تہران میں سترہ اور اٹھارہ اپریل کو منعقدہ عالمی ترک اسلحہ کانفرنس کے لئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام ارسال کیا جو کانفرنس میں پڑھا گیا۔ آپ نے اس پیغام میں ترک اسلحہ اور ایٹمی ٹکنالوجی کے پرامن استعمال کے سلسلے میں اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔ پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ معزز مہمانوں کو جو یہاں تشریف فرما ہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ خوشی کا مقام ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج ترک اسلحہ کانفرنس کی اس امید کے ساتھ میزبانی کر رہا ہے کہ آپ دستیاب موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور گفت و شنید سے نکلنے والے گرانقدر اور پائیدار نتائج کو انسانی معاشرے کی خدمت میں پیش کریں گے۔
ایٹمی ٹکنالوجی اور جوہری سائنس اہم ترین انسانی کامیابیوں میں سے ایک ہے جو دنیا کی قوموں کے رفاہ و بہبود اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی و پیشرفت میں مددگار بن سکتی ہے اور بننا بھی چاہئے۔ ایٹمی سائنسز کا وسیع دائرہ کار، طبی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کی ضرورت کی تکمیل کر سکتا ہے جن میں ہر ایک کی بڑی خاص اہمیت ہے۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ معاشی زندگی میں ایٹمی ٹکنالوجی نے بڑا نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے اور وقت گزرنے اور صنعتی، طبی اور توانائی کے شعبے کی ضروریات میں تیز رفتار اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جائے گی اور اسی تناسب سے ایٹمی توانائی کے حصول اور اس کے استعمال کی کوششیں بھی تیزتر ہوتی جائیں گی۔ مشرق وسطی کی قومیں جو دنیا کی دیگر اقوام کی مانند امن و سلامتی اور پیشرفت و ترقی کی ضرورتمند ہیں، یہ حق رکھتی ہیں کہ اس ٹکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کی بہتر پوزیشن اور اقتصادی مقام کو یقینی بنائیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہری ایٹمی پروگراموں کے سلسلے میں فضا کو غبار آلود بنانے کا شاید ایک مقصد یہ ہے کہ علاقے کی قوموں کو اپنے اس فطری اور ارزشمند حق کی جانب متوجہ ہونے سے روکا جائے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ دنیا کا واحد ایٹمی مجرم اس وقت دروغ گوئی کرتے ہوئے خود کو ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کرنے والے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے جبکہ اس نے اس سلسلے میں یقینا کوئي بھی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے اور ہرگز کرے گا بھی نہیں۔ ایٹمی اسلحے کی روک تھام کا امریکا کا دعوی اگر غلط نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ صیہونی حکومت متعلقہ عالمی قوانین بالخصوص ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے خود کو الگ رکھتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو ایک ایسے اسلحہ خانے میں تبدیل کر پاتی جس میں ایٹمی ہتھیاروں کا پورا ذخیرہ موجود ہو؟
ایٹم لفظ جہاں سائنسی میدان میں انسانی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے وہیں بد قسمتی سے تاریخ کے گھناونے ترین سانحے، سب سے بڑی نسل کشی اور انسان کی سائنسی کامیابی کے غلط استعمال کا غماز بھی ہے۔ حالانکہ متعدد ممالک نے ایٹمی ہتھیار بنانے اور ان کا ذخیرہ تیار کرنے کا اقدام کیا ہے جو اپنی جگہ پر ارتکاب جرم کی تمہید ہے اور اس سے امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں لیکن ایک ہی حکومت ہے جس نے ایٹمی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ واحد امریکی حکومت ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں مظلوم جاپانی عوام کو ایک غیر مساویانہ جنگ میں ایٹمی حملے کا نشانہ بنایا۔
جب سے ہیروشیما اور ناگاساکی میں ریاستہائے متحدہ کی حکومت کے ہاتھوں ایٹمی بم دھماکوں سے تاریخ کا بے مثال انسانی المیہ رونما ہوا اور بشریت کی سلامتی بہت بڑے خطرے سے دوچار ہو گئی اسی وقت سے ان ہتھیاروں کی نابودی کی ضرورت پر عالمی برادری کا حتمی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہ فقط یہ کہ وسیع ترین قتل عام اور تباہی پر منتج ہوا بلکہ اس نے لوگوں کے درمیان، فوجی اور غیر فوجی کے درمیان، چھوٹے اور بڑے کے درمیان، مرد و زن کے درمیان اور بچوں اور بوڑھوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا اور اس سیاسی اور جغرافیائی سرحد میں انسانیت سوز اثرات پھیل گئے۔ حتی بعد کی نسلوں کو بھی ناقابل تلافی خسارہ ہوا۔ بنابریں ان ہتھیاروں کا کسی بھی طرح کا استعمال حتی انہیں استعمال کرنے کی دھمکی مسلمہ اور بدیہی ترین انسان دوستانہ اصولوں کی حلاف ورزی اور جنگی جرائم کا واضح مصداق ہے۔ چند طاقتوں کی ان غیر انسانی ہتھیاروں تک رسائی ہو جانے کے بعد فوجی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ ایٹمی جنگ میں فتح ناممکن اور ایسی جنگ میں پڑنا غیر عقلی اور غیر انسانی عمل ہے۔ تاہم اخلاقی، عقلی، انسانی اور حتی فوجی لحاظ سے ان بدیہی باتوں کے باوجود معدودے چند حکومتوں نے جو سب کو بد امنی سے دوچار کرکے اپنی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانا چاہتی ہیں ان ہتھیاروں کی نابودی کے عالمی برادری کے مکرر مطالبات کو نظر انداز کیا ہے۔
ان ہتھیاروں کی نگہداشت، ان میں اضافے اور ان کی تخریبی توانائی بڑھانے پر بعض حکومتوں کا اصرار، کہ جس سے خوف و ہراس پھیلانے، قتل عام اور یقینی عمومی نابودی سے پیدا ہونے والی دفاعی طاقت پر مبنی جھوٹے احساس تحفظ کے علاوہ کوئی اور نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے، دنیا میں ایٹمی دہشت کے تسلسل پر منتج ہوا ہے۔ بے شمار اقتصادی اور انسانی وسائل کو غیر منطقی رقابت پر صرف کر دیا گيا تاکہ بڑی طاقتوں کو یہ خیالی توانائي آسودگی ہو کہ وہ اپنے حریفوں، کرہ ارض کے دیگر باشندوں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو دس ہزار بار نابود کر سکتی ہیں۔ بلا وجہ نہیں ہے کہ یقینی باہمی نابودی پر استوار اس دفاعی اسٹریٹیجی کو دیوانگی کا نام دیا گيا ہے۔ (MAD=Mutual assured destruction)
حالیہ برسوں میں بعض ایٹمی حکومتیں دیگر ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں یقینی باہمی نابودی پر مبنی دفاعی اسٹریٹیجی سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں اور ان حکومتوں کی ایٹمی اسٹریٹیجی میں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حلاف ورزی کرنے والوں سے لاحق عام خطرات کے مقابلے میں بھی ایٹمی انتخاب کی حفاظت پر زور دیا گيا ہے جبکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی وہ طاقتیں ہین جو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی چھٹی شق کی رو سے عائد ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں سب سے آگے رہی ہیں اور صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنے میں مدد کرکے اور اس حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کے ذریعے (این پی ٹی) معاہدے کی پہلی شق پر مبنی اپنے فرائض کے بر خلاف ان ہتھیاروں کے حقیقی پھیلاؤ میں براہ راست کردار ادا کرتی رہی ہیں اور انہوں نے مشرق وسطی کے علاقے اور دنیا کو ایک سنگين خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ان حکومتوں میں ریاستہائے متحدہ امریکا کی جارح اور تسلط پسند حکومت سب سے پیش پیش ہے۔
مناسب یہ ہے کہ عالمی ترک اسلحہ کانفرنس دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار اور ذخیرے سے لاحق خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے انسانیت کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے کے لئے حقیقت پسندی پر مبنی کچھ ایسے طریقے تجویز کرے جس سے امن و ثبات کی حفاظت کی راہ میں سنجیدہ قدم اٹھایا جا سکے۔
ہمارے خیال میں ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ کیمیاوی ہتھیاروں اور حیاتیاتی ہتھیاروں جیسے عام تباہی کے اسلحے بھی انسانیت کے لئے عظیم خطرے شمار کئے جاتے ہیں۔ ملت ایران جو کیمیاوی ہتھیاروں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اس قسم کے ہتھیاروں کی پیداوار اور ان کے ذخیرے کے خطرات کو دیگر قوموں سے زیادہ محسوس کرتی ہے اور ان کی روک تھام کے لئے اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہے۔
ہم ان ہتھیاروں کے استعمال کو حرام اور اس عظیم مصیبت سے بنی آدم کو محفوظ بنانے کی کوششوں کو عمومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

سید علی خامنہ ای
27 فروردین 1389 ہجری شمسی
1 جمادی الاول 1431 ہجری قمری
(17 اپریل 2010 عیسوی)