مغربی میڈیا کے برسوں کے زہریلے پروپیگنڈے اس بات کا سبب بنے کہ عالمی رائے عامہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئي ہے کہ ایران کے غیر سویلین ایٹمی پروگرام کے پھیلاؤ اور ممکنہ طور پر اس ملک کی ایٹمی اسلحہ جاتی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر پابندیاں عائد کی گئي ہیں۔ اگرچہ ان برسوں میں بین الاقوامی ایٹمی توانائي کی ایجنسی کی متعدد رپورٹوں اور رہبر انقلاب اسلامی کے واضح فتوے نے یہ دکھا دیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے لیکن مغرب خاص طور پر امریکا کی پابندیوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کا ایٹمی مسئلہ، اگرچہ اس کے خلاف پابندیوں کا ایک سبب رہا ہے لیکن وہ اصل اور بنیادی وجہ نہیں ہے۔
انقلاب کے بعد پہلی پابندی
ایران کے خلاف مغرب کی پہلی پابندی تہران میں امریکی سفارتخانے میں موجود جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد لگائي گئی۔ اس پابندی کی وجہ سے ملک کے باہر ایران کے دسیوں ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے اور قیدیوں کی رہائي کے بعد بھی یہ رقم ایران کو نہیں لوٹائي گئي۔ ایران کے خلاف صدام کی مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی امریکا نے سنہ 1984 میں ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیار کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ اسی سال امریکی وزارت خارجہ نے ایران کو "دہشت گردی کی حامی حکومت"(1) قرار دیا۔ یہ پابندی، لبنانی جوانوں کی طرف سے غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں کے خلاف منظم جدوجہد کے فیصلے کے بعد لگائي گئي۔ صیہونی حکومت نے سنہ 1982 سے لبنان کی سرزمین کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا تھا اور ایران نے لبنانی جوانوں اور حزب اللہ کی تشکیل کی حمایت کی تھی۔(2) سنہ 1987 میں صدام حکومت ایران کے تیل کی پیداوار اور برآمد کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی، امریکا بھی اس میدان میں کود پڑا اور ایران کی جانب سے مزاحمت کے بعد اس نے اس کے خلاف نئي پابندیاں عائد کر دیں۔(3)
مسلط کردہ جنگ کے بعد کی پابندیاں
ایران کے خلاف امریکا کی ایک اور بڑی پابندی یعنی ISA جسے تیل کے شعبے میں دیگر پابندیوں کی اساس سمجھا جاتا ہے، سنہ 1996 میں اس وقت لگائي گئي جب ایران کی ایٹمی صنعت کا معاملہ ہی درپیش نہیں تھا۔ اس پابندی میں بھی ایران پر اصل الزام "دہشت گردی کی حمایت"(4) ہے۔ ایران کا ایٹمی معاملہ پہلی بار سنہ 2003 اور اس کے بعد سرخیوں میں آیا۔ سنہ 2003 کے بعد ایران پر لگائي گئي پابندیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ پابندیوں کا اصل سبب ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر 13224، جو سنہ 2001 میں منظور ہوا اور ایران کے بہت سے افراد اور ادارے سنہ 2007 تک اس کی زد میں آ گئے، دہشت گردی کی مالی اعانت سے مقابلے کے نام پر نافذ کیا گيا تھا۔ یہ پابندی سنہ 2006 میں دو اہم واقعات کے رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد لگا دی گئي۔ پہلا واقعہ تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست تھی جس میں وہ لبنان کی سرحد میں گھس گئي تھی اور اس نے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لبنانیوں کو شہید کر دیا تھا۔ دوسرا واقعہ فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی فتح تھی۔ یہ الیکشن صیہونی حکومت اور امریکا نیز فلسطین کے اندر موجود غداروں کی سازشوں کی وجہ سے بے نتیجہ رہ گئے اور بڑے پیمانے پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد حماس تنظیم، غاصب صیہونی فوجیوں کو غزہ سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو گئي۔
ایک دوسرا آرڈر، ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 تھا جو سنہ 2005 میں جاری ہوا اور اس کا ہدف عام تباہی کے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا تھا اور اس پابندی کا بنیادی ٹارگٹ ایران تھا۔ اس پابندی کے متن اور نتیجے کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی فوجی اور میزائل صنعت، اس پابندی کا اصل ہدف تھی۔ ایران کی میزائل صنعت نے وعدۂ صادق آپریشن میں اپنی زبردست کارکردگي کا مظاہرہ کیا اور ایران کی جانب سے فائر کیے گئے میزائيلوں میں سے ایک بھی، ایسے کسی مقبوضہ علاقے میں جا کر نہیں گرا جہاں عام لوگ رہتے ہیں۔
ایران اور اس کی ایٹمی صنعت کی پیشرفت کے خلاف مغرب کی پابندیوں کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئي براہ راست رابطہ نہیں ہے۔ ایٹمی سمجھوتے سے پہلے تک ایران کے خلاف سب سے بڑی پابندیاں، سنہ 2009 کے انتخابات کے بعد سڑکوں پر ہونے والے ہنگاموں، دہشت گردی کی حمایت نیز ایٹمی مسئلے سے متعلق تھیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت ساری پابندیوں میں ایٹمی مسئلے کا ذکر کیا گيا ہے لیکن CISADA جیسی پابندیوں اور سنہ 2012 کے قومی دفاع کے حق کے قانون وغیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی معیشت اور دہشت گردی کی حمایت، ان پابندیوں کا اصل ہدف رہی ہے۔
ایران کو کمزور کیا جانا چاہیے
رچرڈ نیفیو نے اپنی کتاب "The Art of Sanctions" میں لکھا ہے کہ ایرانی عوام کے خلاف پابندیاں اور دباؤ اس بات کا سبب بنیں گے کہ حکمراں طبقہ عوام کے دباؤ کے تحت اپنے رویے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ مغربی سیاستدانوں کے درمیان حکمراں طبقے کے رویے میں تبدیلی کی اصطلاح سے مراد ایران کی جانب سے مزاحمتی محاذ کی مدد بند کرنا اور خطے میں ان کی ثقافتی اور معاشی پالیسیوں کے سامنے سر جھکا دینا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام، اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی سامراج، غاصبانہ قبضے اور آمریت کے ظلم کا شکار پوری دنیا کی تمام حریت پسند تحریکوں کی مدد کا خود کو پابند سمجھتا رہا ہے اور اب بھی سمجھتا ہے۔ غاصب صیہونی دشمن سے لڑنے کے لیے لبنانی مجاہدین کی ٹریننگ کے لیے سپاہ پاسداران کے مشیروں کی موجودگي، اپارتھائيڈ حکومت کو تیل کی برآمد روک کر جنوبی افریقا کے لوگوں کی تحریک آزادی کی حمایت، انیس سو نوے کے عشرے میں بوسنیا کے مظلوم مسلمان مجاہدین کی مدد کے لیے ایرانی جوانوں اور مشیروں کی موجودگي، عراق اور شام میں داعش سے لڑائی میں ایرانی مشیروں اور مجاہدین کی موجودگي اور سب سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے لے کر اب تک فلسطینی کاز کی حمایت، وہ اہم رویہ ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے پابندیاں لگائي جاتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اکتوبر سنہ 2023 میں FATF کی نشست میں اور طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ایران سے مطالبہ کیا گيا کہ وہ مسلح مزاحمتی گروہوں کی مالی اعانت، جو وہ اپنے آئین کی دفعہ 154 کے تحت کرتا ہے، بند کر دے۔(5) اسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کے مطابق غاصبانہ قبضے، سامراج یا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد جائز اور قانونی ہے۔
امام خامنہ ای نے اسی تناظر میں ایران پر پابندیاں لگائے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے 24 اپریل 2024 کو کہا تھا: "پابندیوں کا ہدف ایران اسلامی کو دباؤ میں لانا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو پابندیوں کے ذریعے مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ کیا ہو؟ تاکہ وہ ان کی استعماری اور سامراجی پالیسیوں پر چلے، ان کی زور زبردستی کے مطالبات کے سامنے جھک جائے اور ان کی زور زبرستی کی توقعات پوری کرے، اپنی پالیسیوں کو ان کی پالیسیوں کا تابع بنا دے ... ظاہر ہے کہ اسلامی نظام، غیرت اسلامی اور اس قوم کے لئے جس کا تشخص اسلامی ہے، اس زور زبرستی کے سامنے جھکنا ناممکن ہے۔"