بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین

 اللّھم صلّ علی فاطمۃ و ابیھا و بعلھا و بنیھا بعدد ما احاط بہ علمک

میں، صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت، امام خمینی کے یوم پیدائش اور عشرۂ فجر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اس نشست میں موجود آپ سبھی حضرات کو بالخصوص جن لوگوں نے اپنے بیان سے ہمیں فیضیاب کیا۔ میں نے واقعی ان باتوں سے استفادہ کیا لیکن افسوس کہ وقت بہت کم تھا، کاش اس سے دو گنا، تین گنا وقت ہوتا تاکہ ہم آپ لوگوں سے استفادہ کرتے۔ کچھ باتیں میں نے نوٹ کی ہیں لیکن یقینی طور پر اس مختصر وقت میں ان سب پر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ ایک، حضرت صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ نکات ہیں، دوسری، یوم مادر اور یوم خواتین کے بارے میں کچھ معروضات ہیں۔ اس مبارک و مسعود مناسبت سے اس دن کا یہ نام رکھنا بڑی خوش ذوقی ہے۔ آخر میں ملک میں ذاکری اور مداحی اہلبیت کی روز افزوں پیشرفت پر بھی ایک نظر ڈالنے کی کوشش کی جائے گي۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی غیر معمولی شان و منزلت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں اگر ہم اپنی ظاہر بیں نگاہوں سے بھی دیکھیں، حالانکہ حقیقت بیں اور عرشی نگاہیں ممکنہ طور پر کچھ اور حقائق دیکھیں گي، لیکن اگر ہم اپنی انہی مادی اور ظاہر بیں نگاہوں سے دیکھتے ہیں تب بھی یہ عظیم المرتبت خاتون ایک طرف رسول خدا کی عظیم بیٹی ہیں، ایسی بیٹی کہ پیغمبر ان کے ہاتھ چومتے ہیں، ان کے آنے پر سروقد کھڑے ہو جاتے ہیں، جب بھی کہیں سفر پر جاتے ہیں تو سب سے آخری گھر جس کا وہ دیدار کرتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا کا گھر ہے اور وہیں سے وہ سفر پر جاتے ہیں، جب سفر سے لوٹتے ہیں تو سب سے پہلے جہاں جاتے ہیں اور سلام کرتے ہیں وہ حضرت زہرا کا گھر ہے؛ ایسی بیٹی ہیں وہ۔ دوسری طرف وہ ایک معصوم خاتون ہیں، عصمت کا درجہ ایک بہت ہی عجیب درجہ ہے، اس کی غیر معمولی منزلت ہے۔ ایک طرف وہ علی ابن ابی طالب کی ہمسر ہیں؛ وہ عظیم الشان علی ابن ابی طالب، وہ علی ابن ابی طالب جن کے جیسا پیغمبر کے بعد دنیا کی آنکھوں نے کوئي دیکھا ہی نہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی شخصیت کی ہمسر اور کفو ہیں۔

ایک طرف وہ چار درخشاں خورشیدوں کی ماں ہیں جن میں سے دو امام معصوم ہیں۔ ایک طرف وہ پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک سلسلہ نسل کی پہلی کڑی ہیں اور بحمد اللہ آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد پوری دنیا کے کروڑوں انسان اس نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ اس نسبت کی پہلی کڑی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔

حضرت زہرا کی تاریخ زندگی، پیغمبر اکرم کی تاریخ رسالت کی ہمسفر

اس عظیم خاتون کی تاریخ، رسالت کی تاریخ سے پوری طرح وابستہ ہے۔ یعنی پیغمبر گرامی کے آغاز رسالت کے کچھ ہی عرصے بعد اس عظیم ہستی نے طلوع کیا اور رسالت و پیغمبر اکرم کی رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد ان کا غروب ہو گیا، مطلب یہ کہ ان کی زندگي پوری طرح عرصۂ رسالت کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ بچپن میں شعب ابی طالب کی مشقتوں کو دیکھا اور برداشت کیا، بچپن سے ہی زندگي کے دشوار میدانوں میں پہنچ گئيں۔ ماں کو کھو دیا، اس عمر کی بچی کے لیے یہ بہت ہی دشوار ہے لیکن وہ اس دشواری کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا کام کرتی ہیں اور وہ ہے پیغمبر کی غم گساری۔ پیغمبر اکرم کے دل میں حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کی وفات کا زخم تازہ ہے اور انھیں کسی غم گسار کی ضرورت ہے، یہ بیٹی ہے جو باپ کی غم گسار بن رہی ہے۔ غم گساری کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا جو مدینے کے دوران اور احد، خندق اور بہت سی دوسری جگہوں پر دکھائي دیا، تب پیغمبر نے فرمایا: "فاطمۃ ام ابیھا"(1) فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہیں، انھوں نے پیغمبر کا ماں کی طرح خیال رکھا۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے کے انتہائي سخت اور عدیم المثال امتحانات، علی ابن ابی طالب کی زوجیت، جن کا ایک پیر گھر میں تو دوسرا جہاد کے میدان میں ہے، ان دشواریوں کو برداشت کرنا اور پھر تاریخ کے چار بے مثال بچوں کی تربیت، پھر پیغمبر کی وفات کے بعد حضرت محسن کی شکل میں سب سے پہلی قربانی دینا اور آخر میں پیغمبر کے کچھ ہی مہینے بعد خود ان کی شہادت۔

حضرت زہرا کی پاکیزہ حیات، عورت سے متعلق عالی ترین انسانی اوصاف کا آئینہ

 یہ اس عظیم الشان خاتون کی اٹھارہ سال یا اس سے کچھ زیادہ کی مختصر سی زندگي ہے جس میں اتنے اہم واقعات بھرے ہوئے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، عورت کے سلسلے میں انسانی مفاہیم کا سب سے اعلی عملی نمونہ ہیں، عورت کے بارے میں اسلامی مفاہیم کی سب سے کامل عملی شکل ہیں جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ان میں سے زیادہ تر میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے سبق ہیں۔ عورت کے بارے میں اسلامی مفاہیم میں سے کچھ مخصوص ہیں جیسے ماں کا کردار، زوجہ کا کردار، خاتون خانہ کا کردار، بچوں کی پرورش، ان سب میں تصور کی سب سے اونچی چوٹی پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا موجود ہیں۔ بچوں کی تربیت اور پرورش کے میدان میں، شوہر کے ساتھ تعاون کے میدان میں۔ زوجہ اور شوہر کے درمیان مشترکہ چیزوں کے میدان میں جیسے خدا کی بندگی، بڑی ذمہ داریاں جیسے خدا کی عبادت، ان سب میں حضرت فاطمہ زہرا کی پوزیشن انتہائي غیر معمولی، حیرت انگیز اور بہت اہم ہے۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ شب جمعہ میری والدہ پوری رات جاگتی تھیں، عبادت کرتی تھیں، میں نے جب بھی ان کی آواز سنی تو دیکھا کہ وہ دوسروں کے لیے دعا کر رہی ہیں؛ صبح میں نے کہا: مادر گرامی! آپ نے دوسروں کے لیے دعا کی، اپنے لیے دعا نہیں کی؟ انھوں نے فرمایا: میرے بیٹے! "الجار ثم الدار" (2) پہلے پڑوسی، پھر گھر والے۔ یہ ایک درس ہے؛ الجار ثم الدار۔ 'سورہ ھل اتی' کے واقعے میں "انما نطعمکم لوجہ اللہ"(3) میں اسے اسلامی امت، اسلامی معاشرے اور اسلامی جمہوریہ کے لیے ایک سبق سمجھتا ہوں کہ پورے اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے۔ حسن بصری، جو آٹھ مشہور زاہدوں میں سے ایک ہیں (4) اور اہلبیت سے فاصلہ بھی رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ "ما کان فی ھذہ الامۃ اعبد من فاطمہ"(5) (اس امت میں فاطمہ سے زیادہ عبادت کرنے والا کوئي نہیں ہے۔) "ما کان اعبد من فاطمہ" اس جملے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کے جیسے اور ان ہی کی طرح کے کچھ لوگ موجود تھے، نہیں؛ عربی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری امت میں عبادت کے لحاظ سے ان کے جیسا کوئي نہیں تھا۔ یہ بات حسن بصری کہہ رہے ہیں، حسن بصری جو حضرت فاطمہ زہرا کے زمانے میں نہیں تھے اتنی قطعیت سے یہ بات کہہ رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات ان مسلمہ امور اور متواتر روایات میں سے ایک ہے جو اس زمانے میں موجود تھیں۔ یہ کہ عبادت کی ذمہ داری، پھر امر بالمعروف اور مجاہدت کی ذمہ داری، یعنی اس عجیب میدان میں موجودگي جس میں امت اسلامی کا مستقبل طے ہونا تھا اور حضرت فاطمہ زہرا کی ان عجیب خطبوں کے ساتھ وہ عجیب طوفانی سرگرمیاں! اسلام کی منطق میں عورت کے تشخص کا جامع پلان یہ ہے۔ اچھی ماں، اچھی زوجہ، راہ خدا کی مجاہدہ اور اس کے ساتھ ہی گھریلو امور کی ذمہ دار، گھر کا کام چلانے والی اور ساتھ ہی عابدہ اور خدا کی کنیز۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دکھا دیا کہ عورت عصمت کے اعلی مقام پر پہنچ سکتی ہے اور یہ سب حضرت فاطمہ کی خصوصیات میں سے ہیں۔

امیر المومنین اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کے گھرانے کے نقش قدم کی پیروی کا خوبصورت منظر

توجہ دی جانی چاہیے کہ یہ آئيڈیل اور بے نظیر گھرانہ، جس میں گھر کے مرد علی، خاتون خانہ حضرت فاطمہ زہرا، بچے امام حسن، امام حسین، جناب زینب اور جناب ام کلثوم؛ ان خصوصیات کے ساتھ، جن کے ذریعے ہم انھیں پہچانتے ہیں، وہ گھرانہ ہے جس کے بارے میں قرآن مجید پیغمبر اکرم سے فرماتا ہے: "قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی"(6) اس گھرانے سے مودت۔ مودت کا مطلب ہے یکجہتی، ہمدلی، ہمراہی، تعاون؛ مودت کے معنی یہ ہیں۔ دیکھیے اس گھرانے کے ساتھ، ان نعروں کے ساتھ اور ان اقدامات کے ساتھ تعاون، ہمراہی اور یکجہتی اسلامی امت کو کس اوج پر پہنچا سکتی ہے۔ یہ مخلصانہ خدمت، جو ان کا نعرہ ہے، یہ وہی چیز ہے جو ہمارے مد نظر ہونی چاہیے۔ کبھی کبھی کچھ لوگوں کے دل بعض امور میں مضطرب ہو جاتے ہیں، تشویش میں پڑ جاتے ہیں، پریشان ہو جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مضطرب نہ ہوں، اس مودت و محبت کی برکتیں اسلامی جمہوریہ میں اور اسلامی جمہوری نظام میں پوری طرح سے عیاں ہیں۔ رضاکاروں کے کام، رضاکاری کا جذبہ، ایٹمی شہیدوں کی نام و نمود سے بے پروا خدمات، جہادی کاروانوں کی مسلسل کوششیں، ثقافتی محاذ، سماجی محاذ اور فنی محاذ پر ہزاروں نوجوان گروہوں کی بے لوث علمی و عملی کاوشیں یہ سب امیر المومنین اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھرانے کے نقش قدم پر چلنے کے خوبصورت مناظر ہیں جن میں سے ایک کا مشاہدہ ہم نے حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کی وبا کے قضیئے میں میڈیکل اور پیرا میڈیکل ٹیموں کے سلسلے میں کیا ہے۔

عورت کو متاع و سامان سمجھنے والی مغربی سوچ کے مقابلے میں عورت کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کا محترمانہ زاویہ نگاہ

عورت اور ماں کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نظر اور اس کا موقف مغرب میں رائج نظریے سے بالکل مختلف ہے جہاں ہزاروں زبانوں اور غیر معمولی و وسیع پلیٹ فارموں سے کوشش کی جا رہی ہے کہ اس نظریے کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ نہیں! اس نظریے کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کا نظریہ ہے، اسلامی جمہوریہ کا نظریہ عورت کی عزت و احترام پر مبنی ہے، یہ مغرب میں رائج نظریہ کے برخلاف ہے جو عورت کو ایک متاع اور ایک وسیلے کی نظر سے دیکھتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے نظریے نے مغرب کی منطق، مغرب کے رویے اور مغرب کے طرز زندگي میں عورت کو متاع اور وسیلے کی نظر سے دیکھنے والے نظریے پر خط بطلان کھینچ دیا۔ آپ نے دیکھا کہ ایک اعلی ترین سرکاری خاتون عہدیدار اور خاتون فوجی عہدیدار نے کچھ ہی مہینے پہلے یہ بتایا تھا کہ اس کی عصمت دری کی گئي تھی (7)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین بھی جو دفتری، سماجی اور سیاسی لحاظ سے اعلی عہدوں پر پہنچتی ہیں، عورت کے سلسلے میں مغرب کے طرز فکر کی دستبرد سے محفوظ نہیں ہیں اور بچ نہیں پاتیں۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ عورت اور مرد، انسانی اقدار کے لحاظ سے مساوی ہیں؛ ((انَّ المُسلِمينَ وَ المُسلِماتِ وَ المُؤمِنينَ وَ المُؤمِناتِ وَ القانِتينَ وَ القانِتاتِ وَ الصَّادِقينَ وَ الصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ وَ الصَّابِراتِ)) (8) الی آخر، مسلمان مرد اور مسلمان عورت میں الہی اور انسانی اقدار کے لحاظ سے آپس میں کوئي فرق نہیں ہے۔ دونوں کی مشترکہ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ امر بالمعروف مشترکہ ذمہ داری ہے، خدمت مشترکہ ذمہ داری ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کی ذمہ داری دونوں میں مشترک ہے مگر اسکے طریقے الگ الگ ہیں، یہ صرف مرد سے یا صرف عورت سے مختص نہیں ہے۔ دونوں میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص ذمہ داریاں بھی ہیں، عورت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، مرد کی بھی کچھ خاص ذمہ داریاں ہیں اور خداوند متعال نے ان ہی خاص ذمہ داریوں کی ادائیگی کی خاطر دونوں کی جسمانی اور روحانی ساخت کو ان کی ذمہ داریوں کے مطابق بنایا ہے۔ تو یہ عورت کے سلسلے میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا نظریہ ہے، ہم اس نظریے پر فخر کرتے ہیں۔ ہم عورت کے سلسلے میں مغرب کی منطق، مغرب کی روش اور مغرب کے طرز زندگي پر سراپا احتجاج ہیں، ہمارا کہنا ہے کہ وہ لوگ عورت پر ظلم کر رہے ہیں۔

اسلامی جمہوری نظام کی برکت سے عورتوں کی پیشرفت و ارتقاء

مغرب کی وسیع پروپیگنڈا مشینری یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ "اسلامی نظریے سے عورت کی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ آتی ہے۔" یہ سفید جھوٹ اور پوری طرح معاندانہ تبصرہ ہے۔ ہمارے ملک میں تاریخ کے کسی بھی دور میں، نہ تو ماضی میں اور نہ ہی مغرب پرستی کے دور میں، اتنی زیادہ تعلیم یافتہ خواتین کبھی نہیں رہی ہیں۔ سماجی سرگرمیوں میں، ثقافتی سرگرمیوں میں، علمی سرگرمیوں میں مصروف اتنی زیادہ خواتین کبھی نہیں رہی ہیں۔ سماجی میدان میں مؤثر اتنی خواتین کبھی نہیں رہی  ہیں، سیاسی سوجھ بوجھ اور سیاسی شعور رکھنے والی اتنی زیادہ خواتین کبھی نہیں تھیں۔ تالیف و تصنیف کے میدان میں سرگرم اتنی زیادہ خواتین، ترجمہ کرنے والی خواتین اور فنکار خواتین واقعی کبھی بھی نہیں رہی ہیں۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ کی برکت سے ہے، خواتین کے سلسلے میں اسلام کے نظریے کی برکت سے ہے جو عزت و احترام کا نظریہ ہے۔

یہیں پر میں اپنے بیان کو دو نسل کے شہیدوں کی ماؤں اور بیویوں کو خراج عقیدت پیش کر کے مزین کرنا چاہوں گا: ایک مقدس دفاع کے شہید اور دوسرے دفاع حرم کے شہید۔ شہداء کی ماؤں اور بیویوں نے کیا شاندار اور لازوال کردار ادا کیا ہے! حق تو یہ ہے کہ ان کے سامنے سر تعظیم خم کیا جائے۔ افسوس کہ ان عظیم الشان خواتین اور ان عزیز خواتین کے سلسلے میں فن و ہنر کے شعبے میں کم سرگرمیاں انجام دی گئي ہیں؛ یہ ایک غیر معمولی اور نمایاں میدان ہے جس میں زیادہ کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔

گھرانے کے بابرکت اور اپنائیت سے معمور ماحول میں انسانی تربیت کی محکم بنیادیں

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حجاب خواتین کی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ ہے! بالکل نہیں، بلکہ اس کے برخلاف حجاب اس بے جا خودنمائی سے بچاتا ہے جو عورت کے آگے بڑھنے میں مانع ہے۔  آج مختلف علمی و سائنسی، عملی، سماجی، سیاسی اور فنی شعبوں میں ہزاروں اہم اور نمایاں خواتین ہیں جو سب کی سب مکمل حجاب کے ساتھ زندگي گزار رہی ہیں۔ تو جب ہم اس نظریے سے عورت کو دیکھتے ہیں تو گھرانے میں عورت کا کردار بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ ماں کا کردار، زوجہ کا کردار، گھر چلانے والی عورت کا کردار یہ سب نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کا رنگ مغرب میں روز بروز پھیکا پڑتا جا رہا ہے۔ مغرب میں گھرانہ بکھرتا جا رہا ہے۔ گھرانہ محبت سے معمور ایک پربرکت مرکز ہے جس میں انسان کی تربیت کے مضبوط ترین ستون تعمیر ہوتے ہیں۔ گھرانے میں ہی انسان کی روحانی و فکری تربیت کی ابتدائي اور سب سے اہم بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ گھر، جسم و جان کے سکون کی سب سے اچھی جگہ ہے، جسم و روح کی تھکن دور ہونے کا سب سے اچھا مرکز ہے، اپنائیت کا سب سے حقیقی ماحول ہے۔ گھرانے سے زیادہ ماں، بیٹے، باپ اور شوہر و زوجہ کے درمیان پائی جانے والی اپنائیت کسی بھی دوسری جگہ تصور بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ ایسی فضا کا محور کون ہے؟ ماں! بنیاد کون ہے؟ ماں! دائرے کا مرکز کون ہے؟ ماں! ماں گھرانے کا محور ہے۔ مغرب کی پروپیگنڈا مشینری اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب زدہ کچھ ہمارے افراد بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اس بات کو کم رنگ کر دیں یا وہ اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے، سامنے آنے نہیں دینا چاہتے۔ گھریلو خواتین یہاں تک کہ ان خواتین نے بھی جو باہر کوئي کام نہیں کرتیں، سب سے بڑی خدمتیں انجام دی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان خواتین کی قدر و قیمت کو سمجھا جائے جنھوں نے گھرداری اور گھریلو زندگي کو ترجیح دی، اگرچہ گھر سے باہر کی خدمات بھی خواتین کے ذمے تھیں، ہیں اور رہیں گی اور اس میں کوئي قباحت بھی نہیں ہے لیکن یہ خواتین کی خدمت کا سب سے اہم حصہ ہے۔

بروقت اور بلا تاخیر شادی، بچے پیدا کرنے اور تولید نسل کی ترویج، ایک بنیادی فریضہ

یہیں پر گھرانے کی بات کے ضمن میں ایک جملہ بروقت اور بلا تاخیر شادی کے سلسلے میں بھی عرض کر دوں! یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں، آپ ذاکرین و مداحان اہلبیت انھیں رائج کرنے کی کوشش کیجیے۔ کیونکہ ابھی میں عرض کروں گا کہ آپ لوگ ہمارے ملک کا ایک اہم اور گرانقدر میڈیا ہیں تو ان باتوں کی ترویج ہونی چاہیے۔ بروقت اور بلا تاخیر شادی ایک ضروری اور واجب کام ہے۔ بچوں کی پیدائش اور تولید نسل ان اہم اور بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جنھیں انجام پانا چاہیے اور یہ دونوں ہی، بروقت شادی بھی اور بروقت تولید نسل بھی، ہمارے ملک کی آج کی اور کل کی اہم ضرورتوں میں سے ہیں۔ یہ باتیں آپ عزیزوں کی مجلسوں میں اور مداحی میں مناسب طریقے سے پیش کی جانی چاہیے۔

اہل بیت کی مداحی و ثنا خوانی ایک ممتاز اور منفرد ہنر

اب آتے ہیں مجلس و مداحی کی طرف، البتہ یہ باتیں جو میں نے عرض کیں، اس سے کہیں زیادہ تفصیل سے میرے ذہن میں تھیں اور میں نے نوٹ کر رکھا تھا لیکن چونکہ وقت کم ہے اور ظہر قریب ہے، اس لیے میں بڑی تیزی سے ان باتوں سے گزرتا جا رہا ہوں۔ ذاکری و مداحی کا کام فن و ہنر کا ایک خاص اور بے نظیر کام ہے۔ اس کے جیسا کوئي دوسرا کام نہیں ہیں، کہیں بھی۔ البتہ مغربی اور دیگر ملکوں میں کنسرٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں لیکن ان میں اور مداحی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک انجمن کو چلانا اور ذاکری و مداحی کا کنٹرول بڑی غیر معمولی چیز ہے۔ خوش قسمتی سے اس کا سب سے زیادہ اور سب سے اچھا نمونہ بھی ہمارے ہی ملک میں ہے۔ بعض دوسری جگہوں پر یہاں سے کچھ کم یہ چیز موجود ہے لیکن اس کا اعلی نمونہ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں ہے۔ اتنی جامعیت، اتنا اثر، اتنا سماجی اور عوامی رواج جو اس خاص فن میں ہے، کسی بھی دوسری جگہ اس شکل میں موجود نہیں ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ یہ روایتی ذاکری اور مداحی کئي فنون کا مجموعہ ہے: فن شعر، نغمہ پردازی کا ہنر، نشست کو کنٹرول کرنے کا فن، بات کو سننے والے کے دل کی گہرائیوں تک اپنے ذاتی سلیقے اور جدت عمل سے پہنچانا، یہ کام کا ایک حصہ ہے جو ذاکری و مداحی کے فن و ہنر سے متعلق پہلو ہے۔ اچھی آواز، اچھا مضمون بھی ایک پہلو ہے، یہ چیز افکار، جذبات اور احساسات، دینی معلومات، تاریخی معلومات، سماجی معلومات اور سامعین کی ضرورتوں سے آگہی جیسی باتوں کا مجموعہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ آج ہی کچھ ذاکرین و مداحان اہلبیت نے جو مداحی کی وہ بڑی خاص تھی، بہت اچھی تھی۔ اس میں عالمی مسائل کی جھلک تھی، ملکی مسائل کی طرف اشارہ تھا، دینی و اسلامی مضامین کا مجموعہ تھی، یہ کام ذاکر و مداح کے لئے بہت آسان ہے اور اس کے اختیار میں ہے۔ یہ چیز اس سلسلے میں مداحی کی نمایاں حیثیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

ذاکر و مداح کے کام کا موضوع، سب سے اعلی موضوع ہے، یا سب سے اعلی موضوعات میں سے ایک ہے۔ کیونکہ ذاکر و مداح اہلبیت کے کام کا موضوع، عالم وجود کے سب سے نمایاں افراد یعنی محمد و آل محمد علیہم السلام کی مدح و ثنا ہے۔ ان کے دروس کو بیان کرنا، ان کی یاد کو تازہ کرنا، مطلب یہ کہ آپ لوگ جو کام کرتے ہیں اس میں ان حضرات کے نام اور کام کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے، آپ لوگ ان کی یاد کو، ان کے درس کو، ان کی بات کو، ان کے طرز زندگي کو فراموش نہیں ہونے دیتے۔ آپ جذبات کو ان کی جانب موڑ دیتے ہیں، چاہے ان کی ولادت کی مناسبت ہو یا شہادت کی۔ بنابریں ذاکر اور مداح اہلبیت کے کام کا موضوع بڑا ممتاز موضوع ہے۔

ایک دوسرا اہم کام ثقافت سازی کا ہے جو آپ انجام دے رہے ہیں۔ یعنی ائمۂ اطہار اور پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام اور ان کی یاد کو زندہ کرنا خود ہی معاشرے میں ایک ثقافت سازی اور ان حضرات کے اعلی افکار کی ترویج ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے نبوی، علوی اور فاطمی زندگی کے آئيڈیل کو فروغ دینا۔ زندگي کے اس آئيڈیل کو آپ اپنے کام کے ذریعے فروغ دے رہے ہیں۔ لہذا ذاکری و مداحی کا کام بہت اہم ہے اور یہ ایک نمایاں اور گرانقدر کام ہے جو خوش قسمتی سے فروغ بھی پا رہا ہے۔ یعنی یہ چیز ہمارے ملک میں یوں ہی روز بروز فروغ پا رہی ہے۔

ذاکرین و مداحان کو چند سفارشات: 1- ثقافت سازی اور اسلام کے فکری و ثقافتی اصولوں کی ترویج کی سنجیدہ کوشش

میں اپنی بات کے آخر میں آپ ذاکرین و مداحان اہلبیت علیہم السلام کو کچھ سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔ میری پہلی سفارش یہ ہے کہ اس بڑی اور سنگین ذمہ داری کو، جس کا میں نے ذکر کیا، سنجیدگي سے لیجیے۔ ثقافت سازی کی ذمہ داری، اسے رائج کرنے کی ذمہ داری، اسلام کی فکری و ثقافتی بنیادوں کو فروغ دینے کی ذمہ داری، ان سب کو سنجیدگی سے لیجیے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ آپ کا کام یہ ہے، آپ کے کام کی بنیاد یہ ہے، اپنے کام کا محور اسے قرار دیجیے۔ یہ پہلی نصیحت ہے کہ فکر، نصیحت، معرفت اور بصیرت کو اسی نمایاں فنی وسیلے کے ذریعے پھیلائیے، اپنی مہارتوں کے ذریعے پھیلائیے کہ ہر کسی میں کوئي نہ کوئي جدت عمل ہوتی ہے، مہارتیں ہوتی ہیں جنھیں وہ اپنے کام میں استعمال کرتا ہے۔

۲) مداحی اور انجمنوں کی روایتی شکل کی حفاظت

دوسری سفارش یہ ہے کہ مجلس و مداحی کے ڈھانچے اور اس کی شکل کی حفاظت ہونی چاہیے۔ مداحی اور انجمن چلانے کے کام کو اس طرح کے دوسرے کاموں سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے جو یہاں وہاں انجام پاتے ہیں۔ ذاکری و مداحی کی شکل کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ان تمام ہنری وسائل کا استعمال کیا جائے جن کا ذکر ہم نے کیا۔ اچھی آواز، اچھے اشعار اور اچھی اسلوب سے استفادہ ہونا چاہیے، لیکن ان چیزوں سے بالکل بھی استفادہ نہ کیجیے جو ذاکری و مداحی کے اس دائرے سے باہر ہیں،  اس طرح کی چیزوں سے اجتناب کیجیے۔ انجمن کو کسی دوسرے ماحول میں نہ بدلنے دیجیے، انجمن کو انجمن ہی رہنا چاہیے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے اور ان شاء اللہ آپ لوگ اس کی گہرائي پر توجہ دیں گے۔

۳) مدلل گفتگو، تاریخی و دینی مطالعتے کی ترویج

اگلی سفارش ٹھوس بات کہنے کی ہے؛ کوشش کیجیے کہ مدلل بات کہیے، جو بات کہنی ہے، چاہے وہ معصومین کی سیرت ہو، چاہے تاریخ ہو، چاہے دینی تعلیمات ہوں یا توحید وغیرہ کی بات ہو، چاہے مصائب ہوں۔ جو کہا جا رہا ہے وہ محکم اور مدلل ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ بات متین، ٹھوس اور مضبوط ہو۔ البتہ یہ بات خاص طور پر میں ان شعراء سے کہہ رہا ہوں جو مجلسوں اور مداحی کے لیے شعر کہتے ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع ہونا چاہیے۔ چاہے وہ دینی تعلیمات کا مطالعہ ہو یا تاریخ کا ہو۔ سیرت، تاریخ اور دینی تعلیمات کی صحیح شناخت ہونی چاہیے۔

۴) معاشرے میں اسلامی آداب کی ترویج اور بد زبانی و بدکلامی سے اجتناب

آخری سفارش یہ ہے کہ معاشرے میں اسلامی آداب کو پھیلائیے۔ میرے عزیزو! ایک بہت ہی اہم چیز، بات کرنے میں اسلامی آداب کا ملحوظ رکھنا ہے اور افسوس کہ آج کل سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی اس میں اسلامی آداب کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے۔ معاشرے میں بدزبانی اور دریدہ دہنی وغیرہ ختم ہونی چاہیے۔ آج کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں یا بے توجہی کرتے ہیں۔ یہ چیز معاشرے میں، خاص طور پر بعض میڈیا میں، چاہے وہ آڈیو میڈیا ہو یا ویجوول میڈیا ہو، خاص طور پر سوشل میڈیا میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اس پر آپ کو اپنے بیانوں میں، اپنے کام کے طریقے میں اس طرح سے عمل کرنا چاہیے کہ بدزبانی کا یہ کلچر ختم ہو۔ ائمہ، مکتب ائمہ اور مکتب علوی و فاطمی ان چیزوں سے مبرا ہے۔ آپ دیکھیے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دو طوفانی خطبے دئے ہیں۔ حقیقی معنی میں دو طوفانی خطبے۔ ایک مردوں سے بھری ہوئي مسجد میں اور دوسرا مدینے کی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے۔ ان دونوں خطبوں میں انتہائي اہم اور احتجاج آمیز باتیں موجود ہیں۔ احتجاج، اعتراض اور انتباہ ان نمایاں اسلامی امور کے سلسلے میں جن کے تئيں خطروں کو حضرت فاطمہ زہرا محسوس کر رہی تھیں۔ لیکن ان دونوں اہم، بڑے اور پرجوش خطبوں میں ایک لفظ بھی برا اور اہانت آمیز نہیں ہے۔ سارے ہی الفاظ بڑے ٹھوس اور محکم ہیں۔ بیان بھی انتہائي ٹھوس۔ آپ لوگوں کو اس روش پر چلنا چاہیے۔ آپ کی باتوں میں، بیانوں میں ایسی کوئي بات نہیں ہونی چاہیے جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ غیبت نہیں ہونی چاہیے، تہمت نہیں ہونی چاہیے، بدگوئي اور بدزبانی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ باتیں لوگوں کو سکھائيے اور دیکھیے کہ یہ کتنی اہم ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "انی اکرہ لکم ان تکونوا سبابین" (مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ گالیاں دینے والے بنو) (9)۔ جب حضرت علی علیہ السلام کے لشکر کے بعض افراد نے معاویہ کے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر کچھ بدزبانی کی تو آپ نے فرمایا: نہیں، نہیں، بدزبانی نہ کرو، بدگوئي نہ کرو، مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ ایسے بنو؛ یہ فاطمی و علوی اخلاق ہے۔

بحمد اللہ آج ملک کے تشہیراتی ادارے ترقی و کمال کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ بات میں آپ سے عرض کر رہا ہوں۔ اعلی دینی تعلیمی مراکز میں گہرے فکری و علمی میدانوں میں بھی اور دوسرے میدانوں میں بھی اس سلسلے میں بہت اچھا کام ہو رہا ہے اور بحمد اللہ اس کا نمونہ ہم نے مداحی کے حصے میں دیکھ بھی لیا اور دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ محرم میں جو کورونا سے متاثر تھا اور ماہ مبارک رمضان میں جو کورونا سے متاثر تھا، ہم نے دیکھا کہ آپ لوگوں نے بہت ہی اچھا کام کیا، جدت عمل کے ساتھ آگے بڑھے اور آپ نے بڑے خوبصورت کام انجام دیے۔

دشمنوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی قوت و طاقت میں مسلسل اضافہ

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ اسی طرح آگے بڑھتے رہیں گے، کام کرتے رہیں گے اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ آپ لوگ روز بروز زیادہ کامیاب ہوں گے۔ جان لیجیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں دشمن، کچھ نہیں کر سکتے، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جیسا کہ ہمارے کچھ بھائيوں نے اپنی باتوں میں اشارہ کیا کہ بحمد اللہ روز بروز اسلام اور اسلامی جمہوریہ طاقتور اور مضبوط ہو رہے ہیں اور آگے بھی بڑھتے رہیں گے۔ روحانی لحاظ سے بھی اور مادی لحاظ سے بھی۔ بے شک کچھ مسائل و مشکلات ہیں، یہ مشکلات وہ نشیب و فراز ہیں جو سماجی زندگي میں ہمیشہ رہیں گے۔ کچھ لوگ خدمت کرتے ہیں تو کچھ لوگ مواقع کو گنوا دیتے ہیں، یہ سب باتیں ہیں لیکن ان کا مجموعی نتیجہ ان شاء اللہ پیشرفت ہے۔

خداوند عالم سے آپ کے لیے توفیق کی دعا کرتا ہوں، آپ کے لیے دعاگو ہوں اور آپ کے لیے حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعا کا طلبگار ہوں کہ یقینا ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔ امید ہے آپ بھی میرے لیے دعا کریں گے اور خداوند عالم امام خمینی کی روح اور شہدائے عزیز کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

۱) کشف ‌الغمّه، جلد ۱، صفحہ ۴۶۲ (قدرے فرق کے ساتھ)

۲) علل ‌الشّرایع، جلد ۱، صفحہ ۱۸۲

۳) سوره‌ انسان، آیت نمبر ۹ کا ایک حصہ؛ «ہم خوشنودی پروردگار کے لئے تمہیں کھانا دیتے ہیں...»

۴) پہلی صدی ہجری کے آٹھ پارساؤں کے لئے علم رجال میں استعمال ہونے والا عنوان

۵) مناقب آل ابی ‌طالب، جلد ۳، صفحہ ۳۴۱

۶) سوره‌ شورا، آیت نمبر ۲۳ کا ایک حصہ؛ «...کہہ دیجئے کہ رسالت کے عوض تم سے میں کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو...»

7) سابق امریکی سینیٹر مارتھا میک سیلی نے کچھ عرصہ قبل بیان دیا کہ امریکہ کی فضائیہ میں سروس کے دوران انھیں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

8) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳۵ کا ایک حصہ؛«مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، صاحب ایمان مرد اور صاحب ایمان عورتیں، عبادت گزار مرد اور عبادت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں...»

9) نہج‌‌ البلاغه، خطبه‌ نمبر ۲۰۶