21 دی 1394 ہجری شمسی مطابق 11 جنوری 2016 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ قم کی دینی درسگاہ نے فن و ہنر کے فقہی پہلوؤں پر بحث کا آغاز کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ فن و ہنر انسانی زندگی کا جز ہے اور فقہ زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتی ہے اور اسلام بھی اس سلسلے میں موافق رائے رکھتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر متعدد ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ دینی علوم کا مرکز آرٹ کے شعبے میں داخل ہوا، فقہی نقطہ نگاہ سے اس کا جائزہ لینے کے لئے۔ ظاہر ہے دینی علوم کے مرکز سے یہ توقع تو نہیں ہے کہ وہاں سے فلمساز، شاعر، نقاش یا مجسمہ ساز نکلیں گے۔ جیسا کہ جناب ژرفا صاحب نے اپنی گفتگو میں بھی اشارہ کیا۔ تاہم یہ توقع ہے کہ دینی علوم کا مرکز فن کے باب میں اسلامی بنیادوں کو بیان کرے جس کی اہمیت کے بارے میں ابھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ پہلے مرحلے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ تحقیق کی جائے، گہرائیاں ناپی جائیں اور نئے پہلو دریافت کئے جائیں اور پھر عوام الناس کے لئے اور معاشرے کے لئے ان کی تشریح کی جائے۔ آپ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ بہت مبارک قدم ہے۔ میں واقعی تہہ دل سے آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس پہلو پر غور کیا اور یہ کام انجام دیا۔ بحمد اللہ بہت اچھے اور نمایاں افاضل اس میدان میں وارد ہوئے ہیں۔
بس اس کام کو بیچ میں ادھورا نہ چھوڑئے، رکنے نہ دیجئے۔ بالکل اسی انداز سے کام کیجئے جس انداز سے تجارتی لین دین سے متعلق فقہی مسائل کے بارے میں ہم کام کرتے ہیں یا عبادات سے متعلق فقہی مسائل کے بارے میں کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم اقتصادیات سے متعلق فقہی مسائل پر یا سماجی امور کے فقہی پہلوؤں پر کام کرتے ہیں، بالکل اسی انداز سے فن و ہنر کے فقہی پہلوؤں پر کام کریں۔ یعنی ہمارا عالم دین حقیقت میں فن و ہنر کے میدان میں بھی، یعنی خود فن کے موضوع پر بھی اور فن کی گوناگوں قسموں کے بارے میں بھی صریح اور شفاف نظریہ رکھتا ہو۔ اگر اختلاف نظر پیدا ہوتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ چنانچہ دیگر فقہی ابواب کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے۔ کوئی ایک نظریہ رکھتا ہے تو دوسرے فقیہ کی رائے کچھ اور ہوتی ہے۔ مگر اس اختلاف رائے کا مجموعی نتیجہ فقہ کی پیشرفت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آج فقہ کا میدان شیخ طوسی کے زمانے کے فقہی میدان جیسا نہیں ہے۔ حالانکہ اس وقت بھی فقہی مسائل میں اختلاف رائے تھا مگر اب فقہ نے کافی ترقی کر لی ہے۔ بحثوں کا عمق اور ان کی باریکیاں بڑھ گئی ہیں، زیادہ سے زیادہ تفصیلات تک بحث پہنچ چکی ہے۔ یہی سب کچھ اس میدان میں بھی ہوگا۔
فن و ہنر کا موضوع بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فن انسانی زندگی کا جز ہے۔ بذات خود فن وجود انسانی کے لوازمات میں سے ہے، جیسے دوسرے بہت سے لوازمات ہیں۔ فنون کے تمام شعبے یہی خصوصیت رکھتے ہیں۔ ان کے فنکار الگ الگ ہوتے ہیں مگر یہ پہلو سب میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ فن ذوق و تخیل سے جنم لیتا ہے۔ فکری پرواز اور پختہ ذوق سے فن کو وجود ملتا ہے۔ البتہ مہارت، تجربہ، گہرائی، یہ سب چیزیں بھی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں، لیکن اصلی جوہر ہے ذوق۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری دینی درسگاہوں کے فقہا کے درمیان فن اور آرٹ اپنے اس نام کے ساتھ تو موضوع بحث نہیں بنا، مگر دینی درسگاہوں میں عظیم فنکار پیدا ہوئے۔ جناب عالی (2) نے فرمایا کہ شوقیہ! تو بعض نے شوقیہ طور پر، مگر بعض نے تو باقاعدہ ماہرانہ انداز میں، مثال کے طور پر سید محمد سعید حبّوبی باقاعدہ ایک مستند شاعر ہیں، ممتاز عرب شاعر ہیں۔ اسی طرح آپ دیکھئے کہ سید محمد ہندی یا سید رضا ہندی جنہوں نے طولانی قصیدے کہے ہیں، یہ نجف کے مستند شعرا میں ہیں۔ یہ بہت قدیمی زمانے کی بات بھی نہیں ہے۔ یا سید رضی، میں نے کئی سال پہلے ایک صاحب ذوق عرب سے کہا کہ سید رضی کے اشعار اور ایک دوسرے شخص کی شاعری کا جس کا نام میں نہیں لینا چاہتا، البتہ وہ معروف انسان اور نامور شاعر ہیں، تقابلی جائزہ لیں، انھوں نے کہا کہ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ وہ صاحب ذوق عرب ایک شعر شناس انسان تھے۔ میں عربی شاعری کا جائزہ ایک عرب کی طرح نہیں لے سکتا اور یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ شعر کا وزن اور اس کی کیا رفعت ہے۔ اس کی تشخیص عرب شاعر ہی دے سکتا ہے۔ اس شاعر کا کہنا تھا کہ ان دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ یعنی سید رضی کی شاعری عربی ادب کی صف اول کی شاعری میں شامل تھی۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید رضی نے صرف شوقیہ طور پر نہیں بلکہ ماہرانہ انداز میں شاعری کی ہے۔ اس طرح کی مثالیں بہت سی ہیں۔ سید مرتضی بھی شاعر ہیں، محقق حلی شاعر ہیں، ان کے والد علامہ حلی شاعر ہیں، ہمارے یہ بزرگ علمائے کرام شاعر تھے۔ وہ شاعری کے میدان میں اترے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ فطری صلاحیت اور یہ ذوق و تخیل کہیں موجود ہوتا ہے تو ظاہر بھی ہوتا ہے خواہ ماحول اس ذوق و تخیل کی پرورش کا ماحول نہ بھی ہو۔ ظاہر ہے دینی درسگاہ کا ماحول تو ایسا کبھی نہیں رہا ہے۔
تو فن و ہنر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہم اس بارے میں یہ بحث نہیں کر سکتے کہ احکام خمسہ (حلال حرام، مستحب، مکروہ، مباح) میں سے کون سا حکم اس پر نافذ ہوگا۔ یہ طبیعت انسانی کا جز ہے، یہ ایک انسانی حقیقت ہے، یہ ایک بشری پہلو ہے۔ انسان جس طرح دوسرے بہت سے کام انجام دیتا ہے اسی طرح شاعری کے اس پہلو کے بھی گوناگوں جلوے ہیں۔ یہ جو گوناگوں جلوے ہیں ان کے بارے میں آپ بحث کر سکتے ہیں کہ فقہ کے احکام خمسہ میں سے کون سا حکم ان پے لاگو ہوگا۔ بذات خود فن و ہنر ایک انسانی حقیقت ہے، ایک بابرکت شئے ہے، ایک لازمی چیز ہے، ایک امر حقیقی ہے۔
فقہ زندگی بشر کے تمام امور کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ فقہ کا دعوی ہے۔ فقہ ان تمام امور کی شرعی و اسلامی تصویر پیش کرتی ہے جو ایک انسان کی زندگی میں رونما ہو سکتے ہیں، ذاتی و سماجی زندگی میں جن سے انسان کا سابقہ پڑ سکتا ہے۔ فن بھی انھیں امور میں شامل ہے۔ اس بارے میں بھی فقہی بحث ہونی چاہئے۔ بیشک ہم نے تاخیر سے یہ کام شروع کیا، کچھ دیر سے ہم نے اس رخ پر سوچنا شروع کیا۔ یہ کام کافی پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ بہرحال اب بحمد اللہ یہ عمل آپ نے شروع کر دیا ہے، اسے آپ ہرگز رکنے نہ دیجئے، لگن سے کام کیجئے۔ جہاں تک سوال اس بات کا ہے کہ دینی علوم کے مراکز سے وابستہ افراد شعر و ادب کی وادی میں اتریں یا نہ اتریں؟ جیسے فلمسازی، تھیئیٹر اور دوسرے متعدد میدان ہیں، البتہ یہ بالکل الگ بات ہو گئی۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی طالب علم دینی درسگاہ میں وارد ہوتا ہے تو اس کا ایک مقصود ہوتا ہے جو فلمسازی سے الگ ہے، اس کا مقصود تجارت نہیں ہے۔ اس کا مقصود معماری بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان چیزوں کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کوئی ممانعت بھی نہیں ہے کہ ایک انسان اگر ذوق رکھتا ہے تو ان میں سے کسی وادی میں قدم رکھے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنا اصلی ہدف پہلے مد نظر رکھے۔ بیشک اگر کوئی فقیہ چاہتا ہے کہ آرٹ کی دنیا کے امور کے بارے میں اظہار خیال کرے تو چاہئے کہ وہ آرٹ سے آشنائی حاصل کرے۔ اگر اسے اس میدان کی آگاہی نہیں ہے، وہ اس وادی کو نہیں پہچانتا اور اسے معلوم نہیں ہے کہ فن کیا چیز ہے اور اس فن کے کیا حدود ہیں، اس کی کیا تعریف ہے؟ تو بہت بعید ہے کہ اس کے بارے میں کوئی صحیح رائے قائم کر سکے۔ کیونکہ صحیح حکم کے استنباط کی ایک شرط موضوع کی شناخت ہے۔ موضوع کا بخوبی علم ہونا چاہئے۔ اگر ہم موضوع سے آشنا نہیں ہیں تو صحیح فقہی حکم کا استنباط نہیں کر سکتے۔ لہذا میرے خیال میں اس میدان میں کافی کام کرنا ہے۔ خود فن کے بارے میں بھی اور فنون کے فقاہتی پہلوؤں کے بارے میں بھی۔ جناب علی دوست نے بالکل بجا فرمایا اور یہ موضوع اس قابل ہے کہ اس پر بحث کی جائے۔ اس کے بعد فنون کے فقاہتی پہلو سے بحث ہو اور اسلام کی نظر سے فنون کی حدود کا تعین کیا جائے۔
اگر ہم خود فنون کے بارے میں اسلام کا موقف جاننا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں اسلام آرٹ کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔ قرآن خود ایک فنکارانہ شاہکار ہے۔ آپ غور کیجئے؛ قرآن کریمہ کی آیتوں میں متعدد جگہوں پر جملہ بندی میں تقدم اور تاخر رکھا گیا ہے تاکہ آیتیں مسجع رہیں۔ قرآن میں ایسا متعدد جگہوں پر نظر آتا ہے۔ حالانکہ قرآن نہ تو اصطلاحی اعتبار سے سجع کا پابند ہے اور نہ قافیئے کا۔ کیونکہ یہ شعری مجموعہ نہیں ہے۔ ان چیزوں کی اس میں رعایت نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود کلام کی زیبائی کے تقاضے کے تحت بعض جگہوں پر آیتوں کے آخری حصوں کی باہمی مماثلت کو قائم رکھنے کے لئے کچھ چیزیں جملہ معترضہ کے طور پر بیچ میں لائی گئی ہیں۔ یا کلام کا وزن اور اس کا خاص آہنگ ہے۔ قرآن کی آیات کریمہ میں کلمات کے اندر جو موسیقیت ہے اس پر توجہ نہیں دی جا سکی ہے، اس کے سلسلے میں غفلت رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے 'وزن' پر کام کیا اور قرآن کی موزون آیتوں کو تلاش کیا ہے۔ ایسی متعدد آیتیں ہیں جو علم عروض کے اوزان میں سے ایک وزن کی حامل ہیں۔ مگر قرآن کے کلمات کی موسیقیت جو ان جگہوں پر بھی نظر آتی ہیں جہاں 'وزن' نہیں ہے، بیحد عجیب اور بڑی سماعت نواز ہے۔ جو انسان قرآن سے انس رکھتا ہو، آشنا ہو وہ اسے محسوس کر سکتا ہے۔ اس طرح قرآن ایک فنپارہ ہے۔ پیغمبر اکرم نے بھی حق کے طرفدار شعرا کی ترویج کی ہے۔ قرآن بھی اس شاعر کی ترویج کرتا ہو جو «اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحت» (۳) کے زمرے میں آتا ہو۔ ہمارے ائمہ میں بھی کئی اماموں نے اشعار کہے ہیں۔
کوئی چیز ترنم کے ساتھ پڑھنے کا جہاں تک سوال ہے تو غنا کے بارے میں ایک روایت ہے، جس کی جانب جناب عالی (4) نے اشارہ کیا اور ہم نے غنا کے مسئلے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ یہ شخص قرآن بڑی اچھی آواز میں پڑھتا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس سے کہو قرآن کی تلاوت کرے۔ جب اس نے پڑھنا شروع کیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ، جہاں تک مجھے یاد ہے یہ الفاظ کہے، اسی طرح قرآن پڑھو۔ یعنی اچھی آواز میں تلاوت کرو۔ یہ ایک فن ہے۔ اسی کو فن کہتے ہیں۔ یہ فن موسیقی ہے جس کی گوناگوں قسموں میں ترویج کی گئی ہے۔ یا فرض کیجئے کہ یہی عبارت پردازی جو ہمارے علما کے یہاں نظر آتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ کتب کے آغاز میں کیا خوبصورت مسجع عبارتیں لکھتے ہیں۔ علما جو ایک دوسرے کو اجازے دیا کرتے تھے، اجتہاد کا اجازہ، روایتیں نقل کرنے کا اجازہ، ان میں بھی کتنی خوبصورت عبارتوں کی نگارش ہوتی تھی، کیا خوبصورت سجع نظر آتا تھا۔ یہ نگارشیں ہمارے انھیں فقہا کی ہیں۔ اپنی کتب کی عبارتوں میں بھی ان کا یہی انداز ہوتا تھا۔ جو کتابیں فارسی میں لکھی گئی ہیں اور خاص طور پر ان اواخر کے برسوں میں، ان میں یہ چیز بہت نمایاں نہیں ہے، لیکن مثال کے طور پر مرحوم مجلسی جو فارسی کے اعتبار سے بھی بہت اعلی درجے کی نثر نگاری کرتے تھے، یہ سب فن ہی تو ہے۔ لہذا یہ بحث کہ اسلام فن و ہنر کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، میری نظر میں بالکل واضح ہے۔ انسانی زندگی کے دیگر فطری پہلوؤں کی مانند فن و ہنر کے سلسلے میں بھی اسلام موافق رائے رکھتا ہے۔
آج انسانی معاشرے میں فن و ہنر رچا بسا ہے۔ یہ بشر کے متن زندگی میں شامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آرٹ محض کوئی اضافی اور تکلفاتی چیز ہو۔ مثال کے طور پر معماری؛ معماری ایک آرٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق انسان کی اصلی زندگی سے ہے۔ انسان جس عمارت میں زندگی بسر کرتا ہے اس کا طرز تعمیر انسان کے ذہن، اس کی روح، اس کے طور طریقوں اور سبک زندگی پر اثر اپنا ڈالتا ہے۔ یہ سب واضح اور سامنے کی چیزیں ہیں۔ ہاں اگر فن و ہنر کی گوناگوں قسموں کی بات کی جائے، غنا کی بحث ہو یا مجسمہ سازی کا مسئلہ، اس سلسلے میں حدود کا تعین ہونا ضروری ہے۔ فقہا کے مشہور فتوے ہیں، جب انسان ان کے تعلق سے گہرائی میں جاتا ہے؛ جیسے 'منزوجات بئر' (5) کا قضیہ ہے، ایک زمانے میں اس بارے میں ایک رائے تھی جو بعد میں بالکل تبدیل ہو گئی۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ یعنی وہ رائے احتیاط کے تحت قائم کی گئی تھی۔ مجسمہ سازی اور غنا کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ جناب علی دوست صاحب نے جو کہا بالکل صحیح ہے۔ اہم روایتیں بھی اسی آيت کے ذیل میں ہیں؛ لَهوَ الحَدیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبیلِ اللهِ بِغَیرِ عِلم، یعنی صرف 'لھو' نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی 'یضل' کا لفظ بھی ہے۔ ایک روایت ہے جو اسی آیت کے تناظر میں بات کرتی ہے۔ آیت کریمہ کہتی ہے؛ وَ مِنَ النّاسِ مَن یَشتَرى لَهوَ الحَدیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبیلِ اللهِ بِغَیرِ عِلم (۶) یعنی حرام ہونے کی یہ شرطیں ہیں۔ روایت تفسیر کا کام کرتی ہے۔ اسی آیت کی تشریح کرتی ہے، کسی اور چیز کی تشریح نہیں کر رہی ہے، اسی آیت کا مفہوم بیان کر رہی ہے۔
بنابریں فنون کے گوناگوں شعبوں کے بارے میں بہت سی نئی باتیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اسٹیج ڈراما کو لے لیجئے! مردوں کا زنانہ لباس پہننا یا عورتوں کا مردوں کے بھیس میں آنا ان شبہات میں ہے جو ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ انسان جب اس سلسلے میں فقہی بحثوں میں اترتا ہے اور گہرائی تک جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اگر کسی نے اسٹیج ڈراما میں مرد ہوتے ہوئے عورت کا لباس پہن لیا یا عورت ہوکر مرد کا لباس پہن لیا تو اس میں کوئی مضائقہ ہے۔ لہذا میرا خیال ہے کہ اس میدان میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے اور یہ افاضل افراد کا کام ہے۔
البتہ حضرات نے جو کلیدی نکتہ بیان کیا وہ فقہی نظم و ضبط ہے۔ یعنی ہم ماحول سے متاثر ہوکر رائے قائم نہ کرنے لگیں۔ مثال کے طور پر معاشرے میں ایک ماحول ہے جس کی وجہ سے ہمارے اوپر دباؤ ہے کہ جناب آپ فلاں چیز کو کیوں حرام کہتے ہیں، یا فلاں چیز کو حرام کیوں نہیں قرار دیتے۔ تو ہمیں اس طرح کے ماحول کے دباؤ میں آکر کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ ایسا کرنا غلط ہے۔ یہ طریقہ غیر صالحانہ ہے۔ فقہی نظم و ضبط کا پوری طرح خیال رکھا جانا چاہئے۔ جس طرح ہم دیگر فقہی احکام، قرآن اور سنت سے استنباط کے ذریعے، طے کرتے ہیں، اسی طرح اس مسئلے میں بھی قرآن و سنت سے رجوع کریں اور اسی کے مطابق عمل کریں۔ 'امارات' کو ان کی اپنی جگہ پر اور اصولوں کو ان کی اپنی جگہ پر رکھیں۔ شیعہ فقہا کے پاس یہ جو عظیم فکری سرمایہ ہے، استنباط کی یہ روشیں اور یہ اسلوب جو رائج ہوئے ہیں اور جنھیں تقویت ملی ہے اور پختگی کی منزلوں میں پہنچ چکے ہیں انھیں ہر پہلو سے استعمال کریں اور فن و ہنر کے میدان میں بھی نتائج تک پہنچیں۔
ہمیں آپ کی اس نشست اور اس کانفرنس کے نتائج کا انتظار رہے گا۔ اگر زندگی رہی تو آپ کے اس کام کا، آپ کے اس عمل کا جو بالکل نئے انداز کا عمل ہے، نتیجہ اور اس کی پیشرفت کا ہم مشاہدہ کریں گے۔ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا إلى‌ یَوْمِ القِیَامَةِ (۸) دینی علوم کے مرکز میں آپ نے اس کام کا آغاز کیا ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں جب لوگ اس میدان میں کام کریں گے اور اس عمل پر اجر الہی کے مستحق قرار پائیں گے تو یقینا اس کا اجر آپ کو بھی پہنچے گا۔ آپ سب کے لئے کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) یہ سیمینار دار العلوم قم کے ادارہ اسلامی تبلیغات کی جانب سے 13 جنوری 2016 کو شروع ہوا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی سے ہونے والی اس ملاقات میں دار العلوم قم کے ادارہ اسلامی تبلیغات کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین احمد واعظی، سیمینار کے کنوینر ابوالقاسم علی دوست، اور سید ابو القاسم حسینی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) سیمینار کے کنوینر ‌
۳) منجملہ سورہ شعرا، آیت نمبر 227 کا ایک حصہ؛ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال انجام دئے۔
۴) سیمینار کے کنوینر ‌‌
۵) 'بئر' کا معنی ہے کنواں اور 'منزوجات' ایک فقہی اصطلاح ہے، منزوجات اس پانی کو کہتے ہیں جو کنویں کے نجس ہو جانے کی صورت میں بالٹی کے ذریعے کنویں سے نکالا جاتا ہے تاکہ کنواں پاک ہو جائے۔
۶) سوره‌ لقمان، آیت نمبر 6؛ اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لئے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
۷) «اماره» ایک فقہی اصطلاح ہے، امارہ اسے کہتے ہیں جو بیشتر لوگوں کے لئے فطری طور پر ظن کی کیفیت پیدا کرتی ہے، ظن، یقین سے نیچے اور شک سے اوپر کی کیفیت ہوتی ہے، شریعت نے اسی خصوصیت کی وجہ سے اسے معتبر قرار دیا ہے۔
۸) اصول کافى، جلد ۹، صفحہ ۳۷۲