12 تیر 1395 ہجری شمسی مطابق23 جولائی 2016 کو ہفتے کی شام تقریبا پانچ گھنٹے چلنے والی اس بے تکلف اور شفقت آمیز ملاقات میں طلبہ کے مسائل، نیز نوجوان نسل کے ثقافتی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور کا جائزہ لیا گيا۔ طلبہ نے یونیورسٹیوں اور طلبہ کے مسائل، ان کے اہم فرائض اور گوناگوں معروضی مسائل کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے خیالات کے بارے میں اپنے نظریات بیان کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

ہر سال ماہ رمضان میں عزیز طلبہ سے ملاقات کی یہ نشست میرے لئے بڑی شیریں اور دل آویز ہوتی ہے۔ اس سال بھی دوستوں نے جو تقاریر کیں میرے لئے واقعی بڑی پرکشش اور لذت بخش تھیں۔ البتہ گوناگوں موضوعات پر تقریریں ہوئیں۔ ابھی کہا گیا کہ اس نشست میں طلبہ کے پیش نظر سارے مسائل کو پیش کرنے کا موقع نہیں، ممکن ہے یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو، لیکن بحمد اللہ آپ نے بھی دیکھا کہ الگ الگ باتیں ہوئیں اور ساری باتیں بڑی اچھی تھیں۔ میں واقعی اس بات پر بہت خوش ہوتا ہوں کہ ہر سال طلبہ کی فکری سطح اور مطالبات کی سطح، یہاں تک کہ طرز بیان میں جو ادبی سطح ہے اس میں ارتقاء نظڑ آتا ہے۔ اس سال کی گفتگو سال گزشتہ سے بہتر تھی۔ یہ نشست تو برسوں سے منعقد ہوتی آ رہی ہے اور میں اس فکری ارتقاء کا جائزہ لیتا ہوں۔ جب اس نشست کا آغاز ہوا تو اس وقت آپ میں سے بعض طلبہ شاید پرائمری اسکول میں بھی نہیں پہنچے ہوں گے۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلابی جذبہ، انقلابی فکر، روشن فکر اور محکم استدلال روز بروز طلبہ کی صنف میں وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج بھی میں نے اس پر غور کیا اور یہ میرے لئے بڑی بامعنی چیز ہے۔ اگر وقت رہا تو اذان تک اپنے سارے معروضات آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس سلسلے میں بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے، تاہم میری بحث اور جو چیزیں میں نوٹ کرکے لایا ہوں وہ ان حصوں پر مشتمل ہے؛ ایک حصہ ہمارے قلبی حالات و واردات اور ہماری روحانیت و معنویت سے مربوط ہے جو میری نظر میں سب سے اہم حصہ ہے۔ معروضات کا دوسرا حصہ یونیورسٹی اور طلبہ کے امور سے متعلق ہے اور تیسرا حصہ ملک کے کلی مسائل سے مربوط ہے۔ البتہ میری کوشش ہوگی کہ تینوں حصوں کے معروضات اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
پہلا حصہ؛ اس سال آپ کی یہ نشست جو عام طور پر ماہ رمضان کے شروعاتی ایام میں ہوا کرتی تھی مہینے کے آخری دنوں پر چلی گئی۔ آج چھبیس تاریخ تھی۔ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ ان تپتے ہوئے دنوں میں روزہ رکھ کر آپ نوجوانوں کی نورانیت میں اضافہ ہوا ہے، روحانی لطافت بڑھی ہے۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے آپ کے اندر اور بھی روحانیت جلوہ گر ہوگی۔ یہ چیز بڑی اہم ہے۔ ممکن ہے کہ ذہن میں یہ بات آئے کہ جناب ہمارے سامنے اس قدر مسائل ہیں، اقتصادی مسائل، سماجی مسائل، تیل کے معاہدوں کے مسائل، مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مسائل، اسی طرح جو باتیں حضرات نے بیان کیں اور وہ ساری ہی اہم باتیں ہیں، اتنے سارے مسائل ہیں اور آپ ہیں کہ روحانیت، روزے اور قلبی نورانیت کی فکر میں پڑے ہوئے ہیں! تو میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ موضوع ان تمام مسائل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ مشکلات سے لڑنے اور انھیں دور کرنے کے لئے آپ کو جدوجہد کی ضرورت پڑتی ہے، میں وقت رہا تو اس بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس مجاہدت کا دارومدار باطنی قوت پر ہوتا ہے۔ مجاہدت کے میدان میں وہی ثابت قدمی کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو اس باطنی توانائی سے بہرہ مند ہو۔ صحیح شناخت، صحیح ادراک اور پھر اسی بنیاد پر صحیح اقدام اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ اندرونی عنصر بیدار اور قوی ہو۔ وہ اندرونی عنصر ہے جذبہ ایمانی۔
چنانچہ آپ سورہ احزاب میں دیکھتے ہیں؛ وَ لَمّا رَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ ما زادَهُم اِلّآ ایمانًا وَ تَسلیمًا (۲)، جنگ احزاب کا قضیہ حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہم اسلامی جمہوریہ کے خلاف دشمن کی آج کی محاذ بندی کا موازنہ صدر اسلام کے واقعات سے کرنا چاہیں اور اس کی مثال صدر اسلام میں تلاش کریں تو جنگ احزاب پر ہی نظر ٹکتی ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ سارے دنیا پرست، سارے جاہ طلب، سارے مجرم اور دنیا کی ظالم و سرکش طاقتیں جو قوت و توانائی کی الگ الگ سطح پر ہیں، سب اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل صف آرا ہیں، حملہ بھی کیا ہے اور آج بھی ہر سمت سے حملے کر رہی ہیں۔ بالکل یہی صورت حال جنگ احزاب میں تھی۔ اس زمانے میں مدینے کی ساری آبادی شاید دس ہزار بھی نہ رہی ہو۔ زن و مرد، بچے اور بوڑھے سب کو ملا کر۔ احزاب یعنی مکے کے کفار و مشرکین، اس علاقے کی تمام قوموں سے جنگی مہارت رکھنے والے افراد کو چنا گیا تھا اور ان کی تعداد دس ہزار تھی! انھوں نے مدینے پر حملہ کیا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ انھوں نے سوچا تھا کہ مدینے جاکر سب کو تہہ تیغ کر دیں گے۔ نبوت کا دعوی کرنے والے شخص یعنی پیغمبر اسلام کو بھی، ان کے اصحاب کو بھی۔ اس طرح سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا اور یہ پورا قضیہ نمٹ جائے گا۔ پیغمبر اسلام کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جب بھی جنگ ہو تو شہر سے باہر ہو، شہر کے اندر نہ ہو، لیکن یہ مرحلہ اتنا ہولناک اور ہیبت ناک تھا اور اس تیزی کے ساتھ یہ صورت حال پیدا ہوئی تھی کہ پیغمبر اکرم کو موقع ہی نہیں ملا کہ اپنی صفوں کو منظم کرتے اور شہر کے باہر جمع ہوکر صف آرائی کرتے۔ مجبور ہوکر آپ نے شہر مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی، اسی وجہ سے یہ جنگ خندق کے نام سے بھی معروف ہے۔ بڑا اہم واقعہ تھا۔ مومنین کو اس کا سامنا کرنا تھا۔ عوام الناس، وہی لوگ جو پیغمبر اکرم کے ساتھ تھے، دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جن کے ذریعے کہی گئی باتیں اس آیت سے جس کی میں نے تلاوت کی تقریبا سات، آٹھ یا دس آیت پہلے اس طرح بیان کی گئی ہیں؛ وَ اِذ یَقولُ المُنافِقونَ وَ الَّذینَ فی قُلوبِهِم مَرَض (3) ان لوگوں نے، جن کے دل بیمار تھے، کہا کہ پیغمبر نے یہ جو کہا کہ فتح تمہاری ہوگی تو سچ نہیں کہا۔ وہ دیکھو! دشمن فوج آ چکی ہے اور مزید فوجیں آتی جا رہی ہیں، ہماری مٹی پلید کر دیں گی۔ یعنی ان افراد کے دلوں میں مایوسی، نا امیدی، دشمن کے سامنے احساس کمتری اور دشمن کی طرف قدرے قلبی میلان تھا۔ لیکن دوسرے لوگوں نے جو اکثریت میں تھے، کہاں کہ نہیں صورت حال ایسی نہیں ہے؛ هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسولُه، اس دشمنی کے بارے میں تو اللہ اور پیغمبر ہمیں پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ ہمیں بتا دیا تھا کہ جب تم اس میدان میں وارد ہوگے تب کفر و استکبار کے تمام عناصر تم سے دشمنی برتیں گے۔ اللہ اور پیغمبر ہمیں پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں؛ هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسولُه، بے شک اللہ اور پیغمبر نے صحیح کہا تھا، جو کچھ اللہ نے کہا تھا، پیغمبر نے کہا تھا، وہی ہوا، یعنی دشمن کا اس طرح آنا اور حملہ آور ہونا جذبے اور حوصلے کے کمزور ہونے کا باعث بننے کے بجائے؛ ما زادَهُم اِلّآ ایمانًا وَ تَسلیمًا (4) ان کے جذبہ ایمان کی تقویت کا باعث بنا۔ اللہ کی بارگاہ میں ان کی سپردگی اور بڑھی اور دشمن سے مقابلے کا عزم و ارادہ اور بھی مستحکم ہو گیا۔ یہ ایمان کی دین ہے، یہی ایمان ہے۔ جب ایمان کی جڑیں دل کی گہرائی میں اتر جاتی ہیں، مستحکم ہو جاتی ہیں، مستحکم ہو جاتی ہیں تو ان تمام مشکلات کا سامنا کرنا، جن کا ذکر آپ نے کیا اور میں نہ صرف ان مشکلات کو بلکہ ان سے سوا بھی بہت سی مشکلات کو جانتا ہوں، آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ مقابلے کے کچھ طریقے ہیں۔
یہ اس کے ٹھیک برعکس ہے جس کا ذکر میں نے ماہ رمضان کے اوائل میں اسلامی نظام کے عہدیداران سے ملاقات (5) میں کیا کہ؛ «اِنَّ الَّذینَ تَوَلَّوا مِنکُم یَومَ التَقَی الجَمعانِ اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا» (6)، یہ بھی قرآن کی آیت ہے۔ جنگ احد کے دن کچھ لوگ استقامت جاری نہیں رکھ پائے، میدان چھوڑ کر ہٹ گئے اور فتح شکست میں بدل گئی۔ جنگ احد میں مسلمان فتحیاب ہو چکے تھے، لیکن تھوڑے سے افراد کی غفلت، یا خیانت، یا دنیا پرستی اور کوتاہ فکری کی وجہ سے یہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی۔ قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ اس کی وجہ بنے؛ اِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّیطانُ بِبَعضِ ما کَسَبوا، انھوں نے ماضی میں جو غلط کام کئے تھے ان کی وجہ سے وہ اس لغزش میں مبتلا ہوئے۔ میرے عزیزو! گناہ، اپنے اوپر توجہ نہ رکھنا اور تقوی کی پابندی نہ کرنا انسان کی یہ حالت کر دیتا ہے۔ اگر ہم استکباری محاذ کے مقابل ثابت قدمی سے ڈٹ جانا چاہتے ہیں، استقامت و مزاحمت کرنا چاہتے ہیں، اس عزت و شرف اور قوت و مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں جو اسلامی جمہوریہ کے شایان شان ہے اور انقلاب نے جس کا ہمیں وعدہ کیا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذاتی افعال اور برتاؤ میں ضروری باتوں کو ملحوظ رکھیں۔ تقوی کا راستہ اپنائیں۔ یہ ہماری ضرورت ہے۔
قرآن دو جگہوں پر ان ملتوں کے انحطاط کا ذکر کرتا ہے جو پہلے تو ایمان سے آراستہ تھیں لیکن بعد میں تنزل سے دوچار ہوئیں۔ ایک تو سورہ مریم میں ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے؛ فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ اَضاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَواتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیًّا (7)، شروع کے لوگوں نے جدوجہد کی اور ایمان لائے، لیکن بعد میں؛ «خَلْف» لام پر سکون کے ساتھ اور «خَلَف» لام پر زبر کے ساتھ، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ «خَلْف» یعنی برے جانشین، «خَلَف» یعنی اچھے جانشین، یہاں ارشاد ہوتا ہے؛ فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ برے جانشین آ گئے جنھوں نے؛ «اَضاعُوا الصَّلوة»، پہلا کام یہ کیا کہ نماز کو ضائع کیا، وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوات؛ لذتوں کی فکر میں پڑ گئے، ذاتی لذتوں کے پیچھے چل پڑے؛ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیًّا، یہ دونوں چیزیں یعنی نماز کا ضائع کرنا اور لذتوں کے پیچھے بھاگنا اس استعداد اور توانائی کو کمزور کر دیتا ہے جو جہاد اور استقامت کے لئے ضروری ہوتی اور اس استقامت کے نتیجے میں فتح ملتی ہے، یہ دونوں چیزیں اس توانائی کو ختم کر دیتی ہیں۔ میں جو طلبہ و طالبات کے عدم اختلاط پر اتنی زیادہ تاکید کرتا ہوں، کئی بار کہہ چکا ہوں، لیکن میں نے سنا کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، ابھی ہمارے ایک برادر عزیز نے یہاں اس کا ذکر کیا، ویسے مجھے بھی اس کی رپورٹیں ملی ہیں اور یونیورسٹیوں کے عہدیداران اس کا جواب دیں، تو میری اس تاکید کی یہی وجہ ہے۔ طالب علم کسی بھی ملک کی وہ طاقت ہے جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں، یہ طلبہ ہی ہیں جو کامیابی سے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، طالب علم نوجوان بھی ہوتا ہے، صاحب علم بھی ہوتا ہے، مستقبل میں ملک کا نظم و نسق انھیں طلبہ کو سنبھالنا ہے۔ یہ طلبہ ہی کی ذمہ داری ہے کہ آگاہی حاصل کریں تاکہ موقعہ پرستوں، توسیع پسند طاقتوں اور دیگر عناصر کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کے محاذ کو مستحکم بنائیں، لہذا ان طلبہ کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ اگر«وَ اتَّبَعُوا الشَهَوات» کی بھینٹ چڑھ گئے تو پھر یہ ان کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ میں کوئی خشک مزاج و تقدس مآب آدمی نہیں ہوں کہ کوئی یہ سوچے کہ خشک تقدس کی بنیاد پر اس طرح کی باتیں کرتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے، معاملہ یہ ہے کہ مرد و زن کا اختلاط اسلام کی نظر میں مناسب نہیں ہے۔ رسمی جلسوں میں کوئی حرج نہیں ہے، عورتیں ہوں، مرد ہوں، بیٹھیں، بحث کریں۔ پارلیمنٹ ہو، مذاکرات ہوں، مشاورتی کونسل ہو۔ لیکن ایسی جگہوں پر جہاں اس اختلاط کی حدود معین نہیں ہیں، وہاں اس سے نقصان پہنچتا ہے، جذبات خراب ہو جاتے ہیں۔
ایک جگہ اور سورہ اعراف میں بھی اس مسئلے کا ذکر آیا ہے؛ فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ وَرِثُوا الکِتابَ یَأخُذونَ عَرَضَ هذَا الاَدنی (8) یعنی قرآن میں ایک جگہ اور یہ «فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ» دہرایا گیا ہے۔ کل دو جگہوں پر ہے اور یہ دوسری جگہ ہے۔ وَرِثُوا الکِتابَ؛ انہوں نے کتاب (حقائق) کو تو لیا لیکن دنیا پرستی میں مبتلا ہو گئے؛ یَأخُذونَ عَرَضَ هذَا الاَدنی۔
یہ کچھ مشکلات ہیں اور سب سے پہلے انھیں دور کرنے کی فکر کرنا چاہئے اور آپ نوجوانوں کے اندر اس کی توانائی موجود ہے۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں سے، نوجوان طلبہ سے یہ گزارش کروں گا کہ شخصی تقوی، شخصی پرہیزگاری اور شخصی پاکدامنی کو بہت اہمیت دیجئے، ان پر توجہ دیجئے۔ قرآن کی تلاوت روزانہ کیجئے، چاہے ایک ہی صفحہ ہو، آدھا صفحہ ہو۔ قرآن کو ہر روز پڑھئے۔ قرآن سے رابطہ قائم کیجئے۔ ان دعاؤں میں بڑے عالی مضامین ہیں۔ یہ دعائیں اللہ سے آپ کے رابطے کی بنیادوں کو مستحکم کرتی ہیں۔ یہ اساسی چیز ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے عظیم قائم (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اٹھ کھڑے ہوئے۔ شروع میں وہ تنہا تھے۔ بعد میں لوگ جمع ہوئے، خواص آئے عوام آئے۔ شروع میں بھی جب امام خمینی بالکل اکیلے تھے، وہ پوری قوت سے کھڑے ہو گئے اور آخر تک یہ کہتے رہے کہ اگر سب میرا ساتھ چھوڑ دیں تب بھی میں اس راستے پر چلتا رہوں گا۔ اللہ تعالی اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے کہ اگر تم بالکل اکیلے ہو تب بھی جہاد کے لئے جاؤ، البتہ «حَرِّضِ المُؤمِنینَ عَلَی القِتالِ» (9) دوسروں سے بھی کہئے، لیکن اگر کوئی ساتھ نہ دے اور آپ اکیلے رہ جائیں تب بھی جہاد کے لئے آگے بڑھئے۔ یہ ایمان کی دین ہے۔ جب کسی کے اندر محکم جذبہ ایمانی پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اکیلے نکل پڑتا ہے اور پھر وہ مشکلات جو گوشہ و کنار میں کثرت سے موجود ہوتی ہیں، کوئی طنز کرتا ہے، کوئی کچھ کہتا ہے، کوئی مخالفت کرتا ہے، یہ ساری رکاوٹیں سر راہ ہوتی ہیں، لیکن وہ روک نہیں پاتیں۔ قرآن کی تلاوت ضرور کیجئے، دعائیں ضرور پڑھئے، صحیفہ سجادیہ پر بہت توجہ دیجئے۔ صحیفہ سجادیہ میں پانچویں دعا بڑی اہم ہے۔ صحیفہ سجادیہ کی ویسے تو ساری دعائیں بہت اچھی ہیں، لیکن اگر مجھے مشورہ دینا ہو تو میں پانچویں دعا اور بیسویں دعا کا مشورہ دوں گا جو دعائے مکارم الاخلاق کے نام سے معروف ہے۔ اس کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور واقعی اس وقت صحیفہ سجادیہ کے بڑے اچھے ترجمے ہمارے پاس موجود ہیں۔ اکیسویں دعا بھی اسی طرح بڑی اہم ہے۔ یہ دعائیں ایسے مطالب و مضامین سے پر ہیں کہ آپ کے دلوں کو بہت محکم بنا سکتی ہیں، آپ کے قدموں میں ثبات پیدا کر سکتی ہیں، پھر آپ استحکام کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بحمد اللہ ماہ رمضان کی توفیقات بھی آپ کو حاصل ہوئی ہیں۔
دوسرے حصے میں مجھے جو عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ملت ایران چاہے یا نہ چاہے ایک فیصلہ کن مقابلہ آرائی میں شامل ہو چکی ہے اور طلبہ اس مقابلہ آرائی میں ہراول دستے کا جز ہیں۔ اس پیکار کی وجہ یہ ہے کہ ملت ایران خود مختار رہنا چاہتی ہے، اپنے وقار کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، اپنے وسائل کو خود اپنے ہاتھوں سے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اگر یہ سب کچھ انجام پا گیا تو ایران دنیا میں ایک نئی طاقت بن کر ابھرے گا، جس کی خاص فکری روش ہوگی اور خاص پالیسیاں ہوں گی۔ یہ چیز دنیا کی توسیع پسند طاقتوں کے مفادات سے تصادم رکھتی ہے۔ اس لئے یہ طاقتیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ یہیں سے لڑائی شروع ہوتی ہے۔ یہ جو الزام لگائے جاتے ہیں کہ 'اسلامی نظام تو ہر کسی سے جنگ ہی کرنا چاہتا ہے، یہ لوگ ملک کو چین کا سانس لینے اور کچھ کرنے کا موقعہ ہی نہیں دیتے،' یہ الزامات بالکل سطحی اور بغیر سوچے سمجھے کئے جانے والے تبصرے ہیں۔ یہ الزام صحیح نہیں ہے، بالکل غلط بات ہے۔ ممکن ہے آج کسی حکومت مثلا امریکی حکومت کی پالیسی کا تقاضا یہ ہو کہ اسلامی جمہوری نظام کے عمائدین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے کہے کہ یہ اچھے ہیں اور وہ برے ہیں، لیکن جب اس حکومت کو موقع ملے گا تو ان کو بھی جنھیں آج وہ اچھا کہہ رہی ہے، برا ہی سمجھے گی۔ اس کو سب ذہن نشین کر لیں۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کا نام رہے گا اور اسلامی جمہوریہ کی امنگوں اور اہداف کا ذکر رہے گا، عالمی طاقتوں کے مزاج پر گرانی رہے گی، وہ اس کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتی رہیں گی، تاکہ اسے وہ اپنے چنگل میں جکڑ لیں۔ جس طرح ماضی میں ہمارا ملک ان کی مٹھی میں تھا یا آج بھی دنیا کے بعض ملک ان کی مٹھی میں ہیں۔ ظاہر ہے ایران ایک اہم ملک ہے۔ اہم اقتصادی، مالیاتی، ثقافتی اور تاریخی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ یہ ملک امریکا کی مٹھی میں تھا، پہلے برطانیہ کی ہاتھ میں تھا اور بعد میں امریکا کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اس ملک کے حکمراں کا تعین وہی کرتا تھا۔ رضاخان کو برطانیہ نے اقتدار کی کرسی پر بٹھایا، محمد رضا کو وہی اقتدار میں لائے۔ 28 مرداد (مطابق 19 اگست) کی بغاوت انھیں نے کروائی۔ تعلقات اور اقتصادیات سے متعلق پالیسیوں میں ان کی گوناگوں مداخلتیں ہوتی تھیں، سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پھر وہی سب کچھ مل جائے۔ چنانچہ بعض دیگر ممالک میں انھیں اسی طرح کے اختیارات حاصل ہیں۔
آپ دیکھئے کہ ایک اسلامی ملک مصر کیمپ ڈیوڈ (10) میں شریک ہونے کے باعث دور بھگا دیا جاتا ہے، عرب تنظیم سے باہر نکال دیا جاتا ہے تو وہ جاکر اسرائیل سے، صیہونی حکومت سے رشتہ قائم کر لیتا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا یہی چاہتا تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ بھی ہمارا وطن عزیز بھی ایسا ہی ہو جائے۔ وہ جیسا چاہیں ہم ویسا ہی قدم اٹھائیں، وہ جدھر کہیں ہم اسی سمت میں چل پڑیں، کسی سے دوستی کریں، کسی سے ناراض ہو جائیں، کسی کو مال فروخت کریں، کسی کو مال بیچنے سے انکار کر دیں، جھگڑا یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ یہ قوم اپنی غیرت قومی کی بنا پر، اپنے شاندار ماضی کی بنیاد پر، اپنے تشخص کی بنیاد پر اور اسلام کے احکامات کے تناظر میں ثابت قدمی سے اپنے راستے پر ڈٹی ہوئی ہے! یہی جدوجہد ہے۔ یعنی ایک محاذ آرائی ہے، اسلامی جمہوری نظام سے یہ لڑائی ہر حال میں جاری رہے گی۔ جب تک اسلامی جمہوریہ ہے یہ مقابلہ بھی چلتا رہے گا۔
یہ جدوجہد تبھی ختم ہوگی جب دو میں سے ایک صورت حال پیدا ہو جائے؛ یا تو اسلامی جمہوریہ اتنی طاقتور اور مستحکم بن جائے کہ اپنی بات منوا لے اور فریق مقابل کے پاس تعرض کی ہمت نہ رہے، ہم اسی کوشش میں ہیں، دوسری صورت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنی شناخت کو ختم کر دے، صرف ایک بے جان سی ظاہری شکل باقی رہے، صرف نام رہ جائے مشمولات ختم ہو جائیں۔ دوسرے ملکوں کی طرح جو کہنے کو اسلامی جمہوریہ ہیں مگر اسلام کا وہاں نام و نشان تک نہیں ہے۔ یہی دو راستے ہیں، کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ لڑائی ناگزیر ہے، یہ مقابلے کا میدان ہے۔
اس میدان کارزار میں ان کا پہلا نشانہ خود اسلامی نظام ہے، اسلامی نظام ان کے حملوں کی آماجگاہ ہے۔ بقیہ مسائل، ذیلی اور فروعی ہیں۔ اصلی نشانہ اس نظام کی اصلی ماہیت و تشخص کی تشکیل کرنے والے عناصر ہیں۔ البتہ میں نے بارہا نظام کی حفاظت کے بارے میں بات کی ہے؛ یہ جو امام خمینی نے فرمایا کہ نظام کی حفاظت 'اوجب الواجبات' میں سے ایک ہے یا 'اوجب واجبات' ہے (11)، تو بعض یہ سمجھتے ہیں کہ نظام سے مراد یہی موجودہ سیاسی ڈھانچہ ہے، جس کی ہمیں ہر قیمت پر حفاظت کرنا ہے۔ صرف یہی مراد نہیں ہے، نظام صرف یہ سیاسی ڈھانچہ نہیں ہے جس کے کچھ خاص اہداف و مقاصد ہیں۔ نظام کی حفاظت کا مطلب ہے ان تمام اقدار کی حفاظت کہ اسلامی نظام جن کے تئیں خود کو پابند سمجھتا ہے؛ جیسے انصاف، پیشرفت، روحانیت، علم، اخلاقیات، جمہوریت، قانون کی بالادستی، اہداف پر نظر، اعلی مقاصد پر توجہ، یہ سب اسلامی نظام کے عناصر ترکیبی ہیں۔ اعلی اہداف و مقاصد سے عاری اسلامی نظام بالکل ایک سطحی شکل ہوگی۔ طلبہ کی صنف جو کسی بھی قوم کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا نچوڑ ہوتی ہے، کیونکہ وہ نوجوان ہوتی ہے، علم سے آراستہ ہوتی ہے، مستقبل اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، ریاست کا مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لہذا یہ صنف اس مقابلہ آرائی سے کنارہ کشی نہیں کر سکتی ہے۔ اسے جدوجہد کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جدوجہد کے راستے میں کچھ مشکلات بھی ہیں، بے شک بڑی مشکلات ہیں، ان مشکلات کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ انواع و اقسام کی مشکلات ہیں۔ جن برادران و خواہران گرامی نے یہاں ابھی تقریریں کیں انھوں نے بہت سی مشکلات کا ذکر کیا۔ ان میں بعض مشکلات بہت بڑی ہیں اور ملکی سطح پر زیر بحث ہیں۔ ان مشکلات کو برطرف کرنا ملک کے اعلی رتبہ حکام کی ذمہ داری ہے۔
جو اعتراضات آپ کرتے ہیں ان میں بعض تو صحیح ہیں لیکن بعض اعتراضات صحیح نہیں ہیں۔ احباب نے جو نکات بیان کئے ان میں سے بعض کو میں نے نوٹ کر لیا ہے۔ خود یہ بیان، اعتراض اور مطالبہ بھی اپنے آپ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ مطالبہ اور اعتراض کرنے کی اس روش کو ترک نہ کیجئے، مطالبہ کرنے کی یہ عادت بہت اچھی ہے۔ مشکلات کا حل اسی میں مضمر ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیسے حل کیا جائے، اس کا کیا حل ہو سکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ خود یہ اعتراض اور مطالبہ بھی علاج ہے، اگر وقت رہا تو میں ان شاء اللہ اس کی تشریح کروں گا۔
بعض اعتراضات ایسے تھے جو صحیح نہیں تھے۔ مثال کے طور پر پیٹرولیم کے شعبے کے یہ نئے معاہدے جو زیر بحث ہیں۔ ابھی اس سلسلے میں کچھ بھی منظور نہیں ہوا ہے۔ ابھی کوئی بھی چیز حتمی شکل تک نہیں پہنچی ہے۔ جب یہ موضوع اٹھا تو میں نے حکام کو کچھ انتباہات دئے۔ میں نے کہا کہ اس قسم کے معاہدوں کی خامیوں اور نقائص کو سمجھنا ہے تو آپ آئل بیسڈ اکانومی کے ماہرین سے مشاورت کیجئے۔ انھوں نے جاکر گفتگو کی۔ ایک اجلاس منعقد کیا گیا اور اس میں بعض ماہرین اقتصادیات کو بلایا گيا، انھوں نے ان معاہدوں کی خامیاں گنوائیں۔ طے پایا کہ اس معاہدے کی اصلاح کی جائے۔ مجھے بھی ایک تحریر دی گئی۔ ہم نے بھی جائزہ لیا، تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سمجھوتے کے اس ماڈل کا سولہ دفعہ جائزہ لیا جا چکا ہے اور بار بار اس میں اصلاحات کی جا چکی ہیں، تصحیح ہو چکی ہے۔ جب ہمارے دفتر کو معاہدے کا ماڈل پیش کیا گیا تو ہمارے دفتر نے کہا کہ اتنی اصلاحات کافی نہیں ہیں، مزید اصلاح کی ضرورت ہے۔ ابھی وہ اصلاحات نہیں ہوئی ہیں۔ بنابریں جب تک یہ اصلاحات نہیں ہو جائیں گی اور حقیقی معنی میں یہ کام انجام نہیں پا جائے گا اور معاہدہ ملکی مفادات کے مطابق نہیں ہو جائے گا، یہ معاہدہ کسی بھی ملک سے نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے کہہ دیا ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حتمی شکل تک نہ پہنچ جائے کوئی معاہدہ نہ کیا جائے۔ اتفاق سے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اجلاس میں (12) جن لوگوں نے تقریریں کیں ان میں وہ محترم شخصیت بھی تھی جو حکومتی عہدیداروں کی اس میٹنگ میں بھی موجود تھی۔ انھوں نے یہاں اس اجلاس میں اپنے نظریات بیان کئے جو واقعی بہت مدلل اور ٹھوس نظریا تھے۔ انھوں نے معاہدوں کے اس ماڈل کی خامیوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس کے لئے کچھ حل بھی پیش کئے، جو تحریری طور پر بھی پیش کیا گیا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کسی بھی طرح کا معاہدہ کر لینے کی چھوٹ دے دی جائے گی۔ نہیں، تاہم آپ کی طرف سے مطالبہ کیا جانا بہت اچھی بات ہے۔ آپ مطالبہ ضرور کیجئے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسرے بھی متعدد شعبے ہیں۔ مثال کے طور پر استقامتی معیشت سے متعلق کام ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سڑکیں ٹھیک کرنے کے بجائے ہوائی جہاز کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے۔ یعنی یہ اعتراض ہمیں بھی ہے۔ البتہ آپ یہ ذہن نشین کر لیجئے، میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ رہبر انقلاب کی جانب سے مختلف حکومتی اداروں کے تمام فیصلوں میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ رہبر انقلاب بار بار کہے کہ یہ کیجئے، وہ نہ کیجئے! ایسا ممکن نہیں ہے۔ نہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ عقل و منطق اس کی اجازت دیتی ہے۔ اداروں میں عہدیداران موجود ہیں۔ اگر کسی عہدیدار نے کسی مسئلے میں کوئی غلطی کر دی، کوئی غلط کام انجام دے دیا تو یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وضاحت طلب کرے۔ یا اگر غلط کام ہے تو خود حکومت اس کا باریکی سے جائزہ لے، صدر مملکت اس کا سد باب کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ اتنے سارے اجرائی ادارے ہیں اور ہر ادارہ گوناگوں امور میں فیصلے کر رہا ہے تو رہبر انقلاب دائمی طور پر تمام فیصلوں پر نظر رکھے کہ کون سا فیصلہ ٹھیک ہے اور کون سے غلط ہے، پھر فورا ٹوکے کہ جناب یہ صحیح ہے، وہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ خلاف قانون بھی ہے اور ممکن بھی نہیں ہے، معقول اور منطقی بھی نہیں ہے۔ رہبر انقلاب پر مداخلت کی ذمہ داری وہاں ہے جہاں کوئی ایسا کام انجام پائے جو اسلامی نظام کے رخ اور سمت کو تبدیل کر دینے والا ہو۔ ایسی صورت میں رہبر انقلاب کی ذمہ داری ہے کہ میدان میں آئے اور جس طرح بھی ممکن ہو اس کا سد باب کرے اور وہ کام نہ ہونے دے، خواہ وہ کوئی جزوی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔
میں نے اسی مہینے کے اوائل میں (13) اسلامی نظام کے عہدیداران کے اجلاس میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی اور خاص طور پر دو باتوں کی نشاندہی کی۔ مثال کے طور پر کاربن فائیبر کے بارے میں امریکی چاہتے تھے کہ ایک خاص طریقے سے کام کیا جائے۔ اس اجلاس میں ایٹمی توانائی کے ادارے کے عہدیداران بھی تھے، میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہرگز اس مطالبے کو نہ مانیں! یہ ویسے تو جزوی چیز تھی لیکن مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کسی جزوی اور فروعی مسئلے میں بھی دباؤ میں آ جانا، امریکیوں کا جبری مطالبہ قبول کرنے کے مترادف ہے، یہیں سے انحراف کا آغاز ہوتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فروعی مسئلہ بھی ہو تو ہم مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل میں جو اسلامی نظام کی پیش قدمی کے کلی عمل کو منحرف کر سکتے ہیں، مشکلات پیدا کر سکتے ہیں، رہبر انقلاب کا فریضہ ہے کہ فورا وارد میدان ہو اور اللہ کی توفیق اور مدد رہی تو ہم ضرور وارد ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہر مسئلے میں رہبر انقلاب کہے کہ ایئربس سے طیارے خریدئے یا نہ خریدئے۔ البتہ میں نے انتباہ دیا تھا، وزیر ٹرانسپورٹ کو بھی اور صدر مملکت کو بھی، مختلف اجلاسوں میں کہا تھا۔ ہم نے کہا ہے، متنبہ کر دیا ہے، لیکن آگے بڑھ کر روک دیں! تو یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔
بہرحال استقامتی معیشت کے سلسلے میں بہت سے کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ ہمارا دفتر مستقل طور پر کاموں کی نگرانی کر رہا ہے۔ اللہ تعالی مدد فرمائے کہ یہ کام انجام پا سکے اور مصروف کار افراد آگے بڑھ سکیں۔ اس سے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ میں حکومتی عہدیداران سے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر آپ کامیاب ہوتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ اگر حکومت استقامتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ اگر حکومت استقامتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اسلامی نظام کے لئے ایک افتخار ہوگا، رہبر انقلاب کے لئے بھی ایک افتخار ہوگا، قوم کے لئے اور سب کے لئے یہ فخر کی بات ہوگی۔ ہم دعا کر رہے ہیں اور مدد بھی کریں گے کہ آپ کامیاب ہوں۔ محنت کریں تاکہ کامیابی ملے۔
میں آپ سے یہ عرض کر رہا تھا کہ جدوجہد میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔ بعض مشکلات ملک کے بنیادی امور سے متعلق ہوتی ہیں اور انھیں برطرف کرنا عہدیداران کی ذمہ داری ہوتی ہے، ان کا فرض ہوتا ہے کہ ان مشکلات کو دور کریں۔ اب اس کے لئے وہ سفارتی روش استعمال کریں یا ثقافتی طریقے آزمائیں، یا عوامی سفارت کاری کے ذریعے یہ کام انجام دیں، خوش قسمتی سے عوامی سفارت کاری کے معاملے میں اسلامی جمہوریہ کے ہاتھ بہت کھلے ہوئے ہیں، یا پھر اندرونی سرگرمیوں کے ذریعے، جیسے معیشت کو تقویت پہنچانا، عسکری ساز و سامان کی جدیدکاری کرنا وغیرہ۔ یہ بہت بنیادی چیلنجز ہیں جن کو حل کرنا عہدیداران کی ذمہ داری ہے، حکام کو اس کی فکر میں رہنا چاہئے۔ بعض مشکلات ملک کی اندرونی مشکلات ہیں۔ مثال کے طور پر طلبہ کی مشکلات و مسائل ہیں، بے شک یہ مشکلات موجود ہیں، جن کا ذکر ابھی کیا گیا یہ مشکلات موجود ہیں، تاہم یہ مشکلات خود انھیں اداروں کی سطح پر حل ہونی چاہئے، یعنی ان کا حل خود طلبہ کو تلاش کرنا چاہئے۔ ہم ملک کے عہدیداران کو اور یونیورسٹیوں کے عہدیداران کو انتباہات دیں گے، آج بھی میں نے کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں جو بیان کرنا ہے، البتہ معلوم نہیں کہ وقت میں اتنی گنجائش ہوگی یا نہیں اور ویسے بظاہر تو گنجائش نہیں ہوگی (14)، ابھی معلوم نہیں ہے، افطار کے بعد اگر ہمت پڑی تو میں آؤں گا اور مزید بیٹھوں گا، تھوڑی دیر اور گفتگو کروں گا، اگر ہمت نہ ہوئی تو پھر نہیں (15)، طلبہ یونینوں اور طلبہ تنظیموں کو چاہئے کہ ان مسائل کو حل کریں۔ یہ مشکلات پیش آتی ہیں اور انھیں حل کیا جانا چاہئے، حکام کو چاہئے کہ مدد کریں، ساتھ دیں۔
البتہ وہی باطنی قوت اور ایمان کی طاقت جس کے بارے میں شروع میں میں نے گفتگو کی، یہاں کام آئے گی۔ یعنی اگر آپ جلدی ناامید ہو گئے، جلدی تھک گئے تو پھر کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مایوس نہ ہوئیے، بلکہ آگے بڑھئے۔ آپ غور کیجئے! یہ انقلاب ایک طویل جدوجہد کی بنیاد پر شروع ہوا۔ سنہ 1978 اور 1979 میں جو واقعات پیش آئے اور عوام کا ایک عظیم سیلاب میدان میں امڈ پڑا تو یہ اسی لمحہ یکبارگی رونما ہو جانے والا واقعہ نہیں تھا، برسوں پہلے سے، 1962 سے اس کے لئے کام ہو رہا تھا، محنت اور جدوجہد کی جا رہی تھی، یہ آسان کام نہیں تھا، یہ کام کرنے والے گوناگوں مشکلات سے روبرو ہوتے تھے، جیلوں میں ڈالے جاتے تھے۔ ابھی ہمارے ایک برادر عزیز نے یہاں کہا کہ اگر کسی نے آپ کے موقف کے خلاف کچھ بول دیا تو اسے عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں! ایسا نہیں ہے، میرے موقف کے خلاف بیان دینا نہ تو جرم ہے، نہ اس پر مواخذہ ہوتا ہے۔ میں نے خود یہ بات بارہا کہی ہے۔ لیکن اس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں کسی پولیس اہلکار کے خلاف بولنے والے کو بھی جیل ہو جاتی تھی۔ کسی تھانہ انچارج کے خلاف بیان دینے والا بے شمار دشواریوں میں پڑ جاتا تھا تو پھر حکومت کے خلاف اسلامی اصولوں اور ضوابط کو بیان کرنے کی بات ہی الگ تھی۔ یہ کام بہت دشوار تھا، جیل جانا پڑتا تھا، سختیاں اٹھانی پڑتی تھیں، محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی تھیں، محرومیت برداشت کرنی پڑتی تھی، لیکن پھر بھی لوگوں نے جدوجہد کی، مقابلہ کیا، اس مجاہدت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ 1978 اور 1979 میں ایک چنگاری اٹھی اور پوری قوم میدان میں اتر آئی۔ لہذا اگر آپ نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا، اگر ماحول سازی کی ہے، ذہن سازی کی ہے تو ضرورت کے وقت یہ ساری محنتیں آپ کے کام آئیں گی۔ یعنی آپ عوام کے ذہنوں کو کسی خاص سمت میں موڑ سکتے ہیں تاکہ وہ اس چیز کا مطالبہ کریں۔ جب عوام مطالبہ کریں گے تو حکام بھی انجام دینے پر مجبور ہوں گے۔ تو استقامت بہت ضروری ہے۔ ہم طلبہ سے متعلق امور میں سرگرم عمل رہنے والے افراد کو استقامت کی سفارش کرتے ہیں، جو لوگ طلبہ کے درمیان سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، ان کے اندر استقامت ہونا بہت ضروری ہے، ان کا محکم ہونا لازمی ہے۔ مجھے کچھ سفارشات کرنی ہیں لیکن چونکہ یہ طے پایا ہے کہ اب افطار کے بعد اگر ہمت پڑی اور آپ کے اندر بھی حوصلہ رہا تو بیان کروں گا، لہذا ان سفارشات کو ابھی نہیں چھیڑوں گا (16)۔
پالنے والے محمد و آل محمد کا صدقہ ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں، جو کچھ سنتے ہیں، جو بھی عمل کرتے ہیں اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ (17)

نماز مغرب و عشا اور روزہ افطار کرنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی دوسرے مرحلے کی تقریر؛

بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے اندر طلبہ کا وجود ایک عظیم سرمایہ ہے۔ ہمارے ملک میں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد تقریبا پچاس لاکھ ہے۔ یہ بہترین موقع ہے۔ ملک کے تمام عہدیداران اپنی منصوبہ بندی میں، مستقبل کے پروگراموں میں اس موضوع کو ضرور مد نظر رکھیں؛ پچاس لاکھ طالب علم۔ اس تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ یعنی فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، اب ان کو روزگار مل پاتا ہے یا نہیں مل پاتا، بہرحال وہ سماج میں قدم رکھتے ہیں اور نئے افراد یونیورسٹی طلبہ کی صنف کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ بہت اہم اور مثبت پہلو ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے، جیسے کہ ان نوجوانوں نے بھی انتباہ دیا کہ ہماری قوت کا پہلو دشمن کے حملوں کا جاری رہنا ہے۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام کے دشمن یقینا طلبہ کی صنف کے سلسلے میں اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، ان کے پروگرام موجود ہیں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کا جائزہ لینا اور منصوبہ بندی و اقدام کرنا ہے۔ کچھ فرائض طلبہ پر عائد ہوتے ہیں اور کچھ فرائض عہدیداران کے دوش پر ہیں، ان میں سے کچھ فرائض میں نے جو نوٹ کئے ہیں یہاں بیان کروں گا۔
آپ طلبہ یونینوں کے ارکان ہیں۔ البتہ میں یہ بھی عرض کر دوں، ویسے میں یہ وزارت علوم کے محترم عہدیداران سے بھی کہہ چکا ہوں کہ انقلابی تنظیمیں اور وہ تنظیمیں جو انقلاب کے امور سے لا تعلق رہتی ہے، میرے لئے یہ دونوں یکساں نہیں ہیں۔ انقلابی تنظیموں کو تقویت پہنچانا چاہئے، ان کی مدد کرنا چاہئے، ان کی قدردانی کرنا چاہئے، ملک کے مستقبل کو وہی سنواریں گی، انقلاب کے مستقبل کی وہی ضمانت بنیں گی۔ بہرحال تنظیموں کے کچھ فرائض ہیں۔ طلبہ یونینوں کے ارکان کی دو حیثیتیں ہیں؛ ایک طالب علم کی حیثیت اور دوسرے طلبہ تنظیم کے رکن کی حیثیت۔ ان دونوں میں فرق ہے۔
میں مقدمے کے طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک میں طلبہ کی صنف کا انقلابی تحریک کے دوران بڑا اچھا اور درخشاں ریکارڈ رہا ہے۔ اوائل انقلاب سے یہی سلسلہ رہا۔ البتہ انقلاب سے پہلے بھی تحریک اور جدوجہد کے دوران طلبہ کی سرگرم شرکت رہی، لیکن انقلاب کو تیزی سے آگے لے جانے والی طلبہ کی جو طاقت نمایاں ہوئی وہ انقلاب کے بعد۔ اس سلسلے میں ایک مثال تعمیراتی جہاد کی تشکیل تھی۔ یہ بہت اہم کارنامہ تھا۔ خود کفائی، تعمیرات، قومی جدت عملی اور قومی خود اعتمادی کی سب سے پہلی جھلک تعمیراتی جہاد میں ہی نظر آئی۔ بہت سی یادیں میرے ذہن میں ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران طلبہ کے اسی اجلاس میں میں نے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کچھ یادوں کا ذکر بھی کیا ہے، لہذا میں وہ دہرانا نہیں چاہتا، وقت بھی زیادہ نہیں ہے۔ تو بہت کام ہوا۔ تعمیراتی جہاد میں طلبہ شریک تھے، یونیورسٹی جہاد میں ان کی شمولیت تھی، اوائل انقلاب میں یونیورسٹیوں کو انقلاب دشمن عناصر سے پاک کرنے میں ہمارے مومن طلبہ کا بڑا کردار رہا۔ یہی تہران یونیورسٹی جو آپ دیکھ رہے ہیں؛ اس کے مختلف کمرے، مختلف فیکلٹیاں اسلامی نظام کے خلاف مختلف ناموں سے سرگرم گروہوں کا آپریشن روم بن گئی تھیں۔ دو تین طرح کے لیفٹسٹ مارکسی گروہ، منافقین کا گروہ، اسی طرح مختلف گروہ اس یونیورسٹی میں تھے، مسلح بھی تھے، چھاونیوں کو لوٹ لیا گیا تھا، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار آ گئے تھے، وہ انقلاب کے خلاف شورش کے لئے آمادہ تھے، مگر انقلابی، مومن اور مسلمان طلبہ نے ان کا مقابلہ کیا، ان کی مخالفت کی، ان کے شر سے نجات دلائی، طلبہ کی طرف سے یہ بہت بڑی خدمت تھی۔ اسی طرح پاسداران انقلاب فورس کی رکنیت حاصل کرنا؛ پاسداران انقلاب فورس کی بہت سی عظیم شخصیتیں، یہ عظیم شہدا، در حقیقت طالب علم تھے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاسداران انقلاب فورس کے یہ سینیئر افراد جو آج بھی موجود ہیں، ان میں بہت سے وہ ہیں جو طالب علم تھے، طالب علمی کے زمانے میں پاسداران انقلاب فورس میں شامل ہو گئے تھے۔ خواندگی کی مہم میں بھی طلبہ کا اہم تعاون رہا، سنہ 1979 میں جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانہ) پر بروقت قبضہ کرنے میں بھی طلبہ کا رول رہا۔ یعنی اوائل انقلاب میں طلبہ کا کردار بہت نمایاں رہا۔ حالانکہ اس زمانے میں ملک کے طلبہ کی تعداد کا آج کی تعداد سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس زمانے میں پورے ملک میں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد دو لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ آج تقریبا پچاس لاکھ طالب علم ہیں۔ یعنی ملک کی آبادی تو تقریبا دو گنا بڑھی ہے، لیکن ملک کے یونیورسٹی طلبہ کی تعداد میں تقریبا اکیس بائیس گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ کیفیت اور معیار کے اعتبار سے بھی وہ آپ جیسے نہیں تھے۔ بے شک ان کے اندر جوش و خروش تھا، انقلابی تھے، جذبات سے بھرے ہوئے تھے، لیکن ان کی اسلامی فکر کی گہرائی اور انقلابی سوچ کا عمق آج کے طلبہ جیسا نہیں تھا۔ یعنی آج ہمارے ان بھائیوں نے جو بحث یہاں کی اس کی سطح اس سے بہت بلند تر ہے جو اس زمانے کے منتخب، چنندہ اور ممتاز انقلابی طلبہ کیا کرتے تھے۔ اسی امیر کبیر یونیورسٹی میں، جو اس وقت پالیٹیکنک کے نام سے شہرت رکھتی تھی، طلبہ کے ساتھ ہماری لگاتار کئی نشستیں ہوئیں؛ بحث کا موضوع یہ تھا کہ خط امام خمینی، امام خمینی کی لائن، کیا ایک حقیقی شئے ہے، ایسی کوئی چیز موجود ہے کہ نہیں؟ اس وقت وہ امام خمینی کے فکری نظام کا ادراک نہیں کر پا رہے تھے، تحمل نہیں کر پا رہے تھے۔ اس نشست میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا، ان میں بنی صدر بھی تھا، کچھ اور لوگ بھی تھے، تین چار طالب علم بھی تھے۔ بحث اس بارے میں تھی کہ امام خمینی کے جو فرمودات ہیں وہ ایک خاص فکری نظام کے تحت ہیں یا نہیں؟ یعنی اتنی واضح چیز کو بھی سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ آج یہ چیز آپ کے لئے بالکل واضح ہے۔ تو آج کے انقلابی طالب علم کا معیار اس زمانے کے انقلابی طلبہ کے مقابلے میں بہت بلند ہے۔
آج کے دور کی نسبت تعداد اور معیار کے اعتبار سے بڑا فرق ہونے کے باوجود وہ طلبہ بہت بڑے کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کی وجہ ان کی لگن اور جفاکشی تھی، ان کا انقلابی ایمان اور جذبہ تھا، تھکاوٹ کو قریب نہ آنے دینے کا عزم تھا، شب و روز کام کرنے کی توانائی تھی۔ ان حالات میں اس زمانے کے تھوڑے سے طلبہ اتنے عظیم کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہو گئے۔ یقینا ان کے پاس تجربہ کی بھی کمی تھی۔ آج جو تجربات آپ کے پاس ہیں، ان کے پاس نہیں تھے، لیکن پھر بھی وہ کیسے کیسے کام انجام دے لے گئے۔
اگر ہم اسی چیز کو کسوٹی قرار دیکر موازنہ کریں تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ آپ ان سے بیس تیس گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ اپنے اندر وہ محنت و لگن، وہ جذبہ عمل اور جوش و خروش قائم رکھئے اور آگے بڑھئے۔ یعنی ملک کے اندر طلبہ کی یہ صنف ایک سرمایہ ہے، بے نظیر ثروت ہے۔ البتہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پچاس لاکھ طلبہ میں جن لوگوں کے اندر یہ جذبہ ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ انقلابی تنظیموں میں شامل طلبہ اور ان تنظیموں کے باہر کچھ طلبہ انقلابی ہیں، لیکن پھر بھی ان کی تعداد اس زمانے میں میدان عمل میں موجود رہنے والے اور کام کرنے والے طلبہ سے کئی گنا زیادہ ہے، لہذا وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بعض طلبہ کنارہ کشی کئے رہتے ہیں توجہ ہی نہیں دیتے، بعض طلبہ اس روش کے مخالف ہوتے ہیں، انقلابی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود انقلابی کاموں میں یقین رکھنے والے، انقلابی راستے پر چلنے والے اور انقلابی جذبہ رکھنے والے طلبہ کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور معیار بھی بلند ہے۔ آپ ملک کے اندر بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔
البتہ اس زمانے میں جو طلبہ اس طرح کی سرگرمیوں اور خدمات میں مصروف تھے آج ان میں بہت سے افراد ملک کے محققین اور ممتاز اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آج بھی ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے بحمد اللہ اپنا وہ جذبہ ایمانی قائم رکھا ہے بلکہ اس میں مزید گہرائی پیدا کی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انقلابی سرگرمیوں کا عالم بننے، محقق بننے اور سائنسداں بننے سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ یا تو ہم انقلابی سرگرمیاں انجام دیں یا پھر جاکر سبق پڑھیں۔ ایسا نہیں ہے، میں ابھی اس کی تشریح کروں گا۔ درس پڑھنا تو آپ کے واجبات میں شامل ہے۔ اسی طرح انقلابی سرگرمیاں بھی آپ کے واجبات میں ہیں۔ دونوں کام انجام پانا چاہئے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ کی دو حیثیت اور دو شان ہے۔ ایک طالب علم ہونے کی حیثیت اور ایک طلبہ یونین کے رکن کی حیثیت۔ یہ دونوں الگ الگ حیثیتیں ہیں۔ طالب علم ہونے کی شان و حیثیت واضح ہے۔ اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو خوب درس پڑھے اور گرد و پیش کو کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھے۔
طالب علم کی یہ خصوصیت ہونی چاہئے کہ ماحول کے سلسلے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھے، ملک کے ماحول کو بھی اور طلبہ کے ماحول کو بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے، اسی طرح علاقے اور دنیا کے حالات پر بھی نظر رکھے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ جنگوں میں ایک بڑا اہم عنصر شناخت اور اطلاعات کا ہوتا ہے۔ اگر کسی فورس کے پاس شناخت و اطلاعات کی طاقت نہ ہو، سمجھنے اور پہچاننے والے عناصر نہ ہوئے تو اسے عجیب و غریب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شناخت و اطلاعات کا مطلب یہ ہے کہ آپ دشمن کی جگہ اور پوزیشنوں کا خفیہ طور پر پتہ لگا لیجئے۔ دشمن نے کہاں پوزیشنیں سنبھالی ہوئی ہیں، اس کی تیاری کیسی ہے، اس کے پاس وسائل کتنے ہیں۔ ان چیزوں کو ضرور دیکھئے تب آپ اس کی صورت حال اور پوزیشن کی بنیاد پر اس کے اوپر حملہ کر سکیں گے اور دشمن کا حملہ ہونے پر سراسیمگی سے دوچار نہیں ہوں گے۔ اگر آپ نے شناخت اور اطلاعات کا بندوبست نہ کیا تو ممکن ہے کہ آپ کے توپخانے سے گولے نکلیں لیکن دشمن کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنوں کے اوپر ہی گرنے لگیں۔ اگر آپ یونیورسٹی کی سطح پر اور ملک کی سطح پر شناخت و ادراک کا مناسب بندوبست نہیں کریں گے، اگر آپ حالات کو نہیں سمجھیں گے تو ممکن ہے کہ آپ کے دوست ہی آپ کے حملوں کی زد میں آ جائیں۔ کبھی آپ دیکھیں گے کہ دو انقلابی تنظیمیں آپس میں الجھ پڑی ہیں، ایک دوسرے پر حملے کر رہی ہیں۔ یہ حالات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ یا کسی بین الاقوامی مسئلے میں یہی صورت حال ہو سکتی ہے۔ تو طالب علم کا فریضہ یہ ہے کہ حالات کو پہچانے، دنیا اور علاقے کے حالات سے باخبر رہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کو روشن فکر ہونے کا کوئی دعویدار حزب اللہ لبنان کے بارے میں یا سید حسن نصر اللہ کے بارے میں یا اس طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں شک و شبہ ظاہر کرتا ہے تو یہ حالات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، ایسا حسن ظن کی بنیاد پر کہا جائے گا، ورنہ سوئے ظن بھی ممکن ہے ایسے شخص کے بارے میں پیدا ہو جائے۔ حسن ظن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ علاقے کے حالات سے باخبر نہیں ہے۔ اسے نہیں پتہ کے سید حسن نصر اللہ یعنی کیا اور حزب اللہ کیا ہے؟! ایران سے ان کے روابط کے ملک اور انقلاب کے مستقبل پر کیا اثرات ہیں۔ تو یہ عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ تو آپ طلبہ کے ماحول کو، ملکی فضا کو اور پوری دنیا کے حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھئے، میں نے دو تین سال قبل اسی چیز کو کہا تھا؛ «بصیرت» (18)، بعض لوگوں کو بڑی تکلیف ہونے لگی کہ صاحب آپ بصیرت بصیرت کیوں کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بصیرت ہی تو ہے۔ بصیرت کا مطلب ہے آنکھیں کھلی رکھنا۔
طالب علم کی ایک اور ذمہ داری دین و تقوی کی حفاظت ہے۔ میرے عزیزو! ہم جیسے افراد کے مقابلے آپ کے لئے دین و تقوا کی حفاظت کرنا آسان ہے۔ آپ اسے یقین جانئے! جب ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا تو اس وقت مشہد میں ایک عالم دین تھے جو ہمارے والد کے گہرے دوست تھے، بہت بوڑھے تھے، اس وقت ان کی یہی عمر رہی ہوگی جو آج ہماری ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ، ہماری نوجوانی کی عمر تھی، انھیں اچھا لگتا تھا کہ ہمیں نصیحت کریں۔ وہ کہتے تھے کہ نوجوانی کی قدر کیجئے کہ عبادت بھی نوجوانوں کی چیز ہے، بوڑھوں کی نہیں۔ ہمیں یہ سن کر تعجب ہوتا تھا، کیونکہ عام خیال کے مطابق عبادت بوڑھوں کا کام ہے۔ مگر وہ کہتے تھے کہ عبادت تو نوجوانی میں ہوتی ہے۔ اب یہ چیز سب محسوس کرنے لگے ہیں۔ دیکھئے آپ کے دل بہت جلد نرم ہو جاتے ہیں، منور ہو جاتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اللہ سے بہت جلد رابطہ قائم کر لیتے ہیں، یہ موقع غنیمت ہے۔ آج ملک کی نوجوان نسل میں روحانیت و معنویت کی جانب جو رجحان پایا جاتا ہے، بہت گراں قدر ہے۔ راتوں کی عبادتیں، یہ توسل کی مجلسیں، یہ اعتکاف، یہ دعائے کمیل، دعائے ابو حمزہ، نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد، آنکھوں سے بہتے ہوئے یہ آنسو، یہ خالق یکتا کی جانب توجہ، اس کی بڑی قیمت ہے۔ آپ اس کی حفاظت کیجئے، یہ بے حد اہم چیزیں ہیں۔ اس کی قدر و قیمت صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ یہ پورے ملک کے لئے بہت قیمتی چیز ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب مومن انسان اور اس کا دل باور کر لیتا ہے تو پھر؛ «قالوا هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ مازادَهُم اِلّآ ایمانًا وَ تَسلیمًا» (19)، میدان جنگ میں توپ کے گولے کی طرح اس شخص کے دل پر جاکر لگتا ہے جو نشانے پر ہے، یہ ایمان اور اللہ سے رابطے کا نتیجہ ہے۔
دشمن کے ابلاغیاتی نیٹ ورک کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنا؛ یہ بہت ضروری ہے کہ دشمن میڈیا کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جائے۔ آج ہمارے دشمن جن میدانوں میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں ان میں ایک میڈیا ہے۔ اس پر وہ بہت کچھ خرچ کر رہے ہیں۔ پیسہ خرچ کرتے ہیں، ماہرین کو لاتے ہیں، یہ انھیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے، یہ سب کچھ کس کے حلاف ہے؟ اسلامی جمہوریہ کے خلاف۔ بنیادی طور پر اس ابلاغیاتی مہم کا نصب العین ہی یہ ہے کہ ان پہلوؤں پر کام کریں جن کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کو شکست دی جا سکے۔ مثال کے طور پر مایوسی پھیلانا ہے، خامیاں نکالنا، کمزوریوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ کامیابیوں اور مثبت پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کر دینا۔ میں نے آج اخبار میں پڑھا، ویسے اس کی بالکل مصدقہ اطلاعات تو نہیں ہیں لیکن میں نے اخبار میں پڑھا کہ برطانیہ کا افواہیں پھیلانے والا ادارہ (20)، کل کی ریلیوں کو جو واقعی بڑی حیرت انگیز چیز تھی، حالیہ برسوں میں جب یوم القدس شدید گرمی کے موسم میں پڑتا ہے، ان طولانی دنوں میں، گرمی کے عالم میں روزہ رکھ کر ریلیوں میں عوام کی شرکت واقعی بڑی حیرت انگیز چیز ہے، تہران اور دیگر علاقوں میں اتنے بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت کا ذکر نہیں کرتا۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں تھی۔ یہ لوگ تو چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بھی اتنی کوریج دیتے ہیں، اتنی بڑی خبر کو کوریج نہیں دے رہے ہیں! یہ میڈیا کی سیاست ہی تو ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی منفی بات ہوتی تو اسے وہ سو گنا بڑھا کر پیش کر دیتے۔ تو یہ ایک بنیادی اصول ہونا چاہئے کہ دشمن کے میڈیا کو خواہ وہ ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا سائیبر اسپیس کی چیزیں، ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ آپ یقین رکھئے کہ یہ ادارے خوب جھوٹ بولتے ہیں۔ غیر ملکی خبروں کی جہاں تک میں اطلاع رکھتا ہوں، وہ خبریں جو ان میدانوں سے متعلق ہوتی ہیں جن کی مجھے قریب سے اطلاعات ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ نوے فیصدی خبریں جھوٹی ہوتی ہیں! جھوٹ، جعلسازی، چھوٹے جھوٹ، بڑے جھوٹ کسی چیز میں انھیں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ اسے آپ بخوبی سمجھ لیجئے، میری نظر میں روشن فکر طلبہ کا یہ فریضہ بھی ہے۔ یہ چیزیں ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے خود آپ کی شخصیت سے تعلق رکھتی ہیں، آپ کو ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
طلبہ تنظیم کے رکن کی حیثیت سے بھی آپ کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، یہ ذرا بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ آج کی گنجلک سیاسی فضا، تہہ در تہہ سیاسی ماحول بہت پیچیدہ ہے، اس کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ یہ انیس سو اسی کے عشرے والے حالات نہیں ہیں۔ اس وقت تو صاف ظاہر تھا؛ ملک کے مغربی حصے میں اور جنوبی حصے میں ایک جنگ جاری تھی، ایک دشمن نے حملہ کیا تھا، ذمہ داری بھی بالکل عیاں تھی، واضح تھا کہ سب آگے بڑھیں اور اپنا فریضہ ادا کریں، ہر کوئي اپنے طریقے سے۔ تہران میں بھی اگر کہیں علم بغاوت بلند ہوتا تھا تو خود عوام اسے مغلوب کر لیتے تھے کہ ایک طرف جنگ چل رہی ہے اور تم یہاں یہ حرکتیں کر رہے ہو۔ فوجی لڑائی اسی طرح کی ہوتی ہے۔ امریکیوں اور دوسروں کو بھی اس کا تجربہ ہے، اسی لئے اسلامی جمہوریہ کے خلاف عسکری تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرتے، ایسی کارروائی نہیں کرتے۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر فوجی ٹکراؤ ہو گیا تو ملک کے خلاف انھوں نے ثقافتی حملوں اور سیکورٹی کے مسائل سے متعلق جو منصوبے بنا رکھے ہیں وہ سب نقش بر آب ہو جائیں گے۔ اس وقت کی منصوبہ بندی بڑی پیچیدہ ہے۔ اس کا سیکورٹی پہلو بھی ہے، ثقافتی پہلو بھی ہے، اقتصادی پہلو بھی ہے اور سیاسی پہلو بھی ہے۔ منصوبے کے تمام حصے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ انھوں نے سیکورٹی کے شعبے سے متعلق سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ خطرات ہیں۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے فکر و تدبر کی ضرورت ہے، تعقل کی ضرورت ہے، توجہ کی ضرورت ہے، مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان بس آنکھ بند کرکے حملے کرنا شروع کر دے۔ ایسی صورت میں ان یونینوں اور تنظیموں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب اور بھی تنظیمیں ہیں جن کی سوچ اور طرز فکر انقلابی و دیندار تنظیموں سے مماثلت نہیں رکھتا۔ مجھے بھی معلوم ہے اور ان برادر عزیز نے بھی یہاں اس کا ذکر کیا کہ اس جلسے میں طلبہ کے تمام نظریات کا انعکاس نہیں ہوا ہے۔ ایک حد تک ان کی بات درست بھی ہے۔ یہ جلسہ انقلابی تنظیموں کا ہے۔ البتہ جو باتیں انھوں نے بیان کیں ان سے ثابت ہوا کہ یہ کہنا پوری طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ خود ان کی رائے ایک مخالف رائے تھی اور یہاں پیش کی گئی۔ میں نے شکریہ بھی ادا کیا، ہم مخالفین کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح پیش آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس صورت حال کا سامنا کرنے میں بڑی پیچیدگیاں ہیں، اس کی کئی تہیں ہیں، لہذا توجہ کی ضرورت ہے۔
میں طلبہ کی تنظیموں کو پہلی سفارش یہ کروں گا کہ آپ موجود رہئے، حاضر رہئے۔ یہاں مراد صرف جسمانی طور پر حاضر رہنا نہیں ہے، جسمانی طور پر موجود رہنے کے علاوہ فکری طور پر، اظہار خیال اور بیان کے طور پر، اس کی میں ابھی تشریح کروں گا، جب ملکی مسائل کے سلسلے میں ضرورت پڑے تو جسمانی طور پر بھی سامنے آیا جائے۔ یعنی ملک کے اہم مسائل کے بارے میں آپ کا موقف انقلاب کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو معلوم ہونا چاہئے۔ کیونکہ اگر سب کو پتہ نہیں ہوگا تو نتیجے کے طور پر یہی ہوگا کہ مثلا ایک یورپی یا امریکی نامہ نگار ایران آئے گا اور واپس جاکر جان کیری کو رپورٹ دے گا اور پھر وہ فرمائیں گے، ابھی دو تین دن پہلے ہی انھوں نے بیان دیا ہے کہ ایران کے دورے کرکے آنے والے مجھے اطلاع دے رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان کافی شاپ میں بیٹھتے ہیں، کافی پیتے ہیں اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں، واہ کن خیالوں میں ہیں یہ حضرت! (21)۔ انھوں نے کتنے کافی شاپ دیکھے ہیں اس کی مجھے اطلاع نہیں ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ بیس یا تیس کافی شاپ انھوں نے دیکھے ہوں گے۔ کافی شاپ کا مطلب یہی قہوہ حانے ہیں، کافی شاپ تقریبا قہوہ خانے کا تحت اللفظی ترجمہ ہے، لیکن بعض لوگ قہوہ خانہ کہنے سے بچتے ہیں اور اس کا نام رکھ دیتے ہیں کافی شاپ۔ کچھ نوجوان ان قہوہ خانوں میں گئے ہوں گے اور انھوں نے مثال کے طور پر رہبر انقلاب، امام خمینی اور انقلاب کو برا بھلا کہا ہوگا اور اس تمنا کا اظہار کیا ہوگا کہ ایک دن یہ نظام تبدیل ہو جائے۔ ان قہوہ خانوں میں جہاں یہ جضرت تشریف لے گئے ہوں گے اور پھر جاکر وزیر خارجہ کو رپورٹ دی ہوگی ان میں مجموعی طور پر سو ڈیڑھ سو لوگ اس طرح کے رہے ہوں گے۔ وزیر خارجہ بھی پھولے نہیں سمائے اور انھوں نے ایک رپورٹ میں کسی سرکاری ادارے کو یہ بتایا، ابھی دو یا تین دن پہلے کی بات ہے، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بات اعلانیہ طور پر کہی اور اسے دنیا بھر میں نشر بھی کیا گيا۔ اس کے مقابلے میں جب ہزاروں مومن و مسلمان طلبہ کسی ایسے موضوع کے بارے میں جس پر وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں، اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں تب آپ دیکھئے کہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔ بے شک وہ اپنی زبان سے اس کا ذکر تو نہیں کریں گے، بیان نہیں کریں گے لیکن ان کی سمجھ میں ضرور آ جائے گا۔ جو لوگ شکایت کرتے ہیں کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ انقلاب کی خبروں کا ذکر نہیں کرتے، میں نے ان سے بارہا کہا کہ جن لوگوں تک یہ حقائق پہنچنا چاہئے پہنچ جاتے ہیں اور وہ بخوبی سمجھ بھی جاتے ہیں۔ امریکی صدر کو یقینا اس کی خبر پہنچتی ہے، امریکا کے وزیر خارجہ کو یقینا اس کا علم ہوتا ہے۔ امریکا کی خارجہ تعلقات کی کونسل کو یقینا یہ خبر پہنچتی ہوگی۔ پالیسی ساز اداروں کو یقینا اس کی اطلاع پہنچتی ہوگی۔ جب مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں آپ ایک موقف اختیار کرتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں، یا مثال کے طور پر امریکا سے تعلقات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، یا استقامتی معیشت کے بارے میں اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں، ملک کے مستقبل کے بارے میں اپنا نظریہ ظاہر کرتے ہیں تو یہی نظریہ انقلابی نظریہ ہوتا ہے، یہی محکم اور مدلل موقف ہوتا ہے جس کا دشمن کے عزائم پر اثر بھی پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نرم جنگ کے کمانڈر ہیں اور یہ ساری چیزیں نرم جنگ کے لوازمات میں آتی ہیں۔ یہی تو نرم جنگ ہے۔ نرم جنگ میں انسان کو ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہنا چاہئے، اقدامی رخ بھی اختیار کرنا چاہئے۔ یہ حملہ ہے، یہ بھی فرائض میں شامل ہے۔ یہ فکری موجودگی ہے، آپ کا موقف واضح ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات آپ کا موقف حکومت کی پالیسی کے خلاف ہو اور یہ خیال آئے کہ کیا کریں کہ حکومت کی مخالفت نہ ہو تو اس کا حل موجود ہے۔ اگر وقت ملا تو وہ حل بھی بتاؤں گا۔ بہرحال انقلابی موقف کا اظہار ضروری ہے۔
البتہ موقف کے اظہار میں چند نکات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی بات مدلل ہو۔ مثال کے طور پر ان دنوں تیل کے معاہدوں کے بارے میں بات ہوئی، استقامتی معیشت کے بارے میں بات ہوئی، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے عہدیداران کی تنخواہ چھپانے کے بارے میں بات ہوئی، تو یہ باتیں درست نہیں تھیں، اطلاعات صحیح نہیں تھیں۔ آپ اگر اعتراض کرتے ہیں تو میں اس کی حمایت کرتا ہوں، لیکن جو بھی اعتراض ہو وہ بالکل صحیح ہونا چاہئے جبکہ یہ اعتراض صحیح نہیں تھا۔ یعنی آپ کو اس کی اطلاعات نہیں ہیں۔ یا اسی طرح ایک صاحب نے رہبر انقلاب کے زیر نگرانی اداروں کی بات کی، حالانکہ زیر نگرانی اداروں کے بجائے رہبر انقلاب سے وابستہ ادارے کہنا بہتر ہے، جیسے مستضعفین فاؤنڈیشن، یا اجرائی کمیشن برائے فرمان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں بات ہوئی، تو میری تجویز یہ ہے کہ طلبہ کی ٹیمیں بنیں اور ان اداروں کا دورہ کریں، جاکر دیکھیں! ان اداروں نے بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، بڑے اہم کام انجام دئے ہیں۔ اگر آپ وہاں ہوتے تو وہی کام کرتے جو وہ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو کسی ادارے کا کوئی ایک کام پسند نہ آئے یا اس کی وجہ آپ کو معلوم نہ ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ادارے بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ان کے اچھے کاموں کی آپ کو اطلاع ہونی چاہئے۔ تو آپ جو بھی موقف اختیار کریں، مدلل اور محکم ہونا چاہئے، اس میں کوئی نقص نہ نکال سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اظہار خیال اور موقف کا بیان بروقت ہونا چاہئے۔ کبھی کسی چیز کے بارے میں کسی موقع پر موقف کا اعلان اچھا ہوتا ہے لیکن ایک دن بعد مناسب نہیں رہتا، یعنی عبث ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات تو مضر بھی ہو جاتا ہے۔ تو آپ خیال رکھئے کہ موقف کا اظہار بروقت ہو۔
آپ کا تجزیہ عوام کے علم میں آنا چاہئے۔ طلبہ کے یہ جرائد بہت اچھی چیز ہے۔ البتہ اس صورت میں کہ وہ ان شرائط کے پابند ہوں جن کا ذکر تنظیم کے ان محترم سربراہ نے کیا۔ ان جرائد میں آپ کے دلائل شائع ہوں تا کہ عوام انھیں پڑھیں۔ یعنی واقعی طلبہ کے تجزیوں سے عوام کو باخبر کرایا جائے۔ اس کا ایک آسان راستہ میرے خیال میں یہ ہے کہ نماز جمعہ کے خطبوں سے پہلے ہونے والی تقریروں میں جگہ دی جائے۔ جو طلبہ تقریریں کر سکتے ہیں ان کی حمایت کی جائے، مدد کی جائے، اچھا متن تیار کیا جائے، جاکر نماز جمعہ کے خطبوں سے پہلے پڑھیں۔ اس موقع پر حکام کی تقاریر ہوتی ہیں، تو اسی کا ایک حصہ طلبہ کے لئے مختص کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر تہران، اصفہان، مشہد یا تبریز جیسی جگہوں پر ہونے والی نماز جمعہ چھوٹا اجتماع تو نہیں ہے۔ طالب علم جاکر وہاں اپنی بات پیش کرے، بہت کچھ بیان کر سکتا ہے۔ یہ اہم چیزیں ہیں۔ مثال کے طور پر تہران کی نماز جمعہ کے موقع پر یہ تقریر ہو۔ ایسی صورت میں دشمن کو بھی آپ کے تجزئے کا علم ہوگا۔ یعنی جب آپ نے کسی واقعے کا تجزیہ کیا اور اپنا موقف طے کرکے اسے بیان کر دیا تو دشمن کو بھی علم ہو جائے گا، خبر ہو جائے گی۔ دشمن کو ہمارے بہت سے دوستوں سے پہلے ان چیزوں کی اطلاع ہو جاتی ہے (22)۔ تو موقف مدلل اور منطقی ہونا چاہئے اور اس انداز سے آپ کی فکری موجودگی ہونا ضروری ہے۔
جسمانی طور پر یا آپ لوگوں کے بقول فیزیکل موجودگی بھی کبھی ضروری ہوتی ہے۔ اجتماعات بھی ضروری ہیں، اجتماعات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ قانون کسی موقع پر کوئی سختی کرے، کیونکہ وہاں ممکن ہے کوئی مشکل رہی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمیشہ سب کچھ انسان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ آپ کے اجتماعات بہت اچھی چیز ہیں۔ آپ اجتماعات کے انعقاد کیجئے، مختلف مسائل کے بارے میں الگ الگ انداز سے اجتماع کیجئے۔ اب اگر فرض کر لیجئے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے جاکر دھرنا دیں تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی منطقی اقدام ہوگا۔ ارکان پارلیمنٹ کے پاس کتنا وقت ہوتا ہے؟ صحیح اجتماع یہ ہے کہ آپ کوئی ہال کرائے پر لیجئے یا کسی بھی طرح اس کا بندوبست کیجئے۔ پانچ سو لوگ، ایک ہزار لوگ، دو ہزار یا دس ہزار طالب علم اس میں جمع ہوں۔ دو تین لوگ پیشگی مطالعے کے ساتھ وہاں تقریر کریں۔ یہ اہم چیز ہے۔ آپ کی یہ بات رکن پارلیمنٹ کے کان تک بھی پہنچے گی، حکومتی نمائندے کو بھی اس کی اطلاع ہوگی، رہبر انقلاب کے نمائندے کو بھی معلوم ہوگا۔ اس طرح کے اجتماعات اہم ہیں۔ اسی طرح ان مسائل کے بارے میں جن میں طلبہ کے کچھ گروہ حدود کو توڑنا چاہتے ہیں، مثال کے طور پر کچھ لوگ اسلامی نظام کی ریڈ لائنوں کو عبور کرنا چاہتے ہیں تو ایسے مواقع پر سامنے آنا ضروری ہے۔ البتہ اس طرح سے نہیں کہ آپ جاکر ان طلبہ کے پروگرام کو خراب کریں۔ پروگرام خراب کرنا بے فائدہ بلکہ مضر اقدام ہے۔ کمترین صورت یہ ہے کہ یہ اقدام بے فائدہ ہے، زیادہ بڑا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ اقدام ضرر رساں ثابت ہوگا۔ تو پھر اس کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کچھ طلبہ نے کوئی جلسہ کیا ہے اور اس میں وہ کسی انقلابی اصول کے خلاف بحث کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ بھی اعلان کیجئے کہ اسی جگہ پر یا کسی اور جگہ کل یا پرسوں ہم بھی جلسہ رکھیں گے اور اس موضوع کے بارے میں بحث کریں گے۔ دعوت دیجئے، طلبہ کو جمع کیجئے، بحث کیجئے، دلائل سے خط تنسیخ کھینچئے۔ یہ اچھا طریقہ ہے۔ آپ کو سامعین مل جائیں گے۔ طلبہ میں بہت سے افراد ایسے ہیں جو حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ تو اجتماعات کا انعقاد اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم ضوابط کے دائرے میں رہ کر اور صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ۔ یونیورسٹیوں کے عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ تعاون کریں۔ میں نے ابھی یہ بات ڈاکٹر فرہادی سے بھی کہی ہے، اس سے پہلے ڈاکٹر ہاشمی صاحب سے کہہ چکا ہوں، ڈاکٹر فرہادی جب ابھی آئے تھے تو میں نے ان سے بھی یہ بات کہی۔ یونیورسٹی کے عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ انقلابی اور دیندار طلبہ تنظیموں کی حمادت کریں۔ یعنی جو لوگ انقلاب کے حامی ہیں اور انقلاب کی راہ میں قربانیاں دینے پر آمادہ ہیں اور جو لوگ انقلاب سے بے اعتنا ہیں یا انقلاب کے مخالف ہیں، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ آپ ایک وزیر کی حیثیت سے، عہدیدار کی حیثیت سے اور اسلامی جمہوریہ کے نمائندے کی حیثیت سے دونوں کو برابر مان سکتے ہیں؟ عمومی حقوق کی جہاں تک بات ہے تو بے شک یہ حقوق سب کے لئے ہیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اسلامی نظام کے نمائندہ ہوتے ہوئے اس کی پشت پناہی نہ کریں جو انقلابی اسلام کا دفاع کر رہا ہے، جبکہ اسلامی نظام پر حملے کرنے والے یا اس کے سلسلے میں بالکل لا تعلق رکھنے والے کی حمایت کریں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ عہدیداران انقلابی تنظیموں کی حمایت کریں، ان کی سرگرمیوں کے لئے سہولیات مہیا کریں۔ تو آپ کا ایک فریضہ ہے فکری اور جسمانی طور پر آپ کا حاضر رہنا۔ میں نے دونوں صورتوں کی تشریح کر دی۔
دوسرا فریضہ تشریح اور حقائق کی پیشکش کا ہے۔ حقائق بیان کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمارے سامنے لوگوں کے اذہان اور دل ہیں، دلوں اور ذہنوں کو قائل کرنا ہے۔ اگر دل قائل نہ ہو تو بدن حرکت میں نہیں آئے گا، جسم کام کے لئے آمادہ نہیں ہوگا۔ یہی اسلامی و غیر اسلامی فکر میں بنیادی فرق ہے۔ انقلاب سے پہلے کی بات ہے، میں تہران میں اپنے ایک دوست کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ دریں اثنا ایک نوجوان جو مشہدی تھا اور میں اسے بھی اور اس کے والد کو بھی جانتا تھا، وہ چھاپہ ماروں میں سے تھا، ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے شمال کے جنگلوں میں محاذ بنا لیا تھا اور جدوجہد کر رہے تھے، وہ اچانک اندر آیا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ چونکہ پہلے سے آشنائی تھی، لہذا وہ آکر بیٹھ گیا، غالبا وہ صاحب خانہ سے مالی مدد لینے کے لئے آیا تھا۔ میں نے سوال کیا کہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں، اس نے جواب میں کچھ باتیں کہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے عوام کے سامنے اپنی بات رکھئے، تشریح کیجئے۔ عوام کو معلوم ہو کہ آپ شمال میں کیوں جمع ہوئے ہیں اور مسلحانہ جدوجہد کیوں کر رہے ہیں۔ کسی شہر میں آپ کوئی کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو عوام کو اس کے بارے میں اطلاع ہونی چاہئے، آپ بتائیے، وضاحت کیجئے۔ تشریح اور وضاحت کے بارے میں اس نوجوان سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے مجھے ایک نظر دیکھا، سر ہلایا، نو عمر تھا، ہم سے سن کے اعتبار سے بہت چھوٹا تھا، دس سال چھوٹا رہا ہوگا۔ «نگه‌کردن عاقل اندر سَفیه» والی نظر اس نے ہم پر ڈالی (23) اور کہا کہ ہاں، یہ آپ کی اسلامی فکر ہے، مگر ہمارا طرز فکر یہ نہیں ہے۔ یعنی تشریح اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہی غلط ثابت ہو چکی فرسودہ مارکسی فکر ہے، میں نے سنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کچھ لوگ پھر اسی طرز فکر کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ اس نظرئے کا کہنا یہ ہے کہ تشریح اور وضاحت کا نتیجہ مالک اور مزدور کے درمیان تنازعے اور جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، لہذا تشریح اور وضاحت ضروری نہیں ہے۔ اس نظرئے کے لوگوں کو یہی سب سمجھایا جاتا ہے۔ اس نظرئے کا بطلان ثابت ہو چکا ہے، یہ نظریہ غلط نکلا۔ جو حکومت اس کی بنیاد پر تشکیل پائی، ساٹھ سال، ستر سال بعد معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر خراب تھی، پوری عمارت ریت کی دیوار کی مانند گر گئی۔ اس وقت پھر کچھ لوگ انگریزوں کے بقول ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگا رہے ہیں۔ مارکسی نظرئے پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ اس نوجوان کے بقول جو بعد میں قتل کر دیا گیا، اسلامی فکر تشریح و وضاحت پر استوار ہے۔ فَاِنَّما عَلَیکَ البَلاغ (24)، خداوند عالم اپنے پیغمبر سے کہتا ہے کہ تمہارا فریضہ پہنچانا ہے، باتوں کو پہنچاؤ۔ آپ تشریح کیجئے، اپنی باتیں اور اپنے نظریات بیان کیجئے۔ ملک کے کلیدی مسائل کے بارے میں، استقامتی معیشت کے بارے میں، علمی پیشرفت کے بارے میں، ظاہر ہے یہ ملک کے بنیادی مسائل ہیں، اسی طرح امریکا سے تعلقات کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کیجئے۔ بہت سے لوگوں کو حالات کا علم نہیں ہے۔ آپ طلبہ کے لئے بھی اگر صورت حال بالکل واضح نہیں ہے تو جائیے اور حالات کو سمجھئے، اگر آپ حالات کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں تو دیگر طلبہ کو اس سے آگاہ کیجئے۔ میرا اصرار کیوں ہے کہ امریکا سے تعلقات قائم نہ ہوں، یہاں تک کہ مذاکرات بھی نہ کئے جائیں، صرف ان چند طے شدہ مسائل کو چھوڑ کر جن کو بر بنائے مصلحت مستثنی کر دیا گيا، اس کی کیا وجہ ہے؟ ظاہر ہے اس کی ایک وجہ ہے اور اس وجہ کی تصدیق حتی امریکا کے طرفدار سیاستداں بھی بعض مواقع پر کر چکے ہیں۔ میں نے ذکر بھی کیا؛ ایک زمانے میں یہ مختلف ادوار کے جو صدور رہے ہیں ان میں سے ایک صدر مملکت اس قضیئے کے بارے میں مجھ سے کچھ بحثیں کرتے تھے مختلف اجلاسوں میں۔ بعد میں انھوں نے قومی سلامتی سپریم کونسل میں جاکر کہا تھا کہ رہبر انقلاب کے پاس کچھ ایسے استدلال ہیں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا۔ امریکا سے روابط کی بحالی کی نفی کے بارے میں میرے پاس کچھ دلائل تھے جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا۔ استدلال بہت محکم ہے۔ اس استدلال کو بآسانی خارج نہیں کیا جا سکتا، مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اب اگر آپ ان دلائل کو سمجھ لیں تو دوسروں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔ آپ طالب علم ہیں، نوجوان ہیں، اچھی فکر رکھتے ہیں، آج جو باتیں آپ نے کیں ان سے واقعی میری امیدیں بڑھی ہیں۔ بیان کی گئی باتوں کے مشمولات کے اعتبار سے ہی نہیں، کیونکہ مشمولات تو اچھے تھے ہی، میری توجہ دوسری چیز پر تھی، مجھے یہ محسوس ہوا کہ ذہن پوری طرح بیدار اور متحرک ہیں۔ یہ میرے لئے بہت اہم ہے۔ ذہن کام کر رہے ہیں، اچھی قوت بیان کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ جو متحرک اذہان ہیں وہ اس قضیئے کے مناسب دلائل تلاش کریں اور پھر ان کی ترویج کریں۔ آپ دیکھئے کہ یہ بھی تشریح اور وضاحت کے موضوعات میں سے ایک ہے۔ یا ہم نے اسلامی ایرانی طرز زندگی کا موضوع اٹھایا، یہ بھی بحث و مطالعے کا موضوع ہے، اس کی تشریح کیجئے، خود بھی عملی طور پر اور دوسروں کے لئے اپنے بیان کے ذریعے اس کی تشریح کیجئے۔
ثقافت کا مسئلہ بھی بہت اہم مسائل میں ہے۔ اس کی بھی تشریح کیجئے۔ تو یہ دوسرا فریضہ تشریح اور بیان کا فریضہ ہے۔ یہ تشریح طلبہ کے ماحول کے اندر بھی ہونی چاہئے اور باہر کے ماحول میں بھی کی جانی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نماز جمعہ وغیرہ جیسے مواقع پیش کئے گئے موضوع کے سلسلے میں ماحول سازی کرتے ہیں۔ ان سے عوامی فکر اور عوامی مطالبہ وجود میں آتا ہے جو بہت اہم ہے۔ اس طرح ملک کو خاص سمت و جہت ملتی ہے۔ البتہ مستقل طور پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، استقامت و ثابت قدمی ضروری ہوتی ہے، خوش اسلوبی سے بیان کرنا ضروری ہوتا ہے، اسے بار بار دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اچھا خاصا وقت بھی لگ جاتا ہے۔
تیسرا کام؛ آپ دینی و سیاسی آگاہی کی سطح کو بڑھائیے۔ یہ نہ کہئے کہ ہمیں سب معلوم ہے، ساری چیزوں پر عبور ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔ بسا اوقات سیاسی شعور و آگاہی کی سطح کم ہوتی ہے اور بعض اوقات دینی معلومات کی سطح کم ہوتی ہے۔ آج اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں، سیاست کے مسئلے میں بھی اور دین کے مسئلے میں بھی۔ جہاں تک دین کی بات ہے تو قم کی دینی درسگاہ جس کے بارے میں ہمارے ایک دوست نے ابھی تند و سخت اور زوردار تنقید کی۔ البتہ کچھ اعتراضات صحیح تھے اور کچھ صحیح نہیں تھے، لہذا اس تنقید کو نہ تو پوری طرح مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ پوری طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔ تنقید میں بھی کچھ نقائص تھے۔ آج اس دینی درسگاہ کے پاس دینی بحث و تفکر کے بہت اچھے وسائل موجود ہیں، جن سے آپ کی بھی مدد ہو سکتی ہے۔ میں نے ابھی چند روز قبل اتفاق سے ٹیلی ویزن پر دیکھا کہ حوزہ علمیہ قم کے ایک بزرگ عالم دین نے 'پلورلزم' کے بارے میں بڑی سادہ زبان میں، مختصر اور بڑی دلچسپ گفتگو کی۔ کچھ لوگ ہیں جو پلورلزم کو اسلام سے نسبت دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اسلام نے کہا ہے؛ «اِنَّ الَّذینَ ءامَنوا وَ الَّذینَ هادوا وَ النَّصاری وَ الصّابِئینَ مَن ءامَنَ بِاللهِ وَ الیَومِ الأخِر» (25) لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام تمام ادیان کا حامی ہے اور آپ جس دین پر چاہئے عمل کیجئے۔ یہ بات غلط ہے، لیکن پلورلزم کے حامی کئی سال سے بڑے شد و مد کے ساتھ اور بڑے شور شرابے کے ساتھ مختلف انداز سے یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں اور کچھ بیچارے اس بحث سے متاثر بھی ہو جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک عالم دین ٹیلی ویزن پر بڑے آسان انداز میں اور بہت اطمینان بخش طریقے سے اس نظرئے کو غلط ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی طرح ایک اور بڑے عالم دین نے، اتفاق سے ان کا پروگرام بھی میں نے اسی ماہ رمضان میں دیکھا، دو رات قبل اتفاق سے میں نے ٹیلی ویزن چلایا، بلکہ ٹیلی ویزن چل رہا تھا میں نے دیکھا تو علم امام اور علم انبیا کے بارے میں بڑی شفاف، واضح اور تشفی بخش بحث انھوں نے کی۔ یہ چیزیں ہماری دینی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔ اسی طرح سیاسی معلومات بھی بڑھتی ہیں۔ آپ اپنی علمی و دینی آگاہی بڑھائیے۔ کتب خوانی کے ذریعے دینی درسگاہ اور یونیورسٹیوں کی بڑی شخصیات کے بیان سن کر۔
علمی ٹور؛ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جنھیں ملک کی پیشرفت کے بارے میں واقعی آگاہی نہیں ہوگی۔ یعنی آپ کی عمر ہی اتنی نہیں ہے۔ آپ اسکول میں تھے وہاں سے اب یونیورسٹی میں آ گئے ہیں، آپ کو موقع نہ ملا ہوگا۔ ہم نے نینو ٹیکنالوجی کے بارے میں بار بار بات کی ہے۔ بے شک آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ نینو ٹیکنالوجی آ چکی ہے اور کچھ لوگ اس میدان میں کام کر رہے ہیں، مگر آپ نے جاکر نینو ٹیکنالوجی کی تجربہ گاہ کو تو نہیں دیکھا ہوگا، علمی و سائنسی اختراعات و ایجادات کو نہیں دیکھا ہوگا۔ خدمت رسانی کے ادارے جس طرح کی سروسیز فراہم کر رہے ہیں انھیں بھی جاکر نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ کو علمی ٹور پر جانا چاہئے۔ چالیس پچاس لوگوں کا گروپ بنے اور آپ گوناگوں جگہوں کو جاکر دیکھئے۔ آپ فری ٹریڈ زون جاکر دیکھتے ہیں تو افسوس کرتے ہیں اور اس میں آپ حق بجانب بھی ہیں، لیکن جاکر ان چیزوں کو بھی دیکھئے تاکہ آپ کی امیدیں بڑھیں، مسرت حاصل ہو، جاکر دیکھئے کہ ملک میں یہ ساری چیزیں بھی موجود ہیں، آگاہی و اطلاعات کی سطح کو بلند کیجئے۔
'آزاد اندیشی' کے فورم کا قیام؛ البتہ یہ عمل ممتاز اساتذہ کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ میری نظر میں یہ بھی ایک فریضہ ہے، یہ تیسرا فریضہ ہے۔
ایک اور فریضہ طلبہ تنظیموں کے لئے ہے اور وہ طلبہ کی سطح پر اپنے مخاطب افراد کی تعداد بڑھانا ہے۔ آپ اپنی بات سننے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ کیجئے۔ طلبہ کی تعداد پچاس لاکھ ہے لیکن آپ کے سامعین کی تعداد بہت کم ہے۔ مخاطب افراد کی شرح بہت کم ہے۔ آپ اس شرح میں اضافہ کیجئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ شرح سو فیصدی تک یا اسی فیصدی تک پہنچ جائے لیکن بہرحال اس میں اضافہ ضرور ہونا چاہئے۔ اس کے اپنے طریقے ہیں اور آپ کو وہ طریقہ تلاش کرنا ہے۔ آپ اتنے صاحب استعداد ہیں، اتنے صاحب ذوق ہیں اور اتنی اچھی فکر رکھتے ہیں تو آپ کو اس کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ اپنے سامعین کی تعداد کیسے بڑھانی ہے۔ ظاہر ہے اس کے کچھ لوازمات ہیں؛ انسان کے اندر اخلاق ہونا ضروری ہے، بلند ہمتی ہونا ضروری ہے، مخالف افراد کی بات سننے کی قوت برداشت ہونا ضروری ہے، یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔ مسائل سے مکمل آگاہی ہونی چاہئے تاکہ یہ کام انجام دے سکیں۔ کبھی کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آ جاتی ہے کہ انسان کسی ایک سامع سے گفتگو کرے، ایک شخص کو قائل کرنے کے لئے اس سے بحث کرے۔ شدید گھٹن کے ماحول میں خود میرے ساتھ بھی ایسے اتفاقات ہو چکے ہیں کہ دو گھنٹا، تین گھنٹا کسی ایک شخص سے گفتگو کرنی ہوتی تھی کسی مسئلے میں اسے مطمئن کرنے کے لئے۔ کبھی دو لوگوں سے، پانچ لوگوں سے، بعض اوقات کئی کئی جلسے کرنے ہوتے تھے، کبھی یکبارگی پروگرام رکھنا ہوتا تھا۔ یہ ساری چیزیں اثر ڈالتی ہیں۔ تو آپ اپنے سامع اور مخاطب افراد کی تعداد بڑھائیے۔
پانچواں نکتہ؛ یہ بھی میری نظر میں بہت ضروری ہے، اسلامی نظام کے دفاع کے معاملے میں بالکل صریحی انداز سے گفتگو کیجئے کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلامی نظام باعث افتخار ہے۔ بے شک دنیا میں اور ملک کے اندر بھی ایسے کچھ لوگ ہیں جو اسلامی نظام کو کمتر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس قسم کے افراد ہیں، لیکن وہ بہت بڑی بھول کر رہے ہیں، غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ بعض لوگ عمدی طور پر یہ کام کرتے ہیں اور بعض لاعلمی کی بنا پر۔ اسلامی نظام مایہ شرف ہے، مایہ افتخار ہے، ۔ آپ کے دشمن عیوب و نقائص تلاش کرتے رہتے ہیں اور انھیں نقائص کا ذکر کرکے انقلاب کو ضرب پہنچانا چاہتے ہیں، حالانکہ اگر کچھ نقائص ہیں تو ان سے دس گنا زیادہ کامیابیاں اور پیشرفت کی مثالیں ہیں۔ سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے کہ آج 37 سال 38 سال کا عرصہ ہو رہا ہے اور اس مدت کے دوران وسیع مادی محاذ جس میں مشرقی و مغربی سبھی طرح کی طاقتیں شامل ہیں، مسلسل اس کوشش میں لگے رہے کہ اس انقلاب کو، اس ملت کو اور اس نظام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی ہے؟ بڑی بڑی باتیں کرنے والے کسی بادشاہ کو بس گھور کے دیکھ لیتے ہیں تو وہ لرز اٹھتا ہے اور جی جان سے اسی کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کسی صورت سے رضامند کر لے۔ اجلاس رکھے جاتے ہیں، باتیں کی جاتیں ہیں اور رشوتیں دی جاتی ہیں۔ مگر یہی طاقتیں 37 سال سے اسلامی انقلاب کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ فوجی اقدامات بھی کئے، سیکورٹی حملے بھی کئے، جاسوسی بھی کروائی، ثقافتی یلغار بھی کی، ہزار طرح سے حملے کئے مگر اسلامی جمہوریہ روز بروز زیادہ طاقتور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جناب آپ جو انقلاب کے طرفدار ہیں ان کی تعداد اور کوالٹی آج اوائل انقلاب کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ ابھی اس کی تشریح بھی کی گئی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب ایک ذی روح شئے ہے اور روز بروز نمو کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ یہ قابل فخر نہیں ہے؟
میں جب کہتا ہوں کہ نظام کا دفاع کیجئے تو کچھ لوگوں کو یہ عادت ہو گئی ہے کہ نظام کا مطلب رہبر انقلاب سمجھتے ہیں؛ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ فلاں نے اس قضیئے میں نظام کے خلاف بیان دیا یعنی رہبر انقلاب کے خلاف بیان دیا، یا فلاں کی اسلامی نظام حمایت کر رہا ہے، یعنی رہبر انقلاب کی طرف سے حمایت کی جا رہی ہے۔ میری مراد یہ نہیں ہوتی۔ رہبر انقلاب تو اسلامی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اسلامی نظام سے میری مراد ہرگز رہبر انقلاب کا دفاع نہیں ہے۔ میری مراد اس پورے نظام کا دفاع ہے جو بہم پیوستہ اقدار کا ایک مجموعہ ہے اور بحمد اللہ آج تک پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔ عزیز نوجوانو! آپ اسے ذہن نشین کر لیجئے کہ اس انقلاب کی بنیادیں بڑی مستحکم ہیں، اس کے اندر نمو اور ارتقاء کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں، ظاہر ہے اس کے لئے توانائی کی ضرورت ہے، مدد کی ضرورت ہے، انرجی کی ضرورت ہے اور الحمد للہ اس کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔ البتہ مشکلات بھی ہیں۔ داخلی مشکلات بھی ہیں اور بیرونی مشکلات بھی ہیں۔ مشکلات سے تو چھٹکارا نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اصلاحی تغیرات ہوتے ہیں وہاں یقینی مشکلات پیش آتی ہیں، اسی طرح اسلامی انقلاب کو بھی کچھ مشکلات در پیش ہیں۔
چھٹا نکتہ؛ جہاد کیمپنگ کا سلسلہ بڑھائے، اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھئے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اس نوجوان نے یہاں آکر جہاد کیمپنگ کی تشریح کی۔ اس نوجوان نے جو کچھ کہا اس کی میں بھی تائید کرتا ہوں۔ یہ جہاد کیمپنگ مشق بھی ہے، خدمت بھی ہے، خود سازی بھی ہے، معاشرے کی فضا سے آشنائی بھی ہے، اس طرح یہ بڑی اہم چیز ہے۔ اس میں روز بروز وسعت پیدا کیجئے۔ کیونکہ یہ جہاد بھی ہے، واقعی جہاد ہے؛ کام ہے، جہاد ہے، محنت ہے، محرومین کی خدمت ہے۔ گاؤں کے تعلق سے جو باتیں بیان کی گئیں وہ باتیں ہم کئی سال سے مختلف حکومتوں سے کہتے آ رہے ہیں۔ نماز سے قبل اپنی گفتگو میں جو میں نے عرض کیا کہ اجرائی معاملات میں رہبر انقلاب کی مداخلت نہیں ہوتی سوائے کچھ خاص مواقع کے تو ان خاص مواقع کی ایک مثال یہی ہے۔ گاؤوں کے بارے میں میں نے مختلف حکومتوں سے، موجودہ حکومت سے بھی، سابقہ حکومت سے بھی، اس سے پہلے کی حکومتوں سے بھی، بار بار سفارشات کی ہیں۔ اس کے بالکل واضح طریقے بھی موجود ہیں، جن میں سے چند کا ذکر ہمارے اس نوجوان نے کیا۔ ایک ہے گاؤں سے مطابقت رکھنے والی صنعتیں لگانا۔ اگر یہ سلسلہ چل پڑے تو بڑا کارساز ثابت ہوگا۔ چھوٹی صنعتیں ہیں جو گاؤں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارومیہ کے باغات میں سیب کے درخت ہیں۔ وہاں سیب گرتے ہیں، زمین پر پھیل جاتے ہیں اور کھاد میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ میں نے خود دیکھا ہے۔ اس کی قیمت اتنی کم ہوتی ہے کہ باغات کے مالکان کے لئے زمین پر پھیلے یہ سیب جمع کرنے کی مزدوری دینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہیں کینری (cannary) وغیرہ کے کارخانے لگا دئے جائیں تو یہی سیب سرمائے میں بدل جائے گا۔ اس طرح بالکل سامنے کے طریقے ہیں، کوئی پیچیدہ اور دشوار راستہ نہیں ہے، بڑے آسان طریقے ہیں اور بہت محدود پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ اگر ہم روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں تو سو ملین (تومان) کی ضرورت ہے۔ مگر جو کام میں بتا رہا ہوں اس کے لئے شاید دس پندرہ ملین کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ یہ بالکل سامنے کی چیزیں ہیں۔ ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تو میری نظر میں یہ جہادی کیمپنگ بہت اچھی چیز ہے، گاؤوں کے مسئلے پر توجہ دینا بہت اہم ہے۔
ساتواں نکتہ ہے اسلامی ایرانی طرز زندگی کو فکر و عمل میں اتارنا، یہ بھی بہت اہم چیز ہے۔ آپ بیٹھ کر اس بارے میں غور کیجئے، اس کے مصادیق کا تعین کیجئے، پھر اس پر عمل کیجئے اور اسے دستور العمل کے طور پر مشتہر کیجئے۔ مثال کے طور پر اسلامی طرز زندگی کے بارے میں اگر کوئی کتابچہ راستوں کے موضوع پر شائع کیا جائے۔ میں نے دو تین سال قبل اس قضیئے کے بارے میں چند مثالیں دی تھیں، ان میں ریڈ سگنل پر رکنے کی مثال دی تھی۔ اسی موضوع کو پھیلایا جا سکتا ہے، اس کی تشریح کی جا سکتی ہے۔ یہ کام آپ کا ہے، آپ نوجوانوں کا ہے، کیونکہ آپ کے پاس عزم و حوصلہ بھی ہے، استعداد بھی ہے، فکری و جسمانی توانائی بھی ہے، تو آپ یہ کام انجام دیجئے۔
آٹھواں نکتہ؛ مساوات، نالج بیسڈ اکانومی، ایرانی اسلامی پیشرفت، علمی و سائنسی تحقیقات میں سرعت، یہ بنیادی موضوعات ہیں، آپ ان امور کو تقویت پہنچائیے۔ استقامتی معیشت کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ استقامتی معیشت کے نام پر کچھ اجرائی اقدامات انجام دے دئے جائیں لیکن در حقیقت وہ استقامتی معیشت نہ ہو، جبکہ توجہ دینے کی صورت میں استقامتی معیشت کی حیثیت سے کسی پروجیکٹ کو اجرائی مراحل سے گزارا جا سکتا ہے جو پوری طرح استقامتی معیشت کا جز ہو، کم از کم اس کا کوئی ایک حصہ استقامتی معیشت سے متعلق ہو۔ اس وقت بظاہر تو بڑے اچھے کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ اب مجھے جو رپورٹیں مل رہی ہیں، عہدیداران کی رپورٹیں نہیں، دیگر ذرائع سے ملنے والی رپورٹیں، وہ اطمینان بخش ہیں۔ امکان ہے کہ بہت اچھے کام سرانجام دئے جائیں، بشرطیکہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ عمل کا یہ سلسلہ مراتب اوپر سے لیکر نیچے تک ایک انسانی سلسلہ ہے، تمام انسانوں کے پاس فکری صلاحیت ہوتی ہے، دماغ ہوتا ہے، عزم و ارادہ ہوتا ہے، پانچ چھے مراحل پر استوار یہ سلسلہ مراتب، اگر کسی ایک مرحلے کے افراد کوتاہی کریں تو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائے گا۔ بجلی کے تار کی طرح نہیں ہے کہ آپ نے یہاں بٹن دبایا اور وہاں سو بلب جل اٹھے۔ اس میں تار کے بیچ کے مختلف مراحل میں الگ الگ صاحبان عزم و ارادے کا دخل ہے۔ لہذا نگرانی ہونا چاہئے، نظر رکھی جانی چاہئے، پیروی کی جانی چاہئے، جائزہ لیا جانا چاہئے، دائمی طور پر مطالبہ جاری رکھنا چاہئے اور آپ اس سلسلے میں اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ استقامتی معیشت کا مسئلہ ہے، سماجی انصاف کا مسئلہ ہے، ایرانی اسلامی پیشرفت کا مسئلہ ہے۔ میں اس مغربی ترقی کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ اس کی تو بنیاد ہی غلط ہے، اس کے ستون ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کی بہت سی فروعات بھی غلط ہیں۔ میں عمدا ترقی کا لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ یہ مغربی اور انگریزی اصطلاح کا ترجمہ ہے، میں جان بوجھ کر پیشرفت کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔ یہ اسلامی ایرانی پیشرفت ایک عمومی مطالبے کے طور پر اور ایک قومی بحث کی حیثیت سے پیش کی جا سکتی ہے۔ علمی تحقیقات کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔
ایک اور اہم کام جو میری نظر میں آپ بخوبی انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی سطح پر طلبہ کا ایک امریکا مخالف اور صیہونیت مخالف متحدہ محاذ تشکیل دیجئے۔ آپ یہ کام ضرور کیجئے۔ بیٹھئے، غور کیجئے اور اس کے بعد ایک امریکا مخالف اور صیہونیت مخالف محاذ تشکیل دیجئے۔ اب تو رابطے کے وسائل بھی دستیاب ہیں، اب تو مکتوب نگاری، پوسٹ اور ٹیلی گرام کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سائیبر اسپیس میں ایک دوسرے سے رابطہ قائم کیجئے۔ چنانچہ ایسی ہی بعض چیزوں کے بارے میں رابطہ قائم بھی کیا گیا ہے۔ انگریزی گزیدہ افراد کے بقول دنیائے اسلام کی سطح پر ایک کیمپین چلائیے امریکی تسلط کے خلاف، امریکی اور صیہونی پالیسیوں کی مخالفت میں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس مجموعے میں شامل ہوں، اس فکری رجحان کا حصہ بنیں اور ان کے لئے فکری غذا فراہم کی جائے، وہ بھی آپ کے لئے فکری غذا فراہم کریں گے۔ کیونکہ عالم اسلام میں طلبہ کی سطح پر اچھی فکر موجود ہے۔ دنیائے اسلام کی سطح پر طلبہ کا ایک عظیم فکری مجموعہ تیار کیجئے۔
تنظیموں اور یونینوں سے تعلق رکھنے والے آپ عزیزوں کی خدمت میں دسواں نکتہ یہ عرض کرنا ہے کہ کسی پر صرف اس بات پر کہ اس کی فکر آپ کی فکر سے مکمل مطابقت نہیں رکھتی، انقلاب دشمنی کا الزام نہ لگائیے۔ ممکن ہے کہ کوئی سو فیصدی آپ کی فکر سے مطابقت نہ رکھتا ہو، کچھ اختلافات ہوں، صرف پچاس فیصدی مطابقت ہو، لیکن پھر بھی وہ شخص انقلابی ہو، انقلابی ہونے کے کچھ معیارات ہیں، ممکن ہے کہ اس کے اندر یہ معیارات موجود ہوں، کسی پر فورا انقلاب دشمن یا غیر انقلابی ہونے کا الزام نہ لگائیے۔ میں نے 3 جون کو حرم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ میں بھی بیان کیا کہ انقلابیت بھی ایمان کی مانند ہے، اس کے بھی درجات ہیں۔ پہلا درجہ، دوسرا درجہ، تیسرا درجہ، کچھ کا درجہ بلند ہے، کچھ کا درجہ کم ہے، لیکن سب مومن ہیں اور مومن و غیرمومن کا حساب کتاب الگ الگ ہوتا ہے، مومنین اور منافقین کا حساب الگ ہے۔ خواہ مومنین کے ایمان کا درجہ یکساں نہ ہو۔
گیارہواں نکتہ؛ انقلابی تنظیموں کے اندر امداد باہمی کا سلسلہ رہنا چاہئے۔ ممکن ہے کہ آپ کے درمیان کچھ اختلافات ہوں، انقلابی تنظیموں کے درمیان کسی چیز کے بارے میں اختلاف رائے ہو، تو کوئی بات نہیں، اختلاف رائے کے باوجود آپس میں تعاون ہونا چاہئے، اشترکات پر توجہ دیں۔ یعنی اختلاف رائے کی وجہ سے دست و گریباں نہ ہو جائیں، آپس میں محاذ آرائی شروع نہ کر دیں۔ آپ کوشش کیجئے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ صورت حال پیدا ہو۔ رواداری اور تحمل، مخالف کو تحمل کرنے کا عینی مصداق یہی چیزیں ہیں۔
آخری نکتہ؛ انقلاب کو اسٹریٹیجک نظر سے دیکھئے۔ بیس سال، تیس سال بعد کے دور کی ابھی سے فکر کیجئے، جس طرح آپ کا دشمن سوچتا ہے۔ میرے عزیزو! آج مثلا آپ بائیس تیئیس سال کے ہیں، چوبیس سال یا پچیس سال کے ہیں، بیس سال بعد آپ چالیس سالہ پینتالیس سالہ مرد ہوں گے اور ممکنہ طور پر اس ملک میں کوئی بڑا کام اور بڑی خدمت انجام دیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لازمی طور پر سرکاری نوکری کیجئے۔ ہماری اس بہن نے، ہماری بیٹی نے بار بار یہ بات کہی کہ جو پڑھ کر نکل رہے ہیں ان کے روزگار کے بارے میں سوچا جائے۔ پچاس لاکھ طلبہ کے لئے کیسے روزگار کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ضروری ہے کہ جو بھی فارغ التحصیل ہو لا محالہ سرکاری نوکری کرے! نہیں، وہ بازار میں جائیں، کام کریں، کام تلاش کریں، البتہ حکومت کو مدد کرنی ہے اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ جو کوئی بھی پڑھ کر نکلے اس کے لئے بس یہی ایک راستہ ہے کہ جاکر کوئی سرکاری نوکری کرے، کوئی سرکاری عہدہ سنبھالے۔ تاہم یہ بھی طے ہے کہ مستقبل کے صدر اور وزرا، اسی طرح ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے گوناگوں عہدیداران سب آپ کے ہی درمیان سے ہوں گے۔ آج کے انھیں طلبہ میں سے ہوں گے۔ آپ کی نظر اس دور تک پہنچنا چاہئے، ایسی دنیا کی تصویر کھینچئے کہ جس میں آپ کو کام کرنا ہے، وہ دنیا آپ کی پسند کے مطابق ہو۔ ایسی ایک تصویر آپ کے ذہن میں ہونا چاہئے اور پھر آپ آرزوؤں کی اس تصویر اور اس خاکے کو زمین پر اتارنے کے لئے محنت کیجئے۔
ایک چیز طلبہ کی عزاداری کی انجمنوں کے بارے میں کہنی ہے، یہ بھی بڑی بابرکت چیزوں میں سے ایک ہے۔ میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ کیونکہ اس کے مخاطب افراد بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کا روحانی و دینی پہلو ہے۔
میں نے ملکی مسائل کے بارے میں دو تین چیزیں نوٹ کی تھیں، لیکن اب کافی دیر ہو چکی ہے (26)، ہاں کیوں نہیں آپ تو صبح تک بیٹھے رہ سکتے ہیں، آپ نوجوان ہیں، میں بھی جب آپ کی عمر کا تھا تو بعض اوقات سردی کی طویل راتیں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے میں گزار دیتا تھا، لیکن اب وہ بات نہیں ہے۔
اب کچھ باتیں ملکی مسائل کے تعلق سے۔ ایک چیز جو بڑی اہم ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ ایک سلسلہ یہ چل پڑا ہے کہ کچھ لوگ امام خمینی، اسلامی نظام اور انقلاب کا بھی دم بھرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ان لوگوں سے تعاون کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جن کا نعرہ ہے؛ 'انتخابات بہانہ است، اصل نظام نشانہ است' (انتخابات تو بس بہانہ ہے خود اسلامی نظام اصلی نشانہ ہے۔) یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلے میں میرا موقف بالکل واضح ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا کہ میری نظر میں اصلاح پسند، اصول پسند، جدید اور روایتی اصلاح پسند جیسی اصطلاحات اور اس تقسیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں ان ناموں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اس پر توجہ نہیں دیتا۔ میں کارکردگی پر نظر رکھتا ہوں۔ تاہم میں فتنے کے قضیئے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ حالانکہ اس موقع پر ہونے والے مظاہروں میں شریک اکثریت عام لوگوں کی تھی اور ان کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی، تاہم کچھ لوگ تھے جو قیادت کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے غلط فائدہ اٹھایا اور اعلان کر دیا؛«انتخابات بهانه است، اصل نظام نشانه است»، کیا اس سے بھی واضح کسی چیز کی ضرورت ہے؟ یہ نعرہ لگایا گیا یا نہیں؟ اگر یہ نعرہ لگایا گیا تو اسی وقت انھیں اظہار بیزاری کرنا چاہئے تھا اور انھوں نے نہیں کیا۔ آج کل کچھ لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں اور ساتھ ہی امام خمینی، اسلامی نظام اور انقلاب کی طرفداری کے دعوے بھی کرتے ہیں! یہ تو نہیں ہو سکتا۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ بہت بری چیز ہے، بڑا پست طریقہ ہے۔ اسے میں بالکل پسند نہیں کرتا۔
میں نے کچھ موضوعات یہاں نوٹ کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے عقلانیت و معقولیت کا مسئلہ۔ آج کل عقل، عقل پسندی، معقولیت، عقلائے قوم اس طرح کی باتیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں دھڑوں کے عقلا ایک ساتھ بیٹھیں، بات چیت کریں، یہ عقل پسندی ہے۔ عقل پسندی کے تو ہم بھی قائل ہیں اور قرآن نے بھی عقل و تعقل کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ اسلام نے بھی اس سلسلے میں بڑی سفارشات کی ہیں۔ ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ دنیا کے عظیم عقلا میں سے ایک تھے، اہل خرد میں سے تھے، تعقل و تدبر والے انسان تھے۔ ہمارا انقلاب بھی ایک عقلی مشن تھا جس کی محکم عقلی بنیادیں تھیں۔ اس لئے بھی اس کے حمایتی ہیں۔ لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ عقل کا تقاضا کیا ہے۔ یہ جو لوگ آجکل مغرب کے بڑے گرویدہ ہیں، میری نظر میں اپنی عقل کھو چکے ہیں، تعقل نہیں کرنا چاہتے۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے ہمیں مغرب کا سہارا لینا چاہئے، مغرب کی پناہ میں چلے جانا چاہئے، اہل مغرب سے دوستی بڑھانا چاہئے، میری نظر میں وہ عقلمندی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ مغرب کے سلسلے میں ہمیں بہت سے تجربات حاصل ہو چکے ہیں۔ عقل کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جو تجربہ حاصل ہو چکا ہے اسے ضرور مد نظر رکھا جائے۔ مغربی حکومتوں نے رضاخان کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا۔ بیس سال تک وہ عجیب و غریب اور بے مثال آمریت و استبداد مسلط رکھا۔ اس کے بعد مغربی حکومتوں نے ہی محمد رضا شاہ کو اس ملک پر تھوپ دیا۔ اس عمل میں عوام کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مغربی طاقتوں نے بیٹھ کر فیصلہ کر لیا کہ باپ کی جگہ پر بیٹے کو بٹھا دیا جائے۔ مغربی طاقتوں نے اس کی مدد کی اور اس نے ایک قومی حکومت کو سرنگوں کر دیا۔ مغربی طاقتوں نے براہ راست مداخلت کرکے 28 مرداد مطابق 19 اگست کو مصدق حکومت کو سرنگوں کر دیا، جو ایک قومی حکومت تھی، مجھے مصدق کے نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، تاہم وہ حکومت ایک ملّی حکومت تھی۔ مغربی طاقتوں نے اس ملک میں (خوفناک انٹیلیجنس ایجنسی) ساواک کی بنیاد رکھی جو ہر مخالف فکر کو بڑے عجیب و غریب طریقے سے کچل دینے والی ایجنسی تھی۔ میں نے ایک بار کہا تھا (27)، کہ قزل قلعہ کی جیل میں میرا ایک ساتھی قیدی تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنی ڈائری میں ایک بالکل گھٹیا شعر لکھ دیا تھا، شعری اعتبار سے واقعی بالکل گھٹیا شعر تھا۔ وہ شعر تھا؛
همه برگویید از برنا و پیر لعنة الله رضا شاه کبیر
اسی پر اس کو چھے مہینے کی جیل کی سزا دے دی گئی تھی! اس واہیات سے شعر کی وجہ سے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں تھیں۔ حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی اعلان جاری کرنے کا تصور تک نہیں تھا۔ اسی زمانے میں ہمارے ایک دوست پاکستان سے مشہد آئے تھے۔ وہ ذکر کر رہے تھے کہ ہم پارک میں فلاں اعلان پڑھ رہے تھے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پارک میں! کیا انسان پارک میں کوئی اعلان پڑھ سکتا ہے؟ یعنی ہمارے تصور میں ہی نہیں تھا کہ انسان پارک میں بیٹھ کر کوئی اعلان پڑھے۔ گھٹن کا یہ عالم تھا۔ یہ صورت حال مغربی طاقتوں نے پیدا کی تھی۔ کتنے لوگوں کو پھانسی دی گئی، کتنی دفعہ قتل عام ہوا، کیسی کیسی سختیاں برتی گئیں، کتنوں کو جلا وطن کیا گیا، کتنوں کو جیل بھیجا گیا، یہ سلسلہ انقلاب آنے تک یونہی جاری رہا۔ انقلاب کے بعد سے لیکر اب تک جو صورت حال ہے وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ پہلی پابندی، پہلا حملہ، پہلی جاسوسی، پہلی سیکورٹی دراندازی، اسلامی انقلاب کے خلاف پہلا وسیع تشہیراتی حملہ مغرب کی ہی طرف سے ہوا۔ امریکا کی جانب سے اور یورپ کی جانب سے ہوا۔ اسی طرح آگے بڑھتے چلے آئیے۔ مسلط کردہ جنگ سے پہلے بائیں بازوں کے گروہوں کی مدد، یہ ویسے تو لیفٹست گروپ تھے لیکن ان کی حمایت رائٹسٹ نظرئے کا حامل امریکا کر رہا تھا۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام کی مدد! میزائل کی شکل میں مدد، بایو لوجیکل ہتھیاروں سے مدد، کیمیائی بموں کی مدد، صدام کی اس وسیع پیمانے پر مدد کی گئی۔ اسے جنگ کا منصوبہ دیا گيا، اس کی ہر طرح سے مدد کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ آٹھ سال تک چلی۔ آٹھ سال جنگ کوئی مذاق نہیں ہے۔ جنگ کے بعد بھی انھوں نے بہت سے حملے کئے۔ ہوائی جہاز کو مار گرانا، انھوں نے ایک مسافر طیارے میں سوار تقریبا تین سو لوگوں کو مار ڈالا۔ وہ بے شرم آدمی جو امریکا کا صدر تھا، کہتا ہے کہ میں ایران سے معافی نہیں مانگوں گا۔ تم جہنم میں جاؤ! مت مانگو معافی! انھوں نے معافی تک نہیں مانگی۔ یہ آخر کیسے لوگ ہیں؟ تجربہ ہمیں کیا بتاتا ہے؟ اس کے بعد تاحال پیش آنے والے مسائل اور مشترکہ جامع ایکشن پلان کا مسئلہ۔ کیا یہی فرانس نہیں ہے جس کے وزیر خارجہ نے بڑی پست حرکت کی اور 'بیڈ پولیس مین' کا کردار ادا کیا۔ نئی نئی بہانہ جوئی، دباؤ ڈالنا۔ امریکیوں نے اپنے انداز سے یہی کیا۔
میں نے خود مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں بات کی ہے۔ اس جلسے میں بھی بات کی (28)، کابینہ کے اجلاس میں بھی (29) اس بارے میں میں نے بات کی۔ اب اس بارے میں مزید بات کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ تاہم مشترکہ جامع ایکشن پلان سے ایک چیز تو ثابت ہو گئی اور وہ یہ کہ امریکی ہمارے ساتھ معاندانہ برتاؤ کر رہے ہیں۔ صرف امریکی کانگریس نہیں جو شمر کا رول ادا کر رہی ہے، بلکہ امریکی حکومت اور دیگر ادارے بھی دشمنی کا برتاؤ کر رہے ہیں، تاہم ان کی دشمنی کا انداز الگ ہے، لیکن بہرحال برتاؤ معاندانہ ہی ہے۔ ہم ان چیزوں کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ اب عقلمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان ایسے دشمن کے معاملے میں عقل و دانشمندی سے کام لے، احتیاط برتے، فریب میں نہ آئے، اس بچھائے ہوئے جال کے قریب نہ جائے، اس کے تیار کردہ میدان میں قدم نہ رکھے، اس طرح سے انسان ہوشیاری برتے۔ بے شک مغربی ایشیا کے علاقائی مسائل کے سلسلے میں، شام اور لبنان وغیرہ جیسے معاملات میں ان کا دل تو بہت چاہتا ہے کہ ایران کے ساتھ ہم آہنگی ہو جائے، انھوں نے یہ کہا بھی ہے لیکن یہ ہمیں نہیں پسند ہے۔ ان کو ساری پریشانی ایران کی موجودگی اور اثر و نفوذ سے ہے۔ وہ مذاکرات اس نیت سے کرتے ہیں کہ ایران کی اس موجودگی کو محدود کر دیں، تو پھر ہم ان سے کس بات پر مذاکرات کریں؟ وہ کہتے ہیں کہ ایران اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ ختم کرے۔ ان کی پریشانی کا سبب یہ موجودگی ہے۔ وہ اس مشکل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس مشکل کے ازالے میں کیوں مدد کر دیں؟ بلکہ اس کے برعکس ہم یہ چاہیں گے کہ اس علاقے میں امریکا کا وجود نہ رہے۔ لہذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے۔
میرے خیال میں بہت باتیں ہو چکیں۔ بہرحال میرے عزیزو! ہم ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں، اس حقیر کا یہ دینی فریضہ ہے، شرعی ذمہ داری ہے، اخلاقی فرض ہے جو میں انقلاب کے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفین کے خلاف ڈٹا ہوا ہوں اور جب تک اس بدن میں جان ہے یہ استقامت جاری رہے گی۔ مجھے عوام پر پورا بھروسہ ہے۔ ملک کے دانشور طبقے کے اندر، یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد اور طلبہ کے اندر مومن اور اس راستے پر استقامت کے حامی افراد کی تعداد اتنی ہے اسے دیکھ پر پست ہمت افراد میں بھی نیا جوش و جذبہ پیدا ہو جائے، تو مجھ جیسے آدمی کی تو بات ہی الگ ہے جو پہلے سے ہی جوش و جذبہ رکھتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ استقامت جاری ہے اور اس استقامت کا نتیجہ فتح و کامرانی ہے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں کچھ طلبہ اور طلبہ یونینوں کے نمائندوں نے تقریریں کیں۔
۲) سوره‌ احزاب، آیه‌ ۲۲؛ «اور جب مومنین نے دشمن کے دستوں کو دیکھا تو کہنے لگے؛ یہ وہی ہے جس کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی تھی۔ اللہ اور اس کے رسول نے صحیح فرمایا تھا، اس صورت حال سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔»
3) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۱۲ کا ایک حصہ
4) سوره‌ احزاب،آیت نمبر ۲۲ کا ایک حصہ
5) 14 جون 2016
6) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۵۵ کا ایک حصہ
7) سوره‌ مریم، آیت نمبر ۵۹ کا ایک حصہ «پھر ان کے بعد ایسے جانشین آ گئے جنھوں نے نماز کو تباہ کیا اور اپنی ہوس کی پیروی کی اور وہ بہت جلد (اپنی) گمراہی (کی سزا) کو دیکھیں گے۔»
8) سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۱۶۹کا ایک حصہ «پھر ان کے بعد کچھ جانشین (آسمانی) کتاب کے وارث بنے جو اس پست دنیا کا مال و متاع حاصل کرتے ہیں۔...»
9) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۶۵ کا ایک حصہ «...مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاؤ ...»
10) اسرائیل سے آشتی کا معاہدہ
11) منجملہ صحیفہ امام جلد 19 صفحہ 153؛ مورخہ 11 فروری 1985 کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ملت ایران کے نام پیغام؛ اس زمانے میں اور دنیا کی اس صورت حال میں جو آج نظر آ رہی ہے اور اس باشرف مولود (اسلامی جمہوری نظام) پر داہنے بائیں اور دور و نزدیک سے ہونے والے حملوں کے دور میں اسلامی جمہوری نظام کی حفاظت اہم ترین عقلی و شرعی واجبات میں سے ہے۔ کوئی بھی چیز اس واجب کے آڑے نہیں آ سکتی۔
12) 18 جون 2016
13) 14 جون 2016
14) حاضرین نے بیک آواز مطالبہ کیا کہ افطار کے بعد جس پر رہبر انقلاب اور حاضرین سب ایک ساتھ ہنس پڑے
15) حاضرین کی طرف سے صلوات
16) حاضرین کی طرف سے صلوات
17) نماز مغرب و عشا اور افطار کے بعد نشست کا دوسرا دور شروع ہوا۔
18) یونیورسٹی طلبہ سے مورخہ 28 جولائی 2013 کا خطاب
19) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲۲ کا ایک حصہ «اور جب مومنین نے دشمن کے دستوں کو دیکھا تو کہنے لگے؛ یہ وہی ہے جس کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی تھی۔ اللہ اور اس کے رسول نے صحیح فرمایا تھا، اس صورت حال سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔»
20) بی‌ بی‌ سی‌
21) حاضرین کی ہنسی
22) حاضرین کی ہنسی
23) حاضرین کی ہنسی
24) سوره‌ رعد، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ
25) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۶۲ کا ایک حصہ «یقین جانو کے نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، »
26) حاضرین کا اصرار کہ نشست جاری رہے!
27) صوبہ کرمان کے یونیورسٹی اساتذہ اور طلبہ سے مورخہ 9 مئی 2005 کا خطاب
28) اسلامی نظام کے عہدیداروں سے مورخہ 14 جون سنہ 2016 کا خطاب
29) مورخہ 22 جون 2016