مسئلہ فلسطین

فلسطین کی تاریخ اور اس پر تسلط حاصل کرنے کے طریقہ کار کا اصل ماجرا کیا ہے؟ اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودیوں کے ایک گروہ کو یہ سوجھی کہ یہودیوں کےلئے ایک الگ ملک کا وجود ضروری ہے۔ ان کی اس فکر سے برطانیہ نے استفادہ کیا اور اسے اپنے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہودیوں کی خواہش تھی کہ وہ یوگانڈا کی طرف جائیں اور اسے اپنا وطن قرار دیں اسی طرح کچھ عرصہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کو بھی انہوں نے اپنا خیالی ملک بنائے رکھا۔ اس کےلئے وہ اٹلی گئے اور وہاں کے عہدہ داروں سے بھی مذاکرات کئے کیونکہ طرابلس اس وقت اٹلی کے زیر تسلط تھا لیکن اٹلی نے انہیں مثبت جواب نہ دیا۔ سرانجام وہ برطانیہ سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مشرق وسطی میں اس وقت برطانوی حکمرانوں کے کئی استعماری مقاصد تھے انہوں نے دیکھا کہ کیا ہی اچھا ہے کہ یہ لوگ اس خطہ میں آجائیں لیکن ان کے آنے کا کا طریقہ کار یہ ہو کہ پہلے اقلیت کی حیثیت سے داخل ہوں پھر دھیرے دھیرے انکا دائرہ اختیار وسیع ہو جائے اور وہ اس علاقہ کے حساس مقامات پر قابض ہو جائیں کیونکہ فلسطین دنیا کے حساس نقطہ پر واقع ہے۔ پھر وہ یہاں پر حکومت بنا کر برطانیہ کے اتحادی بن جائیں اور دنیائے اسلام بالخصوص دنیائے عرب کو اس خطہ میں متحد ہونے سے روک رکھیں۔ یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہےکہ اگر اس خطہ کے لوگ بیدار ہوتے تو دشمن کے ارادوں کو بھانپ کر آپس میں متحد ہو جاتے لیکن دشمن نے بیرونی امداد، جاسوسی اور دوسرے مختلف ذرائع سے اختلاف ایجاد کیا۔ کسی کو اپنا قرب دیا تو کسی کو نشانہ بنایا،کسی کو پسپا کیا تو کسی پر شدت پسندانہ حملہ۔ برطانیہ کی مدد اور تعاون اور دوسرے ممالک کی بے دریغ حمایت پہلے مرحلہ پر تھی اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے برطانیہ سے علیحدہ ہو کر امریکہ سے جاملے اور امریکہ نے آج تک انہیں اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ یوں وہ ایک ملک کو معرض وجود میں لائے اور فلسطین پر قابض ہوگئے ان کے قبضہ کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے مرحلہ میں انہوں نے جنگ و جدال نہیں کیا بلکہ مکاری کے ذریعہ داخل ہوئے اور فلسطینی کسانوں سے زمین کا بہت بڑا رقبہ اس کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ داموں پر خریدا۔ وہ سرسبز وشاداب کھیت جن پر عرب کسان زراعت کرتے تھے ان کے اصلی مالکوں سے جو یورپ اور امریکہ میں مقیم تھے مہنگے داموں خرید لئے گئے۔ مالکان زمین بھی یہی چاہتے تھے کہ ان زمینوں کو فروخت کریں البتہ یہاں دلالوں اور ایجنٹوں کے کردار کی بھی خاص اہمیت ہے جن میں سے ایک ایجنٹ سید ضیا تھا جو سابقہ شاہ ایران رضا شاہ کا 1920 کی فوجی حکومت کا ساتھی تھا وہ ایران سے فلسطین گیا اور وہاں پر یہودیوں اور اسرائیلیوں کےلئے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا دلال بن گیا۔ یہودیوں نے زمینیں خرید لیں اور جب وہ زمین پر قابض ہوگئے تو پھر مختلف حیلوں، بہانوں سے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے لگے اور کسانوں کو بتدریج ان زمینوں سے نکالنا شروع کر دیا۔ جہاں بھی جاتے قتل وغارت گری کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور فریب کے ذریعہ دنیا کی ہمدردی بھی حاصل کرتے تھے۔ فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین بنیادی پہلو ہیں۔
(۱) عربوں سے بدسلوکی سنگدلی اور بے رحمی، زمین کے اصلی مالکوں سے ناروا سلوک اور شدت پسندانہ رویّہ اختیار کرنا اور کسی قسم کی لچک نہ دکھانا۔
(2) جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا۔ یہ عجیب چیز تھی کہ صیہونیوں نے میڈیا کے ذریعہ وہ جھوٹ بکے کہ جنکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے، انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کئی دوسرے یہودی سرمایہ داروں کو اپنا گرویدہ کر لیا اور بہت سے یہودی ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ حتی کہ فرانس کے ایک ماہر سماجیات مصنف ''جان پال سارٹر‘‘ کو بھی جن کا نوجوانی کے ایام میں میں بھی مداح رہ چکا ہوں، انہوں نے فریب دیا۔ میں نے ''جان پال سارٹر‘‘کی کتاب کا تیس سال پہلے مطالعہ کیا جس کا عنوان یہ تھا ''سرزمین کےبغیر افراد، بغیر افراد کی سرزمین‘‘ یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی سرزمین نہ تھی اور وہ فلسطین آئے جو ایسی سرزمین تھی جہاں لوگ نہیں تھے۔ لوگ نہ تھے کا کیا مطلب؟ ایک ملت وہاں پر آباد تھی جس کے بے شمار تاریخی ثبوت موجود ہیں۔ ایک غیر ملکی مصنف لکھتا ہے کہ فلسطین کا پورا علاقہ تا حد نگاہ گندم وغیرہ کے کھیتوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے دنیا پر یوں ظاہر کیا کہ فلسطین وہ علاقہ تھا جو غیر آباد اور بے آب وگیاہ تھا اور ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ یہ جھوٹ کا پلندہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مظلوم نمائی کرتے رہے، آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ امریکی جرائد ''ٹائم،اور نیوز ویک‘‘(Newsweektime)کا بھی کبھی کبھار مطالعہ کرتا ہوں تو اس میں یہ چیز واضح ہے کہ جب بھی کسی یہودی خاندان کے لئے کوئي سانحہ پیش آتا ہے اور اس میں کسی کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کی تصاویر، مقتول کا سن وسال اور اس کے بچوں کی مظلومیت کو بے حد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی نوجوان، خاندان، بچے اور فلسطینی عورتیں ان کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ واقعات کبھی مقبوضہ فلسطین اور کبھی لبنان میں پیش آتے ہیں لیکن ان کی طرف یہ جرائد اشارہ تک نہیں کرتے۔
(۳) اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا،مذاکرات کا ڈھونگ رچانا اپنی''لابی‘‘بنانا۔ کبھی کسی سے بات چیت کر لی تو کبھی کسی شخصیت کےساتھ بیٹھ گئے کبھی سیاستداں تو کبھی کسی روشن فکر مصنف کو پکڑ لیا ان کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی۔ ان کی پالیسیوں کی یہ تین شکلیں ہیں اور اسی فریب ومکاری کے ذریعہ انہوں نے فلسطین کو ہتھیا لیا ہے۔ تسلط کے وقت بیرونی طاقتوں نے ان کا کھل کر ساتھ دیا جن میں برطانیہ سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ اور اس سے پہلے لیگ آف نیشنس جو جنگ کے بعد صلح کے نام پر معرض وجود میں آئیں ان سب نے سوائے چند مواقع کے ہمیشہ انہی کی حمایت کی ہے۔ ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو بلاوجہ تقسیم کر دیا اور کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین کا ۵۷ فیصد حصہ یہودیوں سے متعلق ہے جبکہ اس سے پہلے فلسطینی سرزمین میں ان کا حصہ ۵ فیصد تھا۔ اس کے بعد یہودیوں نے حکومت بنائی اور پھر مختلف قسم کے واقعات رونما ہوئے جن میں دیہاتوں اور شہروں پر وحشیانہ حملے اور بے گناہ لوگوں پر ظلم وستم کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر عرب حکومتوں نے بھی غلطیاں کیں،کئی جنگیں ہوئیں، ۱۹۶۷کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کی مدد سے اردن، مصر اور شام کی کچھ زمینوں پر قبضہ کر لیا اور پھر ۱۹۷۳کی جنگ میں جسے انہوں نے خود ہی شروع کیا تھا پھر بیرونی طاقتوں کی مدد سے کچھ اور زمینوں پر قبضہ کر کے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں کرلیا۔

نماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31

مسئلہ فلسطین کی اہمیت

آج کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو زیر بحث لانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ مسئلہ تو ختم ہو چکا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا۔ آپ اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمیشہ فلسطینی سرزمین کے مالک اور ان کی نسلیں اپنی سرزمین سے باہر رہیں اور اگر فلسطین میں رہیں تو ایک اقلیت کی حیثیت سے رہ سکیں گی جبکہ باہر سے آئے ہوئے غاصب افراد یہاں آباد رہیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ ھرگز ایسا نہیں ہوگا۔ وہ ممالک جو سوسال تک کسی طاقت کے زیر تسلط رہے جیسے آج کا قزاقستان، جارجیا اور یہ تازہ آزاد ہونے والی ریاستیں جن میں سے بعض سوویت یونین کے زیر تسلط تھیں اور بعض اس سے پہلے روس کے قبضہ میں تھیں جب سوویت یونین تشکیل ہی نہ پایا تھا، یہ دوبارہ آزاد ہوگئیں اور وہاں پر مقامی لوگوں کی حکومت بنی۔ لہذا کوئی غیر ممکن بات نہیں کہ یہی صورتحال فلسطین میں پیش آئے اور انشاءاللہ یقیناً پیش آئے گی کہ فلسطین،فلسطینی عوام کا ہو جائےگا۔ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا اور ایسا کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔ البتہ آج صیہونیوں اور ان کے آقاوں بالخصوص امریکی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ صلح کے خوبصورت لفظ سے استفادہ کریں اور صلح کا نعرہ بلند کرکے جھانسا دیں۔جی ہاں! ہم بھی کہتے ہیں صلح و آشتی بہت ہی اچھی چیز ہے لیکن کس جگہ کی صلح اور کس سے صلح؟ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے، آپ کا دروازہ توڑ دے، آپ کو مارے پیٹے، آپ کی ناموس کی توہین کرے اور آپ کے تین کمروں میں سے ڈھائی پر قابض ہوجائے اور پھر آپ سے کہے کہ بلاوجہ ادھر ادھر شکایت کیوں کر رہے ہو؟ ہم سے جھگڑا کاہے کا ہے آؤ آپس میں صلح کر لیتے ہیں تو کیا اسی کو صلح کہا جائے گا؟ صلح تو یہ ہے کہ تم گھر سے نکل جاؤ۔ اگر ہم آپس میں جنگ کرتے تو ایسی صورت میں صلح کی بات معقول تھی لیکن تم تو ہمارے گھروں میں بیٹھے ہو،یہاں تم نے ہر خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور آج بھی ہر قسم کی دھشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہو۔ آج بھی اسرائیل تقریباً ہرروز جنوبی لبنان پر حملے کر رہا ہے اور اس کے یہ حملے لبنانی مجاہدین پر نہیں بلکہ جنوبی لبنان کی دیہی آبادی پر اور اسکولوں پر ہو رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک اسکول پر حملہ کیا اور فلسطینی نونہالوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ ان بچوں نے تو کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ ان کے ہاتھ میں تو اسلحہ نہ تھا۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں کی طبیعت میں وحشیانہ پن اور بربریت ہے ۔ اس دن جب یہ صیہونیی لبنان میں داخل ہوئے تو ''دیریاسین‘‘ اور دوسرے علاقوں میں انہوں نے کس طرح قتل عام کیا حالانکہ کسی نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ کم از کم ان لوگوں نے تو ان کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ البتہ اتنا ضرور تہا کہ وہاں کچھ غیرتمند عرب جوان ان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان یہودیوں سے ان کا ایک ہی سوال تھا کہ تم کیوں ہمارے گھروں میں داخل ہوئے ہو اور ایسا کیوں کر رہے ہو؟

وہ لوگ جو انکے ظلم وستم کا نشانہ بنتے، جنہیں ان کے دیہاتوں اور انکی زمینوں سے قتل عام کے ذریعہ جدا کیا جاتا تھا ان کا کیا قصور تھا۔ انھوں نے تو کچھ نہیں کیا تہا لہذا ان صیہونیوں کے مزاج میں تجاوز، جارحیت اور وحشیانہ پن موجود ہے۔ اسرائیل کی بنیاد ہی شدت پسندی اور دہشگردی پر رکھی گئی ہے اور اسی انداز میں وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس پیش رفت کا کوئي اور راستا نہیں ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ اس حکومت سے صلح کرو تو کیسے صلح کریں؟ اگر وہ اپنے حق پر قناعت کریں تو کوئی اس سے جنگ نہیں کرے گا۔ یعنی وہ فلسطین کو اس کے اصلی شہریوں کو لوٹا دیں یا فلسطینی حکومت سے معلوم کریں کہ ان کے کچھ لوگ یا سب لوگ اسی ملک میں رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ تو اس بات پر ہے کہ انہوں نے آکر دوسرے کے گھروں پر زبردستی غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور گھر والوں کو گھر سے نکال دیا ہے اور پھر ان پر ظلم وستم بھی کر رہے ہیں۔ ان کے اس ظلم کا دائرہ دوسرے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچ چکا ہے لہذا وہ صلح کے نام پر اگلی جارحیت کی فضا ہموار کرنا چاہتے ہیں اگر صلح برقرار بھی ہو جائے تو مزید ظلم وستم کا پیش خیمہ قرار پائے گی

نماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31

جھوٹ اور فریب پر مبنی صلح، مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ فلسطین کی واحد راہ حل یہ ہے کہ سر زمین کے فلسطین کے اصلی اور حقیقی باشندے، نہ یہ کہ باہر سے آکر غاصبانہ اندانہ میں آباد ہوجانے والےمہاجرین، خواہ وہ اس وقت فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوا سچ ہے کہ وہ ہر ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ اسرائیل کے نام پر جو غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر عالم اسلام میں کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم اور قابض حکومت کو تسلیم کر لے تو ایک تو اس نے اپنے لیے ننگ وعار مول لیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کو اپنے اس قدم کا کوئي فائدہ بھی نہیں ملنے والا ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صیہونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلّط ہیں اور ہمیشہ کےلئے فلسطین ان کے اختیار میں رہے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔ فلسطین ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ فلسطین کی آزادی کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جدو جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔

امام خمینی(رہ)کے مرقد پر عظیم عوامی اجتماع سے خطاب سے ماخوذ 2002-6-4

اس مسئلے کا منطقی اور معقول حل موجود ہے۔ منطقی حل وہ ہوتا ہے جسے دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج اصولوں کو مانتے ہوں اس حل کو قبول کریں۔ مسئلے کا منطقی حل وہی ہے جو ہم نے ڈیڑھ سال پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی جسے بارہا بیان کیا ہے اور جس پر ان کا مسلسل اصرار بھی ہے کہ فیصلیہ خود فلسطینی عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ریفرنڈم کرایا جائے۔ ان تمام فلسطینیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے۔ وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں ان سب کو فلسطین واپسی کا موقع دیا جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے۔ اسرائیل کی جعلی اور غیر قانونی حکومت بننے سے پہلے یعنی ۱۹۴۸ سے قبل فلسطین میں جو لوگ بھی آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی، ان سب کی مرضی معلوم کی جائے اور ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کا حکومتی نظام تشکیل دیا جائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت ساری دنیا کےلئے تو اچھی لیکن فلسطینی عوام کے لئے اچھی نہیں ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟! یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کے عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم رہیں۔ کسی کو بھی اس بات میں شک و شبہ نہیں ہے کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے، وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے۔ وہ زبردستی مسلط کر دی جانے والی حکومت ہے۔ لہذا فلسطینی عوام جمع ہو کر ریفرنڈم کے ذریعہ حکومتی دھانچے کا انتخاب کریں۔ وہ خود کس طرح کا نظام حکومت چاہتے ہیں، اپنے ووٹوں سے ظاہر کریں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو ۱۹۴۸ کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو وہ واپس جائیں۔ یہ ہے عوام کی رائے کا احترام، یہ ہے جمہوریت اور یہ ہے انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہئے۔ غاصب حکومت تو اس راہ حل کو بخوشی قبول کرنے والی ہے نہیں لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال خام پر مبنی ہے اور اسے جامہ عمل پہنانا ممکن نہیں۔ نہیں، ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو ۴۰ سال تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج آزاد ہو گئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے سے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے، آج قزاقستان،آذربائیجان،جارجیا وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں۔ تو ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ناممکن کام ہو۔ البتہ اس کے لئے عزم وارادے،جرأت و دلیری اور شجاعت و پامردی کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے؟ اقوام یا حکومتیں؟ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کو مختلف مواقع پر ثابت بھی کیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ وہ آمادہ و تیار ہیں۔

نمازجمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 2002-4-5