قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28-12-1370ہجری شمسی مطابق 19-3-1992 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد کی مناسبت سے قوم کے نام اپنے پیغام میں ملکی اور عالمی امور کا اختصار سے جائزہ لیا۔ آپ نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے تسلط والے ممالک میں اسلامی لہر سامنے آنے کو خاص اہمیت کا حامل واقعہ قرار دیا۔ آپ نے ملک کے اندر عوام اور حکام کی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سال نو کی تقریبات کے تعلق سے اسراف اور فضول خرچی سے گریز کی سفارش کی۔ عید نوروز کا پیغام حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل والنّھار، یا محوّل الحول والاحوال حوّل حالنا الی احسن الحال۔

با برکت عید نوروز کی اپنے عزیز ہم وطنوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص فداکاروں کو کہ وطن جن کا ممنون کرم ہے، شہیدوں کے خاندان والوں کو، مسلط کردہ جنگ میں اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانباز سپاہیوں اور ان کے گھروالوں، جنگی قیدیوں، دشمن کی قید سے رہائی پاکے آنے والے سپاہیوں، لاپتہ ہو جانے والوں اور ان کے کنبے والوں کو اور اسی طرح تمام مجاہد سپاہیوں اور ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے مسلط کردہ جنگ کے سخت دور کا اپنے پورے وجود سے سامنا کیا ہے، چاہے وہ فوجی ہوں، پاسداران انقلاب ہوں یا لاکھوں بسیجی (رضاکار) ہوں۔
اس سال خوش قسمتی سے عید نوروز کی مبارکباد ان دیگر اقوام کو بھی پیش کرسکتے ہیں جو سرکاری طور پر اس عید پر جشن مناتی ہیں۔ میں جمہوریہ آذربائیجان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمنستان اور علاقے کے ان دیگر ملکوں کے عوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز اور اس کا جشن مناتے ہیں۔
میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مقدس پر، جو پوری اسلامی دنیا اور علاقے میں اس عام جوش و جذبے کو بیدار اور جان و دل کو متحد کرنے والے تھے، درود و سلام بھیجتا ہوں اور آپ کی روح کے لئے طلب مغفرت کرتا ہوں۔
اس سال عید نوروز رمضان المبارک میں، بالخصوص شبہائے قدر اور حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلاۃ والسلام کے یوم ولادت باسعادت سے متصل ہے۔ امید ہے کہ اس سال موسم بہار میں قدرت کا تغیر ہم سب کے اندر اخلاقی و روحانی تغیر اور معنوی بلندی کے پیدا کرے گا۔
کسی قوم کے لئے مکمل عید اس وقت ہوتی ہے جب قوم کے لوگ، امید، ایمان، جذبہ عمل، آگاہی اور معرفت کے ساتھ اپنے باطن کی تعمیر کر سکیں۔ خداوند عالم سے اپنے رابطے کو محکم اور اپنے اندر معنویت کی تقویت کرکے، خدا سے دعا اور اس کی نصرت طلب کرکے، اس پر توکل اور خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت سے اپنے دل و جان کو روشن کرسکیں اور اس امید، طمانیت اور سکون تک پہنچ سکیں جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہے۔ اس صورت میں قوم حوادث زمانہ کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ اس نئے سال میں اور بالخصوص رمضان المبارک کے ان ایام ، ان دنوں اور ان شبہائے قدر میں ہم یہ توفیق حاصل کر سکیں۔
گذرنے والا سال،عالمی سطح پر حوادث سے پر تھا اور فطری بات ہے کہ ہم بھی ان حوادث کے آثار سے پوری طرح محفوظ نہیں رہے۔ ان حوادث کے نتائج شیریں اور پسندیدہ بھی تھے اور ساتھ ہی ناگوار بھی تھے۔ البتہ ملک کے حکام کی کوشش یہ ہے کہ حوادث عالم کے تعلق سے شیریں و دلچسپ اثرات زیادہ ہوں اور ناگوار و تلخ نتائج کم ہوں۔
ان حوادث میں سے ایک سوویت یونین کی بڑی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا اور ایک سپر پاور کا زوال ہے، جو درحقیقت ہمارے دور اور ہماری تاریخ کا بڑا واقعہ شمار ہوتا ہے۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے اس لحاظ سے کہ اس کے نتیجے میں جن ملکوں اور اقوام نے آزادی و خود مختاری حاصل کی ان میں مسلم اقوام بھی ہیں۔ اس علاقے میں اور ہمارے پڑوس میں، دسیوں لاکھ مسلمان آشکارا طور پر اور صراحت کے ساتھ اپنی اسلامی اقدار، اسلامی ثقافت اور اسلامی آرزوئیں زبان پر لائے اور ان کا اظہار کیا جبکہ وہ دسیوں سال سے اس فطری حق سے محروم رکھے گئے تھے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں جو عالمی میدان اور اقوام کی زندگی میں سپر طاقتوں کی غارتگری کا دور ہے، ایک سپر طاقت کا زوال، کمزور اقوام کو امید عطا کر سکتا ہے، دنیا کے عقلمندوں کے لئے عبرت کا باعث ہو سکتا ہے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں امید کی روشنی پیدا کر سکتا ہے۔
گذشتہ سال دیگر اہم واقعات میں، مختلف ملکوں میں مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریکوں میں شدت بھی ہے کہ جس کی خبریں گذشتہ سال کے دوران تسلسل سے آ رہی تھیں اور ہماری عزیز قوم نے ان خبروں کو سنا۔
گذشتہ سال کے شیریں واقعات میں عالمی سطح پر ہمارے عزیز ملک کے اثر و رسوخ اور اعتبار میں اضافہ بھی ہے۔ بین الاقوامی امور میں ہمارے ملک نے نمایاں کردار ادا کیا اور عالمی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ۔ یہ بات دنیا کے اچھے ملکوں کے ساتھ مثبت سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط میں توسیع اور فروغ کا سبب بنی جو ہمارے لئے بہت اچھی بات تھی۔ یہ سب ان لوگوں کی فداکاریوں اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے جنہوں نے ان چند برسوں کے دوران مختلف میدانوں میں دل و جان سے کوشش کی اور اس سلسلے میں ہماری عظیم قوم اور دلیر نیز حریت پسند عوام کا تعاون سب سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے طویل برسوں تک مختلف میدانوں میں اپنی پرجوش موجودگی اور مشارکت سے انقلاب کو اس طرح متحرک اور زندہ رکھا کہ اس نے دنیا میں اور اقوام عالم کی نگاہوں میں نمایاں حیثیت حاصل کی ۔
گذشتہ سال کے تعلق سے ہمارے ملک کا ایک مسئلہ ملک کی تعمیر نو کے لئے حکومت اور حکام کی کوشش رہی ہے۔ اس ایک برس کے دوران، بہت اچھے بنیادی کاموں سے اس کا آغاز ہوا اور بہت اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ اس پر عمل ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی و پیشرفت اور غربت نیز و بے روزگاری کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ، بنیادی کام یہ ہے کہ ملک کے اندر بڑی منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ وہ کام ہے جو الحمد للہ گزرنے والے سال میں انجام پایا ہے۔ یعنی ان منصوبوں کا بڑا حصہ شروع ہو گیا یا منصوبہ بندی ، نفاذ اور استفادے کے مرحلے میں ہے اور خدا کے فضل سے آئندہ برسوں کے دوران بھی اس پر عمل جاری رہے گا۔
میں گذشتہ سال کے تعلق سے، جس کے اختتام کا ہم نے مشاہدہ کیا، جو عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ گذشتہ سال، عالمی واقعات اور داخلی مسائل کے لحاظ سے ہمارے لئے حوادث سے پر اور کامیاب سعی و کوشش کا سال تھا۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنی عظیم قوم کی اس بہت بڑی سیاسی کامیابی کی یاد دہانی کراؤں کہ اقوام متحدہ نے مسلط کردہ جنگ کے بارے میں اعلان کیا کہ جنگ شروع کرنے والا عراق تھا۔اس قوم کی آٹھ سال تک جاری رہنے والی مجاہدت میں، اس عالمی گواہی کے بعد دوسرا ہی رنگ اور انداز دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر چہ حق پسند اور حق پرست اس گواہی سے پہلے بھی حقیقت واقعہ سے واقف تھے اور ہماری قوم اپنی مظلومیت اور حقانیت سے سب سے زیادہ واقف تھی لیکن ہماری قوم کو معتبرترین بین الاقوامی تنطیم کی جانب سے اس گواہی کی ضرورت تھی۔
بہرحال یہ سال کامیابیوں کا سال تھا۔ الحمد للہ ہمیں کافی کامیابیاں ملیں اور ہم نے آگے کی سمت قدم بڑھائے۔ البتہ کوئی یہ دعوی ہرگز نہیں کر سکتا کہ ان چند برسوں کی کوششوں کے مکمل اہداف تک ہم پوری طرح پہنچ گئے۔ لیکن ان اہداف کی سمت میں ہم نے قدم بڑھائے ہیں اور ان شاء اللہ ہماری قوم آخری اہداف تک پہنچے گی۔
اس سال کے آغاز پر اپنی پوری قوم اور ملک کے حکام سے جو سفارش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قوم، حکومت اور خدمتگزار حکام، سب کوشش کریں کہ حکومت اور عوام کے درمیان محبت و صداقت کے اس رشتے اور اس اتحاد ویکجہتی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط، وسیع اور مستحکم کریں۔
ہماری عزیز قوم، انقلاب کے میدانوں میں پوری قوت کےساتھ اپنی موجودگی کو جاری رکھے جو ملک کی تمام مشکلات کے حل میں کارساز رہی ہے اور دنیا کو ہماری حقانیت کی طرف متوجہ کر سکی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یوم قدس آ رہا ہے، اس دن کے جلوسوں میں عوام کی شرکت بہت اہم ہے۔ اسی طرح مستقبل قریب میں انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں عوام کی شرکت بہت اہم اور فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ مستقبل میں، تمام شعبوں میں تعمیر نو اور حکومت کے ساتھ مختلف قسم کے تعاون کے کئی مراحل سامنے ہیں۔ ان تمام مراحل میں ہماری قوم کو اپنی موجودگی کا ثبوت دینا ہے۔ حکومت اور زحمت کش نیز عوام کے خدمتگزار حکام سے بھی چاہتا ہوں کہ ملک کی تعمیر نو میں عوام کی مشارکت کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس امر میں انہیں منظم کریں۔ سب سے میری سفارش یہ ہے کہ کام کو بہت زیادہ اہمیت دیں۔ آج واقعی کام، جس محاذ پر بھی ہو، جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ جو لوگ اپنے لئے کام کرتے ہیں، وہ بھی کوشش کریں کہ ان کا کام ملک، قوم اور عوام کی مصلحت اور اہداف سے ہم آہنگ ہو۔ عوام اپنے اتحاد کو محفوظ رکھیں۔ ہمدلی اور قومی اتحاد کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی جو بہت اہم ہے، حفاظت کریں۔ اقوم کی مشکلات و مسائل کے تمام قلیل المیعاد اور طویل المیعاد حل، اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہیں۔
میں سفارش کرتاہوں کہ عوام عید نوروز کے ایام میں اور آئندہ سال کے دوران ، خاص طور پر ان تقریبات میں جن میں اسراف ہوتا ہے، اسراف سے پرہیز کریں۔ فضول خرچی اور اسراف معمولا متمول طبقہ کرتا ہے۔ کیونکہ کمزور طبقات زیادہ خرچ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ایک طبقے کی جانب سے زیادہ خرچ اور اسراف ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس میں اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان ہے اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ضرر ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے، ایک بار پھر کہتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ فضول خرچی ترک کریں۔ خرچ ایک معقول مقدار کے اندر ہونا چاہئے۔ اسراف اور فضول خرچی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ معقول مقدار ہر الگ الگ زمانے میں مختلف ہوتی ہے۔ آج عوام کے بہت سے طبقات اور گھرانے، مشکل اور مصیبت میں ہیں اور ابھی ملک کی تعمیر نو کے اثرات و ثمرات پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور اس کی برکتیں سب تک نہیں پہنچی ہیں۔ معقول مقدار سے مراد یہ ہے کہ انسان جہاں تک ہو سکے، خود کو ان طبقات سے نزدیک کرے۔ ملک کے عزیز حکام اور عہدیدار، چاہے حکومت سے ان کا تعلق ہو، عدلیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسرے شعبوں سے متعلق ہوں، خاص طور پر اس اصول کی دوسروں سے زیادہ پابندی کریں۔
دعا ہے کہ خدا وند عالم اپنی برکات آپ پر نازل فرمائے ، اس عید کو حقیقی معنوں میں آپ کے لئے مبارک قرار دے اور اس سال کو آپ کے لئے بہت اچھا، پرشکوہ، باعظمت، خوش قسمتی اور شادمانی کا سال قرار دے ۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ