آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں گزشتہ حکومت کے عہدیداروں کو کی جانے والی نصیحت کو اس ملاقات میں بھی دوہرایا اور کہا: وقت بڑی تیزی سے گزر جاتا ہے، یہ چار سال جلد ختم ہو جائیں گے لہذا ہر گھنٹے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھائیے۔ اس وقت کو، جو عوام اور اسلام سے متعلق ہے، ضائع نہ ہونے دیجیے۔
انھوں نے نئي حکومت کے عہدیداروں کو نصحیت کی کہ وہ تمام انتظامی میدانوں کی انقلابی اور عاقلانہ تعمیر نو پر اپنی ہمت مرکوز کریں۔ انھوں نے "انقلابی" ہونے کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا: انقلابی ہونا، عقلانیت کے ساتھ ہی ہونا چاہیے اور ابتداء سے اب تک اسلامی جمہوریہ کی یہی روش رہی ہے کہ انقلابی تحریک، مفکرانہ اور عاقلانہ تحریک کے ساتھ رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صدر مملکت حجۃ الاسلام رئيسی کے دورۂ خوزستان کی تعریف کرتے ہوئے اسے حکومت کے عوامی ہونے کا ایک جلوہ قرار دیا اور کہا: عوامی ہونے کا ایک جلوہ یہی عوام کے درمیان جانا اور بغیر کسی واسطے کے عوام کی بات سننا ہے۔ یہ بہت اچھا اور مستحسن قدم ہے جو کل جناب رئیسی صاحب نے اٹھایا، وہ خوزستان میں عوام کے درمیان گئے، ان کی باتیں سنیں اور ان سے باتیں کیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عدل و انصاف کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ہم پیچھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد، عدل و انصاف کے قیام پر ہے۔ میرے خیال میں آپ جو بھی قانون پاس کرتے ہیں، حکومت میں جو بھی بل منظور کرتے ہیں، اسے عدل و انصاف سے جڑا ہونا چاہیے، اس بات کا خیال رکھیے کہ اس حکم سے انصاف کو چوٹ نہ پہنچے اور مظلوم طبقے پامال نہ ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے اگلے حصے میں خارجہ ڈپلومیسی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے افغانستان سمیت دنیا کے تازہ حالات کا تجزیہ کیا۔ انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ خارجہ ڈپلومیسی خاص کر معاشی ڈپلومیسی کو دوگنا متحرک ہو جانا چاہیے، کہا: غیر ملکی تجارت، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بھی اور دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی مضبوط ہونی چاہیے۔ ایک دو ملکوں کو چھوڑ کر زیادہ تر ملکوں کے ساتھ اچھے اور رواں تعلقات کا امکان پایا جاتا ہے۔
انھوں نے سفارتکاری کے دوگنا متحرک ہونے کی تشریح کرتے ہوئے ایٹمی معاملے میں اس کے پس پشت نہ جانے کے مسئلے پر زور دیا۔ انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاملے میں امریکیوں نے ڈھٹائي کی حد پا کر دی، کہا کہ وہ ایٹمی معاہدے سے باہر نکل چکے ہیں لیکن اس طرح باتیں کرتے ہیں جیسے ایران اس معاہدے سے نکلا ہو۔ وہی تھے جنھوں نے مذاکرات کا مذاق اڑایا تھا۔ یورپ والے بھی امریکیوں کی طرح ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکا کی موجودہ حکومت اور پچھلی حکومت میں کوئي فرق نہیں ہے، کہا کہ نئي امریکی حکومت کے بھی وہی مطالبے ہیں جو ٹرمپ کے تھے۔ انھوں نے امریکا کی خارجہ پالیسی کی تشریح کرتے ہوئے افغانستان کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کے پس پشت ایک سفاک بھیڑیا ہے جو کبھی کبھی ایک عیار لومڑی میں بدل جاتا ہے جس کا نمونہ، افغانستان کی آج کی صورتحال ہے۔
انھوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی تشریح کرتے ہوئے کہا: افغانستان ہمارا برادر ملک ہے، ہمارا ہم زبان ہے، ہمارا دین اور ہماری ثقافت ایک ہے۔ افغانستان کی تمام مشکلات کی جڑ، امریکا ہے۔ اس نے بیس سال تک غاصبانہ قبضے کے دوران طرح طرح کے ظلم کیے۔ شادی کی محفل سے لے کر سوگ کی مجلس پر بمباری اور انسانوں کے قید کرنے سے لے کر منشیات کی پیداوار میں دسیوں گنا اضافے تک۔ امریکیوں نے افغانستان کی پیشرفت کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ہم افغان قوم کے حامی ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، جو باقی رہنے والی ہے وہ افغان قوم ہے۔ حکومتوں سے ہمارے تعلقات، ہمارے ساتھ ان کے تعلقات پر منحصر ہیں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم افغان قوم کی صورتحال کو بہترین حالت قرار دے۔