انھوں نے کہا کہ نسل کشی، قتل عام اور عورتوں، بچوں، مریضوں اور اسپتالوں پر حملے جیسے صیہونی حکومت کے جرائم کی حالیہ تاریخ میں کوئي مثال نہیں ملتی اور جرائم اس حد تک ہیں کہ یورپ اور امریکا میں مغربی کلچر کے پروردہ افراد تک نے صدائے احتجاج بلند کر دی ہے۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے چھے ماہ سے جاری جنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت کو دو پہلوؤ‎ں سے شکست خوردہ بتاتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کی پہلی شکست سات اکتوبر کے دن اور طوفان الاقصیٰ آپریشن میں ہوئي تھی اور انٹیلی جنس اور عسکری شعبے میں برتری کی دعویدار حکومت کو انتہائی محدود وسائل والے ایک مزاحمتی گروہ نے انٹیلی جنس کے شعبے میں ایک بڑی شکست سے دوچار کر دیا اور صیہونی حکومت کی اس فضیحت اور شکست کی نہ تو تلافی ہو سکی ہے اور نہ ہی آگے ہوگي۔ 
رہبر انقلاب کے مطابق صیہونیوں کی دوسری شکست غزہ پر حملے کے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں صیہونیوں کو امریکا کی جانب سے حاصل تمام تر فوجی، مالی اور سیاسی حمایت منجملہ قراردادوں کو ویٹو کیے جانے اور حالیہ قرارداد کو غیر لازم العمل بتانے کے سفید جھوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بھرپور حمایت کے باوجود صیہونی اپنا اعلان کردہ ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ 
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ وہ چاہ رہے تھے کہ مزاحمتی تنظیموں خاص طور پر حماس کو پوری طرح ختم کر دیں جبکہ آج حماس، جہاد اسلامی اور غزہ کے تمام مزاحمتی گروہ مشکلات برداشت کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت پر وار کر رہے ہیں۔ 
انھوں نے کہا کہ صیہونیوں کی درندگي اور بے قصور بچوں اور عورتوں کا قتل عام مزاحمتی فورسز کے مجاہدین کے سامنے صیہونیوں کی لاچاری کی وجہ سے ہے اور یقینی طور پر صیہونیوں کی شکست جاری رہے گي اور شام میں انھوں نے جو کام کیا ہے، جس کا انھیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا، اس طرح کی ناکام کوششیں ان کی مشکلات کو دور نہیں کر سکتیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں اور اس سے ان کے نکلنے کا کوئي امکان نہیں ہے، کہا کہ صیہونی حکومت روز بروز زیادہ کمزور اور اپنے زوال اور خاتمے کے زیادہ قریب ہوتی جائے گي اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے جوان اس دن کو دیکھیں گے جب قدس شریف مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوگا اور وہ وہاں نماز ادا کریں گے اور عالم اسلام غاصب حکومت کے خاتمے کا جشن منائے گا۔ 
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کو عالم اسلام کے لیے ایک بڑا موقع قرار دیا اور اسلامی نظام کی روز افزوں طاقت اور اس کے دشمنوں کی کمزوری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد علاقائي اندازے اور تخمینے، مزاحتمی محاذ کی پوزیشن اور اس کے مد مقابل محاذ کی پوزیشن بدل گئي ہے اور مستقبل میں اس سے بھی زیادہ تبدیلی آئے گي۔ 
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ اسلام، مزاحمت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن، ان تبدیلیوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور اس کے ساتھ ہی انھیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ اس خطے میں اسلامی معاشرے پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔ 
انھوں نے عالمی یوم قدس کے قریب آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ : اس سال کا یوم القدس غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ایک عالمی  قیام ثابت ہوگا اور اگر گزشتہ برسوں میں اسلامی ممالک یوم قدس منعقد کیا کرتے تھے تو اس سال بہت زیادہ امکان ہے کہ غیر اسلامی ممالک میں بھی یوم القدس پرشکوہ طریقے سے منعقد ہوگا اور ہمیں امید ہے کہ ایرانی قوم دیگر مواقع کی طرح اس دن بھی کارنامہ کرے گی۔