اول یہ کہ ایک مسلم مملکت کو اس کی مالک قوم سے چھین لیا گیا اور اسے مختلف ممالک سے لاکر جمع کئے گئے اور ایک جعلی معاشرے میں تبدیل کر دئے جانے والے اغیار کے سپرد کر دیا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کا یہ نرالا واقعہ مسلسل قتل عام، جرائم، مظالم اور توہین آمیز اقدامات کے ساتھ انجام دیا گیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دوسرے بہت سے دینی مراکز جو اس ملک میں واقع ہیں انہدام، بے حرمتی اور نابودی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے حساس ترین علاقے میں واقع یہ جعلی معاشرہ اور حکومت شروع سے تاحال استکباری طاقتوں کے لئے فوجی اور سیاسی چھاونی کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور مغربی سامراج نے جو گوناگوں اسباب و علل کی وجہ سے اسلامی ممالک کی پیشرفت اور باہمی اتحاد کا دشمن ہے اسے امت اسلامیہ کے پہلو میں کسی خنجر کی مانند اتار دیا ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ صیہونزم جو انسانی معاشرے کے لئے بہت خطرناک اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی ناسور ہے اس ٹھکانے کو اور اس تکیہ گاہ کو دنیا میں اپنے اثر و نفوذ کی توسیع کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔
ہمارا مطمح نظر فلسطین کی آزادی ہے، فلسطین کے صرف ایک حصے کی آزادی نہیں۔ جس تجویز میں بھی فلسطین کی تقسیم کی بات کی گئي ہے ناقابل قبول ہے۔ دو حکومتوں کی تشکیل کی تجویز سوائے صیہونیوں کے مطالبات کے سامنے سر جھکانے یعنی فلسطینی سرزمین میں صیہونی حکومت کا وجود تسلیم کرنے کے، کچھ اور نہیں ہے۔ یہ ملت فلسطین کے حقوق کی پامالی، فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق سے بے اعتنائی بلکہ 1948 کی سرزمین پر بسنے والے فلسطینیوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دینے کے معنی میں ہے، سرطانی پھوڑے کو باقی رکھنے اور امت اسلامیہ اور بالخصوص علاقے کی قوموں کو دائمی خطرے میں ڈالنے کے معنی میں ہے، شہیدوں کے خون کی پامالی اور کئی عشروں سے جاری رنج و آلام کو دائمی بنانے کے معنی میں ہے۔
ہر عملی منصوبہ پورا فلسطین، تمام فلسطینیوں کے لئے کے اصول پر استوار ہو۔ فلسطین نہر سے بحر تک (دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلا ہوا) فلسطین ہے اس سے ایک بالشت بھی کم نہیں۔ البتہ یہ نکتہ فراموش نہ ہونے پائے کہ فلسطینی عوام نے جس انداز سے غزہ میں عمل کیا ہے، وہ اسی طرح فلسطین کے ہر اس خطے میں جسے وہ آزاد کرانے میں کامیاب ہوں گے عمل کریں گے اور اپنی منتخب حکومت کے ذریعے وہاں کا انتظام سنبھالیں گے لیکن اپنے آخری ہدف کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بلند ہدف کے حصول کے لئے باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے، سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ صرف نمائشی اقدامات نہیں، تلون مزاجی اور بے صبری کی کارروائياں نہیں تدبر و صبر و تحمل ضروری ہے۔ دور اندیشی کی ضرورت ہے، ہر قدم پورے عزم و توکل اور بھرپور امید کے ساتھ بڑھانا ہے۔ مسلمان حکومتیں اور قومیں، لبنان، فلسطین اور دیگر ممالک میں موجود مزاحمتی تنظیمیں، سب اس ہمہ گیر مجاہدت میں اپنے کردار اور شراکت کا تعین کر سکتے ہیں اور مزاحمت کی تصویر کو مکمل کر سکتے ہیں۔
امام خامنہ ای
1 اکتوبر 2011