قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھبیس خرداد تیرہ سو ستر ہجری شمسی، تین ذی الحجہ سن چودہ سو گیارہ ہجری قمری مطابق سولہ جون سن انیس سو اکانوے عیسوی کو عازمین حج کے نام اپنے پیغام میں حج کے اعمال کے رموز و اسرار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے حج کے بنیادی مقاصد کی جانب اشارہ کیا اور عالم اسلام کے مسائل اور سامراجی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔
پیغام کے متن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق ۔ لیشھدوا منافع لھم و یذکرو اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعمو البائس الفقیر (1)

حمد و سپاس خداوند حکیم کے لئے ہے کہ جس نے اپنے بندوں پر احسان کیا، انہیں خانہ خدا کے گرد جمع ہونے کی دعوت دی اور اپنے عظیم پیغمبر کو گلدستہ تاریخ میں دعوت حج دینے پر مامور کیا۔ اس گھر کو جائے امن و امان قرار دیا، جاہلیت کے بتوں سے پاک کیا، مومنین کی طواف گاہ ، دور دراز کے لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز، مظہر اتحاد و اتفاق، جلوہ گاہ شوکت اور جلسہ گاہ امت قرار دیا۔ بیت اللہ کو کہ جس کو جاہلیت اولی کے دور میں خادمین کعبہ اور امور طواف و سعی کے ذمہ داروں نے اپنی سرداری و حکمرانی کی دکان اور بازار تجارت میں تبدیل کر دیا تھا،عوام الناس سے متعلق قرار دیا اور ان کے لئے استفادہ کرنے اور بہرہ مند ہونے کا مرکز بنایا، وہاں کے ساکنین اور دوسری جگہوں سے آنے والے مسافرین کا حق برابر قرار دیا، حج کو مسلمین کی وحدت و عظمت، ہم آہنگی اور ان کے ایک دوسرے سے منسلک ہونے کا راز اور ایسی بہت سی بیماریوں کا علاج قراردیا جس میں افراد اورمسلم معاشرے ، اپنے مرکز سے جدائی کے نتیجے میں مبتلاء ہوتے ہیں جیسے غیروں کی پرستش ، خود فراموشی ، سازشوں میں پھنس جانا، خدا سے غفلت اور اہل دنیا کا اسیر ہونا ، اپنے بھائیوں کی نسبت بد گمانی اور ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں یقین، امت اسلامیہ کے مستقبل کی نسبت بے حسی بلکہ امت اسلامیہ کو نہ پہچاننا، دوسرے اسلامی علاقوں کے حوادث سے بے خبری ، اسلام اور مسلمین کے بارے میں دشمنوں کی سازشوں کے سلسلے میں ہوشیاری کا فقدان اور بہت سی دوسری مہلک بیماریاں جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ مسلمانوں کے امور پر نا اہلوں اور خدا سے بے خبر لوگوں کے تسلط کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے خطرہ بنی رہیں اور حالیہ صدیوں میں علاقے میں بیرونی استعماری طاقتوں کی آمد اور ان کے زرخریدوں اور دنیا پرستوں کی حکمرانی کے باعث تباہ کن اور بحرانی شکل اختیار کرچکی ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے حج کو امت خالدہ کے لئے ، کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ، ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ اور دریائے زلال قرار دیا کہ اس کی شناخت رکھنے والا اور اس کی قدر جاننےوالا ہر حال میں اس سے استفادہ کرسکے گا اور اس کو مذکورہ مہلک بیماریوں کی دوا قرار دے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ملت ایران پر رحمت نازل فرمائی اور صحرا و بیاباں کے طالب خارہائے مغیلاں کی سرزنش کے بعد شوق کعبہ مقصود کی، جام وصل سے، جس میں عزت و کامرانی دونوں کی شیرینی تھی تکمیل کی۔ جس حق سے کئی برسوں تک اس کو ناروا طریقے سے محروم رکھا گیا ، اپنی شان کریمانہ سے اسے واپس دلایا اور اس قوم کی خالی جگہ کو جس نے بوجہلی حج کی جگہ حج ابراہیمی و محمدی (صلی اللہ علیھما وآلھما) کو رائج کیا، ( اسی قوم سے) بنحو احسن پر کیا۔ مشتاقان مہجور و محصور کے قلب تپاں کو جرعہ وصال سے سکون عطا کیا، انوار معرفت سے منور اور شوق زیارت سے لبریز دلوں کی آرزو پوری کی، اپنے مخلص بندوں کو فضل و کرم خاص سے نوازا، مومنوں کی نصرت کا وعدہ پورا کیا اور اپنے گھر کو اعتکاف میں بیٹھنے والوں اور طواف کرنے والوں کا مرکز قرار دیا۔
پالنے والے ان عاشق و مشتاق عازمین حج پر جنہیں جانگداز انتظار کے بعد دیار معشوق میں جانا نصیب ہوا ہے اور ان تمام بہنوں اور بھائیو پر جو دنیا کے مختلف گوشوں سے تیری بارگاہ رحمت و مغفرت میں آئے ہیں نظر کرم فرما ، ان کے دلوں کو انوار معرفت و بصیرت سے روشن فرما، اپنی ہدایت اور نصرت ان کے شامل حال فرما، انہیں اصلاح امت کا عزم راسخ عطا فرما اور انہیں ان کے دشمنوں پر کامیابی عطا کر، یا رب العالمین!
پالنے والے ! چار سال پہلے حرم امن الہی میں جو شہداء، دشمنی و کینے کا نشانہ بنے اور عورت، مرد، جوان اور بوڑھے، مظلومانہ انداز میں تیرے آستانے پر اپنے خون میں غلطاں ہوئے اور ان کے انتظار میں لگی ہوئی ان کے عزیزوں کی منتظر نگاہوں کا انتظار ان کے جنازے آنے پر ختم ہوا، ان شہیدوں کی ارواح پر فضل و رحمت نازل فرما اور اس حج کا مکمل ثواب انہیں عطا فرما جس کی حسرت میں انہوں نے ملکوت اعلی کی طرف پرواز کیا۔
پالنے والے! ہمارے رہبر و امام ، اس آزمودہ عبد صالح، اولیاء کے سچے وارث، اس پارسا، پرہیزگار اور بیدار انسان کی روح پر اپنا فضل و کرم نازل فرما جو تیری رضا کی جستجو میں رہا، جس کی دوستی اور دشمنی تیرے لئے تھی اور تیری راہ میں وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا۔ تیرا حج کرنے والے ، تیری عبادت کرنے والے اور تیری راہ میں سعی و کوشش کرنے والے ان تمام لوگوں کے حج، عبادت اور سعی و کوشش کا ثواب ہمارے امام کو بھی عطا کر جنہیں ان کی رہبری و ہدایت حاصل رہی۔ پالنے والے ہمارے امام کی یہ آرزو پوری کر کہ حج، حج ابراہیمی ہو اور اس عظیم عبادت الہی سے امت اسلامیہ بہرہ مند ہو۔
پالنے والے! تمام صدیوں اور ادوار کے منجی بشریت، اپنے برگزیدہ اور عظیم پیغمبر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر بہترین درود و سلام نازل فرما، جنہوں نے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا، تیری وحی انہیں سنائی، دنیا و آخرت کی سعادت کے راستے سے انہیں روشناس کرایا اور اپنی سیرت طیبہ سے تمام صدیوں کے انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ پیش کیا۔ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور آپ کے اہلبیت طیبین و طاہرین و معصومین ، بالخصوص بقیۃ اللہ الاعظم، حجت اللہ فی الارض حضرت مہدی منتظر (عجل اللہ فرجہ و ارواحنا فداہ) پر تیرا درود و سلام ہو۔
اوراب آپ عزیزبہنوں اور بھائیوں کے لئے جو دنیا کے مختلف علاقوں سے حج کی وعدہ گاہ عظیم میں جمع ہوئے ہیں اور قومی، نسلی اور فرقہ وارنہ میں سے ہجرت کرکے، اسلامی اور قرآنی ہم میں ضم ہو گئے ہیں، ضروری ہے کہ کچھ مسائل کو مد نظر رکھیں، دوسرے مسلمانوں سے ان کے بارے میں تبادلہ خیال اور مشاورت کریں اور حج سے واپسی پر اس کو اپنے فکر و عمل کی اساس قرار دیں۔
1- پہلی بات اسرار و رموز سے مملو اس عظیم واجب، حج بیت اللہ کی قدر کو سمجھنا ہے۔ حج مظہر توحید اور کعبہ، کاشانہ توحید ہے۔ یہ جو حج سے متعلق آیات کریمہ میں بارہا ذکر خدا کی بات کی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گھر میں اور اس کی برکت سے مسلمانوں کے ذہن و عمل کو، غیر خدا سے اور ان کی زندگی کو، شرک کی تمام اقسام سے پاک ہونا چاہئے۔ اس جگہ، ہر عمل کا محور و مرکز خدا ہے اور طواف، سعی، رمی جمرات، وقوف اور حج کے دیگر اعمال، سب ایک طرح سے خدا میں جذب ہونے اور اللہ کے علاوہ تمام خداؤں کی نفی، انکار اور ان سے برائت کا مظہر ہے۔ یہ ہے بت شکن اور تاریخ کے منادی توحید حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) کی امت حنیف۔
شرک ہمیشہ ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا۔ بت ہمیشہ لکڑی، پتھر اور دھات کی مختلف شکلوں میں ہی ظاہر نہیں ہوتے۔ خانہ خدا اور حج کے تعلق سے ہر زمانے میں شرک کو اس زمانے کے مخصوص لباس میں اور خدا کے شریک بت کو اس دور کی مخصوص شکل میں پہچاننے اور اس کی نفی اور اس کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج لات منات اور عزی کی کوئی خبر نہیں ہے۔ لیکن ان کے بجائے، ان سے زیادہ خطرناک، دولت، طاقت، سامراج اور جہالت و سامراجیت کے نظاموں کے بت ہیں جو اسلامی ملکوں میں مسلمین کی زندگی پر سایہ فگن ہیں۔
وہ بت جس کی عبادت و اطاعت پر آج دنیا کے بہت سے لوگوں اور بہت سے مسلمانوں کو زور زبردستی کے ذریعے مجبور کیا جا رہا ہے، امریکی طاقت کا بت ہے جو مسلمانوں کے تمام سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں پر قابض ہے اور اقوام کو وہ چاہیں یا نہ چاہیں، مسلمانوں کی بھلائی و مصلحت کے خلاف اپنے اغراض و مقاصد کے راستے پر چلاتا ہے۔ یہی بے چوں و چرا اطاعت ہی عبادت ہے جو آج سامراجی طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکا کے تعلق سے اقوام پر مسلط کی جا رہی ہے اور انہیں مختلف شکلوں میں اس سمت لے جایا جا رہا ہے۔
اخلاقی برائیاں اور فحاشی جو سامراجی کارندوں کے ذریعے اقوام میں پھیلائی جارہی ہے، فضولخرچی کرنے کا رواج، جو ہماری اقوام کی زندگی کو روز بروز اپنی دلدل میں غرق کرتا جا رہا ہے تاکہ مغربی کمپنیاں جو سامراجی کیمپ کا دل و دماغ ہیں زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں، مغربی سامراج کا سیاسی تسلط جس کے ستون عوام مخالف زرخرید حکومتوں نے کھڑے کئے ہیں اور فوجی موجودگی جو مختلف بہانوں سے روز بروز آشکارتر ہو رہی ہے، یہ سب اور اس جیسی دوسری چیزیں، شرک اور بت پرستی کے مظاہر ہیں جو توحیدی زندگی اور توحیدی نظام کے بالکل خلاف ہیں جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ حج اور خانہ توحید کے اس عظیم اجتماع میں شرک کے ان مظاہر کی نفی ہونی چاہئے اور مسلمانوں کو ان سے خبردار کرنا چاہئے۔ اسی واضح اور روشن مفہوم کے پیش نظر حج کو مشرکین سے اعلان برائت کی بہترین جگہ سمجھا گیا اور خدا وندعالم نے خود اپنی زبان میں، اپنے نبی (ص ) کے ذریعے مشرکین سے اعلان برائت کو حج اکبر کے دن پر موقوف کیا ہے و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ فان تبتم فہو خیر لکم وان تولیتم فاعلموا انکم غیر معجزی اللہ و بشر الذین کفروا بعذاب الیم (2)
آج مسلمین حج میں جو برائت کے نعرے لگاتے ہیں وہ سامراج اور اس کے زرخریدوں سے برائت کی فریاد ہے جن کا نفوذ ، افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ملکوں میں زیادہ ہے اور انہوں نے اسلامی معاشروں پر شرک آلود نظام زندگی ، مشرکانہ سیاست اور ثقافت مسلط کرکے، مسلمانوں کی زندگی میں توحید عملی کی بنیادیں منہدم کر دی ہیں اور انہیں غیر خدا کی عبادت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی توحید صرف زبانی ہے۔ توحید کا صرف نام ہے، ان کی زندگی میں معنی توحید کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔
حج اسی طرح اتحاد اور وحدت مسلمین کا مظہر ہے۔ خداوند عالم تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے جس میں بھی استطاعت ہو، ایک خاص جگہ پر، خاص زمانے میں بلاتا ہے اور انہیں ایسے اعمال بجا لانے کا حکم دیتا ہے کہ جو نظم، ہماہنگی اور ایک ساتھ زندگی گزارنے کا مظہر ہیں اور انہیں کئی دن اور کئی راتیں ایک جگہ پر ایک ساتھ رکھتا ہے۔ اس کا پہلا نمایاں اثر ان میں سے ہر ایک میں وحدت و اجتماعیت کا احساس پیدا ہونا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے اجتماع کا شکوہ نظر آ جاتا ہے اور احساس عظمت سے ان کے اذہان سرشار ہو جاتے ہیں۔ اس عظمت کے احساس کے بعد اگر کوئی مسلمان اکیلا کسی غار میں بھی زندگی گزارے، تو خود کو اکیلا نہیں محسوس کرے گا۔ اس حقیقت کے احساس سے تمام اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں میں اسلام مخالف کیمپ یعنی سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کے سیاسی و اقتصادی تسلط ، اس کے کارندوں اور زرخریدوں اور ان کے نیرنگ و فتنے کے مقابلے میں دلیری و شجاعت پیدا ہوتی ہے اور ان پر تحقیر کا جادو جو یلغار کا نشانہ بننے والی اقوام کے لئے، مغربی سامراج کا پہلا حربہ ہوتا ہے ، اثر نہیں کرتا۔ اسی عظمت کے احساس کے نتیجے میں ، مسلمان حکومتیں اپنے عوام پر بھروسہ کرکے خود کو بیرونی طاقتوں سے بے نیاز محسوس کرتی ہیں اور مسلم اقوام اور حکومتوں کے درمیان فاصلہ جو مصیبتیں وجود میں لاتا ہے، ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ اس جماعت و وحدت کا احساس ہے جس کی وجہ سے کل اور آج کا استعماری نیرنگ یعنی انتہا پسندانہ قوم پرستی مسلم اقوام کے درمیان وسیع اور گہرے فاصلے وجود میں نہیں لا پائی اور عرب، فارس، ترک اور افریقی و ایشیائی قومیتیں، بجائے اس کے کہ واحد اسلامی شناخت سے متصادم ہو اس کا جز اور اس کی وجودی وسعت کی علامت بن جاتی ہے اور اس کے بجائے کہ ہر قومیت، دوسری اقوام کی نفی و تحقیر کا باعث ہو، اقوام کے درمیان ایک دوسرے کی مثبت تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات کے تبادلے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
حج کو اپنے شعائر، مناسک اور مناظر کے ساتھ ایسا ہونا چاہئے کہ دنیا کے تمام علاقوں کے مسلمانوں کے اندراتحاد، مہربانی، جماعت اور عظمت کا احساس زندہ کر دے، مختلف فرقوں اور قبائل سے امت واحدہ کی تشکیل کرے اور اس امت واحدہ کی عبودیت مطلق، خداوند عالم کی وادی امن کی طرف ہدایت کرے اور خداوند عالم کے اس قول کے عملی شکل اختیار کرنے کے لئے حالات کو سازگار بنائے کہ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ و انا ربکم فاعبدون (3) عبودیت پروردگار، ربوبیت و وحدانیت کے آستانے پر جبہ سائی کرنے والی امت واحدہ کی تشکیل اسلام کی وہ بڑی آرزو ہے کہ جس کے سائے میں مسلمانوں کے لئے تمام انفرادی و اجتماعی کمالات تک پہنچنا ممکن ہو جائے گا اور یہ وہ ہدف ہے کہ جس کے حصول کے لئے شریعت میں جہاد اسلامی کو رکھا گیا اور تمام اسلامی عبادات و واجبات اس کے ایک حصے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ حج ابراہیمی و محمدی ( صلی اللہ علیہما و آلہما) یقینا ان دو عظیم اہداف کی تمہیدات اور ارکان میں سے ہے۔ اسی بناء پر اس ‏عظیم اجتماع میں ذکر خدا فاذکروا اللہ کذکرکم ابائکم او اشد ذکرا (4) اور مشرکین سے برائت کے اعلان کو و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ (5) رکن حج قرار دینے کے ساتھ ہی، ایسے ہر اقدام کی نسبت جو بھائیوں کے درمیان یعنی اس امت واحدہ میں دشمنی اور تفرقہ بڑھائے، حساسیت بھی اپنی اعلا حد پر پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ دو مسلمان بھائیوں کے درمیان کہا سنی بھی جو معمول کی زندگی میں زیادہ اہم چیز نہیں ہے، حج میں ممنوع اور حرام ہے۔ فلا رفث و لافسوق و لاجدال فی الحج۔ (6) جی ہاں جہاں مشرکین یعنی توحیدی امت واحدہ کے بنیادی دشمنوں سے برائت کا اعلان ضروری قرار پاتا ہے وہیں مسلمان بھائیوں یعنی توحیدی امت واحدہ کے بنیادی اراکین سے بحث و مباحثہ ممنوع و حرام ہو جاتا ہے۔ اس طرح حج میں وحدت و جماعت کا پیغام زیادہ صراحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
حج کے رمز و راز اس سے بہت زیادہ ہیں جن کا یہاں اشارتا ذکر کیا گیا۔ ان رموز پر جن کا مقصد مسلمان معاشرے اور افراد کے تشخص کا احیاء اور اس کی نابودی کے عوامل کے خلاف جدوجہد ہے، غور و فکر حاجی کے سامنے نئے افق کھول دیتی ہے اور اس کو سعی و کوشش کے کبھی ختم نہ ہونے والے عالم میں لے جاتی ہے۔ ہر حاجی کا پہلا فریضہ ان رموز پر غور و فکر، تبادلہ خیال، ان تمام امور کے محور و بنیاد کی جستجو اور اس بات پر غور کرنا ہے کہ بعض عوامل و عناصر یہ کوشش کیوں کرتے ہیں کہ حج کو اس کے سیاسی و اجتماعی مفاہیم سے عاری کرکے صرف ایک انفرادی عبادت کے عنوان سے پیش کریں؟ دین کو دنیا کے عوض بیچنے والے عالم نما افراد، جن کے نام اور دینی شان کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو اسرار سے آشنا کریں اور ان کے جسم و روح کو اس کے اہداف کی طرف لے جائیں، اس کے برعکس اس سلسلے میں ہر قسم کی حقیقت بیانی کی مخالفت اور حقائق کو چھپانے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ لاؤڈ اسپیکروں سے بار بار یہ اعلان کیوں کیا جاتا ہے کہ حج میں سیاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے؟ کیا اسلام اور اس کے نورانی احکام انسانوں کی مادی و معنوی زندگی کی ہدایت اور ان کے امور چلانے کے لئے نہیں ہیں؟ کیا اسلام میں دینداری سیاست سے ملی ہوئی نہیں ہے؟ یہ عالم اسلام کی بڑی مصیبتوں میں سے ہے کہ کچھ لوگوں کی دنیاپرستی، رجعت پسندی اور کوتا بینی نے ہمیشہ غیروں کی خباثت آلود اور منظم دشمنی میں ان کی مدد کی ہے اور وہ زبانیں اور قلم جنہیں اسلام اور اس کے حقائق کے بیان میں مصروف رہنا چاہئے، اسلام کے ہوشیار اور سازشی دشمنوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ وہی مصیبت ہے کہ حضرت امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے بارہا جس کو بیان کیا ہے اور اس کا شکوہ کیا ہے۔ ضروری ہے کہ امت کے باہوش افراد عوام الناس کو اس سے واقف کرائیں۔ سچے علمائے کرام اور دین کو دنیا کے ہاتھوں بیچنے والے زرخریدوں کے درمیان فرق کو واضح کریں۔
2- خاص طور پر اس زمان و مکان میں جس پر غور و فکر ضروری ہے، اپنی تاریخ سے امت اسلامیہ کے منسلک ہونے کا مسئلہ ہے اور اسی طرح اس انجام کے بارے میں بھی غور و فکر ضروری ہے جو امت اسلامیہ کو خود اپنے لئے رقم کرنا ہے۔ امت اسلامیہ کا ماضی ایسا ہے کہ سامراج نے ایشیا اور افریقا میں اپنی آمد کے بعد اسے مخدوش کرنے اور اس بات کی بہت کوشش کی کہ اس کو فراموش کر دیا جائے۔ اسلامی ملکوں کے مادی اور افرادی قوت کے ذخائر پر تسلط اور مسلمان اقوام کے امور پر قبضے کا جو اٹھارھویں صدی کے اواخر سے سامراجیوں کا براہ راست اور بالواسطہ ہدف رہا ہے، تقاضا تھا کہ مسلمان اقوام کا تشخص اور ان کے اندر پایا جانے والا احساس عظمت ختم کر دیا جائے اور انہیں ان کے پرشکوہ ماضی سے بالکل الگ کر دیا جائے اور اس طرح انہیں اپنے اخلاقی اصول و ثقافت کو چھوڑ کے مغربی ثقافت اور سامراجی تعلیم کو قبول کرنے پر مائل کیا جائے۔ اسلامی ملکوں میں حکمفرما بدعنوان اور استبدادی حکومتوں کے تسلط سے پیدا ہونے والے ساز گار حالات میں یہ حیلہ کارگر ہوا اور مغربی ثقافت اور ان تمام چیزوں کا سیلاب شروع ہو گیا کہ جنہیں سامراج مسلم اقوام پر اپنے سیاسی اور اقتصادی تسلط کے لئے ان کے درمیان پھیلانا ضروری سمجھتا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ممالک دو سو سال تک مغربی لٹیروں کی لوٹ مار کی آماجگاہ بنے رہے اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے براہ راست حکمرانی سے لیکر، قدرتی ذخائر پر قبضے، یہاں تک کہ قومی زبان کے رسم الخط کی تبدیلی، فلسطین جیسے ایک اسلامی ملک پر مکمل قبضے اور اسلامی مقدسات کی توہین تک سب کچھ کیا اور مسلمانوں کو علمی و ثقافتی رشد سمیت، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خودمختاری کی تمام برکات سے محروم کر دیا۔
آج مسلمان ملکوں کی ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور فوجی حالت پر ایک نظر، مادی اور معنوی کمزوری کے مشاہدہ اوران ملکوں کی اکثر حکومتوں کی حالت اور ان کے سیاسی نظاموں پر غور کرنے سے ، جن میں ہر چیز ناتوانی اور احساس ذلت کی عکاسی کرتی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ ان ملکوں اور اقوام کا اپنی تاریخ ، ماضی اور اس عظمت سے کٹ جانا ہے جو ہر کمزور اور نا امید انسان میں امید کی روشنی اور سعی و کوشش کا جذبہ پیدا کر سکتی ہے۔ اس تاریخی عظمت و شکوہ کی بنیاد خدا کے لئے قیام اور مخلصانہ جہاد کے آغاز میں، اسلام کے حریت آموز اور حیات بخش احکام پر عمل ، صدر اسلام میں مسلمانوں کی سعی و کوشش، مکے کے ایام غربت اور مدینے کے عہد جہاد میں رکھی گئی تھی۔ وہ نومولود جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے حجاز کے جہاد اور جدوجہد کی برکت سے ایک طاقتور اور ذہین نوجوان میں تبدیل ہوا اور پھر صدیوں اس نے دنیا میں اقتدار و سیاست کا پرچم سربلند رکھا اور علم و معرفت کی روشنی پھیلائی۔ اس عظمت کا سرچشمہ مکے اور مدینے کے جہاد کی عظمت کا سرچشمہ تھا۔
مکہ اورمدینہ مرکز وحی اور اس مومن و مجاہد جماعت پر برکات الہی کے نزول کا مقام ہے جس نے آیات الہی پر ایمان و عمل کی برکت سے خاک مذلت کو ترک کرکے وہ آزادی حاصل کی جو بشریت کے شایان شان ہے۔ آزادی بشریت اور دولت و طاقت کے سلطانوں کے تسلط سے بنی نوع انسان کی رہائی کا پرچم بلند کیا، اس نور معرفت سے جس کا سرچشمہ قرآن تھا، دانش بشری کا عظیم مرکز قائم کیا، صدیوں علم و معرفت بشری کی روشنی پھیلائی، پوری بشریت کو چشمہ علم سے سیراب کیا، صدیوں گرانبہا ترین علمی آثار رقم کئے اور عالم بشریت کی تقدیر کو اپنے علم ، سیاست اور ثقافت سے جوڑ دیا۔ یہ سب زمانہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صدر اسلام کے ایک دور میں، حکومت الہی اور خالص اسلامی تعلیمات کی برکت سے تھا جو شاہی حکومتوں کے شجرہ خبیثہ کے رشد و تسلط اور عہد توحید سے لوگوں کے پلٹ جانے کے باوجود صدیوں مسلمانوں کو اپنے ثمرات عطا کرتی رہیں اور ان کے ذریعے پوری بشریت کو سیراب کیا جاتا رہا۔ اس سرزمین کی ایک ایک بالشت زمین پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے باوفا اور نورانی ساتھیوں کی یاد دلاتی ہے۔ اسی سرزمین سے اسلام طلوع ہوا، پرچم اسلام بلند ہوا اور جہالت کی تمام زنجیروں سے بشریت کو آزادی ملی۔
آج جبکہ مسلمان اقوام میں صدیوں کے زوال ، جمود اور تذلیل کے بعد بیداری اور خدا کے لئے قیام کا رجحان پیدا ہوا ہے اور بہت سے اسلامی ملکوں میں آزادی و خودمختاری اور اسلام و ‍قرآن کی طرف واپسی کی خوشبو پھیل گئی ہے، مسلمانوں کو اپنے نورانی اورمعجز نما ماضی، اسلام کے ابتدائی دور کی اسلامی جدوجہد اور خدا کے لئے قیام کے دور سے اپنے رشتوں کو زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سرزمین کی اسلامی یادیں، ہر صاحب تدبر مسلمان کے لئے ایسی شفابخش دوا ہے جو اس کو کمزوری، زبوں حالی، مایوسی اور بد گمانی سے نجات دلاکر اسلامی اہداف کے حصول کا راستہ دکھاتی ہیں، جو ہمیشہ ہر صاحب حکمت وتدبر انسان کی زندگی اور سعی و کوشش کا ہدف ہے۔
اس سرزمین پر پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے یاران باوفا کے ساتھ تیرہ سال تک سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں تب جاکے اسلام کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ اسی سرزمین پر کئی سال شعب ابیطالب میں مصیبتوں سے پر زندگی گزارنے، بلال، عمار، یاسر، سمیہ، عبداللہ بن مسعود اور ایسے ہی ديگراصحاب کو سخت ترین ایذائیں دیئے جانے، مکہ اور طائف کے قبائل کے درمیان رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طویل اور پر مشقت رفت و آمد کے بعد اہل یثرب سے بیعت عقبہ واقع ہوئی اور مدینہ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جانب ہجرت پربرکت پیش آئی اور اسلامی حکومت تشکیل پائی۔ یہاں فتح بدر، شکست احد، معرکہ خندق اور حدیبیہ کے امتحان کا سامنا ہوا۔ یہاں اخلاص اور جہاد نے فتح رقم کی اور دولت پرستی اور غنیمت طلبی نے ناکامی دکھائي۔ یہاں ایک ایک آیت کرکے قرآن نازل ہوا، اسلامی تمدن و ثقافت اور اسلامی حیات طیبہ کی بنیاد کی ایک ایک اینٹ رکھی گئی۔ مسلمان اس ماضی پر پرتدبر اور اس کے ساتھ ایک ایک لمحہ زندگی گزار کے، مستقبل کے ساتھ تعمیری رابطہ قائم کر سکتے ہیں، زندگي کی راہ اس کے ہدف کو پہچان سکتے ہیں، راستے کے خطرات سے آگاہ ہو سکتے ہیں، اس تحریک کے مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور خود کو یہ راستہ طے کرنے کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں اور کمزوری اور حقارت کے احساس اور دشمن کے خوف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور یہ سب حج کی برکت سے ہے۔
میں نے جو کچھ کہا اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کل کے استعمار اور آج کی سامراجی اور تسلط پسند طاقتیں ماضی سے مسلمانوں کے فکری اور جذباتی لگاؤ سے کیوں ڈرتی ہیں؟ یہ ماضی سے تعلق ہے جو حال اور مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ کے قیام اور اس اعلان کے بعد کہ ایرانی قوم اسلامی اقدار پر استوار ایک معاشرہ وجود میں لانا اور اس میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے، مشرق و مغرب اور ان سے وابستہ ملکوں کے تشہیراتی اداروں نے اسلامی جمہوریہ کو بنیاد پرست، قدامت پسند اورماضی کی طرف جانے والا رجعت پسند نظام قرار دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ ایران اسلامی، ماضی کی روایات کی پابندی چاہتا ہے، اس پر سخت تشہیراتی حملے شروع کئے جبکہ رجعت پسند، استبدادی اور قدیم کھوکھلی روایات کے پابند نظام جو نئی عالمی اصطلاحات جیسے آزادی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، دنیا کے مشرق اور مغرب میں کم نہیں ہیں لیکن ان پر کبھی تشہیراتی حملے نہیں کئے گئے۔ عبرت انگیز بات یہ ہے کہ ان حکومتوں کے ریڈیو نے بھی جن کے یہاں نئی سیاسی روش کے ابتدائی ترین طور طریقے کی بھی کوئی خبر نہیں ہے، قومی پارلیمنٹ نام کی کوئی چیز ان کے یہاں نہیں ہے، آزاد انتخابات اور غیر سرکاری اخبارات و جرائد افسانے کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بھی اس ملک کو جہاں اسلامی عوامی حکومت ہے، اسلامی قوانین عوام کے منتخب اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ میں پاس ہوتے ہیں اور عوام کی منتخب حکومت ان کا نفاذ کرتی ہے اور اس کے تمام حساس مسائل میں عوام کی فعال مشارکت ہوتی ہے، اس کو رجعت پسند کہا اور دنیا کے صاحبان عقل کو اس مضحکہ خیز تقلید پر ہنسنے پر مجبور کر دیا۔
جی ہاں، سامراج اور اس کے تشہیراتی اداروں ، اس کے زرخرید قلم اور پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکروں کو اس ملک سے جو قدامت پرستی کی گہرائیوں میں غرق ہو اور اس قوم سے جو جاہلیت کی رسومات میں جکڑی ہوئی ہو لیکن اس کے مادی خزانوں کے دروازے ان پر کھلے ہوں ، نہ صرف یہ کہ کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت خوش ہیں۔ لیکن جن اقوام کا ماضی انہیں عزت و عظمت کی یاد دلائے، جہاد اور شہادت کے راستے ان کے لئے کھول دے، انہیں انسانی کرامت واپس دلائے، ان کی دولت و عزت کو تسلط پسندوں کی غارتگری سے محفوظ بنا دے، انہیں آیہ ولن یجعل للکافرین علی المومنین سبیلا (7) کی تعلیم دے ، آیہ کریمہ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین (8) انہیں پڑھ کے سنائے، وما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین (9) کا خطاب ان کے دل و دماغ تک پہنچائے اور ان الحکم الا للہ (10) کا فرمان ان کی زندگی میں نافذ کرے ، مختصر یہ کہ خدا، دین اور قرآن کو ان کی زندگی کا محور بنا دے اور ان کی زندگی سے تسلط پسند، مستکبر اور مستبد طاغوتوں کا تسلط ختم کر دے، وہ ایسے ماضی کی طرف واپسی اور ایسی تاریخ سے منسلک ہونے سے ناراض، سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں۔ اس لئے ہر قیمت پر اس کو روکنا چاہتے ہیں۔
مسلمین، بالخصوص وہ معاشرے جو الہی قیام اور آزادی کی نسیم سے آشنا ہو چکے ہیں، خاص طور پر علماء دانشور اور آگے آگے رہنے والے حضرات، ہوشیار رہیں کہ کہیں اس دام میں نہ پھنس جائیں۔ بنیاد پرستی کے الزام سے نہ ڈریں، رجعت پسندی اور قدامت پسندی کے بہتان سے نہ گھبرائیں، خبیث اور چالاک دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اسلامی بنیاد، اسلام کے نورانی احکام اور دینی معاشرے نیز توحیدی نظام کے اہداف کی تشریح سے اظہار برائت نہ کریں، خدا کے کلام کو سنیں کہ ولن ترضی عنک الیھود و لاالنصاری حتی تتبع ملتھم (11 ) اور قل یا اھل الکتاب ھل تنقمون منا الا ان امنا باللہ وما انزل الینا وما انزل من قبل وان اکثرکم فاسقون (12) اور فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک وضائق بہ صدرک ان یقولوا لولا انزل علیہ کنز او جاء معہ ملک (13) اور وما نقموا منھم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید (14)
حج میں، مکے اور مدینے میں، احد میں، حرا میں، اس سرزمین میں جہاں رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) اور آپ کے اصحاب کرام کے مبارک قدم پڑے اور یہ سرزمین ان کی مشقتوں، مصبتوں، مجاہدتوں اور غم و اندوہ کی شاہد رہی، وحی، جہاد، قرآن اور سنت کی اس سرزمین پر، ہر قدم پر، اس کے ماضی پر غور کریں۔ خود کو اس سے جوڑیں، اس کے سائے میں راستے اور سمت کی جستجو کریں، سرانجام اس کے تجربے سے آپ کو راستہ مل ہی جائے گا۔ خدا پر توکل اور اس کی قوت کاملہ کے سہارے، اس سے لو لگاکے، اس کی نصرت اور اپنی توانائی پر اعتماد کرکے اس راستے اور سمت میں قدم بڑھائیں واللہ معکم ولن یترکم اعمالکم (15)
3- ایک اور اہم موضوع جس پر عازمین حج کو حج کے ایک اہم ہدف کے عنوان سے توجہ دینی چاہئے، اسلامی دنیا کے اہم اور موجودہ مسائل ہیں۔ اگر حج پوری دنیا کے مسلمانوں کا سالانہ اجتماع اور کانفرنس ہے تو یقینا اس اجتماع اور کانفرنس کا سب سے اہم اور فوری ترجیحات، دنیا کے ہر علاقے کے مسلمانوں کے موجودہ مسائل ہیں۔ یہ مسائل سامراجی تشہیرات میں اس طرح پیش کئے جاتے ہیں کہ نہ اس سے مسلمانوں کو کوئی درس ملے، نہ تجربہ حاصل ہو اور نہ ہی ان کے اندر کوئی امید پیدا ہو اور اگر کسی واقعے اور حادثے میں سامراج کی بد نیتی اور بد عملی موثر واقع ہو جائے تو حقائق سامنے نہ آئیں اور مجرم رسوا نہ ہوا یا اس کو پیش ہی نہ کیا جائے۔ حج وہ جگہ ہے جہاں یہ تشہیراتی خیانت آشکارا، حقیقت بے نقاب اور مسلمانوں کی عام واقفیت کے لئے حالات ہموار ہونے چاہئیں۔
اب اسلامی دنیا کے اہم واقعات کی فہرست مسلمان بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
الف: آج اہم ترین مسئلہ فلسطین کا ہے جو گذشتہ نصف صدی کے دوران ہمیشہ اسلامی دنیا اور شاید عالم بشریت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک قوم کی مصیبت، بے وطنی اور مظلومیت کی بات ہے۔ ایک ملک غصب کر لئے جانے کا معاملہ ہے۔ اسلامی ملکوں کے قلب میں اور عالم اسلام کے مشرق و مغرب کے سنگم پر ایک سرطانی پھوڑا وجود میں لانے کی بات ہے۔ یہ اس مستقل ظلم کی بات ہے جو فلسطین کی دوسری نسل کو دامنگیر ہے۔ آج جبکہ سرزمین فلسطین میں عوام الناس پر استوار خونیں قیام نے بے دھڑک جرائم کا ارتکاب کرنے والے، انسانیت سے ناواقف اور بے ضمیر جارحین کے لئے سنجیدہ خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے تو دشمن کا طریقہ کار پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوگیا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے کام لیں، اس کی چارہ جوئی کریں اور اقدام کریں۔
آج اسلامی دنیا کی آشفتہ حالی اور امریکا کی بے لگام طاقت پر علاقے کے ملکوں کے روز افزوں انحصار نے غاصب صیہونی حکومت کے حملے کے لئے زمین ہموار کر دی ہے، جو بڑے شیطان کی---جو واقعی اسلام اور مسلمین کا خطرناک ترین دشمن ہے--- پشت پناہی سے اپنے کھلے اہداف کے جنہیں اس نے کبھی بھی چھپانے کی زیادہ کوشش نہیں کی ہے ، حصول کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ سوویت یونین کے یہودیوں کی منتقلی جو اس سابق سپر پاور کے لئے مغرب کی امداد کا ایک حصہ ہے، ایتھوپیا کے یہودیوں کی منتقلی جو فلسطین کے غاصب امریکی اور یورپی صیہونیوں کی خدمت کے لئے منتقل کئے گئے ہیں اور حال ہی میں ہندوستانی یہودیوں کی منتقلی، مقبوضہ فلسطینی اور حتی ممکنہ طور پر لبنان کے مقبوضہ علاقوں میں بھی صیہونی کالونیوں کی تعمیر فوجی وسائل اور عام تباہی کے ہتھیاروں میں اضافہ، جبکہ امریکا نے مشرق وسطی میں ان ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی کے نعرے بلند کئے ہیں، جنوبی لبنان پر مسلسل، ہر روز ہوائی حملے، نہتے فلسطینی اور لبنانی عوام پر بمباری، عرب فلسطینی شہریوں یعنی فلسطین کے اصلی مالکین کے ساتھ روز افزوں سختی، عوام کے ساتھ پولیس کی وحشیانہ ترین مجرمانہ روش اسی کے ساتھ سیاسی میدان میں پی ایل او اور عرب حکومتوں کی پسپائی اور بعض عرب سیاستدانوں کی جانب سے کمزوری کے مظاہرے کے مقابلے میں جارحانہ پوزیشن اختیار کرنا اور حتی بین الاقوامی یا علاقائی سطح کی کانفرنس کرانے کی فکر، ایک طرح سے سب کو مسترد کر دینا اور سرانجام سرزمین فلسطین کے ایک گوشے میں فلسطینی حکومت کی تشکیل کی تجویز کو بھی جو فلسطینی فریقوں کی پسپائی اور ذلت قبول کرنے کا نتیجہ تھی، صراحت کے ساتھ اور سختی سے مسترد کر دینا، صیہونیوں کی آشکارا اور انسانیت سوز پالیسیوں کا مجموعہ ہے اور یقینا ان آشکارا اقدامات کےساتھ ہی اس کی کئی گنا ، خفیہ سرگرمیاں، سازشیں، شخصیات کے قتل، لوگوں کے اغوا کی وارداتیں، نفسیاتی جنگ، زہریلے پروپیگنڈے اور ایسے روایتی اور غیر روایتی جرائم کے لئے جاری ہیں جن کا ارتکاب صرف صیہونیوں اور ان کے حامیوں سے ہی ممکن ہے۔
عالمی سامراج اور استعماری حکومتوں نے شروع سے لیکر آج تک غاصب اسرائیلی حکومت سے علاقے کی عرب اور اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک حربے کی حیثیت سے کام لیا ہے۔ اسی مقصد سے اس کو قائم کیا ہے اور چاہتی ہیں کہ اسلامی دنیا کے پہلو میں چبھائے گئے اس خنجر کو ہمیشہ اسی طرح باقی رکھیں۔آج اس پالتو کتے کی باگ ڈور بڑے شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی، انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور وہ بھی انتہائی وحشیانہ انداز میں، پڑوسی ملکوں پر مسلسل جارحیت، دہشتگردانہ کاروائیاں، کھلے عام لوگوں کا اغوا اور ایٹمی اور دوسرے عام تباہی کے ہتھیاروں کا حصول کہ ان میں سے کوئی بھی کام اگر دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں ہو جائے جو امریکا یا دوسری طاقتوں سے مالک اور غلام کا رابطہ نہ رکھتا ہو، تو بہت بڑا واقعہ سمجھا جائےگا ، صیہونیوں سے قابل قبول ہے اور سامراجی طاقتیں بالخصوص امریکا اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔
بنابریں آج غاصب صیہونی حکومت اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے علاج اور اس بڑے ظلم کو دور کرنے کے لئے چارہ جوئی ضروری ہے۔ افسوس کہ اکثر اسلامی ملکوں کے سربراہوں میں اس بڑے خطرے کے علاج کے لئے جو نسل پرست صیہونی حکومت کے خاتمے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ، عزم و ارادے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی بلکہ اس کے برعکس بعض عرب حکومتوں میں کیمپ ڈیوڈ کی توسیع اور سادات نے جو خیانت کی ہے اس کی تکمیل کی چاہت ضرور نظر آتی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ان حکومتوں نے اپنے اس ذلت آمیز طرز عمل اور مسلمانوں اور عربوں کے دشمن کے سامنے شرمناک انداز میں سر بسجود ہو جانے پر اپنے عوام اور خدا کے لئے کیا جواب تیار کیا ہے؟
اس خطرے کا حقیقی علاج مسلمانوں کے پاس ہے۔ وہ مسلمان مجاہدین کی حقیقی امداد کے ذریعے فلسطین کے اندر تحریک اور قیام کو قوی تر اور محکم تر کر سکتے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے، علاقے کی حکومتوں کو امریکا کی خواہش اور مطالبے پر اسرائیل کے ساتھ ساز باز سے روک سکتے ہیں۔ لبنان کے سربلند مسلمانوں کی فداکاری اور ان کے دلیرانہ اقدامات، جنہوں نے بارہا صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو کمزور اور دفاعی پوزیشن میں پہنچا دیا ہے، اس کے گواہ ہیں کہ اقوام اور مومن نوجوان عظیم کارناموں پر قادر ہیں۔
ب: ایک دوسرا مسئلہ بعض عرب اور افریقی ملکوں میں اسلامی تحریکوں کا ہے۔ یہ عالم اسلام کے نوید بخش ترین واقعات ہیں کہ کوئی قوم اپنے نوجوانوں کی مدد سے، اپنے دانشوروں کے تعاون سے، کوچہ و بازار کے لوگوں اور عوام کی شراکت سے اسلامی احکام کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کا دعوا کرے اور اس راہ میں آگے بڑھے۔ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع ہونے اور اسلامی حکومت قائم ہونے سے دوستوں میں یہ امید اور توقع پیدا ہوئی ہے اور سامراجی کیمپ میں جس میں امریکا سب سے آگے ہے، یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ ایران کا اسلامی انقلاب پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کی کا میابی کا سر آغاز بن جائےگا ۔
پوری دنیا میں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، اس سے قبل اور اس کے بعد ایران اسلامی پر مشرق اور مغرب کے مشترکہ دباؤ کا بڑا حصہ اس خیال خام کے تحت رہا ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی شکست سے تمام ملکوں میں مسلمانوں کی نگاہ میں اسلامی تحریک کا تجربہ ناکام ہو جائےگا اور پھر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ان کے دلوں میں جو امید کی روشنی پیدا ہوئی ہے، وہ ان کی توانائی کو اس مبارک راہ میں نہ لگا سکےگی۔ آج بھی سامراجی پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکر جو یہ وسیع پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب رک گیا ہے، ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے، اسلامی جمہوری نظام عظیم الشان امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ) کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور غدار امریکا سے آشتی کی کوشش کر رہا ہے، اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا ہدف بھی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ یہ وہی پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکر ہیں جنہوں نے حضرت امام (خمینی) قدس سرہ کی زندگی میں بارہا اسرائیل کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے، اس سے اسلحہ خریدنے اور اس کے ہاتھ تیل بیچنے کا بہتان بے شرمی کے ساتھ اسلامی ایران پر جو غاصب صیہونی حکومت کا سب سے بڑا دشمن ہے، لگایا تھا۔
خدا کا شکر کہ سامراج کی کوئی بھی کوشش، چاہے وہ عملی اقدام کی رہی ہو یا تشہیراتی، کارگر نہیں ہوئی اور امید کا وہ شعلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کے عزم محکم سے اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے گھروں میں ضوفشاں ہوا، اس نے اپنا کام کر دیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج متعدد اسلامی ملکوں میں عوامی تحریکوں کی شکل میں اسلامی حکومت کے مطالبات دیکھے جا رہے ہیں۔ لیکن میں ایک ہمدرد اور تجربہ کار بھائی کے عنوان سے اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ ان اقوام بالخصوص ان کے رہنماؤں، روشنفکروں اور علمائے دین کو یاد دہانی کرا دوں کہ ؛
اولا اس راستے میں، بے صبری اور بے بصیرتی سے تحریک کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس لئے صبر اور بصیرت پر دوسری چیزوں سے زیادہ توجہ دیں۔
دوسرے، اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کا مطلب جاہلیت کی اقدار اور طاغوتی نظاموں کے خلاف اٹھنا ہے کہ جنہوں نے بشریت کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، ظلم اور برائیوں کو عام کیا ہے، طبقاتی اور نسلی امتیاز کی بنیاد رکھی ہے، اقوام میں فحاشی اور یہ فکر پھیلائی کہ انہیں ظلم و ستم اور دیگر مصیبتوں کو قبول کر لینا چاہئے اور اپنا سب کچھ دولت اور طاقت والوں کی ظالمانہ حکمرانی اور ان کے منافع میں اضافے پر قربان کر دینا چاہئے۔ بنابریں صحیح اسلامی تحریک اقدار کے دو نظاموں کے درمیان صف آرائی اور دو ثقافتوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہے۔ یہ بشریت کو پابہ زنجیر کرنے کی ثقافت اور بشریت کو نجات دلانے کی ثقافت کے درمیان ٹکراؤ ہے۔ لہذا ہر اسلامی تحریک کو دنیا کے تمام تسلط پسندوں کے مقابلے میں مزاحمت کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ دھوکے میں اس پر وار نہ ہو سکے۔
تیسرے، دشمن تشہیراتی حربوں سے کام لیکر کوشش کر رہا ہے کہ آپ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے نام سے دستبردار ہو جائیں اور شاید بعض سادہ لوح یہ سوچنے لگیں کہ امریکا اور مغربی حکومتوں کو ناراض کرنے سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ آشکارا بیانات میں اسلامی حکومت کا نام لینے سے سے اجتناب کیا جائے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ اس مصلحت کوشی کے تحت، (اسلامی حکومت کا نام لینے سے) اجتناب، خلاف مصلحت ہے۔ اسلامی نظام اور اسلام و قرآن کی حکومت کے قیام کے ہدف کا ہر حال میں کسی بھی تردد و تامل کے بغیر صراحت کے ساتھ بار بار اعلان کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کے مقدس نام سے عدول، دشمن کے اندر لالچ پیدا کر دے اور ہدف کو مبہم اور غبار آلود بنا دے۔
چوتھے، اسلام اور اسلامی تحریکوں کو ہمیشہ کھلے کفر سے زیادہ نفاق سے نقصان پہنچا ہے۔ آج امریکی اسلام کا خطرہ یعنی جہاں اسلام کے نام اور عنوان سے طاغوتوں کی خدمت اور امریکا اور دیگر سامراجیوں کے اہداف کے لئے کام لیا جائے، اس کا خطرہ فوجی اور سیاسی وسائل سے کمتر نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ امریکی اسلام کے علم برداروں سے چاہے وہ عالم دین کے لباس میں ہوں اور چاہے سیاستدانوں کے حلئے میں، ہوشیار رہیں۔ ان کی گفتگو ، اشاروں اور پالیسیوں پر اعتراض کریں اور ان کی مدد کی کوشش ہرگز نہ کریں۔
پانچویں، دیگر ملکوں میں اسلامی تحریکوں کے تجربات اور ان کی حالت سے بے خبر نہ رہیں اور سامراج کی خواہش کے برخلاف ان سے رابطہ برقرار رکھیں۔
چھٹے آیہ شریفہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا کو جس میں دین سے تمسک اور وحدت کلمہ کی پابندی کی سفارش کی گئی ہے، ہمیشہ یاد رکھیں، دونوں سفارشوں کو اپنا نصب العین قرار دیں اور اس سلسلے میں دشمن کی مکاری سے ہوشیار رہیں۔
ج: عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ عراق اور اس قوم کی مصیبت اور دردناک حالت ہے جو اپنے حکام کی بدنیتی اور غلط اقدامات کی وجہ سے، گھٹن اور آمرانہ حکومت برداشت کرنے اور اس کے بعد کہ دس سال سے اب تک پڑوسیوں کے خلاف غیر عادلانہ جنگ پر مجبور ہوئی، ملک کے حکام کی ابلہانہ فکر اور جاہ طلبی کے نتیجے میں اس کے ہزاروں مرد ، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان بمباریوں اور تخریبی کاروائیوں میں قتل کر دیئے گئے۔ جس نے عزیزوں کا داغ اٹھایا، لوگ زخمی ہوئے، معذور ہوئے، بے گھر ہوئے، اس کی تاریخی اور قومی دولت و ثروت کا بڑا حصہ غارت ہوگیا اور اب وہی حکام جو ان تمام مصیبتوں کا موجب تھے، براہ راست اس قوم کو ختم کر رہے ہیں، بمباری اور کیمیائی اسلحے اور عام تباہی کے دیگر ہتھیاروں سے اس قوم کا قتل عام کر رہے ہیں اور اس کو زندگی سے ناامید کر رہے ہیں۔
جب عراقی فوج نے اس ملک کی حکومت کے سربراہوں کی جاہ طلبی اور لالچ کی تسکین کے لئے کویت پر حملہ اور اس پر قبضہ کر لیا اور امریکا کو خلیج فارس میں اپنی فوج بھیجنے اور اس کے نتیجے میں اپنا منحوس سیاسی اور اقتصادی نفوذ بڑھانے کا نادر موقع دیا اور خلیج فارس کے علاقے کو، عراقی حکومت نے اور اس کے مغربی اتحادیوں، دونوں نے آگ لگادی تو مسلمانوں میں سے کچھ سادہ لوحی میں خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اور شاید کچھ بد خواہی اور سازش کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران سے اصرار کر رہے تھے کہ عراق کی بعثی حکومت کی مدد کرے اور اپنے طور پر جنگ وسیع تر کر دے۔ یہ نظریہ اسلام کے مسلمہ اصولوں کے خلاف تھا جس نے جہاد کو صرف دین خدا کے فروغ یا کمزور اقوام یا اسلامی حکومت کے دفاع کے لئے واجب قرار دیا ہے۔ کسی حملہ آور، جارح، غاصب اور اقتدار پرست حکومت کے دفاع کے لئے نہیں۔ جبکہ بعث پارٹی کا نظریہ دین اور معنویت کے آشکارا اور اعلانیہ انکار پر مبنی ہے۔ اس کا ماضی ظلم، بد عنوانی، گھٹن اور نسل کشی سے پر ہے جس میں عراقی حکومت اپنی مثال آپ ہے، یہ وہ حکومت ہے کہ جس کی سامراجی طاقتوں کی فرمانبرداری اور بے چوں و چرا اطاعت کو ایرانیوں نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران جو سامراج کے کہنے اور اس کے اسلحے اور ہمہ گیر امداد سے اسلامی نظام پر مسلط کی گئی تھی، اچھی طرح دیکھا ہے۔
ایسی حکومت کے دفاع کو اسلام نہ صرف یہ کہ جہاد نہیں سمجھتا بلکہ جائز نہیں مانتا ہے۔ لیکن یہ تجویز پیش کرنے والوں میں سے بعض، عراقی حکام کے موقع پرستانہ اور ریاکارانہ بیانات کے زیر اثر آگئے تھے، جو سادہ لوح لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، ایک مختصر عرصے میں اسلام اور دینی مقدسات کا جھوٹا دم بھرنے لگے تھے۔ بعض سادہ لوح افراد بعثی عراقی حکومت کی بدعنوانی، خباثت اور ظلم کا اعتراف کرتے تھے مگر عراقی قوم کے دفاع کو اپنی اس تجویز کا محرک بتاتے تھے۔ ہم ان سے کہتے تھے کہ مظلوم عراقی عوام کی مدد واجب ہے لیکن جنگ میں شمولیت، عراقی حکومت کے فائدے میں ہے، اس سے اس کا تسلط مستحکم ہوگا عراقی عوام کی کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ یہ عوام مخالف حکومت کی مخالفت اور عراقی عوام کے ساتھ ظلم ہوگا جن پر اس منحوس حکومت نے دس سال سے ایسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کو وہ نا پسند کرتے ہیں۔
اب عراقی حکومت اور عراقی فوج نے امریکا اور اس مغربی اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال کے اور سامراجیوں کی تمام شرائط کو تسلیم کرکے، نامعلوم مدت کے لئے، ناقابل فخر حکومت اور ذلت آمیز اقتدار پر اپنے تسلط کی ضمانت حاصل کرلی ہے۔اس حال میں بھی یہ برسوں سے ظالم و جابر حکومت کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے مظلوم عراقی عوام ہیں جنہیں اس جنگ کے ساتھ ہی، جو حکومت کے سربراہوں کی لالچ اور تسلط پسندی کے باعث ان پر مسلط کی گئی تھی، اس حکومت کی ذلت آمیز شکست کا بھی تاوان ادا کرنا ہے۔
یہ وہ حکومت اور فوج ہے جو بیرونی دشمنوں سے جو ان کے گھر کے اندر داخل ہوگئے تھے، سو گھنٹے سے زیادہ جنگ نہ کر سکی، لیکن اب سو دن سے زیادہ ہو رہے ہیں کہ عراقی قوم کی جان کو آئی ہوئی ہے، ان کے گھروں کو منہدم کر رہی ہے، شہروں پر بمباری کر رہی ہے، مقدس مراکز کی توہین کر رہی ہے، لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر رہی ہے، علماء اور عمائدین کو گرفتار کر رہی ہے اور ان میں بہت سے لوگوں کو وحشیانہ ایذائیں دے رہی اور قوم کا قتل عام کر رہی ہے۔ ملک کے شمالی حصے میں کردوں کا اور جنوبی حصے میں عربوں کا اس طرح قتل عام کیا ہے ، انہیں مارا ہے، دربدر کیا ہے اور انہیں انکے عزیزوں کے غم میں مبتلا کیا ہے کہ حالیہ دور کے کسی بھی معروف مجرم سے بھی ایسے جرائم کے ارتکاب کی بات نہ سنی گئي اور نہ ہی ان کا تصور کیا گيا۔ عراقی عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے جو باضمیر انسان جانوروں کےساتھ بھی نہیں کرتے۔
شمالی عراق کے کردوں کی حالت تو امریکا اور مغربی حکومتوں کی برہمی اور دھمکیوں کے باعث فی الحال کچھ بہتر ہے دیکھتے ہیں کہ بعد میں کیا ہوتا ہے لیکن جنوبی عراق کے شیعوں کی حالت بدستور بد تر ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بغض و کینے کا ہدف ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا عزم پایا جاتا ہے۔ وہ مستقل خطرات میں ہیں، دین مخالف اور نسل کشی کرنے والی حکومت کی جانب سے مستقل مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہیں۔ یہ عراق کی صورتحال کی سادہ سی تصویر ہے۔ ایک مظلوم، ستم رسیدہ، بے یار و مددگار، نہتی قوم انتہائی ظالم حکومت کے مقابلے میں ہے جو تمام اسلامی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے بے اعتنا اور عوام کا خون بہانے اور ان پر ظلم کرنے میں بیباک ہے اور اس قوم کی یا للمسلمین کی فریاد گونج رہی ہے۔ ابھی حالیہ چند دنوں میں لاکھوں مفرور لوگوں کے محاصرے اور ان پر خونیں حملے کے آثار کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو عراقی فوج کے خوف سے بصرہ، عمارہ اور ناصریہ کے درمیان واقع دلدلی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں، ان میں عورتیں بچے اور بیمار افراد بھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سے بہت سے افراد کالرا اور دیگر وبائی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مغربی ملکوں بالخصوص امریکا نے بعض خبریں اور وہ بھی مختصر اور سرسری انداز میں نشر کرنے کے علاوہ کوئي مدد نہیں کی ہے۔ان مظلوموں کی امید صرف خدا اور مسلمان عوام سے وابستہ ہے جو کم سے کم ان اقدامات پر احتجاج کرکے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
د: اس کے بعد کا مسئلہ کشمیری مسلمانوں کی حالت کا ہے۔ہندوستانی حکومت نے حالیہ مہینوں میں اسلامی دنیا کے اہم مسائل میں الجھے رہنے سے، کہ جو سب سے الگ پڑے ہوئے ان مظلوم (کشمیری) بھائیوں کی حالت سے غفلت کا موجب ہوا، کشمیری مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ ان کی جان و مال حتی بعض اطلاعات کے مطابق ان کی عزت و آبرو پر بھی حملے اور غارتگری کا بازار گرم کیا ہے۔ میں اس وقت مسئلہ کشمیر کی ماہیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا اورحالات سے باخبر حضرات جانتے ہیں کہ یہ وہ پرانا زخم ہے جو برطانوی سامراج نے ہندوستان سے مجبور ہوکر نکلتے وقت، برصغیر کے پیکر پر لگایا تھا اور اس طرح ہندوستانی مسلمانوں سے انتقام لیا تھا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہندوستانی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے میں تشدد اور نامناسب وسائل سے کام لیا ہے اور اس بات سے مطمئن ہوکر کہ بڑی حکومتیں اور انسانی حقوق کے دفاع کی دعوےدار تنطیمیں مسلمانوں کا کوئی عملی دفاع نہیں کریں گی، غیر انسانی روشوں سے کام لیا ہے۔
مسلم اقوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیری مسلمانوں کو توقع ہے کہ وہ ان کا دفاع کریں گی اور یہ مسلمانوں کا اسلامی اور برادرانہ فریضہ بھی ہے۔ حکومت ہندوستان اگر سمجھتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پر دباؤ برقرار رکھےگی اور مسلمین عالم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آئے گا تو یقینا غلط سوچتی ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ بعض ملکوں منجملہ یورپی ملکوں میں مسلم اقلیت کا بھی اشارتا ذکر کر دیا جائے کیونکہ ان مسلمانوں پر جو اپنے اسلامی تشخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، پڑنے والا دباؤ اس آزادی اور ڈیموکریسی کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جس کا مغرب مسلسل دم بھرتا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں میں مساجد کی تعمیر یا اسلامی اجتماعات، یا اسلامی لباس وغیرہ کے تعلق سے جو حساسیت پائی جاتی ہے یا اس سلسلے میں لوگوں کو جو اشتعال دلایا جاتاہے، اس سے مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں ان حکومتوں کے حقیقی موقف سے واقف ہو جانا چاہئے۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں مسلمین عالم کو سوچنا چاہئے اور اس سے آج کے دور میں اپنے فریضے کو سمجھنے میں فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ہ: اس دور کا ایک اہم مسئلہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کا مسئلہ ہے۔ البتہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ بعض کلامی اور فقہی مسائل میں اختلاف اور تنازعہ پہلی صدی ہجری سے ہی رہا ہے لیکن اس سلسلے میں نئی بات یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پوری دنیا میں اس کی فکر کے پھیلنے کے بعد اس ہمہ گیر اسلامی لہر کے مقابلے میں سامراج کا ایک ہتھکنڈہ یہ رہا ہے کہ ایک طرف تو اسلامی انقلاب کو، ایک شیعہ تحریک --اسلامی اصطلاح اور عرف عام میں جو شیعہ کا جو مفہوم رائج ہے اس معنی میں نہیں بلکہ فرقہ واریت کے معنی میں--- کے عنوان سے متعارف کرائے اور دوسری طرف شیعہ سنی اختلافات و تفرقہ پھیلانے کی پوری کوشش کرے۔ ہم نے شروع سے ہی، اس شیطانی چال کے پیش نظر ہمیشہ مسلم فرقوں کے اتحاد و وحدت پر اصرار کیا ہے اور اس فتنہ انگیزی کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے اور الحمد للہ خدا کے فضل سے اس سلسلے میں بہت زیادہ کامیابیاں بھی ملی ہیں جن میں سے تازہ ترین کامیابی، عالمی انجمن تقریب مذاہب اسلامی کی تشکیل ہے۔ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں علماء، دانشور، شعرا، قلمکار اور سبھی اسلامی مذاہب کے عام لوگ ایک زبان، ایک جان اور متحد ہوکر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاع کرتے ہیں۔لیکن دشمن پیسے، منصوبہ بندی، پروپیگنڈے اور بے انتہا خباثت سے کام لے رہا ہے اور دنیا میں اس کو کچھ لوگ مل ہی جاتے ہیں جن کے ذہن و زبان پر، وہ لالچ دلاکراور دھوکہ دے کے قبضہ کر لیتا ہے۔ اس لئے کبھی کبھی، کسی ملک میں کوئی سیاستداں یا کسی دوسرے ملک میں کوئی عالم دین کے بھیس میں، یا کوئی انقلابی بن کے شیعوں یا ایرانی قوم کو جو دور حاضر کا عظیم ترین انقلاب لائی ہے اور حیرت انگیز طورپر اس کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہی ہے، برا بھلا کہتا ہے۔ اس کے خلاف زبان اور قلم چلاتا ہے ۔یا نظر آتا ہے کہ مسلمان ملک پاکستان میں جس کی قوم ہماری نظر میں عزیز ترین اقوام میں شمار ہوتی ہے اور جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاع کی اگلی صفوں میں رہی ہے اور اب بھی ہے، کچھ لوگ اسلام اور وحدت مسلمین کے دشمنوں کے ڈالروں کی لالچ میں جلسے منعقد کرکے اور کتاب اور مقالے لکھ کے اہل تشیع اور اہلبیت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے شیعوں پر حملے کرتے ہیں اور ان کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔
ہم ان سب کا ذمہ دار امریکا ، اس کے ساتھیوں اور اس کے زرخریدوں کو سمجھتے ہیں۔ سچے علمائے اسلام اور اقوام کے دامن کو اس سے پاک سمجھتے ہیں۔ یہ ان مسائل میں سے ہے کہ جو مسلمانوں کی ہوشیاری سے حل ہونا چاہئے اور دشمنان اسلام کو غارتگری کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
و: آخری بات، بہت اہم مسئلہ، اسلامی ملکوں کے ذخائر پر بڑے شیطان کا روز افزوں تسلط اور ان ملکوں میں اس کے پہلے سے زیادہ سیاسی اور اقتصادی نفوذ اور فوجی موجودگی کا مسئلہ ہے۔ یہ ظالم اور تسلط پسند بڑی طاقت، دنیا کے حالیہ تغیرات کے بعد جو الحادی کمیونسٹ نظاموں کے خاتمے پر منتج ہوئے اور سوویت یونین امریکا کی رقابت کے میدان سے ہٹ گیا، اس کوشش میں ہے کہ پوری دنیا بالخصوص زرخیز اسلامی علاقوں کواس طرح اپنے تسلط میں لے لے کہ کوئی اس کا مد مقابل نہ رہے ۔امریکا سرد جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اسلامی بیداری کے خلاف جو اس کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہمہ گیر جنگ پر کمر بستہ ہے ۔
یہ شیطانی حکومت اپنی فطرت مخالف اور انسان دشمن خو کی بناء پر اندر سے لاینحل مشکلات سے دوچار ہے لیکن اپنی سامراجی اور غارتگری کی طینت کے تحت کوشش کر رہی ہے کہ اپنی مشکلات کو پوری دنیا میں منتقل کر دے اور دنیا کے تمام اہم مراکز اور دولت و ثروت کے ذخائر منجملہ مشرق وسطی بالخصوص خلیج فارس پر قبضہ کرکے پہلے سے زیادہ طاقتور انداز میں اپنی زندگی جاری رکھے۔ اگر اس کا یہ منحوس خواب پورا ہوگیا تو اس علاقے کی اقوام پر ایسے سخت ایام گزریں گے کہ جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملے گی۔
امریکی حکومت اس شیطانی ہدف کے لئے ہر وسیلے سے کام لے رہی ہے اور افسوس کہ عراقی حکام کی جہالت، غرور، اور اقتدار پرستی نے، جس کے اسباب بھی عراق کے لئے امریکا اور مغرب کی اس سے پہلے کی امداد نے ہی فراہم کئے ہیں، اس علا قے میں ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کے تلخ اور دردناک نتائج سے کم وبیش سبھی واقف ہیں۔ ان نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا اس علاقے کے بڑے حصے کے بارے میں اصلی فیصلہ کرنے والا بن گیا ہے اوراس نے علاقے کی حکومتوں کو مرعوب کر لیا ہے۔ یہ اس علاقے میں اور دنیا کے جس علاقے میں بھی یہ واقعہ رونما ہو وہاں اسلام بلکہ انسانیت کے وجود کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
آج اسلام اور مومن انسانوں کے بجز، اس بڑے خطرے سے نمٹنے کا کوئی نقطہ امید نہیں ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج حیات آفریں خورشید اسلام ایک بار پھر انسانوں کے دل و جاں کو منور کر رہا ہے اور بہت سی مسلم اقوام نے اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کرنے کے لئے، دین خدا سے لوگوں کو دور کرنے والے عوامل کے خلاف جدوجہد شروع کر دی ہے۔ یہ مبارک اور امید افزا تحریک ہے اور توفیق الہی سے یہی تحریک، امریکا اور دیگر باغی طاقتوں کے شیطانی تسلط کی زنجیر توڑے گی اور سب کو نجات دلائےگی۔ کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی (17)
اقوام اور حکومتیں حقیقی محمدی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) اسلام کے رجحان کی نسبت برابر سے جواب دہ ہیں ، جس کا اہم ترین ہدف اقوام کی زندگی سے بڑے شیطان اور دیگر شیاطین کے تسلط اور نفوذ کو ختم کرنا ہے۔اسلامی حکومتیں اگر اپنے ملک اور قوم سے محبت کرتی ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ وہ چیز ہے کہ جو ملکوں اور اقوام کی زندگی، شرف اور خود مختاری اور حکومتوں کی طاقت و اقتدار کی ضامن ہے ۔
خداوندعالم سے دنیا کے تمام مسلمانوں کی بیداری، ان کے عز و شرف، سامراج کے چنگل سے ان کی رہائی اور دشمنان خدا سے مقابلے میں ان کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں ۔
پالنے والے! مسلمین کے دلوں پر اسلام اور قرآن کی ضوفشانی جاری رکھ۔ ان پر اپنا فضل و رحمت نازل فرما، ان کی نصرت فرما، ان کے دلوں کو امید اور ایمان سے استحکام عطا کر، حضرت ولی اللہ الاعظم ( ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے دل کو ہم سے شاد فرما، ہمارے حق میں ان کی دعا کو مستجاب فرما، حجاج کے حج اور تیری راہ میں کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو مقبول فرما، مسلمانوں کے دلوں کو روز بروز نزدیکتر اور تفرقے کے عوامل کو نابود فرما، شہدائے راہ حق کی ارواح اور اس راہ میں قربانیاں دینے والوں کے جسم و جان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند فرما۔ پالنے والے! دنیا میں جو تحریک بھی تیرے دین کی حاکمیت کے لئے انجام پائے اس کی جزائے خیر اپنے صالح اور برگزیدہ بندے حضرت امام خمینی کو عنایت فرما۔ آمین یا رب العالمین۔

والسلام علی جمیع اخواننا المسلمین و رحمت اللہ
علی الحسینی الخامنہ ای
تین ذالحجہ الحرام سن 1411 ہجری قمری مطابق

چھبیس خرداد سن 1370 ہجری شمسی

(سولہ جون 1991 عیسوی )

 

1- سورہ حج ؛ 27 اور 28
2- سورہ توبہ : 3
3- سورہ انبیاء : 92
4- سورہ بقرہ:200
5- سورہ توبہ 3
6- سورہ بقرہ 197
7- سورہ نساء : 141
8- سورہ منافقون : 8
9- سورہ نساء : 75
10- سورہ یوسف: 40
11- سورہ بقرہ : 120
12- سورہ مائدہ:59
13- سورہ ھود: 12
14- سورہ بروج : 8
15- سورہ محمد:35
16- سورہ آل عمران:103
17- سورہ مجادلہ : 21