فکر و نظر

اقتصادی تعمیر و ترقی

پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرطاسلام اور اقتصادی ترقیترقی کا علاقائی نمونہاقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورتاسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہتعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوفتمام طبقات کا فریضہتعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیتتعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائلتعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل کام کام کی کیفیتاسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمتاقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ محنت کش طبقہ محنت کش کا تقدسمحنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرضمعاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمتسرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت خواتین تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردارعورتوں کی اقتصادی سرگرمیاںاسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں کفایت شعاری اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت روحانیت و معنویت اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت نظم و ضبط مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط تیل تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائےقومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت منصوبہ بندی اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ صحیح انتظام اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت خود اعتمادی تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت اصلاح اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت صنعت اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار قومی اتحاد قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط اقتصادی تعمیر و ترقی پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرط اسلامی جمہوریہ ملک کی تعمیر و ترقی اور ایران کو استبدادی دور کی پسماندگیوں سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس وقت سائنسی، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اور جدید کاری کی ہر کوشش مقدس اسلامی جمہوری نظام کی حقانیت کا ثبوت اور اس دعوے کے صحیح ہونے کی دلیل ہے لیکن ملک کی تعمیر و ترقی اور اقتصادی پیشرفت کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا جب وہ اسلامی اصولوں اور دینی طرز فکر پر استوار اور اسلامی انقلاب کے نعروں، اقدار اور امنگوں کی تقویت پر مرکوز ہو۔ اس صورت میں تعمیر و ترقی کی تحریک حقیقی اور ضمانت شدہ تحریک ہوگی اور ملک کو ترقی کے فریب میں مالیاتی و سیاسی و اخلاقی تنزلی اور انحصار کی کھائی میں نہیں لے جائے گی۔ ٹاپ اسلام اور اقتصادی ترقی اسلام قوموں کو خود مختاری اور آزادی عطا کرتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی میں انہیں آمروں، استبدادی طاقتوں اور کج فکری سے آزادی عطا کرتا ہے اور سامراج کے سیاسی دباؤ اور اقتصادی طاقت کے کمند سے بھی نجات دلاتا ہے۔ اسلامی قوموں کو سماجی انصاف پر مبنی رفاہ و اقتصادی آسودگی عطا کرتا ہے۔ وہ اقتصادی ترقی جو عوامی طبقات کے فاصلے کو بڑھائے اسلام کو پسند نہیں ہے۔ اقتصادی ترقی کا جو نسخہ آج مغربی ممالک پوری دنیا کے عوام کے لئے پیش کر رہے ہیں، جس سے کچھ طبقے تو عیش و عشرت میں پہنچ جاتے ہیں اور اقتصادی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ معاشرے کے کچھ دوسرے طبقے زیادہ غربت و افلاس اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اسلام کو پسند نہیں ہے۔ انصاف اور اخوت کے جذبے کے ساتھ اقتصادی خوشحالی اسلام کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے۔ ٹاپ ترقی کا علاقائی نمونہ اسلامی جمہوریہ میں ترقی کا نمونہ، عوام کے ایمان و عقیدے، ثقافتی و تاریخی حالات اور میراث کے تقاضے کے مطابق ایک مکمل مقامی اور ملت ایران سے مختص نمونہ ہے۔ کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ عالمی بینک کی، نہ آئی ایم ایف کی، نہ کسی بائیں بازو کے ملک کی، نہ دائیں بازوں کے ملک کی کیونکہ ہر جگہ کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور (دوسروں کے) مسلط کردہ اور اکثر و بیشتر منسوخ شدہ نمونوں کی تقلید کرنے میں بہت فرق ہے۔ ٹاپ اقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورت معاشرے میں حقیقی معنی میں اقتصادی ترقی کے لئے ثقافتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جب تک محقق اور علمی کاوشوں میں مصروف انسان کے اندر اپنے کام سے لگاؤ اور فرض شناسی کا جذبہ اس انداز سے پیدا نہ ہوگا جو صحتمند ثقافت میں پایا جاتا ہے تو اس محقق کا وجود بے فائدہ رہے گا۔ مشکلات و مسائل کے حل کے دو معیار، جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط ہیں۔ سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں منظم رہنا۔ جن لوگوں سے عوام رجوع کرتے ہیں وہ رجوع کرنے والے لوگوں سے اپنے برتاؤ میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور جن لوگوں نے کچھ کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ ان کاموں کی انجام دہی میں نظم و ضبط کے پابند رہیں۔ ان چیزوں سے ملک اور قوم میں شادابی آئے گی اور کام آگے بڑھیں گے۔ ٹاپ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ عالمی سامراج اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرے جس میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل یہ درجنوں ریڈیو اور ٹی وی نشریات یہ بات نہ دہرائیں کہ اسلامی جمہوریہ کی معیشت بحران میں اور زوال و تباہی و نابودی کے دہانے پر ہے۔ ہاں کیوں نہیں، بالکل بحران میں ہے لیکن صرف انہی کے لئے، ایران کے عوام کے لئے تو ایران کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جارحوں اور ان افراد کے لئے جو ایران کے وسائل سے استفادہ کرنے کی فکر میں بیٹھے ہیں یقینا ایرانی معیشت بحرانی ہے۔ ایرانی عوام کے لئے بھلا کیا بحران ہو سکتا ہے؟ وہ تو اپنے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں جو ملک سلطنتی دور میں، وہ پہلوی سلطنت کا دور رہا ہو یا قاجاریہ دور، دنیا کے دیگر ملکوں کے سامنے اتنا کہنے کی جرئت نہیں رکھتا تھا کہ ہم بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ تیار کر سکتے ہیں ہم بھی اقدام کر سکتے ہیں، جو تیسرے اور چھوتھے درجے کا پوری طرح منحصر ملک تھا اور جس کے عمائدین بڑی طاقتوں کبھی برطانیہ تو کبھی امریکا اور کبھی روس کے دست نگر ہونے پر فخر کرتے تھے! ٹاپ تعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوف ملت ایران اپنے ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جتنا اشتیاق رکھتی ہے دشمن اس سے اتنے ہی ہراساں اور خشمگیں ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ آباد اور مادی و روحانی رفاہ و فلاح سے مالامال معاشرے کی تعمیر میں ملت ایران کی کامیابی دوسری قوموں کے لئے اس عظیم ملت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب ثابت ہوگی اور اس کا مطلب ہوگا دنیا کی سامراجی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد پر خط بطلان کھینچ دینا۔ یہیں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراج کی سازشوں کا طولانی قصہ شروع ہوتا ہے۔ جنگ مسلط کرنا، اقتصادی محاصرہ، سامراج، رجعت پسندی اور صیہونزم سے وابستہ عالمی ذرائع ابلاغ میں دائمی جھوٹے پرچار، انقلاب مخالف عناصر، بائیں بازو یا دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر اور روسیاہ منافقین اور انہی جیسے افراد کی حمایت یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انقلابی ملت ایران کو تابناک مستقبل تک رسائی سے روک دیا جائے۔ ٹاپ تمام طبقات کا فریضہ اگر ایران ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے، رفاہ و اقتصادی رونق، ہمہ گیر پیشرفت، سیاسی عزت، سوشل سیکورٹی، روزگار کی سیکورٹی، سائنسی و تحقیقاتی ترقی اسی طرح روحانیت و معنویت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو دو چیزوں کو مد نظر رکھے۔ ان دو چیزوں کا خیال رکھنا تمام طبقات کا فرض ہے بالخصوص آگاہ طبقات کا۔ دوکاندار، کسان، صنعت کار، مزدور، طالب علم، استاد، علمی شخصیات اور دینی رہنما ان دونوں چیزوں پر توجہ دیں: ایک یہ ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں سب کے سب ایک ساتھ مل کر کوشش کریں اور دوسرے یہ کہ خودسازی کی بھی کوشش کریں۔  و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون  فلاح و نجات کا دار و مدار اس پر ہے کہ سارے لوگ اللہ تعالی کی جانب توجہ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور توسل کو نورانی راستے کے عنوان سے اپنائیں۔ دونوں میں کوئی ایک کافی نہیں ہے۔ ٹاپ تعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیت ملک کے حکام اور اعلی عہدہ داروں کی خود اعتمادی ایران کے انقلاب کی اقدار کا حصہ ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ ملک کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل عہدہ داروں میں اس خود اعتمادی اور اس نظرئے کی تقویت ہونا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسی سرزمین کے لوگ ملک کو ضرورت اور خواہش کے مطابق بلند ترین مقام پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ ممکن ہے کہ کبھی بعض عہدہ داروں اور ان لوگوں کی توجہ جو مختلف شعبوں میں مصروف کار ہیں، اقتصادی شعبے میں یا ثقافتی اور دیگر شعبوں میں، ان تجزیوں کی جانب مبذول ہو جو کسی دانشور اور مصنف کے نام سے کسی تحقیقاتی جریدے میں شائع ہوتے ہیں۔ (ممکن ہے کہ) یہ تجزیہ لوگوں کی نظروں کو اس طرح اپنی سمت مبذول کر لے کہ ان کی خود اعتمادی ختم ہو جائے اور ذہنوں کو اس پروگرام کی جانب سے غافل کر دے جو ملک کے زمینی حقائق کی بنیاد پر تیار کیا گيا ہے۔  یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اسکولی طلبہ کے اندر اسکول پہنچنے کے وقت سے اسی طرح یونیورسٹی کے طلبہ اور ان لوگوں میں جو نئے نئے وارد میدان ہوئے ہیں جذبہ خود اعتمادی کو اور اس فکر کو تقویت پہنچے کہ ملک کے مسائل کے سلسلے میں وہ اپنے ادراک، جذبات اور تجزیوں کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فلاں غیر ملکی تجزیہ نگار اور اخبار نویس نے لکھ دیا کہ ایران کو ترقی اور اقتصادی مسائل سے نجات کے لئے فلاں راستے پر چلنا چاہئے تو اسی کو وحی منزل مان لیا جائے۔ جہاں تک علمی و سائنسی نظریات کی بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جس کی زبان سے بھی نکلیں قابل توجہ ہیں لیکن یہ نہیں کہ انہیں آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا جائے بلکہ ان کا تجزیہ کرنے کے بعد یعنی انسان ایک بات کو لے اس کا ملک کے گوناگوں حالات کی روشنی میں جائزہ لے اور کے بعد اس پر عمل درآمد کرے۔ ٹاپ تعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائل تعمیر و آبادکاری کے دور میں کچھ اقتصادی مشکلات کا سامنے آنا فطری ہے۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر دگنا کوشش ہونا چاہئے۔ افراط زر کا مسئلہ کسی طرح حل کیا جانا چاہئے۔ ملکی کرنسی کی قدر کو مناسب تدبیروں اور بلا وقفہ کوششوں سے استحکام بخشنا چاہئے۔ البتہ یہ بنیادی قسم کے کام دراز مدت میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ البتہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ غافل ہوکر بیٹھ رہا جائے اور کم مدتی اور میانہ مدتی طریقوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہی ملکی کرنسی کی قدر ملک کے بہت سے مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ نچلے عوامی طبقات کی قوت خرید میں کمی اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ان کی عاجزی اسی مسئلے کا نتیجہ ہے۔ ٹاپ تعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں چونکہ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور کاموں میں کئی گنا اضافے، ثروت جمع کر لینے، اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا دور اور ایسا وقت ہے جس میں اگر کوئی اقتصادی سرگرمیاں کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے بنابریں ان حالات میں جو دنیا پرست لوگ ہیں جن کے دل دنیا کی رنگینیوں میں غرق ہیں جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم اور انقلاب کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے زراندوزی، دولت جمع کرنے، اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے اور عیش و عشرت کی جانب بڑھنے کے لئے راستہ کھلا ہوتا ہے۔ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور ملک کو بنانے سنورانے اور قوم کو ترقی کی منزلوں پر پہنچانے کا دور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دور معمولی لوگوں میں زراندوزی ، ذخیرہ اندوزی، تصنع، تعیش پرستی اور اقتصادی استحصال کی خو پیدا ہو جانے کا دور بھی ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے، عوام کو بھی اور حکام کو بھی۔ ٹاپ دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل Kazi کام کی کیفیت مزدوروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ نظام کی خدمت اور قوم کی اقتصادی پیشرفت میں اپنا کردار ادا کریں اور بہترین انداز میں معیاری مصنوعات تیار کریں۔ رسول اسلام سے منقول ہے کہ   رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنھ  یعنی رحمت خدا ہو اس شخص پر جو کاموں کو بنحو احسن انجام دے۔ مزدور اپنے کام بہترین شکل میں انجام دیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ خواہ سرکاری یا غیر سرکاری ٹھیکیدار مزدوروں کی کد و کاوش کا احساس کرے یا نہ کرے انہیں مناسب محنتانہ دے یا نہ دے ان کے کام پیش خدا محفوظ ہیں۔ البتہ طریقہ تو یہی ہے کہ مزدوروں کی محنت کا احساس کرکے انہیں مناسب محنتانہ دیا جائے۔ کام کی بنحو احسن انجام دہی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔ ٹاپ اسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمت قرآنی و اسلامی نقطہ نگاہ سے محنت و مشقت اور کام کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ اگرچہ کام صرف کارخانے، کھیت اور دیگر مقامات تک ہی محدود نہیں ہے تاہم جس عمل صالح پر قرآن میں اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان کاموں پر بھی اس کا اطلاق یقینا ہوتا ہے۔ یعنی جب کام کرنے والا احساس ذمہ داری کے ساتھ کام انجام دیتا ہے، جذبہ عمل کے ساتھ کام کرتا ہے، سنجیدگی و تندہی کے ساتھ عمل کرتا ہے، خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور کام کرتے وقت ایک کنبے کے آذوقے کی فراہمی کی نیت ذہن میں رکھتا ہے تو یہی عمل صالح بن جاتا ہے۔   الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات  یہ عمل صالح کا مصداق بن جاتا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کام کر رہا ہے کیونکہ اس کی زندگی اسی کام سے وابستہ ہے اور یہی کام عمل صالح کا مصداق بھی بن جائے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ قرار دیا گيا ہے۔   آمنوا و عملوا الصالحات ٹاپ اقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ اقتصادی ترقی میں کام کی ترغیب دلائی جانی چائے۔ کام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یوں تو سرمایہ کاری کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا لیکن سرمایہ کاری کام کا ایک ستون ہے، اس کی بنیاد اور اساس مزدور کی محنت ہے۔ کام میں اگر لگاؤ، مہارت، لگن اور دشواریوں کے تحمل کرنے کا جذبہ نہ ہو تو اس سے ملک کو نجات کے ساحل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کیفیت والے کام کے بغیر ملک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں اسے پہنچنا ہے۔  ملت ایران آج اقتصادی خود انحصاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تیل پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کوشش میں ہے کہ ملک کی معیشت کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جائے کہ (عالمی منڈیوں میں) تیل کی قیمت کی گراوٹ کا ملک کے اندر (منفی) اثر نہ پڑے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ ملت ایران اگر خود کو تیل سے بے نیاز کرنا چاہتی ہے تو کام اور کام کے نقطہ نگاہ پر توجہ دئے بغیر یہ چیز ممکن نہیں ہوگی۔ ٹاپ محنت کش محنت کش کا تقدس عرف عام میں محنت کش کے لفظ کا ایک تقدس ہونا چاہئے۔ محنت کش کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ محنت کش وہ انسان ہے جو اس لئے کام کر رہا ہے کہ قوم اور ملک خود مختاری کی نعمت سے بہرہ مند ہو۔ یہ خیال تمام لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جانا چاہئے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ محنت کش کی کتنی اہمیت ہے۔ محنت کش طبقے کا ملک میں بہت اہم کردار ہے۔ پیداوار کا اصلی بوجھ محنت کش طبقے کے دوش پر ہے۔ یہ محنت کش کا عنوان ان تمام افراد پر صادق آتا ہے جو ملک کی ترقی، ملکی پیداوار میں اضافے اور ملک میں کام کی صورت حال کی بہتری کے لئے محنت و مشقت کر رہے ہیں۔  اسلامی معاشرے میں اسلامی عہدہ داران کام اور محنت کشوں کے بارے میں بڑے احترام سے بات کرتے ہیں یہ محض لفاظی اور تکلفات نہیں ہیں۔ دنیا میں یقینا ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیان بازی کی حد تک مزدوروں سے بڑی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں لیکن اس شخص میں جو لوگوں میں مقبولیت بڑھانے کے لئے نعرے دیتا ہے اور اس شخص میں جو کام کو حقیقت میں عمل صالح کا درجہ دیتا اور اسے مقدس سمجھتا ہے بہت فرق ہے۔ یہی آخر الذکر اسلام کا نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی محنت کش (کام کے وقت) عبادت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا کام عبادت ہے۔ ٹاپ محنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرض یقینا اسلامی جمہوری نظام کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ محنت کش طبقے کو، جو ملک کی پیداوار اور معیشت کا پہیہ گھمانے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے، اس کے انسانی و اسلامی حقوق سے بہرہ مند کرے۔ محنت کشوں کی زندگی میں مادی و معنوی لحاظ سے بہتری آئے۔ مناسب قوانین کے اجراء اور روزگار کے نئے نئے مواقع ایجاد ہونے کے بعد ایرانی معاشرے میں غربت باقی نہیں رہنا چاہئے۔ مزدور جو معاشرے کے مستضعف طبقے میں شامل ہیں معاشی ترقیاتی منصوبوں میں انہیں ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر محنت کشوں کی ضروریات پوری ہوں تو کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔ ٹاپ معاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت ملک کی خود مختاری کام پر موقوف ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم کام کے سلسلے میں بے توجہی، بیکاری اور تعیش پسندی کے ساتھ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ کسی ایک شعبے سے آمدنی ہو رہی ہو اور بظاہر عیش کے ساتھ زندگی گزر رہی ہو، غیر ملکی اشیاء معاشرے میں اٹی پڑی ہوں لیکن (معاشرہ) خود مختاری سے محروم ہوگا۔ خود مختاری کی نعمت سے مالامال قوم کے وقار کا دار و مدار کام پر ہی ہوتا ہے۔ یہ ہے کام کی قدر و قیمت۔ اسلامی نظام اس نقطہ نگاہ سے محنت کش طبقے کو دیکھتا ہے اور اسی نقطہ نگاہ کے تحت محنت کشوں کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ جس نے بھی کسی مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اس نے بالکل صحیح عمل انجام دیا ہے کیونکہ (ایسا کرکے) اس نے اپنی قوم اور اپنے ملک کی خود مختاری کے ایک اہم عامل اور عنصر کا احترام کیا ہے۔ کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے۔ ٹاپ سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں مزدور محض ایک وسیلہ ہوتا ہے، کام کروانے والے کی خدمت کا ایک ذریعہ۔ محنت کش طبقے کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نابود شدہ اشتراکی مکتب فکر میں امپلائر اور محنت کشوں کے ما بین جنگ اور ٹکراؤ کی کیفیت ہوتی تھی۔ یہ (اشتراکی) نظام اسی جنگ کی روٹی کھاتے تھے اور خود کو محنت کش طبقے کا حامی و طرفدار کہتے تھے۔ اس زمانے میں سابق سویت یونین کے نام نہاد اشتراکی نظام میں وہی سرمایہ داری کی بساط بچھی ہوئی تھی، وہی اسراف ہو رہا تھا، وہی گوناگوں مالی بد عنوانیاں تھیں البتہ مزدور اور محنت کش طبقے کی حمایت و دفاع کے نام پر۔ ان کی روش ٹکراؤ اور تنازعے کی روش تھی۔ اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ان دونوں میں سے کسی بھی روش سے متفق نہیں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ امپلائر اور کام کے مواقع ایجاد کرنے والوں کا وجود ایک بازو ہے تو افرادی قوت دوسرا بازو۔ ان دونوں کا وجود اور باہمی تعاون ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری، تعاون کے لئے ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کی ایک لکیر کھینچنا ہے تاکہ کوئی بھی دوسرے کے حقوق پر تجاوز نہ کرے۔ اگر یہ صورت حال ہو تو معاشرہ پوری صحتمندی کے ساتھ حرکت کرے گا۔ نہ اسراف اور فضول خرچی کا چلن ہوگا اور نہ ایک طبقے کی محرومی کو اس طبقے کی (تقدیر اور) ثقافت کا جز تصور کیا جائے گا۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کی منطق و روش ہے۔ ٹاپ خواتین تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردار اسلامی ملک کی تعمیر و آبادکاری کے دور میں، جب قوم اور حکام اس کوشش میں ہیں کہ عظیم مملکت ایران مادی لحاظ سے بھی، سماجی نظم و ضبط کے لحاظ سے بھی اور روحانی و معنوی اعتبار سے بھی حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرے، سب سے زیادہ انحصار افرادی قوت پر ہے۔ یعنی اگر کوئی ملک حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ تکیہ، توجہ اور ارتکاز افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہو تو ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت ملک کی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے بارے میں غلط نقطہ نگاہ اپنایا جائے تو وسیع سطح پر حقیقی تعمیر و آبادکاری ممکن نہیں ہوگی۔ خود خواتین کو بھی عورت کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کی پوری واقفیت و آگاہی ہونا چاہئے اور معاشرے کے تمام لوگ اور اسلامی ملک کے تمام مرد بھی یہ سمجیں کہ عورت کے تعلق سے اسلام کا نظریہ، زندگی کے شعبوں میں عورت کے کردار، فعالیت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجی، سیاسی اور علمی امور سے متعلق کوششوں، گھر کے اندر اور گھر کے باہر عورت کے کردار کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟  مسلمان مرد کی طرح مسلمان عورت کو بھی یہ حق ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق جو فرائض اپنے دوش پر دیکھے انہیں پورا کرے اور جو خلا محسوس کرے اسے بھرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اگر کوئی لڑکی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے یا اقتصادی سرگرمیاں انجام دینا چاہتی ہے اور دیگر علمی موضوعات پر کام کرنا چاہتی یا یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس میں دلچسپی رکھتی ہے، یا سیاسی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے یا نامہ نگار بننا چاہتی ہے تو اس کے لئے دروا‌زے کھلے ہونا چاہئے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و پاکیزگی اور مرد و زن کے عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ مرد و عورت دونوں کے لئے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔ اس کا ثبوت اس موضوع کی وہ اسلامی تصنیفات ہیں جو (اس وقت بھی) موجود ہیں۔ تمام اسلامی احکامات میں مرد و زن کو یکساں طور پر سماجی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔  عورتوں کو بھی مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلام کے معاملات اور دنیا میں در پیش مسائل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ (ان کا) اسلامی فریضہ ہے۔ ٹاپ عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے سیاسی، اقتصادی اور علمی سرگرمیوں اور محنت و مشقت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی نظرئے کو بنیاد قرار دیکر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کرے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کی کوشش کرے یا سیاسی و سماجی کردار سے محروم کرنے کا ارادہ رکھے تو اس نے حکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے۔ عورتیں اپنی جسمانی توانائی اور ضرورتوں اور احتیاج کے مطابق سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ البتہ چونکہ جسمانی لحاظ سے مرد کے مقابلے میں عورت نازک ہوتی ہے اس لئے اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر بھاری کام مسلط کرنا اس کے حق میں نا انصافی ہے۔ اسلام اس کا مشورہ نہیں دیتا، البتہ (واضح طور پر) منع بھی نہیں کرتا۔ ہاں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلاۃ و السلام سے (اس سلسلے میں) ایک روایت منقول ہے :   المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ  یعنی عورت پھول ہے قھرمان نہیں۔ قہرمان آبرومند خادم کو کہتے ہیں۔ (مولا) فرماتے ہیں کہ آپ کے گھروں میں عورتیں لطیف پھول کی مانند ہیں ان سے بہت توجہ اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ عورت آپ کی خادمہ نہیں ہے کہ آپ بھاری اور محنت کے کام اس کے ذمے کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ٹاپ اسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں سماجی سرگرمیوں کے میدان میں جس میں اقتصادی سرگرمیاں، سیاسی سرگرمیاں، علمی سرگرمیاں، تعلیمی سرگرمیاں، تدریسی سرگرمیاں، راہ خدا میں جد و جہد، سب شامل ہیں، زندگی کے ان تمام میدانوں میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی معاشرے سے متعلق تمام سرگرمیوں اور جملہ کارہائے زندگی میں عورت اور مرد کو (فعالیت کی) یکساں اجازت دی گئی ہے۔ البتہ کچھ کام ہیں جو عورتوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ ان کی جسمانی ساخت کے مطابق نہیں ہیں، بعض کام ہیں جو مردوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے مزاج اور جسمانی ساخت سے میل نہیں کھاتے۔ اس چیز کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سماجی سرگرمیوں کے میدان میں موجود رہ سکتی ہے یا نہیں۔ کام کی تقسیم وسائل، شوق و جذبے اور کام کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر عورت کو دلچسپی ہے تو وہ گوناگوں سماجی سرگرمیاں اور معاشرے سے متعلق کام انجام دے سکتی ہے۔  اب کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دیکر عورت کو اقصادی اور سماجی سرگرمیوں سے روک دے تو یہ غلط ہے۔ اسلام نے ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو طاقت فرسا کاموں، دشوار اقتصادی، سیاسی یا سماجی امور کی انجام دہی پر مجبور کیا جائے۔ یہ جو بعض افراد کہتے ہیں کہ عورت ہر حال میں کام کرے اور پیسہ کمائے، غلط ہے۔ یہ چیز خلاف شریعت تو نہیں لیکن اسلام ان چیزوں کی سفارش بھی نہیں کرتا۔ اسلام کا نقطہ نگاہ اعتدال پسندانہ نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی اگر عورت کے پاس فرصت اور وقت ہے، بچے کی پرورش رکاوٹ نہیں بن رہی ہے اور اس میں جسمانی طاقت و توانائی اور شوق و جذبہ بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ ہر صورت میں کام کرے اور روزانہ فلاں مقدار میں پیسہ کمائے تاکہ اس کی آمدنی سے گھر کے خرچ کا ایک حصہ پورا ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام نے عورتوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس چیز کو عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں عورت کے ساتھ کوئی اجبار و اکراہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے سد راہ بننا چاہئے۔ اگر خواتین سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ علمی سرگرمیاں بہت بہتر ہیں اور انہیں دیگر سرگرمیوں پر ترجیح حاصل ہے۔ ٹاپ کفایت شعاری اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت کفایت شعاری کا مطلب خرچ نہ کرنا نہیں ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب صحیح خرچ کرنا، بجا خرچ کرنا، سامان ضائع نہ کرنا، استعمال کو کارآمد اور ثمر بخش بنانا ہے۔ مال اور معیشت میں اسراف یہ ہے کہ انسان مال خرچ کرے اور اس کا کوئی فائدہ اور نتیجہ بھی نہ ہو۔ بے مقصد خرچ کرنا در حقیقت مال کو ضائع کرنا ہے۔ معاشرے میں پیداوار اور خرچ کے ما بین مناسب تناسب ہونا چاہئے۔ تناسب پیداوار کے حق میں ہونا چاہئے یعنی معاشرے کی پیداوار معاشرے کے خرچ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ معاشرہ ملک کی پیداوار سے استفادہ کرے اور جو بچ جائے اسے ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں متعدد مقامات پر معاشی امور میں اسراف سے گریز پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے۔ اسراف سے اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ثقافت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اگر معاشرہ اسراف کی بیماری سے دوچار ہو جاتا ہے تو ثقافتی لحاظ سے بھی اس پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنابریں کفایت شعاری اور اسراف سے پرہیز کا مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی مسئلہ کے ساتھ ساتھ سماجی مسئلہ بھی ہے اور ثقافتی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل کے لئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ٹاپ روحانیت و معنویت اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت اسلامی انقلاب آیا تاکہ ملت ایران کو حیات طیبہ کا تحفہ پیش کرے۔ حیات طیبہ یعنی وہ چیز جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے فلنحیینھ حیاۃ طیبۃ اس انقلاب کا یہ نصب العین اور ثمرہ ہے۔ حیات طیبہ یعنی یہ کہ معاشرہ مادی اور روز مرہ کی زندگی کے لحاظ سے رفاہ و آسائش، تحفظ و سلامتی، علم و دانش، سیاسی وقار، اقتصادی خود مختاری، مالیاتی چہل پہل اور اقتصادی رونق سے بہرہ مند رہے اور معنوی و روحانی لحاظ سے بھی با ایمان، خدا شناس اور پرہیزگار انسان جو اعلی الہی اقدار و اخلاقیات سے آراستہ ہوں اس میں زندگی بسر کریں۔ یہی حیات طیبہ ہے۔  دنیا میں بعض جگہوں پر اقتصادی چہل پہل اور مادی رفاہ و آسائش تو کسی حد تک نظر آتی ہے لیکن روحانیت ناپید ہوتی ہے۔ جب معاشرے میں روحانیت نہ ہو تو اقتصادی آسودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے نہ تفریق ختم ہوتی ہے، نہ سماجی انصاف قائم ہوتا ہے، نہ بھکمری مٹتی ہے اور نہ بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ صرف اقتصادی چہل پہل ہی تو ملک کا سب کچھ نہیں ہے۔  آپ امریکی قوم کو دیکھئے! اقتصادی سرگرمیوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی پیداوار بہت زیادہ ہے، ان کی علمی و سائنسی ترقی بہت زیادہ ہے، ان کے کارخانے (باقاعدگی سے) سے کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنی مصنوعات صادر کر رہے ہیں اور ملک کی آمدنی بڑی اچھی ہے۔ لیکن یہ قوم اس اقتصادی ترقی سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اس ملک میں روحانیت ہے نہ سلامتی، نتیجے میں خود کشی اور نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہروی بہت زیادہ ہے۔ بچے بارہ تیرہ سال کی عمر سے قتل کرنا سیکھ جاتے ہیں، خاندان بکھرتے جا رہے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے لئے تکیہ گاہ تصور نہیں کر سکتے۔ نہ عورت کو اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا شوہر ہے اور نہ شوہر کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی بیوی موجود ہے! خاندان والی بات ہی نہیں ہے۔  آج خود امریکی کہتے ہیں، ان کے جرائد لکھتے ہیں، روشن فکر افراد اور سیاستداں حضرات کہتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں روحانیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں دین و ایمان نہیں ہے۔ اقتصادی آسودگی کسی حد تک ہے لیکن یہ اقتصادی رفاہ و آسودگی بھی ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اس ملک کی آمدنی بنیادی طور پر ایک مخصوص گروہ کے پاس جاتی ہے بقیہ افراد کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا۔  یہ اس معاشرے کا حال ہے جس کے پاس مادیت ہے لیکن معنویت و روحانیت نہیں ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دینا چاہتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مادیت بھی ہو اور معنویت بھی، پیسہ و رفاہ بھی ہو اور دین و ایمان بھی، معاشرے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت بھی ہو اور اخلاقی و روحانی ارتقاء بھی ہو۔ یہ ہے اسلام کی حیات طیبہ۔ ٹاپ نظم و ضبط مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط مالی نظم و ضبط یعنی زیادہ روی اور اسراف کا مقابلہ۔ چیزوں کے استعمال اور پیسے کے خرچ میں زیادہ روی، فضول خرچی اور اسراف بالکل اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جود و سخاوت ہے نہ کرم و عطا، یہ محض اقتصادی بد نظمی ہے۔ جو لوگ بلا وجہ خرچ کرتے ہیں، زیادہ خرچ کرتے ہیں، چیزوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں، اقتصادی وسائل کے لحاظ سے معاشرے کی حالت کا خیال نہیں رکھتے وہ مالی و اقتصادی نقطہ نگاہ سے بد نظم لوگ ہیں۔ ذاتی سرمائے اور حلال راستے سے کمائے گئے پیسے کا بھی بے تحاشہ خرچ نظم و ضبط کے منافی ہے۔ جو لوگ سرکاری مال اس طرح استعمال کرتے ہیں وہ تو اور بھی بدتر ہیں۔ حکام عوامی سرمائے کو ایسی جگہ خرچ کرنے سے شدت سے اجتناب کریں جو ترجیحات میں شامل نہیں ہے، ممکن ہے وہاں ضرورت ہو لیکن وہ ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ جب ترجیحی ضرورت اور غیر ترجیحی ضرورت کا معاملہ ہو تو اجتناب کریں۔ جہاں ضرورت اور احتیاج نہیں ہے وہاں کی تو خیر بات ہی اور ہے۔ اس جگہ بھی جہاں ضرورت و احتیاج ہے لیکن کسی دوسری جگہ اس سے زیادہ ضرورت ہے تب بھی وہاں پیسہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ یہ پیسہ وہاں لگایا جائے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔ ٹاپ تیل تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائے میری سب سے بڑی آرزوی، جو ممکن ہے کہ اتنی جلدی پوری نہ ہو سکے، یہ ہے کہ ایران تیل کے کنؤوں کو بند کر دے اور تیل سے ہٹ کر دیگر مصنوعات اور پیداوار پر اپنی معیشت کی بنیاد رکھے۔ یعنی یہ فرض کر لیا جائے کہ ایران کے پاس تیل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ کام چند برسوں میں اور اتنی جلدی انجام نہ پا سکے کیونکہ ایران میں بد عنوان اور پٹھو پہلوی حکومت کے دور میں دشمنوں نے بے حد تباہی مچائی ہے اور ملت اور ملک کو اس طرح تیل پر منحصر کر دیا ہے کہ یہ کام آسانی سے انجام نہیں پا سکے گا۔ تاہم کبھی نہ کبھی یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے اور وہ ایسا دن ہوگا جب ملت ایران اپنا سرمایہ مفت میں ان لوگوں کو دینے کے بجائے جو خباثت آمیز انداز میں ملکوں کے سرمائے استعمال کر رہے ہیں، اپنے ذاتی وسائل کی بنیاد پر اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوگی۔  افسوس کہ یہ کام اس وقت ممکن نہیں ہے۔ اس وقت تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک کی خیانتوں اور عالمی لٹیروں کے ساتھ ان کی سازباز کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تیل ان ممالک کے لئے جو تیل پیدا کرتے ہیں نفع بخش اور سیاسی و اقتصادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہو، (تیل کے صارف) ممالک کا حربہ بنا ہوا ہے! بالکل اس سامان کی مانند جس کی کوئی مانگ اور ضرورت باقی نہ گئی ہو! جبکہ تیل ایسی چیز ہے کہ اگر آج اس کی فروخت بند کر دی جائے تو دنیا میں روشنی، حرارت اور صنعتی حرکت رک جائے گی۔ آج کی صنعتی تہذیب کی بنیاد مشینیں ہیں۔ اگر تیل نہ ہو تو یہ مشینیں ٹھپ پڑ جائیں گی۔ تیل کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔ ٹاپ قومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت ایرانی قوم اور معیشت کو تیل سے الگ ہونا چاہئے۔ کیونکہ بد قسمتی سے آج دنیا میں تیل، لٹیری، پوری دنیا کو ہڑپ لینے کی خواہشمند اور سامراجیوں سے وابستہ کمپنیوں کی سیاست کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ در حقیقت تیل انہی کی مٹھی میں ہے۔ جب چاہتی ہیں تیل کی قیمت کم کر دیتی ہیں، اس کی پیداوار میں کمی یا زیادتی کر دیتی ہیں۔ تیل تو ان ملکوں کی دولت ہے جو اس کے ذخائر کے مالک ہیں لیکن اس کی پالیسیاں دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں۔  تیل سے بے نیاز معیشت پر تکیہ ایک، دو سال اور پانچ سال میں ممکن نہیں ہے۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ملک کے حکام امور مملکت کو چلانے کے لئے، مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے، امپورٹ اور سروسز کے لئے، تعلیم و تربیت اور کرنٹ بجٹ کے لئے، تیل فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں جو ملت ایران کا سرمایہ ہے۔ اس کے بدلے گیہوں اور دودھ کا پا‎ؤڈر امپورٹ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ خشت کج ہے جو پہلوی حکومت میں ( معروف شعر کی جانب اشارہ ہے: خشت اول چون نہد معمار کج، تا ثریا می رود دیوار کج) رکھی گئی ہے۔ پہلوی سلطنت نے جو دسیوں خیانت آمیز کام کئے ان میں ایک یہ ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کو تیل پر منحصر کر دیا۔ اس صورت حال کو آسانی سے بدلا نہیں جا سکتا۔ ٹاپ منصوبہ بندی اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ حکومت کے اقتصادی منصوبوں میں جو نقص بڑی آسانی سے نظروں میں آ جاتا ہے یہ ہے کہ تیاروں کے آغاز سے حکومت کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک کے درمیانی وقفے میں معاشرے کے کمزور طبقے کو بڑی دشواریاں تحمل کرنا پڑ جاتی ہیں۔ یہ چیز صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالسیوں کے بارآور ہونے اور مانگ اور پیداوار میں توازن قائم ہونے تک، وہ وقت آنے تک جب سارے لوگ پیداوار سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں ممکن ہے کچھ فاصلہ ہو۔ اس فاصلے میں یہ (کمزور) طبقے سختیاں برداشت کرتے ہیں۔ ٹاپ صحیح انتظام اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت ایران معقول اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے پر قادر ہے۔ یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ کام نہیں ہو پائے گا، پیشرفت ممکن نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہے، یہ غلط نظریہ اور خود اعتمادی کی کمی ہے۔ ہمدرد و کارآمد انتظامی سسٹم، فرض شناسی اور انسانی صلاحیتوں اور استعداد کے استعمال سے بند دروازوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی فرض شناس، مومن اور ہمدرد انتظامی عہدہ دار تھے اور انہوں نے عوام اور اسلامی نظام کے تعلق سے اپنے فرائض، اپنی عقل و تدبیر اور ایمان و اخلاص کے مطابق کام کیا وہاں اسلامی نظام کو کامیابیاں ملیں۔ ایران بعض پیچیدہ ترین صنعتوں کے میدان میں بھی کہ ایک وقت ایسا تھا جب ملک کے صنعت کار اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، اپنی انتظامی صلاحیتوں اور درست اقدامات کی بنا پر مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بہت سے حریف، دشمن اور اغیار اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی تو انہیں یقین آئے گا، چونکہ وہ اس کے اثرات گوشہ و کنار میں دیکھ رہے ہیں۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ایران کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے؟! (مسلط کردہ) جنگ کے زمانے میں ایران معمولی ترین فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں مشکلات سے دوچار تھا لیکن آج بہت سے انتہائی پیچیدہ ساز و سامان بھی، جو بہت سے ایسے ممالک کے پاس بھی نہیں ہیں جن کے پاس اس صنعت کا ایران سے زیادہ تجربہ ہے، انہی فرض شناس جوانوں اور با اخلاص انتظامی عہدہ داروں نے دفاعی صنعت کے شعبے میں تیار کر لیا ہے۔ صنعتی توانائی و استعداد کو محدود نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ایک جگہ پر صلاحیت و توانائی ہے تو اسے پوری صنعت میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ دیگر پیداواری شعبوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ ملک میں درجنوں ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ انقلاب کے اوائل میں ایک ڈیم میں رساؤ تھا۔ اس وقت بعض افراد جمع ہوئے اور انہوں نے یہ فیصلہ سنایا کہ جن انجینئروں نے اس ڈیم کی تعمیر کی ہے انہیں فلاں یورپی ملک سے بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس رساؤ کو روکیں۔ لیکن با ایمان و فرض شناس جوانوں نے اور ایران کے جذبہ ہمدردی سے سرشار انہی انتظامی عہدہ داروں نے ان چند برسوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ بنابریں امور کی باگڈور فرض شناس اور جذبہ ہمدردی سے سرشار منتظمین کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ بلند ہمتی، فرض شناسی، ایمان، اسلامی نظام پر عقیدہ اور الہی محاسبے کا خوف منتظمین کے اندر ضروری ہے تاکہ یہ کام انجام پا سکیں۔ ٹاپ خود اعتمادی تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت ملک کے حکام اور انتظامی امور کے ذمہ داروں میں خود اعتمادی کا موضوع ایران کے انقلاب کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو سکتی ہیں۔ ملک کے مختلف شعبوں میں مصروف کار عہدہ داروں کے اندر خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ، ملت ایران اور اس ملک کے افراد اسے بلندیوں کے نقطہ کمال پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے ڈیم کو، جو کرخہ ڈیم ہے، سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے تعمیر کیا ہے۔ اس سے چند سال قبل جب کرخہ ڈیم کی تعمیر ہو رہی تھی میں نے جاکر اس کا معاینہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ ڈیم کے روبرو پہاڑ کے اوپر جلی حروف میں، جو کئی کلومیٹر کے فاصلے سے پڑھا جا سکتا تھا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا یہ جملہ لکھا ہوا تھا ہم انجام دے سکتے ہیں جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں۔ ٹاپ اصلاح اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت اصلاح ایک لازمی اور ضروری حقیقت ہے، ملک میں اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اصلاح تو ایران کے نظام کی دینی و انقلابی ماہیت و تشخص کا جز ہے۔ اگر بدلتے حالات کے ساتھ اصلاح انجام نہ دی جائے تو نظام تباہ ہو جائے گا، غلط راستے پر چل پڑے گا۔ اصلاح ایک فریضہ ہے۔ خود اصلاح ایک لازمی عمل ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اگر اصلاحات نہ ہوں تو دولت کی تقسیم غیر منصفانہ انداز میں انجام پاتی ہے، غربت پھیلتی ہے، زندگی دشوار ہو جاتی ہے، ملک کے ذخائر کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا، بڑے دماغ فرار ہونے لگتے ہیں اور جو دماغ باقی رہ جاتے ہیں ان سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر اصلاحات ہوں تو یہ آفتیں، یہ نقصانات اور ایسی ہی دیگر درجنوں مصیبتیں پیش نہیں آتیں۔ ٹاپ صنعت اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار ملکی معیشت کی ترقی کا ہراول دستہ صنعتی شعبہ ہوتا ہے۔ صنعتی شعبے کو بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ، انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر، عوامی سرمائے کے لئے میدان کھول کر اور راستہ صاف کرکے، تاکہ عوام صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں، صنعتی شعبے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ متعلقہ حکام کے سسٹم میں مالیاتی و اقتصادی بد عنوانی ملکی معیشت کے پیکر میں سرایت کر جاتی ہے لہذا اس کا سد باب کر دیا جانا چاہئے۔ سد باب کی اس کوشش کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ چیز اچھے سرمایہ کاروں کے اطمینان خاطر اور احساس تحفظ کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ سرمایہ کار غلط فائدہ تو اٹھانے کی فکر میں رہتا نہیں وہ نفع کمانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرتا ہے نفع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، یہ نفع جائز ہے۔ جائز اور ناجائز فائدے و منافع کے درمیان فرق واضح ہونا چاہئے۔ ناجائز فائدے اور منافع کا سد باب کیا جانا چاہئے جو بنیادی طور پر فرائض کے سلسلے میں بے توجہی، ہمدردی کے جذبہ سے دوری اور گوناگوں لغزشوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اسمگلنگ کا صحیح معنی میں مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ ٹاپ قومی اتحاد قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط اگر کوئی قوم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ معاشی میدان میں قدم رکھتی ہے تو یقینی طور پر پیشرفت کرتی ہے۔ اسے جنگ در پیش ہو اور وہ میدان میں اترے تو وہاں بھی اس کی فتح ہوتی ہے۔ قومی اتحاد کے ذریعے قومی وقار کی بہتر طور پر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قوم ہو وہ قومی اتحاد کے زیر سایہ اپنے تمام اہم مقاصد اور بلند اہداف کی تکمیل کر سکتی ہے۔ اختلاف، تفرقہ و انتشار، دلوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوری و جدائی، حلقوں، جماعتوں، گروہوں، افراد اور شخصیات کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دینا، اس سے کوئی بھی خدمت نہیں کی جا سکتی، اس سے کوئی بھی مدد نہیں مل سکتی۔ ٹاپ