رہبر انقلاب اسلامی نے استقامتی معیشت، ثقافت اور داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کے میدان میں پارلیمنٹ کی ترجیحات کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ ملک کے اندر طمانیت کی فضا قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انقلابی بھی رہے، قانون سازی کے عمل میں انقلابی انداز میں کام کرے، امریکا کے معاندانہ اور مفاد پرستانہ موقف پر فورا رد عمل ظاہر کرے اور استکبار کی پالیسیوں کی مزاحمت کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مغربی ایشیا کے خطے کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کی موجودگی، تیل کے عظیم ذخائر، آبی گزرگاہوں نیز صیہونی حکومت کے وجود نے اس علاقے کو دشمن کے لئے بہت اہم بنا دیا ہے اور اس علاقے کے لئے دشمن کا منصوبہ وہی ہے جس کا ذکر چند سال قبل جدید مشرق وسطی کی تشکیل اور گریٹر مڈل ایسٹ کی تشکیل کے طور پر کیا گيا تھا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقے منجملہ عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت کی وجہ سے امریکا کے منصوبوں کے ناکام ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان توسیع پسندانہ پالیسیوں کے سامنے ڈٹے رہنا چاہئے اور استکبار کی حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ماہ رمضان کی آمد کا ذکر کیا اور ماہ ضیافت پروردگار کو دعا، خود سازی اور عمل صالح کے لئے سنہری موقع قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاریجانی نے امام خمینی کو خراج عقیدت پیش کیا جن کی برسی حال ہی میں منائی گئی ہے اور دسویں پارلیمنٹ کی ترجیحات بیان کیں۔
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
والحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آپ برادران و خواہران عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں، جو ملک کی پیشرفت کے عمل میں ان شاء اللہ فیصلہ کن کردار نبھانے والے ہیں اور ملک و انقلاب کے اہم ترین ستونوں میں سے ایک ستون کے اجزائے ترکیبی شمار ہوتے ہیں۔ آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس لئے کہ آپ نے یہ کامیابی حاصل کی، بحمد اللہ آپ کو اللہ تعالی سے یہ توفیق ملی کہ اس مقام پر فائز ہوں۔
ابتدا میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ماہ شعبان کے آخری ایام ہیں، ماہ رمضان قریب ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے دلوں کو رضائے پروردگار اور اللہ کی جانب سے عائد ہونے والے فرائض کی جانب متوجہ کریں۔ میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس موقع کی قدر کیجئے اور یقین رکھئے کہ یہ بڑا زود گزر ہے۔ پلک جھپکتے ہی چار سال بیت جاتے ہیں۔ جیسے ہماری عمر تیزی سے گزرتی ہے۔ ہماری عمر کا بھی یہی عالم ہے۔ انسان پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ وقت بجلی کی طرح تیزی سے گزر گیا۔ خوشیاں، تلخیاں، سختیاں، شیریں لمحات اور لذت و رنج سب ختم ہو گیا۔ 70 سال، 80 سال کے ہو چکے اس حقیر کے اس طولانی طومار کو دیکھئے اور اگر کوئی ایسی چیز اس میں نظر آتی ہے کہ انسان اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش کر سکتا ہو، اس سے امید وابستہ کر سکتا ہو تو چہ بہتر، لیکن اگر اس طولانی طومار میں اگر کوئی ایسا عمل نہیں ہے جسے وہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے اس کا دفاع کر سکے، کیونکہ حساب کتاب تو ہونا ہی ہے، تو پھے سمھجئے کہ ایسی صورت میں پوری زندگی خسارے میں چلی گئی۔ اِنَّ الاِنسانَ لَفی خُسرٍ اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحٰت (۲) ایمان اور عمل صالح؛ اگر ہماری عمر کے ان بیتے ہوئے ایام میں یہ ایمان اور عمل صالح ہوا تب تو ٹھیک ہے، پھر خسارہ نہیں ہے، بلکہ اسی مقدار میں نفع حاصل ہوا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ یہ نہ ہو، یا انسان غور کرے تو اسے محسوس ہو کہ اس کے عمل میں کھوٹ ہے، نقص و عیب ہے تو پھر اس کو بڑی دشواری ہوگی، بہت زیادہ مشکل پیش آئے گی۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں؛ اَللّهُمَّ ارحَمنی اِذَا انقَطَعَت حُجَّتی وَ کَلَّ عَن جَوابِکَ لِسانی وَ طاشَ عِندَ سُؤالِکَ اِیّایَ لُبّی؛ (3) (اے پالنے والے مجھ پر رحم فرما اس وقت جب میری دلیلیں ختم ہو جائیں، میری زبان گنگ ہو جائے اور تیرے سوال کے جواب میں میرا ذہن حیران و مضطرب ہو جائے،) جب تو مجھے سے سوال کرے گا اور میرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا، میرے دلائل ختم ہو جائیں گے۔ انسان کے پاس اپنے کچھ دلائل ہوتے ہیں کہ میں نے یہ کام اس وجہ سے کیا، فلاں سبب کے تحت انجام دیا۔ جب انسان یہ سارے دلائل بیان کر چکے تو پھر اس کا ہاتھ خالی ہو جاتا ہے۔ وَ طاشَ عِندَ سُؤالِکَ اِیّایَ لُبّی، میرا ذہن و دماغ، میرا دل اور میری روح پے در پے ہونے والے سوالوں سے حیران و سرگرداں ہو جائے گی۔ ایسا ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ میں نے خود بھی کیا ہے۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اب جب بات ذہن میں آ گئی ہے اور زبان پر بھی آ گئی ہے تو عرض کرتا چلوں۔ 1981میں جب مسجد ابو ذر میں میرے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا (27 جون 1981 کو تہران کی مسجد ابو ذر میں دہشت گرد تنظیم فرقان کے بم دھماکے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای شدید زخمی ہو گئے تھے۔) تو میں بے ہوش ہو گیا۔ لوگوں نے مجھے اٹھا لیا تھا اور مسجد سے گاڑی کی طرف لے جا رہے تھے، مجھے اس دوران دو تین بار ہوش آیا، لیکن پھر غشی طاری ہو گئی۔ اس کے بعد طولانی بے ہوشی چھا گئی۔ بیچ میں جب دو تین بار ہوش آیا تھا تو ایک بار مجھے ایسا محسوس ہوا کہ زندگی کا آخری وقت آ گیا ہے۔ یعنی مجھے پورا یقین ہو گیا کہ موت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ ناگہاں ماضی کی پوری زندگی میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہو گئی۔ میں نے غور کیا کہ میرے پاس پیش کرنے کے لئے کیا ہے؟ میں نے بہت سوچا مگر ہر عمل میں کوئی نہ کوئی خامی نظر آئی۔ ہم نے تحریک میں حصہ لیا، جیل گئے، ہمیں زد و کوب کیا گیا، درس پڑھایا، محنت کی، یہی چیزیں تو انسان کے ذہن میں آتی ہیں۔ اس لمحہ میں نے محسوس کیا کہ ان چیزوں پر یہ گرفت ہو سکتی ہے کہ آپ کے اس عمل میں غیر الہی نیت بھی شامل تھی۔ ظاہر ہے پھر کیا بچے گا، سب کچھ ختم! اچانک ایسا محسوس ہوا کہ زمین و آسمان کے درمیان معلق ہوں اس آدمی کی مانند جس کے ہاتھوں کی رسائی کسی مضبوط سہارے تک نہیں ہے۔ میں نے اسی عالم میں دعا کی؛ اے پروردگار! میری یہ حالت ہے، تو دیکھ ہی رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میرے ہاتھ بالکل خالی ہیں۔ میں جائزہ لیتا ہوں تو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بس یہی راستہ ہے کہ کسی طرح تو ہی رحم کر دے۔ انسان کو اس طرح کے حالات پیش آ جاتے ہیں۔ لہذا ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ جو موقع ملا ہے اس سے بھرپور استفادہ کریں۔
آپ کو بڑا اچھا موقع ملا ہے۔ مجلس شوائے اسلامی میں، یعنی اس جگہ جہاں ملک کی قانون سازی کا عمل انجام پاتا ہے، چار سال کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ قانونی سازی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ عمل جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی بار عرض کر چکے ہیں پٹری بچھانے کی مانند ہے۔ آپ حکومت کے آگے بڑھنے کے لئے پہلے پٹری بچھاتے ہیں۔ اس کے بعد ان اختیارات کی بنیاد پر جو آئین نے آپ کو تفویض کئے ہیں، منجملہ تحقیق اور جانچ پڑتال کا اختیار ہے جسے آئین میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے، آپ اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ مجریہ کا سفر بخوبی انجام پا رہا ہے۔ صرف سفارش کی بات نہیں ہے، آئین کے مطابق آپ کو اختیار ہے کہ آپ نظر رکھیں، تحقیق کریں، جانچ پڑتال کریں اور یہ حکومت کے ساتھ تعاون سے تضاد بھی نہیں رکھتا۔ میرا نظریہ یہ ہے اور ہمیشہ تمام حکومتوں کے زمانے میں میرا یہی موقف رہا ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ تعاون کرے، لیکن یہ تعاون پارلیمنٹ کے حقوق کو نظر انداز کرنے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ آپ اپنا حق ضرور لیجئے۔ تحقیق کیجئے، جانچ پڑتال کیجئے، مواخذہ کیجئے کہ فلاں کام کیوں نہیں ہوا، اس میں کمی کیوں رہ گئی، اسے اس انداز سے کیوں انجام دیا گيا۔ یہ بڑا اچھا موقع ملا ہے، آپ اس کی قدر کیجئے۔
اوائل انقلاب میں جب صدر جمہوریہ کے انتخاب کا موضوع زیر بحث تھا، مسلسل امیدواروں کے نام پیش کئے جا رہے تھے، تو میں اپنے کچھ رفقائے کار کے ہمراہ تہران سے قم گیا امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ قم میں تشریف رکھتے تھے۔ وقت بہت کم تھا۔ امام خمینی اندر موجود تھے۔ ہم نے کہا کہ جیسے بھی ممکن ہو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے ہماری ملاقات کرائی جائے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کہہ دیا تھا کہ کوئی معمم عہدہ صدارت کا امیدوار نہ بنے۔ ہم گئے تھے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے اس بارے میں بات کریں اور ان سے کہیں کہ اس امتناع کو ہٹا لیں تاکہ ہم آقائے بہشتی کا نام پیش کر دیں۔ ہماری نظر میں سب سے بہترین فرد آیت اللہ بہشتی شہید تھے۔ اسی سلسلے میں بات کرنے کے لئے ہم گئے تھے۔ تھوڑی دیر تک گفتگو چلتی رہی۔ ہم نے کچھ کہا امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کچھ باتیں رکھیں۔ اس کے بعد امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ جائیے پارلیمنٹ کو سنبھالئے، پارلیمنٹ پر توجہ دیجئے۔ اس وقت ہنوز پارلیمانی انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جائیے پارلیمنٹ پر دھیان دیجئے، پارلیمنٹ بہت اہم ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی ہمارے لئے اور ہمارے احباب کے لئے یہی تاکید تھی۔ یعنی حکومت اور انتظامیہ کے مسئلے پر اتنا اصرار نہ کیجئے! آپ کی نظر میں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور مجریہ سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ اب آپ اللہ سے یہ دعا کیجئے کہ آپ کی مدد کرے! ماہ رمضان آ رہا ہے۔ روزہ انسان کو حاصل ہونے والا اچھا موقع ہے، دعا سنہری موقع ہے، راتوں کو جاگ کر کی جانے والی عبادت بہترین موقع ہے، ان شبوں میں مومنین کو نماز شب کی توفیق حاصل ہوتی ہے، یہ نماز شب بہت اچھا موقع ہے۔ دعا کیجئے، گڑگڑا کر التجا کیجئے، اللہ تعالی سے مدد مانگئے کہ وہ آپ کو اس عظیم کام کی بحسن و خوبی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے۔
میں کچھ نکات عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک نکتہ تو پارلیمنٹ کے فریضے اور اس کی اہمیت کے بارے میں ہے۔ ایک نکتہ قانون سازی کے مسئلے سے متعلق ہے، ایک نکتہ اقتصادی شعبے سے مربوط ہے، ایک نکتہ ثقافتی میدان سے تعلق رکھتا ہے، اسی طرح ایک نکتہ خارجہ سیاست اور کلی پالیسیوں کے بارے میں ہے۔ انھیں چیزوں کو بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔
آئین میں آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ انقلاب کی حصولیابیوں اور اسلام کے بنیادی اصولوں کا دفاع کریں، یہ چیز آپ کے حلف میں بھی ہے۔ میں نے آپ کے لئے اپنے پیغام میں عرض کیا (4) کہ یہ حلف حقیقی حلف ہے۔ یعنی اگر آپ نے قسم توڑی تو کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ آپ نے قسم کھائی ہے کہ اسلامی اصولوں کی اور انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کریں گے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ یہ کب ممکن ہوگا؟ یہ تبھی ممکن ہوگا جب پارلیمنٹ تمام امور میں سب سے اوپر نظر آئے۔ یہ بھی آپ کے ہی ہاتھ میں ہے۔ 'پارلیمنٹ تمام امور میں سب سے اوپر ہے' یہ کوئی تکلفاتی جملہ نہیں ہے کہ یونہی کہہ دیا گيا ہو۔ نہیں، پارلیمنٹ واقعی تمام امور میں سب سے اوپر رہنا چاہئے۔ یعنی اسے چاہئے کہ فیصلہ کرے اور اس فیصلے پر عمل ہو۔ البتہ میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مختلف حکومتوں کے زمانے میں، موجودہ حکومت کے زمانے میں بھی، سابق حکومت کے دور میں بھی، اس سے بھی پہلے والی حکومت کے زمانے میں بھی، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد تمام حکومتوں کے زمانے میں اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی زندگی میں اس حقیر کی حکومت کے دور میں بھی، ایسے اتفاقات ہو جاتے تھے کہ بعض جگہوں پر حکومتیں مشکل میں پھنس جاتی تھیں، اب بھی حکومتیں بعض اوقات مشکل میں پڑ جاتی ہیں تو ولی امر مسلمین کے اختیارات کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے۔ مگر تمام مواقع پر میں نے نگرانی رکھی اور اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں تک ممکن ہو پارلیمنٹ کے فیصلے کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ماضی کی ایک حکومت نے آکر ایسی چیز کا مطالبہ کیا جو پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے اس سال کے بجٹ کے قانون سے متصادم تھی۔ اس زمانے میں بجٹ کا قانون پاس ہوتا تھا۔ حکومت نے لاکھ اصرار کیا میں نے قبول نہیں کیا۔ حالانکہ حکومت کے سامنے مشکلات تھیں، لیکن میں نے کہا کہ پارلیمنٹ موجود ہے، اس نے بحث و مباحثے کے بعد ایک فیصلہ کیا ہے، اتنی زحمتوں اور مشقتوں کے بعد بجٹ کا قانون پاس کیا ہے۔ اب آپ آکر ایک جملہ کہہ کر اس پورے قانون کو پلٹ دیں! یہ نہیں ہو سکتا! پارلیمنٹ کو تمام امور میں سب سے اوپر رکھنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا احترام، پارلیمنٹ کا وقار، پارلیمنٹ کی عظمت ہمیشہ مد نظر رکھی جانی چاہئے۔
میں نے ایک بار غالبا لاریجانی صاحب سے ہی یا کسی اور پارلیمنٹ اسپیکر سے کہا بھی کہ آئینی انقلاب کے آغاز سے یہی صورت حال اس وقت تک رہی جب تک رضاخان اقتدار میں نہیں آ گیا۔ رضاخان کو اقتدار ملتے ہی پارلیمنٹ، قانون اور قانون سازی سب پر مٹی ڈال دی گئی، سب کچھ ختم ہو گیا۔ تاہم رضاخان کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک پارلیمنٹ، قانون اور قانون سازی کا سلسلہ تھا۔ آئینی تحریک نے ملک کی باگڈور ابھی سنبھالی ہی تھی، بظاہر دوسرے یا تیسرے دور کی پارلیمنٹ تشکیل پائی تھی۔ رضاخان کی طاقت بڑھنے سے پہلے پارلیمنٹ کے ایک مؤتمن الملک (5) تھے، جو قاجاریہ دور کے نیکنام افراد میں شمار ہوتے تھے۔ مؤتمن الملک کے بھائی وزیر اعظم کے عہدے پر تھے جسے مشیر الدولہ (6) کہا جاتا تھا۔ وہ بھی اتفاق سے ایک نیکنام انسان تھے۔ یعنی یہ دونوں بھائی قاجاریہ دور اور پہلوی دور کے ابتدائی ایام کے نیکنام عہدیداروں میں تھے۔ بڑے بھائی مشیر الدولہ تھے، مجریہ کے سربراہ اور وزیر اعظم تھے۔ چھوٹے بھائی کو مؤتمن الملک یعنی پارلیمنٹ اسپیکر بنایا گيا تھا۔ مجریہ کے سربراہ نے یعنی وزیر اعظم نے مؤتمن الملک سے وقت مانگا کہ وہاں جاکر اپنی رپورٹ پیش کریں۔ مثال کے طور پر صبح آٹھ بجے ایک تقریر کریں۔ آٹھ بج گئے اور مشیر الدولہ نہیں پہنچے۔ مؤتمن الملک نے گھڑی پر نظر ڈالی، دیکھا کہ آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو چکے ہیں تو اعلان کر دیا کہ اب وزیر اعظم کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ پانچ منٹ کی تاخیر سے مشیر الدولہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئے لیکن انھیں اندر نہیں جانے دیا گيا! یہ طریقہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے معینہ وقت سے پانچ منٹ کی تاخیر کی تو پارلیمنٹ کے اسپیکر نے جو ان کے بھائی تھے، عمر میں چھوٹے بھی تھے، مگر اندر نہیں آنے دیا۔ یہ ہے پارلیمنٹ کی طاقت، یہ ہے پارلیمنٹ کی عظمت ہے، اس کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ یہ خود آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
ایک چیز جو حقیقت میں پارلیمنٹ کی اس ہیبت کی حفاظت میں موثر واقع ہو سکتی ہے اور اس کی ضمانت بن سکتی ہے، پارلیمنٹ کی خود اپنے اوپر نظارت و نگرانی ہے۔ میں نے یہ بات آٹھویں پارلیمنٹ سے کہی تھی (7)۔ پارلیمنٹ خود اپنی بھی نگرانی کرے۔ ظاہر ہے پارلیمنٹ چند افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہم انسان جائز الخطا ہیں۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے، چھوٹا ہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا نوجوان، ہر کسی سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے، لغزش ہو سکتی ہے۔ اس لغزش سے کون بچائے گا؟ خود پارلیمنٹ۔ مختلف طرح کی لغزشیں ممکن ہیں۔ پارلیمنٹ اگر نگرانی کرتی رہے گی، رکن پارلیمنٹ کو لغزش سے بچاتی رہے گی اور رکن پارلیمنٹ اس چند سالہ ٹرم میں اپنی پاکیزگی و پاکدامنی کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا تو پھر اس کی زبان بھی کھلے گی، جہاں بھی اسے کوئی خامی نظر آئے گی بے خوف ہوکر بیان کرے گا۔ پارلیمنٹ کو اس چیز کا خیال رکھنا چاہئے۔ میری گزارش ہے کہ 'اپنی نگرانی آپ' کے اس مسئلے کو آپ معمولی نہ سمجھئے۔
ایک بات قانون کے تعلق سے ہے۔ قانون سازی آپ کا اصلی کام ہے، تاہم قانون سازی دو طرح سے انجام دی جا سکتی ہے۔ اچھے انداز سے اور برے انداز سے۔ اچھی قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے اور بری قانون سازی بھی ہو سکتی ہے۔ اچھی اور بری قانون سازی کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ قانون اچھا ہے یا برا۔ نہیں، بعض اوقات آپ ایک اچھا قانون بناتے ہیں، لیکن قانون سازی کا یہ عمل خراب ہوتا ہے۔ کیسے؟ اس طرح سے کہ اس قانون کو وضع کرنے کے عمل میں ضروری توجہ اور باریک بینی سے کام نہیں کیا گيا، دیگر قوانین سے اس کی ہم آہنگی پر توجہ نہیں دی گئی، قانون کو بالکل واضح رکھنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون پرمغز ہونا چاہئے، قانون پر قانون بنانا اور قوانین کا بہت زیادہ ہونا کوئی تعریف کی بات نہیں ہے۔ قانون معیاری اور کوالٹی والا ہونا چاہئے۔ یہ جو جناب ڈاکٹر لاریجانی صاحب نے ابھی مختلف میدانوں کی مہارت رکھنے والے افراد کے موجود ہونے والی بات کہی، اس سے مجھے واقعی خوشی ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے! ان ماہر، باخبر اور ذی فہم افراد کا پارلیمنٹ میں موجود ہونا بہت اہم ہے، اس لئے توجہ دیجئے کہ ایک تو قانون بڑا محکم بنے، اس میں بھرپور استحکام ہو، یعنی اس قانون کے وضع کرنے کے دلائل ایسے ہوں کہ انھیں دیکھ کر ہر کوئی یہی کہے کہ ہاں یہ قانون بڑا محکم ہے۔ تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنے والا ہو، یعنی اگر قانون جزوی ہو، گوناگوں پہلوؤں کو اس میں مد نظر نہ رکھا گيا ہو تو قانون کارآمد نہیں رہ جاتا۔ قانون بالکل واضح ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اس میں پے در پے اصلاحات کی ضرورت پڑے، بار بار اس کے بارے میں پارلیمنٹ سے استفسار کیا جائے۔ اگر قانون واضح اور جامع نہ ہوگا تو بار بار استفسار کیا جائے گا کہ آپ کی مراد یہ ہے یا کچھ اور ہے؟ کبھی کبھی پارلیمنٹ سے استفسار کا جو جواب جاری کیا جاتا ہے وہ خود قانون کے مضمون اور ماہیت سے مختلف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا قانون اچھا قانون نہیں کہا جاتا۔ یعنی قانون کا مضمون ممکن ہے کہ اچھا ہو لیکن قانون سازی کا عمل بخوبی انجام نہ دیا گیا ہو، قانون سازی خراب طریقے سے ہوئی ہے۔ قانون کی کیفیت اور کوالٹی بہت اہم ہے۔
اسی طرح قوانین کے باہمی ٹکراؤ کا مسئلہ ہے۔ ہمارے سامنے ایک مشکل قوانین کی زیادتی اور بہتات کی ہے۔ مختلف مسائل کے بارے میں اتنے زیادہ قوانین ہیں، ڈاکٹر لاریجانی صاحب نے اسپیٹیئل پلاننگ کے مسئلے کا ذکر کیا۔ اسپیٹیئل پلاننگ کا موضوع جب میں صدر جمہوریہ تھا، اس وقت سے ہی کابینہ میں زیر بحث آتا رہا ہے۔ میری صدارت کے زمانے میں یعنی تیس سال سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کابینہ میں اسپیٹیئل پلاننگ کا موضوع زیر بحث آیا۔ اس لفظ کی ماہیت کے بارے میں بھی بحث ہوئی۔ یہ طے پایا کہ اس پر کام ہونا چاہئے۔ سبھی حکومتوں میں اس پر بحث ہوئی، لیکن اب تک اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آ سکی ہے۔ ہم نے اسپیٹیئل پلاننگ کے لئے قانون بھی بنایا، اس کا قانون ہمارے پاس موجود ہے۔ کیا اسی سلسلے میں مزید کئی قانون بنا دئے جائیں؟! آسان راستہ نکالنا چاہئے۔ مثال کے طور پر آپ اسپیٹیئل پلاننگ کی مدد سے اور علاقوں اور صوبوں کی صلاحیتوں کے بارے میں آشنائی کے نتیجے میں ملک کے صوبوں اور گوناگوں علاقوں کی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے اور اگر یہ نہ ہو پائے تو اس کے علاوہ دوسرا راستہ بھی موجود ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مثال کے طور پر صوبہ خراسان کی اسپیٹیئل پلاننگ نہیں ہوئی ہے، لیکن وہاں کے گورنر اور وہاں کے عہدیداران صوبے کی صلاحیتوں اور ظرفیت سے آگاہ ہیں اور یہ چیزیں دار الحکومت میں بیٹھے ہوئے انسان کو نہیں معلوم ہیں۔ یہ بھی ایک اہم چیز ہے۔ ان راستوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ تو ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ قوانین کی لمبی قطار، قانون کی تعداد میں اضافہ اچھی بات نہیں ہے۔ قانون کی کوالٹی بڑھائیے، قانون کو جامع بنائیے۔
ایسے قوانین کو روکئے جن سے کرپشن کا راستہ کھلے۔ یعنی پوری توجہ سے نگرانی کیجئے۔ ایک چیز ہے جو ہماری پارلیمنٹ میں بہت زیادہ نہیں دیکھی گئی، دنیا کی پارلیمانوں میں دیکھنے میں آتی ہے البتہ ہماری پارلیمنٹ میں بھی بعض دفعہ نظر آئی، وہ یہ ہے کہ ایک قانون پاس کرتے ہیں اور دس دن بعد اسے منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ دس دن کی اس مدت میں ہی کچھ افراد اربوں کما لیتے ہیں۔ کرپشن ساز قانون۔ یعنی یہ قانون ایسا ہے کہ مثال کے طور پر کسی چیز کی فروخت پر روک لگاتا ہے اور دس دن بعد یہ امتناع ہٹا لیا جاتا ہے۔ کسی چیز کی درآمدات یا برآمدات پر روک لگائی جاتی ہے اور جسے اس روک سے فائدہ پہنچنا ہے وہ دس دن کے اندر خوب منافع کما لیتا ہے، اس کے بعد روک ہٹا دی جاتی ہے۔ اس دس دن میں کچھ لوگ کو اربوں کی رقم مل جاتی ہے۔ یہ کرپشن پھیلانے والا قانون ہے۔ ایسے قوانین بھی ہوتے ہیں۔ آپ بہت خیال رکھئے کہ جو قانون بنے وہ بدعنوانی کو روکنے والا ہونا چاہئے۔
قانون کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ قومی مفادات کو الگ الگ علاقوں کے مسائل پر ہمیشہ فوقیت دی جائے۔ آپ ملک کے الگ الگ خطوں سے آئے ہیں، وہاں کے عوام کو آپ سے کچھ توقعات ہیں، امیدیں ہیں۔ توقعات ایک حد تک قابل قبول ہیں۔ اب اگر یہ تصور پیدا ہو جائے کہ چونکہ آپ اس علاقے سے آئے ہیں، تو وہاں کا سڑک کا مسئلہ، پانی کا مسئلہ، بجلی کا مسئلہ، سرکاری بجٹ کا مسئلہ ہر چیز حل ہو جائے گی، تو ایسا نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ یقینا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ اپنے حلقے کے عوام کی توقعات اور مطالبات پر توجہ دیں۔ ایک حد تک ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس وقت تک کوئي حرج نہیں ہے جب تک قومی مفادات سے اس کا تصادم نہ ہو۔ کبھی کبھی یہ مطالبات قومی مفادات سے متصادم ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی صوبے میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہاں ایئرپورٹ بنے۔ ظاہر ہے ایئرپورٹ بہت زیادہ خرچ والا پروجیکٹ ہوتا ہے، یہ ایسا انفراسٹرکچر ہے جس پر بہت خرچ آتا ہے۔ وہاں ایئرپورٹ کی ضرورت ہے۔ آپ جب جائزہ لیتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ واقعی اس ایئرپورٹ کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے، بیشک ایئرپورٹ ایک اچھی پیشرفت مانی جائے گی لیکن قریبی علاقے میں ایئرپورٹ موجود ہیں، اب اگر قومی خزانے سے ایک بڑا بجٹ ہم ایسی چیز پر خرچ کرنے جا رہے ہیں جو ترجیحات کا جز نہیں ہے تو ایسی صورت میں قومی مفادات کو ترجیح دینا چاہئے اس علاقائی اور مقامی ضرورت پر۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علاقائی اور مقامی ضرورتوں پر بالکل توجہ نہ دی جائے، بیشک توجہ دی جائے لیکن جب قومی مفادات سے اس کا ٹکراؤ ہونے لگے تو پھر قانون سازی میں قومی مصلحت کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔
قانون کے بارے میں ایک اور نکتہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ماہرانہ بحثوں سے استفادہ کیجئے۔ مختلف شعبے ہیں جن کی مہارتوں سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں، ضرور کیجئے، حکومت کے اندر ایسے شعبے ہیں۔ حکومت کے پاس مختلف شعبوں کے بڑے اچھے ماہرین ہیں۔ حکومت کے پاس موجود ماہرین کے اس ڈھانچے سے مختلف شعبوں میں استفادہ کیا جانا چاہئے۔ یہ صرف حکومت کے اندر موجود ماہرین کی ہی بات نہیں ہے، حکومت سے باہر بھی ماہرین موجود ہیں۔ میں اجمالی طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اقتصادی میدان میں ایسے افراد موجود ہیں، یونیورسٹیوں میں تعلیم دے رہے ہیں، اقتصاد داں ہیں، یہ سب ماہرین ہیں۔ تو فیصلے کرنے سے پہلے ماہرین سے ضرور مشاورت کی جائے۔
جو 'دستاویزات' ہیں اور جن پالیسیوں کا اعلان ہوتا ہے آپ کوشش کیجئے کہ قانون ان سے مطابقت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اس وقت چھٹا ترقیاتی منصوبہ آپ کے دستور العمل میں شامل ہے۔ اس کی بڑی اہمیت ہے۔ میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ چھٹا ترقیاتی منصوبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کے تعلق سے کسی بھی طرح کی کوتاہی، چشم پوشی اور تساہلی ہرگز جائز نہیں ہے۔ یعنی واقعی اس پروگرام کو آپ پوری توجہ کے ساتھ اور بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچائیے۔ اس وقت حالات بالکل الگ نوعیت کے ہیں؛ اقتصادی اعتبار سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی۔ ملک کو بڑی خاص صورت حال کا سامنا ہے۔ آپ پانچ سال کے لئے جو منصوبہ تیار کر رہے ہیں وہ واقعی جامع اور کامل ہونا چاہئے۔ جب یہ منصوبہ تیار ہو جائے گا تو یہ دستاویزات کا جز بن جائے گا۔ اب آپ اگر کوئی قانون بنانا چاہتے ہیں تو اس منصوبے اور اس قسم کے دوسرے منصوبوں جیسے مثال کے طور پر دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں سے اس قانون کا مطابقت رکھنا ضروری ہے۔
یہ تو رہی قانون سازی کی بات، ان شاء اللہ آپ اس نکتے پر توجہ دیں گے۔ البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احباب اخبارات وغیرہ میں لکھتے ہیں کہ جو ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوکر ایوان میں آتے ہیں، ان میں خاصی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے پاس پارلیمنٹ میں کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے، پارلیمنٹ کو نہیں پہچانتے۔ میری نظر میں یہ کوئی فکرمندی کی بات نہیں، یہ تو مثبت چیز ہے۔ بنیادی طور پر انتخابات اور عہدیداروں کا بدلنا سنہری موقع ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تازہ دم افراد میدان میں آتے ہیں جو پارلیمانی کارروائی میں شرکت کے عادی نہیں ہیں۔ کچھ پرانے ارکان پارلیمنٹ رہتے ہیں، جن کے پاس تجربہ ہوتا ہے، وہ ان نئے افراد کو اپنے تجربات سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ یعنی قدیم و جدید ارکان پارلیمنٹ کی یہ ترکیب پارلیمانوں کا مثبت پہلو ہے۔ یہ سنہری موقع ہے۔ اس مثبت پہلو سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے، توجہ کے ساتھ، جوش و جذبے کے ساتھ اور پرانے افراد کے تجربات کے ذریعے۔ یہ کچھ باتیں قانون سے متعلق تھیں اور میری نظر میں قانون سب سے اہم ہے۔
اب معیشت کے بارے میں کچھ باتیں؛ عزیز بھائیو اور بہنو! اقتصادی مسئلہ واقعی ہمارے ملک کا کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، میں پانچ، چھے سال سے مسلسل اقتصاد کے مسئلے پر زور دے رہا ہوں۔ میں نے پانچ چھے سال قبل سال نو کے آغاز پر اپنی تقریر میں عرض کیا تھا کہ ہمارے سامنے دو زاویوں سے خطرات پیدا ہو رہے ہیں اور ان دو پہلوؤں میں جس پہلو کو غالبا زیادہ اہم قرار دیا تھا وہ اقتصادی پہلو تھا (8)۔ یہ عین حقیقت ہے۔ اس وقت ہنوز پابندیاں عائد نہیں ہوئی تھیں، پابندیوں پر عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ دشمن نے معیشت کو ہمارے خلاف حربے کے طور پر استعمال کیا۔ ہم نے بھی شاید قدرے ناسمجھی کا مظاہرہ کیا اور یہ تاثر عام کیا کہ ہم اس حربے سے بہت ہراساں اور پریشان ہیں۔ اس طرح دشمن کے حوصلے مزید بڑھے اور وہ اسے ایک راستہ نظر آ گیا۔ بہرحال، اقتصاد کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہمیں ملکی اقتصاد کا مسئلہ حل کر لینا چاہئے۔ البتہ اس سلسلے میں اجرائی کام حکومت کو انجام دینا ہے۔ میدان عمل میں حکومت کو اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے، آپ اس میدان میں بڑی مدد کر سکتے ہیں، ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ زور جمود اور کساد بازاری کو دور کرنے پر ہونا چاہئے۔ داخلی پیداوار پر ہونا چاہئے۔ داخلی پیداوار بہت اہم ہے۔ میں نے چند روز قبل ایک گفتگو میں (9) کہا کہ حکومت اقتصادی میدان میں جو بھی اقدامات کرے ان کے بارے میں ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اقدامات استقامتی معیشت کے کس حصے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ استقامتی معیشت مختلف خانوں اور حصوں پر مشتمل منصوبہ ہے۔ آپ جو بھی اقدام انجام دیں اس کے بارے میں واضح ہونا چاہئے کہ استقامتی معیشت کے کس خانے کو وہ پر کرےگا؟ حکومت ایک سودا کرنا چاہتی تھی۔ ہمارے دفتر نے متعلقہ عہدیدار سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ یہ استقامتی معیشت کے کس حصے سے مطابقت رکھتا ہے؟ انھیں تشریح کرنا چاہئے، وضاحت کرنا چاہئے کہ استقامتی معیشت کے کس حصے سے اس سودے کا تعلق ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ کہیں وہ استقامتی معیشت سے متصادم تو نہیں ہے۔ ایسا اقدام بھی نہیں ہونا چاہئے کہ جو نہ تو استقامتی معیشت کے کسی خانے کو پر کرے اور نہ اس کے خلاف ہو۔ تو داخلی پیداوار کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں موجود مشکلات کا ازالہ ہونا چاہئے۔
روزگار کا مسئلہ بھی جس کا تعلق اسی داخلی پیداوار جیسے امور سے ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم مستقل یہ کہے جا رہے ہیں؛ حکومتی عہدیداران بھی کہتے ہیں، پارلیمنٹ کے ارکان بھی کہتے ہیں، اخبارات میں لکھنے والے آزاد اقتصاد داں بھی کہتے ہیں کہ اتنے فیصدی کارخانے بند پڑے ہیں اور جو کام کر رہے ہیں وہ اپنی صلاحیت کی نصف پیداوار کر رہے ہیں۔ تو اب کیا کرنا چاہئے۔ انھیں چالو کرنا ہوگا، ان کارخانوں میں کام شروع کرنا ہوگا۔ اگر کارخانوں میں کام ہوگا تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ نوجوان کی بے روزگاری پر اسلامی نظام کی شرمندگی اپنے گھر کے اندر اس نوجوان کی شرمندگی سے زیادہ ہے، اسے آپ یاد رکھئے۔ میں خود بھی جب اس بے روزگار نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوں تو شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ بعض صوبوں میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ ہم بے روزگاری کی شرح معین کرتے ہیں مثال کے طور پر بارہ فیصد یا دس فیصد جو بیان کی جاتی ہے وہ اوسط شرح ہے۔ جب انسان ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو شرمندہ ہوتا ہے۔ یعنی اس حقیقت اور ان اعداد و شمار کو دیکھ کر مطالعہ کرکے اس حقیر کو جو شرمندگی ہوتی ہے وہ اس نوجوان کی اس شرمندگی سے کم نہیں جس کا احساس وہ خالی ہاتھ گھر میں داخل ہوتے وقت کرتا ہے۔ اس حقیر کی شرمندگي اس سے زیادہ ہے۔ اسے دور کیا جانا چاہئے۔
اسمگلنگ کے مسئلے کا ذکر ہوا۔ میں نے بھی اس بارے میں بار بار بات کی ہے۔ یہ بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔ یعنی واقعی اسمگلنگ اسلامی نظام کی پشت پر لگنے والا خنجر ہے۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرکے ملکی مفادات کو پامال کر رہے ہیں۔ اس کا سد باب کیا جانا چاہئے، اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ البتہ ظاہر ہے کہ یہ مقابلہ آسان نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں کو اسمگلنگ سے اربوں کی آمدنی ہو رہی ہے وہ اتنی آسانی سے باز نہیں آئیں گے۔ ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ کارروائی تو حکومت کو کرنی ہے لیکن کارروائی میں حکومت کی پشت پناہی پارلیمنٹ کو کرنی ہے۔ اس کارروائی کا مطالبہ آپ کو کرنا چاہئے، فیصلہ آپ کو کرنا چاہئے، منصوبہ بندی آپ کو کرنی چاہئے۔ یہ اقتصاد سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔
اس کے بعد اہم مسئلہ ثقافت کا ہے۔ البتہ دراز مدت میں ثقافت اقتصاد سے زیادہ اہم ہے۔ اقتصاد فوری مسئلہ ہے اور موجودہ حالات کی ترجیح ہے، جبکہ ثقافت کا معاملہ ایک دائمی اور انتہائی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ ثقافت اقتصادی میدان میں بھی اپنی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! ثقافتی میدان میں مجھے تساہلی نظر آتی ہے۔ ثقافتی اداروں میں، خواہ وہ سرکاری ادارے ہوں یا غیر سرکاری، ایک عدم توجہ اور تساہلی دکھائی دیتی ہے ثقافت کے مسئلے میں۔ مفید ثقافتی سرگرمیوں کے سلسلے میں کوتاہی ہوتی ہے، مضر ثقافتی چیزوں کی باہر سے آمد کی روک تھام میں کوتاہی ہوتی ہے۔ ثقاتفی اشیاء کی اہمیت جسمانی ضرورت کی اشیاء سے کم نہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر لوگ یہ تو بار بار کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چپس کھانا نقصان دہ ہے، نہ کھائیے! اس کا نقصان کتنا ہے، کس طرح کا نقصان ہے، کس سطح کا نقصان پہنچتا ہے، کتنے فیصدی لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے؟ اس بارے میں بات ہوتی رہتی ہے۔ مگر کسی فلم کے نقصانات کی بات ہو، کسی کتاب کے نقصانات کی بات ہو، کسی کمپیوٹر گیم کے نقصانات کی بات ہو تو اس کے بارے میں رائے زنی کی لوگ ہمت نہیں کر پاتے کہ کہیں آزادی اطلاعات کی خلاف ورزی کا الزام نہ لگ جائے! جو لوگ بنیادی طور پر اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، آپ یقین جانئے کہ در حقیقت وہ خود ہی ان مسائل میں سب سے زیادہ سختی برتتے ہیں۔ مثال کے طور پر اطلاعات کی آزادی کے سلسلے میں سب سے زیادہ آزاد ملک مغربی ممالک منجملہ امریکا کو کہا جاتا ہے۔ مگر امریکا سے جو صحیح اور پختہ اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق وہاں لوگوں سے متعلق اطلاعات کنٹرول کرنے اور حکومت کی نظر میں جو چیزیں خاص حساسیت رکھتی ہیں ان کی نگرانی کے کے عمل کو دیکھ کر انسان متحیر رہ جاتا ہے۔ ہم ان کا دسواں حصہ بھی کنٹرول نہیں کرتے۔ یہاں جیسے ہی کسی فلم پر پابندی لگتی ہے، یا کمپیوٹر کے میدان میں کوئی امتناع عائد کیا جاتا ہے، فورا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہمیں بھی ان کے ہنگامے سے یقین ہو جاتا ہے کہ ہم نے غلط قدم اٹھا دیا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس کا خیال رکھنا چاہئے! ہماری ذمہ داری ہے کہ مفید ثقافتی چیزیں آمادہ کریں اور مضر ثقافتی اشیاء کا راستہ روکیں۔ مجھے اس میدان میں ایک تساہلی نظر آتی ہے۔ آپ اسے مد نظر رکھئے اور اس پر توجہ دیجئے۔
پالیسیوں کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ پارلیمنٹ ایک انقلابی ادارہ ہے۔ مجلس شورائے اسلامی، انقلاب سے نکلا ہوا ادارہ ہے۔ اسے انقلابی انداز میں ہی کام کرنا چاہئے۔ آپ انقلابی بنے رہئے۔ انقلابی ہونے کی کچھ شکلیں اور صورتیں ہیں۔ پرسوں میں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مزار پر اپنی تقری میں اس بارے میں تھوڑی گفتگو کی (10)۔ اگر آپ وہاں موجود تھے یا آپ نے بعد میں سنا تو آپ کو علم ہے۔ انقلاب کے کچھ ضوابط ہیں، کچھ بنیادیں اور اصول ہیں۔ آپ قانون سازی کے عمل میں انقلابی انداز سے کام کیجئے، اپنا موقف طے کرتے وقت انقلابی انداز میں عمل کیجئے۔ موقف دو طرح سے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو آپ کا ذاتی موقف ہے جو آپ کی تقاریر میں جھلکتا ہے، ایک عمومی موقف ہے۔ نویں پارلیمنٹ نے واقعی اس اعتبار سے بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انقلاب کے خلاف سرگرم سیاسی حلقوں اور طاقتوں کے مقابلے میں آپ کا واضح موقف ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر اس وقت امریکی کانگریس، امریکی حکومت کا رویہ ہمارے سلسلے میں معاندانہ ہے ہی، یعنی میں اگر یہ بات کہتا ہوں تو تعصب کی بنیاد پر نہیں ہے، صرف اندازے اور قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ یہ بات میں روشن اور مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ امریکی حکومت کا رویہ حد درجہ معاندانہ ہے، امریکی کانگریس اپنی حکومت پر اعتراض کرتی ہے کہ ایران کے ساتھ آپ رواداری برت رہے ہیں۔ مسلسل قراردادیں پاس کرتے ہیں، بیان بازی کرتے ہیں اور نہ معلوم کیا کیا کرتے رہتے ہیں! ان کا جواب دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ ان کے مقابلے پر کسے اترنا چاہئے؟ ان کا منہ بند کرانے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ سیاسی میدان میں رد عمل دشمن کی نظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اگر اس نے کوئی بات کہی اور آپ خاموش رہ گئے تو وہ ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اگر آپ خاموش بھی رہے اور ساتھ ہی سر بھی جھکا لیا تو وہ کسی اور نتیجے پر پہنچتا ہے۔ اگر خاموش رہنے اور سر جھکانے کے بعد اپنی ملامت بھی شروع کر دی تو وہ بالکل الگ نتیجے پر پہنچتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے سر اٹھا کر اسے جواب دیا تو پھر وہ کچھ اور نتیجہ اخذ کرے گا۔ اگر دشمن کو محسوس ہو جائے کہ آپ کے اندر کمزوری ہے، آپ پسپائی اختیار کر لیں گے، پیچھے ہٹ جائیں گے تو دنیائے سیاست میں یہ ہوگا کہ وہ مسلسل سر پر سوار رہیں گے، آگے بڑھتے چلے آئیں گے۔ نت نئے مطالبات پیش کریں گے۔ مختلف معاملات میں، مثلا اسی حالیہ ایٹمی مسئلے کی مثال لے لیجئے! آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ مسلسل مطالبات بڑھاتے جا رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہی ساری باتیں جو ایک زمانے میں وہ ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں، یورینیم کی افزودگی اور پھر بیس فیصدی کے گریڈ کی افزودگی کے بارے میں کہتے تھے اور جنگ کا آپشن میز پر موجود ہونے کی باتیں کرتے تھے آج ایک بار پھر وہی ساری باتیں دہرا رہے ہیں۔ حکومتی عہدیداران بھی دہرا رہے ہیں اور پارلیمنٹ کے ارکان بھی دہرا رہے ہیں، اسی طرح صدارتی امیداوار بھی وہی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ دو تین امیدوار جو میدان میں باقی بچے ہیں، یہ بھی بار بار دہرا رہے ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں پہنچے تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے!
ایک اور نکتہ جس پر احباب کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دیکھئے ملک کے اندر کچھ ممکنہ دراڑیں موجود ہیں۔ قومیتی دراڑیں، نظریاتی دراڑیں، مثال کے طور پر آپ شیعہ سنی اختلاف کی بات لے لیجئے، مختلف دھڑوں کے اندر پائی جانے والی دراڑیں ہیں۔ آپ مختلف دھڑوں کا مشاہدہ کر ہی رہے ہیں۔ جب تک ان دراڑوں کو متحرک نہ کر دیا جائے زلزلہ نہیں آئے گا اور ان سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔ اختلافات موجود ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اگر ان دراڑوں کو متحرک کر دیا گيا تو پھر زلزلہ کی کیفیت پیدا ہوگی۔ دشمن کی ساری کوشش یہ ہے کہ ان دراڑوں کو متحرک کر دیا جائے، آپ بہت ہوشیا رہئے۔ مسلسل اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے کہ وہ شعلوں میں تبدیل ہو جائیں، ان سے لپٹیں نکلنے لگیں۔ آپ کوشش کیجئے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ آپ اپنا نظریہ رکھئے۔ الف، ب، ج کوئی بھی دھڑا ہو سکتا ہے۔ الگ الگ دھڑوں کے موجود ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ صورت حال زبانی ٹکراؤ پر منتج ہو جائے اور زبانی ٹکراؤ جسمانی تصادم کی شکل اختیار کر لے، کیونکہ؛ «فَإنَّ الحَرب اوّله اللسانُ» (11) ساری جنگیں عام طور پر زبان سے شروع ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو یہ غلط ہے۔ آپ بہت محتاط رہئے! دشمن ان دراڑوں کو متحرک نہ کرنے پائے۔ ایک اہم نکتہ یہی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ ایوان کے اندر اپنے خاص سیاسی نظرئے اور سیاسی بینش کی بنیاد پر اپنا ووٹ دیں، دوسرا رکن پارلیمنٹ اپنے موقف کے اعتبار سے ووٹ ڈالے گا، لیکن اسے آپ جھگڑے کا باعث نہ بننے دیں، اختلاف کی بنیاد نہ بننے دیں۔ میں یہی چیز حکومت اور دوسرے اداروں کے مابین تعاون کے بارے میں کہتا ہوں۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان، حکومت اور عوام کے درمیان۔ ممکن ہے کہ عوام حکومت کی پالیسیوں سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، بیشتر پالیسیوں سے یا تمام پالیسیوں سے یا کچھ پالیسیوں سے ان کا اتفاق رائے نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کون ہے جس کا کوئی مخالف نہیں؟ کون ہے جس پر اعتراض اور تنقید کرنے والے نہیں ہیں؟ ہم سب کے کچھ مخالفین ہیں، معترض افراد ہیں، ناقدین ہیں۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ برائی تب پیدا ہوتی ہے جب یہ مخالفت ایک دوسرے کے دست و گریباں کر دے۔ آپ یہ خیال رکھئے کہ پارلیمنٹ کے اندر ایسا نہ ہونے پائے۔ اگر پارلیمنٹ کے اندر کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا۔ جیسا کہ بعض دوروں میں یہ ماحول دیکھنے میں آیا، تو یہ کشیدگی عوام میں بھی سرایت کریگی، اس سے عوام کے اندر بھی کشیدگی پیدا ہو جائے گی، خواہ نفسیاتی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ اگر پارلیمنٹ میں امن و سکون ہے تو عوام میں بھی یہی ماحول ہوگا اور یہ امن و سکون کا ماحول بہت اہمیت رکھتا ہے؛ هُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَةَ فی قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادُوا ایمانًا مَعَ ایمانِهِم (12) سکینہ کی یہ خصوصیت ہے۔ سکینہ سے مراد وہی طمانیت و امن و سکون ہے، فکری و ذہنی آسودگی، ہیجان اور طوفان کا نہ ہونا۔ اس کا نتیجہ ہوتا ہے؛ «لِیَزدادُوا ایماناً مَعَ ایمانِهِم» انسان کو اپنے ایمان میں اضافہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ عالمی رائے عامہ کی سطح پر دشمن کی یہ کوشش ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر الزامات عائد کرے اور داخلی سطح پر ہم دراڑوں کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔ علاقے کی سطح پر، اس مغربی ایشیا کے علاقے کی سطح پر دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اپنا خطرناک منصوبہ اس حساس اور انتہائی اہمیت کے حامل علاقے میں پورا کرے اور راستے میں موجود رکاوٹ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کو جو واقعی دشمن کی سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، دور کر دے۔ دشمن کی یہ کوشش ہے۔ عراق کے بارے میں ان کا ایک منصوبہ ہے، شام کے بارے میں بھی منصوبہ ہے، فلسطین کے بارے میں بھی انھوں نے منصوبہ تیار کر رکھا ہے، لبنان کے بارے میں بھی وہ منصوبہ بنا چکے ہیں۔ ان کے طے شدہ منصوبے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کی زبان سے یہ بات پھسل گئی۔ جدید مشرق وسطی اور گریٹر مشرق وسطی کی بات ان کی زبان سے نکل گئی۔ اس خاتون نے جو ان کی خارجہ پالیسی کی ذمہ دار تھی ان برسوں میں یہ بات کہہ دی۔ یہ ان کی غلطی تھی، بہرحال انھوں نے یہ ارادہ ظاہر کر دیا۔ ان کے مطابق مشرق وسطی کا علاقہ، ویسے یہ نام بھی غلط ہے اور پوری طرح مغرب کی متکبرانہ فکر و ذہن کی پیداوار ہے۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ جو بھی مغرب کے قریب ہے اور یورپ کے قریب ہے اس کا نام مشرق قریب ہے، جو دور ہے وہ مشرق بعید ہے، جو درمیانہ فاصلے پر ہے مشرق وسطی ہے۔ یعنی معیار اور کسوٹی یورپ ہے۔ ایشیا کا اتنا وسیع و عریض علاقہ معیار نہیں ہے اور وہ اپنے معیار کے مطابق گریٹر مشرق وسطی اور جدید مشرق وسطی کی بات کرتے ہیں۔ اس علاقے کے لئے انھوں نے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں کے آباد ہونے کے اعتبار سے بھی، اسلام کے وجود کے اعتبار سے بھی، صیہونی حکومت کے موجود ہونے کے اعتبار سے بھی، یہاں تیل کے عظیم ذخائر کی وجہ سے بھی، یہاں دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہیں موجود ہونے کے اعتبار سے بھی، آبنائے ہرمز یہیں پر واقع ہے، آبنائے باب المندب یہیں پر ہے، دوسرے بھی کئی اسٹریٹ یہیں موجود ہیں۔ دنیا میں اسٹریٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جیو پولیٹیکل نقطہ نگاہ سے ان کی خاص اہمیت ہے، سوق الجیشی زاوئے سے بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس لئے اس علاقے کے بارے میں بہت چوکنے رہتے ہیں، انھوں نے منصوبے بنا رکھے ہیں، پروگرام بنا رکھے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے ان منصوبوں پر سکون سے عمل کریں اور کوئی ان کے سد راہ نہ بنے، کسی بھی طرح کا درد سر کھڑا نہ کرے۔ مگر اسلامی جمہوریہ ایران میدان میں آن کھڑا ہوا ہے اور ان کے منصوبوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ عراق کو وہ نگل جانا چاہتے تھے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ وہ اس چیز سے بہت خفا ہیں۔ ان کے منصوبے درہم برہم ہو گئے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عراق کو ہضم کر لیں۔ عراق کے پاس بڑی ثروت ہے، آپ کو معلوم ہے؟ عراق کے پاس بہت زیادہ ثروت ہے۔ وہ عراق کو نگل جانا چاہتے تھے، چاہتے تھے کہ عراق پر ان کا کنٹرول ہو جائے اور پھر وہ ایران کو ہمیشہ وہاں سے پریشان کرتے رہیں۔ مشرق کی جانب سے بھی وہ الگ انداز سے ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے تھے لیکن اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پائے۔ تو ان کی کوشش یہ ہے کہ راستے کی یہ رکاوٹ ختم ہو جائے۔ شام میں بھی یہی ماجرا ہے۔ فلسطین میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ان کی خاص پالیسیاں ہیں اور ان پالیسیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ استکبار کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہئے۔ آپ کو استکبار کے بارے میں اور استکباری نظام کے بارے میں جو معلومات ہیں یا جو اطلاعات آئندہ ملیں انھیں منظر عام پر لائیے، بیان کیجئے، ماحول سازی کیجئے، اپنی تقاریر میں، عمومی مقامات پر اپنے بیانوں میں۔
بہت محتاط رہئے کہ آپ کی بات اور آپ کے عمل سے امریکا کے مقصد کی تکمیل نہ ہو۔ ماضی میں بعض اوقات ایسی چیزیں دیکھنے میں آئيں کہ رکن پارلیمنٹ نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو سو فیصدی صیہونی حکومت کے اہداف کے لئے مددگار تھی۔ اگر سو فیصدی نہیں تو نوے فیصدی مددگار ضرور تھی۔ گویا انھوں نے ڈکٹیٹ کیا ہے اور اس نے من و عن انھیں کی بات بیان کر دی ہو۔ ایسی بھی کچھ مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ البتہ شاذ و نادر ایسا ہوا ہے۔ تو آپ بہت محتاط رہئے کہ اس طرح کی چیزیں پیش نہ آئیں۔
بات کافی لمبی ہو گئی۔ میرا ارادہ یہ نہیں رہتا کہ ان نشستوں میں زیادہ بات کروں۔ اللہ آپ سب کو کامیاب کرے، آپ کی مدد فرمائے۔ ہم آپ کے لئے دعاگو ہیں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی صاحب نے کہا کہ میں دعا کروں تو واقعی میں آپ حضرات کے لئے دعا کرتا ہوں۔ برادران و خواہران گرامی کے لئے دعا کرتا ہوں۔ آپ بھی ہمارے لئے دعا کیجئے تاکہ ہم وہ ذمہ داری بخوبی ادا کر سکیں جس کا بوجھ ہمارے دوش ہے اور یہ واقعی کافی سنگین بوجھ ہے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ ہم سے اپنی رضامندی و خوشنودی کے اسباب فراہم کر! ہمیں اپنی رضامندی و خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب فرما! امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ ہمارے عزیز شہیدوں کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) نو تشکیل دسویں پارلیمنٹ کا کام شروع ہونے کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی سے ارکان پارلیمنٹ کی اس ملاقات کے آغاز میں اسپیکر علی لاریجانی نے تقریر کی۔
۲) سوره‌ عصر، آیت نمبر ۲ آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ « کہ واقعی انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال انجام دئے۔...»
۳) مصباح المتهجّد، جلد ۲، صفحہ ۵۹۲
4) نئی پارلیمنٹ کے اپنا کام شروع کرنے کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 24 مئی 2016 کا پیغام
5) حسین پیرنیا
6) حسن پیرنیا
7) پارلیمنٹ کے ارکان سے مورخہ 29 مئی 2011 کا خطاب
8) منجملہ 21 مارچ 2007 کی تقریر‌
9) امام خمینی کی ستائیسویں برسی پر خطاب، تاریخ 3 جون 2016
10) امام خمینی کی ستائیسویں برسی پر خطاب، تاریخ 3 جون 2016
11) عربی زبان کے شعر کا ایک مصرع
12) سوره‌ فتح،آیت نمبر ۴ کا ایک حصہ «وہ وہی ہے جس نے مومنین کے دلوں پر سکینہ نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔»