بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
محنت کش برادران وخواہران عزیز، خوش آمدید! میں آپ حاضرین محترم کے توسط سے محنت کش برادری کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ کامیاب اور منصور رہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ ہفتہ محنت کشاں ہے جس کی وجہ سے اس ہفتے میں محنت کشوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور کم سے کم ان کا زبانی شکریہ ادا کر لیتے ہیں، البتہ زبانی شکریہ کافی نہیں ہے، لیکن ضروری ہے۔ میں محنت کشوں کی زحمتوں کا، ان کی نجابت کا اور ان کی کاوشوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
چند نکات عرض کروں گا۔ یہ نکات جو عرض کئے جا رہے ہیں، ممکن ہے کہ ان میں سے بعض آپ کو معلوم اور واضح ہوں۔ میں ان نکات کے بیان پر اس لئے زور دیتا ہوں کہ یہ عام ہو جائيں۔ عام رائے میں معمول بن جائيں۔ معاشرے کے عام لوگوں کی نگاہیں ان پر رہیں، یہ تسلیم کر لئے جائيں تو ان کا عملی ہونا آسان ہو جائے گا۔ حکومتیں، حکام اور سبھی متعلقہ ذمہ داران ان کی تکمیل کی کوشش کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عملی شکل اختیار کریں۔
پہلا نکتہ محنت کش کی اہمیت سے تعلق رکھتا ہے۔ محنت کشوں کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے، ہماری بھی کچھ گزارشات ہیں،(2) دوسروں نے بھی کہا ہے، آپ بھی جانتے ہیں۔ سب سے بڑی بات جو اس سلسلے میں کہی جا سکتی ہے، یہ ہے کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے محنت کش کے گھٹے پڑے ہوئے ہاتھ پر بوسہ دیا ہے۔(3) اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ محنت کش کی اہمیت ہے۔ لیکن یہاں ایک نکتہ ہے کہ دنیا میں، ہر ملک میں سبھی اقوام میں اور مختلف تہذیبوں میں یوم محنت کشاں منایا جاتا ہے۔ یوم محنت کشاں سبھی مناتے ہیں، لیکن محنت کش کے بارے میں اسلام کا نقطہ نگاہ مادی نقطہ نگاہ سے مختلف ہے۔ مادی دنیا بھی محنت کش کے لئے اہمیت کی قائل ہے، لیکن کیوں؟ اس لئے کہ محنت کش ایک وسیلہ ہے، آجر کے لئے (جس کے لئے کام کرتا ہے) دولت کی پیداوار کا وسیلہ ہے۔ مادی دنیا محنت کش کو ایک ذریعے کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ اسی نگاہ سے دیکھتی ہے جس نگاہ سے کیل کانٹے اور مشین کو دیکھتی ہے۔ اسلام ایسا نہیں ہے۔ محنت کش کے بارے میں اسلام کا نقطہ نگاہ اس اہمیت پر استوار ہے جس کا اسلام محنت اور کام کے لئے قائل ہے۔ اسلام کام اور محنت کے لئے ذاتی اہمیت کا قائل ہے۔
عمل صالح کی یہ اصطلاح جو قرآن کریم میں ہے اور متعدد روایات میں اس سلسلے میں جو اصطلاحات بروئے کار لائی گئی ہیں اور اس کی جو تعریف کی گئی ہے، اس سے مراد صرف روزہ اور نماز نہيں ہے۔ عمل یعنی ہر طرح کا عمل، وہ عمل بھی جو انسان عبادت کے عنوان سے کرتا ہے اور وہ کام بھی جو رزق حلال کے لئے انجام دیتا ہے، وہ بھی عمل ہے، یہ بھی عمل صالح ہے: انّ الّذین آمنوا و عملو الصّالحات" (4) اس عمل پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
عمل ایک عام اصطلاح ہے۔ لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ سعد ابن معاذ کے سلسلے میں جو شہید ہوئے تھے، رسول ان کی قبر میں اترے، انھیں قبر میں لٹایا اور پھر جب آپ اس قبر کو بنا رہے تھے، تو مسلسل پانی اور گندھی ہوئی مٹی مانگ رہے تھے۔ فرما رہے تھے کہ گیلی مٹی دو تاکہ قبر مضبوط کی جائے۔ قبر کس لئے محکم کی جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اس لئے مضبوط کی جاتی ہے کہ چار دن بعد خراب نہ ہو جائے۔ رسول اسلام (صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ کسی نے آپ سے سوال نہیں کیا تھا لیکن پیغمبر نے اس کا جواب دیا ہے۔ فرمایا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ چند دنوں میں یہ خراب ہو جائے گی، یہ بدن بھی اور وہ لحد بھی۔ لیکن خدا چاہتا ہے کہ جب انسان کوئی کام کرے تو بحسن و خوبی اور مضبوطی کے ساتھ انجام دے۔ روایت میں اس طرحی بیان کیا گیا ہے کہ : "انّ اللہ تعالی یحب اذا عمل احدکم عملا ان یتقنہ"(5) ظاہر ہے کہ اس روایت کی زبان میں جو لفظ عمل استعمال کیا گیا ہے، اس کا اطلاق اس طرح کے عمل پر بھی ہوتا ہے۔ یہ عمل بذات خود احترام کا متقاضی ہے۔
ایک روایت میں، یہ روایت معاشرے کے بارے میں ہے، انسانی معاشروں کے بارے میں آیا ہے کہ "من یعمل یزدادقوّۃ"۔ جس معاشرے میں کام ہوگا، عمل انجام پائے گا، اس کی طاقت و قوت میں اضافہ ہوگا۔ "ومن یقصرّ فی العمل یزداد فترۃ" (6) اور جس معاشرے میں عمل میں کوتاہی اور سستی ہو، تو اس کی کمزوری روز بروز بڑھے گی۔ عمل طاقت پیدا کرتا ہے۔ فرد ميں بھی اور معاشرے میں بھی۔ عمل یہ ہے۔ بنابریں اسلام میں کام کی اپنی ذاتی اہمیت ہے۔ کون یہ عمل انجاد دیتا ہے؟ آپ، محنت کش۔ بنابریں محنت کش بھی بذات خود اہمیت رکھتاہے۔ دیکھئے، یہ نقطہ نگاہ ہے۔ نقطہ نگاہ یہ نہیں ہے کہ اگر یہ نہیں ہوگا تو ہماری جیب خالی رہے گی۔ یہ نہیں کہ محنت کش کو بھی ایک اوزار کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اسلام اس طرح نہیں دیکھتا۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ کام کر رہا ہے اور کام کی اپنی ذاتی اہمیت ہے بنابریں اس محنت کش کی بھی اپنی ذاتی اہمیت ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ خود بھی جو محنت کشں ہیں، اپنی اہمیت کو سمجھیں، محنت کش کی اہمیت اور اس کے مرتبے پر توجہ رکھیں اور ملک، معاشرہ اور عوام بھی اس بات پر توجہ رکھیں کہ محنت کش کی اہمیت کیا ہے۔ یہ ایک نکتہ۔
دوسرا نکتہ ملک کے آج کے اقتصادی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔ آج ملک کے اہم مسائل میں سے ایک اقتصاد کا مسئلہ ہے۔ اسی بنا پر ہم نے چند برس سے، سال کے سلوگن میں اقتصادی پہلوؤں پر زور دیا ہے۔ اس سال بھی (7) ہم نے پیداوار میں اچھال کہا ہے، پیداوار میں اضافہ نہیں، اچھال۔ اچھال کیسے آتا ہے؟ عوام کی مشارکت سے۔ مجھے یقین محکم ہے اور سبھی ماہرین اقتصادیات بھی میرے نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر عوام اقتصادی میدان میں آ جائيں، بالخصوص اگر پیداوار کے میدان میں آ جائيں تو پیداوار میں اچھال آ جائے گا، ملک امیر ہو جائے گا، عوام دولت مند ہو جائيں گے، محنت کش کی جیب بھرے گی، محنت کش کا ہاتھ خالی نہیں رہے گا، روزگار میں اضافہ ہوگا، بے روزگاری کم ہوگی اور محنت کشوں کی بے شمار مشکلات اور ملک کا اقتصادی مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ یہ اقتصادی مسئلے کی بات ہے۔
اب اس سلوگن "پیداوار میں اچھال" میں، اچھال کا ستون کون ہے؟ محنت کش! یعنی اس ذاتی اہمیت کے علاوہ جو میں نے پہلے نکتے میں عرض کی، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس سال کے سلوگن اور اس سال کی کلی سیاست میں جس پر عمل ہونا ہے اور الحمد للہ کہ ملک کے حکام اس پرعمل کر رہے ہیں، میٹنگیں ہو رہی ہیں، بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور ان شاء اللہ راہ حل نکل آئے گی، محنت کش کا کردار بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔ یعنی پیداوار کے اچھال میں، ایک ماہر اور جوش و جذبے سے کام کرنے والے محنت کش کا کردار ناقابل انکار ہے۔ اس کا کردار بہت اہم ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ محنت کش اور روزگار پیدا کرنے والے کا کردار اہم ہے۔ روزگار فراہم کرنے والے کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اس کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ محنت کش کام کر سکے۔ روزگار فراہم کرنے والا اور محنت کش، دونوں اقتصادی جنگ میں اگلے محاذ پر ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔
آج ہم اقتصادی جنگ کی حالت میں ہیں۔ اقتصادی جنگ ہے۔ ابتدائے انقلاب کی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کی طرح جو مسلط کردہ فوجی جنگ تھی، یہ مسلط کردہ اقتصادی جنگ ہے۔ امریکا ایک طرح سے، امریکا کے ساتھی ممالک الگ طرح سے ایران اسلامی، اسلامی جمہوریہ کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ یہ اقتصادی جنگ ہے۔ اس اقتصادی جنگ میں جو ہم پر مسلط کی گئی ہے، پہلی صف اور اگلا محاذ روزگار فراہم کرنے والوں اور محنت کشوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اگلے محاذ پر ان کا کردار ہے (8) لیکن میرے پیش نظر، یہ حصہ نہیں تھا، بلکہ میرے پیش نظر یہ بات ہے کہ آپ جو امریکا کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، اپنے کام کی قدر کو سمجھیں۔ یعنی محنت کش اور روزگار فراہم کرنے والے اس جدوجہد کی اگلی صف میں ہیں۔ آپ جتنا اچھا کام کریں گے، اس امر میں جتنی مدد کی جائے کہ آپ اچھا کام کر سکیں، اس سلسلے میں میں بعد میں عرض کروں گا، اس اقتصادی جنگ میں اتنے ہی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں کچھ فرائض ہیں۔ حکومت اورحکام پر محنت کشوں کے تئيں کچھ فرائض ہیں اور کچھ کام انہیں کرنے ہیں اور کچھ فرائض محنت کشوں کے بھی ہیں۔ یعنی دونوں فریقوں کے کچھ فرائض ہیں جو انہیں انجام دینے ہیں۔ میں ان فرائض کی طرف اشارہ کروں گا۔
سب سے پہلے اس بات پر توجہ رکھیں کہ محنت کشوں کے حالات بہتر ہونے سے پورے معاشرے پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے، ہمارے ملک میں تقریبا ایک کروڑ چالیس لاکھ محنت کش ہیں۔ اگر ان کے خاندان والوں کا بھی حساب کریں تو چار کروڑ سے زائد ہوں گے۔ یہ چار کروڑ سے زائد کا مطلب ملک کی آدھی آبادی ہے۔ اگر کوشش کی جائے اور ایسا کام کیا جائے کہ ملک کے محنت کشوں کے حالات اچھے ہوں تو اس سے ملک کی نصف آبادی کی حالت اچھی ہو جائے گی۔ یہ بہت اہم ہے۔ اب جو فرائض ہیں، میں نے ان میں سے بعض یہاں پر نوٹ کئے ہیں۔
پہلا مسئلہ جو محنت کش طبقے کی اہم ترین ضرورت ہے اور محترم وزیر صاحب (9) بھی یہاں پر ہیں، ملک کے حکام بھی سن رہے ہیں، روزگار کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ روزگار کی سیکورٹی کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش اپنے مستقبل سے مطمئن ہو۔ ایک وقت ہم بڑے اور پرانے کارخانوں کے بند ہونے کے مسئلے سےدوچار تھے۔ کسی بڑے کارخانے کے بند ہونے سے بعض اوقات کئی ہزار محنت کش بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ الحمد للہ حالیہ ایک دو برس میں حکام کی کاوشوں سے بہت سے کارخانے دوبارہ چلنے لگے۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے، تقریبا دس ہزار ایسے کارخانے جن میں سے کچھ پوری طرح بند ہو چکے تھے اور بعض آدھے بند تھے، دوبارہ زندہ کئے گئے اور چلنے لگے۔ یہ کام جاری رہنا چاہئے۔ محنت کشوں کی روزگار کی سیکورٹی کے لئے مختلف روشوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ روزگار کی سیکورٹی حکام کے فرائض میں ہے کہ جو قناعت اور شرافت کے ساتھ کام کر رہے ہيں، کم سے کم انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی ملازمت محفوظ ہے اور اس حوالے سے انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
ایک اور نکتہ، انشورنس سے تعلق رکھتا ہے جس کی طرف محترم وزیر صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ انشورنس کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ محنت کشوں اور دوسرے طبقات کے لوگوں کے لئے سوشل سیکورٹی کی کلی پالیسیاں مدتوں پہلے (10) دی جا چکی ہیں۔ محترم صدر مملکت (11) نے بھی حکم دیا ہے کہ اس کے ضوابط تیار کئے جائيں۔ لیکن جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے، اب تک یہ کام جس طرح کہ انجام پانا چاہئے تھا، صحیح طور پر پوری طرج انجام نہیں پایا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ افرادی قوت کی سیکورٹی ہے۔ کام کی جگہ اور مرکز میں افرادی قوت کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ افرادی قوت کی سیکورٹی بہت اہم ہے۔ محنت کشوں کی ایک اہم ضرورت جو حکومتی ذمہ داروں اور کارخانوں کے مالکین اور زیادہ تر حکومت وغیرہ کے تئیں کچھ فرائض رکھتے ہیں، مہارت ہے۔ محنت کش کام کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن بعض جگہوں پر انہیں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام کے بارے میں جانکاری اور مہارت میں اضافہ، کام کی پیشرفت میں بہت مدد کرتا ہے۔ یہ چیز خود محنت کشوں کے فائدے میں بھی ہے اور ملک کے فائدے میں بھی ہے۔ یہ مہارت بڑھانا، جو افرادی قوت کو توانا بناتا ہے، محنت کشوں کے فرائض میں ہے کہ مہارت بڑھاکر خود کو توانا بنائیں۔
اسی سلسلے میں اچھی استعداد کے لوگوں کی تلاش بھی ہے۔ محنت کشوں میں کچھ لوگ بہت اچھی استعداد کے مالک ہوتے ہیں، جن کے ذہنوں میں نئے نئے آئیڈیاز آتے ہیں، اگر متعلقہ ادارے ان کو پہچانیں اور ان کی استعداد کا پتہ لگائيں اور انہيں اپنی استعداد اور صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع دیں کہ وہ ایجادات اور خلاقیت دکھائيں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے محنت کش طبقے کی حالت بھی اچھی ہوگی اور ملک بھی کام میں پیشرفت کرے گا۔
البتہ ان میں سے بعض فرائض جو میں نے عرض کئے ہیں، حکومتی اداروں کے ہیں۔ جیسے وزارت محنت اور حتی ٹریننگ اور تربیت کے مراکز اور اداروں کے ہیں۔ میں نے وزارت تعلیم و تربیت سے تکنیکی اور پیشہ ورانہ ٹریننگ کی بارہا سفارش کی ہے۔(12) اس سے افرادی قوت کی مہارت بڑھانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ شاید ضروری ہو کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم و تربیت میں، نصاب کی تعلیم کے ساتھ ہی پریکٹکل ٹریننگ بھی دی جائے، حتی اس کا سرٹیفکٹ اور ٹیکنکل تعلیم کی سند بھی دی جائے جس سے کسی کام میں اس کی صلاحیت معلوم ہو سکے اور مثال کے طور پر کسی نوجوان نے جو ٹیکنکل تعلیم حاصل کی ہے، اس کا پتہ چل سکے اور وہ کام کر سکے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے جو میں نے عرض کیا۔ ان میں بعض حکومت کے ذمے ہیں اور بعض خود پیداواری یونٹوں کے مینیجروں کے ذمے ہیں۔ اگر ان فرائض پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ محنت کش طبقہ ترقی کرے گا۔ یہ محنت کش طبقے کے تئيں فرائض ہیں۔
خود محنت کش طبقے کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ اسلام میں اسی طرح ہے۔ جس کا آپ پر کوئی حق ہے اس پر آپ کا بھی حق ہے۔ حقوق دو طرفہ ہیں۔ آپ پر کسی کا حق ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ آپ کا بھی دوسرے پر حق ہو۔ اگر آپ کسی پر حق رکھتے ہیں تو وہ بھی آپ پر حق رکھتا ہے۔ یہ حقوق دو طرفہ ہیں۔
محنت کشوں کا ایک فرض یہ ہے کہ کام کو اہمیت دیں۔ محنت کش طبقے سے میری، سنجیدگی کے ساتھ سفارش یہ ہے کہ آپ جو محنت کش ہیں، کام کر رہے ہيں، جان لیں کہ آپ اہمیت پیدا کر رہے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں، رزق حلال کما رہے ہیں، یہ تو ہے، لیکن صرف یہی نہیں ہے، بلکہ آپ کام کرکے ملک کو ترقی دے رہے ہیں۔ آپ کا کام ملک کی ترقی کا باعث ہے۔ ملک ترقی کرے گا تو عزت و آبرو اور سرافرازی حاصل ہوگی اور ملک طاقتور ہوگا۔ میں نے وہ روایت پڑھی کہ اگر کام کیا گیا تو یہ کام ملک کی طاقت بڑھائے گا۔ بنابریں آپ کے کام کے دو پہلو ہیں: ایک ذاتی پہلو ہے اور دوسرا عمومی پہلو ہے۔ یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ خود آپ کام کی اہمیت پر توجہ رکھیں۔
دوسرے یہ کہ کام کو امانت سمجھیں۔ یہ فریضہ جو آپ کو سونپا گیا ہے یہ آپ کے پاس امانت ہے۔ تیسرے یہ کام محکم انداز میں کریں، اس طرح انجام دیں کہ اس کے مکمل ہو جانے کا یقین حاصل ہو جائے، بس کسی طرح سمیٹ دینے والا کام نہ کریں، میں نے ماضی میں اس مسئلے پر بہت زور دیا ہے۔ متعدد مثالیں دی ہیں لہذا ان کو دہرانا نہیں چاہتا(13) کام کے ماحول میں نظم و ضبط اور کام کے تئیں احساس ذمہ داری، محنت کشوں کے فرائض میں ہے۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ کام کی اہمیت کو سمجھیں تو یہ صرف محنت کش طبقے سے مخصوص نہیں ہے۔ سبھی لوگ کام کی اہمیت جانیں۔ اس کے دو فوائد ہیں: ایک فائدہ یہ ہے کہ محنت کش طبقے کو اہم سمجھا جائے گا، محنت کش اور ہر مزدور، وہ محنت کش جو گاڑی کے اندر کام کرتا ہے، وہ محنت کش جو زمین پر کام کرتا ہے، وہ محنت کش جو عمارت کے اندر کام کرتا ہے، وہ جس پر مزدور کا اطلاق ہوتا ہے، اس کو اہم سمجھا جائے گا۔ دوسرے خود اس کے اندر کام کی رغبت پیدا ہوگی۔ ملک میں کچھ نوجوان ایسے ہیں جو نوجوان ہیں لیکن ان کے اندر کام کرنے کی رغبت نہیں ہے۔ کام کی تلاش میں بھی نہیں نکلتے۔ نہ کام کی ٹریننگ لیتے ہیں اور نہ ہی کام کی جستجو کرتے ہیں۔ بعض کام تلاش کرتے ہیں لیکن ان کی نظر میں میز کرسی پر بیٹھ کر کیا جانے والا کام ہی کام ہے۔ اس کی فکر میں ہیں۔ جبکہ ہمیشہ میز کرسی پر بیٹھنا کام نہیں ہوتا، بعض اوقات اس طرح بیٹھنا بیکاری بھی ہوتا ہے۔ پھر بھی اگر کہیں کہ میز کرسی پر بیٹھنا کام ہے تو کام صرف یہی نہیں ہے۔ بنابریں، نوجوان ملک میں پیداوار کے عمل میں زیادہ کردار ادا کریں۔ اس شعبے میں فعال ہوں۔ یہ اس وقت ہوگا جب یہ احساس ہو کہ کام اہمیت رکھتا ہے۔
ایک اور نکتہ پیداوار میں عوام کی مشارکت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے کہا کہ "عوام کی مشارکت سے پیداوار میں اچھال" عوام کی مشارکت کس طرح حاصل ہوگی؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ اب فرض کریں کوئی پیداوار میں تیز رفتار ترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہتا ہے۔ تو کس طرح شریک ہو؟ اس کو کون سکھائے کہ کیسے شریک ہو؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ حکام کے اہم فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ پیداوار میں، پیداوار کے کام میں عوام کی مشارکت کی راہ ہموار اور بیان کریں۔ مثال کے طور پر ایک راستہ کوآپریٹیو کا ہے۔ پیداوار کی کوآپریٹیو کمپنیاں بنائيں۔ ایک گھریلو کام میں مدد ہے۔ ایک دستکاری صنعت میں مدد ہے۔ ایک نالج بیسڈ کمپنیوں کی تشکیل میں مدد ہے۔ حکومت اس سلسلے میں اقتصادی ماہرین کی مدد لے سکتی ہے جو حکومت کے اندر بھی ہیں اور حکومت سے باہر بھی موجود ہیں۔ یہ بہت سے دوسرے راستے پیش کر سکتے ہیں جو عوام کی مشارکت کا موجب بن سکتے ہیں۔ صنعتی امور میں مشارکت، گھریلو امور میں، دستکاری صنعت ميں، زراعت میں، مویشیوں کی پرورش میں، ان تمام شعبوں میں عوام مشارکت کر سکتے ہیں۔ اس مشارکت کا طریقہ عوام کو بتایا جائے اور ان کی مشارکت کی راہ ہموار کی جائے۔ بات عوام کی مشارکت کو آسان بنانے کی ہے۔
ایک اور مسئلہ ہے جس کا تعلق حکومت سے ہے، وہ پیداوار کے شعبے میں بینکوں کے کریڈٹ کا مسئلہ ہے۔ آج یہ نہیں ہے۔ پیداواری شعبے میں بینک کریڈٹ اور بینکنگ سہولتوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ بینکوں کے ذمہ دار حضرات اس پر توجہ دیں۔
آخری نکتہ پابندیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ہم اقتصادی مسائل کی بات کرتے ہیں تو پابندیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم برسوں سے شدید پابندیوں سے دوچار ہیں۔ یہ ایسی پابندیاں ہیں کہ خود پابندیاں لگانے والوں نے، جو زیادہ تر امریکی اور ان کی پیروی کرنے والے بعض یورپی ہیں، خود انھوں نے کہا ہے کہ ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی! خود انھوں نے کہا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد کیا ہے؟ وہ کچھ اہداف بیان کرتے ہیں لیکن جھوٹ بولتے ہیں، اہداف وہ نہيں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ جوہری توانائی کی بات کرتے ہیں۔ جوہری اسلحے کی بات کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایران پر اس لئے پابندی لگائی ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے! دہشت گردی کیا ہے؟ غزہ کے عوام! غزہ کے عوام ان لوگوں کو نظر میں دہشت گرد ہیں! ایک خبیث، جعلی، غاصب اور بے رحم حکومت، چھے مہینے میں تقریبا چالیس ہزار انسانوں کا قتل عام کر دیتی ہے جن میں کئی ہزار بچے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں ہے! وہ عوام جن پر بمباری ہو رہی ہے وہ دہشت گرد ہیں! بنابریں یہ بہانے، جھوٹے بہانے ہيں۔ پابندیوں کا ہدف یہ مسائل نہیں ہیں۔
پابندیوں کا ہدف ایران اسلامی کو مشکل میں ڈالنا ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو پابندیوں کے ذریعے مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاکہ کیا ہو؟ تاکہ وہ ان کی استعماری اور سامراجی پالیسیوں پر چلے، ان کی زور زبردستی کے مطالبات کے سامنے جھک جائے اور ان کی زور زبرستی کی توقعات پوری کرے، اپنی پالیسیوں کو ان کی پالیسیوں کا تابع بنا دے۔ یہ ہدف ہے۔ اب بعض لوگ خیرخواہانہ انداز میں، ان شاء اللہ کہ ان کی رائے خیر خواہانہ ہے، مسلسل نصیحت کرتے ہیں کہ"جناب امریکا سے وہ سمجھوتہ کر لیں، وہ جو کہتے ہیں اس کو سنیں"! ان کی توقعات کی تو کوئی انتہا نہیں ہے۔ چند سال قبل، اسی جگہ، اسی حسینیے میں، جوہری مسئلے پر بات ہو رہی تھی، میں نے ایک عام خطاب (14) میں کہا کہ امریکی معین کریں کہ ایٹمی میدان میں ہمارے کتنے پیچھے ہٹنے پر وہ اکتفا کریں گے۔ وہ معین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ قدم بہ قدم وہاں تک پہنچیں گے جو ایک افریقی، شمالی افریقا کے ایک ملک میں ہوا (15) یعنی ہم سبھی ایٹمی وسائل لپیٹ دیں۔ ملک کو نیوکلیئر میڈیسن اورعلاج کے لئے جوہری توانائی کی ضرورت ہے۔ اس پیشرفت سے ملک میں سیکڑوں کام ہوتے ہیں۔ یہ سب بند کر دیں۔ انہیں یہ توقع ہے۔ سیاسی میدان میں، اقتصادی میدان میں، ملک کی سبھی تدابیر میں مکمل طور پر ان کے تابع بن جائيں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے جھک جاؤ۔ بالکل وہی حالت جو آپ بعض حکومتوں کی دیکھ رہے ہیں، جانتے ہیں، ان کی دولت و ثروت ان کے اختیار میں ہے، ان کی عزت و آبرو بھی ان کے اختیار میں ہے، ان حکومتوں کی پالیسی ان کی پیروی کرنا ہے، وہ یہی چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلامی نظام، غیرت اسلامی اور اس قوم کے لئے جس کا تشخص اسلامی ہے، یہ زور زبرستی تسلیم کرنا محال ہے۔ پابندیوں کا مسئلہ یہ ہے۔
البتہ پابندیوں سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، اس میں در رائے نہیں ہے۔ یعنی اقتصادی مشکلات کا ایک حصہ انہیں پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن ایک نکتہ اس کے ساتھ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ یہی پابندیاں، ملک کے اندر استعدادوں کے کھل کر سامنے آنے کا سبب بھی بنی ہیں، یہی پابندیاں ملک کی صلاحیتوں کے ظاہر ہونے کے اسباب بھی فراہم کر رہی ہیں۔ بہت سی ایسی چیزیں جنہیں ہم بھاری خرچـے سے، بیرونی حکومتوں اور بعض اوقات دشمن سے درآمد کرنے پر مجبور تھے، ملک کے اندر تیار کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے وہ چیزیں ہمارے ہاتھ فروخت نہیں کیں۔ انھوں نے راستے بند کر دیے تو ہم نے خود اپنی طرف دیکھا اور پھر اندرونی طور پر ترقی کی۔ ہمارے نوجوانوں اور ہمارے سائنسدانوں نے وہ وسائل جو وہ احسان رکھ کر بھاری قیمت پر ہمارے ہاتھ فروخت کرتے تھے، کم خرچ میں ملک کے اندر تیار کر لئے۔ زندہ قوم ایسی ہوتی ہے۔ زندہ قوم دشمن کی دشمنی کو بھی موقع میں تبدیل کر دیتی ہے۔
میں نے ہمیشہ اپنے عزیز نوجوانوں سے، محترم حکام سے، اپنے ملک کے مردوں اور غیرتمند نیز متدین خواتین سے ہمیشہ یہ سفارش کی ہے کہ دشمن کی دشمنی کو اپنے لئے موقع میں تبدیل کریں۔ اس کا ایک نمونہ یہی اسلحے کا مسئلہ اور اسلحہ جاتی پیشرفت ہے۔ دشمن بھی حیرت میں پڑ گئے کہ ایران نے پابندیوں کے دوران جدیدترین اور پیشرفتہ اسلحے تیار کر لئے اور وہ بھی اتنی زیادہ تعداد میں! جی ہاں کر سکتا ہے، اس سے زیادہ پیشرفت بھی کر سکتا ہے۔ اس سے بہتر پیشرفت بھی کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ اس سے زیادہ پیشرفت کرے گا۔ صرف اسلحے نہیں۔ اب اسلحے ایک جگہ نظر آ گئے۔ (16) بہت سارے شعبوں میں یہی صورت حال ہے۔ ہم آج میڈیکل میں، صحت کے محکمے میں، ان تمام مشکلات کے باوجود، ان تمام پابندیوں کے باوجود، ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں۔ میڈیکل کے شعبے میں خود اپنے علاقے میں شاید ہمارا ثانی نہ ہو، دنیا میں بھی میڈیکل کے شعبے میں ہم ممتاز ملکوں میں ہیں۔ صنعت کے شعبے ميں بھی اسی طرح، انجینیرنگ کے مختلف شعبوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بعض جگہوں پر ہم پیچھے ہیں لیکن اگر ہمت کریں تو ہر جگہ پیشرفت کریں گے۔
دشمن دہشت گردی اور اسی طرح کے دیگر بہانوں سے ہم پر پابندی لگاتا ہے۔ ان پابندیوں کا اثر تدریجی طور پر کم ہو رہا ہے۔ چند برس پابندی لگائی دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ معتبر عالمی مراکز کہتے ہیں کہ اس سال ایران کی ناخالص قومی پیداوار اس سے پہلے کے سال سے زیادہ رہی ہے۔ تو کیوں بڑھی؟ اس لئے کہ زیادہ کام کر رہے ہیں، اس لئے کہ بہتر کام کر رہے ہیں، اس لئے کہ پابندیاں انہیں بے دست و پا نہیں کرپا رہی ہیں، اس لئے کہ انھوں نے بیرون ملک سے اور سرحدوں کے پار سے امید نہیں باندھی ہے۔ اس کی تقویت ہونی چاہئے۔ ملک میں اس جذبے میں اضافہ ہونا چاہئے۔
یہ جو وہ کہتے ہیں کہ "جناب آپ دہشت گردی کے طرفدار ہیں" ان کی اس بات کو اہمیت نہ دیں۔ استقامتی محاذ کو دہشت گرد کہتے ہیں! کہتے ہیں آپ فلسطین کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا فلسطین کی حمایت کر رہی ہے۔ یورپی ملکوں کی سڑکوں پر، واشنگٹن اور نیویارک کی سڑکوں پر لوگ نکل رہے ہیں، فلسطین کی حمایت کرتے ہیں، فلسطین کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، یہ صرف ہمیں سے مخصوص نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ ایک فوٹیج میں دکھایا گیا کہ امریکا کے ایک شہر کی سڑکوں پر لوگوں نے حزب اللہ کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ دنیا ميں لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ استقامت دکھا رہے ہیں، غیرتمند ہیں، ظلم کے مخالف ہیں۔ فلسطینی اپنے گھر کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ گھر جو غصب کر لیا گیا ہے، وہ گھر جو ان سے زبردستی چھین لیا گیا ہے۔ آباد کار صیہونی حکومت کی خبیث پولیس کی حمایت کے ساتھ آتے ہیں اور فلسطینیوں کے باغ کو، کھیت کو رہائشی مکان کو بلڈوزر چلا کر منہدم کر دیتے ہیں تاکہ وہاں غیر قانونی کالونی بنائيں جبکہ فلسطینی اپنے گھر کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ دہشت گرد ہیں؟ استقامتی محاذ دہشت گرد ہے؟ دہشت گرد وہ ہے جو ان پر بمباری کر رہا ہے، یہ المیہ جو انھوں نے پیدا کیا ہے، اس سے انہيں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
بہر حال ہماری قوم کو معلوم ہونا چاہئے، اور قوم کو معلوم ہے کہ ایرانی قوم سے دشمنی ان مسائل کی وجہ سے نہیں ہے جو وہ بیان کرتے ہیں، ایران ان کے دباؤ میں نہیں آتا، ان کی زور زبردستی کو تسلیم نہیں کرتا، ان کی پالیسیوں کی پیروی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان کی پالیسیاں شکست خوردہ ہیں۔ آج دنیا کی نام نہاد بڑی طاقتیں اعتراف کرتی ہیں کہ ٹوٹ رہی ہیں۔ میں نے ایک خبر میں دیکھا، ایک امریکی جریدے نے، یہی دو تین دن پہلے، اس میں لکھا ہے کہ امریکا نے دو سو سال میں جو اعتبار حاصل کیا تھا، وہ بیس سال سے اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ختم ہو رہا ہے۔ یہ خود وہ کہتے ہیں۔ یہ معتبر امریکی جریدہ لکھتا ہے۔ ہم نہیں کہتے۔ وہ اپنی اسی ناکام اور شکست خوردہ پالیسی کی جو خلاف فطرت بشری ہے اور سبھی انسانی اور خدائی اقدار کے منافی ہے، چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم جیسی درخشاں ماضی کی مالک آزاد اور خود مختار اور متمدن قوم ان کی پالیسی کی پیروی کرے، ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں کرے گی۔
ایرانی قوم پائیدار اور محکم ہے۔ یہ استحکام ہمیں عمل میں بھی دکھانا ہے، کام میں بھی دکھانا چاہئے، حصول علم میں بھی دکھانا چاہئے، تحقیقات میں بھی دکھانا چاہئے، ملی اتحاد میں بھی دکھانا چاہئے۔ اگر یہ ہو گیا تو سختیاں اور مشکلات خود نجات کا راستہ دکھائيں گی۔ یہ سختیاں مسلط کردہ ہیں۔ وہ مشکلات جو دشمن مسلط کرتا ہے، خود ان کے اندر موقع اور راستہ موجود ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم کاہلی نہ کریں، شرط یہ ہے کہ ہم سستی نہ دکھائيں۔ الحمد للہ قوم زندہ ہے اور ہمارے ملک میں زیادہ زںدہ ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ان شاء اللہ اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو توفیق الہی سے، مستقبل روشن ہے اور ان شاء اللہ ملت ایران روشن مستقبل تک پہنچے گی۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ایرانی قوم کی اور صاحب ایمان محنت کش طبقے کی حفاظت فرمائے، آپ کو دشمنوں پر فتح و کامیابی عطا فرمائے اور روح شہدا کو ہم سے راضی کرے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات میں پہلے کو آپریٹیو، محنت اور سماجی رفاہ کے وزیر جناب سید صولت مرتضوی نے رپورٹ پیش کی۔
2۔ مورخہ 9-5- 2022 کو ہفتہ محنت کشاں کی مناسبت سے ملک کے محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب
3۔ اسد الغابۃ جلد 2 صفحہ 185
4۔ سورہ شعرا، آیت نمبر 227: الا ان لوگوں کے جو ان کے گرویدہ ہیں اور انھوں نے اچھے کام کئے ہیں۔
5۔ نہج الفصاحہ، صفحہ 305
6۔ غرر الحکم، صفحہ 590 ( تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
7۔ رواں ہجری شمسی سال کے سلوگن کی طرف اشارہ" عوام کی مشارکت سے پیداوار میں جست" رجوع کریں، 20 مارچ 2024 کو نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر رہبرانقلاب کے بیان سے۔
8۔ حاضرین کا نعرہ، "مردہ باد امریکا'
9۔ کوآپریٹیو، محنت اور سماجی رفاہ کے وزیر
10۔ مورخہ 10 -04- 2022 کو سوشل سیکورٹی کی کلی پالیسیوں کا اعلان
11۔ حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی
12۔ معلمین سے ملاقات میں بیان (2-5-2023)
13۔ ہفتہ محنت کشاں کی مناسبت سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب( 7-5-2020)
14۔ سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا سے خطاب (3-10-2013)
15۔ ( معمر قذافی کی قیادت میں) حکومت لیبیا نے مغرب اور امریکا سے روابط بحال کرنے کے لئے اعلان کیا کہ اپنی سبھی جوہری توانائیوں سے دست بردار ہوگی اور اس نے یہ کام کیا بھی۔
16۔ آپریشن وعدہ صادق کی طرف اشارہ