آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کے روز ہونے والی اس ملاقات میں فرمایا کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایران ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد بحال کر دے تو امریکا کو عملی طور پر تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا، اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ پابندیاں صحیح طریقے سے اور حقیقت میں ختم ہوئي ہیں یا نہیں اور اگر پابندیاں واقعی عملی طور پر ختم ہو جائيں گی تو ہم ایٹمی معاہدے کی ذمہ داریوں پر عمل آوری بحال کر دیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح زور دے کر کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پابندیوں کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ ایران، بے بنیاد باتیں کرنے والوں پر توجہ نہیں دے گا، چاہے وہ یورپ میں ہوں یا امریکا میں اور دوسری بات یہ کہ اگر ہم منطقی اور معقول بات کرنا چاہیں تو امریکا اور تین یورپی ملکوں کو، جنھوں نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں کو پامال کیا ہے، شرطیں رکھنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔ انھوں نے ایٹمی معاہدے کے اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران کے سلسلے میں امریکا کی جانب سے اندازے کی غلطی بدستور جاری ہے اور اسے اب بھی ایرانی قوم کی صحیح شناخت نہیں ہو سکی ہے، کہا کہ اندازے کی اس غلطی کا ایک نمونہ، سنہ دو ہزار نو کے فتنے میں دیکھا جا سکتا ہے جب امریکا کے ڈیموکریٹ صدر نے یہ سوچ کر کہ یہ فتنہ ایران کا کام تمام کر دے گا، باضابطہ طور پر فتنے کی حمایت کی تھی۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کو جھکانے کے مقصد سے اس پر لگائی جانے والی عدیم المثال پابندیوں کو، امریکا کی جانب سے اندازے کی ایک اور غلطی قرار دیا اور کہا کہ انہی پرلے درجے کے احمقوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ ہم جنوری 2019 کا جشن تہران میں منائيں گے۔ اب وہ شخص خود ہی تاریخ کے کوڑے دان میں پہنچ گیا ہے اور اس کے باس کو بھی بڑی بے عزتی سے لات مار کر وائٹ ہاؤس سے نکال دیا گيا ہے جبکہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اسلامی جمہوریہ ایران پوری مضبوطی سے قائم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا اور بعض دیگر طاقتوں کی صلاحیتوں کے بارے میں غیر حقیقی تجزیہ کرنے والوں کو امریکا کے حالیہ واقعات کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ امریکا کے حالیہ ذلت آمیز واقعات، چھوٹے مسائل نہیں ہیں اور انھیں ایک نابکار صدر کے زوال کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ باتیں امریکا کی عزت، طاقت اور سماجی نظام کا زوال ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کی نمایاں سیاسی شخصیات کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ خود کہہ رہے ہیں کہ امریکا کا سماجی نظام اندر سے بوسیدہ ہو چکا ہے اور بعض نے تو ما بعد امریکا تک کی بات کہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر امریکا کے ان واقعات جیسے مسائل دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے خاص طور پر ان ممالک میں ہوئے ہوتے جن سے امریکا کو پریشانی ہے تو ان باتوں کو کبھی بھی چھوڑا نہیں جاتا لیکن میڈیا کی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس معاملے کو ختم شدہ ظاہر کریں جبکہ یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ بدستور جاری ہے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کہا کہ خطے میں امریکا کی پٹھو حکومتوں خاص طور پر صیہونی حکومت کی بوکھلاہٹ اور سراسیمگي نیز صیہونی حکام کی حالیہ ہرزہ سرائی کی وجہ، عالمی اور داخلی سطح پر امریکا کے زوال کی حقیقت سے ان کا خوف و اضطراب ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا طاقت پیدا کرنے کے عناصر میں سے ایک علاقائي اور عالمی ضرورتوں کے لحاظ سے مسلح افواج کی تقویت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ فوجی مشقوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی عظیم اور حیرت انگیز فوجی مشقیں اور وہ بھی پابندیوں کے حالات میں، در حقیقت مسلح افواج میں ملک کے فرزندوں کے ہاتھوں قومی سلامتی کے بھرپور تحفظ کی نشانی اور انتہائي افتخار آمیز ہے۔