قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے سے متعلق کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے آئين کے آرٹیکل 110 کے تحت مشاورتی ادارے تشخیص مصلحت نظام کونسل سے مشاورت کے بعد یہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔
مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہوں کے نام جاری کئے جانے والے اس نوٹیفکیشن کا متن حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سائنس و ٹکنالوجی (اعلی تعلیمی نظام، ٹکنالوجی اور تحقیقات) سے متعلق کلی پالیسیاں:
1- دنیا میں علم و ٹکنالوجی کے میدان میں ایک مرجع کی حیثیت حاصل کرنے کے مقصد سے مربوط مساعی اور اس کے لئے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر توجہ:
الف: نئی سائنسی تحقیقات و ایجادات کے دائرے میں توسیع اور نظریہ پردازی
ب: سائںس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ملک کے عالمی مقام و منزلت کا ارتقاء اور ایران کو عالم اسلام میں سائنس و ٹکنالوجی کے محور میں تبدیل کرنا۔
ج: بیسک سائنسز اور بنیادی تحقیقات کے دائرے کی توسیع
د: ہیومن سائنسز یا بشریات کے شعبے کا ارتقاء اور بنیادی تبدیلی، بالخصوص دینی تعلیمات اور اسلامی انقلاب کی فکری بنیادوں کی شناخت میں گہرائی پیدا کرنا اور اس مقصد کے لئے ان علوم کے مقام و منزلت کو تقویت پہنچانا، با استعداد اور دلچسپی رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کرنا، متون، تعلیمی روش اور پرو گراموں پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح اور متعلقہ تحقیقاتی مراکز کی فعالیت میں مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے توسیع۔
ہ: خصوصی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے ذریعے جدید سائنس و ٹکنالوجی تک رسائی حاصل کرنا
2- علمی شکوفائی اور سند چشم انداز سے موسوم ترقیاتی منصوبے کے اہداف تک رسائی کے لئے ملک کے تعلیمی اور تحقیقاتی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے افادی پہلوؤں میں اضافہ اور اس کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ:
الف: علم و تحقیقات کا صحیح مینیجمنٹ، سائںس و ٹکنالوجی کے میدان میں پالیسی سازی، منصوبہ بندی اور اسٹریٹیجک نگرانی کے درمیان مکمل ہم آہنگی، ارتقائی عمل کی نشاندہی کرنے والی علامات میں مسلسل بہتری اور علاقائی و عالمی سطح پر رونما ہونے والے تغیرات کے مد نظر ملک کے جامع علمی روڈ میپ کی جدیدکاری
ب: طلبہ کے داخلے کے نظام میں اصلاح، سبجیکٹ کے انتخاب میں طلبہ کی استعداد اور دلچسپی پر خاص توجہ، ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ۔
ج: سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں نگرانی، درجہ بندی، تشخیص اور (evaluation) کے نظام کی تقویت
د: علم و سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے سے متعلق جامع اور کارآمد قومی شماریاتی نظام کو منظم بنانا
ھ: سائنس و ٹکنالوجی پارکوں اور کامپلیکسوں کی تشکیل کی حمایت
و: ملک بھر میں اعلی تعلیم و تحقیق سے متعلق مواقع اور وسائل کی منصفانہ تقسیم
ز: ممتاز صلاحیت رکھنے والے افراد کی نشاندہی، درخشاں صلاحیتوں کی پرورش اور افرادی سرمائے کی حفاظت اور صحیح استعمال
ح: سنہ 1404 ہجری شمسی کے اختتام (مارچ 2026 ) تک سائنسی تحقیقاتی امور کا بجٹ قومی پیداوار کے چار فیصدی کی سطح تک پہنچانا اور اس کے ساتھ ہی بجٹ کے صحیح استعمال اور اسے ثمر بخش بنانے پر تاکید
3- اعلی تعلیمی نظام، تحقیقات اور ٹکنالوجی کے شعبے میں اسلامی اقدار، اصولوں اور اخلاقیات کی بلادستی اور اسلامی یونیورسٹی کو عملی شکل دینا اور اس کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر تاکید:
الف: اسلامی تعلیم و تربیت کے نطام پر توجہ، تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ تربیتی مسائل پر توجہ، متعلمین کی فکری و ذہنی سلامتی کے ارتقاء اور ان کے سیاسی شعور و رغبت پر توجہ۔
ب: اسلام پر عقیدہ رکھنے والے، اخلاقی خوبیوں سے آراستہ، اسلامی احکامات پر عمل پیرا، اسلامی انقلاب سے لگاؤ رکھنے والے اور ملکی ترقی کی فکر میں رہنے والے اساتذہ اور طلبہ کی تربیت
ج: سائنس و ٹکنالوجی کے استعمال کے مواقع پر اسلامی احکامات اور سماجی و ثقافتی اقدار کی پابندی
4- قومی عزم و ارادے کی تقویت اور سائنس و ٹکنالوجی کے فروغ کی اہمیت کے تعلق سے سماجی فہم و ادراک میں اضافہ:
الف:ملک کے اندر علمی تحریک اور نئی سائنسی ایجادات کے ماحول کی تقویت و فروغ
ب: امید و نشاط، خود اعتمادی، منظم اختراعی فکر، علمی شجاعت، اجتماعی طور پر کام کرنے کے جذبات اور فرض شناسی کے جذبے کی تقویت۔
ج: نظریہ پردازی اور رایزنی کے لئے پلیٹ فارم تیار کرنا، نالج بیسڈ روزگار کی ثقافت کو فروغ دینا، افکار و خیالات کا تبادلہ اور علمی میدان میں فکری آزادی و خود انحصاری۔
د: اساتذہ، محققین اور موجدین کے معیشتی حالات کو بہتر بنانا اور تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کی فراہمی۔
ھ: مسلمانوں اور ایران کی علمی و ثقافتی تاریخ کا احیاء اور سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کی کامیاب ہستیوں اور شخصیات کو نمونہ عمل کی حیثیت سے متعارف کرانا۔
و: اختراعی و تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے ممتازین نیز سائنس و ٹکنالوجی سے متعلق سرگرمیوں کی بامقصد مادی و معنوی حمایت و مدد۔
5- اعلی تعلیم، ریسرچ اور ٹکنالوجی کے نظام کے دیگر شعبوں سے رابطے کی نوعیت میں تبدیلی لانا اور اس کے لئے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر تاکید:
الف: قومی معیشت اور آمدنی میں سائنس و ٹکنالوجی کے حصے میں اضافہ، قومی توانائی اور اس کی بارآوری میں توسیع۔
ب: آئیڈیا اور منصوبے کو مصنوعات کے مرحلے تک پہنچانے کے عمل کی مادی و معنوی حمایت، پیشرفتہ ٹکنالوجی اور داخلی توانائیوں پر مبنی مصنوعات اور خدمات میں اضافہ اور اسے قومی پیداوار کے پچاس فیصدی حصے تک پہنچانے کی کوشش۔
ج: دینی تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے مابین رابطے کو مستحکم بنانا اور دائمی اسٹریٹیجک تعاون کو فروغ دینا۔
د: تعلیم اور روزگار کے مابین دوطرفہ رابطہ قائم کرنا اور تعلیمی موضوعات اور ان کی سطح کو ملک کے جامع علمی روڈمیپ اور پیداوار اور روزگار کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنا۔
ھ: ملک کی ضرورتوں، توانائیوں اور خصوصیات کے مد نظر نیز علاقے میں سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے سب سے بلند مقام تک رسائی کے تقاضوں کے تحت، تعلیم و تحقیق کے شعبے کی ترجیحات کا تعین۔
و: فکری و معنوی مالکانہ حیثیت کی حمایت اور اس کے لئے مقدمات، قوانین اور ضوابط کی تکمیل۔
ز: سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نجی سیکٹر کی شراکت و کردار میں اضافہ اور اس میدان میں اوقاف اور فلاحی شعبے کے تعاون میں توسیع
ح: قومی و بین الاقوامی یونیورسٹیوں، علمی مراکز، دانشوروں اور سائنسدانوں کے درمیان اور ملکی و غیر ملکی ٹکنالوجی ڈیولپمنٹ مراکز کے درمیان رابطے کے نیٹ ورک کی تقویت و توسیع اور حکومتی و عوامی اداروں کی سطح پر تعاون میں اضافہ اور اس سلسلے میں اسلامی ممالک کو خاص ترجیح دینا
6- سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں دیگر ممالک، معتبر علاقائی و بین الاقوامی بالخصوص عالم اسلام کے سائنسی مراکز کے ساتھ ملکی خود مختاری و خود انحصاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے فعال، تعمیری اور حوصلہ بخش تعاون اور اس کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر تاکید:
الف: جدید سائنس و ٹکنالوجی پر استوار صنعتوں اور سرویسز کی توسیع، نالج بیسڈ اور داخلی ٹکنالوجی پر مبنی کمپنیوں کی مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات کی حمایت اور اس ضمن میں ملک کے ایکسپورٹ اور امپورٹ کے امور میں اصلاحات انجام دینا۔
ب: ملک کے اندر امپورٹڈ مصنوعات کے بازار کی صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے داخلی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مصنوعات کی پیداوار کے سلسلے میں متعلقہ ٹکنالوجی اور ڈیزائننگ اور پروڈکشن کے علم کو حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا۔
ج: بیرون ملک مقیم ایرانیوں کی علمی و فنی صلاحیتوں سے استفادہ اور حسب ضرورت دیگر ممالک بالخصوص اسلامی ملکوں کے ممتاز ماہرین اور محققین کی خدمات حاصل کرنا۔
د: ایران کو دیگر ممالک بالخصوص اسلامی ملکوں کے مفکرین اور سائنسدانوں کے ریسرچ پیپرز کے اندراج اور تحقیقی نتائج سے استفادے کے مرکز میں تبدیل کرنا۔