ہے۔ کوئی پسماندہ ملک یا بر اعظم نہیں ہے کہ جو آپ کے جی میں آئے کہئے! ہرگز نہیں، سامنے اسلامی جمہوریہ ہے اپنی ان توانائیوں کے ساتھ جن میں بعض سے آپ خود بھی باخبر ہیں اور کچھ توانائيوں سے آپ ابھی لا علم ہیں، جب عملی کارروائي کا وقت آئے گا تب آپ کو ان کے بارے میں معلوم ہوگا۔ تو ایسا نہیں ہے کہ آپ دھمکیاں دیتے جائیں اور بیان بازی کرتے رہیں!
اپنے بیانوں میں جو باتیں کہتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ؛ 'ہمیں توقع ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام یا اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کچھ الگ کرکے دکھائے! کچھ مختلف کرکے دکھائے کا کیا مطلب ہے؟ کس چیز سے مختلف؟ کیا اسلامی جمہوریہ کے ماضی سے مختلف کچھ کرکے دکھائے؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ مختلف کرکے دکھائے کا مطلب ہے؛ اسلامی اقدار کو عبور کر جانا، اسلامی احکامات کی پیروی ترک کر دینا۔ 'کچھ الگ کرکے دکھائے' سے ان کی مراد یہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ نہ حکومت، نہ پارلیمنٹ، نہ حکام کوئی بھی ہرگز ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا اور اگر کسی نے ایسا کوئی قدم اٹھانا چاہا تو عوام قبول نہیں کریں گے، اسلامی جمہوری نظام قبول نہیں کرے گا۔ ایسا کوئی بھی اقدام بے معنی ہے۔ 'مختلف کرکے دکھائے' سے ان کی مراد یہ ہے کہ ایران اس علاقے میں امریکی پالیسیوں کے دائرے میں خود کو فٹ کر لے۔ اس علاقے کے سلسلے میں امریکا کی کچھ پالیسیاں ہیں، کچھ نظریات ہیں۔ ان کا ایک نظریہ یہ ہے کہ اس علاقے میں مزاحتمی فورسز کو بالکل ختم کر دیا جائے، نابود کر دیا جائے۔ ان کا ایک نظریہ یہ ہے کہ عراق، شام اور دیگر ملکوں پر امریکی حکومت کا مکمل کنٹرول رہے۔ یہ ان کے نظریات ہیں۔ جو کام وہ انجام دینا چاہتے ہیں وہ انھیں چیزوں پر منتج ہوں گے۔ انھیں یہ توقع ہے کہ ہمارے حکام، ہماری حکومت اور ہمارے سیاستداں انھیں پالیسیوں کے مطابق عمل کریں، جو ہرگز نہیں ہونے والا ہے۔
ایک بات وہ یہ کہتے ہیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے ایران کے اندر بھی، ایران کے باہر بھی اور علاقے کی سطح پر بھی امریکا کو کچھ مواقع حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ بات امریکی کہہ رہے ہیں، ان کے بیانوں میں یہ بات دکھائی دیتی ہے۔ حکومت کے اندر جو ہمارے احباب ہیں یا دوسرے عہدوں پر جو لوگ ہیں ان کی خدمت میں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ملک کے اندر امریکا کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہرگز نہ دیجئے اور بیرون ملک بھی یہ کوشش کیجئے کہ امریکا کو یہ مواقع حاصل نہ ہوں۔ کیونکہ امریکا جہاں ان مواقع سے قریب ہوا، قوموں کی ذلت، پسماندگی اور ملکوں کی سختیاں وہیں سے شروع ہو جائیں گی۔ انھیں ہرگز اجازت نہ دیجئے کہ ملک کے اندر کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ہم کہہ چکے ہیں اور اعلان کر چکے ہیں کہ ایٹمی مسئلے کے علاوہ کسی بھی معاملے میں امریکیوں کے ساتھ مذاکرات میں ہم شامل نہیں ہوں گے۔ خارجہ پالیسی سے متعلق حکام سے بھی میں نے کہہ دیا ہے اور دیگر حکام سے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پالیسیاں، ہماری پالیسیوں سے 180 درجہ مختلف ہیں۔ ایک معاملہ تو یہ ہے، دوسرا معاملہ اقتصادی شعبے سے متعلق ہے۔ سیاسی مسائل اس قضیئے کا ایک پہلو ہیں اور دوسرا پہلو اقتصادی مسائل ہیں جو بہت اہم ہیں۔ ہم نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے ایک جامع اور کارآمد لائحہ عمل تیار کریں۔ یہ بات میں نے کابینہ سے ملاقات میں بھی کہی اور صدر محترم سے بھی کہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ لائحہ عمل تیار کر لیا جائے گا۔ مزاحمتی معیشت میں تقسیم کی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے کسی حصے پر عمل کریں اور کسی حصے کو ترک کر دیں۔ ایسا نہیں ہے، یہ ایک مکمل مجموعہ ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس کے لئے متحدہ جامع لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو اس کے تمام اجزا تک پہنچے۔ بیشک حکومت کے اندر ہمارے برادران عزیز کے یہاں یہ ہمت و ارادہ موجود ہے اور ان شاء اللہ وہ محنت کریں گے اور یہ عمل انجام پائے گا۔ اگر اس میں کامیابی مل جاتی ہے تو پھر ہمارے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی کہ فلاں رقم ایران کو ملے گی یا نہیں، مثال کے طور پر سو ارب ڈالر یا پانچ ارب ڈالر ایران کو ملیں گے یا نہیں۔ واقعی یہ چیز ثانوی حیثیت کی حامل ہو جائےگی۔ بیشک دنیا کے ملکوں کے پاس ہماری جو رقم ہے، دوسروں کے پاس ہمارا جو پیسہ ہے اور ظالمانہ طریقے اپنا کر اب تک جس کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے، وہ ہمارے کام آنا چاہئے۔ اس میں کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ لیکن مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانا جو اتنا زیادہ ان رقومات پر منحصر نہیں ہے، ان تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم صرف زبانی جمع خرچ کے بجائے قابل عمل پروگرام ترتیب دیکر اسے نافذ کر لے جائیں اور بیرون ملک بھی اس پر عمل کریں تو ہمارے کام بخوبی انجام پائیں گے اور عوام بھی ہماری مدد کریں گے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ حکومت کے اندر ایک فعال آپریشنل کمیشن تشکیل دیا جائے جو ہر متعلقہ ادارے کے فرائض کا تعین کرے کہ اس منصوبے کا کون سا حصہ کس اقتصادی ادارے کے ذمے ہے۔ نظام الاوقات معین کرے کہ کتنی مدت میں اور کب تک اس ادارے کو اپنے ان فرائض پر عمل آوری کرنی ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ نگرانی کرے تاکہ یہ عمل انجام پائے اور یہ ہمہ جہتی قومی تحرک وجود میں آئے۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ملک بھر میں ہماری باایمان فورسز یہ جان لیں کہ اعلی اسلامی اہداف و مقاصد کی جانب ہمارا سفر جاری ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ سب خود کو آمادہ رکھیں، سب تیار رہیں۔ ملک بھر میں باایمان افراد جو بحمد اللہ ملک کے اندر واضح اکثریت میں ہیں، خود کو آمادہ رکھیں۔ آمادہ رکھنے سے مراد جنگ کی تیاری نہیں ہے۔ اس سے یہ مراد ہے کہ اقتصادی کاموں کے لئے بھی خود کو تیار رکھیں، ثقافتی کاموں کے لئے بھی آمادہ رہیں، سیاسی امور کے لئے بھی آمادگی رکھیں، اسی طرح مختلف میدانوں میں اترنے کے لئے بھی تیار رہیں۔ ہم سب کو تیار رہنا چاہئے۔ دشمن شب و روز جو ریشہ دوانیاں کر رہا ہے اس کے مقابلے میں ہمیں بھی شب و روز محنت کرنی چاہئے اور خود کو آمادہ رکھنا چاہئے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے، ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ ایک دفعہ ہم نے یہیں پر عرض کیا تھا (7) کہ ہمیں اللہ کی پناہ میں جانا چاہئے اور اس کے وعدوں کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ہے؛ الظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دآئِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا(۸) یعنی اللہ تعالی نے لعنت بھیجی ہے ان لوگوں پر جو اللہ کے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں۔ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ جب وہ فرما رہا ہے؛ «اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم» (۹) تو ہمیں اس کا پورا یقین ہونا چاہئے۔ یہ اللہ کے بارے میں حسن ظن ہے؛ جب وہ فرماتا ہے کہ؛ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (۱۰) تو ہمیں اسے باور کرنا چاہئے۔ اگر حقیقت میں ہم دین خدا کی نصرت کا ارادہ رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ کی نصرت کرنے کا یہی مطلب ہے، تو ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی بھی مدد کرے گا اور اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ جب انسان اس جذبے کے ساتھ کام کرےگا تو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہمارے دلوں پر ان شاء اللہ طمانیت و آسودگی کا نزول ہوگا۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ ہم نے جو کچھ کہا، جو کچھ سنا اور جو کچھ کر رہے ہیں اسے اپنی راہ میں اور اپنے لئے قرار دے اور اسے قبول فرما۔ امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ ملاقات ماہرین کی کونسل کے اٹھارہویں اجلاس کے موقع پر ہوئی۔ ملاقات کے آغاز میں ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد یزدی اور نائب سربراہ آیت اللہ سید محمود ہاشمی شاہرودی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۴؛ «خدا وہ ہے جس نے مومنین کے دلوں پر طمانیت نازل کی تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ زمین اور آسمانوں کے فوجی اللہ کے ہیں۔ بیشک خدا علیم و حکیم ہے۔»
۳) ایضا، آیت نمبر ۷؛ «زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ کے ہیں، بیشک خدا صاحب حکمت اور ناقابل شکست ہے۔»
۴) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۶ کا ایک حصہ؛ « اور اگر تم اس زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پروری کروں گے تو وہ تمہیں گمراہ کر دیں گے۔»
۵) مورخہ 26 اگست 2015
۶) لارڈ جارج کرزن جو 1919 سے 1924 عیسوی تک برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا۔
۷) ماہرین کی کونسل سے مورخہ 16 ستمبر 2010 کا خطاب
۸) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۶ کا ایک حصہ؛ «...جن لوگوں نے اللہ کے بارے میں گمان بد کیا، اللہ انھیں عذاب میں مبتلا کرے گا، زمانے کی ساری برائیاں ان پر ہوں گی، اللہ ان پر غضبناک ہوا اور انھیں لعنت کی اور ان کے لئے جہنم کو آمادہ کیا ہے اور یہ کتنا برا انجام ہے۔»
۹) سوره‌ محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ؛ «...اگر اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔...»
۱۰) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ «... قطعاً خدا به کسی که [دین‌] او را یاری میکند، یاری میدهد...»