آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ائمہ جمعہ کی سب سے اہم ذمہ داری حقائق کی تشریح ہے، آپ نے فرمایا کہ شہر کے دینی اور انبیاء کے وارث ہونے کی حیثیت سے ائمہ جمعہ کو چاہئے کہ نماز جمعہ کے موقع پر ہونے والے اجتماع سے استفادہ کریں اور حقائق پر ورشنی ڈالیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں انتخابات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے عظیم نعمت سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ یہ حقیقی برکت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش اور گہری نظر کا ثمرہ ہے جنھوں نے بعض نظریات کے برخلاف اسلامی حکومت میں انتخابات کو لازمی قرار دیا اور عوام الناس کو مملکت کا مالک بتایا اور آپ کا یہ نظریہ تھا کہ عوام الناس کے انتخاب کے فیصلے پر عمل ہونا چاہئے۔
رہبر انقلاب کے خطاب کا اردو ترجمہ
بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌ (۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اس حقیر کے لئے یہ بہت دلچسپ اور مفید جلسہ ہے جس میں آپ برادران عزیز، محترم ائمہ جمعہ، ملک بھر میں روحانی و ثقافتی امور کے کارگزار تشریف فرما ہیں۔ کاش میں آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ فردا فردا بیٹھ کر گفتگو کر سکتا۔ افسوس ہے کہ وقت میں گنجائش اور جسمانی توانائی ایسی نہیں ہے کہ اس حقیر کو آپ سب سے فردا فردا گفت و شنید کی توفیق حاصل ہو۔ میرا دل چاہتا ہے کبھی نماز جمعہ میں آپ کے خطبے سنوں۔ ماضی میں جب میں صوبوں اور اضلاع کے دورے پر جاتا تھا تو مقامی ریڈیو سے نشر ہونے والے وہاں کے خطبہ جمعہ کو سنتا تھا۔ اب تو ہمارے سفر بھی بہت کم ہو گئے ہیں، لہذا اب یہ توفیق بھی ہمیں کبھی کبھار ہی ملتی ہے۔ بہر حال یہ جلسہ بڑا مناسب موقع ہے، آپ کی زیارت بھی ہو گئی، جناب تقوی صاحب کی رپورٹ بھی ہم نے سنی جو تفصیلی اور بہت مفید رپورٹ تھی۔ میں دو باتیں اس ملاقات میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک کا تعلق نماز جمعہ کے موضوع سے ہے جو بڑا اہم مسئلہ ہے اور ہم سے اور آپ سے اس کا تعلق ہے اور دوسری بات عنقریب ہونے والے انتخابات کے تعلق سے ہے جسے میں اجمالی طور پر بیان کروں گـا۔ ان دونوں موضوعات کے تعلق سے چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔
نماز جمعہ کے تعلق سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ نماز جمعہ ایک چھاونی ہے۔ ایمان کی چھاونی، تقوی کی چھاونی، بصیرت کی چھاونی، اخلاقیات کی چھاونی۔ چھاونی کے لفظ سے ہمیں وحشت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ عسکری اور فوجی شعبے کی اصطلاح ہے کہ جنگ جاری ہے۔ کیونکہ ہمارے اوپر جنگ مسلط کر دی گئی ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ البتہ یہ عسکری جنگ نہیں ہے۔ فکری، روحانی اور ایمانی جنگ ہے، یہ سیاسی جنگ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مقدس دفاع کے زمانے میں ہمارے اوپر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ ہم جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔ ہمارے اوپر یہ جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ ہمارے اوپر حملہ کیا گيا تھا۔ ہم اپنے ہمسایہ ملکوں سے جنگ ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ ہم حملے کی شروعات کبھی نہیں کرتے۔ بلکہ اگر دفاعی کارروائی لازمی نہ ہو تو ہم دفاعی حملہ بھی نہیں کرتے؛
لَئِن بَسَطتَ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنی مآ اَنَا بِباسِطٍ یَدِیَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّی اَخافُ اللهَ رَبَّ العلَمین (۲) ہمارا تو یہ مزاج ہے۔ ہاں اگر دفاعی اقدام لازمی ہو تو بیشک ہم دفاع کے لئے میدان میں اترتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ملت ایران، انقلابی فورسز، ہمارے عظیم اور ہر دلعزیز رہبر (امام خمینی) نے جن کا نام، جن کی یادیں اور جن کا راستہ آج بھی بحمد اللہ زندہ ہے، ثابت کر دیا کہ دفاع کے میدان میں ہم توانائیوں سے لیس ہیں۔ تو ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ ہم اس ماہیت کا جہاد انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے عوام کے ایمان و عقیدے پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے عوام کی بصیرت پر یلغار ہو رہی ہے۔ ہمارے تقوے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے اخلاقیات پر حملے ہو رہے ہیں۔ گوناگوں فکری و اعتقادی جراثیم ہمارے اندر پھیلائے جا رہے ہیں تو ہم کیا کریں؟ ہمیں اپنا دفاع تو کرنا ہی ہوگا اور دفاع کے لئے، چھاونی ضروری ہے۔ ایمان کی چھاونی چاہئے میدان جنگ کی چھاونیوں کی طرح۔ نماز جمعہ ایسی ہی ایک اہم چھاونی ہے۔ یہ ایمان کی چھاونی ہے۔ یہ تقوی کی چھاونی ہے۔ ہم نماز جمعہ کو اس نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ اس چھاونی کے کمانڈر ہیں۔ چھاونیوں کے کمانڈر ہوتے ہیں اور نماز جمعہ کی چھاونی کا کمانڈر امام جمعہ ہے۔
اس چھاونی کا بنیادی ہدف تشریح و بیان ہے۔ انبیائے الہی کا بھی بنیادی مقصد تشریح و بیان ہی تھا۔ ان کا ہدف تھا حقائق کی تشریح۔ انسان گمراہ اس لئے ہوتے ہیں کہ حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے۔ بنیادی وجہ یہی ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو حقیقت کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر انحراف کی وجہ حقیقت سے ناواقفیت ہوتی ہے۔ انبیائے الہی اس دنیا میں آئے کہ حقیقت کو عیاں کریں، واضح کریں، ظاہر کریں، لوگوں پر حجت تمام کریں۔ یہ ہے تشریح اور بیان کا قضیہ۔ اَلعُلَماءُ وَرَثَةُ الاَنبیاء (۳) آپ انبیاء کے وارث ہیں، بیان اور تشریح کے مسئلے میں بھی۔
نماز جمعہ جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے، جمع ہونے کی جگہ ہے اور اجتماع کا مقام ہے۔ یہ کسی بھی مسئلے کے بیان اور تشریح کا اچھا موقع ہوتا ہے۔ کبھی آپ کو گھر گھر جاکر اپنی بات کہنی ہوتی ہے یا آپ بالواسطہ طور پر اپنی بات بیان کرتے ہیں۔ آج جو ابلاغ عامہ کے ذرائع ہیں، بیشک ان کی وسعت بہت زیادہ ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل نیٹ ورک اور دوسری چیزیں ہیں جن کے اندر ہمہ گیریت ہے۔ مگر رو برو ہوکر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، موجودگی کے احساس کے ساتھ اور اس تاثر کے ساتھ کہ آپ کا مخاطب شخص آپ کے سامنے موجود ہے، اپنی بات بیان کرنا ایک الگ ہی چیز ہے۔ اجتماع، ایک جگہ جمع ہونا ایک الگ چیز ہے۔ ممکن ہے ایک بات یا پیغام کو انٹرنیٹ پر یا ایس ایم ایس کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ لیکن اس وقت بات بالکل الگ ہوگی جب یہی لاکھوں افراد ایک جگہ جمع ہو جائیں، ایک آدمی ان سے ہمکلام ہو، ان سے بات کرے۔ روبرو کھڑے ہوکر مخاطب افراد کو دیکھنا غیر معمولی اثر رکھتا ہے۔ یہ موقع آپ کو حاصل ہے۔ نماز جمعہ جمع ہونے کا موقع ہے، اجتماع کا مقام ہے۔ لوگوں کو ایک جگہ پر یہ نماز جمعہ کر دیتی ہے۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ فیصلے کر سکتے ہیں۔ اقدام کر سکتے ہیں۔ یہ سب بہت اہم ہے۔ جو لوگ دین سے بیگانہ ہیں، خواہ وہ غیر ملکی ہوں یا ہمارے ملک کے اندر ہی موجود کچھ بد نصیب لوگ جو اس سنہری موقع سے محروم ہیں، وہ سب رشک کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ لوگوں کو یکجا جمع کیا جائے اور لوگ آپس میں بات چیت کریں، تبادلہ خیال کریں۔ مختلف بہانوں سے یہ کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بات پیدا نہیں ہو پاتی۔
جب یہ صورت حال ہے تو پھر نماز جمعہ ہر شہر کا ثقافتی قلب ہے، ہر شہر کا ثقافتی مرکز نماز جمعہ ہے۔ البتہ اس کے کچھ شرائط ہیں جن میں بعض کا میں ابھی ذکر کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے یہاں سے ہدایت کا کام انجام پاتا ہے۔ میں یہ بات تاکید کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ یہ صرف سیاسی رہنمائی نہیں ہے۔ یہ سیاسی و ثقافتی رہنمائی ہے۔ یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر ہم نے کسی معروضی سیاسی مسئلے کے سلسلے میں زبردست تقریر کر دی، نکات کو خوش اسلوبی سے بیان کر دیا تو قصہ تمام ہو گیا۔ نہیں، ہم ثقافتی رہنمائی کو سیاسی رہنمائی سے زیادہ اساسی اور کلیدی مانتے ہیں۔ سیاسی رہنمائی بھی بہت ضروری ہے، اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے، لیکن ثقافتی رہنمائی اور عوام کے اخلاقیات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
آپ مثال کے طور پر دیکھئے کہ تین چار سال قبل ہم نے طرز زندگی کا موضوع اٹھایا تھا (4)، یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ طرز زنگی کے کئی پہلو ہیں۔ ایران اور اسلام کے دشمنوں کا ایک اہم منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر دیں اور اسے بھی اپنے طرز زندگی کے مطابق ڈھال لیں۔ زندگی کے حقائق انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ روزانہ کا سلوک اور برتاؤ انسان کے دل و دماغ پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔ خود اس انسان کے بھی ذہن و دل پر اور اس کے مخاطب افراد اور ارد گرد کے لوگوں کے بھی ذہن و دل پر۔ دشمن اسے تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔
اسلام ہمارے لئے ایک طرز زندگی لیکر آیا ہے۔ مثال کے طور پر ادب و احترام ہے۔ ادب و احترام بہت اہم ہے۔ انگریز اپنی روزمرہ کی زندگی میں ادب و احترام کے قائل نہیں ہیں۔ ہم ایرانیوں کے سلسلے میں قدیم زمانے سے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اپنی گفتار میں اور اپنے بیان میں ہمیشہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ مد مقابل شخص کا احترام کرتے ہیں۔ دشمن اسے بدل دینا چاہتا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے کہیں کہیں کامیابی بھی مل گئی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی سے اختلاف رائے رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں تو آپ دو طرح سے بات کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ گستاخانہ انداز میں اور بے ادبی کے ساتھ بات کی جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ادب کے ساتھ وہی بات کہی جائے۔ آپ دیکھئے کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر جب فاسقین کے بارے میں بات کی گئی ہے، کافرین کے بارے میں بات کی گئی ہے یا دنیا کے شرپسندوں کے بارے میں بات کی گئی ہے تو اس طرح ارشاد ہوا ہے؛ وَ لکنَّ اَکثَرَهُم لا یَعلَمون؛(۵) یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے سب ایسے ہیں۔ یعنی ان کے درمیان بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو عقل کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کا خیال رکھا ہے اور 'اکثرھم' کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
طرز زندگی، زندگی بسر کرنے کی اچھی روش اور اچھی عادات و اطوار کے ضمن میں ایک مسئلہ کتاب خوانی کا بھی آتا ہے۔ البتہ جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں اس بات کی جانب بھی ایک اشارہ ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عوام کو، نوجوانوں کو کتب بینی کی ترغیب دلائیں۔ کتب کا مطالعہ بہت اہم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اچھی کتابوں کا تعارف کرائیں۔ میرا تو یہ خیال ہے، البتہ جو متعلقہ ذمہ داران ہیں وہ اس سلسلے میں غور کریں اور اس کے پہلوؤں کا جائزہ لیں کہ نماز جمعہ جہاں قائم ہوتی ہے وہاں اچھی اور پسندیدہ کتابوں کی نمائش بھی لگائی جائے۔ لوگ آئیں اور ان کتابوں کو دیکھیں۔ اگر چاہیں تو وہیں سے یا کسی اور جگہ سے وہ کتابیں حاصل کریں۔ لوگوں کو ترغیب دلائی جائے کتب خوانی کی۔ دانشوروں کو کتابیں لکھنے کی ترغیب دلائی جائے۔ یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ تو یہ چند باتیں تھیں جو میں نے عرض کر دیں۔
نماز جمعہ کے تعلق سے ایک اور اہم نکتہ ملک کی نوجوان نسل کو راغب کرنے کا ہے۔ اس وقت سنہ 1980 اور 1990 کے عشرے کے مقابلے میں نوجوانوں کی تعداد کچھ کم ہے، مگر پھر بھی ہمارا معاشرہ نوجوان اکثریتی معاشرہ ہے۔ ہمارے یہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نوجوانوں کو نماز جمعہ کی جانب مائل کریں۔ صرف یہ کہنے سے کہ نوجوانو! آؤ نماز جمعہ میں شرکت کرو، اپنے اندر نماز جمعہ میں شرکت کی رغبت پیدا کرو نوجوان نماز جمعہ کی طرف راغب نہیں ہوں گے۔ نوجوان کے دل و ذہن کو نماز جمعہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ نوجوانوں کو نماز جمعہ کی طرف جو چیزیں مائل کر سکتی ہیں ان میں ایک ہے مدلل گفتگو۔ سیاسی مسائل میں یا ثقافتی امور کے بارے میں اگر غیر مدلل باتیں کی جائيں گی تو جو لوگ نماز جمعہ میں آنے کے عادی ہیں وہ عادتا آتے رہیں گے، لیکن وہ نوجوان جو نئی نئی باتوں کی جستجو میں رہتا ہے وہ راغب نہیں ہوگا۔ اسے نئی باتیں چاہئیں۔
«سخن نو آر که نو را حلاوتیست دگر» (۶)
نئی بات سے مراد بدعت آمیز باتیں کرنا نہیں ہے! نئی بات سے مراد یہ ہے کہ آپ تدبر کیجئے، غور و خوض کیجئے، فکری کاوش کیجئے تو آپ کو نوجوانوں کے لئے نئی باتیں ملیں گی اور ایسی صورت میں نوجوان مائل ہوں گے، آکر ان نشستوں میں شرکت کریں گے، خود ہی آئیں گے آپ کو بلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
برادران گرامی! نوجوانوں کو جو چیزیں راغب کرتی ہیں ان میں ایک ہے قربت کا احساس۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ اگر اس کا دل جیت لیا جائے تو وہ بہت سے کام انجام دے سکتا ہے۔ اگر وہ احساس قربت کرنے لگے، احساس محبت کرنے لگے، احساس صداقت کرنے لگے تو ضرور آئے گا۔ اگر اسے ہمارے اور آپ کے اندر تکبر نظر آیا تو ہرگز نہیں آئے گا۔ غرور اور تصنع دیکھے گا تو نہیں آئے گا۔ ان چیزوں کی اصلاح ہونی چاہئے تو نوجوان آئيں گے۔ جب نوجوان مائل ہو جائیں تو یہ سمجھئے کہ آپ ملک کو آگے لے جانے والی قوت کو فکری غذا فراہم کر رہے ہیں۔ نوجوان ملک کو آگے لے جانے والی قوت کا نام ہے اور آپ اسے غذا فراہم کر رہے ہیں۔
ائمہ جمعہ کے سلسلے میں ایک اور چیز میری نظر میں بڑی اہم ہے اور یہ ہماری پچھلی بات کا ہی تسلسل ہے، وہ ہے طالب علم جیسا برتاؤ، دفتری برتاؤ نہیں۔ نماز جمعہ کی امامت طالب علم کا کام ہے، عالم دین کا کام ہے، یہ کوئی دفتری ذمہ داری نہیں ہے، اسے دفتری شکل نہیں دینا چاہئے۔ نماز جمعہ کے مسئلے میں اگر مینیجر اور ڈائریکٹر جیسا انداز اختیار کیا جائے گا تو یہ مناسب نہیں ہوگا، طالب علم اور عالم دین کے انداز میں عمل کرنا چاہئے۔ سربراہ اور مالک جیسا برتاؤ نہیں ہونا چاہئے۔ روحانی پیشوا جیسا برتاؤ ہونا چاہئے، شفقت آمیز، برادرانہ اور محبت آمیز برتاؤ ہونا چاہئے، ایک عالم دین کا یہی شیوہ ہے۔
ایک اور چیز ہے حق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا۔ بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ جن کے پاس کوئی بڑا پلیٹ فارم ہے، سامعین کی پسند اور مرضی کو مد نظر رکھتے ہیں۔ سامعین کو جو پسند ہو ویسی بات کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ انقلاب سے پہلے بھی یہ صورت حال تھی۔ اسلامی فکری بحثیں کرنے والے اور مقرر حضرات میں ایسے بھی تھے جو یہ دیکھ لیتے تھے کہ سننے والے کو کیا چیز پسند آئے گی۔ اگر اسے کوئی ایسی چیز پسند آتی ہے جو غلط بھی ہے تو یہ وہی بات بیان کرتے تھے۔ یہ کام آپ ہرگز نہ کیجئے۔ یہ غلط ہے۔ جو حرف حق ہے اسے بیان کیجئے، سننے والے کو وہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔ اس حق بات کو نرم اور شائستہ انداز میں استدلال کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ سننے والا اپنی پسند اور مرضی کے خلاف بات سنے جو اس کے لئے تلخ بات ہو لیکن پھر بھی اسے اچھا لگے۔
ایک اور چیز ہے امام جمعہ کا احترام۔ امام جمعہ کو چاہئے کہ وہ خود بھی اپنے وقار کا خیال رکھے اور عوام بھی اس کا احترام کریں، اسی طرح تہران میں جو مرکزی دفتر ہے وہ بھی امام جمعہ کا احترام کرے۔ احترام کا مطلب یہ نہیں کہ اسے پروٹوکول دیا جائے، ریڈ کارپٹ بچھایا جائے۔ احترام کرنے کا مطلب ہے اس کی قدرشناسی۔ امام جمعہ اپنی قدرشناسی خود کرے اور خود بھی اپنے وقار کا خیال رکھے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا دامن ان چیزوں سے پاک رکھے جو آلودہ کر دیتی ہیں۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں جن پر توجہ دینا چاہئے۔
بہرحال وطن عزیز میں نماز جمعہ کا قائم ہونا اور نماز جمعہ کی امامت واقعی بہت بڑی توفیق ہے۔ بعض اسلامی ممالک میں یہ صورت حال ہے کہ کچھ ادارے نماز جمعہ کے خطبے کاغذ پر لکھ کر امام جمعہ کو دے دیتے ہیں، امام جمعہ منبر پر جاتا ہے اور وہی تحریر پڑھ کر اتر آتا ہے۔ ہماری نظر میں تو یہ نماز جمعہ نہیں ہے، یہ نماز جمعہ کا خطبہ نہیں ہے۔ یہ تو کسی محکمے کا سرکولر پڑھ دینے کے مانند ہے۔ وہ ادارہ جو مذہبی امور سے متعلق ہے، ایک تحریر تیار کرکے دے دیتا ہے کہ جناب آپ جائیے اور وہاں بیٹھ کر اسے پڑھ آئیے، امام جمعہ جاتا ہے اور پڑھ کے چلا آتا ہے۔ یہ تھوڑی خطبہ جمعہ ہے۔ خطبہ جمعہ تو وہ ہوتا ہے جو امام جمعہ کے بیدار دل و دماغ سے جوش مار کر نکلتا ہے اور چشمے کے پانی کی مانند بہتا ہے۔ امام جمعہ کی زبان پر جاری ہوتا ہے اور امام جمعہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق فصیح و بلیغ زبان میں اسے منعکس کرتا ہے۔ جہاں بھی کوئی خلا ہے اور کوئی ضرورت ہے اس کی شناخت ہونا چاہئے اور اسی طرح اس ضرورت کی تکمیل کرنے والی چیز کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے، وہ فکری دوا، فکری غذا جس سے اس خلا کو پر کیا جا سکتا ہے امام جمعہ کو اس کی شناخت ہونی چاہئے اور اسے خوش اسلوبی سے بیان کرنا چاہئے۔ میری نظر میں امام جمعہ کے تعلق سے یہ چیز بہت ضروری ہے۔
بہرحال ہم نماز جمعہ کے قدرداں ہیں اور اللہ تعالی کا واقعی تہہ دل سے شکر ادا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ائمہ جمعہ کے ساتھ ہم امام خمینی کی خدمت میں پہنچے، یہ ان ابتدائی برسوں کے بات ہے کہ جب نماز جمعہ کا سلسلہ نیا نیا شروع ہوا تھا اور امام خمینی نے حقیر کو تہران کی نماز جمعہ کی امامت کے افتخار سے نوازا تھا۔ ہم ائمہ جمعہ کے ساتھ امام خمینی کی خدمت میں پہنچے، میں نے وہاں کچھ باتیں بیان کیں۔ ایک جملہ جو میرے دل کی گہرائی سے نکلا یہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے شب قدر قرار دی ہے اور سورہ انّا انزلنا کی تفسیر میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوا ہے کہ بنی امیہ کے دور حکومت میں ایک ہزار مہینے گزر گئے اور عوام کو لیلۃ القدر نصیب نہیں ہوئی۔ بنی امیہ کی حکومت ایک ہزار مہینے تھی۔ اس ایک ہزار مہینے کی مدت میں لیلۃ القدر نہیں تھی، لوگ لیلۃ القدر سے محروم تھے۔ یہ ہماری روایتوں میں کہا گیا ہے۔ اسی طرح ہم طاغوتی شاہی حکومت کے دور میں نماز جمعہ سے محروم تھے۔ بعض شہروں میں اسی پرانی روایت کے مطابق حکام کسی کو معین کر دیتے تھے جسے نماز جمعہ پڑھانے کی اجازت ہوتی تھی۔ البتہ بعض شہروں جیسے مشہد میں بڑے محترم امام جمعہ تھے۔ الحاج شیخ غلام حسین تبریزی مرحوم بڑے متقی و پرہیزگار عالم دین تھے جن کا حکومت سے کوئی ربط نہیں تھا۔ ایسی بھی کچھ مثالیں تھیں۔ لیکن دوسرے بہت سے شہروں میں امام جمعہ طاغوتی حکومت کی جانب سے منصوب کئے جاتے تھے۔ اسی لئے عوام جاتے نہیں تھے اور اس کی بات پر توجہ بھی نہیں دیتے تھے۔ میں نے کہا کہ ہم برسوں سے نماز جمعہ سے محروم تھے اور آپ نے ہمیں نماز جمعہ دی، ملت ایران کو یہ نعمت دی۔ واقعی یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ تو یہ چند باتیں ائمہ جمعہ کے تعلق سے تھیں۔
اور اب انتخابات کا موضوع۔ البتہ انتخابات کو ابھی وقت باقی ہے، چالیس پچاس دن کا وقت ہے، اس طرح میرے پاس بھی موقع ہے کہ کچھ باتیں عوام کے گوش گزار کروں۔ میں اس بات کے خلاف ہوں کہ دو سال پہلے یا ایک سال پہلے سے ملک میں انتخابات کا ماحول پیدا کر دیا جائے، میں اس سے متفق نہیں ہوں، البتہ بہت سے لوگوں نے یہ کام کیا ہے جو غلط ہے۔ جب ماحول الیکشن کا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رقابت اور تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے خواہ وہ زبانی تصادم کی شکل میں ہو۔ ایک دوسرے کے خلاف بسا اوقات نامناسبت اور نازیبا باتیں کہی جانے لگتی ہیں۔ انتخابی ماحول انسان کو معاشرے کے معروضی حقائق سے اور حقیقی ضرورتوں سے غافل کر دیتا ہے۔ لہذا یہ چیز مناسب نہیں ہے۔ مجھے ٹھیک نہیں لگتا کہ پہلے سے ہی انتخابات کے بارے میں بات شروع کر دی جائے، لیکن اب تو انتخابات کا موسم شروع ہو چکا ہے، لہذا کچھ چیزیں بیان کری دی جانی چاہئے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ جیسا کہ ہم نے نماز جمعہ کے تعلق سے عرض کیا، انتخابات کے بارے میں بھی میں یہی کہوں گا کہ یہ بھی اللہ کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ یہ بھی ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی گہری نظر کی ایک برکت ہے۔ اس زمانے میں بھی بعض افراد ایسے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ اسلامی حکومت میں انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ نہیں، انتخابات ہونے چاہئے، ان کا اثر ہونا چاہئے، عوام کو فیصلہ کرنا چاہئے، عوام کو انتخاب کا موقع دیا جانا چاہئے اور عوام جو چاہیں وہیں ہونا چاہئے۔ اس فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اسلامی انقلاب سے وابستہ رہے، میدان عمل میں ڈٹے رہے اور آج تک وہ بحمد اللہ ساتھ دے رہے ہیں۔ کیونکہ انتخاب خود عوام کر رہے ہیں، وہی فیصلہ کر رہے ہیں۔ الیکشن بہت بڑی نعمت ہے۔
ہمارے دشمن اپنے سیاہ و تاریک دل کی تسلی کے لئے دن کو رات اور رات کو دن کہنے اور ظاہر کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہمارے ملک پر آمریت کا بہتان لگاتے ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں بھی وہ یہی کہتے تھے، اوائل انقلاب میں بھی کہتے تھے؛ 'نعلین کی آمریت'۔ 'نعلین' کے ساتھ ڈکٹیٹرشپ ممکن ہی نہیں ہے۔ 'نعلین' کے مزاج میں ہی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہے۔ وہ تو بوٹ کا مزاج ہے، ڈکٹیٹر شپ بوٹ کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا کہ ولایت فقیہ ڈکٹیٹر شپ کا سد باب کرتی ہے۔ یہ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا نظریہ تھا۔ یہ بڑی عمیق اور پرمغز بات ہے۔ حقیقت قضیہ بھی یہی ہے۔ انتخابات ان چیزوں میں ہے جن سے بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ آراستہ ہے۔ ملک میں اتنے انتخابات ہوئے لیکن ہمارے دشمنوں نے بھی اپنی اس رٹ میں کوئی کمی نہیں کی کہ ایران میں ڈکٹیٹرشپ ہے۔ حالانکہ علاقے کے ڈکٹیٹر ان کے قریبی دوست ہیں۔ قوموں کے اثاثے اور وسائل لوٹنے کی مہم میں دونوں شریک ہیں۔ ان ڈکٹیٹروں سے وہ ایک لفظ نہیں کہتے۔ جیسے یہی حکومتیں ہیں جنھیں آپ دیکھ رہے ہیں اور جانتے ہیں۔ تاہم وہ اسلامی جمہوریہ پر الزام لگانے سے باز نہیں آتے۔ اگر انتخابات نہ ہوتے تو یہ تہمت نہ کہلاتی بلکہ عین حقیقت ہوتی۔ یعنی اگر واقعی عوام سے یہ حق لے لیا جائے تو دشمن کی بات صحیح ہو جائے گی۔ بحمد اللہ عوام کو یہ حق دیا گیا ہے۔ انتخابات بھی ہیں، بحمد اللہ آزاد انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابات سے ملک کے داخلی ماحول میں ایک خود مختاری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور عوام کو ایک تشخص ملتا ہے۔ عوام کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ ان کا اپنا ہے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ اس مملکت کے مالک عوام ہی ہیں۔ وہی فیصلہ کرتے ہیں، وہی اقدام کرتے ہیں مجریہ کے مسئلے میں بھی، مقننہ کے مسئلے میں بھی اور بالواسطہ طور پر رہبر انقلاب کے معاملے میں بھی، اسی طرح ان دیگر معاملات میں بھی جن میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اس سے ملک کے باہر بھی وقار و اعتبار بڑھتا ہے۔ واقعی عالمی فضا میں، حقیقت میں انتخابات باعث وقار ہیں۔ بنابریں خود الیکشن اپنے آپ میں بہت اہم اور ایک بڑی نعمت ہے۔
انتخابات کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہئے۔ بعض لوگوں کی گویا عادت سی ہو گئی ہے کہ انتخابات کے نزدیک آتے ہی انتخابات کے نامعتبر ہونے کی رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کی عادت ہو گئی ہے۔ یہ بڑی بری عادت ہے، بہت بری بیماری ہے۔ انتخابات بالکل صحتمند ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی الیکشن میں کہیں گوشہ و کنار میں کوئی خلاف ورزی ہو گئی ہو۔ یہ ممکن ہے۔ ہمیشہ اس طرح کے اتفاقات ہو جاتے ہیں۔ خود ہمارے اپنے کاموں میں، ہمارے ذاتی و سماجی کاموں میں بھی ممکن ہے کہ کچھ خلاف ورزی ہو جائے، تاہم اس سطح پر بدعنوانی کہ انتخابات کے نتائج ہی بدل جائیں، ہرگز نہیں ہوئی ہے۔ منصوبہ بند بدعنوانی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات سے تعلق رکھنے والے سرکاری و غیر سرکاری عہدیداران نے بے توجہی برتی ہو۔ اوائل انقلاب سے لیکر تاحال یہی صورت حال رہی ہے۔ حکام نے پوری ذمہ داری کے ساتھ انتخابات کے امور انجام دئے ہیں۔ ساری حکومتوں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔ اس دوران جو حکومتیں تشکیل پائیں ان میں طرز فکر کے اعتبار سے ایک سو اسی ڈگری کا فرق بھی تھا لیکن انتخابات کے بارے میں ان سب کی روش بالکل درست تھی۔ کوئی یہ دعوی نہ کرے کہ کسی الیکشن میں خیانت ہوئی یا دھاندلی کی گئی۔ ایک دفعہ تہران میں ایک الیکشن کے بارے میں بڑا شور شرابا ہوا اور زور ڈالا گیا کہ الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ میں نے کہا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔ تہران میں بیس تیس لاکھ لوگوں نے انتخابات میں شرکت کی ہم سارے ووٹ کیسے کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ یہ کیسا مطالبہ ہے؟ ہمیں تحقیق کرنی چاہئے اور پتہ لگانا چاہئے کہ ہوا کیا ہے۔ تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا۔ بہت تفصیلی تحقیق ہوئی تھی۔ میں نے اس وقت شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کو لکھا تھا کہ نہیں، الیکشن کو کینسل کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات عوام کا حق ہے، عوام کی ملکیت ہے، ہم انتخابات پر الزام نہیں لگا سکتے۔ انتخابات بالکل شفاف ہیں۔ تمام ادوار میں شفاف رہے ہیں۔ اس دفعہ بھی ان شاء اللہ پوری شفافیت کے ساتھ اور قوانین و ضوابط کے دائرے میں انجام پائیں گے، ایسے افراد موجود رہیں گے جو نظر رکھیں گے، نگرانی کریں گے اور انتخابات میں کسی طرح کی گڑبڑ نہیں ہونے دیں گے۔ یہ تو رہی ایک بات۔
ہم نے عرض کیا ہے کہ انتخابات حق الناس ہے (7)، حق الناس بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس وقت یہ تذکرہ بہت ہے کہ فلاں نے کہہ دیا کہ انتخابات حق الناس ہے۔ یہ لفظ بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لفظ کی گہرائی کو دیکھا جائے۔ حق الناس ہونے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص بیلٹ باکس کی نگرانی پر مامور کیا گيا ہے وہ اس حق الناس کا خیال رکھے کہ کوئی غلط ووٹ نہ پڑ جائے کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہ ہو۔ یہ تو حق الناس کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ حق الناس کی پاسداری کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جو امیدوار ہے اس کے حقوق کا بھی پاس و لحاظ رکھا جائے۔ جو امیدوار بنا ہے اگر وہ لیاقت و اہلیت رکھنے والا شخص ہے تو ہمیں اس کو مسترد نہیں کرنا چاہئے، اسے کام کرنے کے لئے پلیٹ فارم دینا چاہئے۔ اس کے برخلاف اگر اس کے اندر اہلیت و لیاقت نہیں ہے تو پھر اسے منتخب نہ کیا جائے۔ اگر پارلیمنٹ کے انتخابات میں، ماہرین اسمبلی کے انتخابات میں یا کسی اور ادارے کے انتخابات میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے اندر قانونی صلاحیتیں نہیں ہیں، لیکن ہم اس کی نااہلی کو نظر انداز کر رہے ہیں، توجہ نہیں دے رہے ہیں اور نتیجے میں وہ اس ادارے میں پہنچ جاتا ہے تو یہ بھی حق الناس کی توہین ہے، حق الناس کی پامالی ہے، یہ بھی حق الناس کے برخلاف عمل ہے۔
ایک اور پہلو حق الناس ہونے کا ہے، جو لوگ بیلٹ باکس جمع کرنے پر مامور ہیں، جو لوگ ووٹوں کی گنتی کرتے ہیں، جو لوگ اس کا اندراج کرتے ہیں اور رپورٹیں دیتے ہیں، مختصر یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ پورا عمل ہے، انھیں پوری طرح دیانت داری کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ یعنی ان امور میں ذرہ برابر بھی خلاف ورزی امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔
حق الناس ہونے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ انتخابات کے قانونی نتیجے کو قبول کیا جائے۔ یعنی جب ایک نتیجہ سامنے آ گيا اور قانونی مراکز نے تصدیق کر دی کہ یہی نتیجہ ہے تو پھر اس نتیجے کو قبول کرنا بھی حق الناس کے احترام کا تقاضا ہے۔ اس کے برخلاف جو سنہ 2009 میں ہوا تھا۔ 2009 میں بہت ہی نامناسب اور پست بات کہی گئی کہ دھاندلی ہوئی ہے، لہذا انتخابات کو کینسل کر دیا جانا چاہئے۔ کتنے لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا؟ چار کروڑ نے! ایک الیکشن میں چار کروڑ لوگوں نے شرکت کی اور مختلف امیدواروں کو اپنے ووٹ دئے۔ ان صاحبان نے آکر دھاندلی کا دعوی کر دیا۔ البتہ میں نے ان کے سلسلے میں بڑی نرمی برتی۔ جو چھوٹی چھوٹی باتیں ہوئیں ان کا قصہ طولانی ہے۔ ہم نے بہت رواداری برتی، بات کی؛ ان سے کہا کہ آپ آئیے اور اپنی بات بیان کیجئے، جاکر بیلٹ باکسوں کو چیک کر لیجئے۔ جتنے بیلٹ باکس آپ کہئے دوبارہ چیک کر لئے جائیں! انھوں نے توجہ ہی نہیں دی، سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ کیونکہ ان کا ارادہ ہی یہ نہیں تھا کہ منطقی بات مان لیں گے۔ انھوں نے حق بات قبول نہیں کی اور ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچا دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ سنہ 2009 میں جو خسارہ ہمیں پہنچا ہے اس کی بھرپائی کب ہوگی۔ واقعی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اب تک اس کی بھرپائی نہیں ہو سکی ہے۔ تو ایک پہلو یہ ہے کہ نتیجے کو سب قبول کریں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جو فہرستیں جاری کی جا رہی ہیں ان میں حق و انصاف کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ جو لوگ یہ فہرستیں جاری کر رہے ہیں وہ حق و صداقت کا خیال رکھیں۔ جان پہچان والوں کا خیال اور پارٹی والوں کی طرفداری! اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ انھیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اپنی فہرست میں جن امیدواروں کے نام شامل کر رہے ہیں وہ واقعی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں، جس کے اندر لیاقت ہے اسی کو شامل کریں اورعوام کے سامنے اپنی فہرست پیش کریں۔ یہ بھی حق الناس کو ملحوظ رکھنے کا ایک پہلو ہے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ عوام جن لوگوں کو ووٹ دینے جا رہے ہیں ان پر ان کا اعتماد ہونا چاہئے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو قابل اعتماد نہیں ہیں؛ کَالَّذِی استَهوَتهُ الشَّیٰطین (8) کبھی کبھی حمایت کی بنیاد انقلاب سے گہری وابستگی نہیں ہوتی، پاکیزگی نہیں ہوتی، ایسا نہیں ہوتا کہ انقلاب سے لگاؤ کو بنیاد قرار دیکر امیدواروں کی فہرست ترتیب دی گئی ہو بلکہ دوسرے مقاصد کے تحت جن میں بسا اوقات غلط مقاصد بھی شامل ہوتے ہیں، فہرست جاری کر دی جاتی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ توجہ دیں اور غور کریں کہ امیدواروں کی جو فہرست جاری ہوئی ہے وہ کہاں سے جاری کی گئی ہے۔ کس کی طرف سے جاری کی گئی ہے؟ انھیں لوگوں کا انتخاب کریں جو قابل اعتماد ہیں جو بھروسے کے لائق ہیں۔ یہ بھی ایک اہم چیز ہے۔ تو ہم نے حق الناس کی جو بات کی ہے اس کے یہ سارے پہلو ہیں۔ کچھ اور بھی پہلو ہیں لیکن میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ یہ حقیقت میں حق الناس ہی ہے۔
انتخابات کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان کی شرکت کا ہے۔ اگر زندگی رہی تو میں انتخابات سے قبل تک اس بارے میں مزید کچھ چیزیں بیان کروں گا۔ عوام کی جتنی بڑی تعداد انتخابات میں شرکت کرتی ہے ملک کا اعتبار اور نظام کا استحکام اتنا ہی بڑھتا ہے۔ کیونکہ یہ جمہوری نظام ہے۔ در حقیقت یہ نظام عوام کے احساسات، جذبات اور انھیں کے انتخاب پر استوار ہے۔ میں انتخابات میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کے بارے میں بہت پہلے سے یہی رائے رکھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر زور دیتا رہا ہوں، اس بار بھی عوام کی بھرپور شرکت پر میرا زور رہے گا اور ان شاء اللہ اس بارے میں آئندہ بھی میں مزید کچھ چیزیں بیان کروں گا۔
ایک مسئلہ دراندازی کا ہے۔ ہم نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے قضیئے میں اور اس کے نفاذ کے بعد کے دور میں دراندازی کے مسئلے کو چھیڑا۔ یہ بڑا عجیب اور بہت اہم مسئلہ ہے۔ جو لوگ گوناگوں مسائل میں اطلاعات تک رسائی رکھتے ہیں انھیں بخوبی علم ہے کہ وطن عزیز کے لئے کیا جال بچھایا گیا ہے یا بچھایا جا رہا ہے کہ ملت ایران کے فکر و ارادے اور فیصلوں کے حصار اور قلعے میں داخل ہوا جائے۔ مختلف طریقوں، پالیسیوں اور سازشوں کے ذریعے یہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ انتخابات کے سلسلے میں عوام بہت ہوشیار رہیں۔ آپ تصور کیجئے کہ اگر کوئی ایجنٹ کسی طرح پارلیمنٹ کے اندر پہنچ جائے یا ماہرین اسمبلی میں سیٹ حاصل کر لے یا پھر اسلامی نظام کے دیگر بنیادی اداروں میں پہنچ جائے تو دیمک کی طرح اندر ہی اندر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور کرتا رہے گا اور آخرکار وہ عمارت منہدم ہو جائے گی۔ یہ ہے ماجرا۔ دراندازوں کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ میں اس بارے میں کچھ باتیں ابھی عرض کروں گا۔ البتہ اس سلسلے میں لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے، مگر اس انداز سے کہ کسی کے خلاف الزام تراشی نہ ہو، کسی پر تہمت نہ لگائی جائے، اس کے مصادیق کا تعین نہ کیا جائے۔ لوگوں کے ذہنوں میں صورت حال کو واضح کیا جائے، یہ بہت ضروری ہے۔ آپ دیکھئے کہ قرآن کریم مخالفین کو مخاطب کرکے جو اس زمانے میں یہودی تھے، کہتا ہے اور ان پر اعتراض کرتا ہے کہ؛ لِمَ تَلبِسونَ الحَقَّ بِالباطِلِ وَ تَکتُمونَ الحَقَّ وَ اَنتُم تَعلَمون (9) ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ حق و باطل کو خلط ملط کر دیتے ہیں، مشتبہ بنا دیتے ہیں۔ «تَلبِسونَ» یعنی حق و باطل کو آپ مشتبہ بنا دیتے ہیں اور وَ تکتُمونَ الحَقَّ، حق کو چھپاتے ہیں۔ حقیقت کو بیان کیا جانا چاہئے، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
برادران عزیز یہ بہت حساس دور ہے۔ غیر معمولی حساسیت والے ایام ہیں۔ اسلامی انقلاب کے خلاف ایک وسیع محاذ اور ایک سسٹم ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔ بازار میں پیسے لائے جا رہے ہیں، ہتھیار لایا جا رہا ہے، سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ خود ان کے بقول تھنک ٹینک بنائے گئے ہیں جو مستقل طور پر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ویسے ان کی یہ سوچ درست بھی ہے۔ واقعی ان کو خطرہ محسوس کرنا چاہئے۔ کیونکہ اسلامی فکر اسلامی جمہوری نظام کے دائرے سے باہر تک پہنچ چکی ہو۔ خود بخود باہر پہنچی ہے۔ میں نے بارہا اس کی مثال دی ہے اور کہا ہے کہ ہوا کے دلنشیں جھونکے کی مانند ہے، نرم و لطیف باد نسیم کی مانند، بوئے گل کی طرح یہ فکر پھیلی ہے۔ بوئے گل کو باغ کے اندر تو محصور نہیں کیا جا سکتا۔ پھول کی خوشبو نکلتی ہے اور باغ کے ارد گرد بھی پھیل جاتی ہے۔ اسلامی فکر، خالص اسلامی فکر، وہ اسلامی فکر جو حکمرانی کی بات کرتی ہے، وہ اسلامی فکر نہیں جو صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہو اور جو بس ظاہری تقدس اور احترام سکھائے، اس کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کوئی نہ کرے۔ وہ اسلامی فکر جو معاشرے کی تعمیر میں اور نظام کی تشکیل میں موثر ہو۔ آج دنیائے اسلام کے اندر یہ فکر پھیل چکی ہے۔ کچھ جگہوں پر اس فکر نے بڑے مستحکم اور کہنہ مشق افراد کی تربیت کی ہے، پرورش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طاقتیں اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہی ہیں۔ انھیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس عظیم اور ہمہ گیر اسلامی تحریک کا سرچشمہ اور مرکز اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اسی سرزمین پر فکری و سیاسی بمباری کی جائے اور وہ کر بھی رہی ہیں۔ گوناگوں سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔ پیسے خرچ کرتی ہیں، سازشیں رچتی ہیں، مختلف سطح پر آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے اور وہ اسی فکر میں رہتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کیا کیا جائے؟ ان طاقتوں کے بس میں جو کچھ بھی ہے وہ کر رہی ہیں۔ ہمیں اس کی خبر ہے۔ یعنی یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں، اندازہ اور تجزیہ نہیں، بلکہ پختہ اطلاعات ہیں۔ داخلی سطح پر اشتعال انگیزی، شر پسندوں کو ورغلانا، پیسے خرچ کرنا، اخلاقی برائیوں کے جال پھیلانا، اسی طرح دوسرے بہت سے کام ان کی طرف سے انجام دئے جا رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کسی طرح اثر و نفوذ قائم کرنے کا موقع مل جائے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔
امریکیوں کی حریصانہ نگاہیں ہمارے اس الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ ایران میں بدلاؤ چاہتے ہیں۔ بدلاؤ تو ہم بھی چاہتے ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ سماج جمود کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ اسے آگے بڑھنا ہوتا ہے، ہمارے اندر تبدیلیاں ہوتی ہیں، بدلاؤ آتے ہیں۔ البتہ ہمارا بدلاؤ مکمل اسلامی ماہیت کی طرف مرکوز ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کا نام تو اسلامی ہو گیا ہے لیکن مکمل اسلامی ملک بننے کی منزل ابھی دور ہے۔ ہمیں مسلسل اسی سمت میں آگے بڑھنا ہے اور روز بروز ان اہداف سے خود کو قریب کرنا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلامی معاشرے کے لئے معین فرمائے ہیں۔ ہمیں محنت کرنی چاہئے۔ تو تبدیلی کے حامی ہم بھی ہیں، لیکن ان کے مد نظر تبدیلی ہماری تبدیلی کے بالکل الٹ ہے۔ وہ ایران میں ایسی تبدیلی چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ان دائمی اہداف سے دور ہو جائیں۔ جتنے قریب پہنچ گئے ہیں اتنے ہی دور ہو جائیں۔ پسپائی اختیار کریں اور اسی سمت میں جائیں جو انھیں پسند ہے۔ وہ ہمارے وطن عزیز کے اندر پیش آنے والے واقعات سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہاں اگر دو مشہور افراد میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے تو ان کی حریصانہ نگاہوں میں فورا چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ انتخابات بھی اسی زمرے میں ہیں۔ یعنی انتخابات پر بھی ان کی حریصانہ نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ ملت ایران کو چاہئے کہ انتخابات میں بھی اور دیگر سماجی امور میں بھی ایسے قدم اٹھائے جو دشمن کی مرضی کے بر عکس ہوں اور دشمن کو طمانچہ رسید کرے۔
آج بس اتنا ہی کافی ہے۔ ان شاء اللہ اگر زندگی رہی اور موقع و وقت ملا اور توانائی رہی تو انتخابات کے تعلق سے مزید کچھ باتیں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کروں گا۔ اب ظہر کا وقت قریب ہے، اذان و نماز کا وقت ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں نماز گزاروں میں شمار کرے۔

و السّلام علیکم‌ و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس اجلاس کے آغاز میں پالیسی ساز کونسل برائے ائمہ جمعہ کے سربراہ حجت الاسلام سید رضا تقوی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) سورۂ مائده، آیت نمبر ۲۸؛ «اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے میری جانب ہاتھ بڑھاؤگے تو میں تمہیں قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو عالمین کا پروردگار ہے »
۳) کافی، جلد ۱، صفحہ ۳۲
۴) صوبہ خراسان شمالی میں نوجوانوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب مورخہ 14 دسمبر 2012
۵) منجملہ سورۂ انعام، آیت نمبر ۳۷ کا ایک حصہ؛ «... ان میں سے اکثر نہیں جانتے»
۶) فرّخی سیستانی کا دیوان، باب قصاید؛
«فسانه گشت و کهن شد حدیث اسکندر/ سخن نو آر که نو را حلاوتیست دگر»
7) صدارتی الیکشن میں شرکت کے بعد نامہ نگار سے گفتگو مورخہ 14 جون 2013
8) سورۂ انعام، آیت نمبر ۷۱؛ «...اس شخص کی مانند جسے شیاطین نے بیابان میں گمراہ کر دیا ہے۔»
9) سورۂ آل‌عمران، آیت نمبر ۷۱ کا ایک حصہ؛ کیوں حق کو باطل میں خلط ملط کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو جبکہ تمھیں (حقیقت) معلوم ہے۔