ایرانی سال تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے حسب دستور اپنا پیغام نوروز جاری فرمایا۔ اس پیغام میں آپ نے نئے ہجری شمسی سال کو معیار صرف کی اصلاح کا سال قرار دیا۔
پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

يا مقلّب القلوب و الأبصار. يا مدبّر اللّيل و النّهار. يا محوّل الحول و الأحوال. حوّل حالنا الى احسن الحال.

عید نوروز جس کی آمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے نزدیک ہوئی ہے اور جو اس با برکت دن کی قربت پاکر زیادہ با عظمت ہو گئی ہے، میں اس عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ملک بھر کے اپنے تمام ہم وطنوں کو اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں سکونت پذیر ایرانیوں کو نیز ان ممالک کے عوام کو جو عید نوروز مناتے اور اس مناسبت سے جشن پربا کرتے ہیں۔ میں خصوصی مبارک باد پیش کرتا ہوں عظیم شہداء کے اہل خاندان اور (مقدس دفاع میں زخمی ہو جانے والے) جانبازوں اور ( جان کی بازی لگا دینے والے) ایثار پیشہ افراد کو۔ امید کرتا ہوں کہ یہ سال ان کے لئے اچھا سال ثابت ہوگا۔
تیرہ سو ستاسی کا سال بڑے اہم واقعات والا سال تھا۔ عالمی سطح بھی اور ملک کی اندرونی سطح پر بھی۔ عالمی سطح پر متعدد بڑے اور اہم واقعات رونما ہوئے جن کے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان میں سے ایک معاشی شعبے میں رونما ہونے والا عظیم مالیاتی بحران ہے جو امریکہ سے شروع ہوکر یورپ اور دیگر ممالک منجملہ ہمارے علاقے کے ملکوں تک پھیل گیا۔ عالمی برادری کے لئے یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔ اس کا اثر لوگوں کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے اقتصادی پروگراموں پر نہیں بلکہ ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے تعلق سے ان کے طرز فکر اور زاویہ نگاہ پر بھی اس کے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوں گے۔ خوش قسمتی سے ہمارا ملک اور ہماری قوم بڑی حد تک اس بھیانک عالمی طوفان کے نقصانات سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی۔ البتہ لازمی ہے کہ احتیاطی تدابیر بدستور جاری رہیں۔
گزشتہ سال کے دوران عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے دیگر اہم واقعات میں ایک، غزہ پر صیہونی حکومت کا حملہ تھا۔ جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی۔ بعض افراد اسلامی استقامت اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کینہ شتر رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کو اپنے مخصوص انداز میں دیکھا۔ اس زمرے میں بنیادی طور پر مغربی ممالک کے بہت سے سیاستداں شامل ہیں۔ کچھ لوگوں نے مظلوم فلسطینی عوام اور اہل غزہ کی حمایت کے جذبے کے ساتھ اس مسئلے پر توجہ دی۔ البتہ اس بزدلانہ اور ظالمانہ حملے سے جو نتائج سامنے آئے وہ پوری دنیا کے لئے مبہوت کن تھے۔ غزہ کے بے گناہ عوام نے بائیس دنوں تک زبردست استقامت کا مظاہرہ کیا اور صیہونی حکومت نے بائیس دنوں تک ان عوام پر اپنی پوری توانائی سے حملے کئے۔ جنگ کا خاتمہ صیہونی حکومت کی شکست پر ہوا۔ ظالموں اور تسلط پسندوں کے مد مقابل قوموں کی استقامت کے امکانات کے تعلق سے دنیا والوں کے لئے یہ بہت اہم تجربہ رہا۔ اس کے علاوہ بھی علاقے اور دنیا کی سطح پر دوسرے بہت سے واقعات رونما ہوئے تاہم ان کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں ہے۔
ملکی سطح پر بھی سال کے آغاز سے اختتام تک متعدد اہم واقعات سامنے آئے۔ تیرہ سو ستاسی کا سال ایٹمی شعبے سے متعلق بڑی اچھی خبروں سے شروع ہوا اور ملت ایران کو اطلاع ملی کہ اس کے نوجوانوں اور تبحر علمی کے مالک اور محنت و مشقت کے خو گر سائنسدانوں نے عالمی پابندیوں کے باوجود ایٹمی شعبے میں ملک کی ترقی کو جامہ عمل پہنایا اور دنیا کے سامنے اس اہم ترین شعبے میں ملت ایران کی صلاحیت کا لوہا منوا لیا۔ اس چیز سے سائنسی شعبے ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی دنیا والوں کی نگاہ میں ملت ایران کو نیا مقام اور نیا اعتبار حاصل ہوا۔
بحمد اللہ (اسی سال کے اندر) آٹھویں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی تشکیل انجام پائی اور پورے سال اس پارلیمنٹ نے قابل احترام انتظامیہ کے تعاون سے بڑے اچھے کام انجام دئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ تعاون اسی طرح جاری رہے گا۔
الحمد للہ اس سال کے دوران دیگر شعبوں میں بھی بڑے اہم کام انجام پائے۔ اسی ایٹمی شعبے میں ہی اس سال کے اختتام کے قریب بوشہر ایٹمی بجلی گھر کو تجرباتی طور پر چلایا گيا، جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی اور اہم خبر ہے۔ یہ بھی ملک کے اندر ہمارے سائنسدانوں کی ترقی کا نتیجہ ہے جنہوں نے پوری دنیا سے یہ منوا لیا کہ ملت ایران کی ایٹمی شعبے کی پیشرفت کے راستے کو مسدود نہیں کیا جا سکتا۔
سائنسی شعبے میں دوسرے بھی اہم کام انجام پائے جن کو بیان کرنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہے۔ میں نے ان ترقیوں کے کچھ منتخب نمونوں کا نزدیک سے مشاہدہ کیا اور ایک نمائش میں ان کو قریب سے دیکھا جو واقعی حیرت انگیز بات تھی۔ ہمارے عزیز نوجوانوں اور ہماری بلند ہمت اور محنتی قوم نے سائنس کے شعبے میں بڑی حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس حیرت انگیز ترقی و پیشرفت نے تیس سال سے اسلامی انقلاب کے خلاف اطراف میں ہونے والے منفی پروپگنڈے کو غلط ثابت کر دیا۔
سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی ایک ترقی مصنوعے سیارے امید کا خلا میں بھیجا جانا بھی تھا۔ اس عظیم کارنامے کا یہ پہلا قدم تھا جس نے ملک کو یہ ٹکنالوجی رکھنے والے دنیا کے معدودے چند ملکوں میں شامل کر دیا اور پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور یہ ثابت کر دیا کہ ملت ایران ذاتی صلاحیتوں سے مالامال ہےاور اپنے بلبوتے پر نشو نما پا رہی ہے اور ملت ایران کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں۔
اقتصادی امور کے سلسلے میں بھی میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا میں مالی بحران اور اقتصادی کساد بازاری کے تباہ کن طوفان اور بھیانک گردباد کے باوجود اور ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دیگر مسائل کے باعث ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی، ملک کے حکام اس طوفان پر غالب رہے اور انہوں نے بڑی حد تک ملک کے اندر اس گردباد کے منفی اثرات کو قابو میں رکھا۔ انہوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو شدید مشکلات سے دوچار کر دینے والی اس بھیانک موج کے شر سے ہمارے عوام کو محفوظ رکھا نتیجے میں قوم اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکی۔
خدا کرے کہ اقتصادی ترقی روز بروز زیادہ بارآور ہو اور عوام کو مزید خوشیاں نصیب ہوں اور مختلف شعبوں میں گوناگوں ترقی کی راہ ہموار ہو۔
مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ خلاقیت و پیش رفت کا سال خوش قسمتی سے ابتکار عمل کے متعدد نمونوں اور متعدد ترقیوں کا سال رہا۔ اس نعرے کو مقدماتی مرحلے میں کامیابی سے عملی جامہ پہنایا گیا۔ البتہ خلاقیت و پیشرفت اسی سال سے مختص نہیں تھی بلکہ آنے والے سالوں میں بھی ہمیں انہیں خطوط پر سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور خود کو سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں اس نقطہ کمال پر پہنچانا ہے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔
اسی لمحے سے شروع ہونے والا نیا سال بھی بڑا اہم سال ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملت ایران ذات باری تعالی پر ایمان راسخ سے حاصل ہونے والی اپنی قدرت کے ذریعے اس سال میں ممکنہ طور پرپیش آنے والے امور اور عالمی و علاقائی و ملکی سطح کے واقعات پر غلبہ حاصل کرے گی اور انہیں اپنے حق اور مفاد میں موڑنے میں کامیاب رہے گی۔
میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے سال نو کی آمد کے موقع کی مخصوص دعا میں پڑھا کہ :یا محول الحول و الاحوال حول حالنا الی احسن الحال ہماری حالت کو بہترین حالت میں تبدیل کر دے۔ اس چیز کا تعلق یوں تو ارادہ الہی سے ہے تاہم ملت ایران اور ہم لوگوں کی کی جانب سے بھی سعی و کوشش لازمی ہے جو لطف و رحمت الہی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمیں اپنی حالت کو بہتر بنانے، اپنی زندگی، اپنے دل و دماغ اور اپنی دنیا و و آخرت کو سنوارنے کے لئے کمر ہمت کسنا ہوگی۔ یہ ملت ایران کی ہر فرد کا فریضہ ہے۔ ذہنی خیالات، معنوی اور دینی امور اور زمینی حقائق اور روز مرہ کے مسائل جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں در پیش ہوتے ہیں ان کے لئے اسی عظیم حکم الہی کے تحت بڑے وسیع مواقع موجود ہیں جسے ہم ہر سال دہراتے ہیں: حول حالنا الی احسن الحال
میں اس کی ایک مثال پیش کروں گا جو میری نظر میں ہماری حالت میں بہتری کی علامت ہو سکتی ہے:
ہم ملک کے مالی ذخائر کو استعمال کرنے کے سلسلے میں جو ہماری، ہمارے دیگر ہم وطنوں اور ملک کے حکام کی زحمتوں سے حاصل ہوتے ہیں، کسی حد تک بے توجہی برت رہے ہیں۔ اس (بے توجہی) کو، خصوصی توجہ میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ ہم اسراف کا شکار ہیں۔ ہم چیزوں کے استعمال میں فضول خرچی اور لاپروائی سے دوچار ہیں۔ میں اس چیز کی تفصیلات سال نو کی اپنی تقریر میں انشاء اللہ پیش کروں گا۔ اس وقت مختصرا اتنا عرض کرنا ہے کہ ملک کے بہت سے ذخائر بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کے ذخائر کا بڑا اہم حصہ، ذاتی مسائل میں بھی اور اجتماعی امور میں بھی، ہماری فضول خرچی کی نذر ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے خرچ کو عاقلانہ اور مدبرانہ انداز میں کنٹرول کرنا چاہئے۔ خرچ اسلام ہی نہیں دنیا کے تمام با شعور افراد کی نظر میں بھی دانشمندی کے تحت ہونا چاہئے۔ دلی خواہشات اور نفس انسانی کے مطالبات کے غلبے کی صورت میں خرچ کو مناسب حد میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کے ذخائر ضائع ہوتے ہیں، امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی ہے۔ کچھ افراد زندگی کی بنیادی اور ابتدائی چیزوں کی حسرت دل میں لئے رہتے ہیں اور کچھ لوگ ذخائر کو فضول خرچی کی نذر کرتے ہیں۔
ہمیں معیار صرف کی صلاح کرنا چاہئے۔ ہمیں معیار صرف کی اصلاح کی جانب قدم بڑھانا چاہئے۔ سب سے پہلے تو مقننہ، مجریہ، ملک کے دیگر حکام، عدلیہ اور دیگر شعبوں کو اور اس کے بعد مختلف سماجی مقام کے حامل افراد اور شخصیات کو اسی طرح ملک کے غنی و فقیر ہر فرد کو اس اصول پر توجہ دینا چاہئے کہ ہمیں معیار صرف کی اصلاح کرنا ہے۔ زندگی کے ضروری امور اور غیر ضروری چیزوں میں خرچ کا اگر یہ انداز ہوگا اور سوچے سمجھے بغیر فضول خرچی کی جاتی رہی تو اس سے ملک اور عوام کو نقصان پہنچے گا۔ میں عوام بالخصوص ملک کے حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سمت میں اپنی کوششیں تیز کریں اور معیار صرف کی اصلاح کے لئے منصوبہ بندی کریں۔
بنابریں میں اس سال کو معیار صرف میں اصلاح کی جانب عوام اور حکام کی پیش قدمی کا سال قرار دیتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ معیار صرف میں اصلاح کا عنوان ہم سب کے دستور العمل کا جز ہوگا اور ہم سب اس اہم، حیاتی اور بنیادی نعرے کے مطابق ملک کے لئے کام کریں گے اور ملک کے ذخائر کو مناسب ترین انداز میں استعمال کریں گے۔
میں یہاں پر بزرگوار امام(خمینی رحمت اللہ علیہ) اور عزیز شہدا کی یاد تازہ کرنا چاہوں گا اور تمام ملت ایران کی خدمت میں ایک بار پھر تہنیت و مبارک باد پیش کروں گا۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏