قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 6-3-1372 ہجری شمسی مطابق 26-5-1993 عیسوی کو عازمین حج کے نام تاریخی پیغام جاری فرمایا۔ آپ نے اپنے اس پیغام میں مناسک و اعمال حج کے رموز بیان کئے اور ان اعمال سے کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا اور مختلف ملکوں میں مسلمان بھائیوں کے خلاف سامراجی سازشوں کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے الجزائر، سوڈان، مصر، عراق، فلسطین، بوسنیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے سد باب کے طریقوں کی جانب اشارہ کیا۔ تفصیلی پیغام مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ علی رسولہ الامین وعلی آلہ المیامین و اصحابہ المنتجبین والسلام علی جمیع عباد اللہ الصالحین۔ قال اللہ الحکیم ؛ واذا بوانا لابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئا للطائفین والقائمین والرکع السجود ۔

ایک بار پھر خدا کے ارادہ نافذ نے مومنین کو مرکز توحید، بارگاہ رحمت و فضل ربوبیت، کعبہ قلوب اور قبلہ جان مسلمین عالم کے مرکز میں جمع کیا ہے اور واذن فی الناس بالحج کی آواز مسلمان بھائیوں کے فطری اور مسلط کردہ خلاؤں پر غالب آئی ہے اور ان دلوں کو جو ایمان، عشق اور یکساں احتیاج کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وحدت مسلمین اور مرکز توحید کی طرف کھینچ لائی ہے۔ طویل برسوں تک جہل وعناد کے ہاتھوں نے کوشش کی کہ عظیم اسلامی خانوادے کو اس مرکز میں بھی ان کی اعتقادی بنیادوں اور باہمی ایمانی تعلق اور محبت سے دور کر دے۔ مگر دوسری طرف ہر سال فریضہ حج اس قدیمی خانوادے کو وحدت اور توحید کا درس دیتا ہے اور ہرسال نئے شگوفے، پہلے سے زیادہ تجدید بہار ایمان، حیات دینی اور انس ومحبت اسلامی کی نوید دیتے ہیں اور دشمن کی کوششوں کو باطل کر دیتے ہیں۔ یہ معجزہ حج ہے کہ ان تنازعات اور لڑائیوں کے باوجود جن کے سبب مسلمان حکومتیں بارہا ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوئی ہیں، مسلمان اقوام کے ایمانی، فکری اور محبت و مہربانی کے رشتے ہرگز منقطع نہیں ہوئے اور ایک دوسرے سے ان اقوام کا تعلق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اگرچہ حج کے راز و رمز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں گفتگو میں بیان کیا جائے، مگر ان کے درمیان ہر رمز شناس آنکھ پہلی نگاہ میں ہی تین نمایاں خصوصیات کو دیکھ لیتی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ حج واحد فریضہ الہی ہے کہ خدا وند عالم جس کی ادائیگی کے لئے، تمام ان مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے گھروں اور عبادتخانوں کی خلوت سے نکال کر ایک خاص جگہ طلب کرتا ہے اور معینہ ایام میں، گوناگوں سعی وکوشش، حرکت وسکون اور قیام و قعود میں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ ان اللہ غفور الرحیم
دوسرے یہ کہ اسی اجتماعی اور آشکارا سعی و کوشش میں ذکر خدا کی برترین منزل مقصود یعنی قلبی اور روحانی کام کو پہچنواتا ہے۔ ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمت الانعام
تیسرے یہ کہ اس کے روشن اور واضح منظر نامے میں ایک موحد انسان کی زندگی کی اجمالی تصویر پیش کرتا ہے اور عمل میں مسلمانوں کو بامقصد زندگی کے راز کا درس دیتا ہے۔ میقات میں پہنچنے، احرام باندھنے، لبیک کہنے، حالت احرام میں جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں انہیں ترک کرنے سے لیکر خانہ کعبہ کے گرد طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی، میدان عرفات اور مشعر میں رکنے، ذکر خدا مناجات اور وہاں کے آداب و اعمال، منی میں پہنچنے، قربانی کرنے، رمی جمرات، سرمنڈوانے یا بال ترشوانے اور پھر دوبارہ خانہ کعبہ میں واپس آکر طواف اور سعی تک، سب کے سب میدان توحید اور زندگی کی سعی میں اور اللہ کے محور کے گرد طواف کے لئے، مسلمانوں کے بامقصد اور معرفت آمیز اجتماعی اعمال کے واضح اور موثر درس ہیں۔ حج کے آئینے میں زندگی، مستقل تحریک اور مستقل پلٹ کے خدا کی جانب جانا ہے۔ حج وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا تعمیری عملی درس ہے کہ اگر ہم ہوش میں ہوں تو عملی میدان میں ہمارے سامنے زندگی کی روشن راہ و رسم پیش کرتا ہے۔ یہ ہمہ گیر اجتماع ہر سال ہوتا ہے تاکہ مسلمان، اس ماحول میں، وحدت، ایک دوسرے کو سمجھنے اور ذکر خدا کے سائے میں زندگی کے راستے اور جہت سے واقفیت حاصل کریں اور پھر اپنی سرزمین اور اپنے عزیزوں میں واپس جائیں۔ بعد کے برسوں میں دوسرا گروہ اور پھر کوئی گروہ آئے- جائے، سیکھے، ذخیرہ کرے، بولے، عمل کرے، سنے اور تدبر کرے اور سرانجام پوری امت وہ حاصل کر لے جو خدا چاہتا ہے اور دین نے سیکھایا ہے۔
امت اسلامیہ کی زندگی پر نظر دوڑانا، اقوام، نسلوں اور قبیلوں سے ماوراء ہوکر دیکھنا، اپنے وجود کی گہرائیوں پر نظر ڈالنا اور راستہ، جہت اور طرز زندگی اس طرح اپنانا جو مناسب ہے اور یہ سب ذکر خدا کے سائے میں۔ یہ وہ فیاض اور لازوال سرچشمہ معرفت ہے جو ہرسال حج میں لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، حرم امن الہی میں جاری ہوتا ہے اور جو لوگ اپنے دل و دماغ کے ظرف کو کھول دیتے ہیں انہیں یہ سیراب کرتا ہے۔
ماضی میں بھی یہ کوشش ہوئی ہے اور آج بھی یہ کوشش ہو رہی ہے کہ حج کو ایک انفرادی فریضہ، جس میں ہرایک صرف اپنی عبادت اور خدا سے دعا میں مصروف ہو، قرار دیا جائے۔ ان غفلت زدہ لوگوں کو چھوڑ دیں جو اس کو ایک تجارتی اور سیاحتی سفر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حج ان نمایاں خصوصیات کے ساتھ جو کسی دوسرے اسلامی فریضے میں ایک ساتھ نہیں پائی جا سکتیں، ان کی بے روشنی اور خطابین نگاہوں اور ان کی تنگ نظری کی بینش سے بہت بالاتر ہے۔ ہمارے زمانے میں جس عظیم ہستی نے حج کو پردہ اوہام سے باہر نکالا اور مسلمانوں کے اذہان اور عمل میں اس کے رازوں کو اجاگر کیا، وہ ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) تھے۔ آپ نے حج ابراہیمی کی آواز دی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی۔ آپ نے ایک بار پھر اذن فی الناس بالحج کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی۔ حج ابراہیمی وہی محمدی حج ہے کہ جس میں توحید اور اتحاد کی سمت بڑھنا، تمام شعائر اور اعمال میں سرمشق ہے۔ یہ وہ حج ہے جو برکت و ہدایت کا سرچشمہ اور امت واحدہ کے قیام اور حیات کا بنیادی ستون ہے۔ یہ حج ذکر خدا سے سرشار اور فوائد سے سے مملو ہے۔ یہ وہ حج ہے کہ جس میں مسلم اقوام ہمہ گیر امت محمدی اور اس میں اپنے وجود کو لمس کرتی ہیں اور اقوام کی قربت اور برادری کا احساس کرکے، کمزوری، عاجزی اور ناتوانی کے احساس سے رہائی پاتی ہیں۔ حج ابراہیمی وہ حج ہے کہ جس میں مسلمین تفرقے سے نکل کے اجتماعیت کی طرف بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار اور شرک و بت پرستی سے نفرت اور برائت کی علامت ہے، اس میں جو مفاہیم اور رمز ہیں ان کی معرفت کے ساتھ اس کا طواف کریں، اعمال حج کے ظاہر سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی کے لئے اور امت اسلامیہ کی زندگی کے لئے توشہ حاصل کریں۔ اس وقت میں، خدا کی رحمت و ہدایت کی امید اور دنیا بھر سے آنے والے آپ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے حج کے قبول اور پر ثمر ہونے کی دعا کے ساتھ اعمال حج پر تدبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چند مفید باتوں کی جانب تمام مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یاد دہانی کے طور پر عرض کرتا ہوں:
1- پہلی بات توحید کے تعلق سے ہے جو حج کی روح اور بیشتر مناسک و اعمال حج کی بنیاد ہے۔ توحید کا مطلب، عمیق ‌قرآنی مفہوم کے ساتھ، اللہ پر توجہ، اس کی طرف بڑھنا اور تمام بتوں اور شیطانی طاقتوں کی نفی اور ان کا رد کرنا ہے۔ ان شیطانی طاقتوں میں سب سے زیادہ خطرناک، خود اس کے باطن میں نفس امارہ اور گمراہی و پستی کی طرف لے جانے والی ہوا و ہوس ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر فتنہ انگیز اور فسادی استکباری طاقتیں ہیں جنہوں نے آج مسلمانوں کی زندگی پر پنجے گاڑ رکھے ہیں اور شیطانی روشوں سے کام لیکر بہت سی مسلم اقوام کے جسم و روح کو اپنی پالیسیوں سے مجروح کر رکھا ہے۔ حج میں برائت کا اعلان، ان طاقتوں سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ہر دیکھنے والی آنکھ اور عبرت آمیز نگاہ اسلامی معاشروں میں ان طاقتوں کے تسلط کا یا تسلط جمانے کی کوشش کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ ان میں سے بعض ملکوں میں، سیاست، اقتصاد، بین الاقوامی روابط، دنیا کے واقعات پر موقف، سب، تسلط پسند طاقتوں کے، جن میں سر فہرست امریکا ہے، زیر اثر ہے۔ ان ملکوں میں برائیوں، فحاشی اور حرام کاموں کا عام ہونا ان طاقتوں کی شیطانی پالیسیوں کےنفوذ کا نتیجہ ہے۔ حج اس کے اعمال اور توحیدی شعائر، حج کرنے والے ہر مسلمان کے لئے ضروری اور لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ ان تمام باتوں سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرے اور یہ ان شیطانی باتوں کی نفی میں اسلامی ارادے کی تکمیل اور تمام اسلامی معاشروں میں توحید اور اسلام کی حاکمیت کی راہ میں پہلا قدم ہے ۔
2- دوسری بات کا تعلق مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی سے ہے جو اعمال حج کا دوسرا نمایاں مفہوم ہے۔ اسلامی ملکوں میں یورپی استعمار کی آمد کے آغاز سے سامراجیوں کی ایک پالیسی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش رہی ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ اختلافات کا حربہ استعمال کیا اور کبھی قومیت اور دوسری باتوں کو ہوا دی۔ افسوس کہ منادیان وحدت اور مصلحین کی فریادوں کے باوجود دشمن کا یہ حربہ اب بھی امت اسلامیہ کے پیکر پر کسی حد تک وار اور زخم لگا رہا ہے۔ شیعہ وسنی، عرب و عجم، ایشیائی و افریقی اختلافات کو ہوا دینا، عرب، تورانی اور ایرانی نیشنلزم کو اٹھانے کا آغاز اگر چہ غیروں کے ذریعے ہوا ہے مگر افسوس آج بہت سے اپنے، کج فہمی کی بناء پر یا غیروں کی شہہ پر وہ کام کر رہے ہیں جو دشمن چاہتا ہے۔ یہ انحراف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بعض مسلم حکومتیں پیسے خرچ کرکے، اسلامی مذاہب اور مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالتی ہیں اور بعض عالم نما افراد، صراحت کے ساتھ بعض اسلامی فرقوں کے تاریخ اسلام میں جن کے درخشاں کارنامے ہیں، کافر ہونے کا فتوا صادر کرتے ہیں۔ مناسب ہے کہ مسلم اقوام ان کاموں کے پلید محرکات کو پہچانیں، ان کے پیچھے بڑے شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کو دیکھیں اور خیانت کاروں کو بے نقاب کریں۔
3-ایک اہم نکتہ جو تمام مسلمانوں کو جاننا، اس سے مقابلہ کرنا اور اس کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کرنا چاہئے، یہ ہے کہ آج تقریبا دنیا میں ہرجگہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استکباری طاقتوں کی جانب سے سخت اور سازشی مہم جاری ہے۔ اگرچہ خود یہ مہم نئی نہیں ہے اور اس کی نشانیاں، یورپی سامراج کی تاریخ میں نمایاں ہیں، لیکن اس کے طریقوں کا متنوع ہونا، اس کا آشکارا ہونا اور بعض معاملات میں درندگی کے ہمراہ ہونا ایسی چیز ہے جس کی ابتک کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اس (جدید) دور کی پیداوار ہے۔ عالم اسلام کے موجودہ حالات پر ایک نظرڈالنے سے اس نئی صورتحال یعنی اسلام کے خلاف مہم کے شدید ہونے کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ وجہ مسلمانوں میں بیداری پھیلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ ایک دو عشرے کے دوران عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں حتی غیر اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں نے، حقیقی اور عمیق تحریک شروع کی ہے جس کو تجدید حیات اسلام کی تحریک کا نام دینا چاہئے۔ آج یہ نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل، زمانے کے علوم سے بہرہ مند ہے۔ جس نے کل کے سامراجیوں اور آج استکباریوں کی توقع کے برخلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ پر جوش ایمان کے ساتھ، انسانی علوم سے فائدہ اٹھاکر پہلے سے زیادہ تیز بیں اور گہری نظر رکھنے والی ہو گئی ہے۔ اسلا کا رخ کیا ہے اور اپنے گم کردہ کو اس میں تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی جہوری نظام کا قیام اور اس کا روز افزوں استحکام اس مضبوط اور جوان تحریک کا نقطہ عروج ہے جس نے بذات خود مسلمانوں کی بیداری کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو استکبار کو جو اقوام کے عقائد اور مقدسات کی مخالفت کو آشکارا کرنے سے پرہیز کرتا رہا ہے ، مجبور کر رہی ہے کہ اسلام کی مخالفت میں آشکارا طور پر تمام ممکن روشوں سے اور بعض اوقات تشدد اور درندگی کے ساتھ میدان میں آئے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ایسے متعدد سربراہوں اور سیاستدانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات میں کم سے کم ایک بار صراحت کے ساتھ اسلامی ایمان پھیلنے کو بڑا خطرہ قرار دیکر اس کے مقابلے کو ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایمان اور اسلامی عمل کی جانب مسلمان نوجوانوں کے رجحان میں جتنی وسعت آئی دشمنی اور گھبراہٹ کی عکاسی کرنے والے ان کے بیانات واضح تر ہوتے گئے اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ بعض اسلامی ملکوں کے سربراہ اور سیاستداں بھی، جو ہمیشہ اسلام سے دشمنی کو نفاق کے پردے میں چھپاتے رہے ہیں، اپنے امریکی اور یورپی آقاؤں کی پیروی میں کھلے عام اسلام کے خطرے کا راگ الاپ رہے ہیں اور جن لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں ان کے مقدس ایمان کو اپنے لئے خطرہ بتاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اسلامی بیدار کے خلاف مہم کی مختلف شکلیں ہیں۔ الجزائر میں عوام کی اکثریت، مکمل طور پر جمہوری انتخابات میں اسلامی محاذ کو ووٹ دیتی ہیں۔ تشدد آمیز بغاوت کے ذریعے انتخابات کو منسوخ کرکے منتخب ہونے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور عوام کو کچل دیا جاتا ہے اور پھر امریکا اور یورپ کی استکباری طاقتیں سکون کا سانس لیتی ہیں اور بغاوت کرنے والوں کی حمایت کرکے اس میں اپنے خفیہ ہاتھ کو آشکارا کردیتی ہیں۔ سوڈان میں اسلامی جماعتیں عوام کی مکمل حمایت سے حکومت میں پہنچتی ہیں تو انواع و اقسام کی اشتعال انگیزی شروع کردی جاتی ہے اور اندر اور سرحدوں کے باہر سے مستقل انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ فلسطین اور لبنان میں فلسطینی مسلمانوں کو غاصب صیہونی انتہائی وحشیانہ انداز میں کچلتے ہیں اور انہیں ایذائیں دیتے ہیں اور امریکا ان درندہ صفت وحشی قاتلوں کی مدد کرتا ہے اور ان مظلوم مسلمانوں اور اپنا دفاع کرنے والے لبنانیوں پر دہشتگردی کا الزام لگاتا ہے۔ جنوبی عراق میں، عراقی عوام اسلامی جذبات اور نعروں کے ساتھ بعثی حکومت کے خلاف جد وجہد شروع کرتے ہیں تو بعثی حکومت ان پر انتہائی وحشیانہ انداز میں حملے کرتی ہے اور امریکا اور مغرب جنہوں نے دیگر معاملات میں صدام کے خلاف طاقت سے نمٹنے کے ارادے کا آشکارا اظہار کیا تھا، اپنی خاموشی سے اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہندوستان کشمیر میں، جاہل اور متعصب ہندو، حکومت کی چشم پوشی اور بعض اوقات اس کی مدد سے مسلمانوں کی جان اور ناموس پر حملے کرتے ہیں اور اس پر امریکا اور مغرب کی جانب سے مسکراہٹ اور بے اعتنائی کا اظہار ہوتا ہے۔ مصر میں اس ملک کی فاسد اور نالائق حکومت روشنفکر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کرتی ہے اور امریکا اس وابستہ اور حقیر حکومت کو مالی امداد اور سیکیورٹی ایڈ دیتا ہے۔ تاجکستان میں مسلمان عوام کی اکثریت اسلام کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتی ہے، کمیونسٹ باقیات اسے سختی سے کچلتی ہیں۔ بہت سے لوگ بے گھر اور بے وطن ہوجاتے ہیں اور مغرب سابق سوویت کمیونسٹوں کی واپسی کی تمام تر تشویشوں کے باوجود اس کاوائی کو غنیمت سمجھتا ہے اور اسلام اور کمیونزم کے درمیان آشکارا طور پر اسلام کی دشمنی کا انتخاب کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اسلام اور مسلم جماعتوں کی توہین کی جاتی ہے، ان پر الزامات لگائے جاتےہیں اور خواتین کے حجاب جیسے اسلامی احکام کی پابندی کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ حجاب پر پابند کی شکل میں اور مرتد مصنف کے ذریعے اسلام کی آشکارا توہین کی یورپی حکومتوں کے سربراہ مسلسل آشکارا حمایت کرتے ہیں حتی بدنام زمانہ برطانوی حکومت کا سربراہ، جس کا ماضی برائیوں سے بھرا ہوا ہے، اس ذلیل اور زرخرید مصنف سے ملاقات کرتا ہے۔ سب سے بدتر بوسنیا میں مسلمانوں کی ایسی نسل کشی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ نسل پرست سرب اور حال ہی میں کروٹ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ سربیا کی حکومت کے وسائل اور اسلحے اور غیر ملکی امداد کے سہارے، بوسنیا کے مسلمانوں یعنی وہاں کے اصلی باشندوں کو وحشیانہ ترین ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا قتل عام کر رہے ہیں، امریکا اور مغرب نے نہ صرف یہ کہ مظلوم کی کوئی مدد نہیں کی، سربوں کے وحشیانہ جرائم کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ سلامتی کونسل کے حربے سے کام لیکر، مظلوم مسلمانوں تک اسلحہ پہنچنے کی روک تھام کی اور اقوام متحدہ کی افواج بھیج کر ان کا محاصرہ مکمل کر دیا۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ بوسنیا کے المیے میں براہ راست امریکا اور یورپی حکومتیں ذمہ دار اور قصووار ہیں۔ اس ایک سال کے عرصے میں کچھ جھوٹے وعدے اور کھوکھلی باتیں کی ہیں لیکن بوسنیا کے ہزاروں قتل ہونے والے مظلوموں میں سے ایک کے قتل کو بھی نہیں روکا ہے اور اس سے بڑھ کر، ان کی اپنے دفاع کی توانائی کی بھی روک تھام کی ہے۔ یہ ہمارے زمانے میں اسلام اور مسلمین سے امریکا اور مغرب کی دشمنی کی اجمالی تصویر ہے۔ نہ التماس، نہ جھکنا اور نہ ہی مذاکرات، جس کی بعض سادہ لوحی کے ساتھ مسلمانوں کو تجویز پیش کرتےہیں، ان میں سے کوئی بھی راستہ، مسلمانوں کی مشکلات حل کر سکتا ہے نہ انہیں نجات دلا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک علاج ہے اور بس۔ وہ ہے، مسلمانوں کا اتحاد، اسلام اور اسلامی اصول واقدار کی پابندی، دباؤ کے مقابلے میں استقامت اور طویل مدت میں دشمن پر عرصہ حیات تنگ کر دینا۔ آج اسلامی دنیا کی نگاہیں، تمام اسلامی ملکوں کے رضاکار غیرت مند نوجوانوں پر ہیں کہ مرکز اسلام کا دفاع کریں اور اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔
4- ایک اور اہم نکتہ جس پر تاکید ہونی چاہئے، یہ ہے کہ استکبار اپنی تمام شیطانی چالوں، طاقت، سیاسی حربوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کام لیکر اسلامی بیداری اور اسلام کی جانب رجحان کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے نہ ہوگا۔ مختلف ملکوں میں اسلامی تحریک منجملہ ایران میں مقدس اسلامی جہموری نظام کے خلاف، امریکا، دیگر استکباری ملکوں اور ان کے علاقائی زرخریدوں کی ہمہ گیر سیاسی، سیکیورٹی اور سب سے بڑھ کر تشہیراتی مہم میں اتنی زیادہ وسعت آئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس درمیان علاقے میں امریکا کی ناجائز اولاد، صیہونی حکومت نے انتہائی رذالت اور خباثت آمیز کردار ادا کیا ہے جس کی اس سے توقع بھی تھی۔ عام اور مادی اندازوں کے مطابق ان تمام ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں جو مستکبرانہ بغض و عناد کے ساتھ انجام دی جا رہی ہیں، اسلامی ملکوں میں اسلامی تحریک کو کمزور اور ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس، جیسا کہ سب دیکھ رہے ہیں، یہ تحریک روز بروز محکم تر اور وسیع تر ہوئی ہے۔ اس وقت بہت سے ایسے اسلامی ملکوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح دو سال قبل الجزائر میں ہوا اسی طرح ان کے ہاں بھی انتخابات کرائے جائیں تو، اسلامی جماعتیں اور اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد ان ملکوں میں عوام کی اکثریت کا ووٹ حاصل کریں گے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ ان میں اکثر ملکوں میں اسلامی جماعتوں، حتی اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد کی تشہیرات اور سیاسی مظاہروں پر بھی پابندی ہے۔ انہیں حالیہ برسوں میں، مقبوضہ فلسطین کی سرزمینوں میں، عوام کی اسلامی جد وجہد نے جن کا مرکز مساجد ہیں، صیہونیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ انہیں برسوں میں لبنان کی اسلامی جہادی جماعتوں نے، پارلمانی انتخابات اور عوامی پوزیشنوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی دور میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جس کے بارے میں کچھ لوگ سادہ لوحی کے ساتھ توقع کر رہے تھے کہ، ناکام ہوجائے گا یا اپنے اصول و اقدار سے چشم پوشی کرلے گا، اپنے انقلابی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے، غیر متوقع رفتار کے ساتھ پیشرفت کی ہے۔ میں عالم اسلام کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتا ہوں کہ آپ کو بدبین اور مستقبل سے ناامید کرنا دشمن کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ کافی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنے دل تک نا امیدی کو نہ پہنچنے دے۔ کوئی بھی چیز ہمیں نا امید ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر دشمن اس الہی تحریک کو ختم کرنے پر قادر ہوتا تو کم سے کم اس کے فروغ کو روک سکتا، مگر آپ سب دیکھ رہے ہیں وہ یہ بھی نہ کرسکا۔ الہی سنتیں اور زمینی حقائق نئی اسلامی تحریک کے روشن مستقبل کی نوید دیتی ہیں اور قرآن بارہا فرماتا ہے والعاقبۃ للمتقین
5- جدید اور عالمی تشہیرات یقینا استکبار کا کارآمد ترین حربہ ہے۔ آج ایسے اخبارات و جرائد اور صوتی و تصویری ذرائع ابلاغ عامہ کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جنہوں نے اپنی کوششیں اسلام کی دشمنی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ زرخرید ماہرین، ایسی خبروں، مضامین اور تبصرے و تجزیئے میں مصروف ہیں جن کا مقصد مخاطبین کو گمراہ کرنا اور اسلامی تحریک نیز اسلامی شخصیات کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک بغیر کسی وقفے کے ان معاندانہ تشہیرات کی آماجگاہ رہا ہے۔ مگر کہنا چاہئے کہ فطرت و ضرورت پر استوار حقیقی اسلامی تحریک کے مقابلے میں یہ حربہ بھی کا میاب نہیں رہا اور دشمن کا مقصد پورا نہ کر سکا۔ پیغمبروں کے اس وارث کی ملکوتی شبیہ بگاڑنے کے لئے، ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط باتوں کی تشہیر کے باوجود، پوری اسلامی دنیا میں امام (خمینی) طاب ثراہ کی اسلامی دعوت کا عام ہونا، آپ کی فکر، نام اور رہنمائیوں کا ہر جگہ پہنچنا اور دنیا کے مشرق و مغرب میں آپ کی تصاویر کا آویزاں ہونا ہمارے اس دعوے کی روشن ترین دلیل ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ مسلم اقوام کی فکر کی سلامتی اور استحکام کا ایک اہم عامل، علمائے کرام، روشنفکر حضرات، مصنفین، فنکاروں اور آگاہ و فعال نوجوانوں کی جانب سے حقائق کا بیان ہونا ہے۔ اس سلسلے میں سبھی بالخصوص راسخ العقیدہ علمائے دین کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن نے آج تک ہمیشہ، ایران اسلامی پر الزامات عائد کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی الزامات دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ تعصب اور فکری جمود کا الزام، جس کو بنیاد پرستی کا نام دیتے ہیں، دہشتگردی کا الزام، انسانی حقوق کو اہمیت نہ دینے کا الزام، ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام، خواتین کے حقوق سے بے اعتنائی کا الزام، صلح کی مخالفت اور جنگ کی طرفداری کا الزام، تھوڑا سا انصاف، ان الزمات کے بے بنیاد ہونے اور الزام لگانے والوں کی بے شرمی سے واقفیت کے لئے کافی ہے۔ ایران اسلامی پر ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام ایسی حالت میں لگایا جاتا ہے کہ عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پچاس دن بعد سے اس کے چودہ مہینے کے اندر دو ریفرنڈم انجام پائے جن میں سے ایک میں ایرانی عوام نے ملک کے سیاسی نظام کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ کا انتخاب کیا اور دوسرے میں ملک کے آئین کو منظوری دی۔ اس کے علاوہ آئین ساز اسمبلی کے اراکین، صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کے انتخاب کے لئے، تین الیکشن ہوئے اور اب تک صدر اور اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے لئے، ہمیشہ قانونی مدت میں آزاد انتخابات ہوئے ہیں جن میں عوام نے بھر پور شرکت کی ہے۔ ایران اسلامی پر دہشتگردی کا الزام وہ لوگ لگا رہے ہیں جنہوں نے دہشتگرد صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے۔ ایران کے انقلاب مخالف دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کی ہے، اور ان کے زرخریدوں نے سیکڑوں بار ایران کے اندر بم کے دھماکے کئے ہیں، ہزاروں عام لوگوں، انقلابیوں، بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ ایران پر صلح کی مخالفت کا الزام وہ لگاتے ہیں، جنہوں نے بعثی عراقی حکومت کو ورغلاکر ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی اور اس پورے عرصے میں، اس حکومت کو انواع و اقسام کی امداد دیتے رہے جو ایران پر حملے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ ترین حکومت تھی۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کا الزام وہ لگاتے ہیں کہ جو ایرانی خواتین کی اعلا شان و منزلت کو جو شرعی حدود میں رہتے ہوئے اور اسلامی حجاب کے ساتھ، ملک کی اعلاترین سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پسند نہیں کرتے اور مغربی معاشروں میں عورت اور مرد کے روابط پر حکمفرما پستی اور عورتوں کے بزدلانہ استحصال و استفادے کو عورت کی سماجی زندگی کا بہترین معیار بتاتے ہیں۔ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام وہ لگاتے ہیں جنہوں نے خود حیرت انگیز اور بدترین شکل میں انسانی حقوق کو پامال کیا یا اس پامالی کے اسباب فراہم کئے ہیں۔ آج بوسنیا میں جس طرح انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں کیا نئی دنیا میں انسانی حقوق کبھی اس طرح پامال ہوئے ہیں؟ کیا فلسطینی قوم کے انسانی حقوق کی پامالی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا چار لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کو انسانی حقوق کی نام نہاد طرفدار دنیا کی آنکھوں کے سامنے، ان کے گھر اور وطن سے باہر نکال دینا ، چشم پوشی کے قابل ہے؟ کیا خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے کا امریکا کا اقدام، امریکا کے سیاہ فاموں کے ساتھ ناانصافی، الجزائر میں فوجی بغاوت کرنے والوں کی حمایت یا مصر کی فاسد حکومت کی طرفداری یا امریکا میں کچھ لوگوں کو زندہ جلا کے مار دینا اور اسی قسم کے دیگر واقعات، انسانیت کی توہین اور انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ کیا وہ حکومتیں جو اس طرح نڈر ہوکر انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہیں یا اپنی حوصلہ افزا خاموشی سے انسانی حقوق کو پامال کرنے کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں، واقعی جیسا کہ وہ دعوا کرتی ہیں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ناراض ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی حکام اور دیگر الزام لگانے والے جنہوں نے اس پرانے اور زنگ آلود تشہیراتی حربے کے ذریعے، نیا ہنگامہ شروع کر رکھا ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جو بات انہیں پسند نہیں ہے، وہ یہ نہیں ہے بلکہ دوسری چیزیں ہیں اور سیاسی مصلحتیں انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ صراحت کے ساتھ ان کا اعلان کریں۔ اگرچہ ان کی پالیسیاں تیار کرنے والوں اور مصنفین کے بیانات کے تحلیل و تجزیئے سے ان کا مقصود آشکارا ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جو باتیں امریکا اور دیگر مستکبرین کی ناراضگی کا سبب ہیں وہ یہ ہیں: اول دین کا سیاست سے الگ نہ ہونا اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد۔ دوسرے اس نظام کی سیاسی خود مختاری یعنی سپر طاقتوں کی زور زبردستی کو نہ تسلیم کرنا۔ تیسرے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے واضح راہ حل کا اعلان جو اس بات پر مشتمل ہے کہ غاصب صیہونی حکومت ختم ہو، فلسطینیوں پر مشتمل فلسطینی حکومت قائم ہو اور فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی امن و آشتی کے ساتھ رہیں۔ چوتھے تمام اسلامی تحریکوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت اور دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں پر دباؤ ڈالے جانے کی مخالفت۔ پانچویں اسلام، قرآن
اور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ و سلم ) اور دیگر انبیائے الہی کے مقام و مرتبے کا دفاع اور ان مقدس ہستیوں کی توہین کا مقابلہ، جیسا کہ شیطانی آیات کے مرتد اور واجب القتل مصنف کے معاملے میں دیکھا گیا۔ چھٹے اسلامی اتحاد، اسلامی حکومتوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون اور عظیم امت اسلامیہ کے قالب میں مسلم اقوام کے اقتدار کے استحکام کی کوشش۔ ساتویں اس مغربی ثقافت کی جس کو مغربی حکومتیں تنگ نظری اور تعصب کی بناء پر، دنیا کی تمام اقوام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، نفی اور اسے مسترد کرنا اور مسلمان ملکوں میں اسلامی ثقافت کے احیاء پر اصرار۔ آٹھویں جنسی بے راہ روی کی مخالفت کہ بعض مغربی حکومتوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے اس کی انتہائی انحرافی اور بے شرمانہ ترین شکل کو سرکاری منظوری دی ہے یا اس کوشش میں ہیں اور دسیوں سال سے مختلف شکلوں میں یہ برائیاں اسلامی ملکوں میں پھیلانے کی منصوبندی اور کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دشمنی کی وجوہات۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ صراحت کے ساتھ اپنی دشمنی کی وجہ بیان کرکے اس فہرست کو سب کے سامنے لائیں تو مسلم اقوام کے دلوں میں جو اصول پسند ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام و مرتبہ بڑھ جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے پروپیگنڈوں میں ایک طرف ایران پر دہشتگردی اور اسی قسم کے دوسرے الزامات لگاتے ہیں اور دوسری طرف جعلی خبروں اور جھوٹے تجزیوں میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولوں سے دستبردار ہوکر دشمن کے مطالبات کے سامنے جھک گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور استکبار کی فریبی چالیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اصول، وہی امام (خمینی رہ) کا بتایا ہوا راستہ اور اسلام کے بنیادی اصول ہیں ، دشمن کے کہنے کے برعکس ایران اسلامی میں بدستور معتبر اور سیاسی و سماجی زندگی کی بنیاد ہیں۔ ایران کی حکومت اور قوم حقیقی محمدی ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسلام کے سائے میں زندگی سے، جو اس نے فداکاریوں اور عزیز ترین جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی ہے، کسی بھی حال میں دستبردار نہیں ہوگی اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ ) کے اصول اور ان میں سرفہرست دین کے سیاست سے الگ نہ ہونے اور اسلام اور قرآن کو گوشہ نشین کرنے کے لئے مادہ پرستوں کے دباؤ کے مقابلے میں اسقتامت کے اصول ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران میں باقی رہیں گے۔
6- آخر میں حجاج کرام سے سفارش کرتا ہوں کہ مسلمان بھائیوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے حج (کے موقع) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، مسلمانوں کے رفتار و گفتار سے عالم اسلام کے حالات کو سمجھیں، ایک دوسرے سے تجربات، آرزؤوں، پیشرفتوں اور توانائیوں کا تبادلہ کریں اور اپنے حج کو اس حج سے نزدیک تر کریں جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ ایرانی بہنوں اور بھائیوں سے میری سفارش ہے کہ اپنی رفتار و گفتار سے دوسرے ملکوں کے مسلمان بھائیوں تک پرشکوہ انقلاب، اپنے ملک اور قوم کا پیغام پہنچائیں۔ خانہ خدا، روضہ پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حج کے مواقف اور یادوں سے پر سرزمین حجاز میں اپنے مختصر قیام کو، دل میں یاد خدا کو زندہ کرنے، رسول خدا( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کی عترت طیبہ ( علیہم السلام) سے روحانی رابطے کو مستحکم تر کرنے بالخصوص حضرت ولی اللہ الاعظم سے کہ یقینا حج میں جن کی مقدس موجودگی صاحبان معرفت کے لئے فیض رساں ہوتی ہے، آپ سے توسل اور آپ کی عنایات حاصل کرنے، قرآن سے انس، اس کی آیات پر غور و فکر کرنے، دعا و مناجات اور توسل کے لئے جو یقینا تقرب خدا کا موجب ہے، غنیمت سمجھیں، اس سے بہرہ مند ہوں، مسلمانوں کی مشکلات دور ہونے اور اسلام نیز اسلامی جمہویہ کی عزت وطاقت میں روزافزوں اضافے اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی روح مطہرہ اور شہدائے اسلام کی ارواح طیبہ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں ۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ
24 ذیقعدہ 1413 مطابق 28 اردیبہشت 1372