رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ چھبیس فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات بھی قوم کی بیداری، اسلامی نظام، خود مختاری اور قومی وقار کے دفاع کا آئینہ ثابت ہوں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام الناس وسیع پیمانے پر اور مکمل آگاہی و بصیرت کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرکے دشمن کی مرضی کے عین مخالف سمت میں قدم رکھیں گے۔
18 فروری 1978 کو شہر تبریز کے عوام کے تاریخ ساز قیام کی مناسبت سے شہر تبریز اور صوبہ مشرقی آذبائیجان سے سالانہ ملاقات کے لئے تہران آنے والے مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی تاریخ کے اہم اور فیصلہ کن مواقع اور خاص طور پر اسلامی انقلاب کے دوران آذربائیجان کے عوام کی استقامت، جوش و جذبے، بیداری اور گہرے جذبہ ایمانی کی قدردانی کی۔ آپ نے انقلاب کے تاریخی ایام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اور 11 فروری کو منائی جانے والی اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ معتبر مراکز سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس سال پورے ملک میں 11 فروری کے جلوسوں میں عوام کی شرکت گزشتہ سال کی نسبت کافی زیادہ تھی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 11 فروری کو جشن انقلاب کے جلوسوں میں عوام کی پرشکوہ شرکت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وسیع تر پیمانے پر شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے انقلاب کا نقش مٹا دینے یا اسے کمرنگ کر دینے کی استکباری محاذ کی وسیع اور متواتر کوششوں کے باوجود قوم کے عزم راسخ میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 26 فروری کو ہونے جا رہے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن مخصوص منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں ہے، بنابریں اس ملک کے اصلی مالکین کی حیثیت سے ایران کے عوام کو چاہئے کہ بعض اہم حقائق کو ضرور مد نظر رکھیں تاکہ خبیثانہ عزائم پورے نہ ہو سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ مجتہد شبستری نے حساس مواقع پر جلوہ گر ہونے والی صوبہ آذربائیجان کے عوام کی دینی حمیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 1978 کا تبریز کے عوام کا قیام اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہت اہم موڑ اور ولی امر مسلمین سے عقیدت رکھنے والے آذربائیجان کے عوام کی بصیرت کی نشانی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آذربائیجان کے عوام پورے ملک کے عوام کے ساتھ آئندہ 26 فروری کو وسیع پیمانے پر اور مکمل آگاہی کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر جمع ہوں گے اور ایک بار پھر یادگار کارنامہ رقم کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّدٍ و آله الطّاهرین.

تمام برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خاص طور پر شہدا کے معزز اہل خانہ، علمائے کرام، محترم حکام، عوام الناس اور عزیز نوجوانوں کو جو یہ طولانی مسافت طے کرکے یہاں تک پہنچے اور ہمارا یہ حسینیہ ان کے وجود کی برکت سے ایمان اور جوش و خروش کی اس خوشبو سے معمور ہو گیا۔ میرا سلام تمام اہل تبریز اور صوبہ آذربائیجان کے تمام عوام کے لئے ہے۔
حقیقت میں 18 فروری کا دن ہر سال ہمارے لئے، اس حقیر کے لئے بڑا شیریں اور فرحت بخش دن واقع ہوتا ہے۔ اس دن ان چیزوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو ہم نے ہمیشہ (صوبہ) آذربائیجان اور (شہر) تبریز کے عوام کے بارے میں دیکھی، محسوس کی اور جانتے ہیں۔ یعنی جوش و خروش، جذبات و احساسات، ایمان و نشاط و بیداری۔ عوام کے کسی بھی بڑے مجموعے کی یہ بہت اہم خصوصیت ہے کہ اس کے اندر آگاہی ہو، وہ سب بیدار ہوں، ان کے اندر ثابت قدمی ہو، اپنی سرگرمیوں میں جدت عملی کا مظاہرہ کریں۔ راستے سے آگاہ ہوں، راستے کے خطرات اور اندیشوں سے خائف نہ ہوں بلکہ آگے بڑھیں۔ یہ ساری خصوصیات آذربائیجان اور تبریز کے آپ عزیز عوام کے اندر موجود ہیں۔ اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور بار بار اسے آزمایا بھی جا چکا ہے۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ جب انسان یہ جوش و خروش دیکھتا ہے، یہ احساسات و جذبات دیکھتا ہے، یہ بیان اور رائے زنی دیکھتا ہے جن سے گہرے ایمان اور عزم و ارادے کی عکاسی ہوتی ہے تو، دل سے خداوند عالم کا شکر ادا کرتا ہے۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ نصرت الہیہ کی علامتیں ہیں۔ اللہ تعالی قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے؛ هُوَ الَّذی اَیَّدَکَ بِنَصرِه‌ وَ بِالمُؤمِنین (1) اللہ تعالی نے اپنی نصرت کے ذریعے اور مومنین کے عزم و ارادے، قوت بازو اور مومنین کی ثابت قدمی کے ذریعے آپ کی مدد کی۔ یہ ہے مومنین کا کردار۔ آپ نوجوانوں کا کردار اور آپ عزیز اور جوش و جذبے سے بھرے ہوئے عوام کا ایسا عظیم کردار ہے کہ اسے اللہ تعالی نے قرآن میں بیان کیا ہے۔
18 فروری کا دن کبھی فراموش ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ آذربائيجان کے عوام اور تبریز کے عوام کی تاریخ میں ایسے متعدد ناقابل فراموش ایام ہیں، صرف 18 فروری تک محدود نہیں ہے۔ ہماری معاصر تاریخ میں، ماضی قریب کی ہماری تاریخ میں، آئینی انقلاب کی تحریک کے زمانے میں، اس تحریک سے قبل کے دور میں، تحریک کے بعد کے دور میں، ایسے متعدد ایام ہیں کہ اگر ان کی تشریح کی جائے، ان کی توصیف کی جائے تو یہ کسی بھی قوم کے افتخار کے لئے کافی ہیں۔ یہ یادگار ایام آپ کے ہیں۔ ان کا تعلق آذربائيجان سے ہے، تبریز سے ہے۔ یقینا ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ یہ عظیم عوامی تحریکیں فن و ہنر کی مختلف اقسام کی مدد سے، تبلیغ اور تشریح کے مختلف طریقوں کی مدد سے منعکس کی جانی چاہئیں، بیان کی جانی چاہئیں، دہرائي جانی چاہئیں۔ واقعی اس سلسلے میں ہم سے ذرا کوتاہی ہوئی ہے۔ مگر 18 فروری کا واقعہ ایسا زندہ واقعہ ہے کہ ہماری لاکھ کوتاہیوں کے باوجود اگر اس کی درخشندگی میں روز افزوں اضافے کی بات ہم نہ کہیں تو اتنا ضرور ہے کہ اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تبریز کے عوام نے 18 فروری کے دن ایسا کارنامہ رقم کیا جس نے ملت ایران کو بیدار کرنے میں اور پوری قوم کے میدان میں اتر آنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔
بحمد اللہ آذربائیجان کے عوام اس کے بعد بھی رکے نہیں۔ 1878 سے لیکیر آج تک تقریبا 38 سال 39 سال کا عرصہ گزر رہا ہے۔ اس مدت میں یہ عوام جہاد، پیکار، استقامت اور جدوجہد میں ہمیشہ صف اول میں شامل رہے ہیں۔ یہ بڑی قابل قدر بات ہے۔ اس قوم کو اسی چیز کی ضرورت ہے۔ ملک کا مستقبل اسی پر منحصر ہے۔
11 فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کے بارے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ 11 فروری کی تاریخ کو بھی روز بروز زیادہ درخشاں، زیادہ نمایاں اور زندگی سے بھرپور ہونا چاہئے۔ یہ ہمارے ملک کی اہم ضرورت ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ ملت ایران کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں جنہوں نے 11 فروری کے جلوسوں میں اس سال پھر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جلوس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے والے مراکز، وہ مراکز کہ جن کے تخمینے حقیقت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، میرے پاس یہ رپورٹ لائے کہ اس سال مجمع ملک کے تقریبا تمام شہروں میں گزشتہ سال کی نسبت کافی زیادہ تھا۔ آپ کے شہر تبریز میں گزشتہ سال کی نسبت کئی فیصد زیادہ مجمع تھا۔ دوسرے بھی بہت سے شہروں میں یہی صورت تھی۔ اس کا تخمینہ متعلقہ مراکز نے لگایا اور ہمیں رپورٹ دی۔ یہ بہت اہم بات ہے، اس کی بڑی قیمت ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام اپنے عزم راسخ میں، ذرہ برابر بھی خلل نہیں آنے دے رہے ہیں۔ وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب دنیا کی توسیع پسند طاقتیں، دنیا کی ظالم و مستکبر قوتیں پوری طرح ایران پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ بھرپور کوششیں کر رہی ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے انقلاب کا نقش مٹا دیں، اسے پوری طرح فراموش کروا دیں یا لوگوں کے ذہنوں میں اس کی تصویر دھندلی کر دیں۔ آج دنیا کی قوتوں کی طرف سے بڑی شدت کے ساتھ یہ کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں ملت ایران ان طاقتوں کی مرضی و کوشش کے بالکل برخلاف عمل کرتی ہے اور ہر سال سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ یہ جشن مناتی ہے۔
جشن انقلاب آپ تمام عوام کو مبارک ہو، بحمد اللہ اب تک یہ مبارک ہی ثابت ہوا ہے۔ 11 فروری کا جشن عوام کا ملک گیر جشن تھا۔ میں نے 11 فروری سے پہلے عرض کیا تھا کہ ہمارے سامنے دو عیدیں ہیں (2)؛ ایک تھی عید انقلاب جو گزر گئی اور دوسری ہے انتخابات کی عید۔ الیکشن بھی ملک کے لئے ایک بڑی عید ہے۔ ہم نے انتخابات کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے، آئندہ ہفتے منعقد ہونے جا رہے انتخابات کے بارے میں ہی نہیں بلکہ ہمیشہ تمام انتخابات کے بارے میں۔ اس مدت میں جو ضروری معلوم ہوا میں نے عرض کیا اور آئندہ بھی عرض کرتا رہوں گا، کہتا رہوں گا۔ میں حقیقت بیان کرنے سے کبھی نہیں تھکوں گا، کبھی مضمحل نہیں ہوں گا۔ جو ضروری ہوا ان شاء اللہ وہ عوام کے سامنے بیان کرتا رہوں گا۔
اسلامی انقلاب نے ملت ایران کی تحقیر کا زمانہ ختم کر دیا۔ اس سے پہلے تک اغیار کے ہاتھوں، بڑی طاقتوں کے ہاتھوں ملت ایران کی تحقیر کی جاتی تھی۔ علمی میدان میں تحقیر، سیاسی میدان میں تحقیر، سماجی میدان میں تحقیر۔ اواخر کے برسوں میں توسیع پسند طاقتیں اور خاص طور پر امریکا کی جو مرضی ہوتی تھی وہ پہلوی حکومت کے عمائدین کو ڈکٹیٹ کر دیتے تھے اور یہ حکام من و عن اس کی تعمیل کرتے تھے۔ امریکا سے پہلے یہی کام برطانیہ کرتا تھا۔ اسلامی انقلاب نے آکر اس ناقابل برداشت تحقیر کا خاتمہ کر دیا۔ ملک کو اور قوم کو خود مختاری سے نوازا اور اس کی انسانیت کی بات اٹھائی۔ جب کسی قوم کو اپنے تشخص کا صحیح ادراک ہو جاتا ہے تو اس کی صلاحیتیں پنپنے لگتی ہیں، استعداد پروان چڑھنے لگتی ہے اور ملک پیشرفت کی منزلیں طے کرتا ہے۔ آج ہمارا ملک دنیا کے باوقار ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ آج ملت ایران اپنے دشمنوں کی نگاہ میں بھی، دوستوں کی بات ہی الگ ہے، دنیا کی حد درجہ آبرومند قوم ہے اور یہ چیز ہمارے دشمنوں کے گلے سے نہیں اتر رہی ہے۔ یہ صورت حال امریکا کے لئے کہ ایران کبھی جس کی خلوت گاہ ہوا کرتا تھا اور صیہونی حکومت کے لئے کہ ایران جس کی آرام گاہ تصور کیا جاتا تھا جہاں آکر وہ استراحت کیا کرتے تھے، قابل برداشت نہیں ہے۔ ملت ایران کے دشمنوں کے لئے یہ برداشت کر پانا بہت مشکل ہے کہ ایک قوم آشکارا طور پر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور استکبار کے خلاف بے جھجک اپنا نظریہ بیان کرتی ہے اور دوسری قوموں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طاقتیں ہر ممکن اقدام انجام دے رہی ہیں۔ دشمن کی یہ کوششیں کب تک جاری رہیں گی؟ اس وقت تک جاری رہیں گی جب آپ ملت ایران کو اتنی قوت حاصل ہو جائے کہ جسے دیکھ کر یہ طاقتیں مایوس ہو جائیں۔ دشمن پوری طاقت لگائے ہوئے ہے کہ آپ اس منزل پر نہ پہنچنے پائیں۔ آپ نے دیکھا کہ ایٹمی مسئلے میں کتنا بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا، انسانی حقوق کے بارے میں جو باتیں کی جاتی ہیں، جو دھمکیاں دی جاتی ہیں، جو پابندیاں عائد کی گئيں اور نئی پابندیاں لگانے کی جو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ اپنے راستے پر پوری رفتار سے آگے بڑھنے والی ملت ایران کی اس رفتار کو ختم کر دیں، اس کے سفر کو روک دیں۔ البتہ ملت ایران کے اندر جو جوش و جذبہ ہے وہ ان چیزوں سے کم ہونے والا نہیں ہے۔
انتخابات در پیش ہیں۔ میں جو چیزیں دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ عزیز عوام کے سامنے بیان کی جانی چاہئیں، بیان کرتا ہوں۔ کچھ باتیں محترم حکام سے کہنی ہیں وہ ان سے کہتا رہوں گا، کچھ باتیں ملک کی رائے عامہ کے سامنے لانے والی ہیں تو میرا فریضہ ہے کہ انھیں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کروں۔ دشمن اس کوشش میں ہے کہ ہمارے عوام کو اپنے مذموم عزائم اور سازشوں سے غافل رکھے، وہ منصوبہ بندی کرتا ہے، مختلف جگہوں اور چیزوں کے لئے یہ سازش مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور بعد میں ان مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر نقشہ مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ دشمن کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ دشمن کی اس سازش کو کون روکے گا؟ عوام۔ یہ ملک آپ کا ہے۔ یہ ملک عوام کا ہے۔ اس ملک کے مالک عوام ہیں، ہماری عزیز ملت ایران ہے۔ عوام کو چاہئے کہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیں۔ البتہ مجھ حقیر جیسے افراد کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ ہمارا فریضہ ہے کہ عوام کو باخبر کرتے رہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ دشمن ہمارے انتخابات کے سلسلے میں اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات اسی انداز سے ہوں جو ان کی مرضی ہے۔ البتہ ان کے دل میں تو یہ ارمان پنہاں ہے کہ انتخابات ہونے ہی نہ پائیں۔ چند سال قبل ایک موقع پر ان دشمنوں نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ انتخابات رک جائیں، مگر اللہ تعالی نے یہ کوشش ناکام کر دی اور وہ مایوس ہو گئے۔ انھیں معلوم ہے کہ اس ملک میں انتخابات رکوانے کی ان کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی، لہذا اب وہ انتخابات میں دخل اندازی کرکے اسے درہم برہم کر دینے کی کوشش میں ہے۔ بنابریں عوام ہوشیار رہیں اور دشمن کی مرضی کے بالکل برخلاف سمت میں قدم اٹھائیں۔
آج دشمن بڑی تندہی سے جو اقدامات کر رہے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کی شبیہ کو خراب کیا جائے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! آپ توجہ دیجئے کہ نگراں کونسل کی شبیہ مسخ کرنے کے کچھ خاص مقاصد ہیں۔ اوائل انقلاب سے ہی اس ملک اور اسلامی جمہوری نظام کے اندر بعض بنیادی فیصلوں کی امریکی بڑی مخالفت رہتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نگراں کونسل ہے۔ امریکیوں نے بڑی کوشش کی اور ملک کے اندر موجود بعض غافل اور غیر سنجیدہ لوگوں کو استعمال کیا تاکہ نگراں کونسل کو ختم کروا سکیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اب یہی لوگ نگراں کونسل کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ہمارے عزیز نوجوان توجہ دیں! اگر نگراں کونسل کے فیصلوں پر سوال کھڑے ہو گئے اور یہ دعوی کر دیا گيا کہ یہ فیصلے غیر قانونی ہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا مفہوم یہ نکلے گا کہ جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں، وہ غیر قانونی ہیں۔ اب اگر انتخابات ہی غیر قانونی قرار دے دئے جائیں گے، قانون سے پرے مان لئے جائیں گے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان انتخابی نتائج کی بنیاد پر جو پارلیمنٹ تشکیل پا رہی ہے وہ بھی غیر قانونی ہے۔ پارلیمنٹ کے غیر قانونی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چار سالہ مدت کے دوران جو بھی قانون اس پارلیمنٹ میں پاس ہوگا وہ غیر معتبر ہوگا، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ یعنی چار سال تک ملک میں قانونی اور پارلیمانی خلا رہے گا۔ نگراں کونسل کی تصویر خراب کرنے کا مقصد یہ ہے اور دشمن کی مرضی یہ ہے۔ البتہ ملک کے اندر جو لوگ اغیار کے لہجے میں بات کرتے ہیں، ان میں بیشتر کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ میں کسی پر خیانت کا الزام نہیں لگاتا، انھیں اندازہ ہی نہیں ہے، اس طرف ان کی توجہ نہیں ہے، لیکن امر واقعہ یہی ہے۔ اگر ہم نگراں کونسل کی شبیہ مسخ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ نگراں کونسل کے فیصلے قانون کے خلاف ہیں تو یہ صرف نگراں کونسل کی شبیہ خراب کرنا نہیں ہے، یہ انتخابات پر سوالیہ نشان لگانا ہے، یہ پارلیمنٹ پر سوال اٹھانا ہے، یہ پارلیمنٹ کے چار سالہ دور پر سوال اٹھانا ہے۔ دشمن اس مقصد کے تحت کام کر رہا ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ کتنی چالاکی کے ساتھ منصوبہ بناتے ہیں۔ میں رائے عامہ کے سامنے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ رائے عامہ کو اس کا علم ہونا چاہئے۔ نگراں کونسل کے خلاف جو لوگ بیان بازی کر رہے ہیں انھیں خود بھی علم نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، لیکن ان کے اس اقدام کی حقیقت یہی ہے۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو دینی جمہوریت سے، یعنی اس بے مثال، اس بے نظیر اور مسلم اقوام کے لئے انتہائی پرکشش سسٹم سے محروم کر دیں۔ دشمنوں کی کوشش یہ ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو انتخابات کو ہی رکوا دیتے لیکن یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو نگراں کونسل کو ختم کروا دیتے کہ نگرانی کا یہ سسٹم بے اثر ہو جائے، مگر وہ ایسا نہیں کر سکے۔ جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو اب یہ نئے نئے طریقے آزما رہے ہیں۔ نئے راستوں سے وارد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔
پارلیمنٹ بہت اہم ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ 'مجلس شورائے اسلامی' کی بہت اہم پوزیشن ہے۔ کس وجہ سے؟ اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ پٹری بچھانے کا کام کرتی ہے۔ آپ حکومتوں کو ایک ٹرین کے طور پر دیکھئے جسے اسی بچھائی ہوئی پٹری پر چلنا ہے۔ یہ پٹری پارلیمنٹ اپنی قانون سازی کے ذریعے بچھاتی ہے۔ البتہ قانون سازی کے مسئلے میں مقننہ اور حکومت کے درمیان تعاون ہوتا ہے۔ حکومت کوئی بل پیش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ اس بل میں کمی بیشی کرتی ہے، اس کی اصلاح کرتی ہے اور پھر اسے منظوری دیتی ہے۔ اس طرح یہ پٹری بچھا دی جاتی ہے جس کے بعد حکومت کو اسی کے مطابق اپنا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر پارلیمنٹ کو عوام کی بہبودی، سماجی انصاف، اقتصادی آسودگی، سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی کی پیشرفت، قومی وقار اور ملت کی خود مختاری کی فکر ہو تو پٹری بچھانے کا عمل ان اہداف و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دیا جائے گا۔ لیکن اگر پارلیمنٹ مغرب سے مرعوب ہو، امریکا سے دبنے والی ہو، اشرافیہ کلچر کی حامی ہو، تو پٹری بچھانے کا یہی عمل ان اہداف پر مرکوز ہوگا اور وہ ملک کو تباہ کرکے رکھ دیگی۔ یہ ہے پارلیمنٹ کی اہمیت۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ پارلیمنٹ کی اہمیت جیسا کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا، اس وجہ سے ہے کہ وہ تمام امور کا مرکز و محور ہے (3)، یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اجرائی امور کے اس سلسلہ مراتب میں ایک مقام پر پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرتی ہے اور رکن پارلیمنٹ اپنا رول نبھاتا ہے۔ نہیں، اجرائی امور کے سلسلہ مراتب میں پارلیمنٹ کا کوئی رول نہیں ہے، اجرائی امور تو مجریہ کا یہ عظیم سسٹم انجام دیتا ہے، مگر پارلیمنٹ راستے کے تعین کا کام کرتی ہے، راستہ معین کرتی ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے اور وہ اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ قانون کے مطابق اس راستے پر چلیں، اس پٹری پر چلیں۔ یہ پٹری بچھانا کس کا کام ہے؟ یہ پٹری کون بچھائے گا؟ کس سمت میں یہ پٹری بچھائے گا؟ ان ساری باتوں سے پارلیمنٹ اور ممبران پارلیمنٹ کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔ البتہ دشمن ہر طرح سے اپنا کام کرتا رہے گا۔ یہ پارلیمنٹ کے تعلق سے کچھ باتیں تھیں۔
ماہرین اسمبلی کو دیکھا جائے تو اصولی اور بنیادی اعتبار سے یہ پارلیمنٹ سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ملک کے روز مرہ کے امور سے ماہرین اسمبلی کا کوئی ربط نہیں ہوتا، لیکن 'سپریم لیڈر' کے انتخاب کا کام اس کے ذمے ہے۔ اسمبلی کے ارکان کسے 'سپریم لیڈر' منتخب کریں گے۔ ملک کا اصلی پالیسی ساز اور بنیادی فیصلے کرنے والا شخص کون ہوگا؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ ماہرین اسمبلی کے لئے کیسے ممبران کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ماہرین اسمبلی وہ ادارہ ہے جو ضرورت پڑنے پر 'سپریم لیڈر' کا انتخاب کرتی ہے۔ اگر اس کے ممبران انقلاب سے محبت کرنے والے، قوم کے شیدائی، دشمن کی سازشوں سے باخبر، استقامت و پائيداری سے آراستہ ہوں گے تو دشمن کے سامنے ایک الگ انداز سے عمل کریں گے اور اگر خدانخواستہ یہ خصوصیات ان کے اندر نہ ہوئیں تو کسی اور انداز سے کام کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ماہرین اسمبلی کے سلسلے میں بہت سرگرم ہو گئے ہیں۔
برطانوی ریڈیو تہران کے شہریوں کو احکامات جاری کر رہا ہے کہ فلاں کو ووٹ دیجئے، فلاں کو ووٹ نہ دیجئے! اس کا کیا مطلب ہے؟ انگریزوں کو ایران کے امور میں مداخلت کی یاد پھر ستانے لگی ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب ملک کا بادشاہ کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہتا تھا تو برطانوی سفیر کو بلاکر اس سے پوچھتا تھا کہ یہ کام کروں یا نہ کروں؟! ایک زمانے میں برطانیہ اس طرح سے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کرتا تھا۔ اس کے بعد امریکیوں کا زمانہ آیا۔ ایک دور وہ تھا کہ دونوں مداخلت کرتے تھے۔ آج وہ سارے راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ مداخلت کرنے والے ہاتھ کاٹ دئے گئے ہیں، انقلاب کی برکت سے، عوام کی بیداری کی برکت سے۔ تو مداخلت کے لئے اب وہ تڑپ رہے ہیں اور ریڈیو نشریات کے ذریعے عوام کو احکامات صادر کر رہے ہیں کہ فلاں کو ووٹ دیجئے، فلاں کو ووٹ نہ دیجئے۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام انتخابات میں پوری بصیرت و آگاہی کے ساتھ اور علم و ادراک کے ساتھ فیصلہ کریں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کیا چاہتا ہے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ دشمن کیا چاہتا ہے تو آپ اس کے برخلاف عمل کریں گے، یہ تو بالکل واضح ہے۔ اس الیکشن کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ انتخابات بھی چند روز قبل 11 فروری کے جلوسوں کی طرح ملت ایران کی بیداری کا آئینہ ہیں، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے لئے عوامی حمایت و پشت پناہی کا مظہر ہیں، ملکی خود مختاری اور قومی وقار کی حمایت و حفاظت کی نشانی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام سے گزارش کر رہا ہوں کہ سب حصہ لیں، سب شرکت کریں اور اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ہمارے دشمن بڑے بے حس دشمن ہیں۔ ان میں سر فہرست انسانیت سے نابلد خطرناک صیہونی نیٹ ورک ہے جو مغربی حکومتوں، طاقتوں اور خاص طور سے امریکیوں پر پنجہ گاڑے ہوئے ہے۔ صہونی نیٹ ورک، میں صیہونی حکومت کی بات نہیں کر رہا ہوں، صیہونی حکومت تو امریکی استکبار کا ایک گوشہ ہے، صیہونی نیٹ ورک جس میں تجار شامل ہیں، دنیا کے صف اول کے سرمایہ دار شامل ہیں، جن کے ہاتھ میں عالمی میڈیا ہے، بین الاقوامی بینک ہیں، جو بد قسمتی سے ملکوں پر مسلط ہیں، خود امریکی حکومت پر مسلط ہیں، امریکی سیاست پر مسلط ہیں، بہت سے یورپی ملکوں کی سیاست پر مسلط ہیں، ان کے مد مقابل بہت ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکی بھی انھیں کی مرضی سے کام کرتے ہیں، ان کی خواہش کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔
اسی ایٹمی قضیئے میں، ایٹمی مذاکرات کے مسئلے میں، کہ جس کے تعلق سے بہت سی باتیں کہی گئیں، بہت سے مطالب بیان کئے گئے، ایک طویل سلسلہ رہا، ابھی دو دن پہلے کی بات ہے، ایک امریکی عہدیدار نے پھر کہا ہے کہ ہم وہ انتظام کریں گے کہ دنیا کے بڑے سرمایہ کار ایران میں سرمایہ کاری کی جرئت نہ کر پائیں۔ آپ دشمنی کا یہ انداز دیکھ رہے ہیں؟! یہ ہے امریکا۔ جو لوگ مذاکرات کے حامی اور اس کے لئے کوشاں تھے اور واقعی انھوں نے بڑی محنت کی، زحمتیں اٹھائیں، جن لوگوں نے یہ مذاکرات انجام دئے حقیقت میں انھوں نے بڑی جفاکشی کی، عرق ریزی کی، واقعی بہت وقت دیا، ان افراد کا مقصد تھا غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی گشائش۔ مگر آج امریکی اسی کا سد باب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اب تک کئی بار وہ کہہ چکے ہیں۔ کل پرسوں بھی اور دو تین دن پہلے بھی ان میں سے کسی اور عہدیدار نے کہا کہ ہم وہ کام کریں گے کہ سرمایہ کار ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہیں جٹا پائیں گے۔ میں جو بار بار کہتا ہوں کہ امریکیوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، اس کا مطلب یہی ہے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ یہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
امریکی سیاستداں اعتراض کرتے ہیں کہ ایران میں جلوسوں کے دوران اور اجتماعات میں لوگ 'امریکا مردہ باد' کے نعرے لگاتے ہیں! ظاہر ہے جب آپ کے کرتوت ایسے ہوں گے تو آپ ایران کے عوام سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ آپ کا ماضی یہ رہا ہے، آپ کا ریکارڈ ایسا رہا ہے اور آج آپ کا رویہ یہ ہے! آپ تو بغیر کسی پردہ پوشی کے دشمنی کا برتاؤ کر رہے ہیں۔ بیشک، خصوصی ملاقاتوں میں وہ مسکراکر ملتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں۔ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، بڑی شیریں کلامی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن یہ خصوصی ملاقاتوں کے سفارتی آداب کا تقاضا ہے، اس کی کوئی اہمیت اور ارزش نہیں ہے اور زمینی حقیقت پر اس کا کوئی اثر بھی نہیں ہوتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ کرتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں، دو سال تک گفت و شنید کا سلسلہ رہتا ہے اور جب سارے معاملات طے پا جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ 'نہیں ہم آپ کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم نئے سرے سے پابندیاں لگائیں گے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار خوفزدہ رہیں، ہراساں رہیں اور آپ کے قریب نہ جائیں۔ یہ بات وہ اعلانیہ کہہ رہے ہیں! یہ ہے امریکا۔ ایسے دشمن کے معاملے میں انسان چشم پوشی نہیں کر سکتا، اس کی بات کو صحیح نہیں مان سکتا۔ یہ ان کی عہد شکنی اور ان کے ناقابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے۔
عزیز ملت ایران! آپ کا سابقہ اس طرح کے عنصر سے ہے۔ بیدار رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم بلا وجہ درد سر مول نہیں لینا چاہتے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ آپ تو ہمیشہ امریکا کو مشتعل کرتے رہتے ہیں، غصہ دلاتے رہتے ہیں۔ بالکل نہیں، امریکا کو مشتعل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ امریکا ایک زمانے میں اس ملک کا مالک تھا۔ اسلامی انقلاب آیا تو یہ ملک اس کے چنگل سے نکل گیا۔ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک دوبارہ اس ملک پر تسلط نہ حاصل کر لے۔ یہ ہے امریکا۔
اس مشکل کا علاج ہے عوام الناس کی بیداری، عوام کے جذبہ ایمانی کی حفاظت، پرعزم اور صاحب ایمان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا استعمال اور ملک کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا، یہ واحد راہ حل ہے۔ ملت ایران کو اندرونی طور پر مستحکم بنانا ہوگا، اس کی معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا، علم و سائنس کے شعبے کو مستحکم بنانا ہوگا، انتظامی اداروں کو مستحکم بنانا ہوگا اور سب سے بڑھ کر اس کے جذبہ ایمانی کو روز بروز زیادہ محکم کرنا ہوگا۔ یہ راہ حل ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جس پر اب تک ملت ایران گامزن رہی ہے۔ کچھ دشمن چاہتے تھے کہ اس انقلاب کو اس زمانے میں جب یہ ایک نازک پودے کی مانند تھا، زمین سے اکھاڑ پھینکیں، اسے نابود کر دیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ آج وہی نازک پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّمآءِ * تُؤتی اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّها (4) آج اس منزل پر ہے اسلامی انقلاب۔ آج دشمن کی یہ حماقت ہے کہ وہ اس انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ عوام اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، اپنی یکجہتی کو قائم رکھیں، اپنی ہمدلی کو قائم رکھیں اور انقلاب کا، انقلاب کے اصولوں کا اور انقلاب کے اہداف و مقاصد کا دفاع کریں۔ ملک کے محترم حکام جو وطن عزیز کے مستقبل سے لگاؤ رکھتے ہیں، اللہ کے لئے، رضائے پروردگار کے لئے اور عوام کے لئے کام کریں اور ملک کے اندر موجود توانائیوں پر تکیہ کریں۔
البتہ ہم نے کہا ہے کہ مزاحمتی معیشت اندر سے جوش مارنے والی اور بیرونی دنیا کی طرف پھیلنے والی معیشت ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ملک کے ارد گرد حصار قائم کر دیا جائے۔ لیکن اندرونی طور پر پنپنے والی بات کو ہرگز فراموش نہ کیجئے۔ اگر قومی معیشت اندرونی طور پر پنپنے اور اگنے والی نہیں ہوگی تو پھر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکے گی۔ بیشک اقتصادی میدان میں دنیا سے تعاون اچھی بات ہے۔ لیکن یہ تعاون دانشمندانہ طریقے سے ہونا چاہئے، ایسا تعاون ہو کہ جس کے نتیجے میں معیشت اندرونی طور پر نشونما پائے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں، حکام اٹھ کھڑے ہوں اور پوری آگاہی اور ہوشمندی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ عزیز نوجوانو! فضل پروردگار سے اور توفیق خداوندی سے آپ وہ دن ضرور دیکھیں گے کہ امریکا ہی نہیں اس کے بڑے بھی اور اس کے تمام اتحادی، اسلامی جمہوریہ کے خلاف کچھ بھی کر پانے سے عاجز ہوں گے۔
پروردگارا! اس قوم پر اپنا لطف و کرم نازل فرما! اس ملک کے اندر اس جوش و خروش، اس جذبہ ایمانی اور اس رونق روحانی میں روز افزوں اضافہ فرما۔ آپ برادران و خواہران گرامی کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تمام اہل اذربائیجان کو اور اہل تبریز کو ہمارا سلام کہئے!

 
1) سوره‌ انفال، آیت نمبر 61 کا ایک حصہ
2) اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں اور جوانوں سے مورخہ 8 فروری 2016 کی رہبر انقلاب اسلامی کی ملاقات
3) صحیفه‌ امام، جلد ۱۷، صفحہ ۱۱۵
4) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر 24 اور 25؛ اس پاکیزہ درخت کی مانند جس کی جڑ محکم اور شاخ آسمان میں ہے اور جو اذن پروردگار سے پے در پے پھل دیتا ہے۔