پہلا باب: حضرت عیسی مسیح علیہ السلام

عظیم پیغمبر
عظیم نبی خدا، حضرت عیسی علیہ السلام
حضرت مریم انسانوں کے لئے نمونہ عمل
پاکیزگی کا نمونہ حضرت مریم
عیسی ابن مریم علیھما السلام کی روداد کی خصوصیات
ہدایت کا علمبردار
نجات دہندہ
خوشبختی کی دعوت
حضرت عیسی مسیح کی ولادت

دوسرا باب: اسلام و عیسائیت

ایک عیسائی حاکم، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قدر شناسی
اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ عبادتیں
حضرت عیسی مسیح کے حکمت آمیز بیان
اسلام اور عیسائيت کے اشتراکات
آزادی کے سلسلے میں اسلام و عیسائیت کا مشترکہ نظریہ
انصاف اور مظلوموں کی حمایت کے علمبردار
اللہ تعالی سے رابطہ انسانی زندگی کی ضرورت
روحانیت و معنویت الہی ادیان کا نقطہ اشتراک
اسلام و عیسائیت کے ما بین ٹکراؤ
رحمت و عطوفت کا دین

تیسرا باب: عصر جدید میں مسیحیت

حضرت مسیح ہمارے درمیان
سامراج کے نفوذ اور دراندازی کا اہم طریقہ
دینی معرفت کا اختتام، سائنسی معرفت کا آغاز
عیسائيت سے بے بہرہ لوگ
معنویت و اخلاقیات کی مخالفت
دنیا میں نا انصافیوں سے کلیسا کی بے اعتنائی
حضرت مسیح کی تعلیمات سے دوری کے عواقب
جھوٹا دعوی

چوتھا باب: اسلامی جمہوریہ ایران اور مسیحی اقلیت

عیسائی معاشرے پر ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات
ایران میں مختلف مذاہب کی پر امن بقائے باہمی
عیسائی ہم وطن
انسیت اور قربت کا احساس

عیسائیت


پہلا باب: حضرت عیسی مسیح علیہ السلام

عظیم پیغمبر

مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح کی قدر و منزلت عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی نظر میں ان کی قدر و منزلت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس عظیم پیغمبر نے لوگوں کے درمیان اپنا پورا وقت جد و جہد کرتے ہوئے گزارا تا کہ ظلم و جارحیت، بد عنوانی و فساد اور ان لوگوں کا مقابلہ کریں جو دولت و طاقت کے ذریعے قوموں کو زنجیروں میں جکڑ کر دنیا و آخرت کے جہنم میں گھسیٹتے ہیں۔ اس عظیم پیغمبر نے بچپن سے ہی، چونکہ وہ بچپن میں ہی منصب نبوت پر فائز ہو گئے تھے، اسی راہ سارے رنج و الم میں برداشت کئے۔

ٹاپ

عظیم نبی خدا، حضرت عیسی علیہ السلام

عیسائیوں کی طرح مسلمان بھی حضرت عیسی کو عظیم نبی خدا مانتے ہیں۔ یہودی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت موسی صرف ہمارے ہیں اور کسی دوسرے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ دنیا کے سارے عیسائی حضرت موسی سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی انہیں مانتے ہیں۔ حضرت عیسی کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے کہ آپ صرف عیسائيوں کے نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں سے بھی آپ کا تعلق ہے۔ ایران کی مسلمان قوم اس عظیم ہستی سے عقیدت رکھتی ہے اور آپ کو بہت محترم سمجھتی ہے۔ ایران میں آشوری عیسائی ہوں یا ارومیہ اور شمالی علاقوں کے عیسائی، یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسائیت کا مرکز یہی (ایران) تھا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی کا مرکز یہیں تھا اور عیسائیت در حقیقت یہیں سے پھیلی ہے، ہو سکتا ہے کہ تاریخی لحاظ سے ان کی بات درست بھی ہو۔

ٹاپ

حضرت مریم انسانوں کے لئے نمونہ عمل

قرآن مجید جب صاحب ایمان افراد کی مثال دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے مردوں کی مثال پیش نہیں کرتا بلکہ عورتوں کی مثال لاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ممتاز خواتین نہیں بلکہ ممتاز شخصیت کے حامل با ایمان انسانوں کی مثال دو عورتوں کی شکل میں پیش کی ہے۔ یعنی انسانیت اور روحانی کمال کے میدان میں جب اللہ تعالی کوئی ممتاز نمونہ پیش کرنا چاہتا ہے تو علمی و مذہبی شخصیات، بڑی ہستیوں اور پیغمبروں کی بات نہیں کرتا بلکہ دو عورتوں کی بات کرتا ہے۔ ان دو عورتوں میں ایک زوجہ فرعون ہیں اور دوسری عورت مادر عیسی و دختر عمران حضرت مریم ہیں۔ مریم کم عمر لڑکی ہیں جو تہمتوں اور شہر و علاقے کے لوگوں کی بد گمانی سے آلودہ نگاہوں کا سامنا کرتی ہیں اور کلمہ خدا (حضرت عیسی) کو جنہیں اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کے پاک و پاکیزہ دامن میں رکھ دیا تھا، اپنے ہاتھوں پر بلند کرتی ہیں اور اس وقت کی تاریک دنیا میں اپنے فرزند کو منارہ نور بناکر پیش کرتی ہیں۔

ٹاپ

پاکیزگی کا نمونہ حضرت مریم

قرآن میں حضرت مریم کے واقعے میں ایک نکتہ ہے جس کی جانب میری توجہ بار بار مرکوز ہوتی ہے۔ مسلمان اپنے بیانوں اور تحریروں میں حضرت مریم کو پاکیزگی و طہارت کے مظہر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک مکمل طور پر پاک و پاکیزہ خاتون، قرآن مجید میں کئی مقام پر آیا ہے : و مریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا حضرت مریم کی عفت و طہارت اور دامن کی پاکيزگی کی حفاظت پر بڑی تاکید نظر آتی ہے۔ اس وقت حالات کیا تھے؟ میری نظر میں یہ بہت اہم چیز ہے۔ عبادت گاہ کے اندر ایک بچی کی ولادت ہوتی ہے اور وہ اپنی نوجوانی تک وہیں رہتی ہے۔ کون سے ایسے عوامل اور جذبات تھے کہ حضرت مریم نے ایک غیر معمولی انسانی قوت کے ساتھ اپنے پورے وجود سے جن کا مقابلہ کیا اور قرآن نے فرمایا: واحصنت فرجھا انہوں نے اپنا دامن پاک و پاکیزہ رکھا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ سب کے لئے درس ہے۔

 انتہائی حساس حالات میں حضرت مریم نے اپنی اس استقامت و پائیداری اور طہارت و پاکدامنی کے ذریعے بہت گہرے اثرات چھوڑے اور تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ یہی چیز قرآن میں ایک نوجوان مرد حضرت یوسف کے بارے میں ملتی ہے۔

ٹاپ

عیسی ابن مریم علیھما السلام کی روداد کی خصوصیات

میں نے جب بھی سورہ مریم کی تلاوت کی یا سنی، نوجوانی سے اب تک یہی سلسلہ ہے کہ میری حالت دگرگوں ہو گئی۔ کیونکہ یہ بہت ہی غیر معمولی روداد ہے۔ جس جگہ پر، جس زمانے میں، جن حالات اور صورت حال میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا ماجرا پیش آیا اور معاشرے اور تاریخ کے جس دور میں یہ واقعہ ہوا اگر ان ساری باتوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ واقعہ اتنا عظیم محسوس ہوتا ہے کہ اس کی توصیف نا ممکن لگتی ہے۔ سوائے اس کے کہ فن کی زبان اختیار کی جائے۔

 یہ واقعہ بے حد نادر اور بے مثال واقعات میں سے ہے۔ حضرت مریم کا کردار، حضرت زکریا کا کردار، اس وقت کے سماجی حالات، وجود انسانی اور ذہن انسانی کے افق پر درخشاں سورج کا طلوع ہونا کہ جسے حضرت عیسی کی تعلیمات کہا جاتا ہے ( ان حقائق) اور اس بات پر توجہ کہ حضرت عیسی کی تعلیمات اور حضرت مریم کی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی یہ (حضرت عیسی کی تعلیمات) تسلسل ہے انہی (حضرت مریم کی تعلیمات) کا۔ بہت سی تعلیمات تو بعینہ دہرا دی گئی ہیں۔ لیکن جب اس زمانے میں انہیں پیش کیا گيا تو چونکہ حضرت موسی علیہ السلام کے پیروکار تحریف کی وجہ سے (ان حقائق سے) اتنے دور ہو گئے تھے کہ انہیں یہ (تعلیمات) کفر آمیز اور بالکل نئی محسوس ہوئیں۔ جبکہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہی تھا۔ لہجہ اور انداز وہی حضرت موسی والا تھا۔ اس واقعے میں تحریفوں کے اثرات، بڑی طاقتوں کے کردار، کج فہمی اور خود غرضی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ٹاپ

ہدایت کا علمبردار

کلمۃ اللہ (حضرت عیسی مسیح) نے جہل و گمرہی، ظلم و نا انصافی، انسانی اقدار سے بے اعتنائی کے دور میں انسانوں کی ہدایت و نجات کا پرچم اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور ستمگر طاقتوں کے خلاف قیام فرمایا اور عدل و رحمت و وحدانیت کے پرچار کے لئے کمر ہمت کسی۔ اس عظیم پیغمبر پر ایمان رکھنے والے یعنی عیسائی اور مسلمان شائستہ عالمی نظام کی تشکیل کے لئے پیغمبروں کے راستے اور تعلیمات کی جانب توجہ دیں اور انسانیت کے ان معلمین کی تعلیمات کے مطابق انسانی فضائل کو (دنیا میں) عام کریں۔

ٹاپ

نجات دہندہ

معجزے اور دعوت الہی سے آراستہ حضرت عیسی مسیح کو شرک و کفر، ظلم و ستم اور جہل و نادانی کی ظلمتوں سے انسایت کو نجات دلانے اور اسے عدل و معرفت و بندگی پروردگار کی نوارنی وادی تک پہنچانے کی غرض سے مبعوث کیا گيا۔ آپ نے انسانوں کے درمیان اپنی موجودگی کا ایک اک لمحہ برائیوں سے لڑنے اور نیکی کی دعوت دینے میں گزارا۔ یہ ایک اہم ترین درس ہے جس پر اس الہی ہستی پر عقیدہ رکھنے والے عیسائیوں اور مسلمانوں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج انسانیت کو ہمیشہ سے بڑھ کر ان تعلیمات کی ضرورت ہے۔ اسلام جو عیسائی مسلک کی تکمیل کے لئے آیا ہے خیر و صلاح و کمال کی دعوت کو اپنے مشن کے ترجیحی نکات میں قرار دیتا ہے۔ گمراہی کے راستے پر چل پڑنے والا انسان قدرت کی بیکراں توانائيوں اور وسائل کے سہارے ان اہداف کی مخالف سمت میں قدم بڑھا رہا ہے اور نتیجے میں الہی ادیان کے پیروکاروں کی ذمہ داریاں اور زیادہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ دنیا کی تسلط پسند حکومتیں جو عیسائيت کے نام پر اور مسیحیت کی آڑ میں مادیت میں ڈوبی ہوئی ہیں جن کو حضرت مسیح کی تعلیمات و سیرت سے واقفیت تک نہیں ہے، قوموں اور مظلوم افراد پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور ان پر کسی بھی طرح کا ظلم کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔

ٹاپ

خوشبختی کی دعوت

اللہ تعالی کے اس برگزیدہ پیغمبر نے لوگوں کو الہی راستے پر آنے کی دعوت دی جو انسانوں کی خوشبختی کا راستہ ہے۔ انہیں ہوا و ہوس کی پیروی کرنے اور پاکیزہ روح انسانی کو بد کرداری اور ظلم و ستم کی آلودگیوں میں پڑنے سے روکنے کی کوشش کی۔ گمراہ و بد عنوان طاقتوں اور دولت و طاقت کے پرستاروں نے اس پیغمبر الہی کو تہمتوں اور ایذاؤں کا نشانہ بنایا اور ان کی جان لے لینے کی سازش رچی۔ جب اللہ تعالی نے انہیں اپنے حفظ و امان میں لے لیا تو ان کے حواریوں اور پیروکاروں کو برسہا برس تک ہولناک ایذاؤں اور شکنجوں سے گزارا جاتا رہا تاکہ ظلم و ستم، شرک و کفر، ہوا و ہوس، جنگ و جدل اور فریب و خداع کی مخالف آپ کی تعلیمات کو مٹا دیا جائے۔ جو لوگ خود ظالم، ہوس میں غرق، جنگ پسند اور فریبی تھے وہ دین خدا، پیغمبر خدا اور راہ خدا کے پیروکاوں کو کیسے برداشت کر سکتے تھے؟!

ٹاپ

حضرت عیسی مسیح کی ولادت

سیکڑوں سال سے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ولادت کی اہمیت و ارزش کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہ تاریخ کا ایک حساس اور فیصلہ کن موڑ اور ایک نیا باب ثابت ہوئی ہے۔ یعنی تاریخ ایک ڈھرے پر چلی جا رہی تھی لیکن اس موڑ پر پہنچ کر اس کا رخ بدل گیا۔ یہ ایک نئی سمت اور نئی جہت دینے والا موڑ ثابت ہوا۔

 ہم ہر سال حضرت مسیح علیہ الصلاۃ و السلام کی ولادت کی مناسبت سے اپنے مسیحی ہم وطنوں اور دنیا کے عیسائيوں کو مبارکباد کا پیغام دیتے ہیں لیکن چونکہ ایران میں رہنے والے بیشتر عیسائیوں کے نظرئے کے مطابق حضرت مسیح کی ولادت پچیس دسمبر کو نہیں بلکہ جنوری کے پہلے عشرے میں ہوئی، آرمینین عیسائیوں کا یہی نظریہ ہے، لہذا ہم اس (پچیس دسمبر کے) موقع پر مبارکباد نہیں دیتے۔ ہم انتظار کرتے ہیں اور جنوری کا آغاز ہو جانے کے بعد مبارکباد دیتے ہیں تاکہ ہمارے عیسائی ہم وطنوں کے نظرئے کے مطابق ہو۔

 حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت کی سالگرہ دنیا بھر کے عیسائیوں اور تمام مسلمانان عالم کو مبارک ہو۔ یہ دس دن حضرت مسیح کی ولادت کے ایام شمار ہوتے ہیں۔ سارے مسلمان اور عیسائی اس عظیم ہستی کی سیرت پر چلنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح کی صحیح شناخت حاصل کریں اور ان کے راستے پر چلیں۔

ٹاپ

دوسرا باب: اسلام و عیسائیت

ایک عیسائی حاکم، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قدر شناسی

ایک روایت میں آیا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی جانب سے ایک وفد رسول اللہ کی خدمت میں مدینہ پہنچا تاکہ پیغام پہنچائے۔ جیسا کہ حکومتوں کے درمیان یہ چیز (آج بھی) رائج ہے۔ نجاشی، ملک حبشہ کا بادشاہ تھا اور اس وقت دنیا کے دیگر امراء اور سلاطین کی مانند عیسائی مذہب کا ماننے والا تھا۔ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو وفد میں شامل لوگوں نے دیکھا کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے اٹھے اور بنفس نفیس وفد کی آؤ بھگت میں مصروف ہو گئے۔ اصحاب نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم موجود ہیں، آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ یہ کام ہم کریں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، جب مسلمانوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو وہاں کے بادشاہ نے ان مسلمانوں کا بہت زیادہ احترام کیا تھا، میں یہ قرض چکانا چاہتا ہوں، یہ قدر شناسی ہے۔

ٹاپ

اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ عبادتیں

کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم ہمیں معلوم ہے کہ نماز و زکات امت مسلمہ سے مختص نہیں ہے بلکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل بھی پیغمبروں نے نماز و زکات کو اپنی تعلیمات میں سر فہرست رکھا۔ اوصانی بالصلاۃ و الزکاۃ ما دمت حیا یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا قول نقل کیا گيا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے مجھےنماز اور زکات کی وصیت (ہدایت) کی ہے۔ قرآن کی دوسری آيتوں میں بھی یہ چیز ملتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: روزہ بھی نماز و زکات کی مانند ان احکام میں شامل ہے جو امت اسلامیہ سے مختص نہیں ہیں بلکہ سابقہ امتوں اور پیغمبروں کو بھی اس کا حکم دیا گيا تھا۔

ٹاپ

حضرت عیسی مسیح کے حکمت آمیز بیان

اہل بیت علیھم السلام سے منقول روایات میں سے کچھ ایسی ہیں جن میں حضرت عیسی مسیح کے اقوال کا بھی تذکرہ ہے۔ روایات کا یہ حصہ احادیث کی تمام کتابوں میں موجود ہے اور یہ مسلمانوں کی انتہائی اہم روایات شمار ہوتی ہیں۔ یہ اقوال بے حد حکیمانہ ہیں۔ عیسائيوں کا بھی یہ دعوی نہیں ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے اقوال صرف وہی ہیں جو انجیل میں موجود ہیں۔ اس وقت دستیاب انجیلوں کے علاوہ بھی انجیلیں تھیں اور بہت ممکن ہے کہ اسلامی روایتوں میں جو اقوال مذکور ہیں ضائع ہو جانے والی انجیلوں میں موجود رہے ہوں۔ بہرحال جو اقوال ائمہ اسلام کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں عیسائيوں کو چاہئے کہ اسے معتبر سمجھیں، انہیں حاصل کریں اور ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ عمل مختلف ادیان کے ماننے والوں کی ایک دوسرے سے قربت کا باعث بنے۔ مسلمان حضرت عیسی مسیح کے پیغام کے ایک حصے کا تحفہ پوری انسانیت کو پیش کر سکتے ہیں۔ اسلامی روایتوں میں حضرت عیسی مسیح کے جو اقوال منقول ہیں وہ انتہائی حکیمانہ اور اعلی مضامین کے حامل ہیں۔ میں نے ماضی میں انجیلوں کا بہت مطالعہ کیا ہے۔ انہیں دستیاب انجیلوں -عیسائيوں کی چار انجیلوں- میں بڑی حکمت آمیز باتیں موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مسلمان موجودہ انجیلوں کے مجموعے کو قبول نہیں کرتے لیکن حکمت آمیز باتیں تو انسان تسلیم کرتا ہی ہے۔

ٹاپ

اسلام اور عیسائيت کے اشتراکات

نوجوانوں کو مذہب کے قریب لانے اور معاشرے میں اس کی ترویج کی فکر بالکل صحیح فکر ہے۔ دین ایک الہی عطیہ ہے جو معاشرہ بھی اپنے افراد کا رشتہ اس عطیئے سے مضبوط و مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے نیکیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ البتہ نوجوانوں سے پیش آنے کا مرحلہ بڑا نازک ہوتا ہے تاہم اس کا نتیجہ بہت اچھا نکلتا ہے۔

 اسلام و عیسائیت اور تمام الہی ادیان کے درمیان بہت سے اشتراکات پائے جاتے ہیں۔ دو فریقی یا چند فریقی کانفرنسوں میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے ما بین جو گفتگو ہوتی اس کے ذریعے ان اشتراکات کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔ ان گفتگوؤں کا ہدف کسی ایک مذہب کی حقانیت اور دوسرے مذہب کے بطلان کا اثبات نہیں ہے۔ مقصد اشتراکات تلاش کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اشتراکات زندگی کے انتہائی اہم ترین امور پر مشتمل ہیں۔

ٹاپ

آزادی کے سلسلے میں اسلام و عیسائیت کا مشترکہ نظریہ

انسان کی آزادی و حریت کا مسئلہ ہمیشہ سے بشریت کی فکرمندی کا موجب رہا ہے۔ یہ آزادی کیا ہے اور اس کی حدیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ اس ضمن میں مذاہب نے بڑی اہم باتیں بیان کی ہیں۔ اس وقت جو موضوعات اسلام اور عیسائيت دونوں کے لئے مورد التفات و اعتناء قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک یہی موضوع ہے۔ آج ہم اس سلسلے میں اعتدال کے فقدان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ حصوں میں مطلق العنان حکومتوں اور مرئی و نا مرئی نفوذ و دباؤ کے باعث عوام کی آزادی چھن جاتی ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں انسانوں کو بے تحاشا آزادی دے دی جاتی ہے جسے آزادی نہیں بلکہ بے لگام زندگی کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ادیان کی نظر میں ان دونوں ہی چیزوں کو انحراف قرار دیا گيا ہے۔

 اسلام اور عیسائیت دونوں ہی مذاہب نے ان دونوں چیزوں کے بارے میں تقریبا یکساں رخ اختیار کیا ہے۔ موجودہ دور میں جن لوگوں کو نوجوان نسل اور انسانیت کے مستقبل و تقدیر سے دلچسپی ہے ان کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ دنیا میں روز افزوں فساد و بد عنوانی اور بے راہروی کا مقابلہ کریں۔ بالخصوص عیسائی نظام کا، جو یورپ میں موجود ہے، اس سلسلے میں بڑا سنگین فریضہ ہے۔ کچھ ہاتھوں نے بڑی تشویشناک صورت میں انحراف و فساد کی ترویج کر دی ہے۔ بہت مناسب ہوگا کہ کلیسا بالخصوص کیتھولک کلیسا اپنے وسیع دائرے اور نفوذ کا استعمال کرتے ہوئے اس مشکل کا جو نئی نہیں ہے سنجیدگی کے ساتھ منطقی طریقوں سے حل نکالے۔ اگر یورپ میں عیسائی مذہبی نظام، فساد و گمراہی کا سنجیدگی سے مقابلہ کرے تو بہت سے غیر یورپی ممالک کے لوگ بھی آپ کے ممنون کرم اور احسانمند ہوں گے کیونکہ فساد و گمراہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلتی جا رہی ہے۔

ٹاپ

انصاف اور مظلوموں کی حمایت کے علمبردار

اگر انصاف اور مظلوموں کے دفاع کے لئے مذہب میدان میں آ جائے تو بڑی اچھی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ دنیا میں ہر جگہ نوجوان انصاف پسندی کی تحریک دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ انصاف کا تعلق ادیان سے ہے۔ انسانیت کی دنیا میں انصاف کی راہ کی عظیم ہستیاں وہی دینی ہستیاں تھیں۔ حضرت عیسی مسیح نے اپنی پوری زندگی انصاف کی ترویج میں صرف کر دی۔ پیغمبر اسلامی نے عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی جد و جہد میں گذاری۔ عیسائیت کی برگزیدہ شخصیتوں نے صدر عیسائيت میں کیسی فداکاری و جاں نثاری کی؟! قرآن ہو، انجیل ہو یا توریت سبھی دینی کتابیں انصاف پسندی اور اس کے لئے جد و جہد کی ترغیب سے بھری پڑی ہیں۔ آج اگر یہی موضوعات دینی علما خواہ وہ عیسائی علما ہوں یا مسلمان علما، ان کا نعرہ بن جائیں تو یقینا ان میں کشش پیدا ہوگی۔ یہودی بھی جو توریت کے پابند ہیں عدل و انصاف پر زور دیں البتہ میں صیہونیوں کو نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ کسی چیز کے پابند نہیں ہیں۔

ٹاپ

اللہ تعالی سے رابطہ انسانی زندگی کی ضرورت

انسان اللہ تعالی سے رابطے کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کا ثبوت اشتراکی معاشرے ہیں۔ جب سابق سوویت یونین میں ملحد مارکسسٹ نظام کی طاقت کا زوال ہوا لوگ کلیساؤں کی جانب دوڑ پڑے۔ (ارباب کمیونزم) یہ سمجھ رہے تھے کہ ستر سالہ تبلیغ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر عوام کے اوپر سے جبر و اکراہ ہٹا لیا جائے گا تب بھی وہ کلیسا کا رخ نہیں کریں گے، یہی ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ ستر سال گزر جانے کے بعد (جیسے ہی دباؤ ہٹا) عوام کلیساؤں کی جانب ٹوٹ پڑے۔ آج اگر آپ روس یا مشرقی یورپ کے ممالک میں جائیے تو کلیساؤں میں بڑی بھیڑ دیکھیں گے۔ پولینڈ کے عوام کا مارکسسٹوں کے خلاف قیام بنیادی طور پر ایک دینی و عیسائی قیام تھا۔

ٹاپ

روحانیت و معنویت الہی ادیان کا نقطہ اشتراک

ادیان الہی میں آپس میں بہت سی چيزوں میں فرق ہے لیکن ان میں اشتراکات بھی موجود ہیں۔ ادیان کا ایک اہم ترین نقطہ اشتراک روحانیت و معنویت پر توجہ ہے۔ وہ حقیقت جو ادیان کی جانب سے انسانوں کے لئے ہمیشہ پہلا پیغام رہی ہے۔ ادیان نے انسانوں کو بتایا کہ جو کچھ ان کی آنکھیں دیکھتی ہیں، کان سنتے ہیں اور جسم محسوس کرتا ہے، انہی چیزوں تک محدود نہ رہیں۔ ادیان نے انہیں متوجہ کیا کہ ایک ایسی بھی حقیقت ہے جو ان کے محسوسات و مسموعات اور مشاہدات سے بہت عظیم اور بالاتر ہے۔

 آج دنیا میں معنویت و روحانیت کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن دنیا کا جو عام ماحول ہے وہ دوسری سمت میں جا رہا ہے۔ جو لوگ دین کے ماننے والے ہیں اگر وہ اس غفلت و گمراہی کو دور کرنے میں تھوڑی بہت بھی کامیابی حاصل کریں تو یہ بہت عظیم خدمت ہوگی۔ یہ اسلام اور عیسائیت کا نقطہ اشتراک ہے۔ مختلف ادیان کے علما سے گفتگو اس نقطے پر زیادہ مرکوز ہوتی ہے۔

 سچے مذاہب نے کبھی بھی یہ نہیں کیا کہ انسانوں کو دنیوی کاموں سے بالکل الگ کر دیں ہاں انہیں یہ ضرور سمجھایا کہ یہ (دنیوی) کوششیں ایک اعلی روحانی مقام و منزلت تک رسائی کا وسیلہ بن سکتی ہیں اس طرح انہیں ایک حقیقت تابندہ کی جانب متوجہ کیا۔ اس حقیقت سے انسانوں کی غفلت ان کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگی۔ یہ ایسا خسارہ ہوگا جس کا کسی بھی دوسرے خسارے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج بشر بڑی شدت سے اس غفلت کا شکار ہے۔ مادی دنیا کی وسیع سرگرمیوں نے انسان کو پوری طرح غفلت میں ڈال دیا ہے۔

ٹاپ

اسلام و عیسائیت کے ما بین ٹکراؤ

اسلام و عیسائیت کے ما بین ٹکراؤ ہے اور نہ پیش آئے گا۔ اگر اسلام اور عیسائیت کے ٹکراؤ سے مراد ان حکومتوں کا ٹکراؤ ہے جن میں عیسائی اور مسلمان ہیں تو کہنا پڑے گا کہ یہ ٹکراؤ دو عیسائی حکومتوں کے ٹکراؤ سے بڑا نہیں ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ دنیا میں جنگ پسندی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ان ستر برسوں میں خود عیسائي دنیا میں دو بار جنگیں ہوئیں جس کی لپیٹ میں مسلمان بھی آئے۔

 ایران کا اسلامی نظام اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ یہ اتحاد عیسائیوں کے خلاف ہے نہ دیگر ادیان اور اقوام کے خلاف بلکہ جارحوں، قابضوں اور جنگ پسندوں کے مقابلے کے لئے، اخلاقیات و روحانیت کی ترویج کے لئے، عقل و منطق اور اسلامی عدل و انصاف کے احیاء کے لئے، علمی و اقتصادی ترقی کے لئے اور اسلامی وقار کی بازیابی کے لئے ہے۔ ایران کا اسلامی نظام دنیا والوں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں جب بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا عیسائی و یہودی چین و سکون کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن اب جب بیت المقدس اور دیگر مراکز صیہونیوں یا صلیبی صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہیں تو مسلمانوں کا خون بہانا کیونکر جائز ہو گیا ہے؟!

ٹاپ

رحمت و عطوفت کا دین

اسلام دیگر ادیان کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام تو وہ دین ہے جو غیر مسلم علاقوں میں پہنچا تو دیگر ادیان کے پیروکاروں نے اسلامی رحمدلی کے قصیدے پڑھے اور برجستہ کہا کہ آپ (مسلمان حکام) تے ہمارے سابق حکام سے زیادہ ہمدرد اور مہربان ہیں۔ اسی شامات کے علاقے میں جب اسلامی فاتح پہنچے تو خطے کے یہودیوں اور عیسائیوں نے اعتراف کیا کہ آپ مسلمانوں نے ہم سے ہمدردی کا برتاؤ کیا۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ رحمدلی کا برتاؤ کیا۔ اسلام رحمدلی و عطوفت کا مذہب ہے، دین رحمت ہے، رحمۃ للعالمین ہے۔ اسلام عیسائیوں سے بھی کہتا ہے: تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ان کے ساتھ اپنے اشتراکات پر توجہ دیتا ہے۔ اسلام دیگر قوموں کے خلاف نہیں ہے، دیگر مذاہب کا مخالف نہیں ہے۔ جبر پسندی اور ظلم و استبداد کا مخالف ہے۔ سامراج کا مخالف ہے، تسلط پسندی کا مخالف ہے۔ تسلط پسند، ظالم اور سامراجی طاقتیں اس حقیقت کو دنیا میں برعکس شکل میں پیش کرتی ہیں۔ وہ تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں۔ ہالیوڈ سے لیکر ابلاغیاتی وسائل، اسلحے اور افواج تک استعمال کرتی ہیں تاکہ اس حقیقت کو بر عکس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔

ٹاپ

تیسرا باب: عصر جدید میں مسیحیت

حضرت مسیح ہمارے درمیان

آج اگر حضرت عیسی مسیح علیہ السلام ہمارے درمیان ہوتے تو عالمی سارمراجیوں اور ارباب ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذار نہ کرتے۔ آپ اربوں انسانوں کی بھکمری و سرگردانی کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کی جنگ، بد عنوانی اور تشدد پسندی کی نذر ہو گئے ہیں۔

ٹاپ

سامراج کے نفوذ اور دراندازی کا اہم طریقہ

سامراج اور اس کے ہمنواؤں کا ایک بنیادی طریقہ یہ رہا ہے کہ عوام کے دلوں سے امید اور جد و جہد کا جذبہ ختم کر دیں۔ انہوں نے بارہا اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ سامراج نے ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام میں اس سمت میں بڑی کوششیں کی ہیں تاکہ یہ چراغ بجھ جائے۔ کئی سال پرانی ایک انتہائی اہم رپورٹ میں عیسائي مشنریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کی تفصیلات دکھائی گئی تھیں جو یورپ سے شمالی افریقا بھیجے جاتے تھے اور وہاں جاکر سامراج کے لئے راہ ہموار کرتے تھے۔ افریقا کے کچھ علاقوں اور دور دراز کے خطوں میں کچھ پادری گئے اور وہ وہاں برسوں موجود رہے۔ انہوں نے یہ کام کیوں کیا؟ افریقی قبائل کو عیسائی بنانے کا مقصد کیا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ وہ سامراج کا ہراول دستہ تھا۔ انہوں نے جاکر لوگوں کو عیسائی بنایا تاکہ سامراجی عناصر وہاں جاکر اپنا کام انجام دے سکیں۔ پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ وہ کس لئے محنت کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ انہیں اس کا اندازہ نہ ہو۔ لیکن آپ غور کیجئے کہ انہوں نے اسی ہدف کے لئے کتنی مشقتیں کیں۔ ایسی مشقتیں کہ جن کی تلافی پیسے سے ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر کوئی شخص جاکر آدم خوروں کے قریب کے علاقے میں سات سال گزار دے! انسان ان چیزوں کو تو بس کتابوں میں پڑھتا ہے، رپورٹوں میں دیکھتا ہے، بعض فلموں اور ناولوں میں اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ مجھے اس کی اطلاع ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس سامراجی دور میں کیا کیا ہوا ہے۔

 دنیا کے دینداروں کی فکرمندی کی ایک بڑی بات یہ ہے کہ عیسائي مملکتوں پر حکمفرما طاقتوں نے دنیا میں بظاہر عیسائیت کے پرچار کو سامراجی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنا لیا اور اس ذریعے سے سامراج کی راہ ہموار کی گئی۔ مشنریوں کو عیسائيت کی تبلیغ کے لئے بھیجا گيا جو بظاہر تو عیسائيت کی تبلیغ کرتے تھے لیکن اس کا باطنی پہلو یہ تھا کہ یورپ کے سامراجیوں کے لئے راستہ کھولا جاتا تھا اور یورپ کے مختلف ممالک سے لوگ اسلامی ممالک میں پہنچتے تھے اور سیاسی شعبے پر قابض ہو جاتے تھے۔ دنیا کے ہر گوشے میں یہ لوگ بھیجے گئے اور بد قسمتی سے بہت سی جگہوں پر کامیاب بھی ہو گئے۔

ٹاپ

دینی معرفت کا اختتام، سائنسی معرفت کا آغاز

عیسائی یورپ میں علمی و سائنسی تحریک کا آغاز دینی معرفت کے زوال و اختتام کے ہمراہ دکھائی دیا۔ یعنی اس نئے مرحلے کے آغاز کو اس (دینی معرفت) کے مرحلے کے اختتام کے طور پر لیا گيا۔ شاید حقیقت بھی یہی تھی کیونکہ عیسائی معاشرے میں معرفت در حقیقت خرافات، تعصب اور علم و دانش کی مخالفت سےعبارت تھی۔ وہ زمانہ جب یورپ میں سائنسداں کو کسی نئی سانئسی دریاف کے جرم میں جیل میں ڈال دیا جاتا تھا، کوڑے لگائے جاتے تھے یا آگ میں جلا دیا جاتا تھا، ہمارے آج کے زمانے سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ صدیوں تک یہ ہوا کہ سائنسدانوں کو جادوگر کہہ کر آگ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ مغربی ادب اور علم و دانش کی تاریخ میں اس چیز کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب معاشرے کی مذہبی فضا اور معاشرے کے دینی امور کے عمائدین علم و دانش کے بارے میں یہ رخ اختیار کریں گے تو فطری اور بدیہی سی بات ہے کہ ان سماجی حالات میں علم و دانش کو پنپنے کا موقع مل گیا تو وہ دین اور دینی معرفت کو بد ترین انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے گا اور یہ فضا پوری طرح نابود ہو جائے گی۔ یہ بالکل واضح سی بات ہے۔

 البتہ جس دین کی مخالفت یورپ کے روشن خیال طبقے کی جانب سے کی گئی وہ انسانی زندگی کے لئے سازگار نہیں تھا، خرافاتوں سے بھرا ہوا دین تھا۔ یہ وہی دین تھا جس نے گیلیلیو کو سزائے موت سنائی اور کسی اور کو ایذا رسانی کا نشانہ بنایا صرف اس جرم میں کہ اس نے نئی ایجاد کی تھی۔ یہ حقیقی عیسائی مذہب نہیں تھا، یہ تو تحریف شدہ عیسائیت تھی۔ ایسے دین سے خود کو جدا کر لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ قباحت علم و سیاست، نظام زندگی اور ذاتی و سماجی تعلقات سے روحانیت و اخلاقیات کو جدا کر دینے میں ہے۔

ٹاپ

عیسائيت سے بے بہرہ لوگ

اب تو کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ صلیبی عزائم نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے دلکش پردے میں اکثر یا تمام مغربی طاقتوں کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ تصور کرنا سادہ لوحی ہوگی کہ بوسنیا میں ( صربیہ کے مسیحی چھاپہ ماروں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کی جانب اشارہ ہے) اور دیگر مقامات پر بربریت آمیز جذبات کا سرچشمہ عیسائیت پر ایمان تھا۔ یہ لوگ آج اسلام کی ہر علامت اور ہر متحرک مسلمان نبض کے جانی دشمن ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام اور عیسائیت کی تعلیمات پر ان کا کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ وہ تو فقط بے لگام طاقت، مفادات، ہوا و ہوس اور ان کی ظالمانہ طاقت کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو نابود کر دینے پر عقیدہ و ایمان رکھتے ہیں، کسی بھی دوسری چیز پر نہیں! لیکن ان کے خون آلود ہاتھوں نے آج اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کو صف آرا کر دیا ہے اور اسلام کے مقابلے میں دشمنی کا پرچم لہرایا ہے۔

ٹاپ

معنویت و اخلاقیات کی مخالفت

ان اوصاف ( دنیا پرست اور روحانیت سے گریز اں) والی فضا میں ایران کا اسلامی جمہوری نظام روحانیت کو اپنی اساس قرار دیکر معرض وجود میں آیا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ایسے نظام کا اسلامی یا مسیحی ہونا دوسرے درجے کا سوال ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ معنویت و روحانیت کی مخالفت اور بے اعتنائی، جو دنیا کے تمام فیصلوں پر غالب تھی حتی دنیا کے دینی رہنما بھی اسی سمت میں بڑھ رہے تھے، اس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ دینی رہنما تک دین سے بے اعتنائی کی جانب بڑھنے لگے تھے۔ فرض کیجئے کہ کلیسا کو کچھ اس طرح آراستہ کیا جائے اور اس کے پروگراموں کو اس انداز سے تیار کیا جائے کہ نوجوان نسل اس کی جانب متوجہ ہو، خواہ اس کے لئے کلیسا کی نگرانی میں رقص کا پروگرام ہی کیوں نہ رکھنا پڑے وہ بھی کلیسا کے جوار میں! کیا دنیا کا کوئی بھی عیسائی یہ سوچ سکتا ہے کہ کلیسا کے ذمہ داران ایسا کام کریں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ سکتی ہے؟!

دنیائے عرب کے ایک معروف مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک رات کلیسا کے رقص کے پروگرام میں ایک پادری اسٹیج پر آیا۔ نوجوان جوڑے رقص میں مصروف تھے۔ اس نے نظر دوڑائی کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے یا نہیں؟ شاید فوکس زیادہ تھا اس لئے اس نے لائٹوں کو صحیح کیا تاکہ اسٹیج پر روشنی تھوڑی کم ہو جائے۔ پھر وہ کلیسا کے خادم کی جانب مڑا اور اس سے کہنے لگا کہ جب سارے لوگ چلے جائیں تو دروازوں کو بند کر دینا۔ اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے بیڈ روم کی جانب چل پڑا۔

عرب مصنف آگے لکھتا ہے کہ اس شب کے ایک یا دو دن بعد میں پادری کے پاس گیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ فادر! لگتا ہے حالات دگرگوں ہو گئے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ ہماری حکمت عملی ہے جوانوں کو کلیسا کی جانب لانے کی! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کتنے جوان کلیسا میں آئے تھے؟!

اسی کو دینی رہنماؤں کے حلقے کی سطح پر روحانیت و معنویت سے جدائی کہا جاتا ہے۔ وہ مذہبی رہنما تو عیسائی تھا لیکن اس کی مثال اسلام کے دینی رہنماؤں میں بشمول شیعہ و سنی آپ کو مل جائے گی۔

تاریخ کے ایک ایسے موڑ اور ایسے ماحول میں اچانک ایک عظیم واقعہ رونما ہوتا ہے اور معنویت و روحانیت کی اساس پر ایک نظام معرض وجود میں آ جاتا ہے۔ اس نظام نے دین و معنویت کو متن زندگی میں لاکر رکھ دیا اور اپنی حکومت، جنگ، بجٹ اور سیاست سب کو اسی معنویت و روحانیت کے معیار پر قائم کیا۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ایسے نظام کا معرض وجود میں آنا دنیا میں، کچھ محدود مدت کی حکومتوں کے چھوڑ کر، بے نظیر ہے۔ البتہ دینی حکومت ایک خاص مفہوم کے ساتھ دنیا کے کچھ حصوں میں قائم تو ہوئی ہے اور زیادہ تر عیسائی دنیا میں۔ لیکن ایران کا اسلامی نظام اس سے مختلف ہے۔ وہ حکومتیں در حقیقت دینی رہنماؤں کی حکومتیں تھیں دینی و روحانی اقدار کی نہیں۔

ٹاپ

دنیا میں نا انصافیوں سے کلیسا کی بے اعتنائی

اس وقت انسانوں کے اہم ترین امور کے سلسلے میں بھی عیسائیت لا تعلقی کا مظارہ کر رہی ہے۔ آج عالمی سطح پر نا انصافی موجود ہے، عیسائيت اس کے سد باب کے لئے کیا کر رہی ہے؟ امن و آشتی کا دم تو بھرتی ہے! انسانوں کے لئے امن و آشتی کا نعرہ بہت اچھا نعرہ ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ امن کے نعرے کے ساتھ ہی انصاف و مساوات کا نعرہ بھی ہونا چاہئے۔ آج انسانیت نا انصافی کا شکار ہے۔ کچھ بڑی طاقتیں ہیں جو قوموں اور انسانیت پر ظلم کر رہی ہیں۔

یورپیوں نے خود وسیع جنگوں کا آغاز کیا اور پھر امن و آشتی کا نعرہ لگانا شروع کر دیا! اب تو دسیوں سال ہوئے کہ یہ جنگیں ختم ہو گئیں لیکن امن و آشتی کا نعرہ اب بھی ان کا لقلقہ زبانی بنا ہوا ہے! حالانکہ اس وقت انسانیت کو سب سے زیادہ انصاف و مساوات کے نعرے کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی یہ نعرہ زبان پر نہیں لاتے، عیسائیت اور پوپ بھی لا تعلقی کے ساتھ حالات کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایران کا اسلامی نظام مغرب اور مغربی سامراج کے سلسلے میں ارباب کلیسا کے موقف سے بالکل متفق نہیں ہے۔ ان کا فریضہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں نے پوپ کو بھی پیغام بھیجا تھا کہ آپ انصاف کو بنیاد قرار دیجئے۔ آج ادیان کا سب سے اہم پیغام عدل و انصاف کا قیام ہے جیسا کہ حضرت موسی، حضرت عیسی اور پیغمبر اسلام کا بھی بنیادی ترین پیغام بھی یہی تھا۔

ٹاپ

حضرت مسیح کی تعلیمات سے دوری کے عواقب

یورپیوں میں کم لیکن امریکیوں میں دین، دینی روایات، دینی ناموں، دینی یادگاروں اور کلیسا کی جانب رجحان زیادہ ہے۔ تاہم دین کے سلسلے میں ان کا نظریہ بالکل سطحی اور عامیانہ ہے اور وہ دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کو اس میں کوئی تضاد محسوس نہیں ہوتا کہ حضرت عیسی اور حضرت مریم کو وسیلہ بنا کر کوئی حاجت طلب کریں، دعا مانگیں اور اس کے ساتھ ہی ایسے دسیوں کام انجام دیں جو عیسائیت کی رو سے بھی بڑے گناہ شمار ہوتے ہیں۔ ان کی مناجات اور استغاثوں میں عقل و منطق کا دخل نہیں ہوتا۔ عیسائیت کی بنیاد، جیسا کے مشہور ہے، صلح و محبت پر رکھی گئی ہے لیکن آپ دیکھئے! اسی مغرب میں سب سے زیادہ جنگیں، بے مہری، تیرگی، خیانتیں، انسانوں کا قتل عام اور جرائم نظر آتے ہیں اور اس سب کے ساتھ ہی ساتھ عیسائیت کا عقیدہ بھی ہے! بدیہی ہے کہ کارو بار زندگی کی بنیاد دین سے جدائي پر رکھی گئی ہے۔ خود انہی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نشے کی لعنت کا شکار ہونے والوں کا سن مسلسل نیچے آ رہا ہے- یعنی کبھی اٹھارہ سالہ (لڑکے لڑکیاں) اس میں مبتلا ہوتے تھے، بعد میں پندرہ سالہ (لڑکے لڑکیاں) اس میں مبتلا ہونے لگے اور اب تیرہ سالہ (لڑکے لڑکیاں) اس میں مبتلا ہو رہے ہیں- اسی انداز سے گھربار، کنبہ و خاندان اور ما باپ سے بے اعتنائی و لا تعلقی اور جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب (دین سے) جدائی کے عواقب و نتائج ہیں۔ ایسی انسانیت کا تصور کیا جا سکتا ہے جو ایٹم کی عظیم طاقت کو دریافت کر لے لیکن اس سے کوئی بھی مہلک اور تخریبی کام نہ کرے۔ جن لوگوں کے پاس یہ ٹکنالوجی ہے اگر وہ اخلاقی و مذہبی اصولوں پر عقیدہ رکھتے ہوں اور با ایمان افراد ہوں تو یہی صورت حال رہے گی۔ لیکن چونکہ وہ ایسے نہیں تھے تو قوموں پر کیا افتاد پڑی! ایٹم بم کی ایجاد اور استعمال کو کئی عشروں کا وقت گزر چکا ہے لیکن باخبر افراد پر آج بھی دنیا میں ایٹم بم کی موجودگی کا خوف طاری ہے جو آگے چل کر اور بھی بڑھے گا۔

کچھ عرصہ قبل ایک عیسائی ادارے نے اعداد و شمار جاری کئے کہ اس گزشتہ صدی میں سب سے زیادہ عیسائی قتل کئے گئے۔ میں یہ اعداد و شمار جاری کرنے والے سے یہ سوال کرنا چاہتا تھا کہ ان عیسائیوں کو کس نے قتل کیا؟ کیا مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا قتل ہوا؟ بودھ مذہب کے پیروکاروں نے انہیں مارا؟ یا وہ خود عیسائیوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے؟! پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں یورپ کے لوگ کس کے ہاتھوں قتل کئے گئے؟ خود عیسائیوں نے عیسائیوں کو مارا۔ خود یورپیوں نے خود مغربیوں نے انہیں نابود کیا اور ساتھ ہی بہت سے غیر عیسائی اور غیر یورپی انسان بھی تلف ہو گئے۔ روحانیت و معنویت سے دوری انسانوں کے لئے ایسے بھیانک عواقب کا باعث بنتی ہے۔ ایران کا اسلامی نظام دنیا میں ایک نمونہ نسل پیش کرنا چاہتا ہے جو عملی طور پر یہ ثابت کر دے کہ علم و دانش کی راہ پر چل کر اس (علم و دانش) کو حاصل کیا جا سکتا ہے، عالم وجود اور خود انسانوں کے اندر موجود الہی عطیات سے بنحو احسن مستفید ہوا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی اخلاقی و دینی اقدار اور اصولوں کا پابند بھی رہا جا سکتاہے۔

ٹاپ

جھوٹا دعوی

آج بہت سے ایسے افراد جو حضرت عیسی مسیح کا پیروکار ہونے کا دم بھرتے ہیں، ایسے راستے پر چل رہے ہیں جو حضرت مسیح کا راستہ نہیں ہے۔ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام نے بندگی پروردگار اور فرعونیت و طغیان کی مخالفت کا درس دیا ہے۔ آج بہت سے لوگ اس عظیم پیغمبر کی پیروی کے دعوے کے ساتھ فرعونوں اور طاغوتی طاقتوں کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں جن سے حضرت عیسی ابن مریم بر سر پیکار رہتے تھے۔

طاقتور لوگ عیسائیت کا نام لیتے ہیں اور بظاہر ان کے درمیان عیسائی عقیدے کی بھی باتیں ہوتی ہیں لیکن سامراجی دنیا پر حکمفرما سیاسی نظام میں اس عیسائیت کا کوئی نام و نشان نہیں ہے جو دین الہی اور اخلاقی منشور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس وقت علم و سائنس ان افراد کے پاس ہے جنہیں انسانیت چھوکر بھی نہیں گزری ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کا استعمال ان اہداف کے لئے ہو رہا ہے جو سراسر انسانی معاشرے کے نقصان میں اور سرمایہ داروں اور دولتمندوں کے مفادات سے وابستہ ہیں۔

ٹاپ

چوتھا باب: اسلامی جمہوریہ ایران اور مسیحی اقلیت

عیسائی معاشرے پر ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات

ہمارے انقلاب نے مسلمانوں کو ہی اسلام کی جانب متوجہ نہیں کیا بلکہ خود عیسائیوں کے حق میں بھی اچھا ہوا۔ جو ممالک برسہا برس سے اپنے دین یعنی عیسائیت سے دور ہو گئے تھے وہ دین و معنویت کی جانب لوٹ آئے۔ یہی چیز مشرقی شہنشاہیت کے خاتمے اور دنیا میں مارکسسٹ حکومت کی تشکیل کا مقدمہ بنی۔ یہ واقعہ کتنا عجیب ہے اور اس کے پہلو کتنے زیادہ اور وسیع ہیں؟!

اسلامی جمہوریہ کی بے مثال پوزیشن کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایسی دنیا میں سر اٹھایا جس کی بنیادی مادی طاقت مادہ پرست عناصر کے ہاتھوں میں ہے اور جو روحانی، دینی اور اخلاقی تعلیمات اور اقدار کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔

ٹاپ

ایران میں مختلف مذاہب کی پر امن بقائے باہمی

ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے تحت خوش قسمتی سے گوناگوں مسلکوں کے لئے پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہودی، عیسائی، زرتشتی، یہ سارے لوگ اسلامی نظام کے زیر سایہ مسلمانوں کے ساتھ پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، وہ نطام کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ ان کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ اسی طرح ایرانی شہری ہونے کی حیثیت سے ان کے تعلق سے اسلامی حکومت کے بھی کچھ فرائض ہیں جسے حکومت کو انجام دینا چاہئے۔ اسلامی نظام کو اپنی مذہبی اقلیتوں سے کسی قسم کا کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے۔ جب اسلامی جمہوریہ کے خلاف دشمنوں کا پروپیگنڈہ موذیانہ شکل اختیار کر لیتا ہے تو ایران کے یہودی بھی اس کے خلاف بیان جاری کرتے ہیں۔ دوسرا ایک قضیہ در پیش ہوا تو آرمینین اور دیگر عیسائی قومیتوں نے اعلانیہ جاری کیا اور اسلامی جمہوریہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے افتخارات ہیں۔

ٹاپ

عیسائی ہم وطن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس بات پر کہ ملک میں ہمارے عیسائی ہم وطن چین و سکون اور خوشی و مسرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس بات پر کہ وہ اپنے دیگر ہم وطنوں کے درمیان موجود ہیں اور اپنے کاموں میں مصروف ہیں ہمیں خوشی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی اقلیتیں بشمول عیسائی، یہودی اور زرتشتی سب یہ محسوس کریں کہ یہاں انہیں امن و آسائش اور جملہ شہری حقوق حاصل ہیں۔ بحمد اللہ یہ ہدف پورا چکا ہے اور آپ خود اس کے شاہد ہیں۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ایران کے آرمینین عیسائیوں نے فنی و تکنیکی امداد اور تعاون میں بہت اہم کردار ادا کیا کیونکہ تہران اور دیگر مقامات پر آرمینین عیسائی تکنیکی کاموں میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ میں انقلاب سے قبل بھی آرمینین عیسائیوں کے کاموں سے بخوبی آشنائی رکھتا تھا اور مجھے علم تھا کہ گاڑیوں اور ان کے پرزوں کے بارے میں انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔ جنگ کے ایام میں بھی انہوں نے آکر ہم سے کہا کہ ہم اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان لوگوں نے انیس سو اسی – اکاسی میں اہواز جاکر ایک کیمپ لگایا۔ میں نے اس کیمپ کا نزدیک سے معائنہ بھی کیا۔ ایک بار ہم لوگ تہران سے اہواز جا رہے تھے، دیکھا کہ تقریبا سو آرمینین آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم محاذ جنگ پر جانا چاہتے ہیں ہمیں بھی محاذ پر لے چلئے۔ ان لوگوں کو ہوائی جہاز پر سوار کرکے محاذ پر پہنچایا گیا۔ تہران کے بعض آرمینین اور آشوری عیسائی خاندانوں سے جن کے جوان محاذ جنگ پر شہید ہوئے ہیں ذاتی اور نزدیکی آشنائی رکھتا ہوں اور میں ان کے گھر بھی گيا ہوں۔ میں ان کے احساسات و جذبات کی پاکیزگی سے آگاہ ہوں۔

خدا وند عالم آپ سب کو اور اسی طرح ہم کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے لطف و رحمت اور ہدایت و رہنمائی کی نعمت سے بہرہ مند کرے۔ ہماری جانب سے سال نو اور حضرت عیسی مسیح کے یوم ولادت کی مبارکباد اپنے آرمینین احباب تک پہنچائیے۔ اللہ آپ سب کو کامیابی عطا کرے۔

ٹاپ

انسیت اور قربت کا احساس

مجھے ایران کے آرمینین عیسائیوں سے خاص محبت اور انسیت ہے۔ ہم عیسائیوں کو دوست رکھتے ہیں۔ انقلاب اور دفاع کے دوران آرمینین عیسائیوں نے ہماری بڑی مدد کی۔ آپ نے ان چیزوں کو سنا ہوگا لیکن میں نے تو نزدیک سے دیکھا ہے۔ میں نے میدان جنگ اور محاذوں پر بہت سے آرمینین عیسائیوں کو دیکھا ہے جو شدید بمباریوں اور توپخانے کی گولہ باری میں صداقت و اخلاص کے ساتھ ہماری مدد کر رہے تھے۔ یہ سپاہی نہیں بلکہ عام شہری اور رضاکار تھے۔

ہم مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھائیوں جیسا اور دوستانہ برتاؤ کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا ہے اور ہمارے دین اور اسلام کا پیروکار نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم اس کےگھر جاتے ہیں۔ میں تو برسوں سے نئے عیسوی سال کی مناسبت سے مسیحی شہدا کے گھر جاتا ہوں۔ سامنے والا آشوری یا آرمینین عیسائی ہے لیکن ہم اس کے گھر جاتے ہیں۔ اس کے بچوں، جوانوں اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، ان سے گفتگو ہوتی ہے ان کے ساتھ بیٹھ کر ہم مٹھائیاں کھاتے ہیں۔

ٹاپ