قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام اپنے پیغام میں بیت اللہ الحرام کی بعض خصوصیات اور اہم صفات کا تذکرہ کیا، آپ نے مسلمانوں میں خود شناسی کی اہمیت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری کی لہر کے نتائج و ثمرات کی بات کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں صیہونی حکومت اور سامراجی محاذ کے اندر پیدا ہونے والی کمزوری کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی امت اسلامیہ کو اس حساس دور میں اس کے اہم فرائض کی جانب متوجہ کرایا۔
پیغام کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ علی سیدنا محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین

شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان و رحیم ہے اور تمام حمد و ستائش اس اللہ سے مخصوص ہے جو تمام عالمین کا پروردگار ہے اور اللہ کی جانب سے صلوات و سلام ہو ہمارے سید وسردار حضرت محمد مصطفی اور ان کی پاکیزہ آل پر اور ان کے منتخب اصحاب پر ۔
کعبہ اتحاد و عزت کا راز، توحید و معنویت کی نشانی ، حج کے موسم میں امید و اشتیاق سے معمور دلوں کا میزبان ہے جو رب جلیل کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے گوشے گوشے سے اسلام کی جائے پیدائش کی سمت دوڑ پڑے ہیں۔ امت اسلامیہ اس وقت اپنی وسعت، تنوع اور دین حنیف کے پیرؤوں کے دلوں پر حکم فرما قوت ایمانی کا خلاصہ اپنے بھیجے ہوئے افراد کی نگاہوں سے، جو دنیا کے چاروں گوشوں سے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں، دیکھ سکتی ہے اور اس عظیم و بے نظیر سرمائے کو صحیح طور پر پہچان سکتی ہے۔
یہ خود شناسی مدد کرتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو آج کل کی دنیا میں اپنے شایان شان مقام کا علم ہوسکے اور ہم اس سمت میں قدم بڑھا سکیں۔
آج کی دنیا میں اسلامی بیداری کی بڑھتی ہوئی لہر وہ حقیقت ہے جو امت اسلامیہ کو ایک اچھے کل کی نوید سنا رہی ہے۔ تین دہائی قبل سے جب اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ یہ قوی و طاقتور موج شروع ہوئی ہے ہماری یہ عظیم امت کسی توقف کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس نے اپنی راہ سے تمام رکاوٹیں برطرف کرکے کئي مورچوں کو فتح کر لیا ہے۔ بڑی طاقتوں کی دشمنیوں اور سازشوں کی گہرائی اور بھاری اخراجات کے ساتھ اسلام کے خلاف ان کی تشہیراتی مہم کی وجہ یہی ترقیاں ہیں۔ اسلامو فوبیا کو ہوا دینے کے لئے دشمن کے وسیع پروپیگنڈے، اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ تعصبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے عجلت پسندانہ اقدامات، اہلسنت کے لئے شیعوں سے اور شیعوں کے لئے اہلسنت سے جھوٹی دشمن تراشیاں، مسلمان حکومتوں کے درمیان تفرقہ اندازی اور اختلافات کو بڑھا وا دیکر اسے دشمنیوں میں تبدیل کرنے اور ناقابل حل تنازعہ بنا دینے کی کوششیں اور نوجوانوں کے درمیان برائی اور بد تہذیبی پھیلانے کے لئے مواصلاتی وسائل اور خفیہ کارکردگی کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے استفادہ یہ تمام کے تمام سراسیمگی اور بد حواسی کے عالم میں سامنے آنے والے ردعمل ، امت مسلمہ کی بیداری اور عزت و آبرو اور آزادی و خود انحصاری کی طرف امت اسلامیہ کی متین و سنجیدہ حرکت اور محکم و استوار اقدامات سے مقابلے کے سبب ہیں۔
آج تیس سال پہلے کے برخلاف ، صیہونی حکومت کوئي ناقابل شکست طاقت نہیں رہ گئی ہے۔ دو دہائی پہلے کے برخلاف امریکہ اور مغرب حکومتیں، اب مشرق وسطی کے سلسلے میں بے چون و چرا فیصلے کرنے والی قوتیں نہیں رہ گئی ہیں، دس سال پہلے کے برخلاف ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوسری پیچیدہ قسم کی ٹیکنالوجیاں علاقے کی مسلمان ملتوں کے لئے دسترسی سے دور کوئی افسانوی چیز شمار نہیں ہوتیں؛ آج ملت فلسطین استقامت کا مظہر ہے۔ ملت لبنان اکیلے ہی صیہونی حکومت کی کھوکلی ہیبت کو چکنا چور کر دینے والی تینتیس روزہ جنگ کی فاتح ہے اور ملت ایران بلند و بالا چوٹیوں کی طرف گامزن و صف شکن قوم ہے۔
آج سامراجی طاقت امریکا! خود کو اسلامی علاقے کا کمانڈر سمجھنے والا، صیہونی حکومت کا اصل پشتپناہ اپنے آپ کو اس دلدل میں گرفتار پارہا ہے جسے اس نے خود افغانستان میں تیار کیا ہے۔ امریکا عراق میں ان تمام جرائم کے باعث جو اس نے اس ملک کے لوگوں کے خلاف انجام دئے ہیں، یک و تنہا ہوکر رہ گيا ہے۔ مسائل کے شکار پاکستان میں اسے ہمیشہ سے زيادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آج اسلام مخالف مورچہ جو دو صدیوں تک اسلامی ملتوں اور حکومتوں پر ظالمانہ انداز میں حکم چلاتا آ رہا تھا اور ان کے ذخیروں کو لوٹ کھسوٹ رہا تھا اپنے اثر و رسوخ کے زوال کے ساتھ اپنے خلاف مسلمان ملتوں کی دلیرانہ مزاحمت واستقامت کا شاہد اور نظارہ گر ہے۔
اس کے بالمقابل اسلامی بیداری کی تحریک روز بروز زیادہ گہری ہوتی اور پھیلتی جارہی ہے۔ ان امید افزا اور نوید بخش حالات میں مسلمان ملتوں کو چاہئے کہ ایک طرف تو ہمیشہ سے زيادہ مطمئن ہوکر اپنے مطلوبہ مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں اور دوسری طرف اپنی عبرتوں اور تجربات کی بنا پر ہمیشہ ہوشیار و خبردار رہیں ؛ یہ عمومی خطاب بلاشبہ دوسروں سے زيادہ علمائے کرام، سیاسی لیڈران، روشن فکر حضرات اور نوجوانوں کو فرض شناسی کی دعوت دیتا ہے اور ان سے مجاہدت اور پیش قدمی کا تقاضہ کرتا ہے ۔
قرآن کریم آج بھی بالکل واضح الفاظ میں ہم سے مخاطب ہے :
کنتم خیر امّۃ اخرجت للنّاس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ ( آل عمران/ 110)
(تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے نمایاں کیا گیا ہے، تم لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو )
اس عزت آفریں خطاب میں امت اسلامیہ کو پوری بشریت کے لئے (سودمند) ایک حقیقت قرار دیا گيا ہے اور اس امت کے معرض وجود میں آنے کا مقصد، انسان کی نجات اور انسانیت کی بھلائي ہے۔ ان کا ایک بڑا فریضہ بھی اچھائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اور خدا پر پکا ایمان رکھنا ہے۔ بڑی شیطانی طاقتوں کے چنگلوں سے ملتوں کو نجات دلانے سے بڑھ کرکوئی حسنہ نہیں ہے اور بڑی طاقتوں کی غلامی اور ان پر انحصار سے بدتر کوئی برائی نہیں ہے۔ آج فلسطینی قوم اور غزہ میں محصور کر دئے جانے والوں کی امداد، افغانستان، پاکستان، عراق، اور کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی، امریکہ اور صیہونی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مجاہدت اور استقامت، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کی پاسبانی اور اس اتحاد کو چوٹ پہنچانے والی بکی ہوئي زبانوں اور کثیف و آلودہ ہاتھوں سے پیکار اور تمام اسلامی حلقوں میں مسلمان نوجوانوں کے درمیان احساس ذمہ داری اور دینداری و بیداری کی ترویج و فروغ، بہت بڑے فرائض ہیں جو قوم کے ذمہ دار افراد کے دوش پر ہیں۔
حج کا پرشکوہ منظر، ان فرائض کی انجام دہی کے لئے زمین ہموار ہونے کی نشان دہی کرتا اور ہم کو دوہرے عزم اور دوہری سعی و کوشش کی دعوت دیتا ہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی حسینی خامنہ ای
یکم ذی الحجۃ الحرام 1431 ہجری
17/8/1389
(8 / 11 / 2010)