بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

مجھے بڑی خوشی ہے کہ الحمد للہ اس سال بھی عزیز طلبا کے ساتھ اس میٹنگ کی توفیق حاصل ہوئی۔ اگرچہ میری خواہش اور آرزو یہ تھی کہ آپ کے ساتھ یہ میٹنگ دو بدو ہوتی، ہم نزدیک سے آپ کو دیکھتے، ہمکلام ہوتے اور آپ کی باتیں سنتے، لیکن بہرحال، حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ حالات بھی ایک دن بدل جائيں گے۔ خداوند عالم ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہمارا جو فریضہ ہے اسے، ہر حال میں انجام دیں۔

 

گزشتہ برسوں کی نسبت میٹنگ کی سطح بلند ہوئی ہے

آج کی میٹنگ بہت اچھی تھی۔ جومسائل بیان کئے گئے میں ان پر تنقید کروں گا نہ کوئی فیصلہ صادر کروں گا لیکن آج کی میٹنگ کا معیار ماضی سے بہتر تھا۔ بہت اچھی باتیں کی گئيں۔ میرے خیال میں، طلبا کے ان نظریات کا اظہار اور حل کی جو راہیں آپ پیش کرتے ہیں، البتہ آج حل کی راہیں زیادہ پیش نہیں کی گئيں، لیکن کلّی باتیں کی گئيں جو بہت مفید ہیں، اور وہ تنقید جو حالات کے بارے میں طلبا کے ذہن میں ہے، رائے عامہ کے لئے بہت مفید ہے اور معاشرے کی سوچ کو آگے بڑھاتی اور بلند کرتی ہے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو خوبیاں اور اچھائیاں عطا کرے، ان میٹنگوں میں برکت پیدا کرے اور جو اس کی رضا ہے اس میں ہمیں کامیابی عنایت فرمائے۔

 

ہماری سماجی اور عام راہ و روش پر رمضان المبارک کے طور طریقوں کے اثرات

ہم رمضان المبارک کے آخری ایام میں پہنچ چکے ہیں۔ میں اپنی گفتگو کا سرآغاز اسی کو قرار دیتا ہوں کہ رمضان ضیافت الہی کا مہینہ ہے، رحمت الہی کا مہینہ ہے، ہدایت الہی کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک میں آپ اور ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں، ہمیں اپنے اندر اس رحمت الہی کا احساس ہونا چاہئے۔ اسی کے ساتھ، ان آثار اور ان حالات کو دوسرے مہینوں میں بھی، اپنی با برکت زندگی میں باقی اور محفوظ رکھنا چاہئے۔ رمضان المبارک کے سیر و سلوک اور اس کیفیت، رقت، توجہ اور پورے وجود سے خدا کے حضور موجودگی کے احساس کو جو رمضان المبارک میں خداوند عالم اپنے مہمان روزے دار کو عطا کرتا ہے، ہمارے ذاتی رفتار و کردار پر بھی اس کی تاثیر اور اثرات کو ظاہر ہونا چاہئے۔ ہمارے علمی رفتار و کردار پر بھی ، یونیورسٹی کے تعلق سے ہمارے کردار پر بھی، ہمارے حکومتی روئے پر بھی اور ہمارے سیاسی طرز عمل پر بھی (اس کی تاثیر ہونی چاہئے)۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان تمام پہلووں پر تقوا اور دینداری کے اثرات ظاہر ہوں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس کیفیت اور اس باب رحمت الہی کو رمضان المبارک کے بعد بھی کھلا رہنا چاہئے۔

صحیفہ سجادیہ میں ایک دعا ہے جو امام سجاد (علیہ السلام) پہلی رمضان المبارک کو ورود ماہ رمضان پر پڑھتے ہیں اور اس دعا کو پڑھنے کی سفارش کی گئي ہے۔ آپ اس دعا کے آخر میں فرماتے ہیں: اَللٰهُمَّ وَ اجعَلنا فی سائِرِ الشُّهورِ وَ الاَیّامِ کَذٰلِکَ ما عَمَّرتَنا؛ یہ آپ کی پہلی رمضان المبارک کی دعا ہے؛ یعنی دوسرے مہینوں میں بھی ہمارے اسی جذبے اور حالت کو باقی رکھ، وَ اجعَلنا مِن عِبادِکَ الصّالِحین(2)۔

 

افغانستان میں اسکولی طالبات اوربیت المقدس میں فلسطینیوں کے قتل عام پر گہرا دکھ

 میں نے آج کے لئے ایک موضوع منتخب کیا ہے، البتہ اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ خوش قسمتی سے بعض دوستوں کے بیانات میں جو باتیں کئی بار کہی گئي ہیں، یہ موضوع انہیں سے تعلق رکھتا ہے۔ ہماری بحث کا موضوع "تبدیلی کا رجحان اور تغیر پسندی" ہے۔ اس سلسلے میں، میں بعض نکات بیان کروں گا لیکن بحث شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ گزشتہ دنوں، اسلامی دنیا میں جو دو خونریز واقعات رونما ہوئے ان کے بارے میں کچھ عرض کروں اور اپنے غم و اندوہ کے احساسات بیان کروں۔

ایک المناک اور دلخراش واقعہ افغانستان کا ہے جس میں مظلوم اور نئی کلیوں اور غنچوں کی شہادت واقع ہوئی، کسی گناہ کے بغیر انہیں خاک وخون میں غلطاں اور ان کے گھر والوں کو سوگوار کر دیا گیا۔ خدا کی لعنت ہو ان لوگوں پر جو وحشیانہ جرائم کی ایسی انتہا کر دیتے ہیں اور اتنی بڑی  تعداد میں بے گناہ  طالبات کے قتل عام کو اپنے لئے مباح سمجھتے ہیں!

اسی طرح مسجدالاقصی، قدس شریف اور فلسطین سے متعلق حوادث ہیں جنہوں نے  صیہونیوں کی خباثت دنیا والوں پر عیاں کر دی ۔ سبھی کا فریضہ ہے کہ اس پر موقف اختیارکریں (اسٹینڈ لیں)۔ حالیہ دنوں میں صیہونیوں نے جو ظالمانہ، وحشیانہ اور خبیثانہ جرائم انجام دئے ہیں، ان کی مذمت کریں۔ خوش قسمتی سے فلسطینی بیدار ہیں اور مستحکم ارادوں کے ساتھ جواب دے رہے ہیں اور جواب دینا بھی چاہئے۔ یہ  جرائم پیشہ

(صیہونی) طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں (فلسطینوں کو) خود کو طاقتور بنانا، ڈٹے رہنا اور مقابلہ کرنا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ صیہونیوں کو جرائم کا سلسلہ بند کرنے اور حق و انصاف کی بات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔

میں نے عرض کیا تھا کہ ایک موضوع سبھی نوجوانوں اور طلبا کے لئے بیان کروں گا، اس ب اس پر آتا ہوں۔ چند باتیں میں طلبا تنطیموں کے لئے بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔

تبدیلی کا رجحان، تغیرپسندی اور اس کے مسائل

میں نوجوانوں بالخصوص طلبا کے سامنے جو مسئلہ رکھنا چاہتا ہوں وہ تغیر پسندی اور بدلاؤ لانا ہے۔ پہلے یہ عرض کروں گا کہ  تبدیلی کیا ہے اور تغیر پسندی سے ہماری مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ تبدیلی کی ضرورت کی دلیل کیا ہے اور ہمیں اس تبدیلی کی ضرورت کیوں ہے؟ تیسرے ہمیں تبدیلی کو معین کرنا ہے کہ تبدیلی کس مقصد کے تحت آنی چاہئے اور اس تبدیلی سے ہمیں کس سمت میں جانا ہے؟ اس سلسلے میں چند نکات بیان کروں گا۔

خوش قسمتی سے آپ کے اذہان تیار ہیں اور آج آپ کے بیانات میں، میں نے ایسے بہت سے نکات دیکھے جو میرے مد نظر تھے اور یہ خوشی کی بات ہے۔ 

 

 تبدیلی یعنی انقلاب کے بنیادی خطوط و اصول کی تقویت و تحفظ اور طریقہ کار، روش اور کارکردگی میں نئی راہوں کی تلاش

 لیکن تبدیلی سے ہماری مراد، ملک کے سبھی اداروں، حکومتی شعبوں اور اسی طرح عام طرز زندگی میں جس کے چند نمونے میں،  بعد میں بیان کروں گا، ایک تیز رفتار جہادی تحریک ہے۔ مختصر یہ کہ انقلاب کے بنیادی خطوط و اصول کی تقویت و تحفظ کے ساتھ، کارکردگی، روش اور طریقہ کار میں جدت طرازی لانا ہے۔

مغرب والوں کے مد نظر تبدیلی کا مطلب،  انقلاب میں تبدیلی

 تبدیلی ایک عام عنوان ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ جب ہمارے بارے میں بولتے ہیں تو تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی جو لوگ مغربی رجحان رکھتے ہیں اور مغربی طور طریقوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں، تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تبدیلی ہوتی ہے جو ان کے مد نظر ہے، یعنی انقلاب کے اصولوں میں تبدیلی۔ یعنی ماضی کی طرف لوٹنا، یعنی ان کی تبدیلی در اصل رجعت پسندی ہے، پیچھے لوٹنا ہے۔ وہ انقلابی باتوں کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دیکھتے کہ وہ جب تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو معمول پر لانے کی بات کرتے ہیں یعنی انقلاب اور ملک کو عالمی اصولوں سے قریب کرنے پر زور دیتے اور ورغلاتے ہیں اور اس کو تبدیلی کا ثبوت اور علامت  قرار دیتے ہیں۔ تبدیلی کے بارے میں ہماری بات اور مراد، وہ تبدیلی ہے جو انقلاب کی تقویت کے لئے لائی جائے۔ جبکہ تبدیلی سے ان کی مراد انقلاب اور انقلابی بنیادوں کی نفی ہے، ان کی مراد نظام تسلط کے اصولوں سے نزدیک ہونا ہے۔ بنابریں صرف تبدیلی کا لفظ کافی نہیں ہے۔ ہمارے بیان اور ہماری منطق میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ ہمیں نئے طور طریقوں اور راہ نو کی ایجاد کے ساتھ  انقلاب اور انقلابی اصولوں کی تقویت کی سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔

 تبدیلی لانے کی ضرورت

 تبدیلی لانے کے لئے ہمیں اس کی ضرورت کا یقین ہونا چاہئے۔ تبدیلی لانا کیوں ضروری ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ملک کی پیشرفت اور کامیابیوں کے ساتھ جو زیادہ ہیں اور یہاں ہمارے بعض دوستوں نے جو گفتگو کی ہے اس میں بھی اس پیشرفت کی نشاندہی کی گئی ہے، مگر درحقیقت ملک میں گوناگوں پیشرفت کے عنوان سے جو کچھ ہوا ہے وہ اس سے بہت وسیع تر اور زیادہ ہے لیکن بعض جگہوں پر پسماندگی بھی ہے اور مشکلات زیادہ گہری ہوئی ہیں، ان مشکلات کو دور ہونا چاہئے۔  اقتصادی شعبے میں، عدل و انصاف کے شعبے میں سخت مشکلات ہیں۔ سماجی میدان میں بنیادی مشکلات ہیں جن میں سے بعض تو ایسی  بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہیں جو جڑ پکڑ چکی ہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ ان کے علاج کی راہیں نکالنےکی ضرورت ہے۔ یہ پسماندگیاں در حقیقت ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہیں۔ یعنی ماضی میں گزشتہ دسیوں سال کے دوران بعض معاملات میں غفلتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ خود غرضیاں بھی انقلابی خطوط سے انحراف اور تدریجی طور پر انہیں پس پشت ڈالے جانے پر منتج ہوئی ہیں۔ بنابریں ، یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم تبدیلی کے اقدام پر غور کریں۔

اس کے علاوہ انہیں غفلتوں کی وجہ سے ہماری بہت سی صلاحتیں اور توانائیاں معطل ہو گئیں۔ ہمارے ملک میں گنجائشیں اور توانائیاں بہت ہیں۔ مواقع حقیقی معنی میں، فراوان بلکہ بے شمار ہیں جن سے اب تک کوئي استفادہ نہیں کیا گیا۔ یہ قومی مفادات کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان مشکلات کو معمولی اقدامات سے برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے اداروں میں رائج معمول کی روشوں سے انہیں دور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، تیز رفتار اور جدت طرازی پر مبنی اقدام کی ضرورت ہے، نئي راہیں ایجاد کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام ہونا چاہئے۔ انقلاب کے اس دور میں، دوسرے قدم کے لئے، یہ مسلمہ امور ہیں۔ البتہ ماضی میں، بعض جگہوں پر تبدیلی کے تعلق سے کچھ کام ہوئے ہيں لیکن اس سلسلے میں ایک عمومی اور زیادہ جامع اقدام کی ضرورت ہے۔

حکمرانی کے شعبوں، ملک کی منتظمہ اور عوام کے طرز زندگی میں تبدیلی

تبدیلی کے میدان کے بارے میں کہ کہاں تبدیلی ہونی چاہئے، جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا، مختلف حکومتی اداروں میں، ملک کی منتظمہ کے مختلف شعبوں میں، اقتصادی میدان میں، سماجی امور میں اور فکری مسائل میں واضح ہے کہ خامیاں پائی جاتی ہیں اور دفتری کاغذ بازی، افسر شاہی اور غیر مفید بلکہ مضر ضوابط  رکاوٹ ہیں۔ اقتصادی امور میں بہت واضح ہے اور دیگر امور میں بھی یہ صورت حال ہے۔ بنابریں ایک شعبہ جس میں تبدیلی کی ضرورت ہے یہی ملک کی منتظمہ ہے۔ ایک اور میدان عوام کی زندگی ہے، اس میں بھی حقیقی معنی میں تبدیلی کا اقدام ضروری ہے۔ عوام کے درمیان بعض غلط عادتیں پائي جاتی ہیں جن کے خلاف کارروائي کی ضرورت ہے۔ نصحیت، سفارش اور جزوی روشوں  سے کام نہیں چلے گا، بلکہ تبدیلی ضروری ہے۔ پانی کا اسراف، کھانے پینے کی چیزوں کا اسراف، بجلی کا اسراف، آرائشی اشیاء کے سلسلے میں مقابلہ آرائی۔ ہم نے اشرافیہ کلچر کی نفی کی اور اس کو برا سمجھا، جو اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ رئیسانہ فضول خرچی غیر اشرافی طبقے میں بھی سرایت کر گئی ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں خاندانوں کے درمیان تجملاتی رقابت اور دیگر گوناگوں ایسی باتیں در آئی ہیں جن کے خلاف مہم ضروری ہے۔ یا سن زیادہ ہونے کے بعد شادی کا رواج ، ملک میں ( شرح پیدائش اور آبادی میں کمی) ضعیف العمر لوگوں کے تناسب میں اضافہ اور بعض وہ مسائل جن کا بعض دوستوں کے بیانات میں بھی ذکر کیا گیا۔ ان سب میدانوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان تمام امور میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

 تبدیلی کا فلسفہ، انقلاب کے بنیادی خطوط کی تقویت اور انقلابی امنگوں کی سمت میں پیش قدمی     

تبدیلی کا فلسفہ کیا ہے؟ یعنی ہم تبدیلی کے ذریعے کس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ فلسفہ واضح نہ ہو اور غور و فکر کے ساتھ نہ ہو تو افرا تفری کے حالات پیدا ہوں گے۔ اسی لئے سال کے آغاز میں (پڑھی جانے والی دعا میں) آپ کہتے ہیں: حَوِّل حالَنا اِلیٰ اَحسَنِ الحال۔ تبدیلی سے ہمیں اچھی حالت میں پہنچنا چاہئے، حالت بہتر ہونی چاہئے۔ بعض لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں تبدیلی آئے، لیکن کہاں تبدیلی آنی چاہئے، یہ معلوم نہیں ہے! صرف تبدیلی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اچھی تبدیلی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ تبدیلی، جو ہمیں اوپر لے جائے، اہمیت رکھتی ہے۔ ورنہ صرف تبدیلی کوئي اہمیت نہیں رکتھی۔ بنابریں احسن الحال حاصل ہونا چاہئے۔  ہماری نظر میں احسن الحال، انقلاب کے  بنیادی خطوط کی تقویت اور انقلابی امنگوں کی طرف بڑھنا ہے۔ یعنی انقلابی اقدار جیسے عدل و انصاف، جیسے خودمختاری، جیسے معاشرے کا اسلامی ہونا، یہ اہم اور بنیادی امنگیں ہیں۔ ان امنگوں کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس راہ میں ہمارے سامنے کافی دشواریاں ہیں اور تبدیلی کی تحریک کی ضرورت ہے۔ اب یہ امنگیں جن پر ہمیں توجہ دینی ہے اور ان کی طرف بڑھنا ہے، ان کی مختلف سطوح ہیں۔ ان شاء اللہ آپ اپنی میٹنگوں میں، طلبا کے ساتھ  میٹنگوں میں اس موضوع پر بحث و مباحثہ کریں، اس کا جائزہ لیں اور اس  پر کام کریں، ان کی تفصیلات تک پہنچیں اور عوام کے درمیان بیان کریں۔

 نظام کی بڑی امنگوں کا تحفظ اور اس سمت میں آگے بڑھنا

میں کلّی طور پر عرض کرتا ہوں: بعض امنگیں، اسلامی جمہوری نظام کی بڑی امنگیں ہیں، ان میں طویل المیعاد امنگیں بھی ہیں اور وسط مدتی بھی۔ لیکن یہ بنیادی امنگیں ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی معاشرے کی تشکیل، یا سماجی انصاف کی برقراری یا خودمختاری کا مسئلہ، آزادی وغیرہ کا مسئلہ، یہ بنیادی امنگیں ہیں۔ ان میں سے بعض چھوٹی سطح کی ہیں لیکن درحقیقت ان کی تشکیل کے اجزا اعلی سطح کے شمار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر علمی پیشرفت کو لے لیجئے۔ یہ ایک آرزو اور ہدف ہے۔ ہماری امنگوں میں سے ایک یقینا علمی پیشرفت ہے۔ لیکن یہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے عناصر میں شامل ہے، ہماری خود مختاری کے عناصر میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے۔ یا فرض کریں خارجہ پالیسی میں اس حد تک مقتدر ہونا کہ نظام تسلط اور استکباری طاقتوں کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہونے سے محفوظ رہیں۔ مقتدر خارجہ پالیسی کا یہی مطلب ہے جو اوائل انقلاب میں "لاشرقیہ و لاغربیہ" یعنی نہ مشرقی اور نہ مغربی کے سلوگن میں بیان کیا گیا۔ اس دور میں ایک مشرقی سپر طاقت تھی جو دنیا کا کمیونسٹ معاشرہ اور کمیونسٹ نظام تھا اور دوسری سپر طاقت سرمایہ دارانہ نظام تھا، اس سلوگن کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو خود کو ان دونوں سپر طاقتوں کی حلقہ بگوشی سے محفوظ رکھنا ہے اور الحمد للہ اس نے خود کو محفوظ رکھا۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے۔ اس کی حفاظت ہونی چاہئے، اس پر گامزن رہنا چاہئے اور اس کی پیروی جاری رکھنا چاہئے اور روز بروز اس راہ میں قوی سے قوی تر ہونا چاہئے۔ یا اقتصادی خود مختاری ہے۔ یہ بھی ان بڑی امنگوں کے مقابلے میں جزوی امنگوں میں شامل ہے۔

بعض دیگر امنگیں بھی ہیں جن کی ہمیں فکر ہے اور انہیں حاصل کرنے کی فکر میں رہنا چاہئے اور تبدیلی میں ان پر بھی توجہ دینی چاہئیے۔ درحقیقت امور مملکت چلانے، انقلاب کی سلامتی اور تحفظ کی پالیسیاں ہیں۔ جیسے وہ  ادارے جو  تشکیل دئے گئے، سپاہ کی تشکیل ہوئی، تعمیراتی جہاد کمیٹی کی تشکیل ہوئی، بسیج کی تشکیل ہوئی۔ یہ سب وہ پالیسیاں ہیں جو بنیادی اقدار کے پیکر میں ہیں۔ یا مثال کے طور پر فرض کریں یونیورسٹیوں کا اسلامی تشخص کا حامل ہونا ہے۔ یا ریڈیو اور ٹی وی کا اس دور میں چار کروڑ اور آج آٹھ کروڑ لوگوں کی ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہو جانا ہے، یہ سب ان امنگوں اور مسائل میں شامل ہے ہم جن کی فکر میں رہے ہیں۔ ہمیں ان کے اور ایسی ہی دیگر امنگوں کے حصول کی کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے۔ بنابریں آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں اور خطوط کی حفاظت ہونی چاہئے اور اس سمت میں بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنا اور اس راہ میں آسانیاں پیدا کرنا چاہئے۔ ان کی مختلف سطوح ہیں، اسلامی معاشرے کی تشکیل سے لے کر ان اعلی تر اور وسطی امنگوں جیسے علمی پیشرفت وغیرہ اور ان پالیسیوں پر توجہ ضروری ہے جن کے مطابق ہمیں اقدامات انجام دینا ہے۔

انقلاب کے ابتدائي برسوں میں مسائل کی پیچیدگیوں پر عدم توجہ

 انقلاب کی پہلی نسل میں، زیادہ تر وہ لوگ تھے جو  اسّی  کے عشرے میں  اور ستر کے عشرے کے آخری برسوں میں انقلابی سرگرمیوں میں شامل ہوئے تھے، ان تمام شعبوں میں، اعلی وسطی اور نچلی سبھی سطوح پر کام ہوئے اور حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہدایت میں بہت اچھے کام کئے گئے۔ مسلط کردہ جنگ کے دشوار مرحلے نے تجربہ سیکھنے کی اس مہم میں مدد کی۔ اس جنگ کی مدد سے اس میدان میں تجربات حاصل کئے گئے۔ اسی طرح وہ پابندیاں جو شروع میں ہی لگا دی گئیں اور وہ خونریز حوادث جو اوائل انقلاب میں رونما ہوئے، ان سب نے انقلاب کی پہلی نسل کو تیار کیا اور انقلاب نیز اسلامی جمہوریہ کے بنیادی اہداف کے حصول میں اس کی رہنمائي کی۔ لیکن ایک حقیقت ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے تھا، وہ یہ ہے کہ اتنی عظیم  امنگوں اور اہداف تک پہنچنے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں بھی ہیں۔ ان دنوں ان پیچیدگیوں پر ہماری توجہ  نہیں تھی۔ اس دور میں ہم مسائل کو بہت زیادہ ابتدائي نگاہ سے دیکھتے تھے اور درحقیقت بہت سے مسائل کو بہت آسان سمجھتے تھے۔ انقلابی جذبہ کی بنا پر کام ہوتا تھا لیکن ابتدائي اور سرسری نقطہ نگاہ سے، پیچیدگیوں اور راہ میں حائل دشواریوں اور مشکلات کو نظر میں رکھے بغیر۔ 

مسائل نظام کی پیچیدگیوں کا ایک نمونہ، یونیورسٹیوں کو اسلامینائیزیشن

اب میں مثال کے طور پر ایک نمونے، یونیورسٹیوں کے اسلامی تشخص کا ذکر کرتا ہوں۔ حضرت امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا اصرار تھا کہ  یونیورسٹیوں کا اسلامی تشخص ہونا چاہئے۔ آپ یونیورسٹی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپ اس بات کے قائل تھے کہ یونیورسٹیوں کا اسلامی تشخص ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں کافی کام کیا گیا۔ میں خود اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں، ثقافتی انقلاب کی کونسل کا بھی صدر تھا۔ اس کونسل کا کام یونیورسٹیوں سے متعلق تھا اور کافی کام ہوا۔ لیکن ان تمام ادوار میں جن میں ہم نے اس سلسلے میں کام کیا اور میں خود اس کونسل کے فعال لوگوں میں شامل تھا، اس کام کی ضروری  نزاکتوں، دشواریوں اور پیچیدگیوں پر ہماری توجہ نہیں تھی بلکہ اس کام پر ہماری توجہ سرسری تھی۔ 

سامراجی پالیسیوں کے دور میں، یونیورسٹیوں کی تاسیس کا مقصد، ایسے دانشور تیار کرنا تھا جو مطیع ہوں اور صارف کی حیثیت رکھتے ہوں

 ہمارے ملک میں مغربی پالیسیوں کے تسلط کے دور میں یونیورسٹی قائم ہوئی۔ میں یہ بات اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ کام کی دشواریاں واضح ہو جائیں۔ یونیورسٹی مغرب کے منتخب اور پٹھو حکام کے دور میں معرض وجود میں آئی۔ رضا شاہ کے دور میں جس کو انگریز اقتدار میں لائے تھے، یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئ۔  یہ بنیاد بھی مغربی کارندوں کے ذریعے رکھی گئی۔ یعنی جن لوگوں نے پہلی بار ملک میں یونیورسٹی قائم کی وہ لوگ تھے جو مغرب کے دلدادہ و گرویدہ تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مغرب کے گھس بیٹھئے اور ان کے کارندے تھے۔ یعنی یقین کے ساتھ یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ مغربی تہذیب کے دلدادہ و شیدائی تھے۔ مغرب کے فرمانبردار تھے اور مغرب والوں کی رائے کے مقابلے میں ان کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی اور نہ کبھی اپنی کسی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ بنابریں انھوں نے یہ یونیورسٹی، مغربی سامراج کے منصوبوں کے مطابق قائم کی۔ ہمارے ملک میں یونیورسٹی کا منصوبہ اصل میں مغربی منصوبہ تھا جس پر سامراج کے عروج کے زمانے میں عمل کیا گیا۔ بعد میں سامراجی ممالک ایک ایک کرکے یہاں سے باہر نکلے لیکن وہ دور، مغربی سامراج کے عروج کا دور تھا۔ اپنے حلقہ بگوش ملکوں میں یونیورسٹی قائم کرنے میں ان کے پیش نظر مخصوص منصوبہ تھا۔

ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ان ملکوں میں ایسے دانشور تیار کئے جائيں جو ان کے فرمانبردار اور مغرب کے صارف ہوں۔  مطیع و صارف دانشور پیدا کرنا یونیورسٹیاں قائم کرنے کا بنیادی مقصد تھا۔ صارف کا مطلب کیا ہے؟ یعنی مغرب میں تیار ہونے والے پرانے علم و دانش کو حاصل کرے اور اپنے معاشرے میں مغربی مصنوعات کے استعمال کا شوق پیدا کرے  اور اس طرح معاشرے کو مغربی مصنوعات کی منڈی میں تبدیل کر دے۔ یعنی وہ صارف دانشور تیار کرتے تھے تاکہ وہ صارف معاشرہ وجود میں لائے۔ اصل میں ان کا مقصد یہ تھا۔ اس منصوبے یعنی یونیورسٹی قائم کرنے کے منصوبے پر سامراج کے زیرتسلط ملکوں میں بھی اوران ملکوں میں بھی عمل کرتے تھے جو رسمی طور پر سامراج کی نو آبادیات میں شامل نہیں تھے۔ اس دور میں زیادہ تر ممالک پر برطانوی سامراج کا تسلط تھا اور بعض ممالک پر دیگر مغربی سامراجی طاقتوں کا تسلط تھا۔ مثال کے طور پر ہمارا ملک، نوآبادی نہیں تھا، لیکن پوری طرح مغرب کے سیاسی تسلط میں تھا۔ یونیورسٹی اس طرح وجود میں آئی۔ لیکن اس یونیورسٹی میں بھی اسلامی تفکر نے اپنی جگہ بنا لی۔ یہ اسلامی تفکر کی قدرت کا نتیجہ تھا۔ لیکن یونیورسٹی کا اصل جھکاؤ مغربی تفکر، مغربی فکر اور مغرب زدہ دانشوروں کی پیداوار کی طرف ہی رہا۔ تاکہ ایسے دانشور تیار ہوں جو مغربی انداز میں سوچیں، مغربی طرزعمل اختیار کریں، مغرب والوں کے لئے کام کریں اور صارف معاشرہ تیار کریں۔  عام طور پر یہی دانشور حکومتی عہدوں تک پہنچتے تھے۔  

اس یونیورسٹی کو اسلامی نظام، اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، یہ معمولی کام ہے؟ آسان کام ہے؟ جو یونیورسٹی پچاس سال تک اس شکل میں کام کرتی رہی، اسی ڈھانچے میں اسی پالیسی کے ساتھ چلائي جاتی رہی، اس کو ایک اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس زمانے میں اس کام کی پیچیدگی پر صحیح طور پر توجہ نہیں دے رہے تھے لیکن بعد میں یونیورسٹی کے اراکین اس سلسلے میں اہم نکات سے دوچار ہوئے، خبردار کیا، عمل کیا اور تھوڑی بہتری آئی۔ مگر یہ قضیہ اب بھی ایک اہم معاملے کی حیثیت سے اسلامی نظام کے سامنے ہے اور یہ کام ہونا ہے۔ تبدیلی کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک مثال ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ دیگر شعبوں میں بھی صورتحال یہی ہے۔ ملک کے اقتصادی شعبے اور اقتصادی معاملات میں یہی صورتحال ہے اور ملک کے علمی معاملات وغیرہ میں بھی صورتحال یہی ہے۔ لہذا آپ دیکھیں کہ ان برسوں کے دوران ہم نے اچھے کام شروع کئے جو ادھورے رہ گئے ہیں، نتیجہ خیز نہیں ہوئے۔ یہ مسائل کو سرسری لینے کا نتیجہ ہے۔ اس روش کی پوری دقت نظری کے ساتھ اصلاح کرنے اور صحیح جہت اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی کے تجربات کی بنیاد پر انقلابی دانشوروں کے ذریعے علم و دانش  کے میدان میں نئی ایجادت اور امنگوں کی سمت پیش قدمی  

 آج ملک کے دانشوروں کے پاس کافی تجربات ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ آج ہمارے دانشور متدیّن، انقلاب پر یقین اور دین پر ایمان رکھنے والے ہیں اور ان کے اندر مسائل کا ادراک اور سمجھ، ابتدائے انقلاب کے دانشوروں سے اور انقلاب سے پہلے کے دانشوروں سے زیادہ ہے۔ یعنی وہی باتیں جو طلبا نے آج بیان کیں، جو آپ کے ذہن میں ہیں اور آپ کے اجتماعات میں بیان کی جاتی ہیں، اس زمانے میں، یونیورسٹی کی اعلی ترین سطح پر بھی نہ ان پر توجہ دی جاتی تھی، نہ انہیں بیان کیا جاتا تھا اور نہ ہی ان تک پہنچا جاتا تھا۔ یعنی سوچ دوسری تھی۔ بنابریں آج ملک کی دانشور اور انقلابی برادری کا تجربہ بھی زیادہ ہے، اس نے ناکامیاں دیکھی ہیں، تلخیوں کو چکھا ہے، دشواریوں کا سامنا کیا ہے، رکاوٹوں سے دوچار ہوئی ہے، مزاحمتوں کے مراحل سے گزری ہے۔ یعنی ماضی میں دانشور برادری ان سبھی مسائل سے دوچار ہو چکی ہے۔ اس لئے ملک کے مسائل کے تعلق سے اس کی نگاہ میں یہ مشکلات ہیں۔ بنابریں منصوبہ بندی، ان پیچیدگیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ماضی کی منصوبہ بندی سے قوی تر ہو سکتی ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے۔ یعنی اسٹریٹیجی ان مشکلات اور رکاوٹوں کو نظر میں رکھ کے تیار کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو ماضی میں نہیں تھے۔ ان جملہ مسائل میں مثال کے طور پر سائبر اسپیس کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو ایک نیا میدان ہے، یہ جدید موضوع ہے جو ماضی میں نہیں تھا۔ ہر چیز میں کچھ فائدے ہوتے ہیں تو کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ سائبر اسپیس کی مشکلات اور نقصانات سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنے کے لئے نئی فکر، نئی راہوں اور نئی دانش کی ضرورت ہے۔  یا تاخیر سے شادی کا مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لئے بھی ہمیں نئی اور جدید روشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک ان مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ انقلاب اور صاحب ایمان دانشوروں کو آگے آنا اور ان کے حل کے لئے نئي فکرو دانش پیش کرنا چاہئے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تبدیلی ہمیں اس سمت اور جہت میں آگے بڑھائے۔

 نوجوان، تبدیلی لانے کا منفرد ذریعہ  

اب یہ تبدیلی کس طرح آئے؟ میری نظر میں اس کا منفرد ذریعہ نوجوان ہیں۔ ہمارے پاس ذہین اور اچھے نوجوان ہیں۔ اس لئے کہ نوجوانوں میں نئی فکر بھی ہوتی ہے، نئے طریقے ایجاد کرنے کی توانائي بھی ہوتی ہے، ضروری صلاحیت اور قوت بھی ہوتی ہے اور جرائت عمل اور ہمت بھی ہوتی ہے۔ یہ سبھی باتیں ہمارے نوجوانوں میں ہیں۔ یہ بڑی غنیمت ہے۔ تبدیلی کے اقدام کے ضروری عوامل یہی ہیں: فکر نو، جدت طرازی، جرائت اقدام اور اس اقدام کا بھرپور اشتیاق۔ یہ تبدیلی کی تحریک کے ضروری عناصر ہیں جو ہمارے نوجوانوں میں موجود ہیں لہذا اس مہم میں نوجوان دانشوروں کی مدد لینا چاہئے۔

نوجوانوں کے ساتھ تجربہ کار افراد  کی ضرورت  

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مجھے آپ عزیز نوجوانوں سے بہت محبت ہے۔  میں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں اور کمسن افراد کے درمیان گزارا ہے، میں نوجوانوں کو اچھی طرح پہچانتا ہوں اور انہیں چاہتا ہوں۔ لیکن ان تمام تعریفوں کے ساتھ ہی جو میں نوجوانوں کی کرتا ہوں، ان کے اندر بعض خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کے کاموں میں مجھے کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہ خامیاں میں نے ماضی میں بھی دیکھی ہیں اور اب بھی دیکھتا ہوں۔ حتی ان بیانات میں بھی جو میری نظر میں بہت مناسب اور اچھے ہیں، ان بیانات اور اظہار خیال میں بھی خوبیوں کے ساتھ بعض خامیاں بھی ہیں۔ بنابریں ضروری ہے کہ نوجوانوں کے ساتھ، دنیا دیکھے ہوئے، تجربہ کار اور کار آزمودہ افراد بھی رہیں۔ یہ بات میں نے بارہا کہی ہے۔ میں نے جب " نوجوان انقلابی حکومت" (3) کی بات کہی تھی تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ حکومت میں فرض کریں کہ تیس سے پینتیس سال کی عمر کے لوگ ہوں! بات یہ نہیں ہے۔ نوجوانوں کی مشارکت ضروری ہے اور ان کی مشارکت کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجربہ کار، کارآزمودہ اور جہاں دیدہ افراد، نوجوانوں کے ساتھ نہ رہیں۔

ان سب کے لئے چاہے نوجوان ہوں یا وہ لوگ ہوں جو جوانی کو عبور کرکے ادھیڑ عمری  اور سن پیری کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، ان سب کے اندر سچا اور انقلابی جذبہ ضروری ہے۔ میری نظر میں ایک نوجوان حکومت، جیسا کہ میں نے عرض کیا، ان سبھی پر مشتمل ہو سکتی ہے۔

نوجوانوں پر یقین رکھنے والی حکومت اور پالیسی سازی نیز اس کے نفاذ کے مختلف مراحل میں نوجوانوں کی مشارکت ملک کی مشکلات کا حل

حکومت صرف مثال کے طور پر بیس وزیروں اور بیس وزارتخانوں کا نام نہيں ہے  –کابینہ بیس سے کچھ زائد اراکین پر مشتمل ہوتی ہے- حکومت کا اطلاق صرف انہیں پر نہیں ہوتا۔ حکومت ایک وسیع مجموعہ ہے جس میں سیکڑوں موثر اور قوی منتظم اور ڈائریکٹر شامل ہیں اور یہ سبھی، صاحب ایمان اور انقلابی نوجوان دانشوروں کو اہم فیصلوں اور ان کے نفاذ میں شریک کر سکتے ہیں۔ بعض نوجوان فیصلوں میں، بعض پالیسی سازی میں اور بعض ان کے نفاذ میں شریک اور سہیم ہو سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام ممکن ہے۔ یعنی اگر واقعی ایک ایسی حکومت بر سر اقتدر آئے جس میں اعلی عہدیدار نوجوانوں پر یقین رکھیں، ان پر اعتماد کریں، جس طرح کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو تھا اور آپ نے نوجوانوں سے کام لیا اور انہیں آگے بڑھایا، اگر ایسی حکومت برسر اقتدار آئے تو میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات بہت جلد دور ہو جائيں گی۔ وہ سبھی مشکلات جو ہمارے سامنے ہیں، وہ سبھی دشواریاں، پیچیدگیاں، رکاوٹیں اور دشمنیاں جو بیرون ملک سے اور بعض اوقات ملک کے اندر سے کی جاتی جاتی ہیں، میری نظر میں یہ سبھی امور، سبھی امنگیں، آرزوئیں اور اہداف قابل حصول ہیں۔ ماضی میں بھی نوجوانوں نے بڑے کارنامے انجام دئے ہیں۔ انقلاب میں بھی، دفاع مقدس میں بھی اور تعمیری جہاد میں بھی نوجوان ہی سرگرم تھے۔ نوجوان یونیورسٹی طلبا تھے جن میں سے بعض سپاہ پاسداران میں گئے، بعض تعمیری جہاد میں گئے، بعض انقلابی کمیٹی میں جاکے سرگرم ہوئے اور انھوں نے بڑے کارنامے انجام دئے۔

آج خوش قسمتی سے مومن، انقلابی، خود اعتمادی اور مہارت رکھنے والی افرادی قوت کی تیاری کے لحاظ سے ملک کی حالت الحمد للہ  بہت اچھی ہے۔ یعنی ہمارے پاس افرادی قوت کم نہیں ہے۔  افرادی قوت ہے جنہیں پہچاننےکی ضرورت ہے۔ اگر نوجوانوں کی مشارکت کا رجحان نہ ہو تو نوجوان افرادی قوت کو تلاش بھی نہیں کیا جائے گا اور حکومت اور پورا سسٹم اور ملک کا نظام حکمرانی، نوجوانوں کی مشارکت کے فوائد سے محروم رہ جائے گا۔

 مجھ سے سوال کیا گیا کہ ان کونسلوں میں جو رہبر انقلاب سے متعلق ہیں، مثال کے طور پر ثقافتی انقلاب کی کونسل میں نوجوانوں کو شامل کرنا نہیں چاہتے؟ کیوں نہیں، مدتوں سے یہ بات میرے ذہن میں ہے۔ اس میں بعض رکاوٹیں تھیں، ان شاء اللہ یہ کام انجام پائے گا اور میں ان شاء اللہ  ان کونسلوں میں نوجونواں کو بھی شامل کروں گا کہ وہ آئيں اور فیصلوں میں مشارکت کریں، آگے بڑھیں اور ان شاء اللہ  کام کریں۔

تبدیلی کی بحث کا خلاصہ  

تبدیلی کے بارے میں ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تبدیلی ضروری ہے  اور یہ آج کی ضرورت ہے۔ دوسرے تبدیلی ممکن ہے، تیسرے تبدیلی لانے کا راستہ یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دی جائے جو تبدیلی پر یقین رکھے، تبدیلی کے عنصر یعنی  مومن اور انقلابی نوجوان دانشوروں پر یقین رکھے، یعنی نوجوان دانشور کے لئے مومن اور انقلابی ہونا شرط ہے۔ ورنہ نوجوان ہو، اس کے اندر توانائي ہو، ایجاد کی صلاحیت ہو، اقدام کی جرائت بھی ہو لیکن ایمان نہ ہو تو فائدہ نہیں ہے۔ وہ نوجوان اپنی توانائي کے ساتھ، غلط راستے کو سن رسیدہ افراد سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ طے کرے گا۔ لیکن اگر صاحب ایمان نہ ہو تو کوئي فائدہ نہیں ہے۔ اگر انقلابی نہ ہو تو ملک کو صحیح تبدیلی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ لہذا نوجوان بھی ہو، مومن بھی ہو اور انقلابی بھی ہو۔ یعنی حکومت میں یہ عناصر موجود ہوں۔ بنابریں تبدیلی ضروری ہے اور ممکن بھی ہے۔ اس کے لئے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو نوجوانوں پر یقین رکھے اور ان سے کام لے اور یہ کام ہوگا۔ یہ تبدیلی کے بارے میں میرے معروضات ہیں۔

کورونا کے پیش نظر طلبا کی پڑھائي کم ہونے پر حکام کی توجہ کی ضرورت    

کچھ باتیں یونیورسٹیوں کے بارے میں عرض کرنی ہیں جو اگرچہ جزوی ہیں لیکن اہم ہیں۔ یہ باتیں یونیورسٹیوں کی موجودہ حالت کے بارے میں ہیں اور اس کے بعد چند جملے، طلبا تنظیموں کے بارے میں عرض کروں گا۔

ایک نصیحت کورونا کے دور میں پڑھائي کے بارے میں ہے۔ یونیورسٹیوں کی حالت کے بارے میں جو باتیں مجھے بتائي گئی ہیں ان سے مجھے تشویش ہے۔ اساتذہ اور طلبا کے تعلق سے جو باتیں کی جاتی ہیں وہ میرے لئے باعث تشویش ہیں۔ یہ صورتحال ممکن ہے پڑھائي میں تعطل اور اس کے ناقص رہ جانے کا باعث ہو۔ میری گزارش یہ ہے کہ اعلی تعلیم کے مختلف شعبوں کے اعلی حکام، اعلی تعلیم کی وزارت، وزارت صحت اور اوپن یونیورسٹی کے حکام، اس مسئلے پر توجہ دیں۔ کورونا شروع ہوئے، ایک سال اور چند ماہ گزر چکے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ کب ختم ہوگا۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ زیادہ طولانی نہیں ہوگا، لیکن بہرحال  ہمیں نہیں معلوم کہ کب ختم ہوگا۔ پڑھائي کا مسئلہ بہت اہم ہے، مجھے تشویش ہے، پڑھائي میں کمی نہ آنے دیجئے۔

آن لائن تعلیم کے نواقص کو دور کرنے اور نقلی چینلوں کے خلاف حکام کی جانب سے کارروائی کی ضرورت

ایک مسئلہ آن لائن تعلیم کا ہے جو اسکولوں اور کالجوں میں بھی ہے اور یونیورسٹیوں میں بھی چل رہی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس میں بعض خامیاں اور نواقص ہیں جو مشکل ساز ہیں۔ ان خامیوں اور نواقص کو دور کرنا ضروری ہے۔ میرا یہ خطاب حکومتی ذمہ داروں سے ہے۔ میں نے سنا ہے کہ بعض موقع پرست لوگ، نقلی چینل اور نقلی گروہ چلا رہے ہیں۔ یہ بات امتحانات کا اعتبار ختم کر رہی ہے۔ اس کے خلاف کارروائي ضروری ہے۔ اگر حقیقت ہے اور یہ بات پائي جاتی ہے تو اس کے خلاف اقدام ضروری ہے۔ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ یہ بات ہے۔

 طلبا پر حکام کی خصوصی توجہ اور ان کے اندر امید پیدا کرنے کی ضرورت  

 طلباکے تعلق سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے طلبا میں مایوسی پھیلانے کے لئے منظم طور پر کافی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے؛ طلبا کو مستقبل سے پوری طرح ناامید کرنے اور ان کے اندر افسردگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مہم افسردگی سے بدتر صورتحال پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں طلبا اپنی پڑھائي سے مایوس ہوکے ملک سے منھ موڑ سکتے ہیں اور ملک سے جا سکتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے۔ البتہ یہ مشکل ہمیشہ رہی ہے۔ آج اس کی شدت بڑھ گئی ہے؛ میں آپ دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ امید افزا باتوں پر توجہ دیں۔ خود صاحب ایمان اور فعال طلبا نے اپنے بیان میں بھی بعض نکات کا ذکر کیا ہے جس کا وہی مطلب نکالا جا سکتا ہے۔ بعض دوستوں نے امید افزا باتیں بھی کی ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو  اس جذبے کی تقویت کرنی چاہئے۔ حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ طلبا کو مایوس اور نا امید نہ ہونے دیں کیونکہ طلبا ملک کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

طالب علمی کے زمانے میں ہی طلبا کے پلیسمنٹ کے لئے زمین ہموار کرناحکومت کی ذمہ داری ہے

حکومت کی ایک ذمہ داری طالب علمی کے زمانے میں ہی طلبا کے پلیسمنٹ کا انتظام کرنا ہے۔ البتہ ٹیکنیکل شعبے کے طلبا کے لئے، میں نے برسوں پہلے (4) یونیورسٹی اور صنعت میں رابطے کی تجویز پیش کی تھی۔ خوش قسمتی سے، تاخیر سے ہی سہی لیکن فنی اور تکنیکی مسائل سے طلبا کے رابطے کے لئے ایک ادارہ ایوان صدر کی زیر نگرانی قائم ہوا اور اس سلسلے میں کچھ کام کیا گیا۔ بہت اچھی بات ہے مزید کام کیا جائے اور ان کاموں کی تقویت بھی ضروری ہے لیکن دوسرے شعبوں میں پلیسمنٹ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ حکومتی ذمہ داروں کے لئے ایک بنیادی کام یہ ہےکہ وہ سوچیں کہ ان طلبا کو تعلیم مکمل ہونے کے بعد کس سرکاری یا غیر سرکای شعبے میں کام دیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں اس وقت جو طلبا ہیں، ان کا پلیسمنٹ بہرحال ہونا چاہئے۔

لازمی فوجی سروس کے تعلق سے تجاویز کے  ہمہ گیر جائزے کی ضرورت

لازمی فوجی سروس کا مسئلہ بھی جس کی طرف بعض دوستوں نے اشارہ کیا، اہم ہے۔ یہ مسئلہ بھی پیچیدہ  مسائل میں شامل ہے۔  معمولی اور آسان نہیں ہے۔ البتہ بعض تجاویز اور منصوبے پیش کئے گئے ہیں، میرے سامنے بھی پیش کئے گئے ہیں، بعض اداروں میں اس کا جائزہ لیا جارہا ہے لیکن یہ مسئلہ نعروں سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اس کے بارے میں فکر کرنے اور اس کے سبھی جوانب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان شاء اللہ اس سلسلے میں صحیح فیصلہ کیا جا سکے۔

مختلف شعبوں میں تنظیموں کا وجود موقع غنیمت

اب طلبہ تنظیموں کا مسئلہ، چند جملے تنظیموں کےبارے میں عرض کروں گا۔ طلبا تنظیمیں ملک کے لئے بہت مفید ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تنظیمیں بہت زیادہ ہیں۔ میری نظر میں اس میں کوئي حرج نہیں ہے۔ یونیورسٹی میں کوئي تنظیم خاص سیاسی ذوق اور خاص طور طریقے کے ساتھ معرض وجود میں آتی ہے اور سرگرم ہوتی ہے۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک اور تنظیم سرگرم ہوتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ  متعدد تنظمیں ہوں۔ خود ان تنظیموں کا وجود ملک کے لئے بہت غنیمت ہے۔ یہ تنظیمیں فکر نو معرض وجود میں لانے کا مرکز ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ان تنظیموں میں نئے افکار کا وجود میں آنا اچھا ہے۔ اس کے علاوہ  یہ تنظیمیں طلبا تحریکوں کی سرخیل ہو سکتی ہیں اور جہاد و تغیر کی وہ  تحریک وجود میں لاسکتی ہیں جس کا میں نے ذکر کیا۔ یعنی خود یہ تنظیمیں اس جہاد اور تبدیلی کی تحریک وجود میں آںے کا اہم عامل ہو سکتی ہیں جن کے بارے میں ہم نے بحث کی۔ یہ تنظیمیں مختلف سرگرمیوں، گوناگوں سماجی اور حتی علمی تحریکوں کی رہنمائی اور ہدایت  کر سکتی ہیں۔ چنانچہ ہم نے ابھی حال ہی میں دیکھا کہ سماجی تحریکوں میں ان تنظیموں نے واقعی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

اندرونی اور بیرونی مسائل میں طلبا تنظیموں کے اقدامات اور سرگرمیوں کے نمونے  

گزشتہ سال، جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی اور میں نے خود بھی براہ راست بعض ذرائع ابلاغ عامہ میں دیکھا اور مشاہدہ کیا، ان تنظیموں نے بہت اچھے اقدامات انجام دیئے۔ ان میں تازہ ترین اور اہم ترین اقدامات کورونا کے خلاف مہم میں انجام پائے۔ حق یہ ہے کہ واقعی ان جہادی نوجوانوں نے کورونا کے خلاف مہم میں کارنامے انجام دیئے ہیں۔ کورونا کے خلاف جنگ کے میدان میں اترنا صرف ایک کام اور اقدام ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پر خطر میدانوں میں اترنے کی آمادگی اور تیاری کی عکاسی ہوتی ہے جو بہت اہم ہے۔ جیسے مثال کے طور پر فرض کریں جہاد اور مقدس دفاع کے میدان میں جو واقعی پرخطر تھا جس میں نوجوان اتر رہے تھے۔ کورونا کے خلاف مہم کے میدان میں اترنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ نوجوان زیادہ پر خطر میدانوں میں اترنے کے لئے بھی تیار ہیں۔

اسی طرح نجکاری کی مشکلات کے سلسلے میں بھی طلبا تنظیموں نے بہت اچھے اقدامات کئے جن میں سے بعض نتیجہ بخش رہے اور ان شاء اللہ مزید نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ نجکاری کی مشکلات کے سلسلے میں ان تنظیموں اور نوجوانوں نے بہت اچھے اقدامات انجام دیئے۔

نجکاری کے سلسلے میں بعض حضرات نے جو باتیں کی ہیں ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض کے موافق ہوں اور بعض کے موافق نہ ہوں! نجکاری اچھا کام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اچھی طرح اس کو عمل میں لایا جائے۔ مشکلات اچھی طرح عمل نہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود نجکاری کی پالیسی غلط ہے۔ بہرحال میری نظر میں تنظیموں اور طلبا تنظیموں کی تشکیل بہت اچھا اقدام ہے۔ 

خارجہ امور سے متعلق مسائل میں بھی طلبا بہت اچھی طرح سرگرم رہے ہیں۔ بین الاقوامی مسائل، گستاخی کرنے والے فرانسیسی روزنامے (5) کے خلاف تحریک میں طلبا نے بہت اچھی طرح حصہ لیا۔ کابل یونیورسٹی میں کچھ عرصہ قبل ہونے والے دھماکے کے بعد طلبا کی تحریک بہت اچھی رہی، اسی طرح یمن اور فلسطین کے مسائل میں بھی طلبا کی سرگرمیوں کو جاری رہنا چاہئے۔ طلبا نے ایف اے ٹی ایف (6) کے بارے میں بھی اپنی رائے اور موقف کا اظہار کیا۔ مجھے اس سے غرض نہیں ہے کہ یہ موقف کیا تھا، میری نظر میں موقف اختیار کرنا بذاتہ اچھی بات ہے۔ اس سے مختلف مسائل میں طلبا کی وسعت نظر کا پتہ چلتا ہے۔ طلبا نے اسی طرح پارلیمنٹ کے اسٹریٹیجک قانون (7) پر توجہ دی۔ اس کی تائید کی اور اس کو تقویت پہنچائي۔ یہ سب بہت اچھا ہے جس سے ان تنظیموں کے تشخص کی بھی تقویت ہوتی ہے۔ یعنی جب آپ اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں، موقف اختیار کرتے ہیں، اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو در حقیقت ایک تحریک وجود میں لاتے ہیں اور یہ بات آپ کے تنظیمی تشخص کی تقویت کرتی ہے۔

 طلبا تنظیموں سے توقعات ۔1 دیینی اور انقلابی بنیاد  کی تقویت اور تزکیہ نفس  

 ان تنظیموں سے بعض توقعات بھی ہیں۔ مجھے ان تنظیموں سے پہلی توقع یہ ہے کہ اپنی دینی اور انقلابی بنیادوں کی تقویت کریں۔ اس مسئلے کو معمولی نہ سمجھیں یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ فکری تقویت اور دینی تقویت۔

 مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں کسی شخص یا کتاب کو متعارف کراؤں جس سے رجوع کیا جا سکے۔ میرے خیال میں آپ خود حوزہ علمیہ قم ( قم میں دینی تعلیم کے عالمی مرکز) میں بہت سے لوگوں سے واقفیت پیدا کر سکتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں دینی تعلیم کے مراکز اور خاص طور پر حوزہ علمیہ قم میں خوش قسمتی سے بہت کام ہوئے ہیں، بڑے اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔ وہاں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو فکری، دینی اور اسلامی مسائل میں آپ کے لئے امانت دار مشیر ہو سکتی ہیں۔ آپ ان سے رجوع کر سکتے ہیں۔

تہذیب نفس یعنی نفس کی پاکیزگی کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ میری تاکید ہے کہ اپنے نفس کی پاکیزگی اور خودسازی پر توجہ دیجئے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا یہ قول نقل کیا گیا کہ آپ نے فرمایا کہ جو لوگ امریکا سے ڈرتے ہیں، ان کے ڈر کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے تہذیب نفس یعنی نفس کو پاکیزہ  نہیں کیا ہے۔ میری نظر میں حقیقت بھی یہی ہے۔ اس زمانے میں ایک مسئلے میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے پوچھا امریکا سے ڈرتے ہو؟ جواب دیا گیا نہیں۔ فرمایا بہت اچھا، تو  یہ کام کرو! آپ نے ایک اہم کام کے لئے کہا جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ الغرض تہذیب نفس یعنی نفس کی پاکیزگی کے اثرات سماجی مجاہدتوں میں بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ یعنی اس سے صرف یہ نہیں ہوتا کہ انسان خود بہت اچھا ہوجاتا ہے بلکہ سماجی، بین الاقوامی اور انقلابی مجاہدتوں کے مختلف میدانوں میں اس کے اثرات بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔

 ماضی کا ایک عبرتناک واقعہ  مجھے یادہے۔ اسّی  کے عشرے میں بعض طلبا تنظیمیں انقلاب کی طرفداری میں شمشیر بکف رہتی تھیں۔ آپ طلبا کی زبان میں، انقلابیت کی انتہا پر تھیں۔ حتی ہم لوگوں پر بھی جو انقلابی تحریک میں ان سے زیادہ سرگرم رہے ہیں، معترض ہو جاتی تھیں۔ البتہ ان تنظیموں کے اراکین میں سے بعض گئے جہاد کیا اور شہید ہو گئے۔ انھوں نے  بڑے کارنامے انجام دیئے اور صحیح  انقلابی راستے پر باقی رہے۔ لیکن بعض ایک سو اسّی ڈگری بدل گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انقلابی فکر ان کے ذہن میں پختہ نہیں تھی، ان کا ایمان نعرے بازی کے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکا تھا۔ جب ایمان صرف نعرے بازی کی حد تک ہو اور فکر گہری نہ ہو تو یہ خطرہ بھی رہتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ ابتدائے انقلاب میں، یعنی میرے  صدر بننے سے پہلے سن انیس سو اناسی میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی سفارش پر یونیورسٹی طلبا میرے پاس آئے اور میں ان طلبا سے جڑ گیا۔ میں نے  ان کے ساتھ  مل کے کام کیا۔ میں طلبا کی سرگرمیوں اور کاموں کی گہرائیوں سے پوری طرح واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ صورتحال کیا ہے۔ پہلے کیا تھی اور اب کیا ہو گئی۔ ان میں سے بعض میں دوسری طرف رجحان پیدا ہوا، پہلے رجحان پیدا ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ منحرف ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک سو  اسّی ڈگری  بدل کے  مقابلے پر  آ جاتے ہیں۔ اگر ایمان اور تقوا ہو تو واقعی کوئی مشکل پیش نہیں آئےگی۔ یعنی طلبا انقلاب کے مخالفین اور دشمنوں کے پاس نہیں جائيں گے۔ چنانچہ خداوند عالم قرآن کریم میں اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے: فَاستَقِم کما اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک (8)۔ آپ خود بھی استقامت کریں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ بھی استقامت کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔ اگر یہ استقامت ہو تو تنظیم اور اس کے اراکین کا انجام اچھا ہوگا۔ اگر استقامت نہ ہوئی اور یہ تقوا، ایمان محکم اور  منطقی نیز گہری  فکر نہ ہو تو اس وقت عاقبت مشکل سے دوچار ہو سکتی ہے۔ حافظ کے بقول

" حکم مستوری و مستی ھمہ بر عاقبت است (9)

یونیورسٹی طلبا پر فکری اثرات مرتب کرنے اور ان کی فکری سوالات کو حل کرنے کے لئے سعی و کوشش اور منصوبہ بندی  

طلبا اور ان کی تنظیموں کے تعلق سے ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آپ کے پاس بہت اچھا موقع ہے اور یہ موقع آپ پر ایک ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ وہ موقع یہ ہے کہ آپ طلبا کے درمیان ہیں، یہ طلبا تنظیمیں دسیوں لاکھ یونیورسٹی طلبا سے مربوط ہیں اور یہ آپ کے لئے بہت بڑا موقع ہے کہ آپ ان طلبا کو اپنا ہم فکر بنائيں اور انہیں اپنے ساتھ لائیں۔ اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں اور بنیادی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ آکے آپ کی تنظیم میں شامل ہوں، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ آپ کی فکر سے متاثر ہوں اور آپ ان پر فکری اور دینی اثرات مرتب کرنے  اور ان کی فکری مشکلات دور کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ ان بیانات میں بعض فکری مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا۔ بعض فکری مشکلات ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نمائندہ دفاتر (10) کی بھی بعض اہم ذمہ داریاں ہیں، اہم امور انہیں کے ذمے ہیں جن کے تعلق سے انہیں زیادہ کوششیں کرنا چاہئے۔

درپیش انتخابات کے سلسل میں جو اہم کام آپ کو کرناہے، وہ یہ ہےکہ طلبا سمیت سبھی کے اندر انتخابات میں بھرپورشرکت کا شوق اور ولولہ پیدا کریں۔ بعض باتیں جو آج دل سوزی میں کہی گئيں اور صحیح بھی ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہی دل سوزی کے بیانات کچھ لوگوں میں انتخابات میں حصہ لینے کا ولولہ کم کردیں ۔ اس پر توجہ ضروری ہے۔

  نظام کے اندر  قوت مدافعت پیدا کرنے اور تمدن کے نقطہ نگاہ سے  انتخابات میں عوام کی پرجوش شرکت کی اہمیت

 انتخابات میں مشارکت کی بات آئي ہے تو کچھ باتیں انتخابات کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔ انتخابات میں عوام کی پرجوش مشارکت ہر پہلو سے اہم ہے۔ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ عوام کی پرجوش مشارکت حقیقی معنوں میں عوامی حکمرانی کا مظہر ہوتی ہے۔ اس کو معمولی نہ سمجھیں، یہ نہ کہیں کہ چونکہ فلاں حکومتی اقدام میں عوام کی مشارکت نہیں تھی اس لئے عوامی حکمرانی نہیں ہے۔ جی نہیں، اعلی ترین سطح سے نچلی سطح تک حکام کے انتخاب میں عوام کی مشارکت  اہم مسئلہ ہے۔ اس کا انسانی پہلو اہم ہے، تمدنی پہلو بہت اہم ہے۔ یہ عوامی حکمرانی ہے۔ اس کے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ انتخابات میں عوام کی مشارکت، منتخب حکومت کی توانائی اور طاقت بڑھا دیتی ہے۔ حکومت تو بہر حال منتخب ہونی ہے، صدر منتخب ہوگا اور حکومت تشکیل دی جائے گی۔ اس کو عوامی حمایت جتنی زیادہ ملے گی، حکومت اتنی ہی قوی تر ہوگی۔ یقینا اس سے ملک کی قوت مدافعت اور دفاعی توانايی بڑھے گی، ملک کو تحفظ حاصل ہوگا اور ملک کی عزت بڑھے گی۔ بنابریں انتخابات میں عوام کی مشارکت بہت اہم ہے۔

پسندیدہ اور با لیاقت حکومت کا انتخاب  

بنابریں سب سے پہلی چیز عوام کی زیادہ مشارکت ہے اور اس کے بعد پسندیدہ اور اچھا انتخاب ہے تاکہ جو حکومت تشکیل پائے وہ لائق اور باصلاحیت ہو  اور ضروری انتظامی توانائي رکھتی ہو، ایماندار ہو، عوام دوست ہو اور امیدوں سے لبریز ہو۔ حکومتی عہدیداروں کو ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئي نا امید اور مایوس فرد بر سر اقتدار آ گیا تو ظاہر ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ بنابریں اس کو امیدوں سے لبریز ہونا چاہئے۔ ایسا ہو جو اندرونی توانائیوں پر یقین رکھتا ہو۔ جو  دفاعی لحاظ سے یا سیاسی لحاظ سے یا اقتصادی لحاظ سے یا پیداوار وغیرہ میں اس بات کا قائل ہو کہ  ملک کےاندر کام نہیں ہو سکتا، وہ اس ملک کے عوام پر فرمانروائي اور حکمرانی کے لائق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو اقتدار میں آنا چاہئے جو عوام پر یقین رکھتے ہوں، نوجوانوں پر یقین رکھتے ہوں، نوجوانوں پر انہیں اعتماد ہو، نوجوانوں کی قدر کو سمجھتے ہوں، ان کی کارکردگی انقلابی ہو اور حقیقی معنی میں انصاف پسند ہوں؛ یہ نہیں کہ صرف زبان سے عدل و انصاف کی بات کی جائے۔ حقیقی معنی میں انصاف پسند اور بدعنوانیوں کے مخالف ہوں۔ انصاف کا مطلب صرف اقتصادی انصاف نہیں ہے۔ اگرچہ مختلف شعبوں میں اقتصادی انصاف بہت اہم ہے لیکن دیگر تمام شعبوں میں بھی عدل و انصاف کا جاری رہنا ضروری ہے۔ اگر ان شاء اللہ ایسی حکومت بر سر اقتدار آئے تو مومن اور مینجمنٹ کی صلاحیتوں کے مالک سیکڑوں  نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں اوپر سے لیکر نیچے تک کام پر لگایا جا سکتا ہے اور  اس صورت میں ان شاء اللہ ملک کےحالات اچھے ہوں گے۔ اس کی فکر میں رہیں۔

 لوگوں کے آنے اور ان کے  انتخاب میں رہبر کی عدم مداخلت

 میں لوگوں کے انتخاب میں کوئي مداخلت نہیں کرتا۔ گزشتہ ادوار میں کچھ لوگ جو امیدوار بننا چاہتے تھے، میرے پاس آتے تھے اور مجھ سے پوچھتے کہ آپ موافق ہیں؟ تو میں جواب میں کہتا تھا کہ میں موافق ہوں نہ مخالف۔ گزشتہ ادوار میں یہ تھا کہ جو بھی مجھ سے پوچھتا تھا کہ میں انتخابات میں اتروں یا نہ اتروں؟  میں جواب میں کہتا تھا کہ میں موافق ہوں نہ مخالف یعنی اس سلسلے میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ اس سال عرض کیا کہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا؛ اگر کسی نے پوچھا کہ آپ موافق ہیں؟ تو میں یہ بھی کہ "موافقم ہوں نہ مخالف" نہیں کہوں گا۔ خود جائزہ لیں، پرکھیں خدا کو حاضر و ناظر جان کر جائزہ لیں، اگر یہ سمجھیں کہ ان کے اندر صلاحیت ہے اور ان کا امیدوار بننا قانون کے مطابق ہے تو میدان میں اتریں، ورنہ نہ اتریں۔ عوام بھی ان کے پروگراموں کو دیکھیں اور انتخاب کریں۔ الحمد للہ آپ نے  نعرے بازی والے  انتخابات کے بارے میں بہت اچھی باتیں کیں؛ ان شاء اللہ ان کی بھی اصلاح ہو۔

 امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ آپ عزیز نوجوان انقلاب کے ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں اور حکام کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ سے میری رفاقت برسوں سے  قائم ہے اور میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ کوئی رات اور دن ایسا نہیں ہے جب میں خاص طور پر ملک کے نوجوانوں کے لئے دعا نہ کروں مخصوصا فعال نوجوانوں کے لئے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی دعا کرتا رہوں گا۔ خداوند عالم آپ کی نصرت کرے ۔ ان شاء اللہ حضرت بقیۃ اللہ (امام مہدی ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں اور حضرت امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ ) کی روح پاک اور شہیدوں کی ارواح طیبہ آپ سے راضی ہوں ۔

 و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 1۔ اس ملاقات میں پہلے طلبا تنظیموں کے چند نمائندوں نے  گفتگو کی

2۔ صحیفہ سجادیہ چوالیسویں دعا

3۔ 18 مئی 2020 کو طلبا تنظیموں کے نمائندوں سے آن لائن خطاب

4۔ 28 فروری 2000 کوامیر کبیر صنعتی یونیورسٹی کے اساتذہ سے ملات میں رہبر انقلاب اسلامی کا بیان

5۔ فرانسیسی جریدے شارلی ایبدو نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توہین آمیز خاکے شائع کئے تھے۔

6FATF-

7 پابندیوں کے خاتمے اور ایرانی قوم کے مفادات کے تحفظ کے  لئے اسٹریٹیجک اقدام کا قانون۔ یہ قانون ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کی نو شرائط  کی تکمیل کےلئے ایرانی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی نےپاس کیا ۔ اس میں ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کو یورینیئم کی افزودگی کی سطح بڑھانے کا پابند بنایا گیا ہے۔

8۔ سورہ ہود آیت نمبر 112 کا ایک حصہ

9۔  غزلیات حافظ، حکم مستوری و مستی ھمہ بر عاقبت است / کس ندانست کہ آخر بہ چہ حالت برود  

10۔ یونیورسٹیوں میں رہبر معظم کے نمائندوں کے دفاتر