خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین.

پوری ایرانی قوم اور اس پروگرام کے سامعین و ناظرین کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔

بحمد اللہ ایک بار پھر درخت، پودے، سبزہ زار اور ماحولیات کے بارے میں بات کرنے کا ایک اور موقع حاصل ہوا ہے۔ خداوند عالم نے پودے اور درخت کو انسانی زندگي کا ایک اہم عنصر قرار دیا ہے۔ پودا، درخت اور سبزہ اور جو کچھ ان سے اگتا ہے، انسانی تمدن کی تعمیر میں ایک اہم اور اساسی بنیاد ہیں؛ پودے اور درخت، ہوا کو بھی صاف کرتے ہیں اور انسان کے لیے غذا بھی پیدا کرتے ہیں، وہ انسان کے دل و روح کے لیے شادابی کا بھی سبب ہیں اور انسانی زندگي کی ماحولیات کے لیے خوشی و آبادی کا بھی موجب ہیں، اسی طرح انسان کی ضرورت کی بہت سی دوائیں بھی پیڑ پودوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ لکڑیوں، پتوں اور جڑوں میں بھی بہت سے فوائد ہیں؛ بنابریں آپ دیکھتے ہیں کہ پودے، درخت اور سبزہ زار انسانی زندگي میں ایک بنیادی اور اہم عنصر ہیں۔

جو کچھ کہا گيا اس کے علاوہ درخت، پودے اور سبزہ زار کے سلسلے میں ہماری نظر، ایک معنوی اور معرفتی نظر ہے، دینی معرفت کی نظر ہے، یہ چیز ہمارے ادب میں بھی پوری طرح رائج ہے اور عوام، مفکرین اور انسانی مسائل کے بارے میں بات کرنے والے سبھی لوگوں نے اس بارے میں اپنی رائے دی ہے اور باتیں کی ہیں:

برگ درختان سبز در نظر ہوشیار        ہر ورقی دفتری است معرفت کردگار (سعدی)

(دانا شخص کی نظر میں ہرے درختوں کا ہر پتہ خداوند عالم کی معرفت کی ایک بیاض ہے)

مطلب یہ کہ اس سلسلے میں جو نظریہ ہے وہ معرفت والا نظریہ ہے۔ اسی لیے دین اسلام کی مقدس شرع میں شجرکاری اور پودے لگانے کو نیک کاموں میں سے ایک بتایا گيا ہے؛ متعدد روایتوں میں ہمیں درخت اگانے اور پودا لگانے کی ترغیب دلائی گئي ہے کہ یہ حسنہ یا نیک کام ہے۔ ہمارے آئين میں بھی ماحولیات کے لیے ایک دفعہ موجود ہے(1) جو اس کی اہمیت اور اس سلسلے میں کام کرنے کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے۔ بنابریں درختوں، پودوں، سبزہ زاروں، ماحولیات، جنگل اور اسی طرح کے دوسرے امور کے سلسلے میں جو سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں وہ دینی سرگرمیاں ہیں، انقلابی سرگرمیاں ہیں اور ہمارے عزیز نوجوانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ماحولیات کا مسئلہ سجاوٹ، عیش و عشرت کا سامان اور اضافی مسئلہ ہے، جی نہیں! یہ ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے جو شرع اور آئين میں بھی آيا ہے۔

بحمد اللہ ہمارا ملک اپنے موسمی تنوع، ماحولیاتی تنوع اور جغرافیائي تنوع کے سبب ماحولیات کے سلسلے میں سرگرمیوں کا ایک بڑا میدان ہے جس میں بڑے بڑے کام کیے جا سکتے ہیں اور سبھی لوگ اور نوجوان جو بحمد اللہ ملک کی مختلف طریقوں سے خدمت کر رہے ہیں، چاہے وہ علمی میدان ہو، انتظامی میدان ہو، سیاسی میدان ہو یا پھر سماجی میدان ہو، ماحولیات کے میدان میں بھی فعال ہو سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، کوشش کر سکتے ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ماحولیات کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کر دیتے ہیں، اپنی منفعت پسندی پر قربان کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ ہیں جو قدرتی ذخائر کو تباہ کرتے ہیں، جنگلوں اور پہاڑوں کو تباہ کرتے ہیں، چراگاہوں کو پامال کر دیتے ہیں، زیر زمین اور زیر آب ذخائر کی لوٹ مار کرتے ہیں، ماحولیات کی تباہی حقیقت میں ایک بڑی بلا ہے اور سبھی کو اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے، چاہے وہ حکام ہوں یا عوام۔ اصل میں یہ چیزیں انسانی زندگی کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہیں، جو شخص پہاڑوں کو لوہا، فولاد، عمارت کی تعمیر، اپارٹمینٹس کی تعمیر اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو اوپر لے جانے کا ذریعہ بناتا ہے یا چراگاہوں کو تباہ کرتا ہے یا جنگل کے درختوں کو کاٹتا ہے اور انھیں نقصان دہ کاموں میں استعمال کرتا ہے وہ در حقیقت آئندہ انسانی نسلوں کو ان نعمتوں سے محروم کرتا ہے اور انھیں خطرے میں ڈالتا ہے۔

البتہ کچھ قدرتی خطرات و آفات بھی ہیں؛ کبھی کبھی جنگلات میں قدرتی حادثات کی وجہ سے آگ لگ جاتی ہے جسے روکا جا سکتا ہے، جنگلوں کے لیے بھی اور تالابوں وغیرہ کے لیے بھی یہ قدرتی بلائيں موجود ہیں لیکن انھیں روکا جا سکتا ہے، انھیں روکا جانا چاہیے اور یہ حکام کی ذمہ داری ہے اور اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو حقیقت میں اس معاملے میں وہ قصوروار ہیں۔ بنابریں آج کا دن، جسے یوم شجرکاری کا نام دیا گيا ہے، بہت اہم دن ہے۔ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک میں سبھی لوگ آج کے دن اور ہمیشہ ماحولیات اور پیڑ پودوں کے مسئلے کو اہمیت دیں۔

کچھ باتیں، کورونا کے مسئلے کے بارے میں بھی عرض کر دوں۔ پچھلے سال حکام نے کورونا کے سلسلے میں، جو کورونا وائرس کے اوائل کے دن تھے، انتباہ دیا تھا اور کہا تھا، میں نے بھی ماحولیات کے اسی دن عزیز عوام سے خطاب کرتے ہوئے کچھ باتیں کہیں تھیں(2) اور بحمد اللہ ہمدردی رکھنے والوں کی بات کا اثر ہوا اور عوام نے عید نوروز کے ایام میں پوری طرح سے خیال رکھا تھا اور ایک بڑی بلا کو جو ان دنوں، ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی، دور کر دیا تھا۔ اس سال مجھے لگتا ہے کہ خطرہ پچھلے سال سے زیادہ ہے، اس سال ہم خطرے کو زیادہ اور بہتر طریقے سے پہچان رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ خطرہ ملک میں پھیل چکا ہے، پچھلے سال یہ خطرہ اتنا زیادہ نہیں تھا، بنابریں اس سال بھی سب لوگ خیال رکھیں، کورونا سے مقابلے کی قومی کمیٹی جو بھی کہے، اس پر عمل کیا جائے؛ اگر سفر پر نہ جانے کے لیے کہا جائے تو لوگ سفر نہ کریں، جو کچھ ضروری سمجھیں، انجام دیں، میں تو یقینی طور پر پچھلے سال کی طرح ہی سفر نہیں کروں گا، کورونا سے مقابلے کی قومی کمیٹی اس سلسلے میں جو بھی کہے گی، اس پر عمل کروں گا۔

کورونا کا مسئلہ عوام کی معاشی حالت پر بھی اثر انداز ہے؛ یہ بات ہمیں جان لینی چاہیے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کورونا نے لوگوں کی معیشت کے لیے کیسی مشکلات کھڑی کر دی ہیں، اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو یہ مشکلات بڑھتی جائيں گی اور جاری رہیں گي؛ جتنی جلدی ممکن ہو اس بڑی قدرتی بلا کا خاتمہ کر دینا چاہیے۔ افسوس کہ آج عوام کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں؛ یہ ہمارے لیے بڑے دکھ کی بات ہے۔ مہنگائي بہت ہے؛ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عید نوروز کی آمد کے موقع پر پھل وغیرہ بہت زیادہ مہنگے ہیں؛ پھل وافر مقدار میں ہیں لیکن بہت زیادہ مہنگے ہیں۔ افسوس کہ اس قیمت سے ملنے والا فائدہ باغبان کی جیب میں بھی نہیں جا رہا ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ ایک محنتی طبقے کو فائدہ ہو رہا ہے؛ نہیں، افسوس کہ یہ فائدہ بیچ کے لوگوں اور منفعت پسندوں کو ہو رہا ہے، باغبان کو کچھ بھی نہیں مل رہا ہے، عوام کو تو نقصان ہی ہو رہا ہے۔ بنابریں قابل احترام حکام کو عوام کے اس معاشی مسئلے کو بھی اور مہنگائي کی مشکل کو بھی حل کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے، اس کی راہ حل ہے، میں نے متعدد نشستوں میں اس کی یاد دہانی کرائي ہے اور اس سلسلے میں ماہرین کی رائے اور ان کی جانب سے پیش کی گئي راہ حل کو بیان کیا ہے؛ راہ حل موجود ہے، ان شاء اللہ اس پر عمل کیا جائے گا۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم نے ملک کے لیے اور عوام کے لیے اچھا مستقبل مقدر کیا ہوگا اور امام زمانہ ہم سے راضی ہوں گے اور ان حضرت کی دعا ہماری قوم اور ہمارے ملک کے شامل حال ہوگي۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) آئین کی دفعہ نمبر پچاس

(2) تین مارچ سنہ دو ہزار بیس کو یوم شجر کاری کے موقع پر تقریر