آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق قدس شریف کو محور قرار دیکر مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون صیہونی دشمن کا ڈراونا خواب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کے سقوط کا عمل شروع ہو چکا ہے اور یہ رکنے والا نہیں ہے۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم  

 الحمد للہ رب العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمد خاتم النّبین واشرف الخلق اجمعین و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین

فلسطین، امت اسلامیہ کا سب سے حساس اور اہم ترین مسئلہ 

 فلسطین کا معاملہ بدستور امت اسلامیہ کا حساس ترین اور اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ظالم و سفاک سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں نے ایک پوری ملت کو اس کے گھربار، اس کے وطن اور اس کی آبائی سرزمین سے محروم کر دیا اور وہاں ایک دہشت گرد حکومت قائم کر دی، غیروں کو لاکے بسا دیا۔

صیہونی حکومت کی تاسیس کا فلسفہ   

صیہونی حکومت کی تاسیس کی کھوکھلی دلیل سے زیادہ کمزور اور بے بنیاد دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟! یورپ والوں نے خود اپنے دعوے کے مطابق، دوسری عالمی جنگ کے برسوں میں یہودیوں پر ظلم کیا! تو پھر اس کے عوض مغربی ایشیا میں ایک قوم کو آوارہ وطن کرکے اور اس ملک میں وحشیانہ قتل عام کے ذریعے یہودیوں کا انتقام لیا جائے۔۔۔۔۔!

یہ وہ دلیل ہے کہ مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی بے دریغ اور دیوانہ وار حمایت کے لئے جس کا سہارا لیتی ہیں۔ اس طرح انھوں نے انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے اپنے تمام جھوٹے دعؤوں کی خود ہی نفی کر دی ہے اور یہ المناک اور مضحکہ خیز قضیہ ستّر سال سے جاری ہے اور ہر کچھ عرصے بعد اس میں کچھ نئے ابواب کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد، سب کا ہمہ گیر فریضہ

صیہونیوں نے روز اول سے ہی غصب شدہ سرزمین فلسطین کو دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ اسرائيل کوئی ملک نہیں بلکہ ملت فلسطین اور دیگر اقوام کے خلاف دہشت گردی کا اڈا ہے۔ اس سفاک حکومت کے خلاف جدوجہد در حقیقت ظلم کے خلاف مجاہدت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور یہ سب کا ہمہ گیر فریضہ ہے۔

امت اسلامیہ کی  زبوں حالی اور انتشار سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار ہوئی

ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ غاصب حکومت انیس سو اڑتالیس میں قائم کی گئی لیکن اسلامی علاقے کے اس اہم اور حساس خطے پر قبضے کی تیاری  اس سے برسوں پہلے شروع کر دی گئی تھی۔ یہ اسلامی ملکوں میں سیکولرزم اور انتہا پسندانہ نیز اندھی قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنے اور استبدادی نیز مغرب کی دلدادہ اور اس کی پٹھو حکومتیں مسلط کرنے کے لئے مغربی دنیا کی سرگرم دخل اندازی کا دور تھا۔ ایران، ترکی اور مغربی ایشیا کے عرب ملکوں اور شمالی افریقا کے ان برسوں کے واقعات کا مطالعہ اس تلخ حقیقت کو آشکارا کرتا ہے کہ امت اسلامیہ کی زبوں حالی و انتشار سے سرزمین فلسطین پر قبضے کے المئے کی زمین ہموار ہوئی اور استکباری دنیا نے امت اسلامیہ پر یہ وار کر دیا۔

سرزمین فلسطین کو غصب کرنے کے معاملے میں صیہونی سرمایہ داروں سے مغربی اور مشرقی بلاکوں کا بھرپور تعاون

یہ مقام عبرت ہے کہ اس دور میں، صیہونی قارونوں (سرمایہ داروں) کے ساتھ کیپیٹلسٹ اور کمیونسٹ دونوں کیمپ متحد ہو گئے تھے۔ برطانیہ نے سازش تیار کی۔ صیہونی سرمایہ داروں نے اپنی دولت اور اسلحے سے اس کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری قبول کی۔ سوویت یونین، پہلا ملک تھا جس نے اس غیر قانونی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور بڑی تعداد میں یہودیوں کو وہاں بھیجا۔

غاصب حکومت، ایک طرف اسلامی دنیا کی اس وقت کی بدحالی کا نتیجہ تھی تو دوسری طرف ان یورپ والوں کی  سازش، جارحیت اور یلغار کی دین تھی۔

موجودہ دور میں طاقت کے توازن کا جھکاؤ عالم اسلام کی سمت

آج دنیا کی حالت اس دور جیسی نہیں ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ نظر میں  رکھنا چاہئے۔ آج طاقت کا توازن اسلامی دنیا کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکا کے گوناگوں سیاسی و سماجی حوادث نے مغرب والوں کی تنظیمی، انتظامی و اخلاقی خامیوں اور کمزوریوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ امریکا میں انتخابات کے واقعات اور آزمائش کے وقت اس ملک کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے متکبر حکام کی سخت رسوائی، نیز یورپ اور امریکا میں کورونا کے پھیلاؤ کے مقابلے میں ان کی پورے سال کی ناکامی اور اس (وبا) سے متعلق شرمناک واقعات اور اہم ترین یورپی ملکوں میں سیاسی اور سماجی انتشار، یہ سب مغربی کیمپ کے زوال اور سقوط کی نشانیاں ہیں۔

دوسری طرف حساس ترین اسلامی علاقوں میں مزاحمتی فورسز کا ظہور، ان کی دفاعی اور حملہ کرنے کی توانائيوں میں اضافہ، مسلم اقوام میں خود آگہی، امید اور حوصلے کا نمو، اسلامی اور قرآنی نعروں کی طرف میلان میں اضافہ، علمی پیشرفت، اقوام میں حریت پسندی اور خود انحصاری کا فروغ، یہ سب وہ مبارک علامتیں ہیں جو بہتر مستقبل کی نوید دے رہی ہیں۔

فلسطین اور قدس کے محور پر اسلامی ملکوں کے متحد ہونے کی ضرورت

اس مبارک مستقبل میں مسلمان ملکوں کی ہم آہنگی اور باہمی تعاون ایک اہم اور بنیادی ہدف ہونا چاہئے اور یہ ہدف دسترس سے باہر بھی نہیں ہے۔ اس ہم آہنگی اور تعاون کا مرکز مسئلہ فلسطین، یعنی پورے ملک فلسطین اور قدس شریف کو ہونا چاہئے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس نے حضرت امام خمینی کبیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلب نورانی میں یہ بات ڈالی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے، جمعۃ الوداع کو یوم قدس قرار دیا جائے۔

قدس شریف کے محور پر مسلمانوں کی ہم آہنگی اور تعاون صیہونی دشمن اور اس کے حامی امریکا اور یورپ کے لئے وحشتناک ہے۔ سینچری ڈیل کی ناکامی اور اس کے بعد غاصب حکومت کے ساتھ چند کمزور عرب حکومتوں کے روابط کی بحالی اسی وحشتناک حقیقت سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔

میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ دشمن صیہونی حکومت کے زوال کا عمل شروع ہو چکا ہے جو رکے گا نہیں۔

مستقبل ساز عوامل: مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت کا تسلسل اور مسلمانوں کی حانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت

 دو اہم عوامل مستقبل کا تعین کرنے والے ہیں: پہلا اور اہم تر عامل، سرزمین فلسطین کے اندر مزاحمت کا جاری رہنا اور محاذ جہاد و شہادت کی تقویت ہے اور دوسرا، پوری دنیا کی مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت ہے۔

 حکام، روشن فکر دانشور، علمائے دین، جماعتیں اور تنظیمیں، غیور نوجوان اور دیگر طبقات، سبھی اپنے اپنے طور پر اس ہمہ گیر تحریک میں شامل اور سرگرم ہوں۔ یہ وہ چیز ہے جو دشمن کے حیلے کو ناکام بناتی ہے اور اس وعدہ الہی کے لئے کہ: "ام یریدون کیدا فالّذین کفروا ھم المکیدون" (1) آخری زمانے کا مصداق معین کرتی ہے :"واللہ غالب علی امرہ ؛ ولکن اکثر الناس لایعلمون"(2)۔ 

***

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد عربی زبان میں اپنی تقریر کا آغاز کیا، جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

یہاں میں عرب نوجوانوں سے ان کی زبان میں بات کرنا چاہتا ہوں

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

  سبھی حریت پسند عرب نوجوانوں کو سلام، فلسطین اور قدس کے ثابت قدم عوام اور مسجد الاقصی کے مجاہدین کو سلام۔

 شہدائے استقامت اور ان عظیم مجاہدین پر سلام جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بالخصوص شہید احمد یاسین، شہید سید عباس موسوی ، شہید فتحی شقاقی، شہید عماد مغنیہ، شہید عبدالعزیز رنتیسی، شہید ابو مہدی المہندس اور شہدائے استقامت میں سب سے نمایاں ہستی شہید قاسم سلیمانی پر سلام۔۔۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی متبرک زندگی اور شہادت سے استقامتی جذبے پر اہم اثرات مرتب کئے ہیں۔

فلسطینیوں کی مجاہدت اور شہدائے استقامت کا پاکیزہ خون، اس مبارک پرچم کو اٹھانے اور بلند رکھنے اور جہاد فلسطین کی اندرونی طاقت کو سو گنا بڑھا دینے میں کامیاب رہا۔ ایک وہ زمانہ تھا جب فلسطینی نوجوان پتھروں سے اپنا دفاع کرتے تھے اور آج پوری درستگی سے نشانے پر لگنے والے میزائلوں سے دشمن کو جواب دیتے ہیں۔

 فلسطین اور قدس کو قرآن مجید میں 'الارض المقدسہ' کہا گیا ہے۔ دسیوں سال سے اس پاکیزہ سرزمین پر ناپاک ترین اور خبیث ترین عناصر کا قبضہ ہے۔ ان شیطانوں کا قبضہ ہے جو باشرف انسانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں اور نہایت بے شرمی سے اس کا اعترا‌ ف بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ نسل پرست ہیں جنہوں نے ستر سال سے زائد عرصے سے اس سرزمین کے مالکین کو قتل  وغارتگری، قید اور ایذارسانیوں  کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ لیکن الحمد للہ ان کے ارادوں کو مغلوب نہیں کر سکے۔

فلسطین زندہ ہے، اس کی مجاہدت جاری ہے اور نصرت خدا سے خبیث دشمن پر اسے غلبہ ملے گا۔ قدس شریف اور پورا فلسطین اس سرزمین کے عوام کا ہے  اور ان شاء اللہ انہیں واپس ملے گا، وما ذالک علی اللہ بعزیز۔

 فلسطین کے تعلق سے سبھی مسلم اقوام اور حکومتوں کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن مجاہدت کا مرکز خود فلسطینی ہیں جو اس سرزمین کے اندر اور اس سے باہر رہنے والوں کو ملاکے، ایک کروڑ چالیس لاکھ ہیں۔ ان کا اتحاد اور مشترکہ عزم، عظیم کارنامہ انجام دے گا۔

آج اتحاد فلسطینیوں کا سب سے بڑا ہتھیار

فلسطینی وحدت کے دشمن صیہونی حکومت، امریکا اور بعض دیگر سیاسی قوتیں ہیں لیکن اگر خود فلسطینی برادری کے اندر سے وحدت شکنی نہ ہو تو بیرونی دشمن کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ اس وحدت کے لئے سرزمین فلسطین کے اندر جہاد اور دشمن پر بے اعتمادی کو بنیاد بنانا چاہئے۔ فلسطین سے متعلق پالیسیوں میں فلسطینیوں کے اصلی دشمنوں یعنی امریکا، برطانیہ اور خبیث صیہونیوں پر ہرگز بھروسہ نہ کیا جائے۔     

فلسطینی چاہے غزہ میں ہوں، قدس میں ہوں، غرب اردن میں ہوں، چاہے انیس سو اڑتالیس میں غصب کئے جانے والے علاقوں میں ہوں، چاہے کیمپوں میں ہوں، سب ایک یونٹ تشکیل دیتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے وابستہ اور متصل رہنے کی اسٹریٹیجی اپنانی چاہئے۔ ہر علاقے کو  دیگر علاقوں کا دفاع کرنا چاہئے اور ان پر دباؤ کی صورت میں ان سبھی وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے جو ان کے اختیار میں ہوں۔

 کامیابی کی امید آج ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ طاقت کا توازن آج فلسطینیوں کے حق میں پوری طرح جھک گيا ہے۔

صیہونی دشمن سال بہ سال کمزور سے کمزور تر ہوا ہے۔ اس کی فوج جو خود کو  ناقابل شکست بتاتی تھی، آج لبنان کے خلاف تینتس روزہ اور غزہ کے خلاف  بائیس روزہ اور آٹھ روزہ جارحیت میں شکست کے بعد ایک ایسی فوج بن کر رہ گئی ہے جو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی سیاسی حالت یہ ہے کہ دو سال میں چار بار انتخابات کرانے پڑے اور اس کی سلامتی کی صورتحال یہ ہے کہ پے در پے شکست سے دوچار ہو رہی ہے اور یہودیوں میں الٹی مہاجرت کا روز افزون رجحان  بڑھ بڑھ کے دعوے کرنے والی اس حکومت کے لئے مزید  باعث رسوائی بن گیا ہے۔

امریکا کی مدد سے چند عرب ملکوں کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کی اس کی مسلسل کوشش، اس حکومت کی کمزوری کی ایک اور علامت ہے۔ البتہ اس سے بھی اس کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس نے دسیوں برس پہلے مصر سے روابط استوار کئے، اس وقت کی نسبت اب صیہونی حکومت بہت زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ ان حالات میں کیا چند کمزور ملکوں کے ساتھ رابطہ اس کے لئے طوق نجات بن سکے گا؟! ان ملکوں کو بھی اس رابطے سے کوئي فائدہ نہیں ہوگا۔ صیہونی دشمن ان کے ملک اور دولت میں تصرف کرے گا اور ان کے یہاں برائیاں اور بدامنی پھیلائے گا۔

البتہ ان حقائق کو دیکھ کر دوسروں کو اس تحریک کے تعلق سے اپنی سںگین ذمہ داری کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ مسلمان اور عیسائی علما کو صیہونی حکومت کے ساتھ رابطے کو شرعا حرام قرار دینا چاہئے اور حریت پسندوں اور روشنفکر دانشوروں کو فلسطین کی پشت میں خنجر کی مصداق اس خیانت کے نتائج سے سب کو آگاہ کرنا چاہئے۔

صیہونی حکومت کے زوال پذیر ہونے کے برخلاف استقامتی محاذ کی توانائيوں میں اضافہ درخشاں مستقبل کی بشارت دے رہا ہے۔ فوجی اور دفاعی طاقت میں اضافہ، کارآمد اسلحے کی ساخت میں خود انحصاری، مجاہدین کی خود اعتمادی، نوجوانوں کی روز افزوں خود آگاہی، پورے فلسطین اور اس سے باہر، استقامت کے دائرے میں وسعت، مسجد الاقصی کے دفاع میں نوجوانوں کی حالیہ تحریک اور اسی کے ساتھ دنیا کے بہت سے علاقوں کے عوام میں ملت فلسطین کی مظلومیت اور مجاہدت سے آگاہی۔

فلسطینیوں کی مزاحمت کی منطق، جس کو اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ کی دستاویزات میں رجسٹرڈ کرایا ہے، ایک پیشرفتہ اور پرکشش منطق ہے۔ فلسطینی مجاہدین سرزمین فلسطین کے سبھی باشندوں کی شرکت سے ایک ریفرنڈم کا موضوع پیش کر سکتے ہیں۔ اس ریفرنڈم میں اس ملک کے سیاسی نظام کا تعین ہوگا اور اس سرزمین کے حقیقی باشندے جس قوم اور دین سے بھی تعلق رکھتے ہوں، سبھی منجملہ وہ فلسطینی بھی جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اس میں شرکت کریں گے۔ یہ ریفرنڈم جلاوطن مہاجرین کو ملک میں واپس لائے گا اور ان غیر فلسطینیوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا جو باہر سے  یہاں لاکے بسائے گئے ہیں۔

 یہ مطالبہ اس مروجہ ڈیموکریسی کے اصول پر مبنی ہے جس کو دنیا نے تسلیم کیا ہے اور کوئی بھی اس کے ترقی پسند ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔

فلسطینی مجاہدین کو چاہئے کہ غاصب حکومت کے خلاف اپنی قانونی اور اخلاقی مجاہدت اس وقت تک جاری رکھیں جب تک وہ اس کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ ہو جائے۔

اللہ کا نام لے کر آگے بڑھئے اور جان لیجئے کہ 'لینصرنّ اللہ من ینصرہ'۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ    

 

 1- سورہ طور: آیت نمبر  42: وہ نیرنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن جو کافر ہو گئے ہيں وہ خود نیرنگ کا شکار ہو گئے ہیں۔

2- سورہ یوسف: آیت نمبر 21 کا ایک حصہ: اور خدا اپنے کام پر دسترسی رکھتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔