اب اس خط کو جاری ہوئے ایک سال گزر چکا ہے اور جو کچھ اس مدت میں ہوا ہے اس نے نہ صرف یہ کہ اس تجزیے کو صحیح ثابت کیا ہے بلکہ یہ بھی دکھا دیا ہے کہ امریکی سماج میں فلسطین کا مسئلہ، ایک ذیلی مسئلہ یا صرف انسانی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی و سماجی خلیج کے اصلی خطوط میں سے ایک بن چکا ہے۔ امریکی اسٹوڈنٹس کے درمیان غزہ کے لوگوں کی حمایت کی لہر نہ صرف یہ کہ تھمی نہیں ہے بلکہ اس میں زیادہ مضبوطی اور پھیلاؤ آيا ہے اور یہ لہر امریکا کی یونیورسٹیوں، سڑکوں، یہاں تک کہ سیاسی کوریڈورز کے اندر تک پہنچ چکی ہے۔
اس تحریر میں گزشتہ ایک سال کی سات اہم علامتوں کا جائزہ لے کر یہ دکھانے کی کوشش کی گئي ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے جرائم پر احتجاج اور اس کھلی نسل کشی میں امریکی حکومت کی شراکت داری پر غصہ کس طرح امریکا میں سماجی تغیرات کے ایک پائیدار حصے میں بدل گیا ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جس کی، امریکی اسٹوڈنٹس کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے پچھلے سال کے خط میں ایک دم صحیح پیشن گوئی کی گئی تھی۔
حالیہ مہینوں میں امریکا میں محمود خلیل، رومیسا اوزتورک اور محسن مہدوی جیسے اسرائیل کے جرائم پر اعتراض کرنے والے اسٹوڈنٹس کی گرفتاری اور انھیں باہر نکال دینے کی دھمکی کے باوجود نہ صرف یہ کہ امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اس چیز نے اخلاقی پائيداری کی ایک نئی سطح کا تعارف کرایا۔ محمود خلیل جیسا انسان، جو جیل میں ہے اور اس کے جیل میں رہتے ہوئے ہی اس کے بچے کی پیدائش ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں فلسطین کی حمایت کا مسئلہ، اس ملک کے بہت سے نوجوانوں کے لیے ایک ملکی، سنجیدہ اور مہنگی قیمت والے مسئلے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
امریکا کے حالیہ مہینوں کے واقعات نے دکھایا ہے کہ ہارورڈ سمیت اس ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کی پالیسیاں، ماضی سے زیادہ فیڈرل حکومت سے دور ہو چکی ہیں۔ امریکی حکومت خاص طور پر ٹرمپ کے دور اقتدار میں، فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاج کو زیادہ شدت کے ساتھ کنٹرول کرنے کے درپے ہے تاہم یونیورسٹیاں، مالی، میڈیا اور سیاسی دباؤ کے باوجود، کئی موقعوں پر حکومتی مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئی ہیں۔ یونیورسٹیوں کی یہ مزاحمت اگرچہ ہمہ گير نہیں تھی لیکن بہرحال یہ امریکی سماج میں علمی اور تعلیمی مراکز کے سرگرم ہو جانے کی علامت تو ہے ہی جو اپنی خود مختاری کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔
امریکا میں تعلیمی سرٹیفکیٹس کو نذر آتش کرنا ایک عدیم المثال اور علامتی اقدام ہے کیونکہ امریکی کلچر میں انفرادی کامیابی کو کسی کے بھی سرٹیفکیٹس کی کسوٹی پر تولا جاتا ہے۔ جب کولمبیا یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس نے صیہونی حکومت کے ساتھ اس یونیورسٹی کے تعاون پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے تعلیمی سرٹیفکیٹس کو نذر آتش کر دیا تو انھوں نے یہ پیغام دیا کہ ان کا احتجاج سطحی قسم کا نہیں بلکہ بہت ہی عمیق اور موجودہ اقدار کے نظام کو نظر انداز کرنے جیسا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کے گواہ ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ، امریکا میں اسٹوڈنٹس کے تشخص کی پھر سے تعریف کیے جانے کے ایک اہم عنصر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مغربی احتجاج کے کلچر میں بھوک ہڑتال، سول احتجاج کی ایک خاص شکل ہے جس میں احتجاج کرنے والا اپنے جسم کا استعمال کر کے اپنے پیغام کو پہنچاتا ہے۔ فلسطین کی حمایت کے مسئلے میں، اسٹینفورڈ اور کیلیفورنیا سمیت مختلف یونیورسٹیوں میں بھوک ہڑتالوں میں اضافے سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کا مسئلہ، کس حد تک ان افراد کے ضمیر کے مسئلے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں مایا عبداللہ کی مثال دی جا سکتی ہے جنھیں 9 دن تک بھوک ہڑتال کرنے کے بعد اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی اسٹوڈنٹس ہر ممکن طریقے سے غزہ کے لوگوں سے یکجہتی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائيل کے جرائم پر احتجاج اب صرف یونیورسٹی یا سڑک تک محدود نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں امریکی کانگریس کی نشستوں میں یا بہت سے دوسرے سیاسی پروگراموں میں بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے نعروں اور احتجاج کے ذریعے مقررین کو تقریر روکنے پر مجبور کر دیا جو چاہتے ہیں کہ امریکا، اسرائيل کی حمایت بند کرے۔ اس طرح کے پروگراموں میں فلسطین کے حامیوں کی موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ اب مسئلۂ فلسطین کو ایک ذیلی آواز یا صرف اسٹوڈنٹس کے احتجاج کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔
امریکی کانگریس میں رشیدہ طلیب، الہان عمر اور ایانا پرسلی جیسے فلسطین کے حامی افراد تو تھے ہی اب ان میں زہران مامدانی جیسے لوگوں کا نام بھی دکھائي دینے لگا ہے۔ نیویارک میں میئر کے الیکشن میں جیت کے مضبوط دعویداروں میں سے ایک مامدانی نے ایک عدیم المثال موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو نیویارک میں داخل ہونے پر نیتن یاہو کو گرفتار کر لیں گے۔ اس طرح کے موقف سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا کے سیاسی پلیٹ فارمز پر فلسطین کی حمایت کا مسئلہ، تیزی سے پھیل رہا ہے اور آیپک جیسی صیہونی لابیوں کی جانب سے امریکی سیاست میں بے تحاشا پیسے خرچ کیے جانے کے پیش نظر، کچھ سال پہلے تک کوئی اس طرح کی بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
پورے امریکا میں غزہ کی حمایت میں وسیع پیمانے پر مظاہرے بدستور جاری ہیں۔ واشنگٹن سمیت امریکا کے مختلف شہروں میں پچھلے مہینے ہونے والے مظاہروں میں غزہ کے شہید بچوں کی یاد میں ہزاروں چھوٹے جوتے نصب کیے جانے جیسے مناظر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اب بھی امریکی سماج کے ایک بڑے حصے کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
آخر میں پچھلے ایک سال کے واقعات پر نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی حکومت اور اس ملک کے زیادہ تر ذرائع ابلاغ کی جانب سے حقیقت کی آواز کو دبانے کی سرتوڑ کوشش کے باوجود، امریکا میں فلسطین کا مسئلہ، پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہے۔ صرف اسٹوڈنٹس ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی اسٹاف، میڈیا، سیاست اور سول اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا ایک بڑا حصہ، اس مسئلے کو اہم مسئلہ سمجھتا ہے۔ گزشتہ سال رہبر انقلاب اسلامی کے خط میں جو بات کہی گئي تھی، اس وقت وہ ایک "دعوت" سے بڑھ کر ہے، تبدیل ہوتے معاشرے کی ایک حقیقت بیں تصویر۔ وہ معاشرہ جو میڈیا اور سیاسی لابیوں کے شدید ترین دباؤ میں ہے لیکن اب بھی اس کے کسی نہ کسی گوشے میں حقیقت کی آوازیں بلند ہو ہی جاتی ہیں۔
اس خط کے ایک سال بعد، اب کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیشن گوئی پوری ہو گئي ہے: امریکی جوانوں نے، صیہونی حکومت کے کھلے جرائم پر خاموشی اختیار نہیں کی ہے اور وہ بدستور تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں!
تحریر: امریکی مسائل کے محقق، محمد مہدی عباسی