اس بھیانک حملے کے کچھ گھنٹوں بعد، امریکی وزارت دفاع نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اعلان کیا: "یہ قدم ٹرمپ کے حکم سے اور ایران کے مستقبل کے حملوں کو روکنے کے لئے اٹھایا گيا ہے۔"  امریکہ نے شہید قاسم سلیمانی کے قتل کے لئے اپنا یہ دعوی 8 جنوری  سن 2020 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں بھی دوہرایا اور کہا تھا کہ یہ قدم دفاع کے قانونی حق کے تحت انجام دیا گیا تھا۔

 

1. امریکی قدم، دفاع کے قانونی حق کے اصول کے خلاف

امریکہ، شہید قاسم سلیمانی کے قتل کے لئے دفاع کے حق کے اصول کی بات ایسے حالات میں کر رہا ہے کہ جب امریکہ کے اس دہشت گردانہ قدم سے قبل ایران کی جانب سے امریکہ پر کوئي حملہ نہيں ہوا تھا۔ اس لئے ایک قریب الوقوع مسلحانہ حملہ روکنے کے لئے دفاع کے قانون حق کا حوالہ دینا قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کے منشور کی 51 ویں شق میں دفاع کے قانونی حق پر عمل کے لئے مسلحانہ حملہ شرط قرار دیا گیا ہے۔

اگر دفاع کے قانونی حق کے امریکی دعوے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی امریکہ  دفاع کے قانونی حق کے لئے ضروری تین عناصر، یعنی "تناسب" "فوریت "  اور "ضرورت " کو نظر انداز کرکے اپنا یہ حق استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ دفاعی فوجی قدم، جلد حملہ کرنے والے اشخاص کے خلاف ہونا چاہئے جبکہ جنرل قاسم سلیمانی عراق کی جانب سے سرکاری دعوت پر اس ملک گئے تھے اور ایک سرکاری ایلچی کی شکل میں وہ ایران کی جانب سے ایک پیغام لے کر عراق پہنچے تھے۔

دوسری طرف یہ بھی قابل غور ہے کہ امریکی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئي ثبوت پیش نہیں کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ایران خاص طور پر جنرل قاسم سلیمانی، امریکہ کی سفارتی عمارتوں اور قونصل خانے پر ماضی میں ہونے والے کسی بھی حملے میں یا حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ یہاں تک کہ امریکی کانگریس میں پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ میں بھی ٹرمپ حکومت کے دعوؤں پر شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "سرکاری حکام نے ایسا 'دعوی' کیا ہے کہ جنرل سلمیانی ایک قریب الوقوع حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ جس سے امریکیوں کی جان کو خطرہ لاحق تھا لیکن کانگریس کے کچھ اراکین کی جانب سے پیش کئے گئے خفیہ دستاویزات اور ثبوتوں کا واضح طور پر انکار کیا گیا ہے۔"

 

2. طاقت کے استعمال کے حق کے تناظر میں امریکی قدم

طاقت کے استعمال کے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے تناظر میں،  جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کا امریکی قدم غیر قانونی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ قدم اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق طاقت کے استعمال کے اصول کے خلاف ہے اور اسی طرح اس منشور میں مذکور کچھ خاص حالات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جن کے تحت طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئي ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ امریکہ کے اس حملے کے لئے سلامتی کونسل کی جانب سے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کی گئی تھی اور اسی طرح یہ حملہ، دفاع کے قانونی حق کے لئے مذکور تمام شرطوں سے خالی تھا۔ یعنی ایران کی جانب سے کوئي مسلحانہ حملہ نہیں ہوا تھا اور ایران کی جانب سے قریب الوقوع حملے کا امریکی دعوی بھی ثابت نہیں کیا جا سکا کہ جس کے بعد امریکہ کو ممکنہ حملہ روکنے کے لئے دفاع کا حق حاصل ہو جاتا۔  

 

3.امریکی قدم عراق کے ساتھ سن 2008 کے سیکورٹی معاہدے کی خلاف ورزی

عراق اور امریکہ کے درمیان ہونے والے سیکورٹی معاہدے کی شق نمبر4  کے مطابق معاہدے کی بناء پر عراق میں ہونے والے تمام آپریشنوں کے لئے عراقی حکومت کی منظوری، عراق کے آئین  اور عراقی حکومت کے تمام قوانین پر توجہ ضروری ہے اور کوئی بھی کارروائی ایسی نہیں ہونا چاہيے جس سے عراق کے اقتدار اعلی یا قومی مفادات کو گزند پہنچے۔ عراقی حکومت نے ، سلامتی کونسل کو بھیجے گئے  اپنے خط میں امریکہ کے اس قدم کو عراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی اور سن 2008 کے معاہدے کے منافی قرار دیا ہے۔ مذکورہ معاہدے کی شق نمبر 27  کے مطابق عراق کی زمین، آبی و فضائي حدود کو دوسرے ملکوں کے خلاف حملے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور اس شق کے مطابق بھی امریکہ کا یہ قدم سیکوریٹی معاہدے کی خلاف ورزی تھا ۔ اسی طرح اس معاہدے کے مطابق اور جارحیت کی تعریف کے اعلان اور روم منشور کے مطابق بھی امریکی قدم، عراق کے خلاف "جارحیت"  سمجھا جائے گا۔

 

4.جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف بین الاقوامی سطح پر قانونی چارہ جوئي کے راستے اور امکانات

الف ) بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ

بین الاقوامی عدالت انصاف کو مخلتف ملکوں میں پیدا ہونے والے اختلافات کے حل کے لئے سب سے اہم عدالت سمجھا جاتا ہے تاہم 'آئي سی جے' کے منشور میں بین الاقوامی تنازعات کی سماعت کے لئے یہ شرط ہے کہ اختلافات کے شکار ملک یہ تسلیم کریں کہ ان کے اختلافات کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں سلجھایا جائے گا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے قوانین کے مطابق، ملکوں کی رضامندی، کسی معاہدے میں آئي سی جے سے رجوع کی شرط کے بعد ثابت ہو سکتی ہے یا پھر معاہدے میں یہ کہا گیا ہو کہ  بین الاقوامی عدالت انصاف باہمی اختلافات کی سماعت کر سکتی ہے۔ ان دونوں صورتوں کا مطلب یہ ہے کہ فریقین اختلافات کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جانے پر رضا مند ہیں۔ وہ معاہدہ جس میں ایران، عراق اور امریکہ نے آئی سی جے کی حیثيت کو تسلیم کیا ہے، سن انیس سو تہتر ميں نیویارک کنونشن ہے جو در اصل بین الاقوامی طور پر حمایت یافتہ شخصیتوں کے خلاف جرائم روکنے اور اس پر سزا سے متعلق معاہدہ ہے۔

اس معاہدے کی پہلی شق کے مطابق، کسی بھی ملک کے تمام اہل کار اور سرکاری عہدیدار یا کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے اہل کار اور عہدیدار "بین الاقوامی حمایت یافتہ شخصیت" کے زمرے میں آتے ہيں۔  اس بناء پر جنرل سلیمانی جو ایران کے ایک سرکاری عہدیدار  اور اس ملک کی طرف سے بھیجے گئے ایلچی تھے اور عراقی حکام کی دعوت اور اجازت کے بعد اس ملک میں گئے تھے، بین الاقوامی حمایت یافتہ شخصیت تھے اور اس کنونشن کی دوسری شق کے لحاظ سے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قتل اور پر تشدد حملے کا جرم کیا گيا ہے۔

نیویارک کنونشن کی شق نمبر 13 میں کنوشن پر عمل در آمد یا اس کی وضاحت کے سلسلے میں اختلافات کے لئے ایک تین مرحلے کی راہ حل پیش کی گئي ہے جو سلسلہ وار ہیں۔ اس شق کے مطابق کنوشن پر عمل در آمد یا اس کی وضاحت کے سلسلے میں اراکین میں ہر قسم کے اختلاف کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا اور اگر حل نہ ہو تو کسی ایک فریق کی درخواست پر معاملہ، فیصلہ کرنے والے ذمہ داروں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اگر پیش کئے جانے کے چھے مہینوں بعد  تک تنازعہ کا حل نہ نکلے تو دونوں میں سے کوئی بھی فریق اختلافات کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جا سکتا ہے۔ عدالت انصاف نے واضح کیا ہے کہ اس کنونشن میں، عدالت سے رجوع سے قبل، سفارتی راہ سے تنازعہ حل کرنے کی شرط رکھی گئی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے ہی یہ یقین ہو کہ اختلافات کو سفارتی راہ سے اطمینان بخش طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا، عدالت معاملے کی سماعت کرنے کی اہل ہو جاتی ہے اور آئي سی جے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے سلسلے میں امریکہ  کی بین الاقوامی ذمہ داری کے معاملے پر غور کر سکتی ہے ۔ اس بناء پر ایران ، جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں  کے قتل کے معاملے کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کر سکتا ہے ۔

 

ب )  انسانی حقوق کی تنظیموں سے رجوع

جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر سب سے پہلے انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں نے رد عمل ظاہر کیا اور انہوں نے اس قدم کو 'زندہ رہنے کے حق'  اور 'انفرادی تحفظ' کے منافی قرار دیا ۔ جن میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی خصوصی رپورٹر اگنس کالامارڈ شامل ہيں جنہوں نے امریکہ کے اس قدم کو، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا(1)۔ اقوام متحدہ کے منشور میں دنیا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کی نگرانی کے لئے کچھ تنظیموں کی تشکیل عمل میں آئی ہے جن میں ایک 'انسانی حقوق کونسل' بھی ہے جو حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ پر نظر رکھنے کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال کرتی ہے جن میں سے ایک طریقہ، مختلف لوگوں  اور مختلف ملکوں کے شہریوں کی جانب سے شکایات کا جائزہ ہے۔ اس لئے اس حملے کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ انسانی حقوق کونسل میں اپنی شکایت درج کرا سکتے ہيں۔

ایک دوسرا طریقہ بھی ہے جسے استعمال کرکے انسانی حقوق کونسل شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے موضوع کا جائزہ لے سکتی ہے۔ انسانی حقوق کونسل، موضوعاتی رپورٹرز کا نظام استعمال کرکے یہ کام کر سکتی ہے۔ یہ رپورٹرز، اپنی رپورٹیں ہر سال کونسل کو پیش کرتے ہیں اور زیادہ بڑے موضوعات میں وہ اپنی رپورٹ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کرتے ہيں اور یہ دونوں ادارے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں ضروری سفارشات کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کونسل نے ما ورائے عدالت قتل کے معاملات میں 'اگنس کالامارڈ' کو خصوصی رپورٹر کے طور پر منصوب کیا ہے کہ جنہوں نے جنرل سلیمانی کے قتل کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ایک ٹوئیٹ کرکے کہا کہ یہ حملہ، غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ج) جوابی کارروائي 

جوابی کارروائی کا مطلب ، کسی حکومت کی جانب سے اپنے حقوق کی خلاف ورزی کے جواب میں اس متاثرہ فریق کی جانب سے یک طرفہ اقدام ہوتا ہے جو خلاف ورزی کرنے والی حکومت کے جرم کا سلسلہ بند کرنے یا اس کے جرم کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی پر مجبور کرنے کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ  امریکہ کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا قتل،  عراق اور ایران کے سلسلے میں اس ملک کی جانب سے کئے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی بھی کھلی خلاف ورزي تھا۔ ایران اور عراق دونوں ہی ملک جوابی کارروائي کر سکتے ہيں اور یہ چیز کسی بھی طرح طاقت کے استعمال کی ممانعت کے اصول کے منافی بھی نہيں ہوگی۔ اسی طرح جوابی کارروائي، خلاف ورزی کرنے والے فریق کے شروعاتی قدم کے مطابق بھی ہونا چاہئے۔ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے قانون کی عراقی پارلیمنٹ میں منظوری، ایک طرح سے جوابی کارروائي ہی سمجھی جا سکتی ہے اور یقینا ایرانی حکومت بھی اس دہشت گردانہ اقدام پر جوابی کارروائی کر سکتی ہے۔

 

  1. https://www.aljazeera.com/news/2020/7/12/qa-uns-agnes-callamard-on-drone-strike-that-killed-soleimani