اسی مناسبت سے ویب سایٹ KHAMENEI.IR "فتح کی روداد" سیریز کے تحت، جس میں، صیہونی حکومت کے ساتھ حالیہ مسلط کردہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح کا تجزیہ کیا جاتا ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے آنجہانی کمانڈر شہید حاجی زادہ کا اب تک نشر نہ ہونے والا ایک انٹرویو شائع کر رہی جس میں ایران کے میزائیل پاور کی پیشرفت اور فروغ میں سپریم کمان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ یہ انٹرویو آج سے چار سال قبل لیا گيا تھا۔
سوال: سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں سپریم کمان کا کیا مقام ہے؟
جواب: جمہوری اسلامی نظام کے عسکری اور دفاعی میدان میں سپریم کمان کے واقعی متعدد پہلو ہیں۔ شاید ان برسوں میں ہتھیاروں اور اسلحوں کی تیاری کے میدانوں میں ایک مختصر سا اشارہ کیا گيا ہو لیکن میرے خیال میں اس کے وسیع اور بے شمار پہلو ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کوئی یوں ہی کہہ دے بلکہ ان ساری باتوں کے دستاویز موجود ہیں۔
آٹھ سالہ مقدس دفاع میں آقا (رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای) کی موجودگي، جہاں تک امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اجازت دی، قابل توجہ تھی، چونکہ انھیں طویل عرصے کی اجازت نہیں دی گئی۔ امام خمینی کی وفات کے بعد پچھلے تین عشروں میں عسکری امور میں ان کا کردار فیصلہ کن تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ رہبر معظم کی دشمن کی شناخت اور اطلاعات پر گہری نظر تھی۔ ہم پچھلے تین عشروں میں بڑی سازشوں سے محفوظ رہے ہیں اور دشمن نے ہمارے نظام کی راہ میں جو جال بچھائے تھے، انھیں پوری طرح محفوظ رہتے ہوئے عبور کر لیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک معاملے میں رہبر معظم کا کردار اور ان کی تدابیر پوری طرح سے عیاں ہیں۔
سوال: بحرانوں سے نمٹنے اور ملک کو سیکورٹی و فوجی سازشوں اور جالوں سے نکالنے میں کیا کردار رہا ہے؟ کیا آپ کچھ مثالیں دے سکتے ہیں؟
جواب: میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں، مثال کے طور پر پہلی جنگ میں کویت کی آزادی کے معاملے میں، ملک کے بہت سے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ صدام اب خالد ابن ولید کا کردار ادا کر رہا ہے اور اب ہمیں صدام کے ساتھ کھڑے ہو کر امریکا سے لڑنا چاہیے۔ اس وقت بہت سے اہم عہدیداروں نے یہ بات کہی۔ صرف ایک شخص نے صورتحال کو بھانپ لیا اور کہا کہ یہ ایک چال ہے اور اس محاذ کے دونوں فریق باطل گروہ ہیں، یعنی ایک طرف امریکا، یورپ اور مغربی ممالک اور دوسری طرف صدام۔ یہ رہبر معظم ہی تھے جنھوں نے ملک اور مسلح فورسز کو اس جال میں پھنسنے نہیں دیا۔
یا افغانستان کی جنگ میں اور پچھلے 30 برسوں میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب ان معاملات میں شامل ہونا ملک کے لیے ایک جال ثابت ہوتا۔ یہ بطور سپریم کمانڈر رہبر انقلاب کی معلوماتی بصیرت، دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ آخرکار ان کی انتظامی ذمہ داری محض عمومی انتظامی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ انھیں مکمل عبور ہونا چاہیے، مہارت ہونی چاہیے اور ہم نے دیکھا کہ وہ واقعی تمام پہلوؤں پر گرفت رکھتے ہیں۔ اعلیٰ سطحی کمانڈروں کی نشست میں وہ پوری مہارت سے بات کرتے ہیں اور ان کا منطقی انداز بتاتا ہے کہ وہ مکمل عبور رکھتے ہیں اور بہت سے مواقع پر انھوں نے ملک کو بچایا ہے۔
آپ دیکھیں کہ ہمارے اردگرد، خاص طور پر مغربی ایشیا کے خطے میں، ممالک واقعی ڈھیلے پڑ چکے ہیں۔ حکومتیں کمزور ہوئی ہیں، فوجیں تباہ ہو گئی ہیں، عدم تحفظ بڑھ گیا ہے اور انتشار پھیل گیا ہے۔ یہ امریکا، برطانیہ، صہیونی حکومت اور مغرب والوں کی سازش تھی کہ اس خطے کو تباہ و برباد ہو جانا چاہیے اور ان کا اصل ہدف ایران تھا۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عراق کا کیا حال ہے، افغانستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھیے، شام کی حالت دیکھیے۔ اگرچہ ایران وہاں پہنچا اور اس نے مدد کی لیکن بہرحال وہاں فوج کو کمزور کر دیا گیا، ملک کو تباہ کر دیا گیا۔
بعض جگہوں پر جہاں ہمیں جانا چاہیے تھا، کچھ لوگ کہتے تھے کہ نہیں، ہمیں نہیں جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر جب تکفیری گروہوں اور داعش نے شام اور عراق میں داخل ہو کر وہاں قبضہ کر لیا تو بہت سے لوگ کہتے تھے کہ ہمارا اس سے کیا تعلق ہے؟ ہمیں کیوں خود کو الجھانا چاہیے؟ لیکن اس موقع پر رہبر معظّم نے ٹھوس طریقے سے حکم دیا کہ نہیں، ہمیں ضرور جانا چاہیے۔ آج جب اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ آج کویت کی جنگ، افغانستان کے معاملے اور ہمارے لیے دشمن کے تیار کردہ جالوں کے بارے میں بآسانی بات کی جا سکتی ہے لیکن آپ دیکھیے کہ اس وقت آقا نے یہ فیصلے کیے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں شام کی جنگ میں ضرور شامل ہونا چاہیے کیونکہ اگر ہم وہاں نہ لڑتے تو ہمیں تہران میں لڑنا پڑتا، کرمانشاہ میں لڑنا پڑتا، ہمدان میں لڑنا پڑتا۔ یعنی کہیں ہمیں جانا چاہیے تھا اور کہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ رہبر معظم کی رہنمائی اور انتظامی صلاحیت ہی کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا۔ میرے خیال میں یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر الگ سے بحث ہونی چاہیے۔
دوسرا میدان یہ ہے کہ آج ہماری مسلح فورسز میں، چاہے وہ فوج ہو، سپاہ ہو یا رضاکار فورس بسیج ہو، ایک جہادی، بہادری اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا جذبہ موجود ہے۔ یہ کہ وہ فلاں فوج سے شکست کھا سکتے ہیں، ایسا کوئی احساس ان میں ہے ہی نہیں۔ وہ طاقت محسوس کرتے ہیں، مضبوط ہیں۔ یہ سب اس ٹریننگ کا نتیجہ ہے جو انھیں انقلاب کی کامیابی کے بعد اور خاص کر پچھلی تین دہائیوں میں ملی ہے۔
سوال: حالیہ برسوں میں مسلح فورسز کی روحانی اور عقیدتی ٹریننگ کا رہبر انقلاب سے کیا تعلق رہا ہے اور یہ کیسے انجام پائی ہے؟
جواب: آٹھ سالہ جنگ کے دوران ہمارا سامنا صدام سے تھا لیکن اس کے بعد امریکا کا معاملہ سامنے آیا، مغربی طاقتوں کے دھمکیاں تھیں، بہرحال یہ تشویش تو تھی ہی کہ ہماری طاقت ان کے برابر نہیں ہے لیکن آج ہمارے سپاہی، ہمارے فوجی، ہر سطح پر بہادری کے ساتھ کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم کسی کے مقابلے میں کمزور پڑ سکتے ہیں۔ آج سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایران کی مسلح فورسز، ایران کی سپاہ، ان کی فوج، سب طاقتور ہیں۔
یہ تربیت اور ٹریننگ کیسے ہوئی ہے؟ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مسلح افواج سے متعلق تمام پروگرام، تربیتی پروگرام، تعلیمی پروگرام، تقریبات اور رہبر معظّم کی کمانڈروں کے ساتھ ہفتہ وار مستقل ملاقاتیں (یہ میٹنگیں باضابطہ ہیں، شاید کبھی بڑھ بھی جائیں مگر کم نہیں ہوتیں، کم از کم ہفتے میں ایک ضرور ہوتی ہے) انھوں نے ایک پورا دن فوجیوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ رہبر انقلاب کے ان مسلسل اقدامات نے فوجیوں میں یہ تربیت پیدا کی ہے، یہ تیاری پیدا کی ہے۔ یہ ہتھیاروں اور آلات وغیرہ کا معاملہ نہیں ہے، یہ روحانی پہلو رکھتا ہے، عقیدتی پہلو رکھتا ہے، تربیتی پہلو رکھتا ہے۔ یہ بھی ان کاموں کا ایک پہلو ہے جو رہبر معظم نے انجام دیے ہیں اور اب اس شعبے میں ان کی جو باتیں ہیں ان پر کتابیں چھپ سکتی ہیں اور یہ بہت گہری اور پرمغز باتیں ہیں۔
سوال: خودکفیلی اور اسلحہ سازی کو مقامی بنانے کی راہ میں رہبر انقلاب کا کیا کردار رہا ہے اور کون سے اہم فیصلے کیے گئے ہیں؟
جواب: رہبر معظم نے (مسلط کردہ آٹھ سالہ) جنگ کے بعد کے برسوں میں اسلحہ سازی کے شعبے میں خودکفیلی، اسے مقامی بنانے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ترغیب دلائی لیکن یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ہم کون سا راستہ اپنائیں، کون سے ہتھیار مقامی طور پر تیار کریں اور یہ کام کیسے کریں۔ دو اہم کام ہوئے ہیں: ایک تو یہ کہ ہم پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ کر سکتے ہیں اور اسلحہ سازی کی صلاحیت حاصل کرنے کی سمت آگے بڑھ سکتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ہم نے صحیح سمت کا انتخاب کیا۔
گزشتہ تیس برسوں میں خاص طور پر میزائل کے شعبے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف برسوں میں یہ ہدایات موجود رہی ہیں۔ اگر ہم وہ راستہ اختیار کرتے - جو دنیا نے اپنایا ہے، دنیا، خاص کر مشرق و مغرب حملہ کرنے والے ہتھیاروں کے لیے جنگي طیاروں کی سمت میں گئی اور اب پانچویں نسل کے جنگی طیاروں تک پہنچ چکی ہے - تو ہم شاید تیسری نسل کے طیاروں میں ہی پھنسے ہوتے اور جدوجہد کر رہے ہوتے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو بھی کرتے، ان کے پیچھے ہی رہتے، ہم میں اور ان میں پچاس سال کا فاصلہ ہوتا۔ ہم نے دشمن کے پیچھے چلنے اور کبھی بھی اس تک نہ پہنچ پانے کے بجائے ایسا راستہ اپنایا کہ اس وقت ہم ان کے مقابل کھڑے ہیں۔ ہاں، ان برسوں میں ہمیں خطروں کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے خطروں کو مدنظر رکھ کر کام کیا اور ایسے مواقع تلاش کیے جن سے ان خطروں کا جواب دیا جا سکے۔ بہت سے مواقع پر، کم از کم گزشتہ دہائی میں، ہم نے ہدف پر مبنی اقدامات کیے، یعنی ایسے امور، ہتھیاروں اور صلاحیتوں کی تلاش کی جو ایک خاص مقام پر ایسی کامیابی دے سکیں جو دشمن کی تمام صلاحیتوں کو ناکارہ بنا دے۔ اس شعبے میں رہبر معظم کی انتظامی صلاحیت کا کردار واقعی انتہائی درست اور بے مثال اثرات کی حامل رہی ہے۔
کچھ مواقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ رہبر انقلاب کے فیصلے اور اقدامات، شاید کہا جا سکتا ہے کہ ہماری فوجی تاریخ کے دھارے کو بدل دیتے ہیں۔ ان کی جانب سے طے کردہ راہ بہت مؤثر ہوتی ہے۔ میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں:
1984 میں ہمیں محدود تعداد میں میزائل ملے۔ نظام نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے دو میزائلوں کو ریورس انجینئرنگ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں لیبیا سے 30 میزائل ملے جن میں سے دو کو ہم نے مزید میزائیل بنانے اور پروڈکشن کے لیے رکھ دیا۔ یہ سب، دو سال کے عرصے میں ہوا، یعنی اس دوران ہمارے پاس موجود میزائلز کی تعداد کبھی بھی سات یا آٹھ سے تجاوز نہیں کر پائی۔ مطلب یہ کہ جب میزائل ملتے تھے تو چونکہ جنگ چل رہی تھی، اس لیے ہم انھیں فائر کر دیتے تھے۔ اب آپ ان سات آٹھ میزائلوں میں سے دو کو الگ کر کے ریورس انجینئرنگ کے لیے بھیج دیں! یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک میٹنگ میں خود رہبر معظم، جو اس وقت صدر مملکت تھے، ایک ایسے مقام پر تشریف لائے جہاں اس وقت کی وزارت سپاہ کے افراد نے تحقیقاتی کام شروع کیا تھا اور رہبر معظم معائنے کے لیے آئے تھے۔ اسی وقت ہماری ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ وہ اس بات پر فکر مند تھے کہ آپ لوگ اتنی احتیاط کیوں برت رہے ہیں؟ انھیں جلدی کیوں نہیں کھولتے؟ ان کے پرزے الگ کیوں نہیں کرتے؟ کام کا آغاز کیوں نہیں کرتے؟ تشویش میں کیوں مبتلا ہو؟ یہاں تک کہ انھوں نے مزاحاً کہا تھا: "اگر تم نے انھیں جلدی نہ کھولا تو آ کر انہیں لے بھی جا سکتے ہیں اور انھیں بھی فائر کر سکتے ہیں اور پھر تمھارے ہاتھ خالی رہ جائیں گے!" رہبر معظم تحقیق، ملک میں خود بنانے اور ڈومیسٹک مینوفیکچرنگ کو انتہائی اہمیت دیتے تھے۔ انہی برسوں میں انھوں نے میزائل فیکٹری کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا، جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان معاملات کو اسی وقت سے، انہی برسوں سے اہمیت دی جا رہی تھی۔
چنانچہ یہ کام شروع ہوا اور وہ بھی جنگ کے دور میں لیکن میزائل کے شعبے اور دیگر کئی شعبوں میں یہ ایک طویل، مشکل اور پیچیدہ کام تھا کیونکہ ہمارے پاس اس کا ابتدائی بنیادی ڈھانچہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس وقت ہم کسی چیز کو بنانے کا فیصلہ کریں تو اس کے پرزے پہلے سے تیار ہو چکے ہیں، ہم انہیں حاصل کر لیتے ہیں اور ایک سسٹم ڈیزائن کرتے ہیں۔ اس وقت تو بہت سی ذیلی چیزوں کی مینوفیکچرنگ بھی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ملک میں اس کی ٹیکنالوجی تھی ہی نہیں۔ ہمیں میزائل کی ٹیکنالوجی تک پہنچنے کے لیے کئی ضروری بنیادی ٹیکنالوجیز کو حاصل کرنا تھا۔
1991 کی دہائی کے اوائل میں، سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے وقت اچانک ایک ایسا موقع آیا جب ایران کو بہت اچھے آفرز ملے۔ سوویت یونین کی معاشی حالت تباہ ہو چکی تھی، اس کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور اس کے حصے بخرے ہونے کے بعد وجود میں آنے والے ممالک کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ہم آپ کو میزائل فروخت کریں گے، لانچ پیڈ فروخت کریں گے۔ ہم شمالی کوریا سے اس وقت جو میزائل پچیس لاکھ ڈالر میں خریدتے تھے، وہی میزائیل انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو دس ہزار ڈالر میں دے دیں گے۔ وہ لانچ پیڈ جو اس وقت ہم شمالی کوریا سے پچیس سے تیس لاکھ ڈالر میں خریدتے تھے اور جس کا معیار بھی روس جیسا نہیں تھا، انھوں نے کہا ہم آپ کو ایک لاکھ ڈالر میں دے دیں گے۔ مسلح افواج میں، میزائل یونٹ میں، فضائیہ میں، کسی نے بھی نہ صرف یہ کہ اس خریداری پر اعتراض نہیں کیا بلکہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ بہت زبردست ہے، جلدی سے خرید لیں۔ اسلامی جمہوریہ میں صرف ایک شخص نے مخالفت کی، اور وہ تھے رہبر معظم۔ بہت سے ذمہ داروں نے تو یہاں تک کہا کہ چل کر انھیں سمجھاتے ہیں، مناتے ہیں لیکن انھوں نے مخالفت کی، یہاں تک کہ ناراض ہو گئے اور کہا کہ آپ لوگ کیوں یہ کام کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں پیچھے پڑے ہیں؟ اب کوئی اس مسئلے میں سوال نہ کرے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم 1984 سے میزائل بنانے کا کام شروع کر چکے تھے۔ 1990، 1991، 1992 تک دھیرے دھیرے یہ کام نتیجہ خیز ہونے لگا تھا۔ اب جب اس وقت کام ثمر بخش ہونے لگا تھا، ہم اچانک کیا کرنا چاہ رہے تھے؟ ہم جا کر کچھ تیار میزائل خرید لانا چاہ رہے تھے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ نتیجہ یہ نکلتا کہ ہمارا کام رک جاتا۔ رہبر معظم نے اس کام کے رکنے سے بچانے کے لیے خریداری پر پابندی لگا دی۔ یہاں تک کہ وہ غصہ بھی ہو گئے، کچھ ذمہ داران پر چلّائے بھی اور کہا کہ اس کے کیوں پیچھے پڑے ہو، یہ کام مت کرو۔ انھوں نے سخت مخالفت کی۔
سوال: ابتدائي برسوں میں بڑی تعداد میں میزائیلوں کی خریداری کی مخالفت کے اس سخت فیصلے کا، ایران کی میزائیل صنعت کی راہ پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
جواب: شاید اس وقت ہم جیسے لوگ جن کی عمر مثال کے طور پر انتیس تیس سال تھی، جیسے شہید تہرانی مقدم، ہم لوگ کہتے تھے کہ کاش آقا نے بات مان لی ہوتی، کاش ہم خرید لیتے، ہم نے کیوں نہیں خریدے۔ اس وقت خود ہم لوگ بھی اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھے کہ یہ تدبیر کتنی مؤثر ہے اور اگر اس دن ہماری راہ کا انتخاب صحیح نہیں ہوتا اور رہبر معظم نے راستہ طے نہ کر دیا ہوتا تو یقین جانیے کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل، دور تک مار کرنے والے میزائیل بنانے کا راستہ یا تو طے ہی نہیں ہوتا یا ہم بہت زیادہ پچھڑ جاتے۔ کیونکہ جب آپ میزائیل خرید لیتے تو بعد کے مرحلوں میں ممکن تھا کہ وہ دوسری چیزیں بھی آپ کو دیتے لیکن پھر آپ کا راستہ خریداری والا راستہ بن جاتا۔ خریداری کا راستہ ایک مدت تک تو کھلا رہتا لیکن اس کے بعد وہ بند ہو جاتا، پھر آپ نہیں خرید پاتے یا نئی خصوصیات والے یا نئی رینج والے میزائیل نہیں خرید پاتے۔ تو اس طرح سے یہ چیز بڑی فیصلہ کن ثابت ہوئی، یہ وہ راستہ تھا جو رہبر معظم نے مقرر کر دیا تھا۔
سوال: اگر ہم مقدس دفاع کے خاتمے کے وقت اور آج ملک کی ملٹری پوزیشن کا موازنہ کرنا چاہیں تو کون سے فرق دکھائی دیں گے؟
جواب: میں عرض کرتا ہوں۔ ہم اسی وقت ایک درست اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہے اور ہم نے کتنی پیشرفت کی ہے جب ہم موازنہ کر سکیں۔ دیکھیے ہم جنگ کے آخری ایام اور جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کے وقت پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں تھے اور آج جب ہم سنہ 2021 میں ہیں، ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان پچھلے 32 برسوں میں ہم نے کتنی پیشرفت کی ہے۔ جب سپاہ پاسداران جنگ میں شامل ہوئی تھی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن جنگ کے اختتام پر اس کے پاس مال غنیمت کی صورت میں حاصل ہونے والے جنگي ساز و سامان تھے۔ زیادہ سے زیادہ توپ، ٹینک، گرینیڈ اور ہلکے اور نیم ہلکے ہتھیار تھے۔ ہمارے پاس بھاری ہتھیار نہیں تھے۔ فوج کے پاس بھی، جو انقلاب کی کامیابی کے بعد کے دس برسوں میں سے آٹھ سال جنگ میں مصروف رہی تھی، جو کچھ تھا یا تو اسے نقصان پہنچا تھا یا اس میں کمی آئي تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دنیا کی اپ ٹو ڈیٹ ٹیکنالوجی سے دس سال پیچھے ہو گئے تھے۔ مطلب یہ کہ ان برسوں میں ہم پر پابندیاں عائد تھیں اور ہمیں کچھ نہیں دیا جاتا تھا۔
جو ممالک ہتھیار بناتے تھے انھوں نے پیشرفت کر لی تھی اور جو ملک، مشرق و مغرب کے ہمنوا تھے، انھیں ان سے ہتھیار مل جاتے تھے۔ عراق نے جنگ کے آخری دن تک ہتھیار حاصل کیے، پیشرفتہ ہتھیار حاصل کیے لیکن ہم حاصل نہیں کر سکے، ہمیں دیے ہی نہیں گئے، ہم پر پابندی تھی۔ ان پابندیوں نے ہمیں پیچھے کر دیا۔ جنگ کے خاتمے پر ہماری عسکری صورتحال، ہماری توانائی، ہمارے ہتھیار پچھڑے پن کا شکار تھے۔ واقعی ہماری حالت اچھی نہیں تھی، نہ فوج کی اور نہ ہی سپاہ کی۔ ہمارے پاس وسائل نہیں تھے، کچھ مغربی وسائل تھے، کچھ مشرقی وسائل تھے، کچھ مال غنیمت تھا اور ہم حقیقت میں دنیا کی اس وقت کی توانائيوں سے کافی دور تھے۔
خیر تو جب آپ مقدس دفاع کے خاتمے کے وقت کو نظر میں رکھیں تو دیکھیں گے کہ ہم کہاں تھے۔ اب آج دیکھیے کہ ہم کہاں ہیں۔ پچھلے تین عشروں میں ہم پر ہتھیاروں کی پابندیاں کم تو نہیں ہوئيں، بڑھی ہی ہیں، سخت ہی ہوئي ہیں بلکہ رفتہ رفتہ جنگ کے زمانے سے بھی زیادہ سخت ہو چکی ہیں۔ ہماری کوئي مدد بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہم پر معاشی پابندیاں بھی عائد ہیں، ان میں کمی بیشی ہوئی ہے لیکن بہرحال ان پابندیوں کی وجہ سے ہم پر معاشی دباؤ بھی رہا اور معاشی مشکلات بھی رہیں، یعنی دشمن دباؤ ڈالتا رہا، تیل کی قیمت کو کم کرتا رہا، فطری طور پر مسلح فورسز کو بھی جتنے پیسوں کی ضرورت تھی، اتنے انھیں کبھی نہیں مل پائے۔ وہ ہمیشہ مشکلات میں رہیں یعنی بجٹ کے لحاظ سے بھی اور بے شمار دیگر مسائل کے لحاظ سے بھی۔
سوال: پابندیوں کے سخت حالات میں اتنی بڑی بڑی پیشرفت کس طرح سے ممکن ہوئی؟ رہبر انقلاب نے اس سلسلے میں کس طرح اسٹریٹیجک کردار ادا کیا؟
جواب: اب آپ دیکھیے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔ آج آپ دیکھیے کہ ہتھیاروں کے میدان میں، زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل سسٹمز کے میدان میں، ڈرون، رڈار، الیکٹرونک وار، ڈیفنس اور دوسرے بہت سے میدانوں میں، چاہے بری ہوں یا بحری، اس وقت ہم علاقائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر آگے ہیں۔ جو اہداف طے گئے ہیں ان کے مطابق ہمیں معاشی میدان میں خطے کے اولین ملکوں میں یا خطے کے پہلے تین ملکوں میں سے ایک ہونا چاہیے لیکن عسکری میدان میں علاقے کی بات نہیں بلکہ ہم عالمی سطح پر سب سے بڑے ملکوں میں سے ایک ہیں۔
اگر دنیا میں بیس ایسے ملک ہیں جو اچھے، بہترین کوالٹی والے اور اپ ٹو ڈیٹ رڈار بناتے ہیں، تو یقینی طور پر ہم ان بیس ملکوں میں سے ایک ہیں۔ ڈرون کے میدان میں دنیا کے کتنے ممالک کام کر رہے ہیں؟ ہم یقینی طور پر دنیا کے پانچ برتر ممالک میں سے ایک ہیں۔ وہ ممالک جو جدید ترین اور اپ ٹو ڈیٹ ائیر ڈیفنس سسٹم بنا سکتے ہیں، ہم ان میں سے ایک ہے۔ مطلب یہ کہ ایسے حالات میں جب ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، ہم پر پابندیاں تھیں، ہتھیاروں کی پابندی تھی، یہاں تک کہ معائنے کی پابندی بھی، یعنی دنیا کی بعض فوجی نمائشوں میں ہمیں جانے کی اجازت نہیں تھی، دعوت نامہ ہی نہیں دیتے تھے، اجازت بھی نہیں دیتے تھے، واقعی پابندیاں اپنی آخری حد پر تھیں، کسی بھی ملک کی ایسی صورتحال نہیں تھی۔ اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، کیا یہ بات اتفاق سے ہوئی ہے؟ نہیں، کام ہوا ہے، اسٹریٹیجی بنائی گئي ہے، روڈ میپ دیا گیا ہے، ترجیحات طے کی گئي ہیں، راستہ طے کیا گیا، تب جا کر ہم اس منزل تک پہنچے ہیں۔ اس پورے عمل کے مرکز میں رہبر معظم رہے ہیں۔
سوال: میزائیل اور ڈرون کے بارے میں ماہرانہ فیصلوں میں رہبر انقلاب نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
جواب: میزائیل کے میدان میں، کم از کم پچھلے بارہ سال میں، ہم رہبر انقلاب سے براہ راست رابطے میں رہے ہیں اور ان کے ساتھ لگاتار نشستیں ہوتی رہی ہیں۔ بنیادی مسائل، ان کی ہماہنگی سے ہی ہوتے تھے چاہے وہ بالمشافہ ملاقات ہو یا خط کے ذریعے۔ اس میدان میں وہ صاحب رائے ہیں اور کبھی کبھی تو ہمارے سامنے جو راستہ ہوتا تھا، اس میں تبدیلی بھی کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب ہم میزائیل کے تکنیکی حصوں میں اسپیڈ بڑھانے کے لیے کوشاں تھے تو انھوں نے زور دے کر کہا تھا کہ درست نشانہ لگانے کی صلاحیت کو ترجیح دی جائے۔
ہم آپس میں باتیں کرتے تھے، رفقائے کار کہتے تھے کہ مثال کے طور پر ایک وار ہیڈ کو میزائیل سے اڑا دیں گے، ایک ٹن کے وار ہیڈ سے، یہاں درست نشانے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اگر دو سو میٹر دور بھی گرا تو یقینی طور پر اسے تباہ کر ہی دے گا، تو پھر اتنی زیادہ سرمایہ کاری کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے پاس نہ تو بنیادی ڈھانچہ ہے، نہ ہی وسائل ہیں لیکن بعد کے برسوں میں ہمیں محسوس ہوا کہ نہیں، ہمیں کبھی کبھی چار گھروں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، ایک دہشت گرد گروہ جو وہاں موجود ہے، اسی کو بالکل درست نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ اگر ایک کمزور وار ہیڈ سے بھی نشانہ بنائیں، تب بھی صرف اس دہشت گرد گروہ کا لیڈر مارا جانا چاہیے۔ داعش کے خلاف جنگ کے میدان میں ہم نے یہ سب دیکھا۔ عراق کے کردستان میں تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بنانا ہم نے دیکھا۔ یا ہمارے کچھ پولیس اہلکاروں کے لیے ملک کے جنوب مشرق میں گھات لگائی گئی۔ ان سے مقابلے اور ان کے لیڈر کو نشانہ بنانے کے لیے ہمیں اس چیز کی ضرورت تھی۔ ایسے معاملات میں ہم نے دیکھا کہ درستگی واقعی اہم ہے، نشانہ بالکل درست ہونا چاہیے۔ بعض اوقات خود ایرو اسپیس کے میدان میں ہی، بعض پرانے کمانڈروں کی کچھ ترجیحات تھیں، فضائی شعبے اور ہوائی جہاز کے میدان میں توسیع کے سلسلے میں۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ اس شعبے پر زیادہ کام نہ کرو، یہ تمھارا مشن نہیں، یہ فوج کا کام ہے۔ تم صرف میزائل پر توجہ دو۔ کسی اور چیز کے پیچھے مت پڑو۔
یا گزشتہ کچھ برسوں میں ڈرون کے شعبے میں ہم اس کے اثرات دیکھ ہی رہے ہیں، ایک طاقت پیدا ہوئی ہے، ایک بڑا کام ہوا ہے۔ دیکھیے، کاراباخ جنگ کے بعد، آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ کے بعد، کچھ ممالک یکایک جاگ گئے، انھیں ڈرون کی اہمیت کا احساس ہوا، جو بہت اہم ہے۔ ایک تیس ہزار ڈالر کا ڈرون مار کر آپ ایک تین سو ملین ڈالر کی ایس-300 سائٹ کو تباہ کر سکتے ہیں۔ ایک دسیوں لاکھ ڈالر کا ٹینک ڈرون سے تباہ ہو جاتا ہے۔ آج وہ یہ سمجھ رہے ہیں۔
رہبر معظم برسوں سے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں، فورسز میں بھی جوش تھا، جذبہ تھا، اس پر کام کیا گيا اور اس وقت ہم اس میدان میں عالمی سطح کی طاقت ہیں۔ ہمیں کوئی کمی نہیں ہے، بعض شعبوں میں تو ہم کافی آگے ہیں۔ یہ ایرانی جدت طرازی ہے، ایرانیوں کا کام ہے اور پوری طرح الگ ہے، یعنی اس میں ایجاد کا پہلو ہے۔
سوال: کل ملا کر اگر آپ آج ایران کی طاقت میں رہبر معظم کی کمانڈرشپ کو بیان کرنا چاہیں تو کیا کہیں گے؟
جواب: میرا یہ ماننا ہے کہ دفاعی اور فوجی شعبوں میں رہبر معظم کا کردار بہت بڑا ہے۔ میں نے صرف تین پہلوؤں کا ذکر کیا لیکن حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہے، جس کا گہرائی سے جائزہ لینا، مطالعہ کرنا اور تحقیق کرنا چاہیے۔ آج اگر ہمارا ملک طاقتور ہے، اگر ہم ایک علاقائی قوت ہیں، حتیٰ کہ خود امریکی اور مغربی بھی کہتے ہیں، مثال کے طور پر یہ کہ ایران نے اپنے ڈرونز سے 75 سال بعد ہماری فضائی برتری چھین لی ہے تو یہ چھوٹی بات نہیں، امریکی فوج کا ایک کمانڈر یہ کہہ رہا ہے۔
اور عین الاسد ائير بیس پر حملے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایران نے جس جگہ کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا، بالکل اسی کو نشانہ بنایا۔ یا داعش کو مارنے میں، آخر یہ دہشت گرد گروہ منظم فوج تو نہیں تھے کہ محاذ بنا کر کارروائی کی جاتی۔ یہ وہ لوگ تھے جو گھروں میں رہتے تھے، ممکن تھا کہ ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہوں۔ ہمیں صرف اسی جگہ کو نشانہ بنانا تھا جو صرف داعش سے تعلق رکھتی ہو، اس کی شناخت کرنی تھی اور نشانہ بنانا تھا اور وہ بھی دنیا کی نظروں کے سامنے۔ یعنی جہاں امریکی طیارے پرواز کر رہے تھے، یورپی موجود تھے، شام تھا، ترکیے تھا۔ یعنی کارروائی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں ہم کہتے کہ ہم پہاڑ کے درے میں گئے، کام کیا اور کہہ دیا کہ ہم نے یہ کیا، بلکہ یہ ساری دنیا کی نظروں کے سامنے تھا اور سب نے اس کا جائزہ لیا۔ سبھی نے اسے سراہا اور کہا کہ آپ کا کام بہت عمدہ تھا۔
آج ہمارے ملک میں جو یہ امن و امان ہے، اس کا نتیجہ عوام کی سلامتی ہے۔ اب بھی مختلف علاقوں میں عدم تحفظ کے مسائل ہیں، یعنی حقیقی معنوں میں تحفظ قرض سے فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت بھی جب امریکی فوجیوں کی تعداد خطے میں کم ہوتی جا رہی ہے، عرب ممالک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امریکا کے چلے جانے پر تشویش ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کی طاقت ان کی اپنی نہیں ہے، یہ قرض کی طاقت اور امریکی طاقت ہے۔
ان چیزوں کے لیے ہم رہبر معظم کے مرہون منت ہیں اور ان شاء اللہ ان کی قیادت اور رہنمائی سے ہماری طاقت دن بدن بڑھتی رہے گی۔ ان ہدایات پر، جو جاری کی گئی ہیں، میں نے فوجی شعبے کی وضاحت کی، معاشی شعبے میں بھی ہیں، ثقافت کے لیے بھی، مختلف معاملات کے لیے بھی، طرز زندگی کے لیے بھی، غرضیکہ ہر چیز کے لیے ہیں، اگر مختلف ذمہ داران، عوام اور وہ لوگ جن کے پاس کوئی ذمہ داری اور عہدہ ہے، عمل کریں، تو ان شاء اللہ یہ ملک گلستان بن جائے گا۔
سوال: ایرو اسپیس فورس میں نوجوانوں اور سائنس میں غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے جوانوں کو کس حد تک شامل کیا گیا ہے اور ہماری موجودہ کامیابیاں کس حد تک نوجوانوں کی موجودگی کا نتیجہ ہیں؟
جواب: دیکھیے ایرو اسپیس فورس میں یہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور ان کارروائیوں کی وجہ سے جو انجام پائی ہیں تقریباً سبھی لوگ انھیں تسلیم کرتے ہیں۔ ہم بھی جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میزائل انڈسٹری سنہ 1984 سے شروع ہوئی، شاید سبھی یہ سوچیں کہ اس کام کو 37 سال گزر چکے ہیں، اس وقت کے کچھ بوڑھے لوگ آئے تھے، جن کے پاس جذبہ تھا، انھوں نے یہ کام کیا۔ میں اب بتا رہا ہوں کہ ایرو اسپیس فورس میں کام کرنے والوں کی اوسط عمر 33 سال ہے۔ ہمارے کمانڈروں کی اوسط عمر، چاہے وہ بٹالین کمانڈر ہوں، بیس کمانڈر ہوں یا علاقائی کمانڈر، 35 سے 40 سال ہے۔
اتفاق سے ہمارے محققین میں، جو لوگ تحقیقی کام کر رہے ہیں، پروڈکشن کا کام کر رہے ہیں، وہ سب جوان ہیں، سب کی عمریں کم ہیں۔ کیا ہم نے یہ کام صرف ایرو اسپیس فورس کے اندر موجود ان نوجوانوں کے ذریعے ہی کامیابی سے پورے کیے ہیں؟ نہیں، یہ صلاحیت اور طاقت پورے ملک کے تعاون سے حاصل ہوئی ہے۔ ہمارا اب تمام یونیورسٹیوں کے ساتھ رابطہ ہے، جیسا کہ رہبر معظم نے بارہا فرمایا ہے کہ اگر ہمیں صنعت میں انقلاب لانا ہے تو صنعت اور یونیورسٹی کے درمیان رابطہ قائم ہونا چاہیے، ہمارا یہ رابطہ اب قائم ہے۔
ہم نے بہت سے ہونہار نوجوانوں کی مدد کی، انھیں ترغیب دلائی، ان لوگوں نے نالج بیسڈ کمپنیاں قائم کیں اور اب وہ ہمارے ساتھ ایگریمنٹ کر کے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، نہ صرف ہمارے ساتھ بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی۔ دیکھیے یہ کام زیادہ تر انہی نوجوانوں کے ذریعے انجام پائے ہیں۔ میرے خیال میں مسائل سے نکلنے کا راستہ بھی انہی نوجوانوں کے ذریعے ممکن ہے، البتہ ان لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو جن کی عمر انہی میدانوں میں گزری ہے۔ جب ہم جوان کہتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ نہیں کہ ایک جوان کو، ایک تیس سالہ جوان کو وزیر بنا دیا جائے، ہمارا مطلب یہ نہیں۔ لیکن بہرحال ساری ذمہ داریاں وزارت یا صدارت کی سطح کی تو نہیں ہوتیں۔ آپ دیکھیے کہ ہمارے پاس کتنے ڈائریکٹر جنرل ہیں، گورنر ہیں، تحصیلدار ہیں، کارخانوں میں، ملک کی صنعتوں میں، یونیورسٹیوں میں، نوجوان آ کر کام کر سکتے ہیں اور ہمارا اس سلسلے میں بہت کامیاب تجربہ رہا ہے۔
یہ ڈھیروں کام جو ہم کر رہے ہیں، آپ کچھ سو یا زیادہ سے زیادہ دو ہزار لوگوں کے ساتھ تو نہیں کر سکتے۔ تو فطری بات ہے کہ یہ جوان ہی ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں نہ صرف فوج اور ہتھیاروں کے شعبے میں بلکہ معاشیات اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی کا راستہ ان نوجوانوں پر اعتماد اور انھیں موقع دینا ہے کہ وہ آ کر یہ مسائل حل کریں اور ہم نے بھی ان سے بھرپور فائدہ حاصل کیا ہے۔
سوال: رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقاتوں اور نشستوں کے بارے میں آپ کی کچھ اور یادیں ہیں؟
جواب: میں کچھ تو بیان کر چکا ہوں۔ البتہ ایسا نہیں کہ رہبر معظم ہر معاملے میں مداخلت کرتے ہوں یا مثال کے طور پر جو کام ہو رہا ہو اس کے بارے میں کوئی دوسری رائے دیں۔ کئی مواقع ایسے آئے جب ہم نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر رپورٹ دی تو انھوں نے فرمایا: "اسی راستے پر آگے بڑھو، جس راستے پر تم لوگ بڑھ رہے ہو، وہی درست ہے"۔ کچھ مواقع ایسے بھی تھے جب میں نے ان سے پوچھا کہ "آقا! کیا آپ ایرو اسپیس فورس سے مطمئن ہیں؟" تو انھوں نے فرمایا: "میں پوری سپاہ سے مطمئن ہوں، البتہ مختلف شعبوں میں فرق ہوتا ہے لیکن میں ایرو اسپیس فورس سے بہت مطمئن ہوں"۔ یہ بہت شیریں یادیں تھیں، ہمارے لیے یہ انتہائی خوشگوار یادوں کا حصہ ہیں کہ ہم آقا کی خوشی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ایسا نہیں ہے کہ رہبر معظم ایک نشست میں آئیں، کچھ گفتگو کریں اور بات ختم ہو جائے۔ وہ پوری اسٹڈی کر کے میٹنگ میں تشریف لاتے ہیں۔ بارہا ہم نے نشستوں میں دیکھا کہ وہ پچھلی رپورٹس اور تمام دستاویزات کو بغور پڑھتے ہیں۔ عام طور پر جب بعض افراد کے ساتھ میٹنگ ہوتی ہے تو وہ اپنی گھڑی دیکھتا ہے، بور ہونے لگتا ہے اور یہ رویہ انسان کو اکتاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن رہبر معظم ہر معاملے کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں، پہلے کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں، ان کی تدابیر سے واقف ہوتے ہیں اور ان کی نظروں کے سامنے کئی سال کا پورا عمل ہوتا ہے۔
سوال: آپ نے بتایا کہ آج ہماری فوجی پیشرفت رہبر معظم کی ہدایات پر عمل کا نتیجہ ہے، دیگر ذمہ داران کے لیے آپ کی کیا نصیحت ہے؟
جواب: ہمیں ان برسوں میں رہبر معظم کی رہنمائی، تدابیر اور قیادت سے جو تجربہ حاصل ہوا ہے، اس کے یپیش نظر میرا پختہ یقین ہے کہ مختلف شعبوں میں ان کی تجویز کردہ تدابیر اور ہدایات پر اگر ذمہ داران سنجیدگی سے عمل کریں تو ضرور ترقی کریں گے۔ یہاں تک کہ ماضی سے متعلق تدابیر بھی۔ میرا ماننا ہے کہ ہر وزیر کو چاہیے کہ اپنی وزارت سے متعلق رہبر معظم کی تیس سالہ تدابیر کو سامنے رکھے، ان رجحانات کا مطالعہ کرے اور ان سے استفادہ کرے۔
مطلب یہ کہ تمام شعبوں کے لیے رہبر معظم کی حکمت عملی موجود ہے۔ یہ ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔ دیکھیے! محض دوڑ دھوپ سے کام نہیں بنتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ہمیں 24 گھنٹے، 20 گھنٹے کام کرنا چاہیے! طے نہیں ہے، شاید یہ 20 گھنٹے کا کام ہمیں راستے سے بھٹکا دے۔ کچھ ذمہ داروں کا زیادہ کام درحقیقت زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں صحیح سمت میں، درست طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ راستہ درست ہونا چاہیے، بنیاد درست ہونی چاہیے، روڈ میپ درست ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں رہبر معظم کی یہ حکمت عملی ہمارے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اگر تمام شعبے ان تین دہائیوں کی ان حکمت عملیوں سے صحیح طور پر فائدہ اٹھائیں تو میرے خیال میں ملک کو ان شاء اللہ نجات حاصل ہو جائے گي۔
سوال: آپ کے خیال میں ملک کی میزائل انڈسٹری کی ترقی اور کامیابی کا راز کیا ہے؟
جواب: ایرو اسپیس فیلڈ میں ترقی اور کامیابی کا راز، جس میں میزائل ٹیکنالوجی بھی شامل ہے، سب سے پہلے یہ ہے کہ ہم نے مقررہ اہداف اور حکمت عملی پر وفاداری سے عمل کیا ہے۔ چاہے کمانڈرز بدلتے رہے لیکن سب نے اس راستے کی پابندی کی۔ دوسرے شعبوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ نیا عہدیدار پچھلے عہدیدار کے تمام کاموں کو مسترد کر دیتا ہے۔ اگر دس کاموں میں سے تین غلط بھی تھے، تو سات صحیح تھے - سب کو مسترد نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے اپنے راستے میں ضروری اصلاحات کی ہیں۔ میرا راستہ شہید مقداد، سردار سلامی یا دیگر کمانڈرز سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہم نے بنیادی ہدف سے وفاداری برقرار رکھی ہے۔ یہ ایک اجتماعی کوشش تھی جس میں سب شامل تھے اور سب کا پابند عہد تھے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارے پاس باصلاحیت منتظم موجود ہوں جن کی سوچ واقعی اچھی ہے۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ کوئی ماہر ہو، قابل ہو لیکن تمام منتظمین کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے۔ اگر سب ساتھ نہ ہوں اور ہم صرف احکامات جاری کریں، تو کام صرف اس وقت تک چلے گا، جب تک آپ ہیں، اس کے بعد ختم ہو جائے گا۔ ہم آج بھی شہید تہرانی مقدم کے کاموں کے سلسلے میں وفادار کیوں ہیں؟ اس لیے کہ وہ بیٹھتے تھے، ہم سے بات کرتے تھے، ہمیں اپنے ساتھ لیتے تھے اور چونکہ ہم مسائل کو اچھی طرح سمجھتے تھے تو شہید مقدم کی طرح ہی سوچتے تھے۔ یہ بات بہت فیصلہ کن ہے۔ اگر کوئی عہدیدار اکیلے بند کمرے میں خود ہی فیصلے کرے، تو نتائج غیر یقینی ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو کچھ چیزیں آتی ہوں، شاید ان پر آپ کا تسلط بھی ہو لیکن آپ آئیے، بیٹھیے، اپنے افراد سے بات کیجیے، ان کی رائے لیجکے۔ یہ تبادلۂ خیال، لوگوں کو جوڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے بیس یا تیس فیصد لوگ آپ کے فیصلے سے متفق نہ ہوں، لیکن وہ آپ کے وفادار رہیں گے۔