انھوں نے صحن کا دروازہ بند کیا ہی تھا کہ بم پھٹ گيا۔ اس لمحے مجھے محسوس ہوا جیسے زلزلہ آ گیا ہے کیونکہ کھڑکی کے شیشے میرے سر پر گر رہے تھے۔ میری بیٹی اپنے کمرے سے روتے ہوئے باہر نکلی اور اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میری پتھرائي ہوئي آنکھیں دروازے پر ٹکی تھیں۔ شدید دھماکے کی وجہ سے دروازہ بھی اکھڑ گيا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کار سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ میں نے چلا کر اپنی بیٹی سے کہا: "تمھارے بابا ..." میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بم ہوگا۔ میں گھبرا کر دوڑی۔ میں نے دیکھا کہ وہ گاڑی کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کار کے سائڈ اسٹیپ پر تھے اور ان کی پیشانی دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدے کی حالت میں تھی۔ پشت کی طرف سے انھیں کچھ نہیں ہوا تھا۔ میں نے انھیں کئي بار پکارا: "مسعود، مسعود! ..."  یہ مسعود علی محمدی کی اہلیہ کا بیان ہے۔

مسعود علی محمدی نے 23 مارچ سن 1961 کو، تہران کے ایک مضافاتی گاؤں میں آنکھیں کھولیں۔ بچپن سے ہی وہ بے پناہ ذہانت، ذکاوت اور استعداد کے حامل تھے اور ہر دن اسکول پہنچنے کے لیے ایک لمبی مسافت پیدل طے کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنی فیملی کی مدد کی طرف سے بھی غافل نہیں رہتے تھے اور اپنے والد کے ساتھ کھیتی کرتے تھے۔ ان کی اہم صفات میں خندہ پیشانی، خوش اخلاقی اور شوخ طبعی شامل تھی۔ ان ساری چیزوں نے انھیں ایک محبوب اور ہر دلعزیز شخصیت بنا دیا تھا۔

مسعود علی محمدی نے فزکس میں گریجوئیشن کے بعد ماسٹرز کے امتحان میں شرکت کی اور تہران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں انھیں داخلہ مل گيا۔ اسی وقت انھیں ملک سے باہر تعلیم کے لیے اسکالرشپ بھی حاصل ہو گئي۔ ان کی اہلیہ چاہتی تھیں کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جائيں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ وہاں زیادہ پیشرفت کر سکتے ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے: میں نے تحقیق کر لی ہے، جن پروفیسرز کے ساتھ میں یہاں کام کرنا چاہتا ہوں، وہ وہاں کے پروفیسرز سے کم نہیں ہیں، پھر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک کیوں جاؤں؟" وہ ایران کے ان سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی تعلیم کے تمام مراحل، ملک کے اندر اور ملکی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے مکمل کیے۔

اگرچہ وہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور مؤقر ملکی و غیر ملکی جرائد میں ان کے متعدد مقالے شائع ہو چکے تھے لیکن وہ کبھی بھی خود کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھتے تھے اور بہت زیادہ منکسر المزاج تھے، یہاں تک کہ اگر فیملی کے اجتماع میں کوئي انھیں 'ڈاکٹر' کہہ کر مخاطب کرتا تو وہ جواب میں کہتے تھے: "ڈاکٹر نہیں! میں ڈاکٹر اپنے کام کی جگہ پر ہوں، یہاں میں صرف مسعود ہوں۔" ان کی اہلیہ کہتی ہیں: "تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تھیوریٹکل فزکس ریسرچ سینٹر میں کام کرنے لگے۔ اس سینٹر میں علی آقا نام کا ایک مالی تھا۔ایک دن ڈاکٹر صاحب گھر آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کی گاڑی میں بہت سے اخروٹ پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ اخروٹ کہاں سے آئے اور اس طرح بکھرے ہوئے کیوں ہیں؟ انھوں نے کہا کہ سینٹر سے واپسی کے وقت علی آقا نے کہا تھا کہ گاڑی کے شیشے نیچے کیجیے، میں نے شیشے نیچے کر دیے اور علی آقا نے یہ اخروٹ گاڑی میں ڈال دیے اور کہا کہ یہ آپ کے ہیں۔ ہمارے لیے آپ دوسروں سے بہت الگ ہیں۔ مسعود نے ان سے کہا تھا کہ نہیں، میں بھی دوسروں کی طرح ہی ہوں۔ علی آقا نے جواب میں کہا تھا آپ یہاں کہ واحد ڈاکٹر ہیں جو سلام کرنے میں مجھ سے سبقت لے جاتے ہیں۔ مسعود، بڑوں کا بہت احترام کرتے تھے اور اگر وہ دیکھتے تھے کہ کسي ڈاکٹر کا رویہ برا ہے تو وہ اسے متنبہ کرتے تھے تاکہ وہ اپنا رویہ سدھار لے۔

مسعود علی محمدی سائنٹیفک کاموں کی روش سے اچھی طرح واقف تھے۔ سوال کرنے سے کبھی نہیں شرماتے تھے اور ہمیشہ اپنے ذخیرۂ علمی میں اضافے کے خواہاں رہتے تھے۔ وہ فزکس کے علاوہ فلسفے اور کاسمولوجی کا بھی علم رکھتے تھے۔ ایران کی ایٹمی توانائي کے ادارے کے اس وقت کے سربراہ فریدون عباسی ان کے بارے میں کہتے ہیں: "کبھی کبھی میرے کمرے میں اسٹوڈنٹس بیٹھ کر آپس میں باتیں کیا کرتے تھے، مسعود علی محمدی بھی بیٹھ کر ان کی باتیں سنتے تھے اور ان سے سوال کیا کرتے تھے۔ اسی جگہ ان کا تعارف ڈاکٹر رضائي نژاد سے ہوا، وہ ان سے بہت اچھی بحث کرتے تھے اور کبھی کبھی ان پر اعتراض بھی کرتے تھے۔" مسعود علی محمدی فزکس میں میکینکس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور یہی چیز اس بات کا سبب بنی کہ وہ یورینیم کی افزودگي کی ابتدائي اسٹڈیز اور سینٹری فیوجز کی ڈیزائننگ اور تیاری میں سرگرم اور مؤثر طریقے سے کام کریں۔

علی محمدی اس بات پر بہت خوش رہتے تھے کہ وہ معلم  ہیں اور وہ ایسے اسٹوڈنٹس کی پرورش کرنا چاہتے تھے جو ملک کو آگے لے جائيں۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں: "دو تین سال تک انھوں نے فزکس کے انٹرنیشنل اولمپیاڈ کے اسٹوڈنٹس کو پڑھایا لیکن اس کے بعد چھوڑ دیا۔ میں نے پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا: "ہم اپنے بہترین اسٹوڈنٹس کو اکٹھا کرتے ہیں اور پھر پورے فخر سے انھیں امریکا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ جا کر امریکا کو آگے بڑھاتے ہیں اور ہمارے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اس کی اس طرح پرورش کرنے سے پہلے، اخلاقی لحاظ سے ان کی تربیت کرنی چاہیے۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اگر ان کی صلاحیت میں پیشرفت ہوئي ہے تو یہ اسی ٹیکس کی وجہ سے جو لوگوں سے لیا گيا ہے اور انھیں وسائل کی وجہ سے ہے جو ملک نے ان کے لئے فراہم کئے ہیں، ان اسٹوڈنٹس کو ان چیزوں کا احساس ہونا چاہیے۔" یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فزکس کے اولمپیاڈ کی ایرانی ٹیم سے تعاون کرنا بند کر دیا تھا۔"

سیسیم (SESAME )  (1) کو مشرق وسطی میں نور کے چشمے کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ایکسیلریٹر ہے جو سرعت کے زیر اثر نور کے بنیادی ذرات یا الیکٹرو میگنیٹک امواج پیدا کر سکتا ہے۔ یہ پروجیکٹ اردن کے دارالحکومت عمان میں انجام پاتا ہے اور ایران، قبرس، بحرین اور مصر وغیرہ جیسے ملک اس کے رکن ہیں۔ ڈاکٹر علی محمدی اور ڈاکٹر شہریاری، اس پروجیکٹ میں ایران کے سائنسی نمائندے تھے۔ ڈاکٹر علی محمدی نے اردن کے اپنے آخری سفر میں وعدہ کیا تھا کہ یہ پروجیکٹ تیزی سے مکمل ہوگا، وہ اس کوشش میں تھے کہ اس میدان میں ضروری مہارت حاصل کر لیں تاکہ کام کا ایک حصہ ایران کے اندر آگے بڑھائيں۔ ان کا قتل، ان کی ان کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن گيا ...

شہید علی محمدی کے قتل کے دو دن بعد صیہونی حکومت کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائيلی حلقوں کے لیے ایک ایٹمی سائنسداں اور ایرانی پروفیسر کی حیثیت سے جانے پہچانے تھے۔ اسرائیلیوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سائنسدانوں کا قتل، ایران کے ایٹمی پروگرام اور اس سے متعلق مذاکرات کے سلسلے میں مغربی سیکرٹ سروسز کی جنگ کا ایک حصہ ہے۔ ڈاکٹر مسعود علی محمدی، اگرچہ ایران کی سب سے بڑی اور پہلی نیوکلیئر شخصیت نہیں تھے لیکن، قومی خود اعتمادی، جرئت و شجاعت اور خودمختاری کے جذبے سے سرشار اہم نیوکلیئر شخصیت تھے۔ وہ ایسے شخص تھے کہ اگر کسی کام کا تہیہ کر لیتے تھے تو پھر اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے سے کوئي بھی چیز انھیں روک نہیں سکتی تھی اور جب تک وہ اسے مکمل نہیں کر لیتے تھے، چھوڑتے نہیں تھے۔ وہ 12 جنوری 2010 کو گھر سے آفس جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ اپنے گھر کے سامنے ہی ایک دہشت گردانہ بم دھماکے میں شہید ہو گئے۔

(1) Synchrotron-Light for Experimental Science and Applications in the Middle East